Sunday, November 24, 2024

تلیت --- قرأت

قران پاک میں تین الفاظ حوالہ کے لحاظ سے ملتے جلتے ہیں 

تُلیت 
قُرأَت 
کُتبت 

تلیت القران 
جب قران پاک پڑھا جائے 
کتبت
وہ قران جو لکھا گیا،اس لکھے گئے کی تلاوت 
یہ تلاوت کیسے کی جائے
ورتل القران ترتیلا 

جب یہ آیات اس انداز سے جسم و روح میں translate  ہوتی ہیں تب روح کا (سافٹ وئیر) ایکٹیوٹ ہوتے ان آیات کا عمل کرواتا ہے.جب ہم نہیں کرتے تو اک ڈپریشن و ہیجان کا سامنا ہوتا ہے جس کے سبب ہمیں مزید زمینی و  افلاکی آفات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جب تک کہ ہم اس ٹرانسلیٹڈ ٹیکسٹ کے متن پر اپنے device کو اپڈیٹ نہیں کرلیتے 

سورہ البقر جو قران پاک کا مینوئل کا ترتیب توفیقی کے لحاظ سے دوسرا باب ہے.اس باب کی پہلی پہلی آیت ہے

ذلک الکتاب لا ریب فیہ

یہ وہ کتاب ہے......

وہ مینوئل ہے جو قلوب میں رقم ہے بالکل اک موبائل ڈیوائس کی طرح. اس کتاب میں شک نَہیں ان کے لیے جو متقی ہیں 

پھر چند اگلی آیات میں فرمایا گیا 

جو لوگ ایمان لائے آپ پر نازل شدہ کتاب پر اور ان کتابوں پر جو نازل کی گئی دوسرے انبیاء پر

قران کریم کی کتاب تمام مومنین کے لیے ہے کیونکہ متقی مومنین ہیں اور مومنین کے لیے اس کتاب میں شک نہیں. یہ کتاب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں دلوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے کی وساطت لکھی گئی تھی ...اور لکھی ان دلوں پر گئی تھی جو مومنین اور متقی تھے.جن کی اطاعت خدا سے، خدا کے ساتھ بالغیب پر ہوتے ....ویقیمون الصلوت ...اور جن کا قیام کنکشن پر تھا یعنی جن کا اللہ سے کنکشن تھا اور وہ اس کنشن پر قیام یا قائم ہیں ..... 

قرأت لفظ قرن سے نکلا ہے جس کا مطلب تمام زمانوں کا اجماع اور کنکشن یا گٹھ جوڑ ...قران جو نازل ہوتا ہے یا طاری ہوتا ہے وہ تمام انبیاء کرام اور الہامی کتب اور بآلاخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ربط جوڑتی ہے.اس ربط کے جڑتے انسان کا خدا سے تعلق و ربط بن جاتا ہے.   اس کے اندر اخلاق کے وہ تمام خصائل پیدا ہوجاتے ہیں جس کے لیے اسکی چاہت کی گئی تھی اس جہان میں ..

سورہ الاقرء پہلی سورہ کا معانی قرأت کا ہے
انجیل کا مطلب خوشخبری
توریت کا مطلب حدود کے قوانین یا شریعت
زبور کا مطلب ہے عبادات و حمد و ثناء کے قوانین 
قران کا مطلب ان تمام کا اجماع اور اضافہ

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب کہا 
ما انا بقاری ....

فرشتے کو کیوں نہیں کہا میں تمھیں نہیں جانتا یا مجھے تمھاری معرفت نہیں ہے یا پہلا کوئی خدشہ .... فرشتے نے اگر اپنا تعارف دیا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ورقہ بن نوفل کے پاس نہ جاتے ....

فرشتے نے یہ کیوں نہ کہا 
تلیت 
یعنی تلاوت کرو
قرأت کا مطلب یقینا تلیت سے مختلف ہے ...کسی بھی مینوئل کی ایکٹیویشین قرأت سے کوتی ہے جبکہ تلاوت کوئی اور اثر رکھتی ہے. قرأت کی پہلی قسم ہے ترتیل سے پڑھنا  ..جس نے قران کو ترتیل سے پڑھا اس کے لیے قران صدر کھول دیگا.....

Thursday, November 14, 2024

موسی کا چرواہا






موسی کا چرواہا 

موسی دریا سے نکالا ہوا بچہ، جس کا نام اسی بات کے تناسب سے رکھا گیا.ایک دِن وُہ اپنی قوم کا چرواہا بن گیا. موسی کی قوم میں عصبیت و شہوت بھیڑوں جیسی تھی، اس لیے اس قوم کا اجتماعی شعور حیوانی رہا تھا. جس قوم کا شعور حیوانی ہو، اسکو جسمانی و زمینی آفات سے سامنا ہوتا رہتا ہے. 

موسی کا چرواہا دس زمینی آفات کی بابت ہمیں اس جسمانی و زمینی آفات کا لائحہِ عمل دیتا ہے

۱: پانی کا خون بن جانا 
۲:  مچھلیوں کا پانی میں مرجانا 

موسی کا چرواہا بتاتا ہے کہ جو شخص پانی پیتا تھا، وہ خون بن جاتا تھا مگر یہ آفت بنی اسرائیل کے لیے نہ تھی،  اس لیے جادوگروں نے اسکو محض جادو سمجھا تھا.اسکو رفع کرنے کی کوشش کی مگر موسی کا چرواہا سامنے آگیا. حق چھاگیا،باطل مٹ گیا 

۳: مینڈکوں کا سیلاب 

ارتقاء کے نقطہِ نظر سے مینڈک ایک ارتقائی جینیاتی مواد کی تبدیلی کا نتیجہ ہیں اور قران کے نقطہِ نظر سے یہ عدم سے وجود میں آگئے یا انسان سے وجود میں آگئے، جیسا بندر و خنزیر کا وجود انسانی ہیئت کی بگڑی شکل ہے. چرواہا ہمیں بتاتا ہے کہ مینڈک بارشوں کی طرح برستے رہے، یہاں تک بازو، ٹانگ، سر تلک میں مینڈک ہی مینڈک تھے .......

۴: مچھر کا امڈ آنا 

عصا زمین پر مارا گیا،مٹی مچھر بن گئی ...عصا جہاں جہاں پھینکا جاتا،وہ مچھر بن جاتی،یہی کام محض موسی علیہ سلام کا عصا نہیں کرتا تھا بلکہ ہارون علیہ سلام کا عصا بھی ایسی معجزاتی رمز کا حامل تھا. مچھر کا وجود معجزاتی طور پر سامنے آیا یا کہ مچھر ارتقائی عمل کا شاخسانہ ہے،یہ الگ بات ہے مگر عصا کی معجزاتی بات کتنی نرالی ہے کہ عصا نے مٹی کی ترکیب بدل کے روح پھونک ڈالی اور شبیہ بھی مچھر کی صورت بھی مچھر کی .... جناب عیسی علیہ سلام کا سُنا تھا مگر موسی علیہ سلام کے معجزاتی ہنر کی بات الگ سی ہے..... 

۵: مکھیوں کی آفت
۶: مویشیوں کی موت

چولہے کی خاک سے مویشیوں کے جسم میں پھوڑے نکل آنا،  اک نبی کے ہاتھ سے پھینکی گئی خاک عذاب کے لیے ..... مویشیوں کی موت ہوجاتی ہے ...قہر نازل ہوجاتا ہے

۷ا: اولے پڑنا 
۸:فصلوں کو کیڑا لگ جانا 
۹:ٹدی دل کا عذاب 
۱۰:پہلوٹھی کے بیٹوں کی موت

فرعون کی قوم بالاخر سمندر کو چیرنے لگتی ہے اور موسی کا عصا پانی کو جوڑ دیتا ہے.قوم غرقاب .... موسی علیہ سلام اتنی طویل ریاضت کے بعد غلامی سے قوم کو آزاد کراتے ہیں اور ایک بہادر یا ہیرو سامنے آتا ہے.جسطرح موسی علیہ سلام کو دریافت ہوا، خدا نے نبوت دیدی ہے.اسی طرح ان کی قوم نبی کو پاکے،اس کے ہاتھوں نجات پا کے بھی روٹی، کپڑے مکان کی طلب کرتی ہے.موسی کی قوم میں سے کسی نے خدا کی طلب نہیں کی بلکہ من و سلوی کی فرمائش کی ....موسی علیہ سلام چالیس راتیں گزارنے گئے تو بت پرستی چھوڑ دی. قوم میں جناب ہارون علیہ سلام موجود تھے مگر ان کی حکمت و دانائی بھی کھوج و جستجو کی پیدائش نہیں بلکہ عطا تھی. انسانی نفسیات عطا پر ویسا یقین نہیں کرسکتی جیسا وہ اپنی کھوج و جستجو کی دریافت کے بعد یقین کرتی ہے..اس لیے وہ قوم کو بت پرستی سے روکنے سے قاصر رہے تھے ... دوسرا قوم غلامی سے نجات پاتے دنیا میں محو ہے  ،خدا پر ایمان لانے سے قاصر ہے

میرے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار سامنے آتا ہے جن کی کھوج ان کو اللہ پر یقین کراتی ہے جیسا کہ جناب ابراہیم کی کھوج ان کو یقین تک لے گئی.... جو قوم کو روٹی، کپڑا، مکان کی جانب بلکہ خالص اللہ کے لیے اللہ کی جانب بلاتے ہیں. ان کے قوم میں کئی حکیم و دانا موجود ہیں جن کی حکمت کی تائید جانب خدا بھی ہوتی رہی یعنی جناب اسماعیل علیہ سلام اپنے باپ کی وہ حکمت و کھوج و دانائی میراث میں مکہ والوں کو دیے دیتے ہیں. اس قوم میں ہر صحابی حکیم ہے مکمل شعور رکھتا ہے.جس کا شعور تمام ضروریات زندگی سے بلند ہوتا خدا تک پہنچتا ہے.موسی علیہ سلام راہ دکھانے کے لیے یقین کی طاقت کے بجائے، عصا و یدبیضا کے حامل جبکہ یہاں بن دیکھے سلمان فارسی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ سے ملنے آتے، یہاں بوذر غفاری ابراہیمی کھوج لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ہیں تو کوئی یاسر عمار جیسے تو کسی کا آہنی استقلال فاروقی ہے...یہاں ہر صحابی کی حکمت و دانائی روٹی کپڑے مکان تک نہیں بلکہ اللہ کے لیے اللہ تک پہنچتی اپنی آپ مثال ہوجاتی ہے...

ایک امتی کی اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوگی اسکی حکمت کا شعور بنی اسرائیل کے نبی کے شعور سے کہیں بلند ہے. اسکی دانائی و اوصاف اس قدر تیقن پر مبنی ہے کہ وہ مٹی پر لیٹا بھی بادشاہ محسوس ہوتا ہے ....اصل جہانگیری یہی ہے.اصل گلہ بانی یہی ہے....اسی شعور کی وجہ سے سائنس نے اس قدر ترقی کی ہے،اسی شعور کی وجہ سے ملحد پیدا ہوگئے، اک سچا ملحد جتنا خدا کے قریب ہوتا ہے مرے نزدیک کوئی نہیں ہوتا مگر اسکی حکمت کی سمت الٹا چکر کاٹ رہی ہوتی ہے...اسی قوم میں نبوت کے جھوٹے دعویدار ہیں .....یہ میرے امام کی امت ہے ...میرے امام کے امتی میں دانائی و حکمت کی وہ نہریں ہیں جن کا قطرہ قطرہ قلزم ہے...

موسویت کی چادر میں حکمت



نبی بس خبر پاتا ہے یا نشریات پالیتا ہے جبکہ رسول نشریات نہ صرف بانٹتا ہے بلکہ نشر کردہ حدود کی پابندی کراتا ہے. موسی علیہ سلام کی زندگی کی نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ عقدہ کھل جاتا ہے نبی پر نبوت کا عقدہ پیدائشی نہیں بلکہ اسکی اپنی دریافت سے کُھلتا ہے.

ایک بچہ جس کا خاندان اُسکے پاس نَہیں یا جس نے ماں کا لمس نَہیں پایا.زندہ ماں کا ہونا،ہجر کا درد سہنا بڑے بڑوں کے پاؤں تلے زَمین نکال دیتا ہے. وہ بچہ حادثاتی طور پر تتلانا شروع کردیتا ہے.اس پر گفتگو کرنے کا ہنر چلا جاتا ہے یعنی وہ بچہ معاشرتی طور پر الگ ہے یا سمجھا جاتا ہے

یہ بچہ جب جوان ہوتا ہے، جوانی میں قبائلی محبت کے بَجائے انصاف کا معاملہ کرنا چاہا اور شدت میں قتل ہوگیا. اس وقت موسی علیہ سلام اپنے کیے گئے قتل کی پوری ذمہ داری لینے  سے قاصر رہے اور جلاوطنی اختیار کرلیتے ہیں ....اس جلاوطنی کی بنیادی وجہ خوف کا عنصر تھا. وہ اپنے خوف کا سامنا کرنے سے قاصر رہے....

یہی جَوان حادثاتی طور پر معلوم ساتھ پالیتا ہے اور نبی کے عہدے پر فائز ہوجاتا ہے مگر یہی جوان خدائے بزرگ برتر کے ہونے کے باوجود یا خبر کے باوجود یقین کے درجے پر فائز نَہیں ہو پاتے.اس لیے جب دعوت کا حکم ہوتا ہے تو جناب موسی اختلاف کرتے پائے جاتے

خدا فرماتا ہے
نبوت کا اقرار کرو اور جاؤ خبر دو
موسی علیہ سلام:  میرا یقین کون کرے گا 
خدا: ان کو بنی اسرائیل کے خانوادہ نبوت کی بابت بتاؤ
موسی علیہ سلام: قبائلی سردار میرا یقین نہیں کریں گے 
خدا:  ان کو کہو میں اسکی جانب سے ہوں جو کہتا ہے
میں وہ ہوں، جو کہ میں ہوِں 
موسی:  وہ بات نہیں مانیں گے،  ہارون کو ساتھ کردیجیے....
خدا: عزم جلال میں ہارون علیہ سلام کو موسی علیہ سلام کے ساتھ کرتا ہے 
جاؤ، فرعون کو خبر دو کہ بنی اسرائیل کو آزاد کرے ...
موسی:  وہ میری بات نہیں مانے گا، نہ یقین کریں گے
خدا:  عصا پھینک دینا ،ہاتھ نکال لینا 

قران پاک میں سورہ طٰہ میں اسی خوف کی نشاندہی کی گئی  جب سامری جادوگر رسیاں پھینکتے ہیں تو موسی علیہ سلام اژدہے سے ڈر جاتے ہیں 
ندا آتی ہے:  عصا پھینک دیجیے

یہاں خوف کے عنصر کے ساتھ، یقین کی کمی کا عنصر ہے جو کہ عام انسانی نفسیات ہے مگر اک نبی کی نفسیات معاشرے کی سطح سے بلند ہوتی ہے جس پر عام استدلال یہی ہے کہ فرعون کی قوم یقین کی اس بلندی کو نہیِ پاسکتی یا بنی اسرائیل کی قلب کی ساخت ایسی بنی نہیں ہوگی جس کی بدولت بِن دیکھے کا سودا کیا جاسکے....

یہاں امتی ہونے پر فخر ہوتا ہے 
میرے رسول فرماتے ہیں 
میرے اک ہاتھ پر چاند دوسرے پر سورج رکھدیں، میں یہ رستہ نہیں چھوڑوں گا 

اللہ کی رائے سے قبل، یا نزول وحی سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رستہ اختیار کرلیتے ہیں،  جیسا کہ اللہ نے چاہا ...اس مقام پر یقین اس قدر راسخ ہوگیا کہ گویا "میں، تو" "تو، میں " سے نکل گیا .. بس ایک ہوگیا 

اس لیے خدا نے خود فرمایا 
قل ھو الاحد .........

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یتیم و مسکین بچے مگر ایسے صبر و بردبار بچے ہیں جن کی صداقت و دیانت نبوت سے قبل مثال. حضرت ابراہیم کیطرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھوج و جستجو سے یقین کو اک مرتبہ راسخ کردیا. غار حرا میں وحی سے قبل کھوج و جستجو اور وحی یقین کے حال میں نزول ہوئی. یعنی جو اللہ تراشا گیا تھا ذہنِ حال میں،  وہ ویسا پالیا گیا....یقین آگیا ....دریافت کی اکملیت اُسی ایک لمحے میں ہوگئی ...

Friday, October 18, 2024

درود کی چادر

بند آنکھیں

Monday, February 26, 2024

حرف خط نقطہ

تجسیمِ وفا ،الفت سرِراز، ماہناز ہیں 
جو شہرِ دل میں حال پر قائم ہیں 
وہ تقدیر پر نائم ،تدبر میں پائیم 
شمیشیر جن کے ہاتھ میں نازاں 
قلم برنگ تجلی صدہا زماں لیے
نور قدیم، نور لطیف کی شفافیت لیے
میم کی عطا پر قائم و صائم شجر 
حجر کا نقطہ، شجر کی الف پر قائم 
زمانے صدیاں بنتے چلتے گئے 
جنبشِ خاماں سے قفلِ نازش ستم زدہ 
دل حرف کنندہ پر لام کا نام 
اتمامِ حجت:کلیہِ درویشاِں ....
حرف تسبیحات 
نقطے تجلیات 
لفظ شبیہات 
خط سایہِ دلبری 
منقش ہالہِ نوری
قندیل نور کی ترمیم
تفریق میں کرم حدوث 
کبریائی میں جبلی دھاگے کا نزول 
الف کے دھاگے 
نقطے کے وعدے 
خطوطِ شبیہات و تجلیات و انوارت کی ہستیاں 
مدحت نامہ لکھیے
لکھوا دیجیے 

وجہِ المنیر کی شاہکار رویت کی ازبر کہانی ہے
طٰہ کی ترتیل شدہ وادی میں جبری آزادی ہے
قدیم راویان نے شام کو سرحد کی مقفل سرحدیں کھول دیں 
رات نے اقتدار سنبھال کے شمس الدحی کے گرد تنویر کے ہالے سنبھالے 
بشر نے جامہ الحسن میں نور کو وجہِ شاہ بنا دیا 
چکر میں صوم و صلوت کے روا رواج رکھے گئے
افسانے لکھے گئے
فسانے بن گئے 
نذرانے بقا کے 
احتیاج نہیں کسی کے
سرکار کی لاگ میں لگن کی چنر سنبھالی نہ گئی کہ آگ میں آگ کا رکھدیا بالن


یہ وہ احتیاجی خط ہے جس کو نقطہ بہ نقطہ قلب میں تصویر کیا جاتا ہے.اس کے بعد لامثل کل شئی کی مثال خط سے خطوط یعنی صورت سے صورتیں ترویج پاتی ہیں. الف لام میم کے امکانی نقطے کی وسعت کئی صدیوں سے نہیں بلکہ ازل سے نقطہ پذیر ہے....

Tuesday, February 13, 2024

اقراء : اکتیسویں نشست

اکتیسویں نشست

متواتر بات چیت و گفتگو ایک مربوط رشتہ قائم کردیتی ہے. اور گفتگو میں تواتر بجانب خدا عطیہ ہوتا ہے. حکیمانہ صفت لیے لوگ اور اللہ کے دوست ایسا سکون رکھتے ہیں کہ ان سے جاری اطمینان کی لہریں قلب و نگاہ میں معجزن ہوجاتی ہے.مجھے حکم ہوا 

قران پڑھو

میں نے ان سے کہا کہ یہ آسان کتاب نہیں ہے.....اسکا پڑھنا  عام لوگوں کے لیے نہیں. بلکہ یہ علماء کرام پڑھاتے ہیں....


فرمانے لگے:  یہ کہاں لکھا کہ خود پڑھنا نہیں ہے یا اسکے لیے استاد چاہیے؟ 

میں نے کہا کہ اس کی زبان اتنی مشکل ہے. اسکی عربی کی گرائمر نہیں آتی ....

شاہ بابا:  آپ قرآن پاک شروع کردیں پڑھنا....آپ سے نہیں پڑھا جاتا تو آپ پانچ آیات روز پڑھ لیا کریں ....ترجمے کے ساتھ .....اسکو ایسے پڑھیں جیسے محب و محبوب کی چٹھی ہے ......پڑھنے کا ایک وقت مقرر کرلیں.. سارا دن قرآن پاک لیے بیٹھنا نہیں بلکہ ہر آیت کا مفہوم اللہ آپ پر واضح کرتا جائے گا...... جس وقت پڑھنے بیٹھیں اسی وقت اس ایک آیت پر غور و فکر کیجیے

میں نے سورہ العلق کھولی ...اسکو پڑھنے لگی ...میری سوئی  تفاسیر پر اٹک گئی کہ اسکا مطلب میں کس تفسیر سے ڈھونڈیں ...


بابا، میں قرآن نہیں پڑھ سکتی. یہ تو علماء و مفسرین پڑھ سکتے.اسکے لیے باقاعدہ نصاب ہوتا ہے

بابا جان فرمانے لگے 

بیٹی،  قرآن پاک اللہ کا کلام ہے.وہ اپنے قاری پر خود اسکے معانی کھولتا ہے.. تفاسیر تو گنجلک وادیاں ہیں جو فرقہ پرستی کو ہوا دیتی ہیں. فلاں مسلک کی تفسیر، فلاں مسلک کے خلاف ہوتے آپس میں تفرقات کو فروغ دیتی ہے.....آپ سورہ اقراء پڑھیے 

اقرا ------- پڑھ 
کیا پڑھنا --------؟ 
کس کو پڑھنا-------؟ 

اقراء سے مراد کیا ہوگی؟ 
بنی نوع انسان جب تفکر کی گھاٹیوں میں خدا کی تلاش میں چل پڑتی ہے تو وہیں سے فرمانِ اقراء جاری ہوتا ہے ...

قرأت کس بات کی کرنی ہے؟ 
تو کون ہے؟
پوچھا جاتا ہے
پھر بتایا جاتا ہے کہ تری پہچان کیا ہے
ترا خدا سے کیا رشتہ ہے پوچھا جاتا ہے
انسان کہتا ہے وہ نہیں جانتا ہے
تب بتایا جاتا ہے
کس مقصد کے لیے بھیجے گئے ہو 
یہ پوچھا جاتا ہے 
انسان نہیں جانتا
تب اسکو بتایا جاتا ہے

انسان کی *نہیں * اور *معلوم* اسکی پہچان بوسیلہ رب فرمان اقراء ہے....آپ قرآن پاک اسطرح پڑھیں آپ کو معلوم ہو جائے آپ کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ آپ کا رب سے رشتہ کیا ہے؟ آپ کو کس مقصد کے لیے بھیجا گیا ...جب آپ کے حاصل کردہ سارے علوم کی نفی ہوگی، تب وہ ذات خود آپ کے اندر قرأت کریگی .....اور سوالات کے جوابات ملنا شروع ہوجائیں گے 

Tuesday, February 6, 2024

من گنجل

 من گنجل کھول سائیں 

گھٹری انج نہ رول سائیں 

من گنجل کھلدا نئیں 

تو وی مینوں لبھدا نئیں 

اندر بڑے جھول سائیں 

کتھے روحی کروبیاں 

کتھے جن و انس تے حورین 

کتھے غلمانِ جنت، کتھے شیطین 

سارے کھڑے ایتھے سائیں 

تسبیح کردے  ایتھے ملائک 

حورین دیون تحائف 

غلمان تعارف دی کنجی 

نوری علی النور کر سائیں 

من گنجل کھول سائیں 

میتھوں میرے توں نہ رول 

میں تے ہاری،سکدی سکدی 

ہن بوہا،باری کھول سائیں 

چَن وی تو،شمس وی تو 

شجر وی تو، گلِ طٰہ تو 

تری قسم، رات وچ تو 

 صبح دا ستارہ بنیا اےتوں 

چار چفیرے رشنائی کر 

جندڑی دی دُہائیاں سن 

صورت صورت وچ توں 

لبھدی پھراں تینوں باروں بار 

اندروں جندری تری صورت وکھائے

لبھیا اندر، باہر ترا سایا سائیں

Wednesday, January 24, 2024

حمد

الحمدُ للہ 

ال حمدُ للہ 

ال (وسیلہ ) حمد (نفس) للہ 

ذات کی تعریف، اپنے آپ کی تعریف بنا ممکن نَہیں. جیسا میں نے اچھا کھانا کھایا.مجھے کھانے میں ذائقے اور بھوک نے کہنے پر مجبور کردیا. واہ،  کھانا بہت اچھا تھا...مولا ترا شکر ہے...تو نے نعمت میسر کی گوکہ رزق کمانے کی مشقت میں نے خود کی. میرے ٹیسٹ بڈز اگر نَہ ہوتے تو میں کیسے اس نعمت کا شکر ادا کرپاتی ...ان ٹیسٹ بڈز کے ہونے کا شکریہ ...یا کہ میرا نیورانز اگر ٹھیک نہ ہوتے تو مجھے  ذائقہ محسوس نہ ہوتا...... اس نیورانز کے نظام کا شکریہ جو مرے دماغ کو سگنلز بھیجتے ہیں کہ مجھے وقت پر زبان تک نیورانز تک میسج پہنچ جانا چاہیے کہ یہ ذائقہ میٹھا، کڑوا ..... ہے ...  یہ سب ذائقے بیک وقت چار ذائقوں کے میسجز لیے مجھے تحریک دیتے رہیں ...... میرا الحمدُ للہ شکر مکمل نَہیں ...

غرض تو ہے کچھ بھی نفع بخش نہیں. کچھ بھی نقصان دہ نہیں.
سب منجانب اللہ ہے
سب للہ ہے
جو نقصان رب سے جوڑ دے.اس نقصان و وسیلے کی حمد جس نے ضمیر جیسی نعمت کی مرے درون میں کاشت کی .....
جو خوبی مجھے معتبر کرے غرض دانش کا منبع مجھے سوچ دے کہ میں یہ سوچ کیسے سکتی؟  یہ خیال تو واردات ہے...اس خیال کی عطا نے شکر کی نعمت دی مجھے ....میری سورہ الفاتحہ ....الحمدُ للہ سے شروع ہوگئی

لیکن میرے نفس نے اگر قرأتِ سورہ الفاتحہ کی ہوتی تُو میں ہر خیر و شر کی معرفت سے اللہ تک پہنچ جاتی. اگر مجھے اندازہ ہو پاتا کہ خیر (حق و باطل )  اور شر (حق و باطل) دونوں میرے لیے برابر ہیں...تب کہ خیر کا نتیجہ حق بھی نکل سکتا یا باطل بھی ---- شر کے سبب سے حق بھی پاسکتی یا باطل بھی....ان دو صورتوں میں میرا محور ان اسباب کی حمد کرنا تھی جن نے مجھے حق سے جوڑا .....یہی مقامِ غور و فکر ہے...

Sunday, January 7, 2024