تجدید کی کُنجی .....!!!
اے پیارے دِل ، میری پیاری جان ، میرے مہمان .... جان لو ، گواہ بنا لو ، حق کی بات کو ...! گواہی کی ضرورت آن پڑی اور سجدہ کی اہمیت کو انکار کون کرسکتا ہے . سجدہ اور گواہی اور انسان .... ان کا تعلق بڑا گہرا ہے ، جو جان لے وہ مراد پا گیا اور گوہر کو لے اُڑا. انسان کی مٹی کی حیثیت کیا ہے ؟
کس کی حیثیت ہے ؟
وہ جس سے علم حاصل کرتے ہو ...!!!
کیا وہ حواس ہیں؟
نہیں پیارے ، او مرے دلدار ... اے جانِ جاناں ... حواس کا کام صرف محسوس کرنا ہے ، اندر محسوس کرنا ہے یا باہر .... استعمال پر منحصر ہے ... ؟
حواس کا کام محسوس کرنا ہے تو علم کہاں سے آتا ؟ حسیات سے تو آتا ؟
اے جانِ دل ، میری عزیز تر ، مجھ سے قریب تر ، کیا بتاؤں میں .... اے جان تجھ کو کیا بتاؤں ... علم کیا ہے ؟ علم ہی سب کچھ ہے مگر حاصل کہاں سے کیا ؟ حواس ؟ نہیں جانی ...!!! کبھی کمپیوٹر کو دیکھ لے ، ماؤس اور کی بورڈ کو دیکھ ..! اے جاناں ... یہ ہی حواس ہیں ... یہ کام کرتے ہیں ان کو جیسے چلایا جاتا ہے . مگر جاناں ... چلاتا ہے کون؟ انسان ... ؟ کون؟ کوئی سالار ؟ اے میرے قریب تر ، مجھے ہو عزیز تر... سُنو ! سنو! سُنو ! سن کے جب اثر ہوا تو کہاں ہوا؟ اصل تک اثر کس نے پہنچایا ؟ کس نے ؟ کوئی پروسیسر ہے ؟ ہے کوئی ... بس مانیٹر کرنے والی مشین جو ''دو '' کے درمیاں قائم کرے توازن ... وہ ہے عقل ...! کون قائم کرتا ہے عقل کو ؟ کون ملاتا ہے مالک کو غلام سے اور کون بناتا ہے غلام کو آقا؟ جو بناتا ہے غلام کو آقا...! وہ ہو جاتا ہے خراب اور خراب کون پوچھے ! سمجھ ! سمجھ ! سمجھ ! اور سمجھ کے غور کر ! غور کر اور حاصل کر ! حاصل کو عطیہ جان اور فخر کر کہ عطا خاص ہے جو ہر روح کو ملے مگر اس کے لیے راستہ سیدھا کون کرے گا؟ کون آئے گا محبوب کی تخلیق کے پاس ؟ او خاکی !!! ترا اوپر ایک مٹی کا ''میک اپ '' ہے .. اندر کی اصل اس لیپا پوتی میں نہ چھپا ! اپنے اندر کا چہرہ سامنے لا ....! لا سامنے نا ! لا سامنے ! اور سامنے لا کے دیکھ خود کو ...! محو ہوجا! مگر اگر بنالے تُو خُود کو حیوان اور ہوجائے ''میک اپ '' کا ماسک ترا چہرہ ... تو کون بچا پائے گا تجھ کو گمراہی سے !
اے دِل ، اس قدر ثقیل باتوں کو سمجھوں کیسے ؟ کیسے ؟ بتا دو نا ! بتا دو ! ثقیل کی عمیق میں کُھو کر پا جاؤں خُود کو .. یہ '' غلام " کون ہے ؟ اس غلامی سے نجات کی شرط کیا ہے ؟
اے حبیب ِ دل ! اے مکینِ دل ! اے قریب جان ! سوال بڑے عالمانہ ہیں مگر الجھ نہ ، سلجھا سب باتوں کو ..! سُن کہ غلامی حواس کے ذریعے اور نجات بھی حواس کے ذریعے ..! پروسیسر کی پراسسنگ ٹھیک ہونی چاہیے ... !
ہائے ! کیسے ہوگی ٹھیک !
ہوگی ٹھیک ! کر لے عہد کو تازہ اور شرشاری کو اپنا من و عن ، سمجھ کہ دو عالم کی سیر کے بعد ''الست بربکم '' پر سب نے کئے دستخط مگر کثافت میں آئے تو بھول گئے اور بھول گئے تو حواس نے غلام بنا لیا عقل کو .. محسوس موجودات کو کیا اپنی مرضی سے۔۔۔ اور چھوڑ دیا اپنا مرکز ، اپنی سمت کہ جس سمت سے دیکھنا تھا موجوادات کو... ہائے ۔۔!!!!کیا کریں گے وہ ۔۔! وہ جو چھوڑ گئے اپنے ''اعمال سیہ '' کے نشانات !!! کیا کریں گے ؟ جب ان کے سیہ کاریوں نے ان کو مرکز کو گُم کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! ان کی سمت مرکز کے مخالف ہوگئی اور عقل نے بنا لیا حواس کو قبلہ...!!! کہاں جائیں گے وہ ؟ کہاں جن کو اب آئنہ سے کچھ نہ ملا تو وہ آخرت میں کیا پائیں گے ؟ کیا پائیں گے ؟ کیا پائیں گے ؟
وہ جنہوں نے عقل کو تابع کرلیا اور حواس کو پہچان لیا اور زندگی میں کردی شُروع جنگ ! کردی گئی ان پر دنیا تنگ ! اور ہوگئے سب ننگ ! کیا کریں گے پتنگے ؟ کہاں جائیں گے ؟ شمع کہاں سے پائیں گے ؟ شمع جس نے پالی ..اُس نے حقیقت کو جان لیا ...! سب سے پہلے اپنی پہچان لازم ہے ..! وہ پہچان جس کے لیے مرکز کو حُکم کہ حاصل کر اپنا ایمان تجدید کے ذریعے ...! مرکز نے سجدہ کر دیا مگر اِس سے پہلے کیا کیا ؟ کیا؟ مرکز نے مانا عقل کو تابع اپنا اور عقل نے کیا حواس کو تابع اپنا اور جب ایک ہوگئے سب ... سب نے یک بیک کہا !
'' قالو بلی''
اور قالو بلی ! سے ''قلم '' کو ملی روشنی ! عقل نے سیکھا پیچ و خم میں سے الجھ کر نکلنا اور گنہ سے بچنا اور پروسیسر پر لکھا گیا پیمانِ الست ! ایک پیمان کیا پہلی تخلیق پر .. یعنی اصل کی تخلیق پر اور ایک پیمان کرو تم سب مٹی میں آجانے کے بعد ، کثیف ہوجانے کے بعد... تاکہ کثافت میں رہتے ہوئے مرکز کو جان کر عقل کو مطیع کرکے ، حواس کو اپنے روح سے کرلو قریب تر ! جب یہ کرچکے تو ہوگئی تجدید ! عہد ہو گیا تازہ ! اور تاز ہ ہوجانے کے بعد کُھلا الہام و کشف و وحی کا سلسلہ ! جس نے کر دی تجدید اور سلسلہ کھُلا تو سمجھ لو کہ راضی ہوا رب اور جب کردیا راضی رب کو ! تو فرض کیا ؟ فرض یہ کہ سجدہ کر و ! سجدہ کہ شکر واجب ہوا اور تم ہوگئے اور خالق کے قریب تر ، اس کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کتنا علم دے کہ '''وہ نوازنے پر آئے تو نواز دے زمانہ۔۔۔!!
مگر افسوس پیارے ! افسوس پیارے ! جنہوں نے اپنا خُدا بنایا مرکز کو چھوڑ کر ''دو'' سے ... یعنی تحقیق کی ، کھوجا ! اور کھوجا ماؤس اور کی بوڑد سے ، اپنی پروسییسر کے ذریعے .. انہوں نے منزل کھو دی ! جو منزل کھو دیں وہ کیا کریں ؟ بولو ؟ کیا کریں؟ کیا ؟ وہ مرکز جو سب مرکزوں کو اپنے سے جوڑے ہوئے ہیں ، اسکی تصویریں ہیں سب ، سب تصویروں میں لکھا خالق کانام اور جب خالق کا نام روح نے مٹا ڈالا تو ہوگئی اندھی ! اندھا کیا جانے سمت کیا ہے ؟ اندھے کا کام طنز کرنا ہے ، اندھے کا کام ہجو کرنا ہے ، اندھے کا کام دین میں سے نکالنا وہ باتیں جو پھیلائیں فتنہ اور کریں شرر بار ! جذبات کردیں مجروح ! اندھا تو کرے گا یہ کام مگر ہو گا کیا انجام اُس کا ؟
کبھی تٗوسوچو ! کبھی تو سوچو !
جو خالق کا نام لے لے کر ، اُس کے نام سے اُڑائے مزاق ، اُس پاک نام کی ہجو کرے ، اس کے بندے کو کرے ناراض ، اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کیا ہوگا ؟ یقنیاً ! یقیناً! یقیناً ! ہوگا اس کا انجام بُرا مگر اے جاناں ! دُکھ اور تاسف ! دکھ انہوں نے پہچان کھو دی ! حقیقت سے دور ہوگئے اور اپنے خُدا بنا لیے ! ان خُداؤں سے نکلیں تو کریں تجدید !
افسوس ہے جو نہ کرپائیں گے تجدید ، وہ ہوجائیں گے رُسوا اور رُسوا ہو جانے کے بعد ملتا ہے عذاب ، درد ناک عذاب ، ملے گا پل پل میں صدی کا عذاب اور اس عذاب دُہرایا جائے گا صدیوں تک ! صدیوں کے پل اور صدیوں کا درد جب ملے گا تُو کیا ہوگا ! ہوگا کیا ! بس ہمیشہ کے لیے رہیں گے عذاب میں اور روئیں گے ہم نے علم حاصل نہ کیا جس کی وجہ سے ہمیں فرشتوں پر ٖفضیلت حاصل ہے !
سجدہ ! سجدہ ! اور بس ایک کر سجدہ اور ادا کر ساری عبادتیں قضا اس سجدے میں ، توبہ کرلے اور ہو جا حبیب ! بن جا خوش نصیب اور قریب ہونے سے حاصل کر رب سچے کا قُرب !