غلامِ سرخ پوش ہیں
کہ محوِ غم دوش ہیں
نگاہِ مردِ حق سے ہُوا
زمانہ جو تجھے کہہ گیا
تو ہنس کے تیر سہہ گیا
جو زہر غم پی گیا، وہ تر گیا،
وہ مر کے بھی رَہا ہے زندہ
غلامئ حق میں موت جس نے قبول کی
وہ شاہِ ذوالفقار کی رہ پر چلا
امامِ حُسین کی لاج اس نے ہی رکھی
وہ فاطمہ جناب کی نگہ میں ہے
وہ سیدہ جناب کی رِدا میں ہے
وہ اسمِ حق میں جذب ہوگیا
وہ حق پرست ، جو غلام رسول ہے
کسی کے بس میں کہاں یہ قربتیں
یہ راحتیں جو رات کا کمال ہے
یہ رفعتیں جو صبح کا عروج ہیں
یہ نصیب کی بات ہے، کرم کے فیصلے ہیں
جسکو ملے گا عشق، کھلیں گے علم کے دَر اس پر
وہ نعت کا شرف، وہ حمد کی فضا
وہ نعت خوانی کی بات بھی الگ
وہ مدحتِ شہِ وِلا بھی الگ