کشش ہے .. کشش آج رات چاند رُوشن کِیے ہوئے ہے.. اللہ نور السموت ولارض کی منقش آیت نے آنکھ نم کردی ہے. آنکھ باوضو رہے تو ہجرت یاد رہتی ہے . رات ہے کہ دن؟ رات کہ روشنی چاند کی ..چاند کہیے کہ طٰہ! طٰہ کہیے کہ یٰسین ... طٰہ تو وہ روشنی ہے جو طور سینا کے پاس جلتی روشنی ہے ... یہ سرمئی نور ہے جس نے رحمت للعالمین کے نور کو مقید کیا ہوا ہے. جب طٰہ کا خیال آئے تو سر سبز گنبد نور بھرتا ہے.. تو درود نہ پڑھنا کنجوسی ہوگی ....
الھم صلی علی محمد وعلی الہ محمد وسلم ... ...
وہ روشنی ہے افق کے پار، افق پہ مجھے منور کیے دے رہی، بیخودی کی قبر میں زندگی مل گئی ہے . ابدیت کی چادر مل گئی ہے جیسے سفید کفن پر گلاب پھول خوشبو بکھیرتے ہیں ... نفی نفی سے زیرو ہوتا ہے زیرو سے نفی کا حساب ...نفی کا حساب شروع ہوتا رہتا ہے اور خوشبو بڑھتی رہتی ہے
اے نفس! اے زمین زاد ... دل جو کچھ ہے وہ روشنی ہے جس روشنی ہے وہ دل ہے دل ہے دل میں بستا ہے جو دکھتا نہیں ....
مٹ جاتے اچھا تھا. فنا ہوجاتے اچھا تھا! لا .... لا کی ستون بنتی مٹی پر الا اللہ کا پہرا ہوتا اچھا تھا!
الست بربکم کی صدا کے بعد اس نے کہا ...
فاذکرونی اذکرکم
جب ذکر کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنا ہی ذکر ہو رہا ہے جب علم ہوتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ
ورفعنا لک ذکرک کی صدا میں الہام کیا ہے! رنگ چڑھ جاتا ہے، جلوہ ہوجاتا ہے، روشنی مل جاتی ہے. شبنم جب گلاب کی پتی پر گرتی ہے تب کلام کرتی ہے ... پھول نکھر جاتا ہے ... جب اس نے "میں ... تو " کا فرق نہیں رکھا ..نور کا رنگ بھی ایک ہے، نور کی اصل بھی ایک ہے، نور کی چادر بھی صفاتی ہے ہے! صفات کا کل " الرحمن " حرف میں مخفی ہے!
اک رنگ پر اترا نور سب پر تو منقسم بھی ہوتا گیا ...کہیں نیلا ہوا تو کہیں زرد کہیں نیلگوں تو کہیں مرجان جیسا تو کبھی یاقوت کی مانند ... یہ جب نور تمام پیامبروں سے ہوتا یکجا ہوا تب میرے نبی صلی علیہ والہ وسلم کے نور نے خاکی وجود میں کرسی سنبھالی ... وہ نور جب ہوا ظہور تو فرمایا
الیوم اکملت ...... کامل آگیا ... کامل ہوگیا سب کچھ ... جو ذات سب پر پوشیدہ رہی .. جس کا ظہور کہیں جزوی ہوا وہ معراج کی رات مکمل عیاں تھی تب مالک نے کہا تھا کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی ... وہ جو گئے تو نور جو ہم سینوں میں پوشیدہ رکھتے ہیں وہ نور جو دلوں میں طٰہ کی تجلی سے درز درز سے ہوتا روشنی کیے دیتا ہے تو کہیں وہ مزمل کی تجلی سے سرنگ سرنگ وا ہوتا ہے زمین زلزلوں میں آتی ہے تب چادر سے ڈھانپ لیتا ہے تو کہیں وہ خود ظاہر ہوتا ہے تو مدثر کی مانند روشنی کرتا ہے تو جہاں جہاں وہ نظر کرتا ہے تو سویرا ہو جاتا ہے ... وہ روشن صبح ہو تو مدثر کہوں وہ رات اک روشن ہو تو مزمل کہوں ..وہ دوپہر کی روشنی ہو تو طٰہ کہوں وہ وصل کا شیریں شربت ہو تو یسین کہوں .... میں کیا کیا کہوں ایسے ........... کیسے کیسے ذکر بلند کیا اور کہا ذکر کرو میرا ... اس سے بہتر مجلس میں تمھارا ذکر کروں گا ....
ملائک نے کہا مالک گناہگار بندہ ...نائب کیا ہونا ... مالک نے کہا جو میں جانتا وہ تم نہیں جانتے ... اس نے تجلیات سے منور کیا سارا جہاں تو صاحب الرحمن نے کسی کو الروف کی صفت دی تو کسی کو علم العلیم کے خزانے سے ملا ...کسی کو جلال کی روشنی نے مجنون کیے دیا تو کوئی جمال میں پوشیدہ ہوا تو اس کو میرے نبی کا جلوہ مل گیا ... صلی اللہ علیہ والہ وسلم .... روشن جمال یار نے روشنی کی ہے زمین سیاہ تھی .. زمین پر سورج کی روشنی کی ... خالق نے اسی روشنی کی قسم کھائی کہ یہہ روشنی ہمارے سینوں میں ہے ... سینہ ہے کہ خزانہ ہے ... خزانہ ہے کہ کوئی فسانہ ... ہم کیا جانے بس وہ جانے وہ جانے .... وہ کہتا ہے کہ زندگی گزر جائے گی آنکھ کے پسینے میں ... تو گزر جانے دو .. وہ کہتا ہے موم پگھل جائے اک بار پھر ..روئ ذرہ کی مانند بکھر جائے گا تو کہیے کہ اچھا ہے! اچھا ہے! اچھا ہے کہ بکھر جائیں .. جو رہے وہ تو بکھر جائے یکجائی کیسی .. جہاں جہاں اس کا جلوہ اس سے مل جانا اچھا ..