Monday, November 23, 2020

ابھی ‏تو ‏رات ‏سجنی ‏ہے ‏

لیل نے قیام کیا ہے اور صبح شروع ہوگئی ہے ـ دیوانہ بتائے گا کہ رات میں صبح کا مقام کیا ہے ـ وہی جو رات میں شمس کا مقام ہے ـ رات بڑی بابرکت ہوتی ہے جب توحید واضح ہوتی ہے ـ یہ شمس ہے جس نے گویائی دینی ہوتی ہے اور جب کوئی تارہ اتمہہ نورہِ کا مقام پالے تب اس کو اپنی صبح کا عندیہ مل جاتا ہے ـ یہ ذاتیں سب خورشید ہیں کیونکہ سب مقامِ خورشیدیت کو پُہنچ چکے ہیں ـ ستارہ بنایا جاتا ہے جسے تو رات اس کی سجائی جاتی ہے ـ رات ہوتی راز والی ہے اور راز عیاں ہو جائے تو محب و محبوب کی دوئی قائم ہوجاتی ہے جبکہ خدا تضاد سے مبراء ہے ـ اس کا نقـش تو سیدھا یک سمت ہے ـ پھر اس کے ساتھ ذاتیں ہیں جن کی مثالیں احسن التقویم کی ہیں ـ یہ وہ ذاتیں ہیں جو زمانے کی بے مثال ذاتیں ہیں اور تقویم میں مستقل وجود سے منور کیے رکھتی ہے ـ یہی مقام ہے جو بنا سرور دو جہاں شہ زمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سائے میں طے ہوتا ہے ـ یہ وہ فاصلہ ہے جو کہ فاصلہ نہیں تھا بس اک برق نمودار ہوتی ہے اور فاصلہ منتشر! فاصلے منتشر ہوں تو وصال معتبر ہوجاتے ہیں ـ جو زمان و مکان کی قید سے نکل جائیں وہی ہیں جن کی سمت حق بجانب نہ شرقی نہ غربی ہے ـ وہ مثلِ خورشید ہیں ـ فرق تاحال قائم ہے کہ بندہ بندہ ہے اور خدا خدا ہے ـ تضاد ختم ہوجاتا ہے کہ وہی ہے اور نہیں کوئی اور ـ 

شمس کی درخشانی پر رقم یہ علامت یے لا الہ الا اللہ 

بس دل توحیدی مے خانہ بننے لگے تو واج آتی ہے 

علی منبر،  علی قبلہ،  علی کعبہ،  علی قائم،  علی دائم،  علی روشنی،  علی خیال،  علی مجسم،  علی محور،  علی کائنات،  

علی نماز،  علی وضو،  علی متوفی،  علی واعظ،  علی لاریب علی ہے!  علی زمن!  علی چمن!  علی عالم،  علی جہت،  علی جہات،  علی مستی،  علی ہستی،  علی شافی،  علی الست کی مستی،

  علی زیست،  علی دائرہ،  علی نقطہ،  علی جذب،  علی مجذوب،  علی مندر،  علی مجلس،  علی قائم،  علی دائم،  علی صائم،  علی واحد،  علی حاضر،  علی موجود،  علی الست کی مستی ہے!  

علی علی کہو تو بات بنے گی 
علی علی کہو تو رات سجے گی 
علی  علی کہو تو تو ذات بنے گی 
علی علی کہو تو جہات کھلیں گی 
علی علی کہو تو روئے یار ہو گا 

 رات سجے گی،  ابھی تو شام ہے ـ شام ڈھلے گی تو قبلہ سجے گا ـ منبر پر کون ہوگا؟  قبلہ کون ہوگا؟  واعظ کون ہوگا؟  مکتب کدھر ہے؟  کاتب کس کو ہونا ہے؟  امام سجاد کے پیچھے سجدہ کون کون کرے گا؟  جو کرے گا وہ تو رہے گا نہیں،  جو نہیں کرے گا اسکا نشان نہیں رہے گا ـ دید تو میری جان ضروری ہے ـ دید نہ ہوئی تو مرجانا ہے اور اگر ہوئی تو خوشی نے مار دینا ہے ـ ہم خوشی سے مرجائیں گے ـ لہر لہر ہو جائیں گے ـ زندگی کا قصہ مختصر ہے اور اختصار یہی ہے کہ تم خود مختصر ہو کے مرتکز ہو جاؤ دھیان چیر دے گا دوسرے گمان کو ـ بس دھیان میں دھیان سے گزرنے کی دیر ہے کہ رات سجے گی 

ابھی تو رات سجنی یے 
ابھی تو شام ڈھلنی ہے 
ابھی تو دید ہونی ہے 
ابھی تو بات بننی یے 
ابھی تو ابتدا ہونی یے 
ابتدا منتہی کا در ہے 
قائم مقام سے ملیں گے 
راز کسی نے کیا کہنا ہے؟  
راز میں راز ہو جانا ہے 
واعلیکم السلام صبح 
ہم تو سجانے رات چلے 
ہم تو بات بتانے اب چلے 
ہم ان کے در پر ہیں کھڑے

سرکار ‏لجپال ‏قلندر ‏لعل ‏

سرکار قلندر لعل شہباز کے نام سلام!  سلام بھیجنے والے کو ملے گی لعلی اور سلام بھی توفیق ہے!  

یا علی !  مست مست رہے قلندر لعل.
یا علی!  علی علی کہتے رہے قلندر لعل 
یا علی!  سرخ لباس میں رہے قلندر لعل 
یا علی!  جذب کیا، جذب ہوئے قلندر لعل 
یا علی!  سرمستی میں بیدار  قلندر  لعل 
یا علی!  عشق میں معجزن سرکار لجپال 
یا علی!  رہن رکھ لیا کس کو سرکار لجپال 
یا علی!  نعرہ مستانہ لگاتے رہے قلندر لعل 
یا علی!  قبلہ و کعبہ عشق کے لجپال سرکار 
یا علی!  سرخ پوش سے سرخ ہیں قلندر لعل 
یا علی!  جہانیاں سے جلا چراغِ قلندر لعل.
یا علی!  مصطفوی نور کا نشان قلندر لعل 
یا علی!  حسینی چراغ مورے قلندر لعل 
یا علی!  نور حزین میں منور ہیں قلندر لعل 
یا علی!  کن فیکون کی حکایت قلندر لعل 
یا علی!  نور سماوی و زمانی ہیں قلندر لعل 
یا علی!  توئی سردار و ذوالفقار لجپال سرکار 

یہ آیت نصیبہ ہے!  نصیب کی بات ہے کہ نصیب روشن ہے!  بات یہ ہے کہ آیت اتنی روشن ہے کہ نصیب نے روشن ہونا تھا ـ سرخ پوش بخارا کے آئے ہیں اور نصیب جانے کس کے جگمگائے ہیں ـ حیدرِ ثانی کی بات نہ ہو سکے گا بس سرجھکا کے بہ نیاز کہتے رہیں گے 

علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی 

بخارا کے قدماء سے روشن ہے اک لعل،  مولا علی اس کے ہیں سرکار،  کہو بس کہ یا علی یا حیدر!  قدیم نور کو رویت،  قدیم نور کی بات ہے!  ہم سب قدیم ہیں ـ ہم سب اول!  ہم سب آخر!  ہم ہیں اوج!  ہم منتہی 

چلو منتہی کو چلیں! چلو وادی ء ارم سے نکلیں!  چلو غار حرا چلیں ـ چلو سرخی کو عنایت بنائیں اور پیش کریں بہ نیاز سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ـ کیا پتا کسے نیاز میں دید ہو جائے ـکیا پتا کس کا حال بدل جائے ـ کون جانے ـ ہم تو کہیں گے 
علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  علی 

سرکار لجپال حسینی لعل قلندر ---- علی،  علی،  علی،  علی،  علی،  
حسینی گوہرِ آبدار ہیں لعل قلندر --- علی،  علی،  علی،  علی،  علی 

یہ رکوع ہے ـ یہ کس نے رکوع کیا ہے؟  ابھی سجدہ نہیں ہوا ـ ابھی تو نماز شروع ہوئی ـ چو قیام سے شروع کریں ـ چلو کچھ باقی نہ رہ جائے ـ چلو کوئی چیز رہ نہ جائے جس سے حال غائب نہ ہو جائے ـ چلو کسی کو کچھ مت کہو ـ دل اپنا صاف کرو کہ من مندر قبلہ ہے خدا کو ـ خدا نور ہے اور نور موجود ہے ـ نور موجود ہے حق موجود ہے ـ یہ تو بتاؤ کہاں کہاں پر نور موجود نہیں ہے ـ بس پھر تم عارف کیوں نہیں بنتے؟ تم کیوں شاہد کیوں نہیں ہوتے؟  اندر سے دیکھو یا باہر سے،  دیکھو تو فقط مجھے ـ شناخت یہی بتاتی ہے کہ شناخت نصیبہ ہے!  شناخت مل جائے تو دل بدل جائے نا!  اے خدا ہم سب کا دل بدل دے ـ ہمارا قال، حال میں بدل دے ـ ہمیں صدقہ امامِ حسین علیہ سلام ایسا حال دے کہ تا عمر نماز قائم رہے ـ ایسا دعا عنایت کر کہ فقط خدا سے خدا کو مانگیں اور تجارت کو چھوڑ دیں ـ تجارت تو تاجر کرتے ہیں ـ ہم تو نذرکرنے والے ہیں ـ ویسے جیسے ہابیل قابیل والی ہوئ اور جان چلی گئی ـ ہم ویسی نذر کرتے ہیں جیسی اک باپ بیٹے( حضرت ابراہیم،  اسماعیل ع)  نے کی ـ ہم ویسے نذر کرتے ہیں جیسے جان،  جناب یعقوب نے اپنے بیٹے کی خاطر کی اور بینائی  دینے میں دریغ نہ کریں گے ـ اگر ہم بد دعا نہ دیں گے کبھی کسی کو کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تب بھی بد دعا نہ دی جب اللہ نے آپ کو کہا تھا ـ ہم قابل نہیں مگر استطاعت دے ہم کو کہ امام ما،  مولا حسین کی طرح جان، مال،  اولاد کا نذرانہ دے کے تری محبت کا اثبات کریں

اقربیت

ارواح قریب ہوتی ہیں تو محبت بڑھتی ہے کیونکہ تضاد ختم ہونے لگتا ہے ـ اخلاص یہی ہے تسلیم کیا جائے ـ قطب نما سینے میں پیوست ہے اور کشش سمت بنائے جارہی ہے ـ کشش کا منبع سب اندر ہے اور لاگے کہ ہم کو موسم سہانے ہے ـ یار ایسا نہیں ہے کہ محبت میں محبت نہ رہے ـ یہ جذبہ تو وجود سے خالی کر دیتا ہے جیسے جام پیالے سے نکل جائے ـ جام کو پیالہ چاہیے اور اک پیالہ،  دو جام ... دو جام اور کرلو اطمینان 

سکوت اشارہ ہے 
تو، بس  ہمارا ہے 
راز بحر بے کنار 
قطرہ استعارہ ہے
یار نے بلایا پاس 
یار تو ستارہ ہے 
جانِ قرین سن لے 
تو اول،  تو آخر 
تو ابتدا، تو انتہا 
تو دائرہ، میں نقطہ 
تو قلزم، میں قطرہ 
تو روایت،میں راوی 
 

خدا کے پاس جانے سے جایا نہیں جاتا ـ وہ بلاتا ہے ـ وہ بلاتا ہے تو کہلوایا جاتا ہے اور جب کہا جاتا ہے تو راز تھمایا جاتا ہے ـ خدا اقربیت میں ملتا ہے ـ

 نحن اقرب تو اک استعارہ ہے
تمھاری غیبت اسکا اشارہ ہے 
حاضر وہ ہے،  نمایاں وہ ہے 
الہیات کا بشر اک کنارہ ہے 

بندہ قریب کیسے ہوتا ہے؟  وہ ہاتھ میں قلم تھما کے سب کے بھیج تو چکا ہے نا ـ 

علم القران 
خلق الانسان 
علم البیان 

علم البیان کی نعمت ملی ہے
حمد و ثنا کی دولت ملی ہے 
دید نے اس کی دی اضطرابی 
پل پل میں نئی ہے یہ بیباکی 
عشق شوخ ہو، نہ کر گستاخی 

 ساکنان بغداد، والی انس و جان،  قربت میں شہادت دے جان کہ جام ہے تو ہے جہان ـ


پردہِ غیاب سے ہاتھ نمودار ہوتا ہے ـ ہاتھ جب نمودار ہو تو صدا بن جاتا ہے ـ صدا میں کئی اک راز ہوتے ہیں ـ مست الست عہد کن کے وقت سے جذب ہوتا ہے اور مستی وہیں سے لاتا ہے ـ وہ مست الست جب کچھ کہتا ہے تو وہ ہوجاتا ہے ـ مست ساجد ہوتا ہے ـ یہ وہ مست وہی ہے جس کو سجدہ کیا گیا ـ آدم کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ـ اس کی صورت روحی ہے ـ وہ ہے تو تم کون ہو؟  تم نور مکانی ہو، وہ نور زمانی ہے ـ جب نور مکانی، نور زمانی سے مربوط ہوجاتا ہے تو سورہ اخلاص کی عملی تفسیر میں ڈھل جاتا ہے ـ وہ تنہا ہے!  وہ تنہا ہے!  وہ تنہا!  مطلب کہ کچھ اور ہے ہی نہیں ـ مطلب وہی ہے اور کچھ نہیں ہے ـ مطلب اب دیدار کرو ـ دیدار کے لیے تو پیدا کیا گیا ہے ـ اس نے کہا چھپا ہوا خزانہ ہوں. اس کو تلاشو تو اقربیت یہی ہے زمان کو مکان سے ملا دو یا مکان چھوڑ کے زمان کے ہو جاؤ ـ پھر الحاشر ترتیب وار طریق سے ذات ترتیل کرتا ہے ـ ہم کلامی مخلوق سے ہوتی ہے ـ جب  اونٹ  شکایت کیا کرتا تھا تو وہ شکوہ ایسے سنا جاتا تھا کہ نور زمانی و مکانی نے کسی کے مکان کے نور کو چھوا ـ یہ لہر داخل ہوئی اور لہر سے لہر سے مل گئی ـ عیاں نہاں اور نہاں عیاں 
.وہ عرش کا رازدان ہے ـ اس نے جانے کس کو بہت عزیز رکھا ہے ـ وہ جس کو محبوب کرلے،  وہ خود اس سے ملتا ہے ـ زمانے مکان میں جلوہ کرتے ہیں اور مکان خوشبو سے بھر جاتا ہے 

ورود!  وردو!  وردو 
درود!  درود!  درود!

اک ‏الٰہ ‏تھا ‏! ‏لا ‏تھا ‏سب ‏

اک اِلٰہ تھا!  لا تھا سب!
مملکت تھی، مگر کوئی شریک نَہ تھا
خُدائی فوجدار نَہ تھے
دعویدار نہ تھا کوئی معبودیت کا
کسی نے موسی(ع بن کے نَہ دکھایا تھا
کوئ مثلِ مثال یوسف (ع)  نَہ تھا
کسی کا اوجِ کمال با جَمال خُدا نہ تھا،
،معراج بشریت نَہ ہُوئی تھی 
یعنی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی نہ تھے
کوئ نوری خلق نہ تھا
نار بھی کوئی نہ تھی، گُلنار ہوتی
مگر اک اِلٰہ تھا ...

پھر یُوں ہوا،  اس نے خود سے خود کو نکال کے دیکھا
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وجود آیا
اس کی ذات کے ٹکرے، بکھرنے لگے،  کائنات نور پانی لگی 
ادھر ناری بھی پائے جانے لگے
نوریوں نے سکتہ ء حیرت،  سکتہ  میں سجدے، رکوع، قیام کی حالتیں پائیں
مگر اب بھی اطمینان نہ تھا اس کو ...
اس نے روح الامین سے روحی روحی ذاتیں بنائیں ..
الوہی صفاتیں بنائیں،  الہیات کے جامے میں ذاتوں نے پایا اک وُجود.....
نمود ہست کے دیے جلنے لگے
قلندری کا  وجود ظہور ہوا...
آدم اسم ذات کا کلمہ ہوئے
ساجد تھے، مگر مسجود ہوئے....
ابلیس کا وجود بھی مُشّکل ہوا....
کچھ اسکو اطمینان ہوا....!!

اب شُروع ہوا اسکے خیالات کا تسلسل
اب دیکھنا تھا کون کس کا ہے؟ 
کس نے اس کو پہچانا ہے،
کس نے اسکو دور جانا ہے،
آدم سے ہوگئی خطا، 
جرم میں شامل تھی مگر حوّا
وساوس میں، گماں میں تھا شیطان
کھیل ہوا شُروع الہ کی ضرب الا اللہ کا ...
آدم معصوم، نہ جان پائے اس وساوس کے کھیل کو
ان شیطن  لکم عدو مبین
قل اعوذ برب الناس سے الذی یوسوس فی صدور الناس کا کھیل سمجھ آیا آدم کو مگر، خطا نے فلک سے فرش پہ لاٹپکا
آدم کو حوّا سے جدا کیا گیا ...
لا ... لا ... لا... لا...
خَطا کی لا  ....
جَفا کی لا ....
من کی میں کہ لا ....
آدم کو لا کا لباس پہنایا گیا،
حّوا نے اس لباس کو دیکھا اور پہچانا،
ارواح نے لباس لا،  لباس مجاز جنت کے پتوں میں...

عشق نے دو قبائیں پہنیں، 
لا اور الا اللہ کی قُبائیں ...  
حجاب تھیں اک دوسرے کا...
پردے گرنے، جلوے کی بات تھی ...
آدم کو دوری نہ محسوس ہوئی اب
کس سے؟
اللہ سے...! 
دل کے آئنے میں منقش اللہ تھا...
نبوت کا فرض سونپا گیا
قسم کھائی گئی
والتین،  والزیتون ...
اور جب ذمہ داری سونپی گئی، کہا.
لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم
نظام قدرت نے بتایا...

لا اور الا اللہ کا فرق
دو قبائیں اک دوجے سے پیوست
دونوں اک دوجے کا لباس
آدم سے نوح تلک کا سفر آسمان نے لکھا
ہابیل سے قابیل کی نذر میں اک نشانی تھی
ابراہیم آئے، فرمایا گیا دین حنیف لائے ہیں ...
فرق نہ رکھا گیا تھا پیمانوں میں ...
دیکھے تو یاد کرے صورت خُدا
ہابیل سے سفر اسماعیل تک پُہنچا تھا
قربانی کیا تھی؟
لا تلک کا سفر،
جدائی ہی جدائی تھی
ہجرت کا سوگ تھا ... 
روگ کی یاد تھی، جو بوقت نفخ سے دم ہجرت تک روح کا نالہ تھا
کیوں جدا کیا گیا ؟ کیوں جدا کیا گیا؟ کیوں جدا کیا گیا؟ 
بتایا گیا تھا کہ لا الہ الا اللہ کی مضمر کہانی ہے
کائنات کی داستان سننے کو کٹھ پتلیاں ہیں ..
آزاد تھیں کچھ روحیں، کچھ قید ِ قفس میں آہنی سلاخوں میں ...
ان روحوں نے لا اور  اور اللہ کا فرق بتلا دیا
من و تو وجود یہی تھا!  
لا الہ، الا اللہ کا میں مضمر کہانی ...
آزاد ہے مری روح
آزاد ہے مری روح
ہم جھک گئے، سجدے کیے،  نہ اٹھائے سر
اللہ کے رنگ میں ڈھال دیے گئے تھے
 رنگ جدا رہا، نہ باقی کچھ رہا
صبغتہ اللہ کی مورت بننی لگی تھی...

موجود تھے تب بھی جب داؤد (ع) کو خلیفہ بنایا گیا ..لحن داؤدی تھا دیکھا میں نے، اور  صورت با جمال میں حال کو غائب پایا    ...

تصویرِ خدا تھے، مصور نے اپنے الوہیت کے باجمال جامے سے ان کو تخلیق کیا تھا، گویا وہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خاص نور .....
جب سلیمان(ع) کا وجود میں پایا گیا نشان.   جلال تھا! جمال تھا.   خطا کا وجود نہ تھا ...خدا تھا خدا تھا خدا تھا... خدا ہے!  خدا ہے!  خدا ہے! 
خدا جس نے جان دی تھی وجود میں ...
سلیمان (ع)نے پائی زمین میں خلقت سے کلامی
زبانی، زبانی روحی ،روحی ...
اللہ ... اللہ اللہ ...
یہی سب خود اس نے خود سے بات کی ...
راز نہ جان پایا تھا کوئی ...
سلیمان کے سامنے سب چرند پرند اشجار کی غیبت ہوگئی تھا
لا الا اللہ کا رقص تھا کل کائنات میں
سماوات نے دیکھا تھا یہ نظام رشک سے
وقت ڈھلتا رہا تھا! 

سسکیاں سنیں گئی تھیں
آہوں سے وجود کو ڈبویا گیا تھا
یعقوب(ع)  کا گریہ وجود میں آیا
اس نے جدائی ڈال دی دو اک جیسی ذاتوں میں ...
یوسف(ع) کی محبت میں یعقوب نے کلمہ پڑھا تھا. ...
لا ... حق
لا ...حق
لا.... حق
گریہ یعقوب میں خُدا موجود ہوا ...
الا اللہ الا اللہ الا اللہ
بازار حُسن میں یوسف کو بیچا گیا
مصر کے شاہ نے قصر شاہی میں رکھا تھا
زُلیخا نے حسن یوسف دیکھا
غیبت ہوگئی زلیخا کی، کہا حاش للہ
لا الہ الا اللہ مکمل ہوگیا تھا زلیخا کے حُسن میں     .....، 
یوسف نے نفی کردی تھی خود کی
رسوائی تھی، غم تھا،  جدائی تھی ...
نفی نفی کرتے ترس آیا خدا کو بہت
دے دیا یوسف کو سارا جہاں....! 
حق ہوگیا تھا عیاں
لا

الہ الا اللہ ...

کھیل چلتا رہا تھا سارا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم عرش سے فرش کو آئے .
ہم امتی ان کے،  ساتھ ساتھ سفر کرتے رہے تھے
ہم نے دیکھتے ہی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کہا تھا.... 
آمنا باللہ والرسول ...
ہم مومنین میں تھے ...
یقین کامل پایا ...

فنا میں خدا کو دیکھا
فنا میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جلوہ ....
عشق میں فنائیت تھی مقدر
عشق میں لذات ہست میں روحی روحی قلندری تھی ... غیبت میں نور محمد کا جلوہ تھا ..  صلی اللہ علیہ والہ وسلم.....
پیش صحابہ وجود لم یزل سے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم  تلک صفات ارض میں موجود ذیشان نے دیکھا کہ سو صفات ہیں قلندر میں.....!   سو ذاتیں ہیں قلندر کی ... سو ٹکرے وجودیت کے مظہر سے ڈھلنے تھے ..اڑان بھری گئی تھی، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دم بہ اجازت سے  فلک تک رسائ پائ تھی ..گویا شہید ہوئے تھے شاہد کے ...
بیعت رضوان سے مٹی پھینکنے کا سفر
ولکن اللہ رمی
ہم نے جانا تھا پہچانا تھا ...
معراج تھی ، قبلے مقرر ہوئے تھے، ملاقاتیں تھیں ...دیکھیں ...ہم نے سب، جانا تھا ان کو...
قرار نہ تھا کسی روح کو .. 
کسی کے پاس لوح مبین کی کنجی نہ تھا ..
محمد تھے اور خدا تھا 
محمد ہیں اور خدا ہے . 
آمنہ کے لعل باجمال نے زمانے کو لوح مبین سے روشن کردیا
حسن تھے گویا جمال  محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ...
علم و عمل میں کامل ...حلم میں مکمل شامل ... آہ! مشہد میں شہید کیے گئے تھے ...آہ!  جمال کو نہ چھوڑا گیا تھا!  خدا نے دیکھا تھا زمین کو سرخ تھی ...جمال کی نفی ہوئی ..جمال اٹھ گیا ...دنیا بے رونق ہوگئی تھی ...
  حسن رض  تھے،  خدا تھا 
حسن  رض ہیں،  خدا ہے 

احمریں احمریں وجود آیا دنیا میں
یاقوتی یا قوتی لب تھے جس کے
لعل جڑے  تھے سینے میِں...
حسین (رض) تھے، خدا اور جلال ...
حسین(رض) ہیں، خدا اور جلال ...
خوشی بھی، آہ، غم بھی
جلال کی نمود ہونے جا رہی تھی ...
قربانی حسنین کی تھی،  آسمان کی لالی دیکھی نہ تھی کسی نے
مگر علی اکبر (رض)کا خون سے لت پت لاشہ نہ دیکھا گیا کسی سے
اللہ کا وجود ثابت ہوگیا اک بار پھر سے...
شہید ہوئے ...
اللہ ھو الشہید ...
نفی ..قربانی ..تسلسل قربانی چلتا.گیا تھا ...
کربل کا مقتل پھر سینوں میں سجایا گیا
حسینی و یزیدی لشکر کو لڑایا گیا ...
سر کٹ گیا گھا ... سر نہ جھکا تھا
غیبت ہوگئی تھی  خاک کی ..حق اثبات!  حق  اثبات!  الا اللہ ...
یہی کہانی ہے لا الہ الا اللہ کی
قربانی ہی قربانی یے.
یہ اسکی راجدھانی ہے.
ہم اس کے نوکر شاہی ہیں ..
یہی  مری کہانی ہے

Sunday, November 22, 2020

تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے

 تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے

جِلو میں تیرے رہنا زندگی کا بھی سوال ہے

مرا وجود تیرے عشق کی جو خانقاہ ہے
ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے

مقامِ طُور پر یہ جلوے نے کِیا ہے فاش راز
کہ اَز فنائے ہست سے ہی چلنا کیوں محال ہے

ِفشار میں َرواں تُو جان سے قرین یار ہے
جو دورِیاں ہیں درمیاں، فقط یہ اک خیال ہے

نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے
عروجِ ذات میرا تیرے ساتھ کا کمال ہے

تری طلب کی جستجو میں جو اسیر ہوگئی
تجھے علم کہ کس پڑاؤ اوج یا زوال ہے

تو بحربے کنار ، خامشی ترا سلیقہ ہے
میں موج ہُوں رواں کہ شور نے کیا نڈھال ہے

یقین ۔

 

مسافتیں قدم قدم ساتھ رہتی ہیں اور ہمارے یقین سے کھیلتی ہیں ۔ زندگی کے گُزرے ماہ و سال نے میرے یقین کو پایہ یقین تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ وہ یقین جو سوچ سے شروع ہوتا ہماری سوچ ختم کردیتا ہے ، وہ یقین جو فہم و ادراک سے ہوتا ہمیں ناقابل ِ فہم اشیاء کی طرف لے جاتا ہے یا سادہ الفاظ سے وراء سے ماوراء کا سفر کرا دیتا ہے ۔ بے یقینی نے میرے یقین کو دھندلا کیا اور میں نے اللہ سے ضد شُروع کردی ۔ انسان اللہ سے ضد کرے اور اللہ پھر اس کو اپنی طرف کھینچے یعنی کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہیں تھامتے بلکہ اس کی رسی ہمیں ایسا جھنجھوڑتی ہے کہ ہماری رگ رگ اس کی حمد و تسبیح کرتی ہے ۔ اس یقین و بے یقینی کے سفر کو کچھ سطور پر مربوط کرتے آپ سب کے سامنے رکھ رہی کہ ہونا وہی جو اللہ کی چاہت ہے ۔ آدم و حوا لاکھ چاہیں اس کے مخالفت کریں وہ کر نہ سکیں اگر اللہ نہ چاہے اور لاکھ چاہیں ۔میں نے اسی سفر کو عہد الست میں دہرایا تھا اور یہ جو لکھا ہے شاید اس کو پہلے سے لکھ چکی ہوں ، میں آپ کے سامنے ناقابل فہم تحاریر رکھے دیتی ہوں اور آپ لوگوں کا حسن ظن ہے کہ اس کو پڑھے جاتے ہیں کہ میں ایک مسافر ہوں جس نے زندگی میں یقین کے مدارج سیکنڈز میں طے کرنے ہیں اس لیے میری تشنگی کو سمجھنے والے کوئی کوئی ہیں ۔میرا دل سوختگی و شکستگی کے باوجود کسی بھی مکمل انسان سے بہتر ہے کہ میں نامکمل اس لیے ہوں کہ جان چکی ہوں اللہ کا گھر شکستہ دلوں میں جلد بن جاتا ہے۔ یہ دل کثرت کے جتنے جام پیے جاتے ہیں اتنے ہی اس کے قریب ہوتے جاتے ہیں کہ جتنی چاندنی دنیا میں بکھری ہیں وہ اپنی جگہ مکمل ہوتے ہوئے بھی نا مکمل ہے ، جیسے چاند رات کے بغیر اور دن سورج کے بغیر ادھورا ہے ۔ پہاڑ ، سمندر، زمین ،صحرا ، جنگل سبھی مظاہر ایک دوسرے کے بھروسے پر قانون قدرت کے نظام کو رواں دواں کیے ہوئے ہیں ۔

میں سائنس دان بننا چاہتی تھی اس لیے فزکس میرا پسندیدہ مضمون ہوا کرتا تھا۔ بچپن میں خوابوں کی دنیا میں اپنی تجربہ گاہ سجائی ہوئی تھی اور میں اپنے خیالوں میں مختلف تجربات کیا کرتی تھی ۔ میں نے سوچا تھا میں ایسا ڈیوائس یا آلہ بناؤں گی جس سے میں مختلف رنگوں کی شعاعوں کو آپس میں ملا کے طاقت حاصل کرسکوں ۔ یوں اگر خود کو دیکھوں تو مجھے طاقت حاصل کرنے کا جُنون رہا ہے مگر ایسا ذریعہ جو میرا اپنا ایجاد کردہ ہو ۔ طاقت کا جُنون مجھے دنیا کی تسخیر کی طرف لے جانے کی طرف مجبور کرتا اور اللہ کی جانب سے اسی شدت سے میں واپس بلا لی جاتی تھی ۔ یونہی میں ایک محفلِ نعت پر بلا لی گئی ۔حمد و ثناء کی محفل میں فلک سے عرش تک نور کی برسات تھی یوں کہ عالم روشنی میں نہا گیا ہو اور میں اس کیف میں مبتلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔، جب رات اس ذکر میں گُزری تو علی الصبح میں نے پڑھنے سے انکار کردیا اور علی الا علان قرانِ پاک کے حفظ کا ارادہ کیا۔قرانَ پاک کُھول کُھول کے ہمیں کہاں بتایا جاتا ہے ۔ ہمیں اپنے محبوب کا کلام رٹا لگوانے کے لیے دیا گیا ہے ؟ اس کو سوچتی رہی کہ مجھے دنیا سے کیا لینا دینا ، مجھے تو سب اس کتاب سے ملنا ہے ۔ میرے دل پر رقت طاری رہی تھی ۔مجھے لگا میرا دل کسی موم کی مانند ہے اور وہ گھُل گیا ہے۔ چاک سینہ ، چاک جگر ۔۔۔۔یہ الفاظ اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ میری آنکھ سے آنسو بہت کم نکلا کرتے تھے کُجا کہ پورا دن روتے روتے گُزار دوں ۔ درحقیقت مجھے خُدا یاد آگیا تھا ، اپنے ہونے کا مقصد مجھی دنیا سے دور لے جاتا مگر دنیا مجھے اپنی طرف کھینچتی ۔میں نے رسی کا توازن بگاڑ دیا۔ دنیا میں بھی رہتی اور اس کی فکر میں بھی ۔ میرا یقین بھی منتہی کو پُہنچ کے بے یقینی کی بُلندیوں میں غرق ہوگیا۔ اس غرقابی سے مجھے نکال کے دوبارہ یقین پر استوار کردیا گیا اور یہ ذات وہی ذات ہے جو انسان پر رحم کرتی ہے ورنہ انسان کس قابل ہے ۔


ایف ایس سی سے قبل راقم نے ارادہ کیا کہ پاکستان اٹامک نیوکلیئر انرجی کمیشن میں بحثیت سائنس دان کے کام کرنا ہے مگر معاشی حالات نے گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔ میں پڑھنا چاہتی تھی اور جو خواب بُن چکی تھی ان کا پایہ تکمیل تک پُہنچانا چاہتی تھی ۔ میرا اس اصول پر یقین رہا تھا کہ انسان حالات کو اپنے اختیار میں لاتا مفتوح کرتا خود فاتح ہوتا ہے اور وہ کمزور انسان ہوتے ہیں جو حالات کے مفتوح ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے ہر وہ کام جو مشکل ہوتا میں وہ جان کے اختیار کرتی کہ آسان تو ہر کوئی کرتا ہے مگر مشکل کوئی کوئی کرتا ہے ۔زندگی مشکل نبھاتے نبھاتے گُزرتی رہی اور یقین کے بخشے حوصلے سے ضُو پاتی رہی ۔ اپنی فیلڈ بدل کے بیوروکریٹ بننا خواب یا جُنون رہا ہے ۔یا یوں کہے لیں کہ طاقت حاصل کرنا میرا جُنون رہا ہے اور میں وہ مجنوں جس نے دُنیا کو لیلی بنائے رکھا ۔م چونکہ گھر بھی خود چلانا پڑا اور پڑھائی کے لیے پیسے نہیں تھے اس لیے بنا وقت ضائع کیے پرائیویٹ امتحان دینا شروع کیے ۔ یہاں پر میری زندگی کا مقصد جس کا بچپن سے خواب بُنا تھا ، وہ مجھے دور جاتا محسوس ہوا میں نے پناہ اختیار کرتے مذہب میں امان دھونڈتا شروع کردی ۔
ا
میٹرک میں شہاب نامہ پڑھا رکھا تھا ۔ اس کا اثر اس مقصد کے ٹوٹ جانے یعنی یقین کے ختم ہونے کے بعد'' نیا یقین'' بیدار ہونے پرا ہوا اور میں نے سوچا مجھے ''سی ایس ایس'' کرکے اعلی عہدے پر تعینات ہونا ہے ۔ یقین جب ٹوٹ جائے تو کبھی کبھی اس کا سفر مخالف سمت میں شروع ہوجاتا ہے ۔ میں نے اللہ سے ضد لگانا شروع کردی ۔ہر وہ کام کرتی جو مجھے لگتا اللہ کا ناپسند ہوسکتا ہے ۔ خاندان والے شیعہ ،سنی ،وہابی کے اختلاف میں پھنسے رہتے میں نے ہر فرقے سے لا تعلقی اختیار کرلی ۔ نماز جو ساری زندگی کبھی قضا نہیں کرتی تھی میں نے پڑھنا چھوڑ دی اور وہ قران پاک جس کی سب سے بڑی سورۃ کی سحر کے وقت بیٹھ کے تلاوت کرتی تھی اسی کو ہاتھ لگانا چھوڑ دیا اور جب مجھے کہا جاتا نماز پڑھو تو صاف انکار کرکے کہے دیتی کہ مجھے اللہ نماز میں نہیں ملتا ۔وہ کہتی دُعا مانگ لیا کر اپنے لیے کہ اللہ محنت سے زیادہ دعا پر نواز دیتا ہے مگر میرا کہنا تھا کہ دعا کچھ بھی نہیں ہوتی سب کچھ انسان کی اپنی جستجو ہوتی ہے ۔ انسان کی اپنی جستجو ہی سب کچھ ہوتی ہے چاہے وہ ضد سے چاہے وہ اس کی سمت میں ہو مگر جو اس'' ضد اور سمت'' یعنی نفی اور اثبات کے درمیاں ہوتے ہیں وہ نہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ اُدھر کے ہوتے ہیں میں اپنی دہریت میں ہر مذہبی تعلیم کو رد کرچکی تھی ۔

راقم نے بیک وقت صبح ، شام نوکری کے ساتھ اپنے تعلیمی ادراے کی کلاسز لیتے زندگی کی صبح میں تیز دھوپ کا سامنا کیا ہے ۔ یوں تعلیم کا ماخد کتاب نہیں بن سکا اور پہلا چانس بنا پڑھے دے آئی جس میں چھ مضامیں چھوڑ دیے اس بے یقینی پر کہ میں پڑھے بغیر کچھ نہیں ہوں ۔ نتائج نے ثابت کیا کہ میں بنا پڑھے سب کچھ ہُوں کہ مستقبل قریب شاندار نتیجہ لاتا اور امید سحر کی جانب لے گیا ۔ ہر ماہ کچھ کتابیں خریدتے وقت پڑھ لیا کرتی ۔ اس طرح ایم اے انگلش کی کلاسز پڑھانا شُروع کردیں اور ساتھ سی ایس ایس کے کلاسز ملتان کے سب سے بڑے ادارے میں دنیا شُروع کردیں کہ مری قابلیت کے اساتذہ معترف تھے اور نتیجے سے پہلے مجھے اپنے ادارے میں پڑھانے کی پیش کش کردی ۔ جُوں جُوں وقت گزرتا رہا ، وقت نے حالات بدلے اور نئے سلسلے بھی شُروع ہوگئے ۔ مظہر سے جُڑنا گویا حقیقت سے ملنا ہے اور یہی سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلا ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جو منکرین محبت تھے ان کو اقرار محبت کرنا پڑا اور یوں وقت کے ستم ظریفی کہ یقین کے بعد بے یقینی کا سفر شُروع کردیا گیا ۔ اسی سفر کی بے یقینی اور بڑھا دی گئی جب راقم نے اگزامز میں پاس ہونے کے بعد ایلوکیشن میں مشکلات کا سامنا پایا ۔ ایسی مایوسی ہوئی کہ کتابیں جلا دیں اور کچھ کسی کو دے دیں کہ بھلا ہوجائے گا اور کچھ ردی کے مول پر اور کچھ بک شاپس پر بیچ ڈالی ۔ جس بات نے مجھے ضرب لگائی میں نے اسی سے کنارا کرنا شروع کردیا ۔ میں نے اللہ کی مکمل نفی کر دی اور کہ دیا کہ اللہ تو کہیں بھی نہیں دکھتا اور اگر دکھتا تو مجھے ایسے رُسوا نہیں کرتا ۔مجھ پر کُفر کے فتوی بھی لگے اور کسی نے کہا دوبارہ کلمہ شہادت پڑھو ۔ یوں شہادت دیتے اس کی ذات کی گواہی دیتے دوبارہ سے یقین کی جانب سفر شُروع ہوا۔


میں نے اس کی جناب میں گستاخی کر ڈالی ، اس کے موجودگی سے انکار ڈالا مگر اس نے اپنی رحمت کی ٹھنڈی آغوش میں لے لیا باکل ایسے جیسے ایک ماں اپنی بچے کو لوری اور تھپکی دے کے سلاتی ہے ۔میں اب اللہ سے انکار نہیں کرتی اور نہ ہی اس کو للکارتی ہوں ۔ جب انسان اس کو للکارتا ہے تو وہ منہ کے بل گرتا ہے اور جب اس سے التجائیں کرتا ہے تو اس کو اپنی آغوش میں چھپا لیتا ہے ۔میں نے اب جو جو چاہا یوں لگ رہا ہے کہ بنا سوال کے یا بن مانگے مل رہا ہے ۔میں نے جو ارادے اس کی ضد میں یا اپنی ''خدائی'' میں بنائے، وہ ٹوٹتے رہے اور وہ جو اس نے لوح َ ازل پر قلم کر رکھا ہے وہ پورا ہوتا رہا ہے اور بے شک اسی کو پورا ہونا ہے۔ اسی کو ہم ''کن فیکون'' کی تکوین کہتے ہے کہ ا نسان اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے ۔میں اب کسی پر کفر کا لیبل نہیں لگاتی کہ اللہ جسے چاہے نواز دیتا ہے اور جسے چاہے اوج ثریا سے زمین و کھائیوں میں پہنچا دیتا ہے ۔ اس تحریر کا مقصد اتنا ہی کہ میں نے اپنے ارادے کے ٹوٹنے اور بننے سے اللہ کو پہچانا ہے کہ میں خدا نہیں بلکہ خدا تو عرش کی رفعتوں پر مکین مجھے بڑے پیار سے دیکھ کے مسکراتا ہوگا کہ یہ میری بندی بڑی نادان ہے میرے خلاف جاتی ہے جبکہ اس کو لوٹنا میری طرف ہے ۔

محبت میں رہتے رہے ہم

 



محبت میں رہتے رہے ہم
دُکھوں کو جو سہتے رہے ہم
دلِ تشنہ کا حال پوچھو
تلاطم میں جیتے رہے ہم
دُکھوں کو جو سہتے رہے ہم
دلِ تشنہ کا حال پوچھو
تلاطم میں جیتے رہے ہم

کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں

 


کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں
ہوا ہے کشف یہ مجھ پر کہ ایک حمد کہوں

غمِ حیات نے چھوڑا ہے ایک پل کے لئے
کہوں یہ حمد میں آنکھوں کو اپنی جَل ہےکیے

جو پہلا حرف دلِ بے قرار کا تھا لکھا
دلِ ستم زدہ میں حشر سا ہوا تھا بپا

بدن کی قید میں مانند موم دل پگھلا
حضورِ یار میں ہرحرف دل کا تھا سلگا

وصالِ شوق میں دل بے قرار تھا کتنا
تڑپ سے بڑھتا ہوا اضطرار تھا کتنا

نمازِ عشق سے پہلے جو دے رہا تھا اذاں
زباں پہ آ نہ سکے دل کے وجد کا وہ بیاں

نگاہ نامہِ اعمال پر مری ہے پڑی
مجھے سزا کہیں یوم ِ حساب ہو نہ کڑی

کرم تھا حال پہ میرے کرم وہ اب ہی نہیں
کہ بے وفا ہوں خطاوارِ شرک میں بھی نہیں

اگر گِنوں میں گنہ بے شمار ہیں میرے
کہ حشر میں بھی سزاوار ہوں گے ہم تیرے

ملے اگر مجھے نشتر تو فکر بھی ہے کہاں
مسیح ذات کا میری ہے خالقِ دو جہاں

مٹائی آئینہِ دل سے گرد تم نے جب
نصیب جلوہِ جاناں تمھیں نہ ہو کیوں اب

مری خودی میں چھپا جلوہ بھی تو تیرا ہے
تری شبیہ بسی مجھ میں کیا یہاں مرا ہے

ہےرنگ میرا جو تیرے ہی آئنے کی جھلک
جلا دے اس کو کہ خورشید سی ہو مجھ میں دمک

الف کے واسطے دل بھی ہے

 الف کے واسطے دل بھی ہے

الف کے لیے یہ جہاں بھی ہے۔
الف نے رنگ سجایا ایہہ دنیا دا
الف نے میم دے واسطے سوانگ رچایا۔

میم ساڈے دل دی ہستی وچ سمایا ہے۔
میم ساڈے انگ انگ وچ ،ذات نوں مست بنایا
میم دی ہستی مستی اجی ویکھی کوئی نا
میم نے فر وی دل وچ وسیب بنایا ہے

سوموار مارچ 2014

میں تیری چاندنی بنتی جارہی ہوں

 

میں تیری چاندنی بنتی جارہی ہوں
ترے احساس میں ڈھلتی جارہی ہوں
ان شاء اللہ! موسم بہار آنے کو ہے
وصل کی آرزو میں دن کٹ رہے ہیں
تیری یاد کے دیپک مجھ میں امنگ بھر رہے ہیں
تیرے احساس نے جاوادں جام الفت پلا دیا ہے
میں تری چاہت میں گنگناتی ہوئی وہ کوئل ہوں
جو ترے احساس کی روشنی میں پھڑپھڑاتی رہتی ہے
تری صورت ہے کہ میری صورت کہ میں سراپا نور ہوگئی ہوں
تری قربت کے نشے میں گم ہوں،
ہتھیلیاں ترے نام کے جگنو لیے ،
آنکھیں تری باتوں کا خمار لیے
خوابوں کی سرزمین پر تم کو تکتی ہوں ۔۔
تم سیہ رات پر چاند کی تشبیہ لیے
میں تیری چاندنی بنتی جارہی ہوں
ترے احساس میں ڈھلتی جارہی ہوں

اے جستجوئےدل ! طویل سفر ٍحیات

 اے جستجوئےدل ! طویل سفر ٍحیات

مت پوچھ! بتی زندگی کا ملال ہے کیا
مہرباں لوگ ،پرخلوس تھے چہرے
مت پوچھ ! گئے دنوں کا حساب ہے کیا۔
تنہا زندگی ، داغدار دامن ٍدل
مت پوچھ! شہرٍ دل کا زوال ہے کیا۔
ناشناس چہرے،دوست اجنبی۔
مت پوچھ! بجز انکے میرا حال ہے کیا۔
روشن چہرے ، مہکتا گلشن ۔برستا ابر۔
مت پوچھ! اندیروں کا کمال ہے کیا۔
اے سنگٍ تراش ! مہرو ماہ کے مستانے۔
مت پوچھ! زخمٍ دل کی خونچاں کہانی۔
برستے سنگ ،چشمٍ تر سے جاں سوز دل
مت پوچھ ! تری مہربانی کہ رسے خوں کا کرب کیا ہے

کوئی سامان ِتشنگی مہیا کرو

 1

  1. کوئی سامان ِتشنگی مہیا کرو
    اب ابر کی نہ برسات کی ضرورت
    ایک بادل کے کئی ٹکرے ہیں
    ہر ٹکرا پھر ایک بادل ہے
    اور ہر بادل کے پاس آسمان ہے
    سیلاب بہتا رہا یہاں وہاں
    لوگ سمجھتے رہے مکاں بہا ہے
    میں کہتی سب خاک خاک ہوگیا
    جو دنیا درد سمجھ رہی ہے
    اس کو میں نے ہنس کے پینا
    جو درد مجھے ملا ہے
    اس کو کوئی نہیں جانا
    میرا اندر خالی ہے
    اس میں کون سمانا
    اس رمز کو وہ جانا
    جس کے پاس سب نے جانا
    یہ دنیا بڑی بے مایا
    کون یہاں پر چھایا
    ہم نے بوریا سنبھالا
    سمجھا کہ روگ پالا
    ہم ہوتے روگی تو اچھا ہوتا!
    بنتے ہم جوگی تو اچھا ہوتا!
    یہ دنیا بڑی بے ثمر ہے
    میرا پاؤں اس کی نظر ہے
    میں کیا کہوں جواب میں،
    کچھ نہیں اس کتاب میں،
    دل درد کے لکھ نہ پائے گا!
    یہ درد کیا کون سمجھ پائے گا!
    جو سمجھے وہ چپ رہ جائے گا!
    جو نہ سمجھے وہ مجھے تڑپائے گا!
    میں نے کہا بڑا برا کردیا!
    ڈ رتو میری نظر سے گر گیا ہے
    میرا تعصب مجھے کھا گیا!
    میری حرص نے دغا دیا!
    میری آنکھ میں ریا کاری،
    دل !دل شرم سے عاری،
    کیسے ہو دور اب گنہ گاری؟
    ہم کو اُس دنیا جانا ہے!
    جہاں انسان بستے ہوں!
    وہاں مکان گر جانے سے،
    کوئی فرق نہ پڑتا ہو!
    دلوں میں چراغ جلتے ہوں!
    ان چراغوں کی لو سے،
    خود کو جلا جانا ہے،
    ہم کو اس دنیا میں جانا ہے!
    جہاں سے روشنی بن کے نور،
    ذات کو نور کردے،
    میرے من کے اندھیروں کو
    دور کردے ۔۔۔!
    اندھیرا دور ہوجانے کے بعد
    ہمیں سب سمجھ آئے گا!​
    اب کہ کوئی سوال نہ ہو،
    یاس کو اب جواز نہیں!
    درد کا اب حساب نہیں!
    یہ مجاز کی رمز کی بات نہیں!
    جل کے مرنا اس میں پیاس نہیں!
    غلطی سے دل کی بات لکھی!
    اس کی سزا میں نے چکھی!
    مجھے معاف احباب کردو،
    میرے الفاظ میں ندامت ہے
    ان کو اب نظر انداز کردو
    یہ سمجھ ، وہ سمجھ اور نہ سمجھی!
    سمجھ کر بھی جہاں میں نہ سمجھی!
    دنیا میں آتے جاتے رہیے
    آنے جانا ایک میلا ہے
    کون اس دنیا میں اکیلا ہے
    وہ ذات جو کمال حق ہے
    وہ نصیب کی بات ہے
    یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
    یہ بڑے نصیب کی بات ہے

روح کی حقیقت ہے لا الہ الا اللہ

 روح کی حقیقت ہے لا الہ الا اللہ

نفس کی قناعت ہے لا الہ الا اللہ
شمس کی دَرخشانی پر ،قمر کی تابش پر
یہ رقم شہادت ہے لا الہ الا اللہ
آسمان کیوں عظمت پر ،زمیں کی ہستی پر
نقش یہ علامت ہے لا الہ الا اللہ
قلب کی وجودِ فانی پہ گر ہو تسخیری
کرتا یہ دلالت ہے لا الہ الا اللہ
خالقِ جہاں کا اب نور بس گیا مجھ میں
زیست کی صداقت ہے لا الہ الا اللہ
تار تار سازِ جسم کا ثنا میں ہے مصروف
تن کی بھی عبارت ہے لا الہ الا اللہ
اسمِ ''لا'' سے اثباتِ حق کی ضرب پر میرے
دل نے دی شہادت ہے لا الہ الا اللہ
روزِ حشر نفسا نفسی کے شور و غوغے میں
عفو کی سفارت ہے لا الہ الا اللہ
خون کی روانی میں نقش ''لا ''عبارت ہے
عبد کی عبادت ہے لا الہ الا اللہ


وقت نکلا جائے ہے تدبیر سے

 وقت نکلا جائے ہے تدبیر سے

اب گلہ ہو بھی تو کیا تقدیر سے
خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکھ چکے شمشیر سے
خواب دیکھوں میں بہار شوق کا
مت مچا تو شور اب زنجیر سے
زخم رہتے ہیں ہرے دل کے یہاں
لطف کیا ہو شوخیِ تحریر سے
سب تمنائیں ہوئیں اب نورؔ ختم
مت ڈرا ہمدم مجھے تقدیر سے

بھنور کی کیا مجال یہ ہمیں ڈبو چلے

 


خبر نہیں تھی جانے کیسے لہروں میں گھرے
بھنور کی کیا مجال یہ ہمیں ڈبو چلے

کہاں کہاں تلک مجھے اڑان مل سکے
ترے یہ صید جال بچھنے چار سو لگے!

یہ کیسا دھوکہ زندگی ہے! کون جانے ہے !
دکھاوا یہ خوشی کا جانے کب تلک چلے !

کمان سے جو تیر نکلا ، سینے میں کھبا
تری نگہ سے کتنے دل فگار ہو چلے

قصور روشنی کا تو ہے، جو اندھیروں میں
اجالے کی تلاش میں ادھر ادھر پھرے

پہاڑوں پہ چڑھنے کی لگن نے مات دی
مگر لو عشق کی بھی دھیمی دھیمی ہے جلے

ہمارے حصے دشت کی لکھی سیاہی ہے
اسی لیے بھی تارکِ رہ ہونے ہیں لگے

سیاہ رات میں ہی آگہی کے چاند سے
بجھے چراغ ذات کے ستارے تھے بنے

اے زندگی اب رنگ نہ بدلنا

 

زندگی سے بچھڑے اک عرصے ہوگیا ہے ۔جب زندگی ملتی ہے تو بچھڑی بچھڑی لگتی ہے ۔ زندگی کے کئی سال بعد میں اُسی مقام پر کھڑی ہوں ، جہاں سے سفر شُروع کیا تھا ۔ زندگی نے کیا کیا لیا ہے اس بات کے ذکر لا حاصل ہے مگر میں نے اس کو کیا دیا ہے یہ بات سود مند ہوتی اگر میں نے اپنی ناکامیوں کا بدلہ اسی زندگی سے نہ لیا ہوتا ۔بارہا خود سے زندگی کو جدا کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئی تب مجھے احساس ہوا کہ ایک طاقت میرے ارادے سے بڑی بھی ہے ۔ جو ارادے میرے بنے تھے وہ ٹوٹتے رہے جیسے خزاں کے پتے شاخ سے اجڑتے رہے ہیں ۔ جن پتوں کو میں نے کھروچنا چاہا اور باوجود کوشش کے وہ شاخوں سے گوند کی مانند جمےرہے تب احساس ہوا کہ میں خود میں کچھ بھی نہیں ہوں ۔

زندگی میں بارہا واقعات اپ کی سوچ کے دھارے بدل دیتے ہیں ۔زندگی سے گزرنے والے واقعات نے میری ہمت و طاقت کو مجھ سے گزار دیا ۔ میرے ارادے ، میرا یقین جب ٹوٹتا گیا جیسے شیشے کے کانچ زمین پر لگنے سے بکھر جاتے ہیں ، میرے ارادے زمین پر کانچ کے ٹکروں کی مانند گرتے رہے اور میں ان کے زخم سینے میں محسوس کرتی رہے ۔۔۔۔۔

خون جاری ہو زخم سے کب تلک
لوگ مرہم رکھ چکے شمیشیر سے 

میرے سینے میں ٹوٹتے خوابوں کی کرچیاں خون کا سیلاب بناتی رہیں اور میں بظاہر ان کا بدلہ لینے کو خود کا خون بہاتی رہی ۔ خُدا بھی اوپر بیٹھا میرا تماشا دیکھتا رہا ۔ اس نے مجھے ڈانٹا نہ کچھ کہا ،کیونکہ اس نے میرے کیے کرتوتوں کا انجام لکھ رکھا تھا ۔ میں نے جو تیر کمان سے بدلہ کو نکالا وہ میرے سینے میں کھب گیا ۔ بظاہر میرا جسم اس زہر سے گھائل ہوتا رہا اور روح زخمی و نڈھال ۔۔۔ میرے جسم کی دیوار سے نکلنے والی روشنی لوگوں کو دھوکا دیے رکھتی کہ میں ایک بہادر عورت ہوں جس نے خود کو سنبھال رکھا ہے مگر اس کے وجود کی شاخوں کی بنیادیں ختم ہوتی جارہی تھی جیسے دیمک سب کھا جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

دیمک تنے کو چاٹتی جارہی تھی
اور ہم کتنے مگن شجر کی نگہبانیوں میں
میں اس کھوکھلے پنے میں مرتی جیتی رہی ہوں ۔۔۔ ایک وقت ایسا آگیا جب مجھے زندگی نے بیمار کردیا اور میں نے اپنے وجود سے اختیار کھو دیا ۔خود کا تماشائی بنتے ، خود شناسا ہونا کتنا تکلیف دہ امر ہوتا ہے اور یہ وہی جان سکتا ہے جس پر گزری ہوتی ہے ۔ ایسے سمے کبھی خود پر فاتحہ پڑھتے ، کبھی استغفار پڑھتے ، کبھی رحمت کی دعا مانگتے تو کبھی خود کو خود سے بچھڑتے دیکھتے انسانیت میں چھپے چہرے دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے احساس ہوا کہ میں نیند سے جاگ چکی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک سال کا عرصہ کم نہیں کسی کے بیمار ہونے کے لیے ، محتاجی کا احساس ہونے کے لیے ! کم نہیں تندرستی کی دولت ! میں نے خود کو نقصان دینے کے سو بہانے تلاشے اور جب زندگی نے مجھ پر ایک وار کیا تب میری ساری اکڑفوں نکل گئی جیسے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے ۔۔۔ اس بیماری میں پچھلے سال اگست میں شاہ رکن عالم جانے کا ارادہ باندھا مگر چلنے پھرنے سے محال ہونے کے باعث جا نہیں سکی ۔ اس کے بعد نومبر میں جانے کی کوشش کی مگر مزید بیماری کا حملہ ہوگیا ۔ ایک سال بعد آج میں شاہ رکن عالم کے گنبد میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ میں ایک سال بعد اس جگہ پر آئی ہوں ! ایک انجانی سی خوشی ہورہی تھی کہ اپنے قدموں پر چلتے ہوئے اس جگہ پر آئی ہوں گوکہ میرا جسم میرا ساتھ دینا کبھی کبھی چھوڑ دیتا تھا مگر میری بات مان رہا تھا اور وہ دن جب میں ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے بائیک یا کسی رکشے پر بیٹھ نہیں سکتی ، میں ڈاکٹر کے پاس سیدھا بیٹھتے اپنی طبیعت کے بارے میں بیان نہیں کرسکتی تھی اور مجھے لٹا کے میری طبیعت کا پوچھا جاتا ہے ۔ ایک سال بعد میں اس جگہ پر بیٹھی سوچ رہی تھی شاید میں اب میں کبھی ویسا بیمار نہیں ہوں گی ! شاید اب زندگی میں ایسا کوئی طوفان درپیش نہیں ہوگا

صبح سویرے اٹھنا میری عادت رہی ۔ میں آج صبح پانچ بجے اٹھی ، نماز پڑھی ، کچھ قران مجید کے صفحات کا ورد کیا اور چل دی اس راہ جس سمت جاتے ہوئے ارادے کے بنا ہی زندگی لے جارہی تھی ۔ میں نے جوتے اوقاف کے ملازمین کو حوالے کیے اور بوری نما ٹاٹ کے اوپر سے چلتی ہوئی گنبد میں داخل ہوگئی جبکہ دور سے کبوتروں کی غٹرغوں کی بلند آواز مالک کی یاد دلاتی محسوس ہورہی تھی ۔۔ اندر داخل ہوتے گلاب اور اگربتی کی خوشبو سے روح محصور و مسحور ہوگئی ! میں قبور کو پار کرتے ہوئے قبر مبارک کے پاس کھڑے سوچنے لگی کہ یہ ہستی ان کو گلابوں کی کسی محتاجی ! ان کی قبر پر سرخ رنگ کی چڑھی چادر خالق سے وصل کی نشانی ہے ۔۔ وہاں پر کھڑے ان کی روح کے احساس کو اپنے من میں محسوس کرنے لگی ! وہاں پر ان کے لیے فاتحہ پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے اپنی صحت کی دعا مانگتے ، اللہ سے اللہ کو مانگا ۔۔۔میں اس مقام پر ہوں جہاں میری ساری خواہشات مٹی مٹی ہوگئی ہیں بس ایک خواہش رہ گئی ہے کہ مجھے وہ مل جائے جس نے مجھے نئی زندگی دی ! میرا نیا جنم ہوا ہے اور موت کو شکست دے کے زندگی کے دہانے پر کھڑی ہوں کہ ابھی جنگ تو باقی ہے ! پھر میں اندر چلی گئی جہاں خواتین کے لیے مخصوص ہے ۔

اندر خواتین قران خوانی میں مصروف تھیں جبکہ کچھ نماز میں ۔۔۔ میرا دل باہر بیٹھنے کو تھا ! مگر حبس کی وجہ سے اندر خواتین کے لیے مخصوص جگہ میں بیٹھنا پڑا ۔ وہاں پر لگا پنکھا زندگی کی آہستگی کے بارے میں پتا دے رہا تھا جبکہ اس پر لگے جالے ہماری اوقات کا ! قران پر قران پر پڑے دیکھ کے خیال آیا کہ قران سمجھنے کے لیے تھا مگر یہاں مارکیٹ بننے کے بعد اس طرح جزدان میں بندھنا مقدر تھا ! کچھ خواتین قران پاک جزادان سے باری باری نکال رہی تھیں اور اس کا پہلا صفحہ کھول کے الحمد شریف کی پہلی لائن پڑھنے کے بند واپس رکھتی جارہی تھیں ۔ استفسار پر بتایا کہ منت مانی تھی جو پوری ہوگئی ہے ۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں پڑے قران پاک کب سے بند پڑے ہیں ان کو کسی نے کھولا ہی نہیں ! دل کو بھی کسی نے نہیں کھولا نا ! یہاں پورا کا پورا قران رقم ہے مگر کسی نے دیکھا بھی نہیں اور سننے کے لیے دل کی سننے کی سعی کون کرے ! یہ دن میرے شکر ادا کرنے کا تھا کہ میں پورے اک سال سے زائد عرصے سے بیماری سے لڑتے ہوئے بالآخر صحت یابی کی جانب چلنے کی سعی میں ہوں ۔۔میں کوشش میں ہوں گوکہ میرے اندر وہ توانائی نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی مگر یونہی چلتے چلتے میں اپنی توانائی حاصل کرلوں گی ۔ ان شاء اللہ