Sunday, November 22, 2020

وہ تو حقیقت کو حقیقت سے ملا دیتا ہے

 عدم کی مٹی کسے نصیب ہوتی ہے ۔ انسان جب اپنی بساط سے بڑھ کے محبوب کا ہوجاتا ہے ۔ جب اس کے اندر جذب ِ حقیقی پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی قدموں کی زنجیروں سے پیدا ہونے والی آواز میں موسیقیت گونج اٹھتی ہے ۔ جب خواب میں اس کو رُخِ یار نصیب ہوتا ہے اور اس مست نینوں کے پیچھے پنچھی روح اپنا آپ قربان کردیتی ہے ۔ عشق کی اصل کیا ہے ۔ اس بات کو سُوچنے بیٹھیں تو سوچیں کیا صرف قُربانی ہے ؟ عشق ایسا لافانی جذبہ ہے ، جس روح میں پیدا ہوجائے اس کو ابدیت کا جام پلا دیتا ہے ۔ زُلیخا کو جنابِ یوسف ؑ سے عشق ہوا اور اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے ۔ سیف الملوک کو عشق ہوا تو بادشاہت چھوڑ دالی ۔ جو روح مجاز کی محبت کا مزہ پاتی ہے ، اس پر اصل حقائق کھلتے ہیں کہ اس کی ہجرت سے پیدا ہونے والا سوز ، درد اور الم ۔۔۔۔۔ سب اس کو حقیقی ہجرت کی یاد دلاتی ہے ۔ اس لیے جب کوئی مسافر وطن سے روانہ ہوتا ہے تو اس پر ہجرت کا درد بخوبی عیاں ہوجاتا ہے ۔


جو ارواح جذب پیدا کرلیں یا.ان.کو.عطا ہو جائے ان کا اضطراب ان کو حقیقت کے روبرو لا کھڑا کرتا ہےہے اور اسی اضطراب پر شاید محبوب خوش ہوتا ہوگا ، کہیے گا

دیکھو! .
میرے وصل کی تڑپ میں یہ میرا بندہ بے قرار ہے ..
.دیکھو ...میری.چاہت کا.نشہ.ہے ...
دیکھو مجھے پہچانتی ہے ...
کیا.اچھا ہو آخرت کو بھی پہچان جاؤں ...

اصل.کیا ہے ...؟
.مولا..فرق کیا.ہے؟
تضاد تو مٹی ہے ..
.مٹی کی مجال.کیا؟
مولا کیامجال.؟
مولا پھر واصل بالحق کردے۔

حقیقت کے قریب انسان جوں جُوں ہوتا جاتا ہے. بادل برستے ہیں زمین سیراب ہوجاتی ہے ....نعمت ہے۔۔ان آنسوؤں کا جمع ہونا جو محبوب کی یاد میں بہائے جائیں کہ یہی رحمت کا ابر بن جاتے ہیں۔جب سے مجھ پرآپ کا کرم ہوا ہے ..زندگی نے مجھے درخت کی گھنی چھاؤں میں بٹھا دیا ....یار کا ہجر بھی یار سے منسوب ہے کہ وصل کو بھی ہجرت سے نسبت ہے ۔ انسان اسی شش و پنج میں سوالی بنتے سوال سنتا ہے اور جواب دیتا ہے

کیا تم مفلس ہو؟
ارے نہیں میں عشق میں ہوں ...
تم اضطراب میں ہو؟
ارے نہیں میں یاد میں محو ہوں ..
تم کیا.چاہتی.ہو
کیا بہتر جانتے ہو آپ مولا .....
میں کیا چاہتی ہوں .......
آجا! پاس ....
کیسے؟

جیسے جیسے محبوب پاس بلاتا ہے، یاد کرتا ہے ..مستی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انسان سُدھ بدھ کھو دیتا ہے ۔ اس کی آرزو میں جنون کی خواہش رہتی ہے کہ ہوش میں رکھا کیا ہے ۔ سب کچھ تو اسی عشق کی شعلے کی پیداوار ہے ۔آئنے ہوں یا عکس ہوں؟ میں خود کا عکس دیکھتی ہوں اور خود کو آئنے میں پاتی ہوں مگر آئنے میں یار کا جلوہ ہوتا ہے .....اس کے پاس بیٹھی ہوں وہ میرے پاس ہے ...محبوب مجھے دیکھے اور اپنی ہوش نہ رہے ...اس کو دیکھو ں آئنے میں اور میں خود سنورتی جاؤں ....مجھے بتاتا جائے ...سمت اس کی جانب کی رہے بس ۔۔!

جب زبان پر ذکرِ یار آتا ہے
دل میں پھر نقشِ یار آتا ہے
روح جب مسرور ہوتی ہے
دل کو مستی ِ خمار ملتا ہے
گنبد کی سنہری جالی کا تصور
آنکھوں میں پھر بار بار آتا ہے
دل کے صحرا میں بارش سے
گل کھلتے ہیں ، صبا چلتی ہے
موسم پھر سدا بہار کا رہتا ہے


وہ جگہ جہاں محبوب رہتا ہو. وہ کتنی خوبصورت جگہ ہوتی ہے. ہم تصورات میں خود کو اڑتا پائیں گے ..اک نئے جہاں پہنچیں گے. جس کا اس جہاں سے کوئی تعلق نہ ہوگا. وہ جہاں .....جہاں چرند پرند نہ جا سکیں، مٹی کی مجال کیا ہوگی؟ روشنی کی مثال ہے نا...انسان روشنی بن جائے اور روشنی سے مل جائے ....روشن ہو جائے اور تفرقہ مٹ جائے ...وہ عہد یاد آتا ہے جب میں تمام اراواح کے ساتھ کھڑی تھی اور مجھے جب اصل سے جدا کیا گیا تو پوچھا گیا کون ہے خالق تمھارا خالق کون ہے ؟...میں نے کہا جس نے مجھے تخلیق کیا ....جس نے میری مٹی میں مجھے پھونکا گیااور کہا! مجھے پھونکا اور جان دی ۔
خاکی!
یہ یاد رکھنا کہ تمھیں جب جب کوئی بات، منظر، کوئ جگہ لگے کہ یہ ہوچکی ہے تو اس کو اک نشانی جاننا کہ تم کو میں نے تخلیق کرتے وقت یاد کے تار ساتھ جوڑ دیے تھے ...جب جب تجھے وہ تار جڑے ملتے ہیں تو ساز کی طرح بجتا ہے .....
خاکی تو کثیف ہے ....مگر تیری خلق احسن الخالقین پر ہے ...دیکھ تضاد ...میں نے نورکو خاک کے ساتھ ملایا ...تاکہ جان لو کہ تم مجھے کتنا یاد رکھے ہوئے ہو اور میں تمھیں کتنا یاد رکھے ہوئے ہوں ۔۔۔۔!

تیری پہچان کہ میری پہچان؟
اس پہچان میں کیسا ہیجان؟
ساز، تار مل کے بجیں گے
مٹ جائیں گے اب سب ارمان.
بلا لیجیے پاس اپنے مجھے
میرے مولا! تجھ پہ میں قربان
میں ذکر میں نہیں مگر پھر بھی مولا...
ہجر کے مار ے پھٹتی ہے شریان
زندگی کی اوقات کیا ہے میرے سامنے
کیوں نفس بنا میرا پھر تا ہے شیطان
بس تیری خوشبو سے من کا محل سج رہا ہے
دل میں مچل رہے ہیں جانے کتنے طوفان

جب تڑپ اٹھے روح
چمک اٹھے جب دل
فلک کرے سجدے
زمین کرے ہے شکر
یہ عہد انسانی نہیں
یہ عہد الہی کی نشانی ہے
رقم میری پیشانی پہ ہے
میں نے پایا تجھ کو انسان میں
میں نے دیکھا تجھ کو اشجار میں
تیرا جمال کانظارہ بہار ہے
تیری ہجر کی نشانی خزاں ہے
تجھے سنا پرندوں کی تسبیح میں
اللہ.ھو کی بولی بول
میرا ساتھ رشتہ جوڑ ...
مجھے اپنا ساتھی سمجھ
میں یارا تیرا پرانا ہوں
مجھے پانا کتنا سہانا ہے
میرا ادب تیری نشان ہے
ت .شاہد ہے مگر انسان ہے
میں معبود تو عبد میرا
میں الہ تیرا .....
کون تجھ میں سوا میرے

عشق کی ابتدا میں انسان کے دل میں کیا ہوتا ہے ۔ اپنا تصور دل میں گھومنا شروع ہوجاتا ہے ۔ میں ہی حقیقت ہوں مگر ایک پنجرے میں قید ۔۔میں ایک پرندہ ہوں جس کو پرواز ملی ۔۔۔۔میں شہباز ہوں مگر پھر بھی مجبور ہوں ، میں اڑتی ہوں ، پھرتی ہوں مگر قید رہتی ہوں ۔۔کب دور ہوگی یہ قید ؟ روح جب دیار اصل میں مقیم ہوگی تو سب حجاب اٹھتے جائیں گے ، اس جگہ جہاں سب کچھ اصل ہوگا اور اصل ، اصل کو دیکھتے اپنی پہچان کرسکے گا۔۔۔۔جس نے اپنی پہچان کرلی ، درحقیقت اس نے یزدان کی حقیقت جان لی ہے ۔۔۔وہ کن فکاں ہستی ہے ، جس نے ساز جسم میں اپنے اسرار چھپا رکھے ہیں ، وہ بس مطرب کی مانند گیت کی نئی دھنیں دیتا جاتا ہے ۔۔۔نور۔۔۔۔۔لو ! یہ دھن تیرے لیے ہے ، اس کو تو سُنا ہوں ۔۔۔۔


میں ؟
میں کہ گم اس کی بارگاہ میں۔
میں ریاکار ہوں مگر کتنا کرم ہے مجھ پر۔
میں با ادب ہوں ، سر اٹھاؤں تو کچھ کہوں۔
مجھے اذن گفتگو مل بھی جائے تو۔
آداب گفتگو تو نہیں ہے

کوئی تو ہو جو مجھے بتادے کہ میں نے اب تیرے پاس کھڑے زندگی کیسے گزارنی ہے ؟ میری روح تیرے پاس ہے اور جسم مادی ، مادی دنیا میں ۔۔۔۔۔۔میرا دل تجھے دیکھتا ہوں اور میں دنیا میں خود کو دیکھتی ہوں کہ نظر یار کی مجھ پر ہے ۔۔۔۔یار نے کرم کردیا ہے اور میں اس کے پاس کھڑی ہوں یا بیٹھی ہوں ، بیٹھی ہوں کہ یا جھوم رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میں نہیں جانتی ہوں ۔۔۔۔۔نہ کبھی جان سکتی ہوں ۔

۔
وہ تو حقیقت کو حقیقت سے ملا دیتا ہے ۔
جام سب کو کچھ اس طرح پلا دیتا ہے ۔۔۔
نشہ مئے سرور کا جاتا نہیں پھر کبھی
ہر روح کو مئے خوار بنا دیتا ہے
اس کی محفل میں جس کو ملے حضوری
رواں رواں پھر روشنی جہاں کو دیتا ہے
یہ کون میرے دل میں مقیم مجھ میں ہی
دل ِ مضطر کے اضطراب کو ہوا دیتا ہے
میں نے اس کو قریب سے دیکھا تو جانا
وہ تو ہر آئنے کو اپنا جلوہ کرا دیتا ہے
اس کو دیکھتے میں خود سنورتی جاتی ہوں
آئنہ کو آئنہ کچھ اس طرح ملا دیتا ہے
وصل کی مئے ابدی جس کو بھی ملے
ابتلا میں مبتلا میں بھی مسکرا دیتا ہے
خود کے گنبد میں کعبہ نور کو دیکھ کے
سجدہ شکر میری ہر رواں کرتا ہے
کبھی سبز گنبد تو کبھی حرم کعبہ بنتا ہے
جلوہ حق میں یار خدا جو دکھتا ہے ۔۔۔

سوچ

 ل کی خاموشی پر مستغرق سوچ کے پہرے ہیں. قلعہ بند اس سپاہی کی قید میں ہے. سیاہ تھی سوچ اندر، باہر نور کے پہرے تھے. نور کے اندر سیاہی کیسی؟ سیاہی کیا تھا، یہ حجاب تھا ...

کچھ الٹا دکھنے لگا ہے سیاہی کے گرد نور ہے. دل اس وقت جانب حضور ہے.

میں جو صحن کعبہ سوچ کو نور کی صورت طواف کرتا دیکھ رہی تھی، مجھے منظر سب الٹے دکھنے لگے تھے. جیسے حجاب سب ہٹ کے سمٹ گئے ہیں باقی سوچ میں نور باقی رہ گئی ہو ...


مجھے لگا کہ مجھ سے ایک وجود نکلا اور کعبے کے گرد طواف کرنے لگا. مطاف میں سوچ بیٹھی تھی گویا میرا حصہ نور کے پاس بیٹھ گیا ہو

کیا لائی ہو؟
کہا میں نے "دل "
کہا دل سیاہ ہے
کہا میرا رنگ کالا ہے
کہا حجاب کے دائرے سے نکلو
کہا کہ حجاب کے ساتھ نور یے
کہا دل میں فکر رکھو
کہا کہ دل دھیان میں ہے
کہا عشق کے رقص دیکھے
کہا کہ بہت دیکھے مگر کم ہی دیکھے
کہا عشق نور کی معراج سے ملتا ہے
کہا کہ دل میں اچھی سوچ کا گزر نہیں
کہا کہ سوچ میں نور بھرپور ہے
کہا کہ وہ تو طواف میں ہے، باقی سوچوں کا کیا کروں؟
کہا شعور دو سب عقلی دھاروں کو
کہا سب دھاگے حضور میں یے. مطاف سے نیلی شعاع فضا میں شرارے جیسے ابھری، میرے سینے میں پیوست ہوگئی. ...

اللہ ھو

 دل والے حاضرین! سُنو! اللہ کی ضرب سے ھو دکھتی ہے! جسکو ھو کا یقین مل جائے تو وہ ریت کے ذرے کی حرکت میں اللہ اللہ کا ورد پا لے گا، وہ پھوٹتی کونپل میں الا اللہ کا ورد پائے گا، جب کونپل نے کہا "میں نہیں تو ہے، تو کونپل پھول بن گئی، تو دیکھے تناور درخت، کہتا ہے "میں نہیں، تو ہے " ..... سمندر کا فشار دیکھا ہے؟ دیکھو تو! بولو تو! کس سے؟ سمندر سے! سمندر کے شور میں اللہ اللہ کی صدا ہے اور جب اس کی لہریں خاموش ہوتی ہیں تو "ھو ھو "ہوتی ہے



شور اور خاموشی کا فرق ہے، اللہ اللہ کرنے والا ہمیشہ خاموش ہوجاتا ہے، پھر ہر جانب ھو ہے!

دل کہتا ہے لکھ، پر سوچ رہی ہوں محورِ عشق میں نقطہ کیا ہے؟ نقطہ الف کے گرد گھوم رہا ہے اور میم کا سرمہ وجدانی ہے! عشق سے پوچھا میں نے "تیغ دل میں اتری؟ " جوابا خامشی کے لمحات نے صدیوں کا ناطہ توڑ دیا .....بولا اللہ کی صدا کا ھو سے کیا رشتہ ہے؟ کیا فرق ہے جب الف نکال دی جائے، للہ .... اللہ کے لیے، اللہ باقی رہ جاتا ہے ..... لام نکال دو .... لہ ... لا نہیں مگر ھو .... تو الف سے چل اور ھو تک آ ... فرق میں نے کہا وہ موجود ہے ... روح بولے .... اللہ ....دل بولے ...ھو! روح نے اقرار کیا، دل نے اسکو دیکھا، ثابت کیا اور یقین کیا ....

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ

اللہ ہمارے خیال میں بستا ہے! خیال تو قلب کی تہہ فواد میں چھپا ہے! جب تک قلب میں ھو کا ساز نہ بجے! وہ ملتا نَہیں! دل کی تہہ میں بس ھو ہے! قلب میں بس "لہ " ہے سینے میں للہ ہے اور سانس آنے میں اللہ ..... اللہ ہمارے مقامات سر سے سینے میں حرف راز چھوڑے جارہا ہے! جب فواد میں یہ ذکر جاتا ہے تو، فواد چار سو دیکھتا ہے اسکو فلک میں وہ دکھتا ہے، فواد کہتا ہے "ھو " ...... جب زمین کی ہستی میں جھانکتا اپنا نشان ڈھونڈتا ہے، تو جانتا بس "وہی ہے "

میں اپنے نشان ڈھونڈنے نکلا
اپنے پردے میں تو عیاں نکلا
زمین و فلک گورکھ دھندہ ہے
خاک بس جھوٹ کا پلندہ ہے
سچ سُچّا تری، مری صورت ہے
مری صورت؟ نہیں تری صورت
مصور شاہکار بناتا رہتا ہے!!!
تصویر کمال میں کرسی ءحال ہے
الحی القیوم کی پہچان کر لے
وجود سے لا، وجود سے وہ ثابت
تو ہو جا صامت، وہ ہے قائم
اس کے قیام میں نور النور ہے
اس کی بات ہے، یہ مری بات ہے؟
رات ہے؟ نہیں رات ماہتاب ہے

کعبے کو چلیں؟ دل میں اک کعبہ ہے جس سے نور کی شعاعیں فلک تک جا رہیں! قندیل روشن ہے! قندیل میں طاہر، مطہر، منور، مجلی نور ہے! عشق مخمور ہے! عشق میں ھو کا ظہور ہے! اے کعبہ ء عشق! چل نماز عشق ادا کریں! طوف حرم میں محجوب ہے وہ، چل کالا کپڑا ہٹا دیں! ....کالا کپڑا ھو ہے! باقی عالم رنگ و بو ہے۔

رنگوں میں ڈھلی صورت

 کیا علم تھا کہ مرض عشق ہوجانا ہے. جتنا اس مرض سے بھاگا جاتا ہے اتنا یہ جان کو لگ جاتا ہے. پھر گریہ بھی کیا، لہو بھی آنکھ کے پار ہوجاتا ہے .. بدلے میں جفا رہ جاتی ہے. کہنے کو سوداگری نہیں محبت کہ بدلہ مانگا جائے مگر جس دل میں محبت کے بے تحاشا سوراخ ہو، اسکے پیالے سے سب باہر آتا جاتا ہے .ہر آنسو آیت بن جاتا ہے اور ہر نشان میں خودی جلوہ گر ہوجاتی ہے. یہ وہ مقام ہے جس میں ہر شے آئنہ ہوجاتا ہے. درد سے پُر ہے دل، جان بلب ہے، شکستگی پر غشی سی طاری ہے، گماں ہوتا ہے نزع کی ہے باری،


طبیبا! تخلیہ! درد ہمارا مداوا
طبیبا! تخلیہ! درد میرا تماشائی
طبیبا! تخلیہ! درد محرم راز ہوا
طبیبا! تخلیہ! درد سے پُر میرا کاسہ
طبیبا! تخلیہ! دم دم میں ہمہ ہمی
طبیبا تخلیہ! شور کی ہے کمی
طبیبا! تخلیہ! زندگی ہے بچی
طبیبا! تخلیہ! رقص جگر مانند بسمل
طبیبا تخلیہ! شوریدگان عشق کی ذاتیں
طبیبا تخلیہ! دل میں پری چہرہ کا نقش

نقش جمال سے جلال میں محو کمال نے فنا کے رہ میں حائل ملال سے زوال کا.پوچھا. زوال نے رستہ روک کے ملال کے سیلاب بہا دیے. افسوس مکان شہر سے نیچے تھا. پانی پانی دل اور غم بہتا ہے نہ کوئ ہے جالی ... اس خیال میں درد کی تجسیم نے کیا حال کردیا ہے. دل میں وہی ہے، میرا دل مجھ سے شمیشر بکف ہے کہ
من تو شدی ...

تحریر درد کی دیوار پر لکھی گئی ...کچھ حرف منقش ہوئے

آؤ سوختہ جگر! آؤ مرض عشق کے اسیرو! آؤ چراغاں کریں درد سے. آؤ شام غم میں درد سے روشنی کریں کہ ایندھن یہی بچا ہے ... لہو نکل رہا ہے اور لفظ بسمل کا رقص دیکھ رہے.

بسمل کے رقص کا تماشا سب نے دیکھا
کسی نے تھام کے ہاتھ آسرا نہ دیا

مثال دوں بھی تو کیا دوں جب ارسطو نے
کسی بھی طور فلاطوں سا حوصلہ نہ دیا

رنگ میں ڈھلی ہے اک صورت ہے وہ صورت رسول معظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شبیہ ہے. جب وہ دکھے تو سارے درد ماند پڑنے لگنے لگتے ہیں. جیسے درد کی چاندنی کا شمس کی بینائی کے آگے کیا سوال! دکھ تو شمس کی روشنی کا ادھورا حصہ ہے. آفتاب ہے مثال روشنی کمال ذات پر دیکھا جانے والا وہ لب بام پر گلاب ...گلاب پنکھڑی سے ہونٹ پر کھلتی مسکراہٹ اور دندان مبارک سے نکلنے والی چاندنی ..دل کو دکھے تو سہا نہ جائے. دل دیکھی جائے عالیجناب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ریشم ریشم زلف ..وہ زلف جس کے تار تار کو ہوا چھو کے نازاں ہوں ..ہوا کی ٹھنڈک وجود اس لیے آئ کہ بال مبارک سے چھو کے گزری تھی اور عالم کو تحفہ دیتی رہی. اے باد صبا تجھ کو لاکھ سلام کہ تو محبوب کے در سے گزری ہے. ... آقا کی روشن آنکھ صبیح چہرے پر ایسے ہیں جیسے خواب کے بعد صبح ہو جائے ..جب آنکھ نیم وا ہو تو شام سے رات کا گمان ہو اور جب کھلے تو کائنات کا گمان ہو ...جب بولیں تو پھول گرتے محسوس ہوں. جب مسکرائیں تو کائنات مسکرانے لگے ...جب ہاتھ اٹھائیں تو روشن تجلیات کا ہالہ دکھنے لگے. جب کہ پیشانی کے خط پر کسی شمسی کا گمان ہو گویا شمس کی ذات میں ہزار شمس رکھے ہوں ... گویا لاکھ نظام و عالمین کا مجموعہ ہو ...اے شمس تو اک نظام کا مرکز. آقا کئی شمسین کے مرکز ...جو چہرہ تکے تو ساکت ہو جائے، جب ہوش آئے تو اصحاب کہف والوں کا سحر ٹوٹ جائے. رات کو بیٹھنے والے دیکھتے ہیں کہ چاند بھی آقا کی روشنی سے روشن ہے