نبی مثلِ نُور ہوتا ہے مگر صورت بشر ہوتا ہے.اس کی رویت میں اللہ عزوجل اس قدر قرار پاچُکا ہوتا ہے، اُسے دیکھنا اللہ کو دیکھنے جیسا ہے مگر یہ ظاہری صورت کا جلوہ نَہیں وہ دید تو ابو جہل نے بھی کی تھی یہ درون کی رویت کا جلوہ جب تک ممکن نَہیں جب تک نبی خود نَہ دکھانا چاہے نَبی خود نَہیں دکھاتا بلکہ اسکے نور کی رویت(اللہ) جس تک وہ چاہے، جتنی چاہے،پہنچ جاتی ہے اس لیے مومنین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ نَہیں پاتے تھے جب تک نَبی ان کو نہ دیکھیں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا، تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا. جس نے ان کو دیکھا گویا اس نے خود کو دیکھا .... وہ اندر(درون) میں موجود ہیں ..
جناب یعقوب علیہ سَلام کا صبر ایک مثال مگر مسنی الضر کہنا پڑا .
جناب آدم علیہ سلام کا گریہ اور ربنا ظلمنا انفسنا کہنا پڑا.
جناب یوسف علیہ سلام کا گناہگار ہوتے جیل کاٹنا مگر قیدی کو بآلاخر کہہ دیا بادشاہ کو یاد دلا دے.
جناب یونس علیہ سَلام کو لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین کہنا پڑا.
..
ہر ایک نے مثلِ نور ہوتے کہیں نہ کہیں تقاضائے بشریت کا اظہار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی کوئی بات نہیِ نبھائی جس سے نجات کی دعا مانگتے آپ نے اپنی امت کے لیے اپنی اولاد و آل کو قربان کردیا اور دعا امت کے لیے رکھ لی ....ان کی دعا سے ہچکی لیتا بدن،لرزش پیہم،گفتہ بہ دل، گریہ بہ چشمان، روئے زار زار.
رحمت سراپا ،متلجی دِیا،قبولیے دعا،دیجیے ردا،نقش نعلینت پر سجدے کا اذن،شمس الدحی کی رویت، ماہیت قلب میں ..... ایسی رہے ایسی رہے جیسی دعا ہے مدعا رکھا ہے، دل پڑا ہے،ہاتھ دھرا ہے .....