Friday, November 20, 2020

عشق ‏کی ‏لو

جولائی ۲۰۱۸ 

عشق کی لٗو
 
 
 
 عشق کیا ہے؟ یہ کیوں ہوتا ہے ، اکثر سوچتی ہوں
 
 عشق مورے نینا  لاگے ناں ، جس تن لاگے وہی جانے رے
 
 جلتا ہے کپڑا ہے تو راکھ  بچتی ہے
 
 دُھواں اڑتا ہے، آسمان کو اپنی کالک سے روشن کرتا ہے
 
 تم نے افق پر وہ نام دیکھا ہے
 
 کون سا نام؟
 
 ارررے ! وہی جسکو پل پل یاد کرتی ہو
 
 اچھا ، وہ جس نے تن من کی چادر میں اپنی خوشبو بسا دی ہے
 
 ہاں ، وہ ملا بھی نہیں مگر  لاگے کہ ہم کب سے ساتھ ہیں
 
 
 
 وہ ہوتا ہے تو میں رقص کرتی ہوں ، ایسا رقص میری روح کو سرشار کیے دیتا ہے
 
""" تو پھر فلک کی روشنی کیوں بن گیا ؟ """"
 
 یہی تو عشق کا المیہ ہے ، یہی تو حادثہِ عشق ہے ، جس کو سپردگی دی ، اسکو دُور سے دیکھنا  بھی بہت سانحوں بعد نصیب ہوا ہے
 
 کہاں ملا تھا؟
 
 وہ ازل کا ساتھ تھا ، جسم میں قید تھا ، اسے چھو نہیں سکتی ، حصار جان کے حلقے سے دور رہتا تھا
 
 ہہہہم ،یہ لگن کا ساتھ ہے ...
 
 ہاں ، وہ چاند جب من کے دریچوں سے جھانکتا ہے تو جوار بھاٹا لاتا ہے
 
 اسی تڑپ میں سسک رہی ہو
 
 ہاں ، اس سے ملنے کی لیے تڑپتی ہوں مگر وہ جھلک دکھا کے غائب ہوجاتا ہے
 
 وہ دیکھو .. وہ سامنے جا رہا ہے ، جاؤ اس کے ساتھ ہو لو..
 
 سُنو .. یوں نظریں چرا کے کیوں جاتے ہو ! تمھاری آنچ سے وجود جل گیا ہے اور تم یوں کتراتے ہو جیسے دیکھا ہی نہ ہو
 
 دیکھو ! ملن ہوگیا تو غضب ہوجائے گا ، رات کا وصال کئی صبحیں بنجر کردے گا ! زلزلے آجائیں گے ذات میں
 
 ہم تو عاشق آپ کے ،ہمیں کیا پروا
 
 زمانے کی پروا نہیں کرو گی ؟
 
 زمانہ ....، زمانے کی؟ انہووو ! زمانے نے ہماری کی
 
 ولی نے اسے دیکھا غور سے اور  مزید روشن ہوتا گیا ...
 
 دیکھو میری طرف... تمھاری محبت مجھے روشن کرتی ہے ،  اور تم روشنی میں سیاہی مانگتی ہو؟
 
 ہمیں تو آپ سے عشق ہے اتنا جانت ہیں، ہماری آنکھ میں  عکس تصور آپ کا ہے ، ہمارا انگ انگ آ پ کے نام سے روشن ہے
 
 جاؤ اس محبت کو امر کردو !  جاؤ ، محبوب کی بات مانو .... جاؤ اس کے پاک وجود کو ناپاکی سے الگ کردو ..
 
 ولی نے دیکھا ... اس کا وجود  آگ اگلنا شروع ہوگیا اور وہ رقص کیے یہی کہے جارہی تھی
 
 تمھارا رنگ رنگ لیا ، اب کاہے  کو جائے ریں
 
 چشم و زدن میں اسکا وجود جل کے راکھ ہوگیا اور روح اس راکھ سمیت  مرغولوں میں بلندی کی جانب جانے لگی
 
 نہ ولی اس میدان میں نہ اسکی غزل مگر فلک پر دھواں ہی دھواں تھا