Thursday, November 14, 2024

موسی کا چرواہا






موسی کا چرواہا 

موسی دریا سے نکالا ہوا بچہ، جس کا نام اسی بات کے تناسب سے رکھا گیا.ایک دِن وُہ اپنی قوم کا چرواہا بن گیا. موسی کی قوم میں عصبیت و شہوت بھیڑوں جیسی تھی، اس لیے اس قوم کا اجتماعی شعور حیوانی رہا تھا. جس قوم کا شعور حیوانی ہو، اسکو جسمانی و زمینی آفات سے سامنا ہوتا رہتا ہے. 

موسی کا چرواہا دس زمینی آفات کی بابت ہمیں اس جسمانی و زمینی آفات کا لائحہِ عمل دیتا ہے

۱: پانی کا خون بن جانا 
۲:  مچھلیوں کا پانی میں مرجانا 

موسی کا چرواہا بتاتا ہے کہ جو شخص پانی پیتا تھا، وہ خون بن جاتا تھا مگر یہ آفت بنی اسرائیل کے لیے نہ تھی،  اس لیے جادوگروں نے اسکو محض جادو سمجھا تھا.اسکو رفع کرنے کی کوشش کی مگر موسی کا چرواہا سامنے آگیا. حق چھاگیا،باطل مٹ گیا 

۳: مینڈکوں کا سیلاب 

ارتقاء کے نقطہِ نظر سے مینڈک ایک ارتقائی جینیاتی مواد کی تبدیلی کا نتیجہ ہیں اور قران کے نقطہِ نظر سے یہ عدم سے وجود میں آگئے یا انسان سے وجود میں آگئے، جیسا بندر و خنزیر کا وجود انسانی ہیئت کی بگڑی شکل ہے. چرواہا ہمیں بتاتا ہے کہ مینڈک بارشوں کی طرح برستے رہے، یہاں تک بازو، ٹانگ، سر تلک میں مینڈک ہی مینڈک تھے .......

۴: مچھر کا امڈ آنا 

عصا زمین پر مارا گیا،مٹی مچھر بن گئی ...عصا جہاں جہاں پھینکا جاتا،وہ مچھر بن جاتی،یہی کام محض موسی علیہ سلام کا عصا نہیں کرتا تھا بلکہ ہارون علیہ سلام کا عصا بھی ایسی معجزاتی رمز کا حامل تھا. مچھر کا وجود معجزاتی طور پر سامنے آیا یا کہ مچھر ارتقائی عمل کا شاخسانہ ہے،یہ الگ بات ہے مگر عصا کی معجزاتی بات کتنی نرالی ہے کہ عصا نے مٹی کی ترکیب بدل کے روح پھونک ڈالی اور شبیہ بھی مچھر کی صورت بھی مچھر کی .... جناب عیسی علیہ سلام کا سُنا تھا مگر موسی علیہ سلام کے معجزاتی ہنر کی بات الگ سی ہے..... 

۵: مکھیوں کی آفت
۶: مویشیوں کی موت

چولہے کی خاک سے مویشیوں کے جسم میں پھوڑے نکل آنا،  اک نبی کے ہاتھ سے پھینکی گئی خاک عذاب کے لیے ..... مویشیوں کی موت ہوجاتی ہے ...قہر نازل ہوجاتا ہے

۷ا: اولے پڑنا 
۸:فصلوں کو کیڑا لگ جانا 
۹:ٹدی دل کا عذاب 
۱۰:پہلوٹھی کے بیٹوں کی موت

فرعون کی قوم بالاخر سمندر کو چیرنے لگتی ہے اور موسی کا عصا پانی کو جوڑ دیتا ہے.قوم غرقاب .... موسی علیہ سلام اتنی طویل ریاضت کے بعد غلامی سے قوم کو آزاد کراتے ہیں اور ایک بہادر یا ہیرو سامنے آتا ہے.جسطرح موسی علیہ سلام کو دریافت ہوا، خدا نے نبوت دیدی ہے.اسی طرح ان کی قوم نبی کو پاکے،اس کے ہاتھوں نجات پا کے بھی روٹی، کپڑے مکان کی طلب کرتی ہے.موسی کی قوم میں سے کسی نے خدا کی طلب نہیں کی بلکہ من و سلوی کی فرمائش کی ....موسی علیہ سلام چالیس راتیں گزارنے گئے تو بت پرستی چھوڑ دی. قوم میں جناب ہارون علیہ سلام موجود تھے مگر ان کی حکمت و دانائی بھی کھوج و جستجو کی پیدائش نہیں بلکہ عطا تھی. انسانی نفسیات عطا پر ویسا یقین نہیں کرسکتی جیسا وہ اپنی کھوج و جستجو کی دریافت کے بعد یقین کرتی ہے..اس لیے وہ قوم کو بت پرستی سے روکنے سے قاصر رہے تھے ... دوسرا قوم غلامی سے نجات پاتے دنیا میں محو ہے  ،خدا پر ایمان لانے سے قاصر ہے

میرے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار سامنے آتا ہے جن کی کھوج ان کو اللہ پر یقین کراتی ہے جیسا کہ جناب ابراہیم کی کھوج ان کو یقین تک لے گئی.... جو قوم کو روٹی، کپڑا، مکان کی جانب بلکہ خالص اللہ کے لیے اللہ کی جانب بلاتے ہیں. ان کے قوم میں کئی حکیم و دانا موجود ہیں جن کی حکمت کی تائید جانب خدا بھی ہوتی رہی یعنی جناب اسماعیل علیہ سلام اپنے باپ کی وہ حکمت و کھوج و دانائی میراث میں مکہ والوں کو دیے دیتے ہیں. اس قوم میں ہر صحابی حکیم ہے مکمل شعور رکھتا ہے.جس کا شعور تمام ضروریات زندگی سے بلند ہوتا خدا تک پہنچتا ہے.موسی علیہ سلام راہ دکھانے کے لیے یقین کی طاقت کے بجائے، عصا و یدبیضا کے حامل جبکہ یہاں بن دیکھے سلمان فارسی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ سے ملنے آتے، یہاں بوذر غفاری ابراہیمی کھوج لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ہیں تو کوئی یاسر عمار جیسے تو کسی کا آہنی استقلال فاروقی ہے...یہاں ہر صحابی کی حکمت و دانائی روٹی کپڑے مکان تک نہیں بلکہ اللہ کے لیے اللہ تک پہنچتی اپنی آپ مثال ہوجاتی ہے...

ایک امتی کی اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوگی اسکی حکمت کا شعور بنی اسرائیل کے نبی کے شعور سے کہیں بلند ہے. اسکی دانائی و اوصاف اس قدر تیقن پر مبنی ہے کہ وہ مٹی پر لیٹا بھی بادشاہ محسوس ہوتا ہے ....اصل جہانگیری یہی ہے.اصل گلہ بانی یہی ہے....اسی شعور کی وجہ سے سائنس نے اس قدر ترقی کی ہے،اسی شعور کی وجہ سے ملحد پیدا ہوگئے، اک سچا ملحد جتنا خدا کے قریب ہوتا ہے مرے نزدیک کوئی نہیں ہوتا مگر اسکی حکمت کی سمت الٹا چکر کاٹ رہی ہوتی ہے...اسی قوم میں نبوت کے جھوٹے دعویدار ہیں .....یہ میرے امام کی امت ہے ...میرے امام کے امتی میں دانائی و حکمت کی وہ نہریں ہیں جن کا قطرہ قطرہ قلزم ہے...

موسویت کی چادر میں حکمت



نبی بس خبر پاتا ہے یا نشریات پالیتا ہے جبکہ رسول نشریات نہ صرف بانٹتا ہے بلکہ نشر کردہ حدود کی پابندی کراتا ہے. موسی علیہ سلام کی زندگی کی نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ عقدہ کھل جاتا ہے نبی پر نبوت کا عقدہ پیدائشی نہیں بلکہ اسکی اپنی دریافت سے کُھلتا ہے.

ایک بچہ جس کا خاندان اُسکے پاس نَہیں یا جس نے ماں کا لمس نَہیں پایا.زندہ ماں کا ہونا،ہجر کا درد سہنا بڑے بڑوں کے پاؤں تلے زَمین نکال دیتا ہے. وہ بچہ حادثاتی طور پر تتلانا شروع کردیتا ہے.اس پر گفتگو کرنے کا ہنر چلا جاتا ہے یعنی وہ بچہ معاشرتی طور پر الگ ہے یا سمجھا جاتا ہے

یہ بچہ جب جوان ہوتا ہے، جوانی میں قبائلی محبت کے بَجائے انصاف کا معاملہ کرنا چاہا اور شدت میں قتل ہوگیا. اس وقت موسی علیہ سلام اپنے کیے گئے قتل کی پوری ذمہ داری لینے  سے قاصر رہے اور جلاوطنی اختیار کرلیتے ہیں ....اس جلاوطنی کی بنیادی وجہ خوف کا عنصر تھا. وہ اپنے خوف کا سامنا کرنے سے قاصر رہے....

یہی جَوان حادثاتی طور پر معلوم ساتھ پالیتا ہے اور نبی کے عہدے پر فائز ہوجاتا ہے مگر یہی جوان خدائے بزرگ برتر کے ہونے کے باوجود یا خبر کے باوجود یقین کے درجے پر فائز نَہیں ہو پاتے.اس لیے جب دعوت کا حکم ہوتا ہے تو جناب موسی اختلاف کرتے پائے جاتے

خدا فرماتا ہے
نبوت کا اقرار کرو اور جاؤ خبر دو
موسی علیہ سلام:  میرا یقین کون کرے گا 
خدا: ان کو بنی اسرائیل کے خانوادہ نبوت کی بابت بتاؤ
موسی علیہ سلام: قبائلی سردار میرا یقین نہیں کریں گے 
خدا:  ان کو کہو میں اسکی جانب سے ہوں جو کہتا ہے
میں وہ ہوں، جو کہ میں ہوِں 
موسی:  وہ بات نہیں مانیں گے،  ہارون کو ساتھ کردیجیے....
خدا: عزم جلال میں ہارون علیہ سلام کو موسی علیہ سلام کے ساتھ کرتا ہے 
جاؤ، فرعون کو خبر دو کہ بنی اسرائیل کو آزاد کرے ...
موسی:  وہ میری بات نہیں مانے گا، نہ یقین کریں گے
خدا:  عصا پھینک دینا ،ہاتھ نکال لینا 

قران پاک میں سورہ طٰہ میں اسی خوف کی نشاندہی کی گئی  جب سامری جادوگر رسیاں پھینکتے ہیں تو موسی علیہ سلام اژدہے سے ڈر جاتے ہیں 
ندا آتی ہے:  عصا پھینک دیجیے

یہاں خوف کے عنصر کے ساتھ، یقین کی کمی کا عنصر ہے جو کہ عام انسانی نفسیات ہے مگر اک نبی کی نفسیات معاشرے کی سطح سے بلند ہوتی ہے جس پر عام استدلال یہی ہے کہ فرعون کی قوم یقین کی اس بلندی کو نہیِ پاسکتی یا بنی اسرائیل کی قلب کی ساخت ایسی بنی نہیں ہوگی جس کی بدولت بِن دیکھے کا سودا کیا جاسکے....

یہاں امتی ہونے پر فخر ہوتا ہے 
میرے رسول فرماتے ہیں 
میرے اک ہاتھ پر چاند دوسرے پر سورج رکھدیں، میں یہ رستہ نہیں چھوڑوں گا 

اللہ کی رائے سے قبل، یا نزول وحی سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رستہ اختیار کرلیتے ہیں،  جیسا کہ اللہ نے چاہا ...اس مقام پر یقین اس قدر راسخ ہوگیا کہ گویا "میں، تو" "تو، میں " سے نکل گیا .. بس ایک ہوگیا 

اس لیے خدا نے خود فرمایا 
قل ھو الاحد .........

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یتیم و مسکین بچے مگر ایسے صبر و بردبار بچے ہیں جن کی صداقت و دیانت نبوت سے قبل مثال. حضرت ابراہیم کیطرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھوج و جستجو سے یقین کو اک مرتبہ راسخ کردیا. غار حرا میں وحی سے قبل کھوج و جستجو اور وحی یقین کے حال میں نزول ہوئی. یعنی جو اللہ تراشا گیا تھا ذہنِ حال میں،  وہ ویسا پالیا گیا....یقین آگیا ....دریافت کی اکملیت اُسی ایک لمحے میں ہوگئی ...