Sunday, November 22, 2020

کسی بھی طور شبِ غم کی پھر سحر نہ ہوئی

 کسی بھی طور شبِ غم کی پھر سحر نہ ہوئی

نصیب میرا، دعا بھی تو کارگر نہ ہوئی

نہیں لکھی تھی ملاقات سو اگر نہ ہوئی
طلب رہی مری پیہم کہ آنکھ تر نہ ہوئی

یہ بند غم ہی نہ ٹوٹا، نہ ٹوٹا رشتۂ زیست
نَہ جانے کس کی لگی آہ، بے اثر نَہ ہوئی

ترا خیال حقیقت کی تاب میں ہوا گم
وہ رعبِ حسن کہ اپنی بھی کچھ خبر نہ ہوئی

وہ اک گھڑی کہ تھی سرمایہ ء محبت و زیست
تری نظر میں مگر وہ بھی معتبر نہ ہوئی

خیالِ یار نے بیگانہ کردیا کچھ یوں
مجھے کچھ اپنے بھی احوال کی خبر نہ ہوئی

وفا کی قبر پہ جس دم چڑھائے میں نے پھول
کسی بھی طور وہ ساعت کبھی بسر نہ ہوئی

طواف کوچہِ جاناں میں خاک میری رہی
خوشا! کہ اور کسی جا پہ در بدر نہ ہوئی

ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے

 ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے

کہ دفن ہم یہاں پہ ہوں گے ،ایسا بخت پائیں گے


چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دلِ امید!
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے


کہیں کرائیں اور کیوں جگر کے زخم کا علاج
مسیحا منتظر ہیں ہم، تجھی سے چوٹ کھائیں گے

بھرم وفا کا رکھ چکے، خموش ہم رہے سدا
ذَرا بَتائیں، آپ اور کتنا آزمائیں گے


کرم کرے، کرے ستم، یہ سر سدا رہے گا خم
بنا رہے یہ رشتہ، ہم اسے نہ اب اٹھائیں گے


صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
کبھی بھی ہم نغمہ ء ازل نہ بھول پائیں گے

ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں حسن اسکا پائیں گے


لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ گنگنائیں گے

اسی کے جلوے سے ملی ہیں نور، ہم کو خلوتیں
کہ شوقِ وصل سے ملال ہجر کو مٹائیں گے

عشق نصیب ہو جسے ، مر کے بھی چین پائے کیا

 

عشق نصیب ہو جسے ، مر کے بھی چین پائے کیا
درد جسے سکون دے، نازِ دوا اٹھائے کیا


مرگ ہو جسکی زندگی، چوٹ اجل کی کھائے کیا
میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مُجھے بُجھائے کیا

ٹوٹا ہے دل کا آئنہ، عکسِ خیال لائے کیا
شعر کوئی بنائے کیا؟ مایہ ء فن لُٹائے کیا

غم سے مفر کِسے یَہاں، دیکھے جِگر کے زخم کون
کس کو سنائیں حال ہم، اپنے ہی کیا؟ پرائے کیا؟

ساعتِ وصل حشر تھی صدمہ ء زندگی بنی
بیٹھے ہیں روتے رہتے ہم، کوئی ہمیں رلائے کیا

تاب نہیں سنانے کی، دل کی تمہیں بتانے کی
حالِ ستم زدہ کوئی غیر کو پھر سنائے کیا

سخت ہے منزلِ سفر، رستہ نہ کوئی نقشِ پا
تُو جو ہے میرا رہنما، رستہ مجھے تھکائے کیا

مجھے خدا نہیں ملتا

 جھے خدا نہیں ملتا! اس کو مجسم جلوے کو پانا دور کی بات، مجھے اُسکا عکس نہیں ملتا! اس کی جانب لُو کی تو وجود دُھواں ہوگیا مگر اسکا احساس تک نہیں ملتا. مجھ میں ملوہیت کو مٹی میں گوندھا گیا ہے. یہ ملمع کاری کے رشتے مجھ سے نبھیں گے کیسے جب اصل سے تعلق نہیں جڑتا. قران پاک کے ورق ورق میں آیت آیت نشانی. اس نشانی کا مجھ پر عکس نہیں پڑھتا کیونکہ اندھا دل سنے گا کیا! دیکھے گا کیا؟ جہالت میں مجھ سے آگے نکلتا نہیں کوئی مجھے علم دیتا نہیں کہ مرا نفس شیطان سے ساز باز کرلیتا ہے.


خُدا کیسے ملے گا. ہم سُنتے ہیں خدا جستجو سے ملتا ہے اور عکس محِبوب بندوں میں ملتا ہے. محبوبیت کے اعلی درجہ پر فائز ہستی سے کون مجھے ملائے گا؟ میرا نفس؟ یہ بُہت کمینہ ہے، بُہت جاہل ہے، اس کو کیا آداب محافل کے ...

مگر وہ تو کہتا ہے وہ جو کرم کرے تو دِل میں سَما جاتا ہے. دل سے دنیا تک اسی کی صدا لگتی ہے. وہی انسان کا بُوجھ اٹھالیتا ہے اس کو صدا دیتے کہ میں ہوں اس بندے کے پاس جو صدائیں لگائے

بندہ یہ صدا سنتا نہیں کیونکہ سماعت سے دور اپنی دُنیا کی اندھیر نگری میں گُم رب سے بے نیاز ہوجاتا ہے. رب سے بڑا بے نیاز کون ہے؟ بندہ کیسے کیسے الزام رب پر دھر جاتا ہے مگر وہ لازوال مامتا کا حامل بار بار اپنی جناب میں لیتا ہے "آجا، تُجھے سنبھال لوں، تو میری امید کے جُگنو سے پروان چڑھا، تجھے شمع کی ضوفشانی دکھادوں، تجھے اصل شمع سے ملا دوں ...

بندہ ڈرتا رہتا ہے کہ وہ تو دل کو منور کردے گا مگر اپنی ملوہیت کو الوہیت سے منسوب کردے گا اور منصور کیطرح نعرہ انالحق کا سزوار ٹھہرے گا. وہ تو ہر ہر شے میں مُجلی ہے. اشجار میں، پہاڑ میں، پانی میں، ہوا میں، ریت میں، مٹی میں، زمین کی کھیتی میں، آسمان میں، ستاروں میں، ابحار میں، طیور میں.... اسکی تجلی کی صفت ہر اک شے میں معکوس ہے مگر معکوس کا اصل کہاں ہے؟ وہ کہاں ہے؟ تجلی صفاتی کہاں ذات سے ملتی ہے؟ تلاش کے تمام پارے جب اک قران کی صورت بنیں گے تب وحدہ لاشریک ظاہر ہوگا

فریاد

 آج خود سے بات کرنے کو دل ہے، خود تو خود سے بچھڑ گیا .....، اسکا درد کون جان پائے! ہائے رے میرا دل،چُنر رنگ دی گئی اور بے رنگی دی گئی!

اِلہی ضبط دے، ورنہ قوت فغاں دے
نالہ ء بلبل سننے کو، جہاں کو تاب دے
باغِ گلشن سے اجڑ گئے سب پھول
تاج یمن سے اجڑ گئے سب لعل
قریب مرگ جان نوید جانفزاں آیا
وقت مرگ مرض نسیاں کے طوفان نے عجب شور مچا رکھا ہے، کاٹ دیا گیا سر، برہنہ تھی تلوار اور خون بہہ رہا تھا ...
الہی ماجرا ء دل دیکھ کے اہل عدن رو پڑے
یہ تری حکمت کی فصیل تھی، جرم تھا کڑا،

باغ رحمت کے پاس کھڑی ہوں اور وہ کان لگائے ہمہ تن گوش ....
بَتا درد دیا تو قوت درد بھی دے
یہ درد تو مرگ نسیاں ہے!
کھاگیا بدن، پی گیا لہو، کھنچ گئی رگ رگ ...
پھر ترے پاس کھڑی پکارتی رہی
الہی درد دیا تھا تو تاب ہجر بھی دے
وحشت دی ہے تو لذت مرگ بھی دے
ملیں ترے وصل کے اشارے، ملن نہ ہو
ڈھونڈو ملنے کے بہانے، بات نہ ہو! ....
الہی، محرما نہیں کوئی ...
الہی، روشن شب فرقت میں دیپ جلے ہیں
الہی، دست وصال لیے، دست کمال ملا ہے
الہی، ہجرت کے درد نےاور ہجرت فزوں کردی
الہی، آشیاں تباہ ہوا، بنا تھا، پھر بگڑ گیا
الہی، داستان غم لکھی تو نے، سناؤِں میں
الہی، مزے تو لے اور درد کا گیت گاؤں میں
الہی، کچھ تو نگاہ کرم مجھ پہ کردیتا ہے
الہی، یا تو لمحہ وصال مستقل کر، یا درد سے فرار دے
الہی، اشک تھمتے نہیں، زخم بھرتا نہیں، رفو گر کا کیا سوال؟
الہی، شدت درد نے مریض کردیا ہے،

ایک فریاد وقت ِصبا سے!
ایک بات، اک دل کی لگی کا قصہ
اے وقت نسیم!
سن جا! محبوب کو بتانا
ادب سے،
ملحوظِ ادب کو سجدہ کرنا اور مانند رکوع نماز قائم کرنا
یہ عشق کی نماز ہے ....!
کہنا، جب سے میخانے کا رستہ ملا ہے، جام جم یاد نہ رہا، جب سے دیوانہ بنایا ہے، آپ کا نقشہ ہی یاد رہا،
قرار نہیں ہے، فرار نہیں ہے، تپتا تھل ہے، آبلہ پا! کیا کروں؟
زخم رَس رہے، کوئے اماں کیسے جائیں؟
ہجرت کے نِشان ڈھونڈنے کَہاں کَہاں جائیں؟


یہ کسی کی سرگوشی جو سنی ہے دل نے!
حکم الہی اور احساس کی تلوار
یہ دی جاتی ہے اور رگ رگ سے جان نکالی جاتی ہے... یہی تلوار ہے جو پیوست رہے تو دمِ ہجرت میں دمِ وصلت کا احساس فزوں ہوجاتا ہے. اسی احساس کی روشنی میں ملاقات طے پاجاتی ہے!معجز نور کے سامنے کی بات ہے اور بات ہی چلتی ہے.احساس دل چاک کرتا ہے اور دل پر شوق کا رنگ کچا ہو تو محویت کا جام کیا سب رنگ پکا کردے ....
احساس کی صدا سنائی دیتی ہے!
تجھے شوق سے دیکھوں ، تو کدھر؟
میں تو گم ہوں، نہ جانوں کدھر،
یہ شوق احساس جو مانند شمع جلایا جائے اور جس کی مہک مانند اگربتی پھیل جائے ...
یہ معطر خوشبو ہے! اس دھواں کی مثال عنبر و عود کی سی ہے!

قسم شب تار کی، ناز حریماں پہ سب تارے لٹا دوں، شمس کیا، سب آئنے محویت کے یکجا ہوکےٹوٹ جائیں گے اور کیا چاہیے؟
احساس سے کہا جاتا ہے جواباَ

دل کی لاگی ہے، نبھانی مشکل ہے
ریشمی رومال سے لاگ کا سوال ہے

ریشم ریشم دھواں ہے، دل میں لرزتا رواں رواں ہے، ... کیسے دل مطہر و پاک ہو؟ مصفی ہو؟ معجل ہو؟

او صاف صفائی دل دے کرئیے تو رب مل جانداں اے
جنہاں کیتی نیک کمائی اونہاں نوں رب مل جانداں اے

مکالمہ

 محب کے لیے موت سے گزر کے لکھنا، اصل لکھنا ہے وگرنہ سب بیکار لکھنا ہے ... جب محب کہتا ہے تو وہ محبوب کے روبرو ہوتا ہے


اُس نے کہا کہ کدھر سے آئی؟
جہاں پہ گُلاب ہے، وہیں سے ، وہیں جانا ہے ...
اس نے کہا کہ بیٹھ جا ابھی انتظار باقی ہے ..
کہا کہ دم نکلتا ہے
اُس نے کہا کہ سبھی عاشق ایسے کہتے ہیں ..
کہا کہ یہ معاملہ الگ ہے کہ کہاں عشق کا دعوی اور میں کہاں ..

اس نے کہا کہ ترا معاملہ مجھ سے الگ کہاں؟
کہا کہ حقیقت کب بتائی تھی ..
اس نے کہا حقیقت کی تاب کس کو ہے؟
کہا جس کو.عشق کا بوٹا دیا، جن کو خوشبو دی ...ذکر علی کیا کرو ..

کہا کہ نام علی سے روشنی ہے .. رضی تعالی عنہ
اس نے کہا کہ اس ذکر کو باعمل کرو
کہا کہ ذکر کے سوا کیا رہا باقی ...
اس نے کہا کہ مرے محبوب کا نام ...صلی اللہ علیہ والہ وسلم

کہا کہ محبوب کا جلوہ نہیں ہوتا ...
اس نے کہا گلی گلی ہیں محبوب کا نام لینے والے ..جا ان سے مل ...
کہا ہجرت نے ہوش گم کردئیے ...
اس نے کہا مرا درد دیکھ پھر، ....
میں نے کہا تو تو خالق ہے ...
اس نے کہا کہ خالق کے بندے پکڑ، جن کو قلم دیا.گیا ...
کہا قلم تو تری روح ہے......
اس نے کہا نظام مصطفی صلی اللہ.علیہ والہ.وسلم کا کاروبار ایسا ہے ...
کہا کہ پرواز کب ملے گی ..؟
اس نے کہا جب رہائی ملے گی ..
کہا کہ قفس کی تیلیاں سرخ ہیں ..
اس نے کہا بسمل کا.حال پسند آیا ...
کہا کہ نعت کا سلیقہ نہیں ..
اس نے کہا کہ سلیقہ، لکھنے سے نہیں دل سے آتا ..مقام ادب مقام، جلوہ، مقام حضور ...کیوں ہے تو مہجور ...شراب طور سے پی، پلا ..

پت، اپنی پت کیسے کہوں؟ پتا پتا ہلتا ہے، سورج ابھرتا ہے، چاند مسکرائے، سرخی سے گھبرائے تو خیال جاناں مدہوش کیے دے ..کدھر ہے مرا خیال؟ میں ہی خیال ہوئی ..اے نیستی، اے ہستی! جام جم کدھر ہے؟

موج سکوت نے لہر سے پوچھا، سمندر کدھر؟ ساحل ہنس پڑا اور اشارہ کیا کہ وہ مرکز جس پہ آیت الہی چمک رہی تھی. ..

پوچھا کہ کہاں ہے رنگ، پرنور پیراہن؟

کہا کہ انجیل تمنا میں، حریم ناز کے حرم، مکین دل کے مکان کونین میں، سکون دل سے جاری دعا میں، شام حنا کی سرخی میں، رات کی رانی کی مہک میں .......

پوچھا تحفہ ء وصال کیا ہے

کہا دل حزین کے لیے آنسو، رگ جان سے کھینچے جانے والے درد سے اینٹھتی ہڈیوں کے لیے وظیفہ ء محبت، درود کی شکل، صورت میں اور والتین کی کہانی میں...

پوچھا التین کیا ہے ؟

کہا کہ قسم خدا کی، محبت پہ اور حد پر ..حد کہ حد نہ ہوئی، محبت یہ کہ محبت نہ ہوئی

پوچھا کس سرزمین سے ہوں میں؟
کہا جس سرزمین سے سوال اٹھا
پوچھا دیدار کے جواب میں کیا واجب؟
کہا شکر کا کلمہ، درود کی ہانڈی، تسلیم کا گھڑا، صبر کا پانی

پوچھا کہ حقیقت کہاں سے ملے گی؟
کہا عشق میں چھپے زہر سے پردہ اٹھنے دے
کہا کہ پردہ کیسے اٹھے؟
کہا پردہ، پردہ نشینوں کی مرضی ہے ...ان کی نیاز میں جا ...
پوچھا نیاز کیسے ملتی ہے؟
کہا نیاز جھکنے سے ملتی ہے ..جھک جا
کہا کہ دل کی نیاز کیا؟
کہا شوق حضور ...یقین کا قرار
کہا کہ شوق کامل کیسے ہو؟
کہا کہ تڑپ کب قرار پائے ..ازل کا نوحہ اب تک چلتا ہے؟
کہا تمثیل تڑپ؟
کہا کہ مقام حسینیت جان لے ..حسینی ہو جا ..جان جائے گی
کہا حسینیت کیسے پائی جائے؟
کہا حسینیت یقین کے پانی سے، روح کے سوتے کھلنے سے ...
کہا درد بہت ہے..
کہا کہ درد سے مفر کس کو ...
.
کہا کہ درد کی انتہا کیا ہے؟
کہا کہ جلوہ ... جب منتہی ہو تو دیدار لازم

کہا کہ کچھ نہیں آتا ...کچھ نہیں ہوتا ..کچھ اپنا نہیں ہے ...

کچھ نہیں تو تمنائے حرف کو کیا کہیں ......؟؟؟ تمنائے انجیل و حرف لوح و قلم کے رشتے سے جڑے ہیں. ارض مقدس کے شجر میں پلتے ہیں روح کے اسرار ہیں ...شاہ کے غمخوار ہیں ..رہتے ہیں میخوار، چلتے پھرتے اسرار ہیں وحشت کے مارے اٹھتے جنازے ہیں ..مجلس ماتم میں کیا پڑا ہے. ؟ ماتم شاہد و شہید کیا؟ ہائے یہ کیسا نوحہ ہے جدائی کا جو جدائی سے نکلا ہے ..

یہ نوحہ، ملال ساز میں بج رہا ہے ...
دوا ہو جائے...یہ دل کٹ رہا ہے ...
روح ہجر کے اندھیرے میں موت کے قریب، جاں بلب .....روشنی چاہیے......!

غار حرا کی زمین سے اس زمین تلک فاصلے ...حائل سماوات حامل الہیات ..کامل ذات سے رشتہ پیوست ...کامل ذات محمد و احمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ... انجیل تمنا، حدیث داستان، طور پہ موسی علیہ والہ وسلم کی کہانی، ادریس علیہ سلام کی پرواز بھی، یوسف علیہ سلام کی کی گواہی بھی، ایوب علیہ السلام کا صبر بھی، گریہ یعقوب علیہ سلام کا ....

یہ نشان ہیں آیات ہیں کمال ہیں جو نکل رہے ہیں نوری دھاگے ...محبت کے وظائف بہت بھاری ..
او ویکھو روح سولی اتے .. جان دے نیل ... کیہڑے غم دا بالن اے،گھل گھل جاندی اے