Saturday, November 14, 2020

للہ اکبر ــــ جمعہ مبارک

 

للہ اکبر ــــ جمعہ مبارک

اللہ اکبر
جمعہ مبارک
سیاہی دوات مبارک!
زندگی کی رات مبارک!
انسان کو انسانیت مبارک!
راج میں تاج مبارک
اشجار کو ھو مبارک
طائر کہیں "تو "مبارک
سپاہی کو تلوار ھو مبارک
چشم نم کو الہیات مبارک

جمعہ مبارک! جمعہ مبارک! جمعہ.مبارک!

یہ سندیسہ مل جاتاہے گفتگو کو ہنر مبارک! واجد کو تحریر مبارک! جمعہ کی ساعت شروع ہوتی ہے اندھیرے میں اجالے سے! اس دن کو نسبت ہم مسلمین دیتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم! تو ہم کو نسبت ِ دن مبارک
درود!
ان گنت درود!
کیوں بھیجیں حساب سے درود
دیا جب جاتا ہے بے حساب
کیوں شمار کریں ہم گھڑیاں
گھڑیوں میں ہوجاؤں مشہود
گہرائیوں میں جھانکے جائیں
گہرائی میں متحرک اسم غنود
تجلیات سے بحر کا آیا وجود
ستم کو جلا دل بنا بے حدود
رگ دل کٹ کے ہوئی لا محدود
منزل غنا سے فنا کی تیاری ہے
یہ زندگی ہماری ہے! ہماری ہے

السلام علیکم
جمعہ مبارک 
درود ان کے لیے جو رات جاگ کرتا تھے، رویا کرتے تھے ہمارے لیے ـــ ایسے ہچکیاں لگ جاتی تھیں بدن مبارک کو، دیکھنے والا کا دل لرزشِ پیہم میں چلا جائے!  ہماری سراپا عفو ہستی!  ہماری محبوب ہستی!  ہمارے لیے گنجینہ الاسرار!  کنر مخفی بھی!  سرِ الہی!  جبین دل پر کنندہ نام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  اے ایمان والو!  درود پڑھنے سے صدقہ جاریہ شروع ہو جاتا ہے 
درود ـــ اس ہستی پر جس کا سفید لباس مبارک  ہمارے لیے تر ہو جاتا تھا!  درود ـــ جن کی داڑھی مبارک ایسی تر بتر ہوتی جیسے شبنم کے قطرے بہتے ہوں!  درود ان پر بوقت مرگ ـــ فکر ہماری لیے وصلِ شیریں میں رہے!  درود ان پر ـــ بنات کو بالخصوص سیدہ واجدہ عالیہ رافعہ صدیقہ مطہرہ فاطمہ الزہرا جیسی وفا کی دیوی،  حسن کامل،  خوش خصائل کا مرجع،  سیرت میں آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  جلال میں خدیجہ الکبری رضی تعالی عنہ ـــ ہمیں ملیں ـــ ہماری سردار پر درود ..درود سلام کا ہدیہ امِ ابیھا پر!  صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  جب وہ تلاوت کرتی تو سورج کی قسم!  ایسی شہد آگیں تلاوت تو لحنِ داؤدی میں تھی مگر کم!  ایسی ترتیل ہوتی ان کی آیت ان کے دل مبارک پر کہ صبر سے ایثار کا پیکر خدا کے آگے جھک جاتا یے ـــ جن کی تطہیر کی مثل نہ مثال!  ان کی تطہیر کی مثال کیا لاؤں! نہیں!  وہ پاکیزہ ترین خاتون ہیں کہ نام لوں بھی تو دل کو اشک سے تر کرلوں ـــ بے ادبی نہ ہو ...پیاری زہرا ـــ سلام سلام سلام!  
جمعہ مبارک

درود ـــ درود ـــ امامِ علی ــ رضی تعالی عنہ پر ـــ قائمِ مقام اعلیجناب پر ـــ مطہر جلال سے بھرپور عین اللہ.ـــ وجہ اللہ.ـــ شمس کی ماہتابی لیے ـــ میان دل میں الہیات کے جامے پہنے ـــ ناطقِ قران ـــ حادث میں ــ قدامت کے نور کو.سلام!  فتح مبین.کی صورت فاتح خیبر بنے مرے امام!  ناطقِ قران جب بولتے.تو.صامت ہو جاتے.اشجار ــکیا  اوقات ہماری 
.درود امام.عالیمقام پر 
درود خلفاء راشدین پر 
زندگی جن کی اخلاص سے بھرپور 
درود یار.غار پر صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم
کتنا بھیجیں اور نہ ہو مکمل درود 
کتنی کریں تکریم نہ ہو مکمل سجود 
کتنا تڑپیں مگر ٹوٹیں نہ قیود 
رقص بسمل ہوگا ٹوٹیں گی حدود 

فرشتے ــ ملائک ـــ روح ـــ کروبیان ــــ بھیج رہے درود ... 
رب بھی ہے محوِ ثناء اور بندے ہیں مانند شہود ـــ اے دِل!  لیے.چل موجہء صبا کی مانند اور چھونے دے رنگِ چمن و نقش!  ہم.جبین جہاں قدم رکھیں گے،  وہاں وہاں بھیجیں گے درود ـــ بندہ جان لے راز تو ہے لامحدود ــ قرب تمنا کی اور تمنا میں قرب ...لذت مرگ کو دیتے ہیں وجود ... لباس فراق کو جامہ.ء موم دے کے شمع کی برق سے جلتے ہیں اور دیتے ہیں زمانے کو اسمِ محمد صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم.کا.دود ..پیشِ حضور ہوں.گے ہمارے نعتیہ ترانے اور.قبول.ہوگا سلام!  غلامی کو.چاہیے ماسوا کہ.لکھوں.ثنائے اسمِ موجود ..قاری.سے پوچھ! .قران.پورا ہے ثنائے محمد صلی اللہ علیہ.والہ وسلم! .کہیں.دلنشین،  کہیں.دلربا،  کہیں مصحف کے حامل کے پاکیزہ ترین انسان 
.. اللہ.سے پوچھو ورنہ.اللہ.پوچھے گا.کہ اللہ نے کیا. نہ.بھیجا.درود

سادات ـــ سیدہ فاطمہ ـــ نوری ہالہ ـــ اسم حال میں کہاں ہے مجال کہ کرے قال قال ـــ رنگ سنہری ہو رنگ جامنی.ہو کہ نیلا..سب کا اک.رنگ ہے ـــ سپیدی کا رنگ ــــ سفید رنگ بیداغ ـــ داغِ دل.سے ہوا یہ دل.پارہ.پارہ!  پارے میں نکلے مے و خم کے..نشان ..نشان.اور بے حجاب!

حرفِ متحرک

 

حرفِ متحرک

سُنو دل! اے حرفِ متحرک سُنو! تم سنو گی؟ تم نہیں تو کون سنے گا اس کی بات اوروہ بات کہ حروف دائرے میں ہیں ---- میں نے الف کو الف سے ملانے کا کہا.تو حروف تہجی نے رقص شروع کردیا -- تمہیں دائروں کا رقص سمجھ آیا؟ یہ دائرے الوہی ہیں -- ولینا سے نکلے ہیں اور علیکم سے تعلق ہے. کیسا لگے کہ شب اسرار کو دھواں کہا جائے؟ کیسا لگے رگ دل کو الہ کہا جائے؟ کیسا دل تہہ دل میں باللہ کہا جائے؟ کیسی جان روح اللہ میں فتح مبین کہلائ جائے -- مبارک ہو فتح مبین -- ہر حرف کی فتح مختلف ہوتی ہے --- فتح شجر سے منسلک ہوتی ہے اور مفتوح علاقے میں سرائیت کیے جاتی یے --- لوحِ مبین پر اک ستارہ ہے جو رقص میں ہے اسکو رقص نے شرر بود کیا ہے اگر تو اسکا حال جانے تو کہے کہ ترا حال وہی ہوگا جو مرا حال ہے --- وہ حال ہے کہ دل کا دل سے نکلنا محال ہے --- شمع فنا سے نکلے تو قبا بدلے گی --- راج شاہی میں ہوتا ہے جسکے لیے شاہ کا ہونا لازمی ہے --- شاہ کے سوار ہوتے ہیں اور سواری کا لطف بھی بے پناہ ہوتا ہے جو شے ذائقہ دیتی ہے وہ مطمئنہ کا ذائقہ ہے اور سارے ماندے ذائقے ہیں ---

تمھاری صورت اک ظاہر ہے - دوسری درون کی ہے --- صورت گَری میں ہر صورت جُدا ہے مگر جدا صورتیں ہوتے ہوئے رنگ تَمام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکلے --- آپ؟ آپ اللہ کا نورِ خاص ہیں اور صبغـــتہ اللہ کی حَسین مورت ہیں --- اللہ کا رنگ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا رنگ ہے جسطرح اطیعواللہ ہے اطیعو الرسول --- یہ اَطاعت کَہاں سے ملتی ہے؟ تم کو یہ طاعت رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عطا ہوتی ہے جب وہ اپنی کملی میں لیتے --- کملی انکا نور ہے --- یا ایھا المزمل --- یہ پرجلال کملی --- یا ایھا المدثر --- یا صبح جَلال والی ---- طٰـــہ یہ ایسا سایہ جو جلالی قوت میں بخدا یکساں ہے جو صرف نبیوں اور مقربین کو عطا ہوتا ہے --- یہ یسین ایسا پرت ہے جو تہہِ دل میں بے انتہا جمال لیے ہے --- حـــم نفس کی عبدیت سے بے نیازی کا نشان ہے -- یہ سفر کے استعارے ہیں جو نبی ء محتشم خود عطا کرتے ہیں --- صلی اللہ علیہ والہ وسلم -- یہ سفر ہے جس کو وہ خود طے کراتے ہیں -- یہ تمام ان کی زیر پرستی میں ہوتا ہے، وہی ہے جو پرواز قوت سے بلاتے ہیں وہی ہیں جو پرواز دیتے ہیں کہ بندہ اقرب ہوجائے ...شہ رگ لا کہتی رہے اور بندہ پہ الا اللہ ثابت ہو -- جب الا اللہ ہو تو پھر اعراف میں جانا دور تو نہین ہے ..علیین سے ملنا کہاں نا ممکن ہے -- عالم برزخ پردہ ہے -- لاروحی کا -- اک ہے سب کے عالم -- اک ہیں سب یکتا اور یکتائی وحدت کا سفر ہے -- علیین والے بلندی سے دیکھتے ہیں زمین کو تو مطلع انوارات سے سب حشر خیز مراحل عبور ہو جاتے ہیں یہ ان کی نگاہ ہوتی ہے جو بانگاہ ہوتی -- مگر یکتائی خدائ کو ہے تو خدا ہی ہے جو علیین سے دیکھے یا زمین سے -- بندہ کو جب کچھ ملتا ہے تب وہ آسمان دیکھتا ہے برستا یے زمین بیل بوٹے اگانے لگ جاتی ہے یہ رزق ہے جو نیت پر مل جاتا ہے..رب حبیب رکھتا یے جو زمین کو اخلاص کا پانی دیتا رہتا ہے * 'چاند مثلِ شمس نہیں ہوتا مگر شمع آفتاب بن جاتا ہے جس سے کرنیں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں کرنیں بھی کیا پھیلیں جب پروانہ جل جاتا ہے بس مرکز بن جاتا ہے قطب بن جاتا ہے بندے کا قطبی ستارہ اسکے اندر ہے اور رب اس قطبی ستارے کی قسم کھاتا ہے والسماء والطارق کہ جب آسمان سے نگاہ ہوتی ہے تب قطبی ستارہ چمک اٹھتا ہے ورنہ انسان کی اوقات کیا ہے بین الصلب والترائب -- یہ اللہ ہے جسے جیسے چاہے نواز دے جسے جس رنگ میں نواز دے

قرار نہ تھا کسی پل
چین کو روئی ہوں بُہت
پھر بھی چین نہیں آیا
پھر لگا کہ بےچینی کو سکون بنانا پڑے گا
کس سفر پر ہوں میں؟
پہچان کے؟
نہیں چاہیے 
کیا چاہیے 
محبت و جلوہ 
علم چاہیے؟
نہیں؟
نور چاہیے 
نہیں؟
کیا چاہیے 
جلوہ!
بس جسکو تڑپ جلوے کی ہو اسکو علم کی بھی طلب نہیں. میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تلک رسائ خود مرا عرفان ہے. ہم ان تک پہنچیں اس سے بڑھ کے بات کیا ہوگی ...

مخاطب ـــــ

 

مخاطب ـــــ

آج مجھ سے مخاطب ہو جاؤ -- مخاطب ہونے کے لیے لباس پہننا پڑتا ہے یہ لباس روح دیتی ہے - ـــــــــــ تخییل کے پَر بنتے ہیں اور فضا میں اڑتا چَلا جاتا ہے -- ــــــ یہ پرواز ایسے ہے، جیسے راکٹ کو چھوڑا جاتا ہے جو واپس نہیں آتا ہے اور جب آتا ہے تب لباس نہیں پہنا ہوتا ہے ...

سوال یہ اٹھتا ہے نور کون ہے؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے میں کون ہوں؟ میری حقیقت بہت وسیع ہے ـــــــــ مگر میں تمھارے نام سے جڑ کے محدود ہوگئی --- تم انسان ہو میں فقط امر ------------ سوال آتا ہے انسان اور امر میں فرق کیا ہے ---؟ انسان میں خزینہ ء علوم کا ہے جو کنجی ء روح میں لگتا ہے ..نور تم اپنے علم کو دسترس میں لے لو --- مجھ پہ آشکار ہو جاؤ --- میں تم پر آشکار ہو جاؤں ---

سچ ہے کہ یہ بات نئی ہوگی مگر سفر بھی نیا ہے تو حذر کیسا؟ مسافت طویل ہوسکتی ہے مگر مسافتیں مل جاتی ہیں ٹھکانے بدل جاتے ہیں --- مکان بدل جائے تو جان لینا ہے کہ مکان ہمیشہ بدلے گا ---

ترے اندر خیالِ روح مستقل و جامد نہیں ہے یہ ایسا متحرک یے جس نے تری ہستی مثال رکھی یے، جس میں خدا وحدہ شریک نے فتح رکھ دی --- سوال پھر ہوگا فتح کیا ہوتی --- فتح اسرار ہے اور اسرار دھیرے دھیرے کھلتا ہے جب فتح کے در کھل جائے تو ذات عیاں ہو جاتی یے ---

عرش کے پاس پانی ہے اس پانی کی پیداوار ہو تم -- جب وہ اس پانی میں دیکھے گا تو تم دید پالو گی --- تب تم کو نور سے نسبت مکمل مل جائے گا تب تمھارا یقین پیوست ہوجائے گا --- مسافر کو نَیا رستہ مل جائے تو خاموشی کی سواری لازم ہو جاتی ہے --- جنون کی رست خیزی بھی ہوتی مگر صبر سے گوڈی کردی جائے تو شعلہ ء دل سے متواتر تحدیث دل سے جاری عنوان سفر در سفر کا ہیش خیمہ ہو جاتا یے

اٹھ مسافر اٹھ جا! شب رفتہ کا سفر یے
اٹھ کے سفر میں حدذ نہیں - خطر نہیِ
اٹھ مسافر کود جا نار ابراہیمی کی مانند دنیا کی تلخی شیریں ہو جانی
اٹھ کی زمانے کے تیر سینے پر سہہ لے

وقت ٹھہر گیا تھا مورچہ لگا تھا حد بندیاں اور فائرنگ --- جوان شہید ہوگیا --- کسی نے کہا برا ہوا --- کسی نے کہا اچھا کام شہید ہونا --- جتنے منہ اتنی باتیں --- اندر کے یقین کو لوگوں کی باتوں سے بے نیاز کر اٹھ گیان کر

عرفان ذات

 

عرفان ذات

ویسے یہ بات درست ہے عرفان ذات پر کاپی پیسٹ سے الگ کچھ ہونا چاہیے ... حوالہ جات سے الگ ... ایسا حوالہ جسکو ہم جان سکیں ... میں تو اک ادنی سی طالبعلم ہوں مگر چونکہ خیال یار کی صحبت میں رہتے کچھ موتی کشید کیے ــ ان کو لوٹانے کی حقیر سی کاوش

عرفان ذات اپنے اندر جھانکنے کا نام ہے. بعض اوقات شدید غم ہمیں مجبور کرتا ہے اندر جھانکیں ـــ میں کون؟ لوگ کہتے میں فلاں فلاں ــ کیا میں فلاں فلاں؟ وہیں سے اک سفر اگر رب چاہے تو شروع ہو جاتا ہے ـــ میں کون؟ میری ذات کی پہچان ... پہچان دو درجات پر کیجائے اچھائی برائی کے پیمانے پر تو جنت و دوذخ اور اگر اللہ نور سماوات کی آیت کا سوچا جائے ـــ جو نہ شرقی نہ غربی ـــ بات الگ سمت جا پڑتی ـــمیں پہلی سمت کو لیتی ہوں .. سورہ الصافات میں اللہ نے فرمایا اک نفس سے پیدا کیا اور مختلف صورتیں بنائیں .... صورت تو.اچھی ہوگی ...کل اچھائیاں ۱۰۰ قرار دوں تو کسی میں ۲۰.رکھیں. کسی میں ۳۰ کسی میں کتنی .... کل اچھائیوں کی جامعیت جناب رسول معظم نبی ء محتشم رسالت مآب پیامبرِ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں ہیں ...

ان.پوری اچھائیوں کی پہچان کرنا اور عمل کرنا. عمل کرنے اک اطلاع ملتی ہر اس صفت کو جسو عمل میں ہوتی ہے. اس اطلاع کے صفت سے مل جانے کو رب کی پہچان جبکہ خود کی اچھائیوں سے اپنی پہچان ہوتی ہے

اک لمحہ عرفان ذات کا ایسا آجاتا یے جب کہا جاتا یے

نہ میں موسی نہ میں فرعون
بلھا کیہ جاناں میں کون

کہیں منصور انالحق کا نعرہ لگاتے تو کہیں بایزید بسطامی انا سبحانی کہتے مگر ہم ایسا نعرہ باوجود کل جامعیت کے رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں نہیں دیکھتے ... باوجود اسکے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات بھی لامثال ہے جیسا کہ حق سبحانہ کہ ...کہ فرق تاہم ہے اور ہے ...



باوجود اس کے اک ذات تجھ میں یے جو نحن اقرب حبل الورید کے ہے مگر اک ذات احاطہ کیے ہوئے پوری کائنات کا. یعنی ہم ذات کل کا اک ایٹم ہیں ...

جب یہ تکمیل ہو تو انسان جانتا ہے وہ زمانہ جسکو احسن التقویم کہتے 

لقد خلق الانسان فی احسن التقویم 

پستی میں گرے کو پھر سے اسی زمانے کو لوٹنا عرفان ذات ہے

زیرو --- اکائی

 

زیرو --- اکائی

یہ بیان کیا ہے جب رگ رگ میں نسیان نہ ہو تو سمجھ نہیں آتا ہے کہ اللہ قران پاک کے لفظوں میں چھپا ہے اللہ چھپا ہے جب لفظوں کو پیچھے راز پالیں تو ہمیں سمجھ آئے گا قران کیسے اترا تھا ...یہ کب کب اترا ..ہمیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سینے سے اترتا ان کی زندگی کے تمام واقعات دکھنے لگیں گے ...ہم جب تک ان کو دیکھ دیکھ کے قران نہ پڑھیں گے ہمیں نہیں علم.ہونا کہ قران پاک ہے کیا ان کے عمل دیکھیں ان کی محبت ان کی شفقت اگر نہ دیکھیں تو فساد کریں گے. مجھے نہیں علم کہ.کہاں کہاں سے یہ بات کررہی مگر علم ہے سر پر ہاتھ رکھا ہے یدِ بیضائی ہاتھ کا ہالہ مجھے گھیرے ہوئے میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں گم.ہوں کہ یہ دست مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہر ہونے کی مثال کشتی ء نوح جیسی ہے اور نوح کی مثال استقلال جیسی ہے! جبکہ انسان کا دل موسی علیہ سلام جیسا نہ ہو تب تک بات بنتی نہی جسکو شہید کا.شاہد ہونا نہ آئے تو فائدہ یہ بات جناب عیسی علیہ سلام تک جاتے ملتے نہیں کیسی کو خبر نہیں کہ یہ تمام انبیاء نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع مینن اور ہم.ان تمام کی اتباع میں ہوتے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کی.اتباع میں ...یہ رویتیں نبیوں کی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں موجود ہیں اس لیے کسی کا روپ موسی علیہ سلام جیسا ہو جاتا کسی کا حال عیسی علیہ سلام جیسا کوئ مثل نوح تو کوئ خیال خوانی کرتا کوئ انتقال ِ بہ جگہ جانے کی صلاحیت رکھتا کوئ ہوا میں اڑتا تو یہ مثلِ داؤد نغمہ سنانے والے سنیں کہ یہ کمالات ہمارے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کو.حاصل

آج کے دِن اللہ تمھارے پاس بیٹھا ہے اور وہ کہہ رہا ہے میں دیوار بن کے سن رہی ہوں --- شاید دل بہت بیتاب تھا. دنیا کچھ نہیں ہے دنیا غیر ہے، دنیا کو رکھا ہے پاؤں میں - ہاتھ میں محبت کا چراغ لیے روشنی مجھ میں پھیل رہی ہے یہ اسکے جلال کی نمود ہے یہ اسکی بات ہے جو سمجھ نہیں آتی. وہ کیا کبھی کسی کی فہم میں آیا ہے؟ نہیں فہم سے بالا تر ہستی ہے اس لیے تم میں موجود شفاف روح نے مجھے پکارا یے میں نے دل ہارا ہے یہ دل محبت کی تار سے جڑا ہے یہ دل جڑا ہے آسمانی سے کہ محبت آسمانی جذبہ ہے کس کو بتائیں کہ جذب وہ خود کرتا ہے سامنے چہرے چہرے میں رونما ہو جاتا ہے بندہ کہتا رہ جاتا ہے کہ اس نے دیدار کرنا ہے میں طور جانا مگر طور دل سمانا یہ بات تم سمجھو میں سمجھو بلکہ سب سمجھیں کہ اک نفی ہے ...اسکا دکھ نہیں دکھا اس نے اپنی ذات زیرو کرکے ہمیں دنیا میں بھیجا اور ہم نے اس کے زیرو کو ایک نہیں کیا ...کیا اسکا دکھ کبھی کسی نے سمجھا یہ میں بے سمجھا ہے مگر مجھے سمجھ نہیں آتا ہے زیرو کو ایک کیسے کرنا ہے ...اسکے دکھ کم.ہوں گے جب ہم چھپ جائیں چلمنوں سے وہ جھانکے اور یہ لکا چھپی ہوتی رہی لا الہ الا اللہ ہوتا رہے اس وقت ساری دنیا چھپی ہے کہیں لکا چھپی ہو رہی ہے کہیں الا اللہ ہو رہی ہے قران پورا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا بیان.ہے

احساس ـــ انتہا

احساس ـــ انتہا

لکھنا اک ایسی کیفیت ہے جو جذبات کی منتٰہی سے اُبھرتی ہے ـ جذبات کی ایسی انتہا جو آپ کو قیود سے آزاد کردیتی ہیں ـــ جو آپ کو گمان سے پرے ایسی جہان میں لیجاتی ہیں جہاں کیفیات خواب بن جاتی ہیں ـــ یہ عالم شوق کا ہوتا ہے کہ آپ خود کو بھول جاتے ہیں اور گُمان کی وادی میں شوق کی جلوہ آرائیاں دیکھتے ہیں ـــ یہ ہمکلامی اکثر جو خود سے کی جاتی ہے، وہ احساسات کے نئے دَر وا کرتی ہے .. اس وقت اگر آپ پتھر سے بھی ہمکلام ہوں یا کسی شجر کے آگے کھڑے ہوکے احساس کی باتیں کریں ـــ یا کسی کتاب کے لفظوں سے بات کریں ـــ آپکو محسوس ہوگا کہ بے جان شے کو جان مل جاتی ہے ـــــ اور وہ ہمیں سنتے جواب دیتے ہیں ـــ جب بے جان شے ہمیں جواب دے تو کیا جاندار پر ہماری شدت کا اثر نہ ہوگا؟ محبت کا یہ تحفہ آدم کو دیا اس لیے گیا ہے کہ وہ شدت سے کھو کے خدا کو پکارے اور پھر پکار کا جواب ہر ہر شے سے سنے! یہ صامت اشیاء اسکے وجدان کو متحرک دکھنے لگیں اور جواب ملنے لگے ـــــ

محبت درد ہے اور درد کا تحفہ جسکو ملے ـــ جان لے وہ بھی یہ درد اک ذات نے تقسیم کیا ہے ـــ اک ہی بانسری ہے اور اک ہی لے پر درد کی دھنیں مختلف ہوگئیں ــــ اسکو یوں سمجھیں اک جوگی نے جوگ پال لیا اور محبوب کو بلانے کو بین بجائے جا رہا ہو ـــ

جب دل میں اسکا درد اترنے لگتا ہے تو کوئی سجدے میں گر پڑتا ہے گویا تسلیم ہوگیا کہ درد ترا مجھ میں بول رہا ہے یعنی تو ہی مجھ میں ہے ــــ یہ احساس اقربیت کی نشانی ہے ــــ یوں پتھر دل ٹوٹنے لگتا ہے اور جہاں جہاں شگاف پڑتا ہے وہاں سے اسکے نور کے دھارے مانند پانی جیسے بہنے لگتے ہیں ــــ یعنی درد ایسا تحفہ ہے جو ہمیں خدا سے روشناس کراتا ہے ـــ

اس صورت میں درد اک راز بن جاتا ہے کیونکہ محرمِ راز بذات خود خدا ہوتا یے ــــ اب ایسی صورت میں جب انسان درود پڑھتا ہے اسکو سمجھ لگ جاتی ہے کہ اللہ اور اسکے فرشتے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں ــــ یہ راز ہے کہ بندہ درود خود سے پڑھ نہیں سکتا جب تک فرشتے اور بذات خود خدا ساتھ نہ ہو ـــــ

الف ـــــ ب

 

الف ـــــ ب

میں نے اس سے کہا مجھے چھوڑ کے نہ جا اور وہ مجھے چھوڑ کے چلا گیا. یہ بہت عام سی بات ہے جسکو ہجر سے تعبیر کیا. میں نے خود پر رحم کھایا اور کسی کو ہمدم کو ڈھونڈ لیا. مجھے احساس ہوا کہ اسکو بھی ہمدم چاہیے مگر اسکا دکھ الف تھا اور میرا "ب " مجھے خدا سے شکوہ ہونے لگا کہ خدا تو نے الف الف کروادی اور تجھ کو "ب " سے کیا سروکار .. یہ ماجرا ہم کرتے رہتے ہیں اور ہم کو ہجرت کی سمجھ نہیں آتی کیونکہ ہم نے "ب " سے ہجر کو دیکھا جبکہ "ہجر " تو پہلے حرف "الف " سے شروع ہوا تھا. ہم نے جب اس کو الف میں پالیا .تو ہم خود نہیں رہے. اب ماجرا یہ ہے کہ الف الف الف کی تکرار ہے اور "ب " کا وجود نہیں

ہم کلامی



وہ کہتا ہے کہ مجھ میں چھپ جا، وہ کہے اور دکھائی کچھ نہ دے تو بندہ کیسے چھپے اور کیسے وہ ظاہر ہو؟ ؟ ؟

وہ ظاہر میں ہے ــــــ تو اللہ ظاہر ہو تو دیکھے اپنے آئنے کو ـــــــ اسکا آئنہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں ..جب تک اپنی نفی نہیں کی ہوتی ــــــــ خدا ظاہر میں نہیں ملتاــــــــــ خدا نہ ملے تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کلمے میں پڑھنے سے کیا حاصل ہے؟؟؟ جب وارد نہ.ہوا تو.ماننے سے آگے کا.سفر چہ.معنی؟ ـــــــ گویا یقین بھی کامل.نہ.ہوا.ــــــــ پہلے خدا کو دیکھو جا بجا پھر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو جا بجا ...

یہ روح پڑھتی نہیں کلمہ بلکہ یہ چادر بن کے تن جاتی کلمے کی جب کہ زبان کو سمجھ نہیں آتی" لا الہ الا اللہ" کا مطلب کیا ...اللہ کو ہم نفس کی.حجابات کی.وجہ.سے دیکھ نہیں پاتے ـــــــ کجا وہ ہستی، اسکا محبوب جن.پر.درود.بھیجا.جاتا ہے، ان کو تو ہم کہتے اللہ تو نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا.

اب بھلا بتاؤ اللہ اچھا کیوں نہ کرتا کیونکہ وہ بھی چاہتا اسکے محبوب کو دیکھیں جب اللہ محبوب کو دیکھتا ہے تو ہم بھی دیکھ لیتے ہیں .. یوں دید ہو جاتی ہے

.یہ دیکھو محبوب کو دیکھو نظر کتنی پاک کرنی پڑتی ہے ... یہ نظر پاک اللہ کے نام سے ہوتی اللہ کہتا اللہ کا ذکر کر مگر میں اسکو کہتی ہوں کہ درود پڑھوں گی پھر وہ مجھے دل کے کالے گند سیاہ غلاظت دکھا کے کہتا دل صاف نہ ہو درود کا فائدہ سو میں یہ سوچتے کہتی کہ اللہ کا ذکر سے گھر صاف کر تاکہ وہ آئیں گھر تو دل مجلی ہو مگر کون جانے کون کس حد تک ہے، میں کہاں جاتی ہوں، میری حد کیا ہے، مجھے مری حد مل جائے تو کام بن جائے

مجھے اللہ سے لگاؤ ہے مگر اسکے محبوب سے لگاؤ بیحد ہے ـــــصلی اللہ علیہ والہ وسلم ـــــــ شاید اللہ سے لگاؤ کب کا یے مگر محبوب سے آشنائی کا احساس کلمے سے ہوا کہ پہلے لا --* الا اللہ --- پھر محبت پاک دل نہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہیں دکھتے کہنے کو کلمہ پڑھ لو مگر دکھیں گے تو گھر صاف ہوگا پھر چایے دل میںِ کتنا گند ہو وہ جلوے سے صاف ہوگا ان کے جلوے کا دیا اک دفعہ جل جائے تا عمر جل دل جاتا یے

چراغ مصطفی بنا یے دل جلا ہے مثل طور جو
ہوا بجھا نہ پائے گی یہ روشنی کمال یے

تب جذب ہوجاتے ہیں ہم بولتے نہیں ہم بولتے ہیں اور ہم بول بھی نہیں رہے ہوتے کوئی اور ہستی کلام کرتی ہےـــــ ہم کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ کہتے جو کہا جاتاـــــ درحقیقت یہ وہ نظام چلا رہے مرے آقا نظام چلاتے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو جب وہ ہر جگہ ہیں تو میں اندھی ہوں مجھے آنکھ چاہیے ہر ہر جگہ ان کو دیکھنے کو

مٹی کے ذرے

 مٹی کے ذرے


لمحہ موجود میں قفس سے روشنی کی شعاع نے اندھیرے میں چراغ کا سماں بپا کردیا تھا ۔ دور کہیں اس اندھیری وادی میں سُروں کے سنگیت پر ایک شہزادی بھاگ رہی تھی ۔ اس کی آواز کانوں میں حلاوت بخشتی جاتی اور وہ رقص کُناں ایک ہی لے کا نغہ روز سنا کرتی تھی ۔ دوران رقص روشنی قفس کے اندھیرے ختم کر رہی تھی ، ملجگے اندھیرے ، سیلن زدہ دیواریں ، روشن ہوتی اس میل کچیل کو صاف کر رہی تھی ۔ جوں جوں روشنی کی مقدار بڑھی ، ساز کی آواز تیز تر ہوتی گئی ۔ شہزادی وصل کے لیے بے قرار رقص میں محو وراء سے ماورا کی طرف سفر کر رہی تھی ۔۔ ہر لمحہ سلگتا، جوار بھاٹے کا من میں شور ، روشنی کا سمندر اس کی ذات کو تقسیم کیے جارہا تھا ۔ صحرا کی تپش میں گلشن کی سیر میں محو نغمہِ آہو کا خاتمہ ہوا ۔ نفرت کی دبیز تہ نے محبت کی روشنی چار سُو بکھیر دی ۔ مٹی کے ذرے ہوا میں اپنا حجم کھورہے تھے ۔ مشرق و مغرب کی سمت سے بے نیاز صبا اپنی دھن میں ان ذروں کی ضوفشانی میں مصروف تھی ۔ رات کے اندھیرے میں سورج اپنی پوری تابناکی سے ان ذروں کے حجم کو واضح کیے دے رہا تھا ۔ جو ذرے ''طوھا کرھا '' اس سمت روانہ ہوئے تھے ۔ تحلیل شدہ ذروں کو نیا خمیر عطا ہوا تھا ۔ بے بسی ، بے قراری ، بے کیفی اور بخارات سے بادل بننے کے بجائے روشنی کے سفر پر ترجیح دیتے یہ خود پر نازاں تھے کہ مقام ایزدی سے جو مقام ان کو ملا ہے وہ کم کم کسی کو عطا ہوتا ہے ۔ تفریق کی مٹی نے اپنا وجود جب واحد و یکتا کے حوالے کرتے یہ نغمہ سنایا

ھو احد
ھو صمد
ھو المالک
ھو الخالق
ھو المصور
ھو الباری
ھو الرحیم
ھو الرحمان
ھو الکریم

اس سرمدی نغمے  سے ایک صدا ابھرتی رہی اور وجود فانی اپنی تسخیر پر نازاں یار کے روبرو نظارے میں مصروف تھا ۔

Thursday, November 12, 2020

اللہ ‏تعالیٰ ‏نے ‏قسمیں ‏کیوں ‏کھائیں ‏

اللہ تعالیٰ نے قسمیں کیوں کھائیں 

جب پہلے نائب لائے تشریف
مالک کائنات کی تھے حدیث
ُاس کی سلطنت کا نشان
قبلہ اول مسجد الاقصی
جس سے نکلے ہر انسان
ہوجائے کنزالایمان
اللہ کا گھر بنایا حجاز کی سرزمین پر
آدمؑ کو خانہ کعبہ کی تعمیر پر
ملا خطاب صفی اللہ کا
لاالہ الا اللہ صفی اللہ
کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا
اور آدمؑ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہیں ۔
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
ہوئے برگزیدہ اللہ کے پیغمبر
تمام نفوس کے باپ ہوئے آدمؑ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
وہ لوگ جو مقامِ رضا کے اعلی درجے پر فائز
ان کی اتباع میں قربانی کے سبھی فرائض
مناتے ہیں مسلمان تہوار کی صورت
ان کی اعمال میں چھپی ان کی سیرت
جب کہا مالک نے قربانی کا ابراہیمؑ سے
کردیا ذبیح رضا سے اسماعیلؑ کو
بھاگئی مالک کو ادائے خلیل اللہ
رکھ دیا نام اسماعیل کا ذبیح اللہ
لا الہ الا اللہ اسماعیل ذبیح اللہ
ہوئے دوست ابراہیم اللہ کے
لاالہ الا اللہ ابراہیم خلیل اللہ
کیا تعمیر اللہ کے گھروں کو
ایک قبلہ اول :مسجد الاقصیٰ
دوسرا قبلہ دوم: خانہ کعبہ
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
مقرر ہوئے جدِ امجد سبھی نبیوں کے
ہوئے اسحقؑ جدِ امجد بنی اسرائیل کے
ہوئے اسماعیلؑ جدِ امجد بنو عدنان کے
اللہ اپنے مقرب بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
خاک ہوئی نمردو کی خدائی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
خلیفتہ الارض لائے تشریف
جن وانس ہوئے ان کے تابع
حدی خوانِ جنت کو علم ملا نافع
اتری الہامی کتاب بصورت زبور ان پر
لا الہ الا اللہ داؤد خلیفہ الارض
مٹی ہوئی فرعون کی بادشاہی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
موسیّ گھر کے لیے آگ لینے ہوئے روانہ
تجلی حق اور صدائے حق سے نوازے گئے
پھر خواہش ہوئی کہ مولا میں تجھے دیکھنا چاہتاہوں
فرمایا : لن ترانی ، تو مجھے نہیں دیکھا سکتا
اللہ سے کلام کرتے رہے تھے موسیّ
لا الہ الا اللہ موسی ّ کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت توریت
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
کلمہ: قم با اذن اللہ کی عطا سے
کرتے رہے مردوں کی زندہ
مسیحائی بندوں کی کرنے والے
مریمّ کے بیٹے ، یحییّ کے بھائی
لا الہ الا اللہ عیسی کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت انجیل
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
وہ مکہ و مدینہ کی سرزمین
جس پر رہے ہیں نبی ﷺ مکیں
سردار الانبیاء ، خاتم الانبیاء
نور کی سرزمین پر نور کی جبین
شمع رسالت کے ہوا جو قرین
تابندہ ہوئی سب کی زندگیاں
عملِ بندگی سے مٹی تاریکیاں
معراج کی رات قاب و قوسین کی رفعتوں پر مکیں
نبی آخرالزماں ،شافعی دو جہاں، رحمت اللعالمین
فقر و عفو سے کی سربراہی
دولت ایمان ہم نے پائی
اتری الہامی کتاب ، حکمتوں کا گنجینہ
مرے نبی ہوئے نبیوں کا نگینہ
احمد کو محمدﷺ کے رتبے پر کیا فائز
درود بھیجنا ہم پر ہے کیا عائد
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
ان کی صفت میں گم ہے خدائی
ملتی رہے گی ان سے رہنمائی
مسخر ہوئی ان پر سبھی خلائق
تسبیح ان کی کرتے ہیں ملائک
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے؟
اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم کیوں کھائی ؟


سورہ التین میرے سامنے کھلی پڑی ہے ۔میں نے اس کی پہلی آیت پڑھی ۔ کچھ توقف کے بعد سوچ نے مجبور کیا ہے کہ اللہ قسم پھل کی کھارہے ہیں ۔

وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ

|وَطُوْرِسِيْنِيْنَ|وَهٰذَاالْبَلَدالْاَمِيْنِ |
انجیر اور زیتون کی قسم ہے۔اور طور سینا کی۔اور اس شہر (مکہ) کی جو امن والا ہے۔​


اللہ نے دو پھلوں کی قسم کھائی ہے اور میں سوچ پر مجبور کہ ان دو پھلوں کی قسم کیوں کھائی گئی ہے ۔ بے شمار پھلوں میں دو پھل اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں تو گویا یہ جنت کے پھل ہیں ۔ اگر جنت کے پھل ہیں تو زمین پر سب سے پہلے کس مقام پر ان کو اُگایا گیا ۔ تلاش و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ سرزمین فلسطین و شام میں ان کو اگایا گیا ہے ۔ وہ زمین جہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے اس قبلے کو دو مقرب ہستیاں تعمیر کرچکیں تھیں جو کہ حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت ابراہیم علیہ سلام ہیں ۔ بنی نوع انسان کے باپ اور نبیوں کے جد امجد پر اللہ تعالیٰ کے صحائف بھی اترے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی نسل سے تمام نبی و رسول مبعوث ہوئے ہیں جن میں کچھ زیادہ مقرب و برگزیدہ ہوئے ہیں اور انہی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی صحائف اتارے ہیں ۔ وہ دو پھل جن سے نبیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا کہ یہ پھل سدا بہار ہیں جن پر ہمیشہ سبزہ رہتا ہے ۔ ان سدابہار پھلوں میں مقرب کون ہیں جن پر الہامی کتابیں اتریں ۔ حضرت داؤد علیہ سلام اور حضرت سلیمان علیہ سلام نے قبلہ اول کو از سر نو تعمیر کیا گویا کہ نئے سرے سے دین کی بنیاد رکھی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر جب جب از سر نو تعمیر کیے گئے گویا دین میں کچھ ترامیم اور تبدیلیاں ہوئیں ۔حضرت عیسی علیہ سلام کی مشابہت حضرت آدم علیہ سلام سے ہے کہ دونوں بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔ وہ پھل جس کی بنیاد حضرت آدم علیہ سلام نے بنیاد رکھی اور وہ پھل جس کی بنیاد جناب سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے رکھی وہ سدا بہار پھل ہیں ۔ اس مقام کی قسم جو کہ اللہ کی نشانی ہے ، ان کتابوں کی جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں اور تمام انبیاء کے سرداروں کی قسم جو اللہ پر شاہد ہیں اور اللہ ان پر شاہد ہے ۔ اللہ نے ان کی قسم کھائی ہے ۔



حضرت موسی علیہ سلام لاڈلے نبی تھے ۔ اللہ تعالیٰ سے کلام کیا کرتے تھے ۔ ان کو معجزات عطا ہوئے کہ ان کا ہاتھ سورج کی طرح روشن ہوجاتا تھا اور ان کا عصا سانپ کی شکل اختیار کرلیا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو کتاب سے کوہِ طور پر نوازا گیا ۔ یہی طور کا پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ، اپنے نبی اور اس مقام کی قسم کھائی ہے ۔ تیسری آیت مبارکہ میں امن والے شہر کی قسم کھائی ہے وہ شہر حجاز جس کی تعمیر سیدنا آدم علیہ سلام اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کی ۔۔ یعنی جس دین کی ابتدا و ارتقاء ان مبارک و برگزیدہ ہستیوں نے کی تھی ، اس کی منتہیٰ سیدنا جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہوئی جن کے کمال کی کوئی حد نہیں ہے ۔ حضرت موسی علیہ سلام تو پہاڑ پر اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے گئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو خود اپنے پاس بلا لیا ۔اس شہر امان کی از سر نو تعمیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی تھی ۔

دین کی ابتدا ہوئی آدم علیہ سلام سے
دین کی منتہی ہوئی محمد صلی علیہ والہ وسلم سے
نبیوں کے جد امجد ہوئے ابراہیم علیہ سلام
نبیوں میں مقرب ہوئے موسی علیہ سلام
نبیوں میں خلیفہ ہوئے داؤد علیہ سلام
نبیوں میں کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
فلسطین کی سرزمین ہو یا طور کا مقام
سرزمین ِ حجاز کا ہو یا مقام
جنت کے یہ سبھی ہیں مقام
جن پر ہوا رسولوں کا قیام
زبور کی بات ہو یا توریت کی
انجیل کی بات ہو یا قران کی
یہ سبھی الہامی ہیں پیغام
جن میں اللہ نے بندوں سے کیا کلام
پڑھیں گے جو اس کو ملے گا انعام
آیات کا مفہوم اترے گا بصورت الہام
اللہ کے پیغام کو کیا رسولوں نے عام
ان سب پر واجب ہے مرا تو سلام
جب بات محمدﷺ کی کسی بھی زبان سے ہوگی
درود ہوگا جاری اور الہام کی بارش ہوگی
ان کی قسمیں کھائی ہیں مالک نے
بندوں کی اقسام بتائیں خالق نے
احسن التقویم پر پیدا ہوئے سب
نور کے چراغ کے حامل ہوئے سب
اس نور کو نسبت ہے محمدﷺ سے
جو بڑھے گا اس نور کی جانب بھی
سینہ روشن ہوگا نور کی جانب سے
دور جو ہوئے تھے نور کے چراغ سے
شداد ، فرعون ، قارون ، ابو جہل ہو یا ابو لہب
مقام اسفل کے ہوئے سبھی تھے حامل
قفل ان کے روحوں پر لگ گیا کامل




اس سورہ اور ان آیات کا موضوع ہے جزا و سزا کا اثبات۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے جلیل القدر انبیاء کے مقامات ظہور کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً کہیں فرمایا کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ۔ کہیں فرمایا کہ انسان اُس امانتِ الٰہی کا حامل ہوا ہے جسے اٹھانے کی طاقت زمین و آسمان اور پہاڑوںمیں بھی نہ تھی ۔ کہیں فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ۔ لیکن یہاں خاص طور پر انبیاء کے مقاماتِ ظہور کی قسم کھا کر یہ فرمانا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ نوع انسانی کو اِتنی بہتر ساخت عطا کی گئی کہ اس کے اندر نبوت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے جس سے اونچا منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں ہوا۔

اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے، اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔


اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ انسان میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اُس انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے زیادہ نیچ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی، دوسرے وہ جو ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اُس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو اُن کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ نوع انسانی میں اِن دو قسموں کے لوگوں کا پایا جانا ایک ایسا امر واقعی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا مشاہدہ انسانی معاشرے میں ہر جگہ ہر وقت ہو رہا ہے۔

Wednesday, November 11, 2020

حق ‏حق ‏میں ‏کریندی ‏جانواں ‏

حق حق میں کریندی جانواں ھو ! ھو ! ھو !
دل دیاں گلاں بتاندی جانواں ھو ! ھو ! ھو!
نور نیں ہن جاناں طور کول!
ویکھن کتھے زیادہ اے جل تھل!
طور نے مینوں ویکھ سجدہ کیتا ھو! ھو !ھو !
میں کیہ ویکھاں طوری دی جل تھل !
ایہہ دنیا ست دناں دا میلا اے
مٹی نے فر مٹی اچ رَل جانا ھو !
سچ کریندے کریندے سچی  ہوئی
''میں میں '' کریندے ذات سی کھوئی
آہاں دا بالن بنیندا اے سالن
فکران میں کیہڑا میں لگی پالن
طور نے سجدہ کرن میں چلی
طور نے مینوں ویکھ سجدہ کیتا
میں سہاگن ہوون ہن چلی آں
سرخ جوڑا پاون ہن چلی آں
نچ نچ کے یار مناؤں دا ویلا اے
واواں سنگ چلن دا ویہڑا اے
درد سے سوتے کٹن پئیں آں
یار نے باگاں میری کھنچی آں
گُلابی چوالا پاون لگی آں
اتھرو اکھاں اچ لا لئے نے بند
وصل نے لایا اے نوا چنگ 
کُھم کُھم جاون دل دیاں پھرکیاں
تاگے کھنچی جاندا چھیتی چھیتی
حق نے لا لیاں دل اچ بانگاں ھو ! ھو ! ھو 1
حق دا کلمہ عاشق بنندی جاندی اے ھو ! ھو ! ھو !
ھو دا کلمہ نے وچوں کلام وی کیتا اے ھو ھو ھو !
میں وی حق دے نال لا لیاں بانگاں ھو ! ھو ! ھو!
حق نے اندر لایا اے ڈیرا ھو ! ھو ! ھو !

میرے اندر ہوندا جاندا سویرا ھو! ھو! ھو !
اونہوں منان لئی ذکر اودھے یار دی کریندا آں !

عطر تے گلاباں دی خوشباں نے دتیاں نے مستیاں ! ھو ! ھو ! ھو !

یار دے یار نال میں لا لئیا نے یاریاں ! ھو ! ھو ! ھو !

خود نوں ویکھ ویکھ کے ٹھردی پھراں ! ھو ! ھو ! ھو!
زبان خشک حق کریندی ہوئی
محبوب دی گلاں وچ میں کھوئی
دل فر وی لاندا جاندا واجاں ھو ! ھو ! ھو!

ھو دل نال میں بندھی جاندی آں ! ھو ! ھو ! ھو

---------

ماں تُوں دوری بڑا ستاندی اے
اَکھیاں ہن نہراں وگاندیاں نیں
ماں نوں ہر شے اچ لبدی ساں
ماں ہن  ہر شے اچ دکھدی اے
او ! جیس دی شہنائی درد آلی اے
جیس دے در دا جگ سوالی اے
نور دا عرشاں تے ڈیرا اے
لالی نے کیتا ہن سویرا اے
لالی نے سہاگن کردتا اے
سہاگ شادی دی علامت اے
سہاگ وصل دی نشانی اے
تن سی میلا ، چھایا سی ہنیرا
سہاگ نے میل ہن لا چھڑیا
پانی نے زمین نوں سیراب کیتا
بیل بوٹے مالی نے لا چھڈے
مشک دی بوٹی دل اچ لا دتی
فنا تے بقا دی رمز سنا دتی
نور و نور ایس نگر دے وچ ہوئی آں
شاہِ ہادی نے خالی ہتھ کدی نی پیجیا !
اودھے کل میں ٹردی ٹردی پھراں
دل میرا دتی جاندا اے بانگاں
دل میڈا کھلدا گلاب  وانگر
جیویں قران اچا وچ کتاباں ھو ! ھو ! ھو!
مشک نے اندر ہن ورسایا
جاں میری ہولن تے آئی
میں نچ نچ کے یار کرینداں آں
نچ نچ کے یار مناندی آں
ھو ! ھو ! دی واجان لائی جاواں
رب نے لائیاں ہن نوری محفلاں
واواں مینوں ٹوھنڈی پھردیاں نے
ھو ! دے بسیرے نے سویرے کیتا
کالکاں مٹیاں ھو دی لگیاں صداواں
ذات دی نچی ، اچا میں کیتا اے
حق نے اندر میرے سویرا کیتا
''ھو '' دا دیوا اندر بلدا پئیا اے
ایڈھ بسیرے نے اجیارا کیتا اے
زمین ساڈی دا ھنیرا مٹیا اے
ھو نے انج  ونڈیاں سوغاتاں 
مٹھا میوہ شہد نال پیندی جاواں
جام دے جام میں لیندی جاواں
نیندر ایناں جاماں نے لٹیاں نیں
نچاں ھو دے نال میں فر وی نہ رجاں ھو !

خدا ‏کہاں ‏کہاں ‏ہے ‏نور ‏ایمان

عشق آسمان سے جب اُترا، جتنے دلوں پر اترا، وہ محبوب ہوگئے. باقی دلوں نے عشاق کے در و دیوار میں چھپے سیپوں کو ڈھونڈنے کی خواہش میں زندگی گزار دی. 

محبت آسمانی صحیفہ ہے، پاک دلوں پَر اُترتا ہے. محبت صدق دل میں لاتا ہے یا صادق کو لقب عطا کرتا ہے.

اس میں  جسم زمین پر ہے 
روح گردش میں میری، آنکھ میں نمی،
زمین وضو میں 

تب سب لفظ بھول گئے
عشق، عشق 
دل پکارتا رہتا ہے
عشق کسی روپ میں.صدیوں کے بعد نمودار ہوتا ہے
تن، من کی لاگی میں لگن بڑھانے کو ...
.کوئی جان سکتا ہے جب روح  عشق کی.تسبیح پڑھے  تو عالم یک ٹک سو ہو کے اس پکار کو سنتا ہے.

زندگی، بندگی میں ..
.اے دل ، بتا کیسے سجدہ ادا کریں؟ 
اے دل، اے عشق!  بَتا کیسے حق ادا کریں؟ 
اے دل وضو کی جاری نہر میں خمِ دل سے کچھ نکلا. پتا ہے کیا نکلا؟ 
آیتِ کوثر 

سسکیاں،  آہوں سے پرے عشق ہے جلن اور سوز ...سوزش ہجر سے نکلیں سسکیاں اور دل کرے ہائے ہائے


میرے پاؤں کی  زنجیرعشق نے تھام رکھی ہے اور مجھے حکم دیے جائے کہ چل جانب منزل  میں کہتی جارہی ہوں منزل تو ہی تو ہے 

تو نے تھام مجھے رکھا ہے اور میں نے خود میں اک یہی آیت پائی

جب بھی من میں جھانکا، اک نَیا جلوہ پایا. تری ہستی میں عالم کی نمود ہے اور ساجد کے ہزار سجدے اور بیخودی کا اک سجدہ برابر نہیں. 

اس رقص میں بسمل کی تڑپ ہوتی ہے ، اسکی صدا میں کوئل کی چہک ہوتی ، پھر  لفظ میں روشنی ہوتے ہیں ...  
من و تو سے  ذات پرے ہوتی ہے 

تو رقص میں ہے، تو ہی کوئل کی صدا ہے ...

عشق زَمین پر اُترا ہے،  اور چھپ گیا ہے.  جب اسے اُسے دیکھا گیا تو  وہ اک درخت کی اوٹ میں تھا.  لکا چھپی کی رسم پرانی ہے اور عشق ازل سے اَلوہیت کا ساز ہے 

شجر کے پتے پتے کا نغمہ سنا تھا. وہ تکبیریں "اللہ اکبر، اللہ اکبر" تھیں ..عشق کا جلوہ عالم ہر سو بکھر کے "محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم" میں سمٹ گیا 

.. اے مری راہ کے خورشید. سلام. اے عالی ہست ...جلوہ ہزار اک میں   جامع ہو گیا اوریہ خوش نصیبی کہ اس مبارک ہاتھ نے تھام لیا ہے.

لمحہ نَہیں ایسا کوئی، جس میں وہ نہیں. لمحہ ہی وہ  ہے، لمحہ کچھ بھی نَہیں ...

غیب سے  ہاتھ نَمودار ہوا،  اسکی جھلک  میں خُدا کی بات تھی،  
وہ ہاتھ جو آیتِ کوثر کی جاری نہر ہے 
وہ ہاتھ جس کی تقدیس کو سلام صبح شام خود کریں   

وہ مثلِ موسی بن کے روشن ہوا... 
یہ یدبیضاء،
جس ے سحر کے سارے اندھیرے ختم ہوئے.

عشق اور میں  اک کشتی میں سوار تھے، جب بحر کی نمی کو خشکی سے چاک کیا گیا تھا،  تو اسکے وجود میں سلیمانی مہک نے مسحور کردیا تھا ..

کیٹس نے خدا کو بُلبل میں، شیکسپیر نے پراسراریت میں، شیلے نے پانی، ہوا میں،  ورڈورتھ نے پتے بوٹے میں،   غالب نے دستِ غیب میں،  اقبال نے رومی میں  پایا اور میں نے خُدا کو تجھ میں پایا ....

اک جانب جنت، اک جانب دوذخ اور عاشق رہ پر چلے جائے  ...

نغمہ ء گُل ہے صدا تری 
جذب ہوتی ہے کائنات میری. 
تو تبحر علم اور میں خالی کاسہ ...
فقیر بن کے کھڑا کوئ در پہ ترے ...

راز الف کیا ہے،  صیغہ ء میم کیا ہے، لام میں چھپا راز اسکو جان لیا اور  پہچان لیا. امر کے نقارے سے پہلے، نگاہ کا سجدہ اور وہ  رحم بھری نگاہ سے ...  ...

عشق کے شین، قاف میں الجھ کے عین سے گئے تھے،  وہ جو یقین کی راہ پر آزماگئے تھے .... 
فرعون بن کے ندیاں بہائیں تھیں، 
چنگیز بن کے نیل کو سرخ کردیا،  
دجلہ و فرات لہو لہو تھے ... 
خدا کی رونمائی کے جلوے تھے 
دیکھا گیا تھا، جب آگ  گلنار ہوئی تھی
تو آیت کوثر بھی اک نشانی ہوئی

  

راکھ ہوتی اناؤں کو جب خاک میں ملتے دیکھا تھا،  مریم بی بی علیہ سلام سے روح اللہ کی شاخ کو پنپتے دیکھا تھا،  
جب درد سے وجود لبریز ہوا تھا، 
اس درد میں خدا کی مامتا ابھرتے دیکھا تھا ... 
وہ جو تقسیم الفت ہے..،  وہ یہیں سے ہے ... جبفرشتہ وحی لے کے آیا مادر مریم کے پاس آیا، 
تب اس روح مقدس میں نشانی تھی.... 
انا اعطینک الکوثر

قم باذن کی صدا کائنات نے سنی 
اک وجود نے خود کو زندہ ہوتے دیکھا ...
اے مردہ دلوں کی مسیحا، سلام ... 
جب سلمان فارس سے تلاش کو نکلے تھے،  
اس تڑپ کی تپش میں جلوے تھے 
انا اعطینک الکوثر 

تسبیح میں جسطرح اک دھاگے سے بنتی ہے، مری روح کے دانوں کا وہ اک دھاگہ یہ  ہی تو ہے!  

میں نے پہاڑوں میں اس آیت کو حرکت میں پایا 
ہر دل میں اس آیت کا نقش پایا 
جہان کو اس آیت کے گرد رقص میں پایا 
انا اعطینک الکوثر

جناب ادھم کو غیب کی صدا نے تخت چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، 
اس صدا میں، میں نے یہ آیت سنی  تھی
زندگی اک گِل، کھنکھناتی مٹی سے وجود کہاں آئی ہے. 
یہ تو الواحد کے نشان تھے
یہی نشان تو روح میں  پڑچکے ہیں  

آدم صورت خدا ہے اور صورت صورت میں جلوہ ہے ...وہ صورت  نگاہوں میں ایسے ابھرے
جیسے نور کی  ضیا پوشی ہے ...
داؤدی نغمہ کی سی  دل میں درد کی مٹھاس...
یہ آواز  وہ جگاتا ہے 
جو عشق کا ساز بناتا ہے 

.محبوب کے چہار سُو جلوے بکھرے ہیں، کبھی دریا، کبھی  جنگل، کبھی پربت تو کبھی فلک، کبھی رنگ میں تو کبھی سنگ میں، کبھی آگ تو کبھی پانی، کبھی سورج تو کبھی چاند تو کبھی چاندنی میں پھیلتی  کثرت میں وحدت ... محبوب کے سو روپ ہیں اور ہر روپ میں دلنشین مہک لیے ہے ..کبھی  وہ  جھلک دکھلا کے چھپ جاتا ہے تو کبھی پتھر میں ہل ہل کے چونکا دیتا ہے. کائنات کی کل کثرت اس کی وحدت ہے

وہ مظہر مظہر میں آیت ہے 
مظہر مظہر اس کا شاہد ہے 
اللہ ھو  

. جبین  جھکتی ہے، جب جد کی تخلیق کو دیکھے جائے.  صدر میں صدر تلک کی فصل گل ہے،  لالہ ہے تو کَہیں عنبر ہے .... 

صورت میں آدم،  سیرت میں احمد میں، حسن میں حَسن،  کلام میں حسینیت لیے  عشق  سامنے آیا 
عشق کوکو اک جا یکجا دیکھا
دل میں یکجائی کے سارے عالم بکھر گئے  
محبوب سامنے مسکراتے تکی جائے

زندگی کی معنویت سے رنگ نکال دیے جائیں تو رنگ اک بچ جاتا ہے اور رنگ رنگ میں بے رنگی  دکھ جاتی ہے ..

یقین نہ تھا دل میں 
پیمان کو مانتا نہ دل 
کسی دوست کی تلاش میں دل
اور دوست کی تلاش نے چکر پر چکر دیے ہیں 
درد میں رقص در رقص کیے 
بانسری ھو والی بجتی رہی 
اللہ ہے،  آواز آتی رہی 
اللہ کہاں،  خلجان میں جاتی رہی 
اللہ اک ہے،  کیسے ہے 
اللہ مظہر مظہر میں، یہی کہتی رہی 
پھر جب دل ٹوٹ سا گیا 
تو چاند نے گود میں لیا 
خورشید نے جیسے دلاسہ دیا
امید کا اک کاسہ دیا 
رنگ مجھ پر  ڈالے گئے 
چنر محبوب کی پہنائی گئی 
مجھے نشان خدا ملے 
جانے کتنے نشانوں میں عیاں نکلا 
ہر جگہ میں نہاں نکلا 
اندر کے خانوں میں 
باہر کے  آئنوں میں 
خدا خدا کی صدا ہے 
ہر شے کی تسبیح اللہ اللہ ہے 
رک رک کے سنتی ہے 
خوشبو میں اس کی نشانی 
جب بھی خوشبو کو سونگھا تو گم خود کو پایا
مہک خراماں خراماں چلتی رہی 
میں ساکن ساکن رہی 
یہی خدا ہے،وہ جو اک خیال ہے 

خدا یہی تھا جس نے جان دی تھی مجھے 
خدا یہی تھا جس نے مجھے پہچان دی 
عشق کی نگہ خیر سے دل میں حیات پذیر ہوئی ہے 
گویا کائنات کی بود،  نہ بود کی بات ہے 
شاہد،  نہ شہود کی بات ہے 
فنا نہ بقا کی بات ہے 
خدا  ابتدا ہے،  
خدا انتہا ہے،  
خدا منصور کا نعرہ تھا 
نعرہ مگر  وحدت سے پرے تھا 
کثرت کا دعوی کیسے جامع ہوتا 
گاہ میں فلک میں، گاہ میں سمندر میں 
کائنات کا ردھم سمجھ کوئے
برف پگھلتی دیکھے کوئی
صدائے جرس سنائی کہاں دی؟  
جو نہ سنا گیا،   وہ سننا ہے 
جو نہ دکھے،  وہ دیکھتا ہے 
جو نہ بولا گیا،   وہ بولنا ہے 
پھر وہ ہم کلام  ہوتا ہے 
پھر وہ دلدار کی سنتا.ہے

سن وہ صدا جو کان سے کان تک آتی ہے 
سن وہ صدا جو دل سے  جان تک آتی ہے 
دیکھ وہ  سکوت جس میں  شور میں پنہاں ہے 
دیکھ وہ شور جس کے سکوت میں وہی عیاں یے 
عدم سے لایا گیا ہے 
لباس وجودیت دیا گیا ہے
رہتی ہے ساز نگر میں خاموشی کی صدا 

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 

اللہ ہے 
اللہ باقی ہے 
باقی ہے کس میں 
وہی تو ہر شے میں 
جانا اسے یار کی صحبت میں 
سادہ ہے وہ،  سچ ہے،  حق ہے 
صدائے انا الاکبر سنائی دیتی ہے
جب آیت کوثر دکھائی دیتی ہے

سنگ سنگ میں رنگ ہے 
رنگ برنگ جس کی ذات ہے 
ذات میں وہ بلند ہے 
وہ العالی کی مثال کی ہے

دوا کام نہ آئے گی 
درد بڑھ جائے گا 
روگ لگ جائے گا 
عشق ہو جائے گا 
عشق میں نعرہ لگ جائے گا 
جذب وہ ہوگا،  جس کا جذاب ہوگا 
مومن وہ ہوگا، جس کا یقین پاس ہوگا 
ستم کے سو سوال پاس رکھے ہیں 
جدائی بس اک جواب ہوگا 
خدا سب مصلحتوں سے پرے ہے 
خدا عشق میں ظاہر ہے 
عشق کی نمود اور نارِ گلنار
آگ سے دل فگار ہے 
رات جیسے اشکوں کا بار ہے 
دل شوریدہ کا سر دیکھتے ہیں 

موجود ہے لہر لہر میں 
موجود ہے دھارے دھارے میں 
موجود ہے پربت پربت میں 
موجود ہے جمتی کائی میں 
موجود ہے پگھلتی برف میں 
موجود ہے بنتی بھاپ میں 
موجود ہے برستے بادل میں 
موجود ہے بہتی گنگا میں 
موجود ہے راگ میں سرگم میں

موجود ہے ذات پات میں 
موجود ہے خیال خیال میں 
خدا خیال ہے 
میرا خیال ہے 
ترا خیال ہے 
خیال وہم سے بالاتر ہے 
مرا ہونے ترا ہونے،  شک سے پرے ہے 
عدم سے خیال آیا یے 
وہ مجھ میں سمایا ہے 
وہ شہ رگ سے قریب ہے 

راگ ہے نہ صدا ہے 
وجود کی بہتی گنگا ہے 
ھو ھو ھو ھو کہے جائے 
ھو میں کون ہے 
سبزے سبزے میں، 
گلی گلی میں، 
مظہر مظہر میں کون یے 
خیال تھی یہ کائنات 
اس نے سوچا، بس سوچنے کی دیر تھی
خیال مجسم ہوگیا 

بس سوچنے کی دیر تھی 
خیال نے نمود پکّڑی 
وجود نے وہ رو  پکڑی 
ہر شے نے برقی رو پکڑی 
اسکی لہریں لہریں ہر شے میں بہنے لگیں 
ہم وجود دیکھنے لگے 
ہم موجود نہ تھے 
ہم خاکی نہ تھے 
اسکو لطف نہ ملا 
پھر کیا ہوا،  
خیال کو کن سے خاک میں ملا دیا 
وجود کو اضطراب میں مبتلا کیا 
خیال کے ہزار ہا ٹکرے ہوتے گئے
میں اور تو بنتے گئے

یہ دنیا میری تیری کہانی ہے 
خیال میں دنیا سجانی ہے 
خیال میں رہنا ہے،  
خیال میں جینا ہے،  
خدا خیال ہے 
ہاں خدا خیال کی طاقت کی پیچھے ہے 
دل میں اسکی طاقت نے وجود پکڑا ہے 
جیسے بیج نے وجود کو ظاہر کیا 
پھول کی خوشبو پھیلنے لگی ہے 
زندگی رنگ رنگ مہکنے لگی یے 
رات کے آنگن میں سو کلیاں ہیں 
دل میں بہتی سو ندیاں ہیں 
ہر ندی کی صدا میں یہی سنا ہے 

اللہ ..ہے،  اللہ،  ہے،  اللہ ... ہے،  اللہ ..ہے،  اللہ 
اللہ ہے ..اللہ ہے اللہ ہے اللہ ہے اللہ ہے 

رقص میں روح ہے 
جیسے لٹو کوئی روبرو ہے 
چکر کم نہیں ہوتے ہیں 
عکس پیکر میں ڈھلتے جاتے ہیں 
سائے وجود میں ڈھلتے ہیں 
نور ہی نور ہے 
نور ولا میں نور علی ہے 
نور علی میں چشم نم ہے 
چشم نمی دل کی کہانی ہے 
کہانی بنتی جارہی، 

خُدا درد ہے،
نوح کا نوحہ ہے،  
جب کشتی کنارے لگی تھی،
چشم تر سے خُدا کا نشان ملا،  
خدا ضد میں موجود  ہے،  
جیسے نوح کا کنبہ ہوا تھا اندھا،
جیسے نمرود کے تیر بے نشان ہوئے،
جیسے فرعون کو تَری،  خشکی لے ڈوبی ...
خدا، جھوٹی ضدوں کی ضد میں تھا،  
تیرگی کا لبادہ جب الٹا کیا 
خدا روشن ہوا تھا .... 

اضداد سے کائنات کا چلتا سلسلہ 
ابلیس کا تکبر،  آدم کی توبہ 
نمی ہستم سے کجا رفتم کا سفر 
من دانم کا دعوی جس نے کیا، تباہ ہوا 
خدا اس تباہی سے بڑی قوت ہے 
حسن بن صباح کی جنت میں،  
غلمان، حوروں میں گھرے میں،
انسان نما بندروں میں،  
بظاہر روشن مگر سیاہی سیاہی میں،
قلعہ الموت میں خواب و خیال کی قوت میں 
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے 
خدا ضد میں ظاہر تھا 
خدا ضد میں ظاہر ہے 
پہلے جو آدم میں مجلی ہوا 
منتہائے نور محمد میں ہوئی
اُس ماہی آب میں
جس میں یونس نے گھر گئے،
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے،

جہل کی جہالت جب بڑھ گئی تھی 
جناب عمر کی جلالت میں نمود ہوا 
فکر میں، افکار میں،  اسرار میں ...
جناب بوذر کی گواہی میں  
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے

زہے نصیب!  خدا سرناموں میں موجود ہے 
زہے نصیب!  خدا رہنماؤں کی روشنی میں یے 
زہے نصیب! خدا محبتوں کا امین ہے 
زہے نصیب!  خدا راز کی سرزمین یے 
خدا ضد کی سرزمین میں شاعروِں کا یاس ہے 

رنگین ہوتی داستانوں میں 
آسمان کے سویروں میں 
رات کی تیرگی میں 
سرمدی دھوئیں میں 
راکھ ہوتی خواہشوں میں 
واحد خیال موجود ہوتا ہے 
جب سیف الملوک نے شاہی کا کاسہ پھینکا تھا 
بدیع الجمال کے حسن میں کون تھا؟  
واحد خیال کائنات کا حسن ہے
واحد خیال حسن میں پنہاں ہے 
واحد خیال حسن یوسف میں تھا 
بازار حسن میں غلام بنا کے لائے گئے 
شاہ مصر خریدار ہوئے 
غلام سے شاہ مصر جب ہوئے 
واحد خیال کی شاہی تھی
خدا موجود تھا 
خدا موجود ہے 

درود پڑھنے میں 
درود بانٹنے سے
درود میں جھانکنے سے 
درود کی  خیالات میں 
خدا موجود ہے 
خدا کا ذکر درود ہے 
فاذکرونی اذکرکم 
اس ذکر میں رب شامل ہے 
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت ہے 
اللہ ھو،  اللہ ھو،  اللہ ھو، اللہ ھو 
نبی کی سنت میں خدا،
خدا کی سنت میں نبی،  
پورا کلمہ دو سنتوں میں موجود 
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

خدا تلاش میں مضمر ہے،  
خدا جستجو میں ہے،  
جستجو ڈھلمل یقین کو معصم کرتی ہے 
مٹی کو آہن کرتی ہے 
میں نے اپنے محبوب کی تلاش میں 
اسکی جستجو میں،  سسکیوں میں،  
دل میں بستے اجیاروں میں 
آہن ہوتے یقین میں دیکھا ہے 
محبوب جس کو میں کہتی ہوں 
وہ پنجتن پاک کی خوشبو ہے 
میری نہ بود میں انکی بود ہے 
مری بے نشانی میں انکے نشان ہے 
درود مسیحاؤں  کے مسیحا پر 
درود ذات علی پر 
درود حسنین پر 
درود خاتون جنت پر 

قران صحیفہ ہے 
مرشد کا سینہ قران ہے
قران پڑھنا اصل ایقان ہے 
پہچان کا سلیقہ آتا جاتا ہے 
دل جب دل میں فنا ہوتا جاتاہے 

 الم سے والناس کی داستان بتائی جاتی ہے 
رازوں کے صیغے کھولے جاتے ہیں 
 عرش پر لوح و قلم کی کنجیاں  
الم کی آیت 

تو دل کہتا ہے 
خدا ہادی کا سینہ ہے 
نور کا پراسرار گنجینہ ہے 
گاہ میں الم،  گاہ میں طسم 
گاہ میں حم،  گاہ میں یسین 
کھلتے جاتے ہیں اسرار ہے 
الرحمان کی سمجھ آتی ہے 
الرحیم سے شروعات ہوتی ہے
بسمل کی ابتدا بسم اللہ سے ہوتی ہے 
خدا کی پہچان کا سفر شروع ہوتا ہے

 ختم نہیں ہوتے جذبات 
ختم کیسے ہوں الفاظ 
لامتناہی سلسلوں میں 
چلتی تلواروں  کی ضربوں میں 
قم باذن کی داستانوں میں،  
رقم ہوتی داستانوں میں 
خدا موجود ہے 
شمس کی کھال کھینچی گئی تھی 
یہ کس نے سوچا تھا 
سورج زمین کو سجدہ کرے گا 
قم باذن اللہ،  سے قم باذن کا تھا سفر 
سزا کے بعد  عطا کی ادا 
قربان ہوگئے لوگ ادائے شمس 
ملتان کی گرمی میں موجود ہے 
کون موجود ہے؟  
آیتِ الہی  

شمس رومی کا منتظر رہا 
رومی درس شرع میں محو رہا 
لفظ خالی تھے عشق سے،
خدا کے نشان کو کیا پاتے!  
شمس نے رومی کو پایا 
عشق کا ہنر سکھایا 
لا الہ سے الا اللہ کا.سفر کرایا 
اک پل میں کائنات کے ٹکرے ہوئے 
نعرے میں ضرب حق تھی 
عشق اک حقیقت ہے 
پاک دلوں پر اترتا ہے 
آسمانی صحیفہ جب اترا دل پر 
مثنوی لکھی گئی تھی ... 
شمس کو رومی نے لکھا تھا 
خدا کا خیال ظاہر ہوا 
خدا موجود ہے

 خدا آتش عشق ہے 
سوز ہجر ہے 
شوق وصل ہے 
دام موت ہے 
خدا کے سو روپ ہیں 
پانی آنکھ سے بہتا ہے 
خدا دل میں اترتا ہے 
خدائی چار سو ہے 
دکھائی دے وہی ہر جا،  ہر سو 
کو بہ کو یہ رشنائی ہے 
خدا حق کی گواہی ہے  
خدا ظاہر جا بجا رہا ہے 
خدا ہر جگہ موجود رہا ہے  
خدا تھا 
خدا ہے 
خدا ہر جانب یے

خدا ماں کی لوری ہے 
غنود کا درس دیتی ماں  کی صدا میں کون ہے؟
خدا ہے 
جب تک موت نہ ہوگی 
زندہ نہ ہوں گے 
فنا کی لذت وصال ملے
مجھے عشق میں کمال ملے
وہ روشنی لازوال ملے 
چمکے جس سے سینہ 
لکھوں روز و شبینہ 
چڑھوں زینہ بہ زینہ 
آئے بندگی کا قرینہ 

 

بسم اللہ بسم اللہ بسم اللہ 
اسم اللہ سے سفر کی ابتدا ہے 
جبین جھکی ہے، ساکن سجدہ ہے 
لہو صامت ہے، دل شاہد ہے 
خدا دل بن کے دھڑک رہا ہے 
بانسری کی صدا سنائی دیتی ہے 
بانگ مرغ میں سحر دکھائی دیتی ہے 
نہیں بنائی کائنات میں کوئی شے
 مگر جوڑے جوڑے 
جھوٹ کا سچ  سے
زمین کا فلک سے 
پربت کا سمندر سے
شاہد کا شہید سے 
شہد کا کڑواہٹ سے 
بینا کا نابینا سے 
عاشق کا معشوق سے 
مدار میں رواں ہرشے کے دائرے ہیں 
نہیں لیل نہار سے آگے
نہیں نہار لیل سے آگے 
شمس و قمر کی گواہی 
دینے طلعت آئی ہے
درد ہے،  درد میں خدا ہے

تن میں سرد لہریں ہیں
فاراں سے چشمے پھوٹے ہیں 
اسم حرا سے لکھے ناطے ہیں 
لطف درد کے واسطے ،
دوا سے چھوڑے ناطے،
مرگ زیست کے مرحلے ہیں 
درد کے نئے ساز نے کوئ دوا دی 
یکجائی اچھی ہے،
  دوئی جھوٹی ہے 

دل کو رکھا گیا زمین و فلک کے مابین 
سینہ ہے، پتھر  نہ تھا 
بہنے لگا اک چشمہ 
جھوٹ کو زوال ہے 
حق لازوال ہے 

شوق جلا رہا ہے
 جیسے شمع گھلتی ہے، 
جیسے پروانہ آگ میں جل جاتا ہے، 
جیسے پتیاں بکھر جاتی ہیں، 
خوشبو پھیل جاتی ہے، 
 جیسے باد کے جھونکے چھوتے ہیں تو اچھے لگتے ہیں، 
بکھرنے، جڑنے کے نشان لیے ہوئے  
آنکھ وضو میں ہے، کس کا گداز ہے؟  
یہ کیسا مقام ہے؟  
یہ کیسا حال ہے؟  
دل میں کیسا بھونچال ہے؟  
رنگ بکھر رہے ہیں 
ھو ھو ھو کی صدا ہے 

خرد سے ایسے مقام کہاں آتے ہیں 
لا میں فنا کو دوام کہاں آتے ہیں 
جو نفی میں گم رہیں
 ان پر اثبات کے مقام کہاں آتے ہیں

ابتدائے ‏آفرینش ‏


ابتدائے آفرنیش سے اب تلک جذبہِ دل پر حکمرانی کرنے والے انسان، سربندگی سے نکل جانے والے، کامل یقین والے لوگوں کو حیات دوامی بخشی گئی.جذبہِ دل پر حکمرانی کیسے ممکن ہے؟ کون اس قوی قوت پر حاکم ہوسکتا ہے؟ جذبات سے بڑی قوت حیات، اس کی تخلیق کرنے والی قوت ہے....نورِ ازل کا ربط جب نورِ حیات سے قائم ہونے لگتا ہے تب انسان کو نیابت کی سواری ملنے لگتی ہے ... زندگی کے مقصد کی تعمیل اسی مداروی حرکت میں ہے ...چاند روح میں روشنی کیے رہتا ہے جبکہ نور ازل آفتاب کی مانند جگمانے لگتا ہے تو انسان جو ذات میں شجر ہوتے سایہ دار برگد کا روپ ہوتا ہے، مثلِ آفتاب ہوجاتا ہے ...

آزاد روحیں غلامی قبول نہیں کرتیں ماسوا معبودِ حق کے .... اس لیے لگن، شوق انکے وجدان کو حرکت دیے رکھتا ہے ...یہ روم کا رومی چاند سے مثلِ آفتاب کیسے ہوا؟ کوئی شمس تھا جس نے رومی کے جلال کو توانا سرخ لہروں سے نیا جنم دیا تھا ... شمس تو ایسے رومی کی محبت میں الجھا جیسے کائنات کا حصول اسی نور میں ہے جو جلال الدین رومی کے سینے میں مدفن تھا .... شمس نے نورِ ازل کا طواف کیا اور نورِ حیات سے چمکتا نور رومی کو سونپ دیا ... رومی کے لفظوں میں دوامیت شمس کے نورحیات سے ہوئی تھی .... شمس کی تقدیر میں قربانی لکھی تھی ...

ہجرت بھی انوکھا جذبہ تھا، برق جو شمس کے دل میں چنگاری دیتی وہ شعلہ بن کے رومی کے سینے میں چمکتی تھی .... سوال یہ ہے کہ شمس تو فنائیت میں مجذوب تھا، اسکو رومی سے کیا غرض تھی؟ رومی کا کلمہ آیتہ الکرسی کی مانند عرش سے فرش تک جڑا لوحِ محفوظ کی خبر دیتا تھا تو شمس ماہِ وصال کی آبرو رکھتے فاذکرونی اذکرکم کرتے ذاکرین کی جماعت کا نائب تھا .. الم کی مثال ہستی نے کمال شوق سے رومی کی تربیت کی. یہ آدابِ گفتگو جو مثنوی میں ملتے ہیِ اسکی آگہی شمس کی دیدہِ بینا سے ملی ...

جب تخلیق کا مادہ رکھا جاتا ہے تو ذاکرین و منکرین کی جماعت ساتھ مخلق ہوتی ہے.... یہ نوری ...ناری ...آبی ... خاکی موجودات ارضی و سماوی لشکر کی مانند ہمرقاب ہوتے معاون ہوتے ہیں .... اسی نے جن و انس کو پیدا کیا ...شمس کو ذاکرین کی جماعت کا سردار بنا کے کائنات میں چاند سا کردیا ... اس کے قلب کو صیقل کرتے حدت جاودانی بخشتے آفتابی نور سے سرفراز کیا..

وقت ‏کے ‏پنجرے ‏

وقت کے پنجرے کا دائرہ زمانے ہیں ۔زمانے خود بھی تو دائرے ہیں ۔ اسمیں گھومنا زمین کے بس میں کہاں جبتک کہ سورج کو مرکز میں نہ رکھا جائے ! چاند بھی اسی صورت زمین کے گرد گھومتا ہے اور زندگی ------زمین کی دل کشی بڑھ جاتی ہے ۔خطِ استوا پر روشنی کی جاتی ہے اور حق حق کی ضرب سے استوا سے نور کی شعاعیں سورج کی شعاعوں میں مدغم ہوجاتیں ہیں ، زمین سے سورج کے وصال کے بعد چاند بہت اکیلا ہوجاتا ہے اور  میں سمندر شور مچاتا ہے جس سے بھنور در بھنور زمین رقص کرتی ہے ، رقص زندگی ہے ، رقص خوشی ہے ، رقص  نشاطِ ہستی کی کہانی ہے ۔ رقص احساس کی دڑاڑوں میں کرچیاں ڈالتی روشنیوں کے ستم کی بات ہے ، روشنی جب زمین میں بس جاتی ہے تب کالا رنگ اتر جاتا ہے ، جب کالا رنگ اترتا ہے تبھی نئے رنگوں سے نوازا جاتا ہے وہ جو افق پر قوسِ قزح ہے وہ میرے نصیب  کی بات ہے ۔

پنچھی ایک پنجرے میں قید  جبکہ وقت اسکے گرد رقص کر رہا ہے اک وقت وہ بھی تھا جب پنجرہ وقت کے گرد رقص میں مدہوش۔۔۔۔۔۔۔ مدہوشی کا دائرہ طویل ہوتا جارہا ہے ، پنچھی پرواز کرتا جارہا ہے ، دائرے میں  گھومتا جا رہا ہے اور کبھی وادی ، کبھی جنگل کبھی پربت پر گھومتا کبھی فلک کی بلندی کو پہنچ جاتا ہے

تصویر کیسے تیری بناؤں ؟ صنم کو کیسے پہچانوں ؟

تراش رہا ہے وہ مجھے ، اس کو کیسے جانوں ؟

کائنات اسکا اثبات ہے ، میں ایک ذرہ ہوں

ذرہ کیسے کائنات بنے ، کیسے اثبات کروں؟

اے حقیقت اپنے حجاب اٹھادے جلوہ کرادے

یوں کہ نہ ہونے سے ہونے تک کا سفر چلا دے

رنگوں میں رنگا رنگی کائنات ، اس رنگ میں جلوہ کر

حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! کی صدا بلند کر

سبی

زمین اس کائنات میں طور بنی ہوئی ہے اور ھو ھو کی صدائیں غاروں سے نکلتی اسے رقص کرارہی ہے،  اس روشنی کو جو زمین کے بند  دریچوں کو روشن کر رہی ہے ،اس نےاس پر انوار کی بارش کردی ہے اور یہ تجلی کے مصداق روشنی وجود کو روشن کیے دے رہی ہے  زمین کا وجود عدم کی مٹی سے بنا ہے کہ زمین نفی ہے جبکہ فلک اسکا اثبات ہے ، زمین خلا ہے ، فلک پر وہ مکین ہے بس اسکو بقا ہے ۔زمین کو آسمان کا سفر درپیش ہے گویا اثبات کی پہلی منزل پر قدم ہے ۔ وہ سفر جو رکوع سے شروع ہوا تھا وہ سجدے میں فنا ہوجانا ہے  ۔ عروج کے بعد اسنے رہ جانا ہے جبکہ فانی ذات بکھر جانی ہے ! ھو ! حق ھو ! ھو ! ھو ! سورج کی شعاعوں میں فنا ہونے کا اشارہ ہے ، ساجد نے سجدہ کرنا ہے اور روح نکل جانی ہے ، جسم بس رہ جانا ہے ، پرواز مقدر ہے پنچھیوں کے لیے کہ پنچھیوں کا  ٹھکانہ فلک ہے

لا الہ پنچھیوں کے تسبیح ہے اور تسبیح سے الا اللہ کی صدا  نکلی ہے۔ الا اللہ  صدا ہے ،حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو،جھوم رہا  ، ہےقلب  دل وطن کی سرحد میں ،روح جذب باطن میں ، عشق غلامی میں ، دل میں علم رکھا ہے خزانے کی کنجی الا اللہ ہے

الا اللہ کی صدا ھو ھو ھو  ، چاروں طرف ھو ھو ! یہ کون جان پایا ہے کہ وہ جس کو مل جاتا ہے بندہ بدل جاتا ہے ، اسکے وصال کے بعد حال کو حال نہیں آتا ، حال میں کوئی ساتھ نہیں رہتا ، وہ دکھتا ہے جو ساتھ رہتا ہے ! حق ھو ! ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ھو ! حق حق ! حق! حق ! دل سے دل تک ، نقل سے عقل تک سفر شروع ہوا ، کپڑا جلا دیا گیا ، عشق کی لو بڑھا دی گئی اور کہا گیا ہے کہ صبر سے کام لینا ہے اور صبر سے کام نہیں چل رہا ، پنچھیوں کے پر کاٹ کے اڑان کی اجازت دی جاتی ہے گویا  رسیوں سے باندھ دیا جاتا ہے ۔ وہ اسکے اختیار کی رسیاں ، اسکی قدر کے دھاگے ! کٹھ پتلی کی دوڑ گھماتا ہے اور دھیرے دھیرے کٹھ پتلی اسکے اشارے سمجھ جاتی ہے اور کٹھ پتلی اشارہ ہوجاتی ہے ، کن سے فیکون ہوجاتی ہے ، بے بسی سے بس میں آجاتی ہے ، خیال کی قید سے بے انتہا  ہوتے خیال کو اپنی قید میں کرلیتی ہے !

Tuesday, November 10, 2020

زندگی ‏میں ‏محبوب ‏کا ‏کہاں ‏کہاں ‏پایا

زندگی میں محبوب کو کہاں کہاں پایا!

مجسمِ حیرت ہوں اور دیکھ رہی ہوں اس کو... سب نظر آتا ہے جیسے کہ بس نظر نہیں آ رہا ہے ، سب ظاہر ہے مگر ظاہر نہیں ہے . نقش نقش میں عکس میں ہے آئینہ اس کا مگر میری نظر کمرے میں موجود ٹیبل لیمپ کی طرف مرکوز رہی .

میں نے اُس کو یک ٹک دیکھا اور سُوچا اس طرح محبت مل جائے گی . مسکرا دی ! اور بہار کا عالم سا محسوس ہوا کہ اب بہار کا موسم رہے گا کبھی نہ جانے کے لیے مگر اس بہار کو محسوس کرنا ہے کیسے .... یک ٹک دیکھنے سے ؟

نہیں ! پھر کیسے ؟

کمرے میں موجود ہوں اور مقید ہو کے نظر جمائے لیمپ کی روشنی دیکھ رہی ہوں اور کبھی ٹیوب لائٹ سے نکلنے والی روشنی ... یوں لگا منبع تو ایک ہے مگر ... مگر ایک نہیں ہے ..دونوں میں رنگ کا فرق ہے ... قریب گئی اور ہاتھ لگا کہ دیکھا ... لیمپ قدرے گرم تھا .. احساس ہوا کہ جاؤں اور ٹیوب لائٹ کو ہاتھ لگاؤں .. اس کا لگا کے دیکھا مگر مجھے محنت کرنی پڑی اس کو ہاتھ لگانے کے لیے ..... میں نے بالآخر لگایا ہاتھ .... احساس فرحت بخش تھا ... !

خود سے بولی : احساس ایک ہی ہے مگر جمال ہے جلال ..... ! جلال ہے کہ جمال ... ! یہ کہتی رہی ہوں میں .... روشنی روشنی ... بس روشنی روشنی ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں اس کو کوئی نام دوں ... روشنی کا نام ہے پھیل جانا اور اس کا کام اجالے دینا ، اُجیارا کرنا ... سیاہی کو مٹانا ...

فرق سے یاد آیا...
ارے !! یہ تو وہی چاند اور سورج کی روشنی ہے ... چندا روشنی لیتا ہے اور سورج کا ظرف ..... !!! سورج کا ظرف کہ وہ دے کر خاموش ہے ...تعریف چاند کی ہوتی ہے... تمثیل چاند ہوتا ہے .... محبوب بھی چاند ....!

سورج کی تمثیل نہیں کیا؟
ارے ! ہوتی ہے بابا!!! ہوتی ہے ! بس اس تمثیل میں آسمان و زمین کے قلابے نہیں ملائے جاتے ..... ظرف کا فرق ہے نا !!! ظرف ... جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا وہ خاموش ہے اور جو ہوتا ہے سمندر ... وہ خاموش رہ کر تصور باندھے رکھتا ہے چاند کا تو کبھی سورج کا اور سورج کا ہو کر چاند کو دیکھتا ہے کہ چاند ! کہ چاند ! تیری حقیقت کیا ہے ؟ کتنا غرور کرلے گا تو ؟ جتنا بھی کرے مگر اس پر کر .... ''دین'' تو ایک سے ہے اور لینے کا سلیقہ بس یہی کہ محبت میں رہے بندہ عاجز......!!!'

چاند گردش کس لیے کر رہا زمین کے گرد؟ کس لیے ؟ بتاؤ نا !!!
وہی تو .... لینے کا سلیقہ ہے اور دینے کا بھی ... اس ہاتھ لے اور اس ہاتھ دے ..... ملتا بھی تو ایسا ہے کہ فرق محسوس نہیں ہوتا کہ مل رہا ہے یہ چاند دے رہا ہے..

روشنی کی مشقت ! یا روشنی سے مشقت !

دونوں کرنی پڑتی ہیں... دونوں سے زندگی چلتی ہے جسم سے سرمدی نغموں کی لہریں نکلتی ہیں کہ نغمے کہاں سے آیا.... نغمہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے ... صدی بھی پل پھر کی ہوتی ہے یا پل میں صدیاں ... اور فاصلے کو کب ناپا جا سکتا ہے ... فاصلے بس فاصلے ... چلتے رہتے ہیں قافلے .... قافلے کو چلنا چاہیے کہ محبوب تو ایسے ملتا ہے ... نہ ملیں تو دکھ ، دکھ اور اس کے سوا کچھ ہوتا بھی نہیں ہے.... فاصلوں کا تکلف ... ہمیں کیا غرض ... ہمیں غزض ہو صرف اور صرف قافلے سے کہ جس کی سوچ پر چلنا ہے کائنات کا رُواں رُواں ... اس میں شمولیت کا ہونا عجب نہیں کہ عجب نہیں کائنات کے اس نگار خانے میں ... کوئی بیکار شے بھی کیا ہے کائنات کے اس کارخانے میں ؟؟؟

ارے ! ارے ! نہیں نہیں !!!! کچھ بھی نہیں ہے بیکار ! کچھ بھی نہیں ہے بیکار اس کارخانے میں....

کیا درد کا احساس بیکار نہیں ؟ کچھ بھی نہیں کہ دو پل کی زندگی ہے ، خوشی میں گزار دے اور جا نا ! جاکے عیش کر ! چار دن کی چاندنی ہے ...! گزار دے !

درد ! ہائے ! یہ درد ! جب سے محبوب جُدا ہوا ہے ،،،زمین تھم جاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ تھم دل بھی گیا ہے مگر اسی تیزی سے گھومتا ہے کہ صُبح کی نوید کوئی استعارہ ملے ....!!! کوئی اشارہ اور حوالہ ! یہ دنیا ہے ... دن اور رات کا چکر دنیا .... اس لیل و النھار کے چکر سے گھبرا مت .....!!! رات دن کی مجنوں اور دن رات کو لیلیٰ کی طرح چاہتا ہے ... رات کو دوام چاند سے ہے ... چاند کا رشتہ سورج سے ہے .... سورج روشنی ہے ! کون جانے گا اس روشنی کا.... کوئی کہے محشر کی گرمی ہے وصال میں اور کوئی راحت ہی راحت ہے چاند کے دیدار میں.... کون جانے درد کے کتنے چہرے ہیں ... کون جانے سب سے خوبصورت درد کا چہرہ .....؟

سب سے خوبرو چہرہ محبوت کا ہے.... سب سے پیارا درد کا چہرہ محبوب کا ہے .... اس کا احساس درد ہے ، مگر اس احساس سے دوامیت ملتی ہے ..... کون جانے گا اس محبت کے درد کو.... درد خوشبو ہے ، درد راحت بھی .. درد پیغام بھی ، درد الہام بھی ، درد اشکال بھی ، درد جمال بھی ، درد جلال میں.........کون جانے ! کون جانے ! کوئی نہ جانے ! جو جان جائے وہ کیا بتائے ! آہ ! درد بہت پیارا ہے............! اس درد کو میں اور آپ کیا محسوس کریں گے .....!

درد --------محبوب ---- روشنی

کیا تعلق درد کا روشنی سے کہ درد محبوب سے ملتا ہے ........ !!! جب تک ! جب تک درد نہ ملے ، آگاہی ہوتی نہیں ہے . اس کا انعام سمجھ اور تقسیم کو اکرام سمجھ ... اس تقیسم پر جہاں مرتا ہے ... مگر ہر کوئی مراد کہاں پاتا ہے .... راضی ہو جا اُس سے ، جو تجھ سے راضی ہے ... اس کی رضا میں سر جھکا ! سر جھکا ، مگر چھلکا کچھ بھی نا! جب جھکے گا سر ، تب ملے گا پھل ... اور جب ملے پھل تب کھلے گا اصل ... سب ایک ہی سے جڑا مگر مقصد جدا جدا ہیں...اصل اصل ہے اور نقل نقل ہے ..

مٹی کیا ہے َ؟ کیا ہے مٹی ہے؟ کچھ بھی نہیں ہے مٹی کی حقیقت .... کچھ بھی نہیں ... بس مٹی ایک ملمع ہے ، ایک پانی ہے ملمع کاری کا... بس اور کچھ نہیں .. نقلی چیز کون پسند کرتا ہے ...کوئی نہیں... سب سونا خالص مانگتے ! اور سونا خالص ہر جگہ ملتا نہیں ہے ....! جہاں ملے وہاں عطا ہوجاتی ہے ..

میرا سوال پھر بھی ادھوارا ہے کہ محبوب کو میں نے کہاں کہاں پایا ہے .....َ؟

سب کچھ سامنے ہے اور سوال پر سوال... غور کرآلے کچھ ... فکر کر لے کچھ.... محبوب کو درد میں پایا کیا؟ محبوب کا احساس میں پایا کیا؟ محبوب کو مظاہر میں پایا کیا ہے ؟ محبوب کو دل میں پایا کیا؟ اگر پایا تو سوال بڑا لا یعنی ہے اور نہیں پایا تو سوال بے معنی ہے جس کی تُک نہیں ... سب کچھ پکی پکائی کھیر نہیں کہ آنکھ چاہے ، دل مانگے جو وہی مل جائے ... بس جب فکر کی جائے تو آنکھ سے پہاڑ کی طرح کچھ بھی اوجھل نہیں ہونا.... بس راضی رہ ! راضی کرنا بھی سیکھ! خوش رہ اور خوش کرنا بھی سیکھ ! شکر کر اور شکر کرنا بھی سیکھ! چلتا بھی رہے اور ساکت رہنا بھی سیکھ کہ پانی بہتا بھی ہے اور ساکت بھی ہوتا ہے ، شور بھی مچا موج کی مانند اور خاموش بھی رہ سمندر کے جیسا...!!! درد لینا بھی سیکھ ، درد کو سمیٹنا بھی سیکھ ..! سیکھ سب ... فکر کر کیا کیا سیکھنا اور پھر جستجو کر ..........!!!

میں ‏حسن ‏مجسم ‏ہوں

میں حُسنِ مجسم ہوں 

کبھی کبھی تعریف کرنے کو دل چاہتا ہے میں خود کی تعریف کروں کہ میں حُسنِ مجسم ہوں ۔ ویسے تو ہر کوئی حُسن پرست ہے مگر میں کچھ زیادہ ہی حُسن پرست ہوں۔ گھنٹوں آئنہ دیکھوں مگر دل نہ بھرے ۔ میں نے آئنہ دیکھنا تو بچپن سے ہی شروع کیا کہ ہر کوئی پچپن سے کرتا مگر اپنے حسین ہونے کا احساس بچپن سے ہی جڑ پکڑ گیا کہ میں نور مجسم ہوں۔ میں حسین اور مجھ سا کوئی حسین نہیں۔ سوا اپنی حسن پرستی اور خُود نمائی کہ کچھ نہیں ۔ کچھ عرصہ ایسا گزارا میرے دل نے آئنے کے سامنے کھڑا ہونا چھوڑ دیا مجھے لگا کہ میں حسین نہیں ہوں ۔ میں سدا کی حُسن پرست ، جمال و ذوق کی خاطر اپنا نقصان کرنے والی ، ایک دن دنیا کی خاطر اپنے ذوق کا نقصان کردیا۔

آج میں کھڑی ہوں آنئے کے سامنے اور صبُح سے تک رہی خود کو۔۔۔ سوچ رہی ہوں میں کتنی حسین ہوں ، مجھ پر سحر سا طاری ہو رہا ہے جیسے میں کسی جھیل کے کنارے کھڑی ہوں ، اور ندی کی جھرنے میں سے میرا عکس میرے ہوبہو کھڑا مجھ سے باتیں کر رہا ہے اور میں ان جھرنوں کی موسیقیت میں خود کو سمو لے کر پُھولوں کی مہک محسوس کرتی ہوں میرا تن من مہک جاتا ہے ۔ گُلاب کی خوشبو کی میں شُروع سے دیوانی۔۔۔!!! مجھے خوشبو پاگل کر دیتی ہے 

یہ میری خود پسندی نہیں ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے ہر بندہ خوبصورت ہے کہ نگاہ میں ہو خوبصورتی بس! تلاش کو گر خوبصورتی کی مورتیں ۔۔۔کہاں ملیں گی ؟ کھوج لو یہ مورت اندر ! مل جائے گی خوبصورتی ۔۔ اس کی قیمت ابدی ہے ۔ یہ ویسے ہی خوبصورتی ہے ، جیسا کہ دنیا میں ہر سو باد ک جُھونکوں نے اشجار کے پتوں میں آواز پیدا کر دی ہو۔۔۔ ہواؤں نے گُلوں کی خوشبو جہاں میں مہکا دی ہو ۔ ندیوں نے پانی کی غزل بنا دی ہو۔ پرندوں نے موسیقی سے تال ملا دی ہو ، پہاڑوں نے کوئی گواہی دی ہو تب۔۔۔۔۔۔۔!!! گواہی دی ؟ ہاں دی !

کس کی گواہی ؟ حُسن کی گواہی !

''میں'' کہ اس وادی میں، جہاں سب مظاہر میری تعریف کرتے ہیں کہ ''میں'' ہی سب کچھ ہوں اور ''میں'' ایک حقیقت ہوں ۔ کیا حسین ہونا ہی خوبصورتی ہے ؟ میں نے کبھی خود کی تعریف نہیں کی تھی مگر آج جی چاہتا کہ تعریف کیے جاؤں اور کہے جاؤں کہ ''میں'' خوبصورت ہوں ۔ ''میں'' سرمدی نغمہ ہوں ۔۔۔!!!

میری اندر کی ''تو'' کی جنگ کو شکست فاش ہوگئی ہے ۔ کشمکش کو انجام ہونا تھا ۔ کشمکش انجام پا گئی ہے ۔ اس لیے اب کہ ''میں ''خود اپنے جمال میں محو ہوں ۔ انسان کتنی عُمر لے کے آیا ؟ کتنی لے کر جائے گا؟ بچہ پیدا ہوا معصوم ۔۔ لے کر آیا جمال اور واپس نہ جاسکا بحالتِ جمال تو کیا ہوگا؟

ابھی جمال میں محو ۔۔۔!!!

ابھی اشکوں نے شرر بار کردیا ! ابھی ندامت میں سر جھک گیا ! ابھی حلاوت نے فرحت ختم کردی ! ابھی رموز و آداب سے واقف نہیں ہوں۔ اس لیے اپنے آپ میں محو ہوں ۔ ابھی سجدہ کیا ! سجدہ کیا کہ معبود کا سجدہ عین العین ہے ۔۔۔ ابھی گُناہوں کی معاف مانگی ۔!!! انسان سمجھتا نہیں ہے کہ انسان جمال کا طالب ہے ، حسن کا مشتاق ہے ، پاگل ہے ، آوارہ ہے ، نہریں کھودتا دودھ کے ، کچے گھڑے پر بھروسہ ہوتا ، اور جانے کیا کرتا ہے ، حاصل ِ ذات اگر کامل ذات نہ ہو تو فائدہ ؟ مجھے شرمندہ ہونا تھا ۔۔۔ آج کے بعد کبھی خود کو خوبصورت نہیں کہوں گی؟ مگر کیوں نہ کہوں اگر میں خود کو بُھلا دوں تو؟ مجھ میں کیا رہے گا ؟ مجھ میں واحد رہے گا ۔۔۔ تو پھر کیوں کروں خود سے نفرت ؟ میں خود سے نفرت کیوں کروں کہ خود سے محبت آج ہی تو کی ہے

تجدید ‏کی ‏کنجی

تجدید کی کُنجی .....!!!

اے پیارے دِل ، میری پیاری جان ، میرے مہمان .... جان لو ، گواہ بنا لو ، حق کی بات کو ...! گواہی کی ضرورت آن پڑی اور سجدہ کی اہمیت کو انکار کون کرسکتا ہے . سجدہ اور گواہی اور انسان .... ان کا تعلق بڑا گہرا ہے ، جو جان لے وہ مراد پا گیا اور گوہر کو لے اُڑا. انسان کی مٹی کی حیثیت کیا ہے ؟

کس کی حیثیت ہے ؟

وہ جس سے علم حاصل کرتے ہو ...!!!

کیا وہ حواس ہیں؟
نہیں پیارے ، او مرے دلدار ... اے جانِ جاناں ... حواس کا کام صرف محسوس کرنا ہے ، اندر محسوس کرنا ہے یا باہر .... استعمال پر منحصر ہے ... ؟

حواس کا کام محسوس کرنا ہے تو علم کہاں سے آتا ؟ حسیات سے تو آتا ؟

اے جانِ دل ، میری عزیز تر ، مجھ سے قریب تر ، کیا بتاؤں میں .... اے جان تجھ کو کیا بتاؤں ... علم کیا ہے ؟ علم ہی سب کچھ ہے مگر حاصل کہاں سے کیا ؟ حواس ؟ نہیں جانی ...!!! کبھی کمپیوٹر کو دیکھ لے ، ماؤس اور کی بورڈ کو دیکھ ..! اے جاناں ... یہ ہی حواس ہیں ... یہ کام کرتے ہیں ان کو جیسے چلایا جاتا ہے . مگر جاناں ... چلاتا ہے کون؟ انسان ... ؟ کون؟ کوئی سالار ؟ اے میرے قریب تر ، مجھے ہو عزیز تر... سُنو ! سنو! سُنو ! سن کے جب اثر ہوا تو کہاں ہوا؟ اصل تک اثر کس نے پہنچایا ؟ کس نے ؟ کوئی پروسیسر ہے ؟ ہے کوئی ... بس مانیٹر کرنے والی مشین جو ''دو '' کے درمیاں قائم کرے توازن ... وہ ہے عقل ...! کون قائم کرتا ہے عقل کو ؟ کون ملاتا ہے مالک کو غلام سے اور کون بناتا ہے غلام کو آقا؟ جو بناتا ہے غلام کو آقا...! وہ ہو جاتا ہے خراب اور خراب کون پوچھے ! سمجھ ! سمجھ ! سمجھ ! اور سمجھ کے غور کر ! غور کر اور حاصل کر ! حاصل کو عطیہ جان اور فخر کر کہ عطا خاص ہے جو ہر روح کو ملے مگر اس کے لیے راستہ سیدھا کون کرے گا؟ کون آئے گا محبوب کی تخلیق کے پاس ؟ او خاکی !!! ترا اوپر ایک مٹی کا ''میک اپ '' ہے .. اندر کی اصل اس لیپا پوتی میں نہ چھپا ! اپنے اندر کا چہرہ سامنے لا ....! لا سامنے نا ! لا سامنے ! اور سامنے لا کے دیکھ خود کو ...! محو ہوجا! مگر اگر بنالے تُو خُود کو حیوان اور ہوجائے ''میک اپ '' کا ماسک ترا چہرہ ... تو کون بچا پائے گا تجھ کو گمراہی سے !

اے دِل ، اس قدر ثقیل باتوں کو سمجھوں کیسے ؟ کیسے ؟ بتا دو نا ! بتا دو ! ثقیل کی عمیق میں کُھو کر پا جاؤں خُود کو .. یہ '' غلام " کون ہے ؟ اس غلامی سے نجات کی شرط کیا ہے ؟

اے حبیب ِ دل ! اے مکینِ دل ! اے قریب جان ! سوال بڑے عالمانہ ہیں مگر الجھ نہ ، سلجھا سب باتوں کو ..! سُن کہ غلامی حواس کے ذریعے اور نجات بھی حواس کے ذریعے ..! پروسیسر کی پراسسنگ ٹھیک ہونی چاہیے ... !

ہائے ! کیسے ہوگی ٹھیک !

ہوگی ٹھیک ! کر لے عہد کو تازہ اور شرشاری کو اپنا من و عن ، سمجھ کہ دو عالم کی سیر کے بعد ''الست بربکم '' پر سب نے کئے دستخط مگر کثافت میں آئے تو بھول گئے اور بھول گئے تو حواس نے غلام بنا لیا عقل کو .. محسوس موجودات کو کیا اپنی مرضی سے۔۔۔ اور چھوڑ دیا اپنا مرکز ، اپنی سمت کہ جس سمت سے دیکھنا تھا موجوادات کو... ہائے ۔۔!!!!کیا کریں گے وہ ۔۔! وہ جو چھوڑ گئے اپنے ''اعمال سیہ '' کے نشانات !!! کیا کریں گے ؟ جب ان کے سیہ کاریوں نے ان کو مرکز کو گُم کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! ان کی سمت مرکز کے مخالف ہوگئی اور عقل نے بنا لیا حواس کو قبلہ...!!! کہاں جائیں گے وہ ؟ کہاں جن کو اب آئنہ سے کچھ نہ ملا تو وہ آخرت میں کیا پائیں گے ؟ کیا پائیں گے ؟ کیا پائیں گے ؟

وہ جنہوں نے عقل کو تابع کرلیا اور حواس کو پہچان لیا اور زندگی میں کردی شُروع جنگ ! کردی گئی ان پر دنیا تنگ ! اور ہوگئے سب ننگ ! کیا کریں گے پتنگے ؟ کہاں جائیں گے ؟ شمع کہاں سے پائیں گے ؟ شمع جس نے پالی ..اُس نے حقیقت کو جان لیا ...! سب سے پہلے اپنی پہچان لازم ہے ..! وہ پہچان جس کے لیے مرکز کو حُکم کہ حاصل کر اپنا ایمان تجدید کے ذریعے ...! مرکز نے سجدہ کر دیا مگر اِس سے پہلے کیا کیا ؟ کیا؟ مرکز نے مانا عقل کو تابع اپنا اور عقل نے کیا حواس کو تابع اپنا اور جب ایک ہوگئے سب ... سب نے یک بیک کہا !

'' قالو بلی''

اور قالو بلی ! سے ''قلم '' کو ملی روشنی ! عقل نے سیکھا پیچ و خم میں سے الجھ کر نکلنا اور گنہ سے بچنا اور پروسیسر پر لکھا گیا پیمانِ الست ! ایک پیمان کیا پہلی تخلیق پر .. یعنی اصل کی تخلیق پر اور ایک پیمان کرو تم سب مٹی میں آجانے کے بعد ، کثیف ہوجانے کے بعد... تاکہ کثافت میں رہتے ہوئے مرکز کو جان کر عقل کو مطیع کرکے ، حواس کو اپنے روح سے کرلو قریب تر ! جب یہ کرچکے تو ہوگئی تجدید ! عہد ہو گیا تازہ ! اور تاز ہ ہوجانے کے بعد کُھلا الہام و کشف و وحی کا سلسلہ ! جس نے کر دی تجدید اور سلسلہ کھُلا تو سمجھ لو کہ راضی ہوا رب اور جب کردیا راضی رب کو ! تو فرض کیا ؟ فرض یہ کہ سجدہ کر و ! سجدہ کہ شکر واجب ہوا اور تم ہوگئے اور خالق کے قریب تر ، اس کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کتنا علم دے کہ '''وہ نوازنے پر آئے تو نواز دے زمانہ۔۔۔!!

مگر افسوس پیارے ! افسوس پیارے ! جنہوں نے اپنا خُدا بنایا مرکز کو چھوڑ کر ''دو'' سے ... یعنی تحقیق کی ، کھوجا ! اور کھوجا ماؤس اور کی بوڑد سے ، اپنی پروسییسر کے ذریعے .. انہوں نے منزل کھو دی ! جو منزل کھو دیں وہ کیا کریں ؟ بولو ؟ کیا کریں؟ کیا ؟ وہ مرکز جو سب مرکزوں کو اپنے سے جوڑے ہوئے ہیں ، اسکی تصویریں ہیں سب ، سب تصویروں میں لکھا خالق کانام اور جب خالق کا نام روح نے مٹا ڈالا تو ہوگئی اندھی ! اندھا کیا جانے سمت کیا ہے ؟ اندھے کا کام طنز کرنا ہے ، اندھے کا کام ہجو کرنا ہے ، اندھے کا کام دین میں سے نکالنا وہ باتیں جو پھیلائیں فتنہ اور کریں شرر بار ! جذبات کردیں مجروح ! اندھا تو کرے گا یہ کام مگر ہو گا کیا انجام اُس کا ؟

کبھی تٗوسوچو ! کبھی تو سوچو !

جو خالق کا نام لے لے کر ، اُس کے نام سے اُڑائے مزاق ، اُس پاک نام کی ہجو کرے ، اس کے بندے کو کرے ناراض ، اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کیا ہوگا ؟ یقنیاً ! یقیناً! یقیناً ! ہوگا اس کا انجام بُرا مگر اے جاناں ! دُکھ اور تاسف ! دکھ انہوں نے پہچان کھو دی ! حقیقت سے دور ہوگئے اور اپنے خُدا بنا لیے ! ان خُداؤں سے نکلیں تو کریں تجدید !

افسوس ہے جو نہ کرپائیں گے تجدید ، وہ ہوجائیں گے رُسوا اور رُسوا ہو جانے کے بعد ملتا ہے عذاب ، درد ناک عذاب ، ملے گا پل پل میں صدی کا عذاب اور اس عذاب دُہرایا جائے گا صدیوں تک ! صدیوں کے پل اور صدیوں کا درد جب ملے گا تُو کیا ہوگا ! ہوگا کیا ! بس ہمیشہ کے لیے رہیں گے عذاب میں اور روئیں گے ہم نے علم حاصل نہ کیا جس کی وجہ سے ہمیں فرشتوں پر ٖفضیلت حاصل ہے !

سجدہ ! سجدہ ! اور بس ایک کر سجدہ اور ادا کر ساری عبادتیں قضا اس سجدے میں ، توبہ کرلے اور ہو جا حبیب ! بن جا خوش نصیب اور قریب ہونے سے حاصل کر رب سچے کا قُرب !

آسمانوں ‏زمینوں ‏کا ‏نور

آسمانوں زمینوں کا مالک اللہ تعالی ہے اور وہی حکیم الحکئم ہے ۔ اس کی ذات  کی تجلی جس پر پڑ جاتی تے وہ نور سے منور ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر جس انسان پر عنایات کی بارش کرتا ہے اس کی نوازش کی انتہا  کا تصور  نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ جو پیاررے رسول ﷺ اللہ کے محبوب ہیں اللہ تعالیٰ جب ان کو نوازیں گے تو کیسے نوازیں گے اس کا اللہ نے قران پاک میں جگہ جگہ ذکر کیا ہے ۔ کہیں کہا گیا ہے کہ مقامَ محمود سے نواز دیں گے تو کہیں کہا گیا ہے ایسی نہر کی عطا ہوگی جس کسی اور نبی یا بشر کو نہ ملے گی تو کہیں ارشاد ہوتا ہے ایک ہزاد محلات سے نوازیں گے تو کہیں شفاعت کا حق دیا تو کہیں ساقی حوضِ کوثر بنایا اور تو اور آپﷺ  پر نا صرف بلکہ آپﷺ کی آل پر بھی درود بھیجنا عائد کیا ہے ۔ میرے نبی ﷺ کی مثال تو ایسی ہے جیسے چمکتا سورج ہے اور ایسا سورج جس سے دیکھ کے چاند شرمائے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اکرامات کا ذکر سورہ الضحٰی میں کیا ہے اور براہ راست نبی کریمﷺ کرتے قسم کھائی ہے کہ میرے نبی کی مثال روشنی دیتے ہوئے سورج کی سی ہے جبکہ باطل میں رہنے والے افراد کی مثال تاریکی سے ہے ایسی رات جس میں خاموشی اور ہو کا عالم ہے جبکہ دن جس میں چہل پہل اور رونق ہے ۔ دن رات پر حاوی ہے اسی طرح میرے نبی کریمﷺ جیسا سورج افق پر نموادر ہوچکا ہے جو گھپ اندھیری رات میں باعث روشنی ہے ۔ سبحان اللہ اللہ جل شانہ کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہمیں راہ دکھلاتے ہیں تاکہ ہم نشانیاں سمجھیں اور ان پر غور کریں ۔ دن کے ساتھ اور رات کے ساتھ دن ہے بالکل اسی طرح نبی کریمﷺ کے ساتھ اللہ جل شانہ کا ربط مسلسل ہے کہ رات کا مالک بھی وہی ہے اور دن کا بھی ۔۔ اس ربط میں اگر وحی کا نزول نہ بھی ہو تو پریشانی کی بات نہیں اور جب ہو اس سے بڑھ کر خوشی کی بات نہیں ۔ دونوں حالت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریمﷺ سے راضی ہیں اور اسی بات کی بشارت دیتے ہیں کہ میں آپ ﷺ سے راضی ہوں اس رضا کی بدولت جب مجھ سے بدلے کی امید رکھو تو میں ہی سنو دینے والا ہوں اور میری عطا ایسی بے مثال ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے جب اللہ نوازنے پر آجائیں تو بے شک اس کی کوئی حد نہیں آتے کہ وہ نوازنے پر آئے تو نواز دے زمانہ تو نبی آخر الزماں ، میرے کبریاء پر اللہ کی نوازش ہے اس نوازش اور انعام کے بدلے ان کے ذمے کچھ احکامات اللہ تعالیٰ نے ان کے ذمے لگائے ہیں  ۔ جیسا کہ آپﷺ کو اللہ نے شریعت کا علم دیتے راہ دکھائی کہ اس سے پہلے اس سے لا علم تھے ۔ آپﷺ یتیم و مسکیں تھے مگر آپﷺ پر اللہ نے عنایات کی بارش کردی ۔ آپﷺ پر تنگی کو دور کیا بالکل اسی طرح  نبی اکرمﷺ پر واجب ہے کہ جیسا اللہ نے ان سے معاملہ کیا ہے ویسا ہی معاملہ وہ اس سے  کے بندوں سے رکھتے  عفو  و رحمت اور اجالے کا باعث بنے کہ ان کو علم دیا ہے تو اس کی تقسیم کریں ان کو غنی کیا ہے اس کی تقسیم کریں ۔اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو احسانات یاد  رکھنے کا حکم دیا ہے

چونکہ ہم آپﷺ کے پیروکار ہیں تو یہی بات ہم پر لاگو ہوتی ہے کہ اللہ نے مصائب و آلام میں ہمیں سہارا دیا ، ہم لا علم تھے ہمیں اسلام جیسا مکمل دین نواز ہے ، ہم عسرت میں ہوں تو اس کو پکارتے ہیں اور اس پکار کے ساتھ دل میں وہ راحت و تسکیں بھرتے غموں کو دور کر دیتا ہے بلاشبہ اللہ کا احسان عظیم ہے کہ ہمیں بھی دکھی انسانیت کو ویسا ہی سہارا دینا چاہیے جیسے نبی اکرمﷺ نے دیا ہے اور ویسے ہی طرز عمل رکھنا چاہیے جیسے ہمارے نبی اکرمﷺ کا تھا ۔۔جزاک اللہ خیر

Thursday, October 29, 2020

محبت

محبت کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ میری زندگی میں  نظریات کے تغیر نے محبت کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ نظریہ محبت روحوں کے تعلقات سے منبطق ہے. روح کے کششی سرے قربت اور مخالف سرے مخالفت میں جاتے ہیں. بنیادی طور پر درجہ بندی کشش اور مخالفت کی ہوتی ہے. اِن روحوں سے نکلتی ''نورانی شعاعیں'' ایک سپیکڑیم بناتی ہیں. ارواح کی کشش کا  دائرہ بڑا یا   چھوٹا ہوسکتا ہے.اور ان کی دوسری درجہ بندی دائروی وسعت کرتی ہے اور یوں انواع و اقسام کی ارواح تغیر کے ساتھ مرکز کے ساتھ مخالفت یا کشش کرتی ہیں. جن کا حلقہِ کشش بڑا ہوتا ہے وہی مرکز سے قریب ہوتی ہیں.

لوگ کہتے ہیں محبت کا سرچشمہ بدن ہے. انصال سے انتقال ہوتا ہے  اور انتقال حواسِ خمسہ کا محتاج ہوتا ہے. اور یہی محبت اصل محبت ہے کہ محبت روپ بدلتی ہے یا کہ لیں لباس بدلتی ہے. محبت پھر خود ملبوس ہے جس کو میں اوڑھ لوں اور زمانے کے رواج کے مطابق اوڑھنی اتار پھینک دوں . دوسری صورت میں انصال کے بعد اتصال اور انتقال میں اس قدر موافقت ہو کہ یہ روح اور خاک دونوں کا ملزوم ٹھہرتی ہیں. محبت ملبوس کی طرح نہیں ہوتی مگر اس میں خاک ایک ملاوٹ کی طرح ہوتی ہے. دل نہ ہو میلا، بدن میلا اور رنگ کچیلا ..۔۔۔

محبت کی پہلی سیڑھی خاک سے چلتی روح کو بھنگ پلاتی ہے اور افیون کے دھونی میں 'من نشیلا ' تن بھلا ' بیٹھے لوگ ''دائروی رقص'' شروع کرتے نظر آتے ہیں اس رقص میں روح کے ساتھ ساتھ  جسم بھی  گھومتا ہے ۔اس پہیے  (جسم)کو روح تحریک دیتی رہتی ہے یہاں تک کا تن اور من کا ہوش جاتا رہتا ہے. تب ایک روح تقسیم در تقسیم کے بعد تن کی نفی کا کلمہ پڑھ لیتی ہے اور مقام عین پالیتی ہے.

روحانی انتقال بجسمانی کے فوقیت رکھتا ہے. یہ درجہ آگہی کے دروازے پر لاکھڑا کرتا ہے. آگہی جنون بھی ہے اور عذاب بھی۔۔۔۔.  یہ فہم بھی ہے اور ادراک بھی ۔۔۔۔۔ یہ راز بھی ہے اور انکشاف بھی ۔۔۔۔!!!

دروازے تک پہنچنے کے لیے لمحوں کی تپسا بھی اہمیت رکھتی ہے کہ پل بھر میں صدی بھر کا درد دے دیا جاتا ہے.اور پل پل درد کا انجیکشن ہوش سے ماورا کیے رکھتا ہے اور عاشق عین دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے. ''

کیا دروازے کھٹکھٹاؤ گے؟ شرم و آداب کے تمام التزامات کو بھول جاؤ گے؟''

یہاں روح سے موسیقی کے سُر نکلتے ہیں ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے.۔۔  موسیقی کی تال پر ناچنے والے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک پہنچا دیے جاتے ہیں کہ اس جہاں میں ہوش و عقل ناکام و نامراد پلٹتے ہیں ۔ یہ سرشاری و مستی ، یہ عالمِ بے خبری انکشاف کے  دروازے ہی  نہاں کو عیاں کرتی ہے ۔ کہنے کو  مد ہوشی بھی ایک نعمت ہے