Sunday, November 22, 2020

خُدا نے میرے قلب میں صدا یہی لگائی ہے

 


خُدا نے میرے قلب میں صدا یہی لگائی ہے
سَدا یہ دُنیا اُس کے ہونے کی بَڑی گَواہی ہے

نمازی جب وَفورِ شوق سے ہو گر قَیام میں
وہ مُنہَمک ہو کے خُدا سے ہوتا ہے کلام میں

رُتوں کو بَدل دے یار کے حُضور ایک سجدہ
وِصال میں کمالِ حرفِ دل سے ہو گیا ہے بندہ

یہ اَجنبی ہے کون؟ رقص میں یہی ہے جھومَتا
دُھواں یہ کیسا نعش کے چَہار سو ہے گھومتا

حُسینی لعل نے جواہِرات سب لُٹا دیے
سَخا کے دریا کربلا کی ریت میں بَہا دِیے


یہ اقتَباسِ زندَگی مِلا جو کربَلا سے ہے
لٹا دو سارا مال جو خدا سے پایا تم نے ہے


سکوت میں وہ نغمہِ بہاراں تو سُنا کرو
ثَبات کی نہی میں یُوں ہی جستجو کیا کرو


دُعا کو ہاتھ جب اُٹھے، وہ کام پورا تب ہوا
خدا سے مانگنا تو ربط کا بہانہ ہے بنا


قَضا کا عہدہ دے فَرشتوں کو،یہ اس کی بات ہے
خلیفہ انس کو بنایا ہے، یہ اس کی ذات ہے


وہ عالی، وہ خبیر، وہ جلیل، وہ شہید ہے
صفات میں نہاں وہی، خیال عین دید ہے


شبیر نے جو رسمِ حج اَدا کی تھی سجود میں
حُسینی رنگ کیوں رَہے جَہاں میں پھر حدود میں

نثم

 کل صابرہ امین بہنا ، دوست اور جانے کیا کیا ، سے بات چیت کے دوران یہ احساس دلایا گیا کہ میں نے جوابا نظم ، کہی ہے ۔ یہ یقینا کسی میٹر کی پابندی برداشت نہ کرسکی اس لیے خیال کی طنابیں ذرا ڈھلیں پڑیں تو یہ اک شکل ان کی مہربانی سی تشکیل پائی ۔


میں، مزاج بخیر
اور عافیت سے ہوں اور سوچا
دوست کی خیریت مطلوب کرلوں وگرنہ
وقت کا پہیہ گھومتے کس کو خبر
کون جانے کس نگر کی خاک چھانے
اور گھڑی گھڑی میں بنیں کتنے افسانے.
یہ بس وقت ہے
جس نے اک گھڑی کا ملن اک گھڑی
اور اک ساعت کی جدائی دوسری سے رکھی ہوئی
اور فاصلے مقرر کیے ہوئے مابین.
بس تار ملتے اور دور ہوتے رہتے ہیں
گویا مقناطیس کی لہریں کشش کریں
اور کبھی دوری
کسی اور جانب برق کی مانند لیے جائے.
آپ کہیں گی کیا بات لمبی کردی.
بس بہانہ تھا
کہ بہانہ ہو
اور بہانے سے بات ہو


مجھے بہانہ چاہیے تھا مزید کچھ کہنے کا ، سو جوابا اتنی لمبی نظم کہی کہ بس !



لفظ پروانہ ء حسن ہیں اور حسن کو قید کیسی؟
بس آپ نے سراہا ہے تو سراہا اس حسن کو،
جس کی تپش سے آپ مخمور ہیں،،
جس کی شعاع خاص درز درز ہوتی
مجھے نہ جانے کتنے شمسی،
کتنے قمری سالوں مدہوش رکھتی ہے.
نیم واہی میں زمانے دیکھتے
جب رفتگی کو کوچ کرتی ہوں،
تو عدم ہی ظہور لگتا ہے،
ظہور پر عدم کا گمان ہوتا ہے
تب احساس ہوتا ہے ،
دامن دل میں بے پایاں موتی ہیں ،
جوکسی جوہری نے لعل بمانند رکھے ہیں. ،
جو فلک نشین ہے
وہ دل کے قرین بھی ہے ،
قربت سے نوازے تو
تو ارض و سما حسین لگتے ہیں
. یہی جب میں کہتی ہوں،
تو نہ جانے۔۔
اس کہنے سننے کی صدا ،
کوہ ندا پر کھڑا ہو گویا کوئی عاشق،
جس کی پکار گونج بن جائے
کچھ سن کے صدائے دل
سربزم رسوا کردیں
اہل ہنر دندان میں انگلیاں داب کے حیرت کناں
یہ کس منصور نے جرات کردی،
کوہ ندا سے نالہ دل کو،
آتش ذوق سے نکلتے،
وہ قوت وجلا ملی کہ مجمع لگ گیا

سرحد

 کبھی کبھی سوچ کے دَر وا ہوتے ہیں ۔ مجھ پر اک دروازہ ایسے کُھلا کہ آہٹ سےچونک سی گئی ۔ سوچ تھی کہ خدا مذہب سے ماوراء ہے، سرحد سے ماوراء ہے. نیلے آکاش کی سرحد دیکھی کبھی؟ یہ سرحد حدِ احساس سے ماوراء ہے ۔


میرے من نے سوال کردیا کہ مذہب ضروری ہے

میں نے جواباً کہا کہ منکر کون ہے؟



میں تو فقط یہ کہنا چاہتی تھی خدا کو سب نے اپنے دل سے پہچانا ہے ۔ جب پہچان لیا تو سرحد کا تعین ہو گیا

کیسی سرحد؟
شریعت کی

اک پیکرِ خونیں میں ہے بسمل کا تماشا

 اک پیکرِ خونیں میں ہے بسمل کا تماشا

دیوانے کو مل جائے گا اب کوئی سہارا


مرکز ہے خیالات کا جو روضہ علی کا (رض)
درویش نے پایا ہے گدائی کا سہارا

کاتب نے یہ لکھی ہے ازل سے مری قسمت
وہ درد بڑھا کر ہی مجھے دے گا دلاسہ

جذبات کے سو رنگ دیے چہرے کو میرے
ہر رنگ میں پھر درد بہ خوبی ہے نوازا

ہستی مری جو غیر ہوئی اپنی زمیں میں
اسکو تو فلک سے ہے ملا کوئی شناسا

تراشوں تیشہ ِ دل سے جو میں سرکارﷺ کی صورت

 یا

تراشوں تیشہ ِ دل سے جو میں سرکارﷺ کی صورت
مرے افکار کو مل جائے گی اظہار کی صورت

ہے جن کو زہرِ غم پینے کی عادت دردِ ہجراں میں
وہ دنیا میں رہے گزرے ہُوئے اخبار کی صورت

جو چُوما کرتے ہیں نامِ محمد ﷺکو لبِ دل سے
نظر آتی ہے اُن کو چار سو سرکارﷺ کی صورت

بنامِ مصطفی ﷺکاتب کی ہے تحریر یہ دنیا
تدبر سے بنا عالم شہِ ابرار کی صورت

شہِ لولاکﷺ سے نسبت کرے گی میرا روشن نام
حیاتِ نو ملے گی نورؔ کو اشعار کی صورت​

صدا

 

آواز کا کردار بُہت اہم ہے ، اس نے کہیں دو دلوں کو ملایا ہے تو کہیں اسی آواز کی بدولت ایسی تباہیاں مچائی گئیں ہیں کہ دل لرزتے لزرتے سہم سے جاتے ہیں جبکہ کہیں پر یہ تھم بھی جاتے ہیں، دل تھم گیا تو بندہ گیا. ... آواز کو اگر صدا سے معتبر کردیا جائے تو صدیاں یک بیک اک زمانہ بن جاتی ہیں اور کہیں پے زمانہ پلٹ کے پیچھے چلنے لگتا تو کبھی مستقبل کی اڑان بھرنے لگتا ہے. نغمہ ء گُل ہو کہ آہو، دونوں (صدا اور آواز) بصورتِ راگ، بہ آہنگ ساز باہم ہوں تو قیامت دلوں پر نزول ہوجاتی ہے۔ تان سین کے بارے میں سُنا تھا کہ راگ میں جادوئی، سحر کی بدولت پانی آگ ہوتا جاتا! تو سوچیے دلوں کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ یہ تو گائیک نے گایا سر و تال پر کہ حاضرین تو حاضرین، پتا، پتا، بوٹا، بوٹا جھوم اٹھا ...

آواز اور صدا کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ کچھ احبابِ وقار اک کو سرائیت کرنے والی شے تو دوجی کو سرائیت شدہ سے معتبر کرتے ہیں. صدا نگوڑی سدا کی خاموش , سر نہواڑے اپنے نہ ہونے کا احساس دلانے کی ایسی ناکام کوشش کرتی ہے کہ بسااوقات بات شات تو بھول جائے مگر شور ان صداؤں کا بھول نہ پائے گا کوئی. یہ صدا جذبات سے ابھرتے من مندر میں رقص کراتی بھلادیتی ہے کہ مذہب کیا، ذات کیا اور اوقات کیا ۔ جب صدا اک نقطے پر مرکوز ہوجائے تو دھیانِ عشق پیدا ہوتا ہے

"مجھے اسکو پانے کی لگن ہے، جو مرا ہے ہی نہیں مگر دل مضطر سوچتا فقط اسی کو ہے! "

"میرا فن لاجواب! باکمال ایسا کہ جس جس نے یہ شاہکار دیکھے، زلیخا کی جیسے انگلیاں دابے عش عش کرنے لگا، بس ہاتھ کٹنے کی کسر ہے کوئی "حاش للہ" کہے اور ہو حسن کا رعب طاری ..... "

"لفظوں کی صدا نکلتے ہی دل سے تال میل ہوجاتے ہی کہ دل دیوانہ، پگلا تصویر میں لکا چھپی کے مناظر دیکھتا تو کہیں کردار ہنستے بولتے دکھتے ہیں ...! بس یہ لفظ! ہائے، ان کی صدا نے مار ڈالا، چیر ڈالا! "


"صدا من موجی اور آواز شعور کی بیساکھی، دونوں کا میل کاہے کا مگر لوگ آواز سنتے اور صدا چھپا لیتے... "

تمہیدِ گفتگو صدائے حسین، امام عالی پر مقام، ذی وقار، سلامتی و درود بھیجا گیا بار دگر ہر روح نے، یہ صدا نومولود بچے کی طرح مرے من میں پلتی بڑھتی رہی ہے اور جیتے جاگتے وجود کی مانند تشنہ بہ لب، جان کنی کے نئے عالم متعارف کراتی ہے گویا کہ شب و روز کی بیتی کا استعارہ صدائے حسین رضی تعالی عنہ ہے کہ یگانہ صدا، ریاکار دل میں گونجتی ہے تو نالہ ء بلبل کا سننے کو جذبات پہاڑ کاٹ کے دودھ کی نہریں جاری کرتے تلخ و آب زمین کو سیراب کیے دیتے ہیں. پوچھیے! جی مجھ سے کہ صدائے حسین تواتر سے دلوں میں گونجے تو ہر روز شب عاشورہ ہوجائے، نوک سناں دل جھکے، ساجد ہر جا تسبیح کرتا ریگزار کو دریا کرتے رہے. میں اس زمین پے ہونے والے بے انتہا کرم پر خوش اور اپنی کوتاہی پر نالاں ہوں کہ مری آواز مرے کردار میں دب جاتی ہے تب بھی صدا باقی رہتی ہے کہ کردار عالی مقام اتنا بلند ہے کہ مجھ پست کو افلاک چیر کے دیکھنا امر لامحال ہے. پھر بھی دیکھیے دل ناداں نے ان کو یاد کرنے کے لیے دو تین آنسو بہا دئے ہوں کہ گویا دشت میں سحاب چھٹ گئے ہوں. اپنی عزلت کو روتا یہ زمانہ دیکھے تو سہی کہ کیسے امام نے کس ہمت سے مصائب زمن کو سینے پر سہا اور آہ بھی نہ کی بلکہ عبدیت کا حق ادا کیا. آج یہ جہاں صف بہ صف امام کی صدائے غائبانہ کے پیچھے نماز عشق ادا کرتا اس اصول کی توضیح کرتا ہے کہ جب اللہ کی صدا سے اپنے من کی صدا کو اجاگر کیا جائے تو یہ زمانوں پر محیط بحر بیکراں کی مانند دلوں میں ہلکورے لیتی عشق کی اذانیں دیتی ہے

ایلف اور سیپ

 

حصہ اول
پسِ تحریر

ماؤنٹ حینا میں اک غار میں نو سو سال کی بڑھیا رہتی تھی، اسکا اک مشغلہ تھا! اس کی ماں جو تین سو پینسٹھ سال کی تھی روز اس کا مشغلہ دیکھا کرتی تھی ... غار سے باہر جاکے آسمان کو دیکھنا اور کہنا


"ابھی صبح نہیں ہُوئی "

یہ کہتے وہ بُڑھیا واپس دم سادھ کے بیٹھ جایا کرتی تھی .... اک دن وہ اسی سکتے میں تھی، اس کی ماں نے اسکو جھنجھوڑ کے اُٹھایا ... اس نے آنکھ کھولی تو حیرانی سی حیرانی تھی ... وہاں اسکی ماں نہیں کھڑی تھی، وہ کھڑی تھی .... اس نے ماں کی شکل میں خود کو دیکھا تھا .. وہ اک بڑھیا کی شکل میں خود کو دیکھ رہی تھی ..اس نے خود پر نظر ڈالی، بڑھیا کا نام سیپ تھا اور اسکی ماں کا نام ایلف تھا .

.. ایلف اور سیپ میں کوئی فرق نہ رہا تھا، نو سو سال گزر چکے تھے ....

"آج میں تمہیں برسوں کا راز بتاؤں گی " ایلف بولی
"کیا؟ " سیپ نے کہا

ایلف اٹھی اور گول بیضوی کرسی سے چھری اٹھا کے دیوار پر دے ماری، وہاں پر سوراخ ہوگیا ....! نیلا پانی نکل شُروع ہوا اور غار کی ساری دیواریں سبز ہوگئیں ... ایلف اور سیپ اک انجانے جہاں میں داخل ہوگئیں ... وہ جہاں دُنیا تھی .... گویا وہ دنیا میں نہیں رہتی تھیں.
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اسکی اور ماں کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے، ماں کہتی تھی کہ روٹی گول ہے اور وہ کہتی تھی " نہیں، یہ چوکور ہے! ماں کہتی کہ انڈا نیلا ہوتا ہے مگر وہ کہتی سبز ہوتا ہے! ماں کہتی درخت سیاہ ہوتے اور وہ کہتی درخت نیلے ہوتے ہیں .....

جب اس نے جنم نہیں لیا تھا، تب بھی وہ اپنی ماں کے ساتھ رہا کرتی تھی. اک دن ماں نیلے آکاش تلے بیٹھی تھی اور کچھ کاغذ پکڑ کے بنا رہی تھی

اس نے پوچھا "کیا بنا رہی ہو؟ "
ماں بولی " سیپ "
اس نے کہا سیپ کیا ہوتا؟

وہ بولی "سیب اک پنجرہ ہے، جس کے اندر درد قید ہوتا ہے "

اسے تب سے لگنے لگا کہ وہ اپنی ماں کے اندر قید ہے،وہ اسکی وہ روح ہے، جو اس سے پہلے پیدا ہوگئی تھی تاکہ اس کے اندر وجود رہتے اپنی شناخت کے دھن کو کالے سے سفید کرسکے ....

اس نے اپنی ماں کو بولا "ماں، تم کو مصوری سے کیا ملتا ہے؟ "

ماں بولی " وہ کاشی ہے نا، وہ مسکراتا ہے جب میں رنگ کینوس پہ اتارتی ہوں "

اس نے پھر کینوس پر اک سیپ ابھرتا پایا جو کہ زرد رنگ کا تھا، جس کے ارد گرد سفید ہالہ تھا، جس کے اک حصہ کھلا ہوا تھا اس میں سے سرمئی سی روشنی نکل رہی تھی....!

ماں نے قربانی دے دی! اس نے وہ سیپ اسے دے دیا اور کہا اس کی حفاظت کرنا ورنہ کاشی ناراض ہوگا! سیپ اور ایلف دونوں میں تب سے دوستی ہوگئی! وہ کہتی کہ انڈا گول ہے توسیپ کہتی ، "ہاں، ماں تو ٹھیک کہتی ہے! وہ کہتی کہ درخت سبز ہے تو جوابا وہ بھی کہتی کہ ہاں ماں سب اچھا ہے!

جب وہ اپنی ماں کی وجود میں ہلکورے لے رہی تھی، وہ تب بھی اس سے بات کیا کرتی تھی!
اک دن ماں نے اس سے کہا "ظلم کا زمانہ ہے، ستم کی آندھیاں ہیں، تم اس دنیا میں آکے کیا کرو گی؟ "

اس نے اسکے وجود کو جھٹکا دے دیا، ماں نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا اور کہا کہ ماں برداشت کرلیتی ہے، دنیا بُہت ظالم ہے!


مائیں سچ کہتی ہیں کہ دنیا بُہت ظالم ہے!

لوگ اس کے گرد بیٹھے تھے جیسے وہ کوئی دیوی ہو ...مگر لوگ اسکو سراہ نہیں رہے تھے بلکہ پتھر مار رہے تھے! سیپ تب اک سال کی تھی! اس نے آنکھوں سے اس کو اشارہ کیا مگر وہ تو پتھر بنی ہوئی تھی! اک پتھر اسکی پیشانی پہ لگا اور خون نیچے بہنے لگا ..جب وہ نیچے بہا، جو اس نے دیکھا وہ لوگوں نے نہ دیکھا ...خون میں اللہ کا نقش تھا! اسے یقین ہوگیا کہ اسکی ماں اللہ والی ہے! ظلم ہو رہا تھا .. شیطان کا حج تھا وہ، لوگ پتھر اک مقدس دیوی پر پھینک رہے تھے! جب وہ مدہوش سی ہونی لگی تو یہ حج مکمل سا ہوگیا .... ہجوم ختم ہوا تو اس نے ماں سے پوچھا

"تم نے کیا کیا؟ "
وہ بولی "چوری پکڑی تھی "
اس نے کہا کہ کیسی چوری؟
جوابا اس نے کہا " دو کھلاڑی جوا بازی میں جیتنے لگے، میں نے ان کی بازی پلٹ دی "

وہ بولی "پھر کیا ہوا؟

ماں نے کہا کہ شیطان نے مرے ہاتھ باندھ دیے اور کہا ہمارے رسوم کے خلاف چلنے والے پر "کرو " کی رسم واجب ہوجاتی "

میں نے پوچھا "کرو کیا ہوتی؟

وہ بولی "شیطان کہتا ہے کہ چوری اک مقدس کام ہے اور جو ولی اسکو روکے گا، اس پہ پتھر پڑیں گے ... "

تب مجھے احساس ہوا "کرو " کی رسم کیا ہوتی ہے! یہ شاید ابن آدم سے چلی رسم ہے جو روحوں کے ساتھ جنم لیتی ہے

....!
آخری تدوین: ‏اگست 26, 2020

اسے میرے احساس ہی سے ہے نفرت

 اسے میرے احساس ہی سے ہے نفرت

بجھا چاہتا ہے چراغِ محبت

بھروسہ کسی پر بھی ہوتا نہیں ہے
قرابت سے ہونے لگی ہے جو وحشت

ہر اِک بات پر دین کا ہے حوالہ۔۔!!
محبت ہے یہ دین کی، یا سیاست۔۔؟


تعلق ہی دنیا سے میں توڑ ڈالوں!!
مِلے ہے ہر اِک بات پر جو اذیّت


مداوا غمِ دل کا ہو نورؔ کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت

لباسِ تار تار کو رفوگری سے کام کیا

 لباسِ تار تار کو رفوگری سے کام کیا

ملے ہیں اتنے زخم، مجھ کواب ہنسی سے کام کیا


ترے خیال کے سبب چراغ ایسا جل گیا
ہوا بجھا نہ پائے گی، سو تیرگی سے کام کیا



بہانہ دید کا بنے، ہو بات آپ سے کبھی
کبھی تو آئیے گھر مرے، مجھے کسی سے کام کیا

ہماری زندگی ہیں آپ، ہر خوشی بھی آپ سے
بلائیں آپ دار پر تو زندگی سے کام کیا


جو ہم کو تیرے میکدے سے جام ہی نہ مل سکا
تو ساقیا ہمیں کسی کی تشنگی سے کام کیا


لہو لہو جگر میں تیر ہے تری جدائی کا
پیا ہے آبِ موت،مجھ کو زندگی سے کام کیا


حضور آپ جو کہیں، وہی کریں گے ہم سدا
فقط غرض ہے آپ سے، ہمیں کسی سے کام کیا


غرض نہیں کسی سے، جب چراغِ دل ہی بجھ گیا
کہیں جو روشنی بھی ہو تو روشنی سے کام کیا

سر زمینِ حشر سے خاک کے پتلے کو ہّوا دے. ...

 


سر زمینِ حشر سے خاک کے پتلے کو ہّوا دے. ...
موتی سمجھے کوئی، آبِ نیساں سے جِلا دے. ..
شراب جاودانی ملے، درد ہجر کو ایسا مزّا دے ..
اَحد کی زَمین سے جبل النور تک منظر دکھا دے ......
حِرا ہی آخری مقام ٹھہرے، مسجد حرم میں جگہ دے ....
جو ہو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے معتبر
اس کو اعتبار کی آخری حدّ تک پُہنچا دے ....
شام ہجر کی سحر میں پل پل وصل کا مزّا دے ....
آہ! وہ لطفِ چاشنی .... مرگِ وصل میں، دکھ کا نشہ دے ......
مئے عشق ہے! آسانی سے نَہیں ملتی .....
مسافت کے اندھیروں کو صبح نُو سے مِلا دے

یہ آئینِ نو کی شمع! یہ دلِ حزین ملال سے پُر ....

فضا میں خوشبو ہو، آنکھ میں نَمی ہو،کسی بات کا گلہ باقی رہے، کچھ گلہ باقی ہے؟

اوج دے، بندگی کے جوہر خاک میں بَسا دے .....

مقدر لکھا جاتا ہے خیالات سے، منور ہوتا ہے جہاں دل کی کائنات سے، جہاں زَخموں سے نَڈھال، ہر آنکھ شَرر بار،ہر دل مشکبار ....کیا جلوہ کی تاب نَہیں؟

گناہ گار ہستی کے درد بھی بیشمار، ہجرت بھی نہیں، لذت وصلت بھی نہیں، جبلِ رحمت کسی نعمت سے کم نہیں


ایک صدا پردہ ء تخیل چاک کرتی ہے، حجابات بے ردا کرتی ہے اور تابانی سے عالم منور کرتی ہے اور رخِ لیلِ کو بے نقاب کرتی صبح کا عندیہ دیتی ہے.


ضوئے شمس سے زمانہ روشن ہے .... نئی شام کا ماہتاب مدام شوق سے منور ہے ... نئی صبحیں تارِ حریر ریشم کی ، نئے جلوے یقین کے ....بگڑی بنتی ہے، آنکھ دیکھتی ہے، مستی ء الست کا نشہ، دائم جسکا جلوہ، احساس کا تلاطم برپا...

جام جم پلائیے، بادہ خوار بنائیے ،سادہ قصہ ہے اور درد والی بات، ساتھ بس ساتھ کی نوید سے آہنگ نو سے ملا دیجیے

ُحسن کی نُمو ہورہی ہے اور ضو سے مو مو میں روشنی کو بَہ کو ......، وادی ء حِرا میں ایسے مثال کو لایا گیا کہ حُسنِ بے مثال کے سامنے مثال ہیچ! وہ عالم لامثال سے باکمال حُسن کے مالک اور ملکوتی حُسن نے اندھیرے میں جگہ جگہ ایسے مطالع روشن کیے کہ جہاں جہاں کرن وہاں وہاں سورج تھا. یہ سورج جس کے دھارے سے تمام ستارے کرنوں کی صورت بکھیر رہے تھے .. وہ کائنات ہے اتنی بڑی ہے کہ تمام کائناتوں کو سموئے ہُوئے ہے.اس حسن میں تاب کتنی ہے کہ کہیں دل شق ہوکے پڑا رہے اور انگشت کے اشارے سے جڑ جائے پھر، کہیں مسکراہٹ سے دل میں کھائیاں اور کھائیوں میں روشنی کے انبار ...


رنگ نے رنگ سے مانگا اور دیا گیا رنگ
.رنگ تو اللہ کا بہترین ہے. یہ اپنے جذبات کا رنگ ہے.. مصور نے بَرش کینوس پہ ڈالے تو رنگ سات تھے مگر بکھرا انبار گویا قوس قزح ہو .... اس نے کینوس پر خصائل کے رنگ ایسے بھرے کہ خصائل مجموعہ ہائے خوش خصال مثال باکمال ہے . اسی سے نکلے باقی تمام رنگ، جذبات کے، احساسات کے رنگ.

رنگ کی مانگت
رنگ کی پہچان
وہ ملے جو اپنا
اپنا تو ہے سچا

پھول سارے گرا دیئے، اب ہے

 پھول سارے گرا دیئے، اب ہے

واپسی کا سوال لا یعنی

تیرا احوال ، کیا کہیں بُلبُل
گل کی ہے داستان با معنی

زندگی نے بسر کیا ہے مجھے
اور کتنی کرے گی من مانی

زہر دے کے مجھے نہ مارو تم
تیری باتوں سے جان ہے جانی

زندگی کے سفر میں زندہ ہوں
شام چھائی ہے رات کب آنی؟

ہم ہیں اپنی روایتوں کے اسیر
پیروی ہو جہاں میں! چہ معنی

موت کے بعد زندگی کیا ہے
ہر گھڑی چوٹ اِک نئی کھانی