Saturday, November 14, 2020

احساس ـــ انتہا

احساس ـــ انتہا

لکھنا اک ایسی کیفیت ہے جو جذبات کی منتٰہی سے اُبھرتی ہے ـ جذبات کی ایسی انتہا جو آپ کو قیود سے آزاد کردیتی ہیں ـــ جو آپ کو گمان سے پرے ایسی جہان میں لیجاتی ہیں جہاں کیفیات خواب بن جاتی ہیں ـــ یہ عالم شوق کا ہوتا ہے کہ آپ خود کو بھول جاتے ہیں اور گُمان کی وادی میں شوق کی جلوہ آرائیاں دیکھتے ہیں ـــ یہ ہمکلامی اکثر جو خود سے کی جاتی ہے، وہ احساسات کے نئے دَر وا کرتی ہے .. اس وقت اگر آپ پتھر سے بھی ہمکلام ہوں یا کسی شجر کے آگے کھڑے ہوکے احساس کی باتیں کریں ـــ یا کسی کتاب کے لفظوں سے بات کریں ـــ آپکو محسوس ہوگا کہ بے جان شے کو جان مل جاتی ہے ـــــ اور وہ ہمیں سنتے جواب دیتے ہیں ـــ جب بے جان شے ہمیں جواب دے تو کیا جاندار پر ہماری شدت کا اثر نہ ہوگا؟ محبت کا یہ تحفہ آدم کو دیا اس لیے گیا ہے کہ وہ شدت سے کھو کے خدا کو پکارے اور پھر پکار کا جواب ہر ہر شے سے سنے! یہ صامت اشیاء اسکے وجدان کو متحرک دکھنے لگیں اور جواب ملنے لگے ـــــ

محبت درد ہے اور درد کا تحفہ جسکو ملے ـــ جان لے وہ بھی یہ درد اک ذات نے تقسیم کیا ہے ـــ اک ہی بانسری ہے اور اک ہی لے پر درد کی دھنیں مختلف ہوگئیں ــــ اسکو یوں سمجھیں اک جوگی نے جوگ پال لیا اور محبوب کو بلانے کو بین بجائے جا رہا ہو ـــ

جب دل میں اسکا درد اترنے لگتا ہے تو کوئی سجدے میں گر پڑتا ہے گویا تسلیم ہوگیا کہ درد ترا مجھ میں بول رہا ہے یعنی تو ہی مجھ میں ہے ــــ یہ احساس اقربیت کی نشانی ہے ــــ یوں پتھر دل ٹوٹنے لگتا ہے اور جہاں جہاں شگاف پڑتا ہے وہاں سے اسکے نور کے دھارے مانند پانی جیسے بہنے لگتے ہیں ــــ یعنی درد ایسا تحفہ ہے جو ہمیں خدا سے روشناس کراتا ہے ـــ

اس صورت میں درد اک راز بن جاتا ہے کیونکہ محرمِ راز بذات خود خدا ہوتا یے ــــ اب ایسی صورت میں جب انسان درود پڑھتا ہے اسکو سمجھ لگ جاتی ہے کہ اللہ اور اسکے فرشتے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں ــــ یہ راز ہے کہ بندہ درود خود سے پڑھ نہیں سکتا جب تک فرشتے اور بذات خود خدا ساتھ نہ ہو ـــــ