محمد کی میم
جو یاد رہتے ہیں ، ان کو بھولا کہاں جاتا ہے ۔ جو یار بنالیا جائے ، اسے چھوڑا کہاں جاتا ہے ۔ جسے عشق ہوجائے ، وہ خود میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ خود کا ہی یار ، خود کا جوگی، روگی ہوجاتا ہے ۔ اس کا رستہ گمشدگی میں ہے ۔
ڈھونڈنے والو ! مجھے ڈھونڈ کے تو دکھاؤ ! آؤ ! مجھے دیکھو ! میرا جلوہ تو کرو !میں تمھیں یہاں وہاں کہاں ملوں ۔جنگل ، پربت میں یا مسجد منبر میں ۔۔۔۔۔۔۔دل کی سرزمین پر ہریالی کے فصلوں میں محبت کے ابدی نغمے کا سر لگاتا ہوں، میں دل میں رہتا ہوں ۔لوگو ! اس گمشدگی کو ڈھونڈو ۔ اس سے ملو ،یہ میری نشانی ہے ! خالق کی قسم ! خالق اپنے بندوں پر گواہ ہوتا ہے ! خالق نور پر گواہ ہے اور یہ گواہی عام نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو !
مجھے دیوانہ کردیا ہے
ھو کی ھو نے مست کردیا
اس ھو سے جذب مل گیا
میں مجذوب قلندر ہوں
میں اس کا شاہباز ہوں
پرواز میری آسمانوں پر ہے
کون میرا راستہ جانے
کوئی نہ جانے میرا راستہ
امتحان کی نشست لگی ہوئی ۔ میں اپنے خالق کے پاس محبت کا امتحان دے رہی ہوں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں دیوانی ہوگئی ہوں ۔ امتحان تو سبھی نے دینا ہے مگر یہ کیا کم ہے کہ خالق کے پاس اس کی صحبت میں بیٹھی ہوئی ۔ اس کا نور مجھ میں سماتا جارہا ہے میں خود میں گم ہوتی جارہی ہوں ۔ نور کی شعاع نور سے ٹکراتے نور کی ہوجاتی ہے ۔ نور کے دل کو کعبہ بنا دیا ہے ۔ نور اپنے دل کے گرد شمع کی مانند طواف کیے جاتی ہے ۔ کیا ہوں میں ؟ میں کچھ بھی نہیں میں کچھ بھی نہیں بلکہ جوبھی ہے وہ میرا خالق ہے ۔ نور نے خالق سے کہا کہ مجھے اپنے پاس رکھ لے۔ نور خالق کو کہتی ہے کہ دنیا کیوں بنائی ! یہ جال کیوں پھیلایا! اس دنیا میں پہچان کا کھیل کیوں رچایا ؟میں سوالات کے جوابات کہاں سے لاؤں میرے علم کا منبع تو وہ خود ہے ۔۔۔۔۔۔ جواب دے نا میرا محبوب کہ پہچان کا فرق کیوں رچایا
علم معرفت عارف کی پہچان
اس پہچان میں بپا نہ کر ہیجان
ہر کسی کو نہیں ملتی معرفت
عام نہیں ذروں پر اس کی لطافت
ذرہ نے اس سے فریاد کی
کیوں رچایا کھیل معرفت کا
کسی کو شاہ تو کسی کو فقیر بنا کے
کسی کو عالم تو کسی کو جاہل بنا کے
کسی کو عاقل کسی کو کامل بنا کے
کسی کو غلام کسی کو مالک بنا کے
رسولوں، پیامبروں کو اپنا شاہد بنا کے
رسولوں کو نبیوں کا شاہد بنا کے
نبیوں کو ولیوں کا شاہد بنا کے
کیا ملا؟ کیوں کیا ؟
عارف کو حقیقت معرفت سے ملی
پیامبر کی حقیقت کنجی سے کھلی
پردہِ مجاز میں حقیقت کے رنگ دیکھ
حقیقت کا پتا گمشدگی میں دیکھ
حقیقت میں لطف زندگی ہے معرفت
حقیقت سے ملنے کا رستہ ہے معرفت
عشق شناس بندوں کو عارف بنایا
حقیقت شناسی سے پائی معرفت
عارف کی پہلی سیڑھی ہےولایت
سورج کی جیسے ستاروں میں ہے روایت
باب عشق عیاں ہوا معرفت سے
لگی ہے دل میں لگن معرفت سے
ستم سہنے پڑے، قسمت کے یہ وچھوڑے
اس میدان میں آتے نہیں بھگوڑے
شدت اظہار سے روح، جسم میں ڈال
عشق کو پہچان کی لگام میں ڈال
مسیحائی کا پیشہ طبیب کے دم سے ہے
مریضِ عشق کا غم پتھر میں مدغم ہے
شرمساری عصیاں کی بڑھتی جائے ہے
ندامت سے گردن جھکی جائے ہے
دل کی کیا حیثیت موم جیسی ہے جو پگھل پگھل کے بھی ختم نہیں ہوتی ہے ۔ اس موم میں اگربتی ، گلاب ، لوبان اور مشک کی خوشبوئیں ملائیں گئیں ۔ جب اس کو چنگاری ملی ۔ ایک تجلی نے جہاں میں جل تھل کردے ۔ برسات کا موسم آگیا ہے ۔ پھول کھلنے لگے ۔ پھول کی تسبیح لا الہ الا اللہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔اپنے مالک کو یاد کر رہے ہیں ۔خوشبو چمن میں پھیل کے اپنا پتا کھو رہی ہے اور بلبل اپنا گیت سنارہی ہے ۔۔۔ بلبل کی صدا ہے حق ھو حق !
تو ہی تو میرا سائیاں ،
تو ہی تو میرا سائیاں
دل کردا ایہہ میرا دہائیاں
میرے تو لگیا جیہڑا جیہڑا
اونوں ملدا جاندا اے سویرا
میں سیاہ رات اچ اجلا سویرا
کوکاں مار دی میں جگاواں
لوکی سمجھن کملی دیوانی
درد دیاں گلاں کوئی نہ جانڑے
کتھے لوکی حُسین حُسین کردے نیں
قربان غرض توں ایمان کر چھڑدے نیں
میں حسینی نور آں ! پھیلاں شوخ ہوکے
میرے ہتھ وچ حسینی چراغ اے
آبشاراں نوں رستے نوے ملدے نیں
ندیاں بہندیاں چنگیاں لگدیاں نیں
ایدھی واجاں تو کوئلاں چہکدیاں نیں
ایناں باغاں وچ گلابی پُھل اے محمد
جیہڑا شاخاں اچوں روشنی اے پھیلاندا
جیہڑا اوتھے جاوے خوشبو پاوے
میل لاوے ، تن اجیارے
مالی پھلاں دی حفاظت شوق نال کریندا اے
اوتھے بیٹھا جیہڑا حسن دی شیدائی اے
اونہوں میں آکھیا مالک تو کی کمایا؟
کی کمایا لا کے دنیا دا تماشا؟
او آکھے !
محمد دی واسطے سوانگ رچایا
جا ! اس وانگر لب کے کوئی ہور لیا
اودھے جیا ہور ایتھے کوئی نہیں
محمد دی 'م' اچ چھپی اے کہانی
میم دا قصہ سن لوو مری زبانی
شب و روز گزرتے جاتے ہیں
غم ہجر بھی ٹلتے جاتے ہیں
مراداں والے میرے کول آندے نیں
محبت دی مانگ دل.وچ بھرجاندے نیں
معراج دا تحفہ پاندے جاندے نیں
منور ، مطہر ، مزمل ، مدثر ، معجل
مجلی ، مصفی ، معطر ، محمد دا سینہ
جیہڑا لگیاں اس نوں ، ملیا سفینہ
محبت دا امین ، معین ، مھیمن اے
محمد دی ''م '' وچ کیہ کیہ لکیا اے
ایڈھ وچ قران دا ہر اک صفحہ اے
محمد دی' م ' اچ کیا کیا چھپا ہے
محمد دی ''م'' اچ الہام چھپا ہے
وحیِ رسالت کی امین ہے جس طرح
محمد رسولوں میں معین ہیں جس طرح
محمد کی ''م '' میں کیا کیا چھیا ہے
محمد کی ''م'' میں مکہ اور مدینہ چھپا ہے
محمد کی ''م '' میں کیا چھیا ہے
محمد کی ''م'' میں مامتا چھپی ہے
محمد کی رحمت کا بڑا اونچا قد ہے
محمد کی ''م'' محبت والی ہے
اس کے دم سے زندہ ہر سوالی ہے
محمد کی ''م '' موجوں کو طغیانی دے
محمد کی ''م'' مظاہر کو نشانی دے
محمد : مرشد ، مہدی برحق ہیں
محمد کی محبت میں کھڑی یہ سگ ہے
محبت کی ''م'' مستی والی ہے
محبت کی '' م'' مرادوں والی ہے
''م '' کے خزانے بے شمار ہیں
علمِ معرفت کی '' دو میم' سرادر ہیں
حاجی کعبے آون ، شوق دے دیوے لاون
حج نہ ہووے جدتک مدینے نہ جاون
کعبہ وی مدینہ مدینہ کردا اے
دل اچ رنگ مدینہ توں لگدا اے
''میم '' دا رنگ سرخی آلا اے
''میم '' سرخ جوڑا پوندای اے
''میم '' شوخی تے مستی چڑھاندی اے
'' حق ھو ! ''میم '' دے نال کریے
حق ! میم کی محبت میں نشرح نازل ہوئی
ورفعنا لک ذکرک کی چلیں باتیں
کرم کی بارشوں سے پائیں سوغاتیں
دردو پڑھو ! پڑھو درود ۔۔۔م کی چاہت سے پالیں سوغاتیں
اللھم صلی علی محمد وعلی الہ محمد وبارک وسلم
محمد کی محبت سے غلامی کی سند حاصل ہوئی
محمد کی غلامی سے یہ شان حاصل ہوئی
رنگی گئی نور اس محبت میں مکمل
اپنے رنگ لٹانے چلی ہوں مکمل
میں رنگ گئی محمد کی محبت میں
پرواز کی طاقت سے ہوں رفعت میں
اڑتی ہوں فضاؤں میں شہبار کی مانند
اس محبت نے علم کی دولت عطا کی
عقلِ کل تک رسائی ہے عطا کی
خزانے ''م'' کے مجھ پر لٹا دے حق۔ان کو پانے کو میں مضطرب ہوں ۔ مولا محبت میں مری جارہی ہوں ۔میرا سینہ مکہ مدینہ بنادے ۔ میرا سینہ فلک کی مانند بلند کردے ۔اوج رفعت ملی ہے مجھے یار کے نقش قدم سے ۔میرے ساتھ چلو جہاں جہاں میں چلوں ۔میں مستی میں چلی جارہی ہوں ۔مجھے ڈھونڈو مگر کیسے ڈھونڈو گے کہ میں تو گمشدہ محبت کی بستی ہوں ۔۔ میں نشے میں مست جارہی ہوں ۔۔جنگل کو خوشبو دیتی جارہی ہوں ۔ صحرا سے جنگل کا سفر میرا شروع ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو! گمان ہوتا ہے کائنات مجھ میں سما گئیں ۔افلاک میرے اندر ہے اور پاتال بھی میرے اندر ہے ۔ قبرستان بھی اندر ہیں ، مسجد بھی میرے اندر ۔۔ سبھی رشتے میرے اندر ہیں میں کہاں ہوں ، کدھر جارہی ہوں میں تو مستی میں چلتی جارہی ہوں ۔۔ مستی جنگل اور دریا کے سنگم میں ملی ہے ، یہ اوج مجھے یار سے ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وہ شہسوار ہوں جسے کوئی مات نہ دے پائے ۔۔میری رفتار کسی بھی گھڑسوار سے تیز تر ہے کہ یک مشت میں بلندیاں میری مقدر ہیں ۔میں ذات کی قلندر ہوں ! میں شہباز ہوں ! کون میرے پیچھے آسکتا ہے کہ میرا بسیرا بلند فضاؤں میں ہوگیا میں نے اڑنا سیکھ لیا ۔۔۔پنچھیوں کو اڑتے دیکھ کے اب آہیں نہیں بھرتی کیونکہ میری اڑان بہت بلند ہے ۔میری اڑان بلند ہے ۔۔میرے پاس ہفت اقلیم کی دولت ہے ۔میرے پاس دولت کے خزانے ہیں ۔علم کا خزانہ مجھے مل گیا ہے مجھے اپنا آپ مل گیا ۔مجھے اس نے مکمل کردیا ۔۔۔۔۔۔۔میرا یار مجھ میں بس گیا ہے ! میرا یار مجھ میں بس گیا ہے ! مجھ میں بیٹھ کے تار ہلاتا ہے ! میں تار پر لہو بہاتی ہوں اور سیاہی بنتے لکھا جاتا ہے ۔ درد دلاں داں کون جانے ! کوئی نہ جانے گا کہ یہ میں ہی جانوں
درد کا سب سے خوبصورت چہرہ محبت ، عشق ہے ۔عشق کے جام مجھے دیے جارہے ہیں میں مستی میں ابھی ہوش میں ہوں ۔۔مجھے کیا معلوم میں کہاں جارہی ہوں میں بس چلتی جارہی ہوں ۔۔پہاڑ پر تو کبھی ندیوں پر تو کبھی آبشاروں سے تو کبھی ڈھلانوں سے تو کبھی دریاؤں سے کبھی درختوں کو چیرتے ہوئے ۔۔۔! مجھ سے ندیاں باتیں کرتی ہیں ! میں نے اسے پالیا ہے ۔پہاّڑ میرے آگے جھکتے ہیں ! مجھے آقائے دو جہاں کی محبت نے سورج کردیا ہے ۔ آسمان پر پڑے سورج کی میرے سامنے کیا حیثیت ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔