قران پڑھنے و فہم کے لیے روحِ اعظم سے ربط ضروری ہے معظم و مبین و رحمت سراپا ہستی نے قَریب سالہا سال کی ریاضت و مجاہدہ فکرو غور پر رکھا. سوچ و خیال کے تَمام سوتے مرکوز ہوئے ایک نقطے پر، تب جبرئیل رحمت اس نقطہ کے وسیلے سے حرفِ اقرء کے راوی ہوئے
کَہا گیا
قرأت ویسی کیجیے،جیسی کہ بَتائی گئی
حکمت کا درجہ تھا کہ تین مرتبہ کہا گیا
میں قرأت نَہیں جانتا
میں قرأت نہیں جانتا
میں قرأت نہیں جانتا
قرآن پاک کو درجہ بَہ درجہ ایک سیڑھی (نور کی) سے معتبر کیا جاتا ہے تب یہ واردات(وحی) *اوحی* کے لیے وسیلہ روحِ اعظم ٹھہری اور رابطہ کے لیے نشانِ جبرئیل حادث مقرر ہوا.گویا ترتیل و تنزیل کے لیے فرشتہِ وَحی ایک نشان اور ترسیل نور و قرأت پسِ پردہ جاری ہوئی. ہیبت کا عالم تھا کہ لرزش سراپا بدن معطر تھا. رابطے کا پہلا نشان کھالوں کا نَرم پڑجانا، روح کا مقرر ہوجانا. انسانی نفس و جسم پر واردات کیفی کا حال لرزش و خشیست میں ظاہر ہوتا ہے.نَماز دین کی ابتدا اس پہلی وَحی مقرر سے ہوگئی
نَماز دین کا پہلا درجہ خشیت و لرزش ہے جو بعد دید حاصل ہوتا ہے. لقاء سے محرومین اس نَماز دین سے عاجز ہوتے ظاہر کے روبہ ملتبس خدا سے محروم یلغار میں مہم کار رہے
قرأن کسی بَشر کو قرأت کے بنا یعنی (روحِ اعظم) سے ربط بنا نہیں آسکتا.
راقم اس حوالے سے ایک وحی مقرر کی جانب غور و فہم کراتا ہے
تم میں ایک ایسا بھیجا جو تمھارے دلوں کا تذکیہ کرتا اور آیات کو کھولتا.آیات یعنی قلب مبارک میں نشانات. ایسے نشان جن سے چشمے جاری ہوتے
سورہ البقر میں اشارہ ہے
کچھ پتھر سجدے میں اور کچھ سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں
چشموں سے مراد بصیرت ہے. بصر یعنی دیکھنا اللہ کے نور سے. مومن کی فراست اللہ کے نور سے دیکھنا ہے ...
ان نشانات کی قرأت و ترتیل و انتظام کے لیے غائب / حاضر سے رابطہ کسی روح اعظم سے ضروری ہے جس کا رابطہ اس حادث نور کے نشانات سے ہوتے سلسلہ خدا سے ملتا ہو ...
دوسرا درجہ: قم فأنذر
جب نور مکمل جاذبیت و حسن سے سیراب کردیے تب من و تو کا فرق واجب نہیں ہوتا کیونکہ واجب و الوجود ذات ایک ہی ہے. وہ خود اس کاغذ ہستی میں نمود پاتے نقطے سے حروف تہجی کی مکمل ترتیل کرتی ہے.تب کہا جاتا ہے پیار سے
کملی (نور سراپا) والے
زمانے والو کو ڈراؤ.......
قرآن پاک کی ندرت بیانی ہے کہ اس میں کئی قرآن کی اقسام بیان کی گئی. ظاہر معلوم ہے کہ ہر نبی پر قرأت افکار مختلف ہوتی ہے. کسی پر یہ نور فرقان بن جاتا ہے کہ اس کو ہر سچ و باطل کی تمیز ہو.کسی پر نور الہدی کہ ہدایت پانے والے بن جائیں. کہیں یہ ذکر سے مشبہ ہے. جب وہ ذاکر ہو تو جس جس سے وہ ذکر کرتا ہے یعنی نصیحت.اس نصیحت کی جامعیت کا واردات بن جانا اس کی جانب سے تحفہِ عظمی ہے.وہ برتن میں جب اترتی ہے تو تناول ایک ہستی کرے یا بہت سی مگر یہ جیسے اترتی ہے ویسے زمانوں تک جاری رہتی ہے بس برتن در برتن ایک فرق آجاتا ہے ....
قرأن کی تفہیم بنا قاری کے کیسے ممکن ہے؟
تم کیسے کسی مرشد(قاری) کے بنا تحفہ معظم پاسکتے ہو
قرأن کی قرأت کا اعجاز موجود زمانے میں ایک سورہ سے شروع ہوا ہے.سورہ رحمن کی قرأت ایسے قاری سے جس کو قرأت روح اعظم سے حاصل ہو.جس کو یہ شرف ہو وہ ربط خدا میں ہمہ حال ہے
قرأت قران شفا بن جانا تو بس نقطہ کے کھل جانے کی پہلی آیت ہے
بشر اپنی تمام کثافتوں کو لیے جب اس قرأت سے فیض یاب ہوتا ایسا جیسا قاری عبد الباسط کے پیچھے وہ خود بھی خدا کے روبرو ہے
تب وہ خشیت سے کھالوں کا نرم پڑجانا اہم ہے
بیماریوں کی شفاء سے لیکر عرفان ذات تلک سارے کام نقطے سے شروع ہوتے حروف تہجی مکمل ہونے تلک ہے ...
ذکر کی بہترین قسم ہے کہ ذکر جاری رکھو