کشش کے تیر نیناں دے لے گئے سارا جل. مچھ جائے کدھر؟ ہوئی او بے جل!
شہری لوک کملے سن، مانگن پئی ایہہ جل، ہووے لکھ دیہاڑاں بعد ساون دی کل
سنائیے کیا؟ لائیے کیا؟ دکھائیے کیا؟
میرے پاس مکمل قران سامنے ہے اور قرات سے مدہوش ہوں ... اک آیت نبھائی نہیں گئی تے لکھ آیتاں دی اے گل
راقم کہتا ہے کسی گاؤں میں اک مچھیرا رہتا تھا. وہ مچھلیوں کو بے جل کرتا اور رزق کماتا. مچھلیاں کہون: پاپ کمایا ... راقم نے مچھیرے سے پوچھا
ساڈی مرغی انڈے دیونا چھوڑ گئی تے مچھ نہ پکڑن جائیے تو روٹی کتھوں کھائیے
مرغی انڈا مالک کو خود حوالے کرتی جبکہ مچھلیاں جل میں رہنا چاہتی تھیں ... مچھلیوں نے آہ و زاری کی تو مچھیرے نے کہا پڑھ
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین
مچھلی نے ورد کیا تو لحم سے ایک صدا مجسم ہوئی
ھو الباقی
یہی وہ اللہ ہے جس کی کرسی نے زمین و آسمانوں کو تھام رکھا ہے
ھو الہادی
یہ وہ اللہ ہے جو پیٹ سے ہدایت بخشتا ہے، وہ پشتوں کے نور کا محافظ ہے
ھو الظاہر
یہ وہ اللہ ہے جس نے درون کی صورت کو عیاں کرتے، ظاہر کو حجاب کردیا
ھو العلی
یہ وہ اللہ ہے جس کی کرسی سرخی سے منقش ہے
ھو المالک
یہ وہ اللہ ہے جب عبد بناتا تو ہفت افلاک سے پرے لیجاتا ہے
ھو الجلیل
یہ وہ اللہ ہے جو نور سے جلا بخشتا نور علی.النور کی مثال ہے
مچھلی غرق تھی بول پڑی: یہ میرا اللہ ہے، ترا کدھر ہے؟
اس نے کہا: تونے لحم میں پرورش کی میں نے بچوں کو جنا ہے .. مجھے تو ہر جا اللہ دکھتا ہے کس کو پکڑ بولوں کہ یہ میرا اللہ ہے.
اللہ ہر جا سمایا ھو.
تن ستار وانگ سجایا ھو.
تار میم دا لگایا ھو.
اسم ہادی نے ساز جگایا ..
مرشد رنگ جمایا ھو
رب دا فضل کمایا ھو
دس اگے اک لیایا ھو
بسمل وانگ تڑپایا ھو
شمع گرد اےبولایا ھو
رقص دار تے کرایا ھو
یار نچ نچ تےمنایا ھو
اکھ نوں اکھ وچ لایا.ھو
رنگ مرشد دا سچا اے
اللہ والا اے، اچھا اے
سچیاں نال یاری اے
تھم گئی ایہہ گاڑی اے