حرفِ متحرک
سُنو دل! اے حرفِ متحرک سُنو! تم سنو گی؟ تم نہیں تو کون سنے گا اس کی بات اوروہ بات کہ حروف دائرے میں ہیں ---- میں نے الف کو الف سے ملانے کا کہا.تو حروف تہجی نے رقص شروع کردیا -- تمہیں دائروں کا رقص سمجھ آیا؟ یہ دائرے الوہی ہیں -- ولینا سے نکلے ہیں اور علیکم سے تعلق ہے. کیسا لگے کہ شب اسرار کو دھواں کہا جائے؟ کیسا لگے رگ دل کو الہ کہا جائے؟ کیسا دل تہہ دل میں باللہ کہا جائے؟ کیسی جان روح اللہ میں فتح مبین کہلائ جائے -- مبارک ہو فتح مبین -- ہر حرف کی فتح مختلف ہوتی ہے --- فتح شجر سے منسلک ہوتی ہے اور مفتوح علاقے میں سرائیت کیے جاتی یے --- لوحِ مبین پر اک ستارہ ہے جو رقص میں ہے اسکو رقص نے شرر بود کیا ہے اگر تو اسکا حال جانے تو کہے کہ ترا حال وہی ہوگا جو مرا حال ہے --- وہ حال ہے کہ دل کا دل سے نکلنا محال ہے --- شمع فنا سے نکلے تو قبا بدلے گی --- راج شاہی میں ہوتا ہے جسکے لیے شاہ کا ہونا لازمی ہے --- شاہ کے سوار ہوتے ہیں اور سواری کا لطف بھی بے پناہ ہوتا ہے جو شے ذائقہ دیتی ہے وہ مطمئنہ کا ذائقہ ہے اور سارے ماندے ذائقے ہیں ---
تمھاری صورت اک ظاہر ہے - دوسری درون کی ہے --- صورت گَری میں ہر صورت جُدا ہے مگر جدا صورتیں ہوتے ہوئے رنگ تَمام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکلے --- آپ؟ آپ اللہ کا نورِ خاص ہیں اور صبغـــتہ اللہ کی حَسین مورت ہیں --- اللہ کا رنگ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا رنگ ہے جسطرح اطیعواللہ ہے اطیعو الرسول --- یہ اَطاعت کَہاں سے ملتی ہے؟ تم کو یہ طاعت رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عطا ہوتی ہے جب وہ اپنی کملی میں لیتے --- کملی انکا نور ہے --- یا ایھا المزمل --- یہ پرجلال کملی --- یا ایھا المدثر --- یا صبح جَلال والی ---- طٰـــہ یہ ایسا سایہ جو جلالی قوت میں بخدا یکساں ہے جو صرف نبیوں اور مقربین کو عطا ہوتا ہے --- یہ یسین ایسا پرت ہے جو تہہِ دل میں بے انتہا جمال لیے ہے --- حـــم نفس کی عبدیت سے بے نیازی کا نشان ہے -- یہ سفر کے استعارے ہیں جو نبی ء محتشم خود عطا کرتے ہیں --- صلی اللہ علیہ والہ وسلم -- یہ سفر ہے جس کو وہ خود طے کراتے ہیں -- یہ تمام ان کی زیر پرستی میں ہوتا ہے، وہی ہے جو پرواز قوت سے بلاتے ہیں وہی ہیں جو پرواز دیتے ہیں کہ بندہ اقرب ہوجائے ...شہ رگ لا کہتی رہے اور بندہ پہ الا اللہ ثابت ہو -- جب الا اللہ ہو تو پھر اعراف میں جانا دور تو نہین ہے ..علیین سے ملنا کہاں نا ممکن ہے -- عالم برزخ پردہ ہے -- لاروحی کا -- اک ہے سب کے عالم -- اک ہیں سب یکتا اور یکتائی وحدت کا سفر ہے -- علیین والے بلندی سے دیکھتے ہیں زمین کو تو مطلع انوارات سے سب حشر خیز مراحل عبور ہو جاتے ہیں یہ ان کی نگاہ ہوتی ہے جو بانگاہ ہوتی -- مگر یکتائی خدائ کو ہے تو خدا ہی ہے جو علیین سے دیکھے یا زمین سے -- بندہ کو جب کچھ ملتا ہے تب وہ آسمان دیکھتا ہے برستا یے زمین بیل بوٹے اگانے لگ جاتی ہے یہ رزق ہے جو نیت پر مل جاتا ہے..رب حبیب رکھتا یے جو زمین کو اخلاص کا پانی دیتا رہتا ہے * 'چاند مثلِ شمس نہیں ہوتا مگر شمع آفتاب بن جاتا ہے جس سے کرنیں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں کرنیں بھی کیا پھیلیں جب پروانہ جل جاتا ہے بس مرکز بن جاتا ہے قطب بن جاتا ہے بندے کا قطبی ستارہ اسکے اندر ہے اور رب اس قطبی ستارے کی قسم کھاتا ہے والسماء والطارق کہ جب آسمان سے نگاہ ہوتی ہے تب قطبی ستارہ چمک اٹھتا ہے ورنہ انسان کی اوقات کیا ہے بین الصلب والترائب -- یہ اللہ ہے جسے جیسے چاہے نواز دے جسے جس رنگ میں نواز دے
قرار نہ تھا کسی پل
چین کو روئی ہوں بُہت
پھر بھی چین نہیں آیا
پھر لگا کہ بےچینی کو سکون بنانا پڑے گا
کس سفر پر ہوں میں؟
پہچان کے؟
نہیں چاہیے
کیا چاہیے
محبت و جلوہ
علم چاہیے؟
نہیں؟
نور چاہیے
نہیں؟
کیا چاہیے
جلوہ!
بس جسکو تڑپ جلوے کی ہو اسکو علم کی بھی طلب نہیں. میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تلک رسائ خود مرا عرفان ہے. ہم ان تک پہنچیں اس سے بڑھ کے بات کیا ہوگی ...