Sunday, November 22, 2020

سدرتہ المنتہی ..

 

‌۔سدرتہ المنتہی مقام ِِ پہچان ہے .یہ وہ مقام ہے جس سے گزر چُنیدہ لوگ کا ہوا کرتا ہے. فرشتوں کی سب سے اعلی جماعت کے سردار بھی مقامِ سدرہ سے گزر نہیں سکتے. یہ قیام کی جگہ ہے جس جاء سے زاہدین، متقین اور صالحین گزر نہیں سکتے. ... اس مقام سے آگے جانے کی سکت سچے عاشق، عارف کی ہوتی ہے ... عارفین کی جماعت لباس مجاز میں نور کی مثال ہے، جن کا حق سے وصال مقرر وقتِ مشاہدہ ہوتا رہتا ہے .. افضل ترین انسان سیدنا مجتبی، مصطفی، شہ ابرار صلی علیہ والہ وسلم ہیں، وہ اس مقام سے ایسے گزرے جیسے پلک جھپکنا جانِ عزیز کے لیے آسان ہے ...انبیاء کرام کو معراج بھی آپ کے دم سے میسر ہوئی ... جو عاشق صادق عین حق پر راضی ہوتے، پیرویِ رسول صلی علیہ والہ وسلم پر چلا، اس نے بھی اوج کو پا لیا...

سدرہ ....... حجاب کا پردہ ہے ...حجاب کی انتہا وہ مقام ہے جہاں حجابی.و بے حجابی کا فرق بہت تنگ ہوجاتا ہے اور نور کو کالے رنگ میں پانا گویا نور علی نور کی مثال ہونا ہے .....اِ س دنیا(سدرہ المنتہی) کی مثال سفید روشنی کی سی ہے جس میں بحالت خواب داخل ہونا عین حق ہے. خواب جاگتے یا سوتے دو حال میں درپیش ہوتا ہے ..لاشعور کی بیداری تحت الشعور سے مل جاتی ہے ....سب فاصلے مٹ جاتے ہیں. عیاں، نہاں اور نہاں، عیاں ہوجاتا ہے ..سب نظر میں ہونے کے باوجود کچھ دکھائی نہیں دیتا مگر دل میں اُجالا ہوتا ہے ...مقاماتِ عالیہ جب نظر پہچانتی، شناخت کرتی ہے تو تکریم میں جھک جاتی ہے ...سجدہِ شکر بجالانا لازمی ہوجاتا ہے کہ عین بیداری میں دیدار نبی کریم صلی جس کو ہوجائے، اس پر عین حق، رب باری تعالی کا دیدار لازم ہوجاتا ہے .....جس نے دیدار باری تعالی کرلیا گویا اس نے صراط مستقیم کو عبور کرلیا ...گویا اس نے حوصِ کوثر کو پالیا ... اس کی روح شافعین میں شمار کیجانے لگے گی ....


عشاق بامثال عارفین اسوہِ حسنہ کی پیروی کرتے ہیں، گویا انکی ارواح نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کی پیروی میں آپ صلی علیہ والہ وسکم کے مشابہ ہوگئیں ...سردار پیامبراں، رہنما، اسوہِ کامل کی تمثیل حق، نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم نے مسجدِ اقصی میں جب نماز پڑھائی تو آپ صلی علیہ والہ وسلم کی امامت کی اصحاب اجمعین کی ارواح شاہد ہوگئیں .... گویا اسی مقام پر امام دو جہاں کے پیچھے شاہد ہوگئیں ..یوں شاہدین کے سردار سیدنا ابوبکر صدیق نے جب معراج پالی تو انکی پیروی میں تمام اصحاب نے بھی پالی ...مقام شہادت کے بعد تصدیق لازمی تھی، وہ گواہی سیدنا ابوبکر صدیق نے دی اور صدیق کا لقب پا گئے ...گواہی بھی یوں کی ادا ...

ہے :
سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ


وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہئ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo


ان رفعتوں کے بعد آپ کو احکامات دیے گئے جن میں نماز اور شفاعت کا بطور خاص ذکر ہے ...

نماز پڑھنے سے مراد سبق سیکھ لیا جبکہ قائم کرنے سے مراد شعور کو رب کے حضور ختم کردیا ... باطن میں نور کے جلوہ افروز ہونے کے بعد وہ مقام آیا کہ گویا نماز عین حق کا مشاہدہ ہے ...عشاق کو یہ صلاحیت ودیعت کردی جاتی ہے کہ بحالت نماز حواس توازن کھو دیتے ہیں ..... ان پر ناسوتی سے جبروت، لاہوت کے نظارے عیاں ہونےلگتے ہیں ... یہ نظارے کرنے والے شافعین کا درجہ پالیتے ہیں .... یعنی جو عاشق ہے، وہی شاہد ہے، وہی صدیق ہے ... وہی سردار ہے، وہی شافعین میں سے ہے ... میراث قلم سینہ بہ سینہ چلتی ان شافعین کو مل جاتی ہے، سینہ تجلیات کا مسکن بن جاتا ہے ... چار یاروں سے سلسلہ چلتے چلتے عشاق تک جب پہنچتا ہے تو کہیں یہ مجذوب، کہیں قلندر، کہیں قطب تو کہیں ابدال کے روپ میں ملتے ہیں ....ان کے وجود مثالی ہوتے ہیں ..ہالہِ نور سراپے کے گرد اس قدر تقویت پاجاتا ہے کہ جسد خاکی اپنی اہمیت کھو دیتا ہے ..زمان و مکان کی قید سے آزاد سفر میں جسم کی مثال لباس کی سی ہوجاتی ہے کہ جب چاہا اتار دو تو جب چاہے پہن لو ...ایسے حال میں وجود کا سایہ انسان کھو دیتا ہے ..نور کی روشنی کا سایہ نہیں ہوتا کہ اسکے آگے تمام روشنیاں ہیچ ہوتی ہیں
..

لفظ فہم میں نہ ہوتے، تو کیا کرتے!

 لفظوں کی ہزارہا اقسام ہیں: کچھ خوشی و شادی کا بیان، کُچھ حسد، کینے کی جلن لیے، کچھ صحیفہ کی مانند دل میں اُترتے ہوئے، کچھ الہام کی مانند سینہ کھولتے ہوئے، کچھ کلیمی کی ضرب لیے ..کچھ خالق کا امر بنتے ازل کا حُکم رقم کیے ...کچھ لفظ جھوٹے ہوتے فریب دیتے ہیں تو کچھ حیات کا فلسفہ لیے،


لفظ لفظ تری آیت ہے

آیت سے آیت جڑی اک خزانہ

جوڑوں ان کو تو کبھی دیکھوں توڑ کے

سمجھ آنے لگے تو سر دھنتی رہوں میں

لفظ ترے ملحم ہوتے رہتے ہیں

نرم زمین ہوتی ہے تو روشن فلک ہوتا ہے

بارش ہوتی ہے آشیانے پر تو برق بھی گرتی ہے

موت کے بعد نیند ملتی جاتی ہے

یہ صدائے غنود، چھارہی غنود

یوں جیسے کہ مٹ رہی قیود

ذاکر کب سے ہیں محوِ سجود



آیت آیت کی مانند اک اک لفظ ہے جو لفظِ قران ہے. قران صحیفہِ الہامی ہے جب دلوں میں اُترتا ہے تب رقت سے دلِ موم کو کچھ سُوجتا نہیں مگر کہ سجدہ کیا جائے ...


اللہ کی مثال نور کی سی ہے، نور کو ہر زمین و آسمان کی ہر شے کا لازمہ قرار دیا ہے. وہ آسمانوں زمینوں کا نور ہے. قران پاک کے آفاقی الفاظ ہر شے (جاندار، بے جان) پر یکساں پورا اترتے ہیں ... انسان بھی مثلِ نُور ہے کہ اس میں حجاب در حجاب نور پوشیدہ ہے.....نور کی مثال درخت کی سی ہے یہ شجر سے فلک تک اور فلک سے نور تلک ..........، فلک پر نور کا چراغ ہے .. یہ فلک ہی ہے جو اک طاق کی مانند ہے، جس کے بُلندی پر ایک روشن ستارہ ہے ...اس روشن ستارے کو شجر ِ زیتون جوڑتا ہے...گویا انجیر کا درخت توانا زیتون کے پتوں سے حاصل تیل سے ہوتا ہے. تب برق نور سے کلیمی حاصل ہوجاتی ہے ..یہی زیتون کا تیل ہے جو بنا آگ کے برقی نظام کو چلاتا ہے تو کبھی اس سے ایسی چنگاری پیدا ہوتی ہے کہ دیدِ خدا کا دعوی ہوجاتا تو کوئی کہتا ہے میں نہیں بولتا، میرا یار مجھ میں بولتا ہے ......


یہ لفظ دل پر اترے تو اک حال سے دوسرے حال کو چلے ..... یہ تجلیات جو لفظ لیے ہوتے ہیں آنکھ ان کو اچک لیتی ہے، جسم پر اختیار ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور نرمی سے ہچکیاں لگ جاتی ہے. یہی فلک ہے جہاں ستارہِ نور روشن ہے اور اس کو سیرابی زمین سے ملتی ہے، یہ زمین کسی کی بنجر تو کسی کی سخت تو کسی کی زرخیز تو کسی کی نرم ہوتی ہے ...زمین کو پانی نہ ملے تو فلک تک رسائی نہیِ ہوتی ہے ..جب زمین پانی سے تر ہوجاتی ہے تو ذکر ِحلقہ ِِ ھو سے سب کچھ فلک کی جانب گامزن ہوجاتا ہے اور نور کو نور ملنے لگتا ہے....


لفظ جو دل پر اترے، روح میں پیوست ہوجائے تو استعارات کھُلنے لگتے ہیں .... روح سنتی ہے جب ذکر میں کلام الہی ہو .... آیات کو آیات سے ملاتی ہچکیاں لیتی ہے کہ زلزے آجاتے ہیں .. ، روح کی اثر پذیری پانی کی طرح ہوتی ہے .... یہ زیتونِ مجلی جب دھیرے دھیرے پتوں کی نسوں سے ہوتا ستارہِ سحری کو پہنچتا ہے تو رات اور صبح اک مقام پر ٹھہر جاتے ہیں ...یہیں روح سجدہ کرتی ہے جب سجدہ رکوع سے شروع ہوجاتا ہے، ساجد سر اٹھاتا ہے تو سویرا ہوجاتا ہے ... یہی مقام ہے جو طلوعِ شمس کی مانند روشن آیت ہے .....


الہامی کتاب، قران پاک کے لفظ واقعات کو ظاہر کرتے ہیں گویا شاہد بھی ہیں مشہود بھی ہیں ... یہی اسرار افشاء ہونے پر باعثِ مسرت ہوتے ہیں ...



اللہ النورالسماوات و الارض

الحمد للہ رب العالمین و سلام علی المرسلین

لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ

تو طائر شوق ہے، پرواز میں مگن ہے ...

 تو طائر شوق ہے، پرواز میں مگن ہے ...


میں ناسوتی میں پروردہ ہوں، پستی میں سوالی ہوں ....

تو مقام سدرہ پر سوال لیے ہے ، تو کہاں ہے، کدھر ہے؟ کدھر ہے تری ہستی؟ بتا تو سہی ؟

میں طائر سدرہ ہُوں، عرش پر مکین.ہوں ...! میری ہستی خالی اور میری ذات سوالی

تو شعار مومن، پیمبرِ یقین...!

میں زوال کی داستان، میں حشر میں گُم

یہ ہستی یہ، بستی، یہ لطافت میں گم ارض و سما! کچھ بھی نَہیں، تو خالی! تو خالی ...

میں ازل سے سوال لیے اوج ابد کی جانب.....میں چھاؤں میں مقید ،تری روشنی ہے عالی ...

تو خالی! تو سوالی....!

تو عالی! تری شان نرالی

تو حجاب میں ہے... نور کی دید میں مگر کہ جذب ہے گُم ہے ...تو شوقِ سے پُر، مگر میرا فرمانِ لن ترانی...

میں خالی ہوں مگر تو ہی ہے مقید، نہیں کہیں اور برتر ...!

تو شکوہِ، تو سوال، تو حجاب، تری داستان ہے کیا؟

میں داستانِ ازل ہوں، مین تجھ سے خلق ہوں، میں مٹی سے علق ہوں ..میں اک پستی میں مقیم طائر

تو طائر سدرہ ہے! تو کہاں؟ کہاں کھوگئی ہستی تری!

میں انوار کی حدت میں، میں شدت سے ہوں عاری .. لینے کی طلب ہے ، تری عطا بے حدو حساب .......تو عالی تری، شان نرالی

تو اپنے گزرے وقت کی بے جان ہستی جو تھی منجمد مانندِ برف، خشک مانند ِصحرا... برقِ نور سے ترا ہر اک روزنِ دل منور ہوا ! تو منور ، مطہر.. مری حکمت ہے نرالی

میں خالی ، تو عالی. میں سوالی، تو یکتا .. تو حجاب ازل سے ابد تک کا گھٹتا ہوا فاصلہ ... تو حسنِ یوسف میں پنہاں! تو روح کے اسرار کا کلمہ! تو رحمن و رحیم! میں خطا سے ہوں پُر.... اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم! میری ذات ہے عشق کے شین میم میں ! میں شوق کا ہوں قاف سین! میں خالی، میں سوالی ...

ھو کے عالم میں سکوت لالہ و گل دیکھنے والے،

 ھو کے عالم میں سکوت لالہ و گل دیکھنے والے،


، جلوہِِ ہست میں مست خوش گلو رہنے والے

دستِ آرزو کے خالی پن کو حق سے بھرنے والے،
عصیاں، داغِ ندامت کو اشکوں سے مل مل کے دھونے والے،

وہ کہاں ہیں؟ کیسی آرزو ہے جو نڈھال کیے دی رہی ہے
؟ سرزمین طوی پر ننگے پاؤں چلنے والے، کیسی آرزو ہے جو باقی ہے؟

از بقائے ہست تا انتہائے نیستی کیا کچھ بچا ہے؟
از انائے ازل میں بس کے اوجِ ابد کے متمنی کو چاہیے اور بھی کچھ ؟

یہ ندامت جو بکھر گئی اشکوں کے ایندھن میں، اجال دیتی ہے نور سے دل کو .......

کیا دل میِں گلِ و لالہ سے خوشبو نے معکوس نہیں دیا؟

تراشوں ہیرے کو بار دگر تجلیات سے، انوارات سے ....کیا چاہیےاور؟
تفریق مے مٹے بھی کیسے؟ پیمانہ ہے میخانہ کے جیسا

باسٹرڈ آف استنبول کا جائزہ

 باسٹرڈ آف استنبول ایلف شفق کا تاریخی ناول ہے ،جسکا پلاٹ کافی پیچیدہ ہے . اس ناول میں ایلف نے ماضی اور حال کے ٹکروں کو پزل کی صورت میں جوڑا ہُوا ہے.اسکا مرکزی خیال آزادیِ ہند سے ملتا جلتا ہے۔ اسکا مرکزی خیال یہ ہے کہ وہ مظالم جو برطانوی سامراجیت نے ہندوستان میں ڈھائے بالکل اس جیسے ہی ترکی حکومت نے آرمینیا کے لوگوں کے ساتھ برتے. ایلف شفق کو اس بیباک سچ لکھنے کے بعد تین سال جیل میں گزارنے پڑے.


اس ناول کا آغاز زیلیحہ " سے ہوتا ہے. انیس سالہ لڑکی ہسپتال جاتی ہے تاکہ نئی سانس لیتی زندگی کو وجود سے عدم کی جانب دھکیل دے.مگر عین وقت پر اسکا ضمیر جاگ جاتا ہے .

زیلیحہ کا تعلق جس گھرانے سے ہوتا ہے اس کو kazanec family کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے. یہ ترک خاندان پورے ترکی کی نمائندگی کرتا ہے. گلسم خاتون چار سوتیلی بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ماں ہوتی ہیں. مصطفی اس خاندان کا واحد چشم و چراغ ترکی کو چھوڑ کے امریکہ میں رہنے لگتا ہے مصطفی کے امریکہ جانے کی پراسرار وجہ بعد میں جاکے کھلتی ہے جب آنٹی بانو ایک جِن کے ذریعے ماضی میں سفر کرتی ہیں تو وہ مصطفی کے ناقابلِ فراموش جرم کے بارے میں جان جاتی ہیں تاہم اس بات کو صیغہِ راز اسلیے رکھتی ہیں کیونکہ اس جرم کی کہانی ان کی بہن زیلیحہ کے گرد گھومتی ہے

. امریکہ میں مصطفی دو شادیاں کرتا ہے، جن میں سے اک آرمینین خاندان جو کہ امریکہ میں پناہ گزین ہوتا ہے، اس سے کرتا ہے. دوسری شادی وہیں کی ایک شہری خاتون سے کرتا ہے ۔ مصطفی کی چار سوتیلی بہنیں: زلیحہ، فیریدے، سیورائے اور بانو ہوتی ہے. فیریدے تاریخ کی استاد ہوتی ہے ہوتی ہے سیورائے کو وہم ہوتا رہتا ہے اس کو بہت سی بیماریاں ہیں، یہ احساس وقت کے ساتھ تقویت پکڑتا جاتا ہے اور بالآخر اسکو شزوفرینیا بھی ہوجاتا ہے

اس میں اس بات پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے کہ اس ترک خاندان کے مرد گھریلو ذمہ داریوں سے گھبراجاتے ہیں اور فرار ہوتے کسی دوسرے ملک میں رہنے لگتے ہیں یا پھر جلدی مر جاتے ہیں.آنٹی بانو کو ایک clairvoyant and soothsayer کے طور متعارف کرایا جاتا ہے جن کے قبضے میں دو جِن ہوتے ہیں. یہ جِن ان کو مستقبل، حال اور ماضی کا پتا دیتے اور وہ پریشان حال لوگوں کی اس طرح مدد کیا کرتی تھیں... آنٹی بانو کی شادی کے بعد دو بیٹوں کی وفات ہوجاتی جو یہ خیال ظاہر کرتا ترک خاندانی ادارہ مضبوط نہیں ہے ! آنٹی بانو شوہر کیساتھ نہیں رہتی ہیں اور اپنی بہنوں کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہیں .... جبکہ زلیحہ کا اک ٹیٹو پارلر ہوتا ہے .. اور فریدے تاریخ کی اک ٹیچر ہوتی ہے ..

Armonoush مصطفی کی اولاد ہوتی ہے .. امریکہ میں اس کے والدین کی کسی بات پر علیحدگی ہوجاتی ہے. Armnoush اپنے والد کے ساتھ رہتی ہے اس کی ماں اس کے لیے پریشان رہتی ہیں کہ اسکے والد ان کی بیٹی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ہیں جبکہ Armnoush کو اپنے خاندان کو ڈھونڈنا چاہتی ہے .وہ ترکی جاکے اپنے خاندان کو تلاش کرنا چاہتی ہے جس خاندان کی واحد نشانی اس کی اپنی ہی ماں ہوتی ہیں ..اس کی انٹرنیٹ پر دوستوں کی اک کمیونٹی ہوتی ہے جن سے وہ اپنی شناخت کے مسائل شیئر کیا کرتی ہے، وہی اس کو مشورہ دیتے ہیں کہ ترکی میں اپنے سوتیلے باپ مصطفی کے گھر جا کے اپنے خاندان والوں کو تلاش کرنے جاؤ .. وہ اپنے والدین کو بتائے بنا ترکی آجاتی ہے .....

یہاں پر اسکی ملاقات اپنی سوتیلی بہن آسیہ سے ہوتی ہے جو زیلیحہ کی بیٹی ہوتی ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہوتی ہیں ۔Armonoush امریکہ میں رہتے شراب سے دور رہتی ہے جبکہ آسیہ اوائلِ عمری سے ہی کچھ تخریبی سرگرمیوں کا شکار ہوجاتی ہے ۔ ترکی آتے ہی اسکو پتا چلتا ہے کہ جس جگہ پر اسکے والدین رہتے تھے اب وہاں پر ایک ریستوران ہے ۔ اس سلسلے میں آنٹی بانو کی مدد لی جاتی ہے جو جن کے ذریعے سفر کرتی ہیں اور آسیہ کو بتاتی ہیں کہ اس کے والد ایک بہت بڑے شاعر تھے اور آرمینیا کی آزادی کے لیے لکھتے تھے ۔ ترکی حکومت کے ماتحت رہتے ان کے علاوہ ایسے سارے خاندان جو ادیب تھے ، مار دیا گیا یا جلاوطن کردیا گیا ۔ اس سلسلے میں Armonoush کی ماں کو بچالیا جاتا ہے اور امریکی حکومت کی پناہ میں باقی ماندہ خاندانوں کے ساتھ دے دیا جاتا ہے


ترکی حکومت کی تاریخ اور معاشرت کو ایلف نے موضوع بنایا ہے ۔وہ اسکو گرفت میں لیتے حکومت پر تنقید کرتی ہیں ۔ ایلف ایک اچھی مصنفہ ہے ۔انہوں ترک خاندان کے روشن و تاریک دونوں پہلوؤں پر نظر ڈالی ہے ۔ کلبز ، پبز اس نسل میں کس قدر عام ہیں ، اس پر روشنی ڈالتے ان سے پیدا ہونے والے اثرات کیا ہے، اس سب کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اسکے علاوہ انہوں نے شناخت کے موضوع کو بھی گرفت میں لیا ہے ۔ جدید نیوآبادتی ادب میں شناخت جو کہ ہجرت سے منسلک ہے، اسکا موضوع بہت اہم رہا ہے ۔ ہر مشہور ادیب کے ناول میں شناخت اور ہجرت اہم موضوع رہا ہے ۔ اس میں ہجرت مصطفی اور Armonoush کی صورت میں ملتی ہے اور شناخت کے مسائل Armonoush کو درپیش ہوتے ہیں ۔ آسیہ بھی شناخت کے مسائل کا شکار ہوتی ہے کیونکہ اسکو اپنے والد کے بارے میں علم نہیں ہوتا ہے ۔ خاندان میں مرد افراد کی قلت سے کیا نقصانات واقع ہوتے ہیں ،ان کی بھی بہت واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے

عہدِ وفا کی آشا تجھ سے دوام سی تھی

 

عہدِ وفا کی آشا تجھ سے دوام سی تھی
لیکن تری محبت بالکل ہی عام سی تھی

مسکن مرا تمھارا دل تھا، یہی رہے گا
چاہت تمام میری حبشی غلام سی تھی

چاہا ہے تجھ کو دل سے اور چاہتی رہوں گی
چاہے مجھے تُو ایسے حسرت یہ خام سی تھی

کیسے تجھے بلاتی، ہونٹوں کو میں ہلاتی؟
سانسیں رکی رکی تھیں آواز جام سی تھی

اے نورؔ دے گیا جو تجھ کو کڑی رفاقت
اس کے لئے فقط تُو لگتا ہے عام سی تھی

خواب میں کوئی اشارہ تو ملے

 


خواب میں کوئی اشارہ تو ملے
بحر کو کوئی کنارا تو ملے

دیپ الفت کےتو جلنے ہیں سدا
رات کو کوئی ستارہ تو ملے

پھول کھلتے ہیں، صبا چلتی ہے
اس جنوں میں بھی خسارہ تو ملے

زخمِ دِل اُن کو دکھائیں بھی تو کیوں!
حشر برپا ہے ، کنارا تو ملے

جب دوا نورؔ نہ کام آئی کوئی
زہر دو! کوئی سہارا تو ملے

حق کا نعرہ میں لگاتی ہوں سدا
دل جلے! مجھ کو کنارا تو ملے

مے کشوں کو تو اجل مست کرے
ماہ کے رخ کا اشارہ تو ملے!

جب ملے خاکِ نجف کا سُرمہ
وصل ہو میرا !وہ پیارا تو ملے

لمحہ لمحہ ملا ہے درد صدیوں کا

 لمحہ لمحہ ملا ہے درد صدیوں کا

ایک پل میں سہا ہے درد صدیوں کا

ساز کی لے پہ سر دھننے لگی دنیا
تار نے جو سہا ہے درد صدیوں کا

چھیڑ اے مطربِ ہستی وُہی نغمہ
جس کی دھن نے دیا ہے درد صدیوں کا


گیت میرے سنے گی دنیا صدیوں تک
شاعری نے جیا ہے درد صدیوں کا


ہوش کر ساز کا قوال تو اپنے۔۔!
ہر کسی کو دیا ہے درد صدیوں کا۔۔۔!


میرا نغمہ ، مرا سُر ، ساز بھی اپنا
آئنہ بن گیا ہے درد صدیوں کا

رقصِ بسمل مری دھن پر کِِیا کس نے ؟
ساز کو کیا ملا ہے درد صدیوں کا؟

کشش

 کبھی کبھی رات بہت بابرکت لگتی ہے. ستاروں کی، چاند کی روشنی اس رات بہت تیز ہوتی ہے..کش. ...

.. کشش آج رات چاند رُوشن کِیے ہوئے ہے..سورہ النور کی آیت دیوار پر لگی دیکھی.. اللہ نور السموت ولارض کی منقش آیت نے آنکھ نم کردی ہے. آنکھ باوضو رہے تو ہجرت یاد رہتی ہے . .. ہجرت کی رات کاخالق سے بچھڑ جانے کا دکھ ، دوبارہ سے یاد آنے لگتا ہے. چاند کی اتنی روشنی اس رات ہے کہ فرق نہیں رہتا! یہ رات ہے کہ دن؟ رات کہ روشنی چاند کی ..چاند کہیے کہ طٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! طٰہ کہیے کہ یٰسین ...یہ روشنی اصل روشنی کا پرتو ہے ... یہ سرمئی نور ہے جس سے رحمت اللعالمین کا نور وجود میں آیا . جب طٰہ کا خیال آئے تو سر سبز گنبد کا منظر بھی پر نور سا دکھتا ہے ایسے میں درود نہ پڑھنا کنجوسی ہوگی ....
الھم صلی علی محمد وعلی الہ محمد وسلم ... ...

وہ روشنی ہے افق کے پار، افق پہ جسے منور کیے دے ہے، بیخودی کی نیند میں زندگی مل جائے ہے . ابدیت کی چادر جسے ملے اسکا سفید کفن مانند گلاب خوشبو بکھیرے ہے ... نفی نفی سے زیرو ہوتا ہے زیرو سے نفی کا حساب ...نفی کا حساب شروع ہوتا رہتا ہے اور خوشبو بڑھتی رہتی ہے

اے نفس! اے زمین زاد ... دل جو کچھ ہے وہ روشنی ہے ...جس کی روشنی ہے، وہ دل ہی دل ہے، دل میں بستا ہے مگر دکھتا نہیں ....

مٹ جاتے اچھا تھا. فنا ہوجاتے اچھا تھا! لا .... لا کی ستون بنتی مٹی پر الا اللہ کا پہرا ہوتا تو اچھا تھا!

الست بربکم کی صدا کے بعد اس نے کہا ...

فاذکرونی اذکرکم

جب ذکر کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ ذکر کی صدا چار سو پھیل رہی ہے جب علم ہوتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ ورفعنا لک ذکرک کی صدا میں الہام کیا ہے! رنگ چڑھ جاتا ہے، جلوہ ہوجاتا ہے، روشنی مل جاتی ہے.
شبنم جب گلاب کی پتی پر گرتی ہے تب کلام کرتی ہے ... پھول نکھر جاتا ہے ... جب اس نے "میں ... تو " کا فرق نہیں رکھا ..نور کا رنگ بھی ایک ہے، نور کی اصل بھی ایک ہے، نور کی چادر بھی صفاتی بھی ہے، ذاتی بھی ہے! صفات کا کل " الرحمن " حرف میں مخفی ہے!

اک رنگ سے کئی رنگ نکلے، نور تقسیم ہوتا گیا ...کہیں نیلا ہوا تو کہیں زرد کہیں نیلگوں تو کہیں مرجان جیسا تو کبھی یاقوت کی مانند ... یہ جب نور تمام پیامبروں سے ہوتا یکجا ہوا تب میرے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نور نے خاکی وجود میں کرسی سنبھالی ... وہ نور جب ہوا ظہور تو فرمایا

الیوم اکملت ...... کامل آگیا ... کامل ہوگیا سب کچھ ... جو ذات سب پر پوشیدہ رہی ..وہ معراج کی رات عیاں ہوئی .... مالک نے کہا تھا کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی ... وہ جو گئے تو انہی کا نور جو ہم سینوں میں پوشیدہ رکھتے ہیں، وہ نور جو دلوں میں طٰہ کی تجلی سے درز درز سے ہوتا روشنی کیے دیتا ہے تو کہیں وہ مزمل کی تجلی سے سرنگ سرنگ وا ہوتا ہے، تب زمین زلزلوں میں آتی ہے تب وہ خشیت کی چادر سے ڈھانپ لیتا ہے تو کہیں وہ خود ظاہر ہوتا ہے تو مدثر کی مانند روشنی کرتا ہے تو جہاں جہاں وہ نظر کرتا ہے وہاں وہاں سویرا ہو جاتا ہے ... وہ روشن صبح ہو تو مدثر کہوں وہ رات اک روشن ہو تو مزمل کہوں ..وہ دوپہر کی روشنی ہو تو طٰہ کہوں وہ وصل کا شیریں شربت ہو تو یسین کہوں .... میں کیا کیا کہوں ایسے ...........


ملائک نے کہا کہ مالک گناہگار بندہ ...نائب کیا ہونا ...؟ مالک نے کہا جو میں جانتا وہ تم نہیں جانتے ... اس نے تجلیات سے منور کیا سارا جہاں تو صاحب الرحمن نے کسی کو الروف کی صفت دی تو کسی کو علم کے خزانے سے ملا ...کسی کو جلال کی روشنی نے مجنون کیا تو کوئی جمال میں پوشیدہ ہوا تو اس کو میرے نبی کا جلوہ مل گیا ... صلی اللہ علیہ والہ وسلم .... روشنی جمال یار کی ہے، یہ زمین سیاہ تھی .. زمین پر سورج کی روشنی کی ہے ...

خالق نے اسی روشنی کی قسم کھائی کہ یہی روشنی ہمارے سینوں میں ہے ... سینہ ہے کہ خزانہ ہے ... خزانہ ہے کہ کوئی فسانہ ... ہم کیا جانے بس وہ جانے وہ جانے .... وہ کہتا ہے کہ زندگی گزر جائے گی بصیرت میں ... تو گزر جانے دو .. وہ کہتا ہے موم پگھل جائے اک بار پھر ..روئی ذرہ کی مانند بکھر جائے گا تو کہیے کہ اچھا ہے! اچھا ہے! اچھا ہے کہ بکھر جائیں ..

حیرت کے اسرار

 ہر سوال کے پیچھے اسباب ہوتے ہیں. عشق کے پیچھے کیا سبب ہوگا؟ کیا ہے یہ عشق؟ خود سے سوال کروں تو لگے کہ حیرت کی کہانی ہے.سب سے پہلے دل متحیر، پھر نگاہ میں تحیر ایسا کہ تحیر مرمٹے اپنے سبب پر. حیرت کا سفر کمال کو پہنچتا ہے تو پتھر جی اٹھتے ہیں. حجر میں جب جان پڑی تھی لوگوں نے سبحان اللہ کہا تھا اور تسلیم کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم عشق الہی میں مخمور ہیں. یہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ وہ حُسن کی تقسیم کرتے ہیں. دامن دریدہ بھی ہو تو حسن جھولی سے بکھرتا مزید خوشنما لگتا ہے، گویا حسن جاتا ہی نہیں جب ان کی جانب سے دیا جاتا ہے. حسن جس جس کو ملے، وہ پکار اٹھتا ہے


حاجیو آؤ! آئنے کی رنگا رنگی دیکھو
حاجیو آؤ! دلِِ بسمل کی مستی دیکھو


حسن کے سامنے سرجھکتا ہے تو اٹھتا نہیں چاہے برہنہ تلوار سرقلم کردے مگر رحیم ہیں! کریم ہیں! روؤف ہیں! کیسے ایسا حکم کریں گے؟ شعور کی بات تلک تو یہ ٹھیک ہے مگر سامنہ ء حسن تو مجنوں کرتا ہے، بیخودی میں ہوش کہاں رہتا ہے. یہ تو دلِ بسمل کا حال دیکھیے کہ پکار اٹھتا ہے


نہیں تھے ہم ،وہ تھا کوئی اور ! وہ اور جو تھا وہ ہم تو تھے ۔۔! ہم نہیں تھے کہیں مگر ہم ہی تھے ہر جا ۔۔۔

عشق مانند مشعل علم کا خزانہ ہے جس سے وجدان حرکت پذیر ہوتا ہے .......... شمع نگاہ میں آتی ہے، یہ شمع افلاک پر سجائی گئی ہے ..وہ شمع جس کے لیے جہان پیدا ہوا ہے، جس میں نوری قندیل جلائی گئی ہے ، اس کی خوشبو میں بسی درودکی مہک...........نوریوں کو ہوش نہ رہا کہا سب نور مجلی ﷺ کی مہک ہے ، کہا حق نے ، ورفعنا لک ذکرک ۔۔۔آپ کا ذکر بُلند ہوگیا ..... الم نشرح لک صدرک ۔۔۔علم کامل ہوگیا ۔


یہی شمع تمام مومنین کا اثاثہ ہے. سب سے علم ملا سب کو ..... جب غار حرا تفکر میں کامل انسان نے دن رات گزارے تو وہ عجب دن تھے بیخودی کے. مقامِِ حیرت، سکتہ میں غائب. ادب سے دل جھک گیا تو دل جگمگانے لگا. حسن کی تقسیم دیکھو! یہ تجلیات عشق، معکوس جذب .... کیا ہے؟ پھر مقامِ خشیت جب آپ وادی ء حرا سے گھر کو لوٹے تو فرمایا

زملونی ...... زملونی

اک لفظ اقراء کے حسن کا اعجاز تھا! پڑھنے کے لیے لمحہ تھا. بس اک تجلی ء حسن تھی اور دوسری خشیت کی چادر! رب نے بہت پیار سے آپ کو پکارا تھا! مزمل! چادر اوڑھنے والے! یہ حسن کا اعجاز تھا جو حیرت سے شروع ہوا اور خشیت پر ختم ہوا. عشق کی ابتدا حیرت ہے اور انتہائے حیرت میں خوف ہے، محبوب کہیں دور نہ ہوجائے! وہ ناراض نہ ہو جائے. اس ڈر سے جسم روئی ہوجاتا ہے. دھیرے دھیرے انسان علم حاصل کرتا جاتا ہے جو حیرت سے خشیت کے بعد کی منزل ہے.

منور، مطہر محمدﷺ کی سیرت

 منور، مطہر محمدﷺ کی سیرت

تصور سے بڑھ کےحسیں انکی صورت

وہ نبیوں کے سردار ، ولیوں کے رہبر
نہیں کوئی انسان ان کا ہے ہمسر

مقامِ حرا ، معرفت سے ضُو پائی
نبوت سے ظلمت جہاں کی مٹائی

خشیت سے جسمِ مطہر تھا کانپا
خدیجہ نے کملی سے انہیں تھا ڈھانپا

منور ،منقی تجلی سے سینہ
پیامِ خدا سے ملا پھر سفینہ

چراغِ الوہی جلا مثلِ خورشید
تجلی میں جس کی، خدا کی ملےدید


احد کی حقیقت سبھی کو بتائی
نہیں شرک سے بڑھ کے کوئی برائی

تیقن سے سینے ہوئے سب کے روشن
گرفتار اندیشوں میں ان کے دشمن


اویسی ، بلالی صحابہ کی نسبت
محمد ﷺ سےالفت نے بخشی یہ عظمت

محبت کا میٹھا کنواں یا محمدﷺ
ترے ذکر میں ہر رواں یا محمدﷺ

مرا دل بھی اسمِ محمدﷺ سے چمکے
سبھی تارے اسمِ محمدﷺ سے دمکے

شاعرہ: نور سعدیہ