Saturday, January 2, 2021

تری ‏پہچان، ‏میرا ‏رستہ

تیری پہچان میرا رستہ

نقل ، اصل کا رشتہ

سوچ ، عقل کا تعلق

دل ، دھڑکن کا تعلق

خون ، فشار کا تعلق

سوت ، چرخے کا تعلق

خیال ، قلم کا تعلق

تیرا، میرا کیا تعلق؟

ماہتاب ، کرن کا تعلق

رات، دن کا تعلق

دل ، دروازے کا تعلق

بندے ، خدا  کا تعلق

علم ، پہچان کا تعلق

عشق کی سمجھ سے ملے

خیال آگ میں جلے

شام کو دن کب ملے

شمع بدن میں جلے

عاشق کی رمز سن لے

عشق اکیلا اکیلا مرشد

عشق  ہے بادشاہ گر

عشق ہے  کیمیا گر

وحدت میں الجھاتا

شہادت میں الجھاتا

یہ کیمیا گری کی ابتدا

اس کی ہوگی کیا انتہا

عشق رنگ ، ذات نہیں

انس اس سے آزاد نہیں

عاشق کی کوئی شفا نہیں

عشق لاعلاج مرض ہے

عاشق کو امیری  کیا غرض

فقر کی دولت سے کھیلتا ہے

اس حقیقت پر میں خود حیران ہوں . میں کب کیسے اس کے راستے پر چل پڑی  .میں اس کرم پر ورطہ حیرت میں ہوں . پستی سے دلدل سے اوج کمال کی بلندی پر پہنچا کے لامتناہی بلندی پر جانے کا قصد کیے ہوئے ہے . رب خواہش سے پاک ہے  ،اس کا امر کن کا محتاج ہے ؟ '' کن فیکون ''  ...

نور خود میں الگ منفرد ہے ، ا سکی روح منفرد جدا ہے مگر اس کے ٹکرے ہزار ہوئے ، کچھ اس کے ماضی سے جڑے ، کچھ حال اور کچھ مستبقل میں .. یہ تقسیم کی نشانی ہے ، میرا امر ہے ، میرے امر سے نکلنے والی صدا اس کے دل میں ڈال دی گئی ہے ...میرے عشق کی انتہا کب ہوئی ، لا محدودیت کے دروازے ٌپر میری نور کھڑی ہوئی ، میں اس کا منتظر ہوں میں اس کو کہتا ہوں کہ نور دل جھانک میں لے اور دیکھ سب زمانوں کو ، دیکھ اپنے خیال کو ، دیکھ  اپنی مامتا کے بچھڑے ٹکروں کو .....یہ تو نہیں ! مگر یہ سب تجھ سے نسبت رکھتے ! ان کو تجھ سے نسبت عہد الست سے تھی کہ تیری روح بڑی طاقتور تھی  شکر کا کلمہ پڑھ بندی ، شکر کا کلمہ پڑھتے میرے پاس آجا ! تیرا کام تو مجھے سب یاد کرنا ہے ...میں تیری یاد کے تار خود میں سنبھال رکھتا ہے اور جب جی چاہتا ہوں تجھے آواز دیتا ہوں ، تو میری طر ف دوڑی چلی آتی ہے ...میری محبت کا رشتہ تجھ سے اٹوٹ ہے ، تو میری تیری میں تیرا .......ہم دونوں میں کیا فرق ہے میں تو اپنا آپ کب سے تیری نفی میں گم کیے ، تجھ سے نفی کا طالب ہون مگر تو ہی دنیا میں پڑی رہی ، تیری نفی کے ساتھ اثبات کا رشتہ جڑا ہے ۔ میں تیرا اثبات ہوں ، میں تیری بقا ہوں ، تو میری حیا کا دروازہ ہے

حیات دوامی، وجود فانی

اسمِ ذات نور کی  لاثانی

ستارہے کہکشاؤں میں گھسے

نور جس طرز نور میں رہے

بسمل کی مانند تڑپنا زندگی بھر

تو  عشق کی فقط مضرابِ ہستی

خلق نوائی  بنے گی تری گواہی

شاہد کی اس بڑھ کے ہو کیا سچائی

چاند زمین کی گردش میں لگے ہے

مہتاب زمین کے پرورش میں لگے ہے

تسبیح کے بعد ذکر کی محفل.سجالے

اس کی یاد میں بوریا.بستر اب اٹھالے

سنگی کو رنگی بنتے دیر کتنی لگتی ہے

یہ جوگ پالتے دیر کتنی لگتی ہے

اس جوگ ، روگ میں پیار  کوسمجھ

اس احساس  میں میرے اظہار سمجھ

جسم کی قید سے نکل رہا ہے نور کا نور

نور کے نور کی فلک پر شعلہ بیانی دیکھ

نور کی نوریوں سے حکایت سازی دیکھ

کلی،  پھول،  پھل کا چکر کیا ہے

زندگی سے زندگی کا حشر کیا ہے

سورشِ زندگی نے لہولہان کردیا ہے

نالہِ درد و فغاں میں محو کردیا ہے

حسن والے عشق کے محتاج ہوئے ہیں

عشق میں پڑنے والے کب برباد ہوئے


تیری تلاش کا سفر مجھ سے جڑا ہے ، وہ پرت در پرت کھلتا جائے گا تجھے علم ملتا جائے ، تیرا دل خزانہ حیات ابدی سے نوازا جا رہا ہے اس لیے بندی شکر کر جتنا تو چاہے ، اتنا کر ، جتنی تری طاقت ہے اتنا کر ،جتنی تیری اوقات ہے اس سے بڑھ کے کر ، جتنا تیری ہوش بچا ہے ، اس ہوش میں مدہوش ہوتے کر ، جتنی زندگی تیری لکھی ہے وہ پل پل میں گزار لے ، وقت قرین زندگی کی بھاری نوازی جانی ہے۔اس کو لینے کے لیے تیار ہوجا ، تیرا کام اس جہاں میں چلنا پھرنا ہے تو یہاں مسافر ہے ، تو یہاں واں پھرتے میرے لوگون کے ساتھ اٹھا بیٹھا کر ، ان کے درد سنا کر ، ان کو میرے قصے سنایا کر ، مٹا دے ہستی کے سب رنگ ، ان کو چھوڑ کے چل اب میرے سنگ ، کر تو نفس سے اب جنگ ، تو میرا رباب شوخ و چنگ ، تیری ذات مجھ سے ملی ہے ، تیری بات مجھ سے جڑی ہے ، تو میرے شوق کا آئنہ ہےتو میرے خیال کی طاقت ہے ، دنیا میں سب کچھ طاقت سے ہے ، اس لیے میری جان سبھی طاقت کو سمجھ بنا اس کی جانب چلتے پھرتے ہیں ..... ملی ہے ، معجزے میرے خیال کی طاقت پر استوار ، بندہ بشرکی ولایت نیابت میری خواہش کا امر ، تو میریدوست ہے ، میری ولایت کی نشانی ہے ، میرا جذب بیانی ہے ، میرا شعلہ رقص ہے ، میرا ذات تیری کہانی ہے ۔یہ راز کی باتیں کھل رہی ہیں ان سے الجھنا بے کار ہے م عشق کی دولت سرفراز لوگو ں کی ملا کرتی ہے ، نور تو میری رفعت ہے ، تو خود میں قلندر ہے ، تو خود میں سمندر ہے ۔

چشم نمی وصل کی نشانی

ورد آیات  ہوتی رہی بیانی

ستم یار کا مجھ میں رہتا ہے

وہ جو کہتا ہے اسے میرا کردیا ہے

حکمت اس کی کون کب سمجھے

ہر فرد کو خود میں محشر کردیا ہے

ازل کا نغمہ ہوں ابد تک.چلوں.گی

فتویِ عشق ابھی صادر کیا جانا ہے

میں دائم میری شہرت بھی دائمی

سزا کا کچھ نیا طریقہ اپنایا جانا ہے

مجمع دیوانہ جان کے میرے گرد ہے

دیوانہ کون ہے یہ ابھی  بتایا جانا ہے

ًچرچہِ حسن گلی گلی مشہور ہونا ہے

زندگی کو سو بار موت میں مرنا ہے

نشاطِ ہستی بدولت درد کے ملتا ہے

ابھی تو اس.فیض کو  بہت عام ہونا ہے

سوز و گداز دل ہی دلوں کو دیتے ہیں

اس کام کو ابھی نسل در نسل.چلنا ہے

''ورفعنا لک ذکرک ''کی بات ابھی چلنی ہے

یہ نعمت نور سے بہت آگے چلنی ہے

جلنے کا فیض شمع کو حاصل ہے فقط

مومی کاغذ  سے نظروں کو خیرہ ہونا ہے

فصل بہار میں علم دانش کے ہنر سے نوازا

خزاں کا.باغ  اب بہت دور پرے لگنا ہے

جزا سزا کے فیصلے ہیں پیادوں کے لیے

قاصد کو اب تپشِ آگ سے زندہ کرنا ہے

روایت حدیث ذات اب زور و شور سے ہوگی

تیری ذات کے منصوب قصے بکھرنے ہیں

خوش قسمتوں کے فہم میں خالق  ہوتا ہے

وہ اسی سے ذات کا قلندر ہوتا ہے

آزاد روحیں اپنا آپ لٹانے کو تیار رہتی ہیں ، تیری آزادی بھی نام کے ساتھ منسلک ہے ، تو وہی ہے جو میں چاہوں تو وہی ہے جو میں کروں گا ، تو وہی ہے جس کو تیرے لیے امر کیا جاچکا ہے ۔ تیرا مرنا جینا میں نے لکھ رکھا ہے ۔ تیرا مجھ سے الجھنا بھی لوح و قلم پر لکھا ہے ،.یوں کہ کے میں آزاد ہوں تیرے اندر ۔ میں حیات ہوں تیرے اندر ۔ میں اصل ہوں خیال کے اندر ، میں علم ہوں قفس کے اندر ، میں شمع ہوں قندیل کے اندر ............میں زمینوں آسمانوں کو نور ہوں ..........تو  ہنسے ، تو روئے ، تو جلے ، تو کھلے ، یہ سب میری دم قدم سے ہیں کہ تیرے در میرے در ہیں ، تیرے ہاتھ میرے ہاتھ ہیں تیری زبان سے نکلے لفظ ہیرے ہیں ، تیری آنکھ سے نکلے آنسو نرم و زرخیز مٹی کی نشانی ہیں ، تیری ہدایت کا ذمہ میں نے خود لیا ہوا ہے تو میرا خزانہ ہے میں تیرا آئنہ ہوں ، میں تیرا شوق ہوں کہ تو میری ، اس کو جان لے کہ تفریق کے جام  تو سب گرادے میری محبت میں آکے تو مزہ لے ، تجھے  ہنر کا گفتگو ملتا جارہا ہے  ، عشق کا خزانہ لٹتا جارہا ہے ، میں طببیب ہوں تو مریض عشق .....

گفتگو کا سلیقہ آجاتا ہے

بندہ عشق میں جو آجاتا ہے

سمجھداری کے تقاضے بھولے

مجذوبیت کے سب راستے کھولے

سادگی کا حسن نور سے جانیے

متانت میں عزت کی دولت جانیے

شہِ ابرار محمد کی  نبوت کے رنگ

پھیلنے چلے ہیں چمنِ پھول کے چنگ

عادت انکساری کی سب سے اچھی ہے

عبد کی بندگی  اس کو بھلی لگی ہے

جبل نور  کا سرمہ نور کو ملا ہے

جو یار کی یاری کے صدقے بٹا ہے

احمد کی باتیں محمد کی جانب سے

احد کی باتیں واحد کی جانب سے

ساجد و مسجود کے فرق کیا،  دیکھ!

کن فیکون کی تکوین میں خود کو دیکھ

جہاں میں لٹتا رہتا ہے عشاق کا قافلہ  دیکھ