مکان مکینوں سے بنتا ہے اور انسان کے دل کا مکین رب ہے. اسے ربی ربی کہنا چاہیے مگر وہ دنیا دنیا کرتا رہتا ہے. جس نے ربی ربی کہا، اس نے رب کو پالیا. یہ بہت آسان سی بات ہے جب ہم کو اس نے کہا نماز قائم کرو ... تم نے کہہ دیا ربی ربی ... نماز تو ہمہ وقت اس کی تسبیح ہے یعنی اس کا خیال ...اب یہ مشکل بات ہے دنیا میں رہتے اس کا خیال رہے. مجذوب کے لیے بات آسان ہے کہ وہ خیال ایک کرلے مگر دنیا دار کیا کرے کہ دنیا نبھانی ہے. یہ مشکل ہماری خیال و اعمال کے ربط سے آسان کردی گئی ہے . ہمارے خیال میں جب کائنات کی سب سے عظیم ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوگی تو ہمارے اعمال ان کے سانچے میں ڈھل جائیں گے. ہم نے ان کے جلوے کو ایسے پانا ہے کہ ہمارا خیال اور ظاہر یعنی عمل ان کی سیرت میں ڈھل جائے. ہر جگہ ہمیں ان کا جلوہ دکھنے لگے گا. اس سے عظیم فنائیت انسان کو نہیں دی گئی. انسان نائب ہے اور نائب کے پاس اختیارات بہت. اختیارات کا استعمال نائب دنیا کے لیے کرتا ہے جبکہ کچھ لوگ بانگ سے بانگ سے ملاتے ہیں اور صدا بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں
میرا رب عظیم ہے
دل میں وہ مقیم ہے
اسکی شان کریم ہے
اسکی بات رحیم ہے
یہ کاسہ ء فقیری پھینک دے اور دُر ہوجا درِ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا. اے حضرت انسان! تجھے تو میری شان بیان کرنی تھی اور تو اپنی شان بنانے میں لگ گیا. اے وہ نیک بخت! جس کے لیے میں نے کائنات بنائی، وہ اپنی کائنات بنانے میں لگ گیا. شمس کی تسبیح دینا ہے اور رات میں روشنی دینی پڑتی ہے. شمس روشنی کا محتاج ہے اور شمس، شمس کی جستجو میں لگ گیا. رب نے فرمایا قم الیل ... قم حکم ہے اوررات میں قیام بڑا مشکل ہے. شمس کو رات میں قیام کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کی تسبیح زمانے کی تسبیح ہوجائے. یہ دولت اللہ عزوجل اور شاہ رسالت مہرنبوت، امامِ انبیاء کی جانب سے اور توسط سے پہنچتی ہے اور خیر پہنچ کے رہتا ہے جبکہ شر نے مٹ جانا ہوتا ہے. رات کا قیام ضروری ہے ... قائم ہونا بالذات اس لحظ سے کہ ذات کی جلوہ گری ہے. انسان کو مگر اپنی پڑی ہے تو وہ جان لے کہ سزا بھی کڑی ہے. یہ مہرِ رسالت کی کڑی ہے جس سے ملی کڑی سے کڑی ہے اور رات جس کے سامنے کھڑی ہے، وہ کوئی توشہ ء محبت کی لڑی ہے. سن کہ تو اللہ کے واسطہ بنایا گیا ہے نائب مگر تو نے اختیار کا ناجائز استعمال کیا ہے تو ہوگیا گھاٹے والوں میں ... رب کی شان بیان کرو
ربی ربی، ہر صدی رب کی ہے
ربی ربی، رب کی شان بڑی ہے