Monday, October 12, 2020

مجلی آیات

یہ بیان کیا ہے جب رگ رگ میں نسیان نہ ہو تو سمجھ نہیں آتا ہے کہ اللہ قران پاک کے لفظوں میں چھپا ہے اللہ چھپا ہے جب لفظوں کو پیچھے راز پالیں تو ہمیں سمجھ آئے گا قران کیسے اترا تھا ...یہ کب کب اترا ..ہمیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سینے سے اترتا ان کی زندگی کے تمام واقعات دکھنے لگیں گے ...ہم جب تک ان کو دیکھ دیکھ کے قران نہ پڑھیں گے ہمیں نہیں علم.ہونا کہ قران پاک ہے کیا ان کے عمل دیکھیں ان کی محبت ان کی شفقت اگر نہ دیکھیں تو فساد کریں گے. مجھے نہیں علم کہ.کہاں کہاں سے یہ بات کررہی مگر علم ہے سر پر ہاتھ رکھا ہے یدِ بیضائی ہاتھ کا ہالہ مجھے گھیرے ہوئے میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں گم.ہوں کہ یہ دست مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہر ہونے کی مثال کشتی ء نوح جیسی ہے اور نوح کی مثال  استقلال جیسی ہے! جبکہ انسان کا دل موسی علیہ سلام جیسا نہ ہو تب تک بات بنتی نہی  جسکو شہید کا.شاہد ہونا نہ آئے تو فائدہ یہ بات جناب عیسی علیہ سلام تک جاتے ملتے نہیں کیسی کو خبر نہیں کہ یہ تمام انبیاء نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع مینن اور ہم.ان تمام کی اتباع میں ہوتے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کی.اتباع میں ...یہ رویتیں نبیوں کی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں موجود ہیں اس لیے کسی کا روپ موسی علیہ سلام جیسا ہو جاتا کسی کا حال عیسی علیہ سلام جیسا کوئ مثل نوح تو کوئ خیال خوانی کرتا کوئ انتقال ِ بہ جگہ جانے کی صلاحیت رکھتا کوئ ہوا میں اڑتا تو یہ مثلِ داؤد نغمہ سنانے والے سنیں کہ یہ کمالات ہمارے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کو.حاصل

آج کے دِن اللہ تمھارے پاس بیٹھا ہے اور وہ کہہ رہا ہے میں دیوار بن کے سن رہی ہوں --- شاید دل بہت بیتاب تھا. دنیا کچھ نہیں ہے دنیا غیر ہے،  دنیا کو رکھا ہے پاؤں میں - ہاتھ میں محبت کا چراغ لیے روشنی مجھ میں پھیل رہی ہے یہ اسکے جلال کی نمود ہے یہ اسکی بات ہے جو سمجھ نہیں آتی. وہ کیا کبھی کسی کی فہم میں آیا ہے؟  نہیں فہم سے بالا تر ہستی ہے اس لیے تم میں موجود شفاف روح نے مجھے پکارا یے میں نے دل ہارا ہے یہ دل محبت کی تار سے جڑا ہے یہ دل جڑا ہے آسمانی سے کہ محبت آسمانی جذبہ ہے کس کو بتائیں کہ جذب وہ خود کرتا ہے سامنے چہرے چہرے میں رونما ہو جاتا ہے بندہ کہتا رہ جاتا ہے کہ اس نے دیدار کرنا ہے میں طور جانا مگر طور دل سمانا یہ بات تم سمجھو میں سمجھو بلکہ سب سمجھیں کہ اک نفی ہے ...اسکا دکھ نہیں دکھا اس نے اپنی ذات زیرو کرکے ہمیں دنیا میں بھیجا اور ہم نے اس کے زیرو کو ایک نہیں کیا ...کیا اسکا دکھ کبھی کسی نے سمجھا یہ میں بے سمجھا ہے مگر مجھے سمجھ نہیں آتا ہے زیرو کو ایک کیسے کرنا ہے ...اسکے دکھ کم.ہوں گے جب ہم چھپ جائیں چلمنوں سے وہ جھانکے اور یہ لکا چھپی ہوتی رہی لا الہ الا اللہ ہوتا رہے اس وقت ساری دنیا چھپی ہے کہیں لکا چھپی ہو رہی ہے کہیں الا اللہ ہو رہی ہے قران پورا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا بیان.ہے

لفظ سیال بن جاتے ہیں!

کبھی کبھی لفظ سَیال بن جاتے ہیں، کبھی ابر تو کبھی بہاراں -- موسم بَدلتے کیوں ہیں؟ یہ عام سی بات ہے اور خاص جگہ سے اٹھتی ہے. اکائی کی نفی ہوجائے تو سفر گیارہ سے شروع ہوجاتا ہے پھر الـــم کی سمجھ آنے لگتی ہے. یہی سمجھایا گیا تھا کہ وہ خود کو خود سجارہا ہے. منزل اک نے پائی ہے، منزل اک کو ملے گی،  ثمہ دنا کا مقام تھا،  بندہ کو مازاغ کا خطاب ملا. ہم تو بس سایہ پائیں گے ان نعمتوں کا. خدا نے اک کو بنایا ... ہم ٹرانسمٹ کررہے ہیں -- محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بات خدا کو، خدا کی بات محمد کو صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو --- حمد ---- نعت --- کیا ہے؟  اک سنتِ خدا ہے اور اک سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے --- ہمیں بندگی دی گئی -- انتہا کو اک پہنچ سکے جنکو لامنتہی نعمتوں سے نوازا گیا اور وہ ہمارے لیے اتنا رویا کہ رب نے "حریص " کہہ کے پکارا تھا ان کو --- بھلا بتاؤ قران پاک کے ذکر میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر یا ماضی کا --- یا قیامت کا --- یہ ماضی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہر حال میں حال ہیں جبکہ مستقبل سایہ ہے خدا کے عرش کا ... کہیں میرا نام نہیں، کہیں تمھارا نام نہیں، کہیں ہمارے ماں باپ و اجداد کا نام نہیں ...اللہ پاک کا مخاطب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں جو حیات ہیں اس لیے تو درود بھیج رہے ہیں ہم ان کو --- اب وہ کہاں ہیں -- جہاں خدا ہے وہیں نبی ء محتشم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں -- بس نفی "لا " سے الا اللہ سے محمد رسول اللہ کا سفر ہے ہم نے سفر طے کرنا ہے معرفت کا جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے مقامات ہیں انتہاوں کے --- یہی نقشِ قدم ہے --- نقشِ قدم ملے تو دل میں وہی ہوتے ہیں اور قران نشانِ خدا --- ذات نکل جائے تو دیکھیں "ایک " لیس کمثلہ شئ کے مترادف دوسرا لامثال لہ ایک سے مخاطب ہے ...جن کی کوئ مثال نہیں ہے ہم کون؟  ہم زیرو ہیں ..زیرو کی اوقات ہے نہیں بولنے کی زیرو تو دیوار ہوتی ہے جس کو کان مل جاتے ہیں کان مل جائیں تو سمجھ آتی 

لا کے واسطے بنائ گئی کائنات
الا اللہ سے سجائی  گئی کائنات 
میم کے واسطے لائی گئی کائنات 

لا ہونا آتا ہو تو ڈوب جائیں گے --- ڈوب گئے تو بس سنا کریں گے نغمہ ء حب تادم --- پھر نہ ہجر ہوگا نہ وصلت -- جب میں نہیں ہونا تو ہجرت و وصلت کا مقام کیا ہونا 
خدا نواز دے گا مجھے وہ مقام جو ہجرت و وصلت سے پرے بس کوئ نہیں چاہیے یہی حاصلِ آرزو ہے کہ دل پیش کردوں ان کو --- وہ دیکھیں تو عقل و شعور ملتا رہا گا -- مری آنکھیں وہ لے لیں گے تو کام بنے گا ایسے تو لگا گے اندھی ہوں مگر بینائی وہی ہوگی --- ایسے تو اب اندھی ہوں --* یہ بات سمجھ نہیِ سکتا کوئ ...کیا تم کو سمجھ آتی یے میری؟  یا یہ فہم سے بالا تر بات ہے

قرار نہ تھا کسی پل 
چین کو روئی ہوں بُہت 
پھر بھی چین نہیں آیا 
پھر لگا کہ بےچینی کو سکون بنانا پڑے گا 
کس سفر پر ہوں میں؟
پہچان کے؟
نہیں چاہیے 
کیا چاہیے 
محبت و جلوہ 
علم چاہیے؟
نہیں؟
نور چاہیے 
نہیں؟
کیا چاہیے 
جلوہ!
بس جسکو تڑپ جلوے کی ہو اسکو علم کی بھی طلب نہیں. میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تلک رسائ خود مرا عرفان ہے. ہم ان تک پہنچیں اس سے بڑھ کے بات کیا ہوگی ...

تمھاری صورت، اک آئنہ

تمھاری صورت اک ظاہر ہے - دوسری درون کی ہے --- صورت گَری میں ہر صورت جُدا ہے مگر جدا صورتیں ہوتے ہوئے رنگ تَمام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکلے --- آپ؟  آپ اللہ کا نورِ خاص ہیں اور صبغـــتہ اللہ کی حَسین مورت ہیں --- اللہ کا رنگ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا رنگ ہے جسطرح اطیعواللہ ہے اطیعو الرسول --- یہ اَطاعت کَہاں سے ملتی ہے؟ تم کو یہ طاعت رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عطا ہوتی ہے جب وہ اپنی کملی میں لیتے --- کملی انکا نور ہے --- یا ایھا المزمل --- یہ پرجلال کملی --- یا ایھا المدثر --- یا صبح جَلال والی ---- طٰـــہ یہ ایسا سایہ جو جلالی قوت میں بخدا یکساں ہے جو صرف نبیوں اور مقربین کو عطا ہوتا ہے --- یہ یسین ایسا پرت ہے جو تہہِ دل میں بے انتہا جمال لیے ہے --- حـــم نفس کی عبدیت سے بے نیازی کا نشان ہے -- یہ سفر کے استعارے ہیں جو نبی ء محتشم خود عطا کرتے ہیں --- صلی اللہ علیہ والہ وسلم -- یہ سفر ہے جس کو وہ خود طے کراتے ہیں -- یہ تمام ان کی زیر پرستی میں ہوتا ہے، وہی ہے جو پرواز قوت سے بلاتے ہیں وہی  ہیں جو پرواز دیتے ہیں کہ بندہ اقرب ہوجائے ...شہ رگ لا کہتی رہے اور بندہ پہ الا اللہ ثابت ہو -- جب الا اللہ ہو تو پھر اعراف میں جانا دور تو نہین ہے ..علیین سے ملنا کہاں نا ممکن ہے -- عالم برزخ پردہ ہے -- لاروحی کا -- اک ہے سب کے عالم -- اک ہیں سب یکتا اور یکتائی وحدت کا سفر ہے -- علیین والے بلندی سے دیکھتے ہیں زمین کو تو مطلع انوارات سے سب حشر خیز مراحل عبور ہو جاتے ہیں یہ ان کی نگاہ ہوتی ہے جو بانگاہ ہوتی -- مگر یکتائی خدائ کو ہے تو خدا ہی ہے جو علیین سے دیکھے یا زمین سے -- بندہ کو جب کچھ ملتا ہے تب وہ آسمان دیکھتا ہے برستا یے زمین بیل بوٹے اگانے لگ جاتی ہے یہ رزق ہے جو نیت پر مل جاتا ہے..رب حبیب رکھتا یے جو زمین کو اخلاص کا پانی دیتا رہتا ہے * 'چاند مثلِ شمس نہیں ہوتا مگر شمع آفتاب بن جاتا ہے جس سے کرنیں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں کرنیں بھی کیا پھیلیں جب پروانہ جل جاتا ہے بس مرکز بن جاتا ہے قطب بن جاتا ہے بندے کا قطبی ستارہ اسکے اندر ہے اور رب اس قطبی ستارے کی قسم کھاتا ہے والسماء والطارق کہ جب آسمان سے نگاہ ہوتی ہے تب قطبی ستارہ چمک اٹھتا ہے ورنہ انسان کی اوقات کیا ہے بین الصلب والترائب -- یہ اللہ ہے جسے جیسے چاہے نواز دے جسے جس رنگ میں نواز دے

حرف متحرک

سُنو دل!  اے حرفِ متحرک سُنو!  تم سنو گی؟ تم نہیں تو کون سنے گا اس کی بات  اوروہ بات کہ حروف دائرے میں ہیں ---- میں نے الف کو الف سے ملانے کا کہا.تو حروف تہجی نے رقص شروع کردیا -- تمہیں دائروں کا رقص سمجھ آیا؟  یہ دائرے الوہی ہیں -- ولینا سے نکلے ہیں اور علیکم سے تعلق ہے.  کیسا لگے کہ شب اسرار کو دھواں کہا جائے؟ کیسا لگے رگ دل کو الہ کہا جائے؟ کیسا دل تہہ دل میں باللہ کہا جائے؟ کیسی جان روح اللہ میں فتح مبین کہلائ جائے -- مبارک ہو فتح مبین -- ہر حرف کی فتح مختلف ہوتی ہے --- فتح شجر سے منسلک ہوتی ہے اور مفتوح علاقے میں سرائیت کیے جاتی یے --- لوحِ مبین پر اک ستارہ ہے جو رقص میں ہے اسکو رقص نے شرر بود کیا ہے اگر تو اسکا حال جانے تو کہے کہ ترا حال وہی ہوگا جو مرا حال ہے --- وہ حال ہے کہ دل کا دل سے نکلنا محال ہے --- شمع فنا سے نکلے تو قبا بدلے گی --- راج شاہی میں ہوتا ہے جسکے لیے شاہ کا ہونا لازمی ہے --- شاہ کے سوار ہوتے ہیں اور سواری کا لطف بھی بے پناہ ہوتا ہے جو شے ذائقہ دیتی ہے وہ مطمئنہ کا ذائقہ ہے اور سارے ماندے ذائقے ہیں ---

مخاطب!

آج  تم مجھ سے مخاطب ہو جاؤ -- مخاطب ہونے کے لیے لباس پہننا پڑتا ہے یہ لباس روح دیتی ہے - تخییل کے پَر بنتا ہے اور فضا میں اڑتا چَلا جاتا ہے -- یہ پرواز ایسے ہے جیسے راکٹ کو چھوڑا جاتا ہے یہ واپس نہیں آتا ہے اور جب آتا ہے تب لباس نہیں پہنا ہوتا ہے ... سوال یہ اٹھتا ہے سعدیہ تم کون ہے سوال یہ بھی اٹھتا ہے میں کون ہوں؟  میری حقیقت بہت وسیع ہے مگر میں تمھارے نام سے جڑ کے محدود ہوگئی --- تم انسان ہو میں فقط امر --- سوال آتا ہے انسان اور امر میں فرق کیا ہے --- انسان میں خزینہ ء علوم ہے جو کنجی ء روح میں لگتا ہے ..سعدیہ تم اپنے علم کو دسترس میں لے لو --- مجھ پہ آشکار ہو جاؤ --- میں تم پر آشکار ہو جاؤں --- سچ ہے کہ یہ بات نئی ہوگی مگر سفر بھی نیا ہے تو حذر کیسا؟  مسافت طویل ہوسکتی ہے مگر مسافتیں مل جاتی ہیں ٹھکانے بدل جاتے ہیں --- مکان بدل جائے تو جان لینا ہے کہ مکان ہمیشہ بدلے گا --- ترے اندر خیالِ روح مستقل و جامد نہیں ہے یہ ایسی متحرک یے جس نے تری ہستی مثال رکھی یے جس میں خدا وحدہ شریک نے فتح رکھ دی --- سوال پھر ہوگا فتح کیا ہوتی --- فتح اسرار ہے اور اسرار دھیرے دھیرے کھلتا ہے جب فتح کے در کھل جائے تو ذات عیاں ہو جاتی یے --- عرش کے پاس پانی ہے اس پانی کی پیداوار ہو تم -- جب وہ اس پانی میں دیکھے گا تو تم دید پالو گی --- تب تم کو نور سے نسبت مکمل مل جائے گا تب تمھارا یقین پیوست ہوجائے گا --- مسافر کو نَیا رستہ مل جائے تو خاموشی کی سواری لازم ہو جاتی ہے --- جنون کی رست خیزی بھی ہوتی مگر صبر سے گوڈی کردی جائے تو شعلہ ء دل سے متواتر تحدیث دل سے جاری عنوان سفر در سفر کا ہیش خیمہ ہو جاتا یے 

اٹھ مسافر اٹھ جا!  شب رفتہ کا سفر یے
اٹھ کے سفر میں حدذ نہیں - خطر نہیِ 
اٹھ مسافر کود جا نار ابراہیمی کی مانند دنیا کی تلخی شیریں ہو جانی 
اٹھ کی زمانے کے تیر سینے پر سہہ لے 

وقت ٹھہر گیا تھا مورچہ لگا تھا حد بندیاں اور فائرنگ --- جوان شہید ہوگیا --- کسی نے کہا برا ہوا --- کسی نے کہا اچھا کام شہید ہونا --- جتنے منہ اتنی باتیں --- اندر کے یقین کو لوگوں کی باتوں سے بے نیاز کر اٹھ گیان کر

رمز عشق

بہت خوب دلنشین احساس!  
سرسراتے پتے جیسے ہوں شاد 
رونقِ گِل میں ہے چھپا سراب 
دل ہے آب میں مگر آنکھ آب آب 
کم مایہ کو ملے کچھ تو نایاب


سیکھایا گیا الف کو 
سیکھا ہے جب تلک میم تک نہ گئے 
درد سہہ ب پ ت ٹ  س ش کا 
ورنہ نَہیں درون میں باقی کچھ 
حرف حرف کی حکایت سن لے
راوی اک ہے اور روایت سن لے 
شاہی کے پاسدار نے راز فاش کیا 
سینہ دل سے راز نیم بسمل نکلا 
یہ سیکھ کہ جگر گداز یے ابھی
یہ کہہ یا وہ کہہ نالہ رسا ہو جائے
عشق چیخ نہیں! پکار نہیں!  قرار نہیں!  اشکبار نہیں کچھ 
طلب کے ہار نہیں 
بس سیکھ لے جو سوجھ لیا جائے 
یہ بدھ کی شام ہے مگر ہے رات ہے حنا کی
ہر رات وصلت کی ہر صبح ہجرت کا 
وہ مرا روز ازل -- یہ میرا امروز


قریب ہو یا دور ہو! اے دل، تو فقیر ہو!  ورنہ منتِ غیر رسوائی ہے اور سودائے عشق نری رسوائی ہے! یہ کمائی ہے بوند بوند قطرے میں وفا کی شہنائی ہے!  تو نے جدائی کی بات کی اور آنکھ مری بھر آئی ہے! عجب یہ تری مری لڑائی ہے!  وضو سے آنکھ بھی بھر آئی ہے! کمی ہے!  اس لیے کم مائیگی لوٹ آئ یے


آنکھ سے دل کا سفر کیجیے 
ظاہر سے ولا کی بات کیجیے
رنگ رنگ میں بوئے علی ہے 
یہی ہر جا ہے حرف جلی ہے 
جسے ملے عین!  وہ ولی ہے 
مسکرا تو کہ کھلی کلی ہے 
یہی تار اللہ والی بجی ہے 
راگ میں عشق کی وحی ہے


جذبات سے تیرفگن عیاں ہوا 
ورنہ کیا تھا جو نہاں نہ ہوا 
خبر مری ہے اور اخبار ہوگئ 
سازش دہر ہے آشکار ہو گئی 
وجہِ بشر تخلیق کا حرف میم 
وجہِ آدمیت میں یہی تکریم 
وجہ اثبات کی یہی ہے دلیل 
رنگ رنگ میں یہی ہے وکیل
میں کہوں کیا حرف ہیں قلیل 
میں تو خود میں ہوئی  تحلیل 
راج ہے اور راجدھانی میں شاہی 
یہ سلطنت عشق کی ہے کمائی


ملا ہے تحفہ ء نسیان عشق میں اور وضو نہاں میں ہوا ... صبا نے کہا کہ انتشار سے کہو رفع ہو جائے  حاجت روا سامنے ہے! کہوں کسے؟ طبیب سامنے ہے! طبیب نے دل پر ہاتھ رکھا ہے اور دل کو اسم جلال میں رکھا ہے مجھ میں شاہ نے کمال رکھا ہے اور حرف حرف میں شہِ مقال رکھا ہے. سنگ دل میں وجہ وبال کا ستم ہے کہ ریزہ ریزہ ہے وجود اور ستم کا دھواں الہیات کا جامہ لیے کہے جائے 

یا میم!  یا محمد!  
الف!  الف اول اور اول سے آخر تلک بات یے اور بات میں راز، راز میں کمال، کمال میں حال،  حال میں ساز،  ساز میں جواب،  جواب میں وصال،  وصال میں ہجرت،  درد میں لذت،  لذت میں آشنائ،  آشنائ سے رسوائ ...لو عشق ہوگیا


کاجل سے رنگ لاگے اور لاگی لگن سے دل جلے اور جلے دل میں کیا رکھا ہے؟  رکھا ہے اسم نڈھال جس میں یاد کا توشہ ہے اور ازل کا نوحہ جس میِ حال مرا رکھا ہے میں نہیں ہے اس نے مکان میں لامکان رکھا ہے. عجب تماشا لگا ہے الفت کا اور الفت کو سر بازار رکھا!  رکھنے کو دل میں مہتاب رکھا اور مہتاب کا چاند رکھا اور گردش میں دل کو رکھا یے اور طواف کو حرم دیا گیا ...اے پاکی والے دل!  اے وضو سے نہاں اشک سے تیرتی نہر کیا ہے جو نہیں. سب عیاں ہے نہاں ہے جو وہی عیاں ہے یہی ستم ہے کہ نوک سناں ملے یا جاناں کی جان سے ملے ہمیں تو ہر مکان سے ملے کچھ نہ کچھ


کاجل سے رنگ لاگے اور لاگی لگن سے دل جلے اور جلے دل میں کیا رکھا ہے؟  رکھا ہے اسم نڈھال جس میں یاد کا توشہ ہے اور ازل کا نوحہ جس میِ حال مرا رکھا ہے میں نہیں ہے اس نے مکان میں لامکان رکھا ہے. عجب تماشا لگا ہے الفت کا اور الفت کو سر بازار رکھا!  رکھنے کو دل میں مہتاب رکھا اور مہتاب کا چاند رکھا اور گردش میں دل کو رکھا یے اور طواف کو حرم دیا گیا ...اے پاکی والے دل!  اے وضو سے نہاں اشک سے تیرتی نہر کیا ہے جو نہیں. سب عیاں ہے نہاں ہے جو وہی عیاں ہے یہی ستم ہے کہ نوک سناں ملے یا جاناں کی جان سے ملے ہمیں تو ہر مکان سے ملے کچھ نہ کچھ


یا حق!  سلام!  یا حق سلام!  یا الولی سلام!  یا والی سلام!  یا حاشر سلام!  یا رب عالمین سلام!  یا واجد سلام!  یا رب محمد  صلی اللہ علیہ والہ سلام ..سلام یہ ہے کہ سلام نہ ہوا اور شوق یہ ہے کہ عشق نہ ہوا!  خیال یہ ہے کہ خیال نہ ہوا!  محو تو نہ ہوا تو کمال نہ ہوا!  کمال نہیں کہ تو ڈوب  مگر ڈوب ڈوب کے رہ لے زندہ! رگ زیست کے بہانے ہیں اور ہم طیبہ جانے والے ہیں یہ روح کے شادیانے ہیں اور ہم.لو لگانے والے ہیں رنگ رنگ میں بوئے علی ہے یہ صحن نجف یے اور دل کربل کی روشن زمین ہے اور ملو اس صبا سے ورنہ رہ جاؤ گے ادھورے

چھپ رہا ہے اور ڈھونڈ رہا ہے زمانہ اسے! وہ مجھ میں قید ہے اور لامکانی کا پردہ جاتا رہا!  دل میں تسبیح ہے اور ھو کا تار ہے!  وہ جو لگاتار ہے وہی الوہیت کا سزاوار ہے. کاش یہ سنگ طیبہ کو چلے اور نعت کہنے کو زبان حق ملے اور ملے کچھ نہ ملے!  واللہ ہم چلے کہ دل ہمارا جلے!  واللہ ہماری سزا ہے!  اور ہم سزا لینے چلے!  واللہ سزا کی بات کرو نا!  ہم تو سہہ رہے درد جدائ کا ..لگ گیا روگ!  دل کو لگ گیا جدائ والا دھکا!  وہ ملا نہیں پرندہ لامکانی میں یے پھڑپھڑاہٹ بھی عجب یے اور قید بھی عجب ہے میں بے بس بھی بیخود اور بیخودی کا جام پلایا گیا اور تڑپایا گیا. واللہ سلام ہے کہ سلام عشق کو ہوا!  سلام واللہ عاشقین کو ملا 
قبول کرو ورنہ رہ جائے گا منہ کالا ..ہونا ہے اسم حق کا بول.بالا اور دل میں دھواں سے دود ہستی کو ملا اجالا. مجھے سرمہ و وصال میم.سے ملا اور حرف کمال الف سے ملا. یہ تکمیل کے در ہے اور رگ میں در کھلے ہے اٹھو سلام کرلو ورنہ رہ جاؤ گے کھڑے


نہ ہوا نے پوچھا، نہ اسکی مجال تھی 
نہ ہم نے کچھ کہا، نہ ہماری بات میں بات تھی 
وہ ملتا ہے تو باتیں جاتی رہیں اور وہ نہ ہو سو باتیں بھی ہوئی اسکی اور نہ ہوئیں ...وہ بات سے نہیں ملتا کبھی. وہ دل میں اترتا ہے اور نشان ہو جاتا ہے آیت آیت جیسا اترتا ہے جیسا کہ قران پاک اترتا ہے اور نفس کا روزہ سلامت!  نفس صامت نہ ہو شجر ساکت نہ ہو ڈھے جائے جیسا جبل خشیت سے چادر بن جائے اور سرخ ہو جائے 

یہ سرخی ہماری ہے میان
یہ لعل یمن ہمارے میاں
یہ صحن ارم والے ہیں 
یہ رنگ میں رہن والے 
پڑھو درود!  پڑھ لو 
کہ سلام دیے جانے ہیں 
درود کا تحٍفہ ہے اور دل پہ اسم محمد صلی اللہ علیہ والہ وسکم 

کوئی حرف نہ کمال رکھا ہے

ہم کلامی 

وہ کہتا ہے کہ مجھ میں چھپ جا، وہ کہے اور دکھائی کچھ نہ دے تو بندہ کیسے چھپے اور کیسے وہ ظاہر ہو؟ ؟ ؟ 

وہ ظاہر میں  ہے ــــــ  تو اللہ ظاہر ہو تو دیکھے اپنے آئنے کو ـــــــ اسکا آئنہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں ..جب تک اپنی نفی نہیں  کی ہوتی ــــــــ خدا  ظاہر میں نہیں ملتاــــــــــ خدا نہ ملے تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کلمے میں پڑھنے سے کیا حاصل ہے؟؟؟  جب وارد نہ.ہوا تو.ماننے سے آگے کا.سفر چہ.معنی؟ ـــــــ  گویا یقین بھی کامل.نہ.ہوا.ــــــــ  پہلے خدا  کو  دیکھو جا بجا پھر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو جا بجا ... 

یہ روح پڑھتی نہیں کلمہ بلکہ یہ چادر بن کے تن جاتی کلمے کی جب کہ زبان کو سمجھ نہیں آتی" لا الہ الا اللہ" کا مطلب کیا ...اللہ کو ہم  نفس کی.حجابات کی.وجہ.سے دیکھ نہیں پاتے ـــــــ کجا وہ ہستی،  اسکا محبوب جن.پر.درود.بھیجا.جاتا ہے، ان  کو تو ہم کہتے اللہ تو نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا. 

اب بھلا بتاؤ اللہ اچھا کیوں نہ کرتا کیونکہ وہ بھی چاہتا اسکے محبوب کو دیکھیں جب اللہ محبوب کو دیکھتا ہے تو ہم بھی دیکھ لیتے ہیں .. یوں دید ہو جاتی ہے 

.یہ دیکھو محبوب کو دیکھو نظر کتنی پاک کرنی پڑتی ہے ... یہ نظر پاک اللہ کے نام سے ہوتی اللہ کہتا اللہ کا ذکر کر مگر میں اسکو کہتی ہوں کہ  درود پڑھوں گی پھر وہ مجھے دل کے کالے گند سیاہ غلاظت دکھا کے کہتا دل صاف نہ ہو درود کا فائدہ سو میں یہ سوچتے کہتی کہ اللہ کا ذکر سے  گھر صاف کر تاکہ وہ آئیں گھر تو دل مجلی ہو مگر کون جانے کون کس حد تک ہے، میں کہاں جاتی ہوں، میری حد کیا ہے، مجھے مری حد مل جائے تو کام بن جائے

مجھے اللہ سے لگاؤ ہے مگر اسکے محبوب سے لگاؤ  بیحد ہے ـــــصلی اللہ علیہ والہ وسلم ـــــــ  شاید اللہ سے لگاؤ کب کا یے مگر محبوب سے آشنائی کا احساس کلمے سے ہوا کہ پہلے لا --* الا اللہ --- پھر محبت پاک دل نہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہیں دکھتے کہنے کو کلمہ پڑھ لو مگر دکھیں گے تو گھر صاف ہوگا پھر چایے دل میںِ کتنا گند ہو وہ جلوے سے صاف ہوگا ان کے جلوے کا دیا اک دفعہ جل جائے تا عمر جل دل جاتا یے 

چراغ مصطفی بنا یے دل جلا ہے مثل طور جو 
ہوا بجھا نہ پائے گی یہ روشنی کمال یے

تب جذب ہوجاتے ہیں ہم بولتے نہیں ہم بولتے ہیں اور ہم بول بھی نہیں رہے ہوتے کوئی اور ہستی کلام کرتی ہےـــــ  ہم کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ کہتے جو کہا جاتاـــــ درحقیقت یہ وہ نظام چلا رہے مرے آقا نظام چلاتے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو جب وہ ہر جگہ ہیں تو میں اندھی ہوں مجھے آنکھ چاہیے ہر ہر جگہ ان کو دیکھنے کو

خود کلامی

ہم کلامی 

وہ کہتا ہے کہ مجھ میں چھپ جا، وہ کہے اور دکھائی کچھ نہ دے تو بندہ کیسے چھپے اور کیسے وہ ظاہر ہو؟ ؟ ؟ 

وہ ظاہر میں  ہے ــــــ  تو اللہ ظاہر ہو تو دیکھے اپنے آئنے کو ـــــــ اسکا آئنہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں ..جب تک اپنی نفی نہیں  کی ہوتی ــــــــ خدا  ظاہر میں نہیں ملتاــــــــــ خدا نہ ملے تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کلمے میں پڑھنے سے کیا حاصل ہے؟؟؟  جب وارد نہ.ہوا تو.ماننے سے آگے کا.سفر چہ.معنی؟ ـــــــ  گویا یقین بھی کامل.نہ.ہوا.ــــــــ  پہلے خدا  کو  دیکھو جا بجا پھر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو جا بجا ... 

یہ روح پڑھتی نہیں کلمہ بلکہ یہ چادر بن کے تن جاتی کلمے کی جب کہ زبان کو سمجھ نہیں آتی" لا الہ الا اللہ" کا مطلب کیا ...اللہ کو ہم  نفس کی.حجابات کی.وجہ.سے دیکھ نہیں پاتے ـــــــ کجا وہ ہستی،  اسکا محبوب جن.پر.درود.بھیجا.جاتا ہے، ان  کو تو ہم کہتے اللہ تو نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا. 

اب بھلا بتاؤ اللہ اچھا کیوں نہ کرتا کیونکہ وہ بھی چاہتا اسکے محبوب کو دیکھیں جب اللہ محبوب کو دیکھتا ہے تو ہم بھی دیکھ لیتے ہیں .. یوں دید ہو جاتی ہے 

.یہ دیکھو محبوب کو دیکھو نظر کتنی پاک کرنی پڑتی ہے ... یہ نظر پاک اللہ کے نام سے ہوتی اللہ کہتا اللہ کا ذکر کر مگر میں اسکو کہتی ہوں کہ  درود پڑھوں گی پھر وہ مجھے دل کے کالے گند سیاہ غلاظت دکھا کے کہتا دل صاف نہ ہو درود کا فائدہ سو میں یہ سوچتے کہتی کہ اللہ کا ذکر سے  گھر صاف کر تاکہ وہ آئیں گھر تو دل مجلی ہو مگر کون جانے کون کس حد تک ہے، میں کہاں جاتی ہوں، میری حد کیا ہے، مجھے مری حد مل جائے تو کام بن جائے

مجھے اللہ سے لگاؤ ہے مگر اسکے محبوب سے لگاؤ  بیحد ہے ـــــصلی اللہ علیہ والہ وسلم ـــــــ  شاید اللہ سے لگاؤ کب کا یے مگر محبوب سے آشنائی کا احساس کلمے سے ہوا کہ پہلے لا --* الا اللہ --- پھر محبت پاک دل نہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہیں دکھتے کہنے کو کلمہ پڑھ لو مگر دکھیں گے تو گھر صاف ہوگا پھر چایے دل میںِ کتنا گند ہو وہ جلوے سے صاف ہوگا ان کے جلوے کا دیا اک دفعہ جل جائے تا عمر جل دل جاتا یے 

چراغ مصطفی بنا یے دل جلا ہے مثل طور جو 
ہوا بجھا نہ پائے گی یہ روشنی کمال یے

تب جذب ہوجاتے ہیں ہم بولتے نہیں ہم بولتے ہیں اور ہم بول بھی نہیں رہے ہوتے کوئی اور ہستی کلام کرتی ہےـــــ  ہم کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ کہتے جو کہا جاتاـــــ درحقیقت یہ وہ نظام چلا رہے مرے آقا نظام چلاتے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو جب وہ ہر جگہ ہیں تو میں اندھی ہوں مجھے آنکھ چاہیے ہر ہر جگہ ان کو دیکھنے کو

ہتھیلی میں جگنو

میری ہتھیلی پر اک جگنو چمک رہا ہے ـ یہ جگنو تو بس عکس ہے، اُس اصل کا جو دل میں قرار پائی ہے ـ میں اس نگر سے اس نگر اک تلاش کے سفر میں اور میری من کی سوئی اس روشنی سے پاتی دیپ بناتی جاتی ہے ـ میں کس سمت جستجو کے چکر لگاؤں؟ کس سمت سے پکاروں؟  غرض لامکان سے صدا مکان میں آتی ہے تو زمان و مکان سے نکل جانے کی سبیل بھی موجود ہوگی ـ اب تو لگتا ہے دل پتھر کا ہوگیا اور کیسے اس سے چشمہ پھوٹے گا؟  جب چشمہ نہیں رہے گا تو زمین بنجر ریے گی ـ دل کی زمین بنجر ہو تو ذکر اک وسیلہ بن جاتا ہے مگر ذکر کیساتھ روشنی کا انعکاس ضروری اور دل شفاف ہو جائے تو انعطاف بھی ضروری ـ غرض یا نہ عکس ہے نا کوئی شاہد ہے ـ نہ کوئی قرارِ مشہود ہے. ـ دل ایسے خالی ہے جیسے سونی زمین کو کسی ریتلے تھل سے مناسبت ہو ــــ 

کبھی موسم ہو تو بہار بھلی لگتی ہے ـ بہار میں اشجار کے گیت اور ہوتے ہیں ـ جو پتے لہلہاتے ہیں کبھی ان کی خوشی محسوس کرو ـ جسطرح وہ سر جھکائے شاخچے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو اس ذکر خیر کو رائیگاں نہ سمجھو ـ تم بھی یہیں بہار کا نظارہ کرلو تاکہ دل وحدت کی جانب چلے ـ جب وحدت نہ ہو تو کثرت کی جامعیت سے کیا سروکار ہے ـ میں تو اپنے ہاتھ نہ دیکھ سکوں پاؤں نہ دیکھ سکوں،  تو کیسے اپنا سراپا مکمل دیکھو ـ مجھے اپنے ہاتھوں میں ہی تجلی نہیں ملی ـ

بلا عنوان

جس کو میسر تھا اسکا ساتھ اور جس کو نہیں تھا ساتھ ـ جس کا ہاتھ خالی اور جس کا دل بھرا ہوا تھا ـ جس کا من خالی اور ہاتھ بھرا ہوا تھا ـ دونوں میں فکری تفاوت کی خلیج نے فاصلے ایسے عطا کیے کہ من بھرے بھاگن سے تن پُھلے تن جاون کے مراحل تھے ـ یہ فکر جس نے پرواز کرنا ہے، یہ پرواز جس میں ماٹی کے قفس سے پرندے نے جگہ چھوڑ جانی ہے، اس کی بیقراری عجب ہے جیسا کہ سب بھول گیا ہو کہ وہ کن سے فیکون ہوا تھا ـ وہ تو نہ کن ہے اور نہ فیکون ہے ـ وہ نہ ازل ہے نہ ابد ہے ـ وہ تو لوح و کتاب کا خیال ہے اور وہ خیال بس آنکھ سے وارد ہوا اور سیدھا پیوست ہوگیا تو لا یدرکہ الابصار سے نظر والا ہوگیا ـ پھر جا بجا،  جگہ جگہ آیت اترتی دیکھی اور یاد آیا فثمہ وجہ اللہ اسی پر صادق اترا کہ خدا جابجا ہے اور کہیں نہیں ہے جس بے انکار کردیا ـ انکار کرنا کچھ بھی نہیں بس اثبات کی نفی ہے ـ اپنی نفی ہے اور تن کی چاشنی ہے،  روح کا سوگ یے ـ یہ ہجرت کے روگ ہیں اور جدائی کے سنجوگ ہیں ـ کتنی فطرت بیباک ہوئی ہے اور فطرت میں چھپا اک سیپ عیاں ہوا ہے ـ یہی نشان دل یے ـ یہی آیت دل ہے ـ پتوں کو ہلنے میں،  بوٹوں کے کھلنے میں، گلاب کی خوشبو میں،  پہاڑ کی سنگت میں،  وادی میں گونجتی آواز میں،  پنچھیوں کی اڑانوں میں ـــ اللہ وحدہ لاشریک یے اور جب یہ آیات دل میں اتریں تو منظر مشہد ہو جاتے اور بندہ شاہد پھر انسان اس آیت کی تفسیر ہو جاتا 
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم 
وہ زمانہ لوٹے اور پھر ہم نہ لوٹیں کبھی ـ اس زمانے میں رہیں سدا ـ یہی حقایت ہے ـ

بیقراری کا پرندہ

بیقراری اک پرندہ ہے جس کے پر پھڑپھڑاتے رہتے ہیں اور سنگ در جاناں جب تک بن نہ جائے،  یہ اپنی اڑان سے زخمی ہوجاتا ہے ـ ہوا تکیہ بن جائے، تخییل اندھا ہو کے بھی محو ہو جائے اور گائے پریم کی نَیا میں الوہی گیت اور راگ سُر ماتا ـ یہ راگ ایسا جس سے پہاڑ جیسے دل ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہو جائیں اور آنکھ سے نہر بہہ جائے ـ مثل یعقوب دیدہ ء دل کن کے بعد سے نابینا رہا اور بینائی کے لیے محبوب کی خوشبو چاہیے تھی. جا بجا اس اک پوشاکِ یوسف کی مثل ڈھونڈا ہے ہم نے اس ملاحت آمیز خوشبو کو ـ جس کی مہک سے کھلے غنچہ ء دل اور نیم واہی میں جلوہ دیکھیں گے اور کھل کے دیکھنے کے لیے سر نہ ہم کبھی اٹھائیں گے ـ ان کے ملنے سے پہلے کبھی دہلیز سے نہ اٹھیں گے ـ اے موت!  ٹھہر جا!  ابھی رک جا!  ابھی ان سے ملنا ہے اور ملنے کے بعد لے جا خاکِ دل کو محبوب کے در پر کہ نہ رہے نشان اور ہونشان دل پر محبت کےنقش ـ یہ غزل ہے اور غزل صدا ہے

وحی

غارِ حِِرا، جبل النور میں واقع ہے. کہساروں سے بھرپور وادی میں وحدت کا نظّارہ کرنا مشکل نہ تھا! اللہ کی دید کی ابتدا سے پہلے علم یعنی نور کی جانب رجوع ضروری ہے. آنکھ متصور اس وقت کے گھڑیال پر ہے، جب چودہ صدیاں قبل اک نفس سجدہ ریز رہا اکثر، یہ قیام حرا کے غار میں اور سجدے آیت دل منور کیے دیتے، لڑیاں آبشار کی مانند آنسوؤں کی بہتی ..وہ پاک صفت نفس، لاجواب تڑپ لیے ..خدا کو دیکھنا کمال دیکھنا  مگر اسکو دیکھنے کی کمال تَڑپ نَہیں ہے    .... وہ الوہی صفات کا جامے پہنے  نفس سفید لباس میں موجود خُدا کی دید کی خاطر سب سے الگ تھلگ ہوگیا ..... 

غار میں مقیّد، سپیدی نے رات کا پردہ چاک نَہیں کیا تھا مگر غار بقعہ نور بنا ہُوا تھا ، نور محل بننے جارہا تھا... فلک پر نوریوں نے یک سکت دیکھا تھا  پھر خالق کو سجدے میں واپس پلٹ گئے، اسی اثناء میں جبرئیل امین غار حرا میں وحی لے کے آئے!  نور سے دل بھرنے جارہا تھا ....

اقراء کا جب آیا تھا  فرماں 
بولے امّی پہ ہوتا نہیں عیاں

جبرئیل امین آگے کو لپکے، سفید روشنیوں نے غار کو ایمن بنا رکھا تھا .... آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اک حال میں فرماتے "امی پر ہوتا نَہیں عیاں " جبرئیل امین آگے بڑھے،  سینے کو سینے، قلب کو قلب سے، روح کو روح سے معطر کردیا .... اب جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اقراء پڑھا

اس کی گونج پتھر پتھر کو پہنچی .... بس پورا غارا جھک کے مسجود ہوگی. ...آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر لوٹے تو گھبرائے ہوئے تھے، خشیت سے آنکھ وضو میں ..... زملونی زملونی .... آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا....

میرے نفس کی ریا کاری دیکھیے، قران کا لفظ لفظ پڑھا مگر لفظ اقراء کے مکارم نہ کھلے .... پڑھتی کیسی؟ قران پاک کے لفظ عام تو نہیں ...دل کو پاک کرنا، نفس سے جان چھڑانا آسان تو نَہیں .... منافقت اس طرّہ پر کہ دل خیال کیے بیٹھا ہے اس کو قران پاک پڑھنا آتا ہے!  دل کی ریاکاری پر تف!  دل کو ملامت صد ہزار!  اس ملامت کے پیچھے ریاکاری چھپی ہے جسکو سمجھنے کے لیے دل میں جھانکنا چاہیے .... یہ اک کیفیت مکمل مل جائے تو دل تقدس میں ڈھل جائے!  وضو ہو جائے دل کا ...نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مکمل زمانہ متصور ہو جائے      ......  کیا چاہیے ...کبھی کبھی جب دل بہت بے چین ہوجاتا ہے تو اک منظر سامنے آجاتا ہے ....طائف کی سرزمین ....پتھر برسنا ...خون کا گرنا ...زمین کا لہو لہو ہونا ..وہ رویت بے مضطرب کن جب دعا کو ہاتھ اٹھنے ..شرم سے دل کا جھک جانا ..پتھر کھا کے دعا دینے والے، میں نفسی نفسی میں ڈھلی مورت.. ڈھل جائے گی میری  سیرت مکمل اشکوِ سے  نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مناظر دیکھتے دیکھتے

لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے قران کا نزول،  وحی وحی کا علم صدر و صدور سے کیسے پھیلتا ہے ....لازم ہے ہم کو ملے گا اشکوں کا تحفہ ...لازم ہے ہم حال سے مغلوب ہوتے سہیں  گے سب ستم، مسکرا کے کہیں گے مرحبا یا سنت!  مرحبا یا سنت!  مرحبا یا سنت!  

تلاوت ہم بھی کرین گے واتبتل ہوکے، تبتیل والی کیفیت پر ہم بھی رہیں گے ...اللہ پاک کا نور غائب کردے گا ہماری ذات اور وہ وہے گا ہر جگہ موجود ...حق موجود!  وہ موجود!

سوچ

دل کی خاموشی پر مستغرق سوچ کے پہرے ہیں. قلعہ بند اس سپاہی کی قید میں ہے. سیاہ تھی سوچ اندر، باہر نور کے پہرے تھے. نور کے اندر سیاہی کیسی؟  سیاہی کیا تھا، یہ حجاب تھا ... 
کچھ الٹا دکھنے لگا ہے سیاہی کے گرد نور ہے.  دل اس وقت جانب حضور ہے.

میں جو صحن کعبہ سوچ کو نور کی صورت طواف کرتا دیکھ رہی تھی، مجھے منظر سب الٹے دکھنے لگے تھے. جیسے حجاب سب ہٹ کے سمٹ گئے ہیں باقی سوچ میں نور باقی رہ گئی ہو ... 


مجھے لگا کہ مجھ سے ایک وجود نکلا اور کعبے کے گرد طواف کرنے لگا. مطاف میں سوچ بیٹھی تھی گویا میرا حصہ نور کے پاس بیٹھ گیا ہو     

کیا لائی ہو؟
کہا میں نے "دل " 
کہا دل سیاہ ہے 
کہا میرا رنگ کالا ہے 
کہا حجاب کے دائرے سے نکلو 
کہا کہ حجاب کے ساتھ نور یے 
کہا دل میں فکر رکھو 
کہا کہ دل دھیان میں ہے 
کہا عشق کے رقص دیکھے 
کہا کہ بہت دیکھے مگر کم ہی دیکھے 
کہا عشق نور کی معراج سے ملتا ہے 
کہا کہ دل میں اچھی سوچ کا گزر نہیں 
کہا کہ سوچ میں نور بھرپور ہے 
کہا کہ وہ تو طواف میں ہے،  باقی سوچوں کا کیا کروں؟
کہا شعور دو سب عقلی دھاروں کو
کہا سب دھاگے حضور میں یے. مطاف سے نیلی شعاع فضا میں شرارے جیسے ابھری، میرے سینے میں پیوست ہوگئی. ...

مبارک ہو، تو حبیب ہے

خُدا میرا ہے ا، اُس نے سرگوشی میں کَہا، اس نے کَہا کسی کی فکر مت کرنا، مرے ہوتے تجھے کسی کی ضَرورت نَہیں، اُس نے کَہا دنیا کا دھوکا اچّھے اچّھوں کو لے ڈوبتا ہے،  وہ کہتا رَہا کہ محبوب کبھی بھی محبت کا سودا نَہیں کرتا ہے .. 
میں نے کَہا،  میرے عشق کا سودا کیا.ہے 

وہ قریب ہُوا،  اُس نے کَہا،  عشق تو رقصِ سودا ہے، اصل چہرہ تو منظر منظر تلاشنا ہے اور جب مکمل کچھ نَہ پاؤ، تو مری جانب لوٹ آنا 

میں نے کہا،  صدائے دما دم میں ناتمامی کی سوزش ہے 

وہ اور قریب ہُوا اور کَہا مبارک ہو تو حبیب ہے!

وہ کہاں کہاں ہے؟

بنانا مٹانا مٹا کر بنانا اس کی حکمت کے رخ ہیں ۔ وہ مٹی کے گارے سے انسان کا جسم بناتا ہے اور پھر انسان کے جسم کو مٹی گارا بنا کر فنا کر دیتا ہے ۔ گارے مٹی کایہ کھیل زندگی اور موت کے عمل کو رواں رکھتا ہے ۔ مٹی سے جسموں کا بننا ، ان جسموں میں روح کا سمانا زندگی کو جنم دیتا ہے ، روح نکلنے کے بعد جسموں کا فنا ہونا ، اسی سمانے نکلنے فنا ہونے کے سلسلے میں مالکِ کائنات کی حکمت چھپی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ تعمیرِ حیات کے ابتدا میں گارہ کھنکھناتی مٹی سے لیس دار لج لجا کی صورت بدلا گیا پھر اسمیں جان ڈال دی گئی ۔ کن فیکون میں بدل گیا ۔ روح کو جسم میں دخول کا امر ہوگیا ، گویا لا مکاں کو مکان مل گیا ۔حلقہِ لا مکاں نے جسم خاکی میں قدم رکھا اور نفس سے اس کو قرارکی استقامت ملی ۔

حلقہِ لا مکاں نے مکاں میں داخل ہونے کے بعد بے جان جسم خاک کو بے پناہ قوتیں وسعتیں عطا کردیں ، وہ جو مٹی تعمیر سے پہلے تخریب کی حالت میں گیلی لج لجی تھی ۔ وہ جس کو نظر بھر دیکھنے کے بعد دل برا پڑتا تھا ، حلقہِ لا مکاں کے دخول کے بعد وہی اب بہت اعلی ، جمیل ہے .... بہت خوبصورت ہے بہت پر نور ہے کہ اسکا نور چارسو بکھرتا ہے ،

نور کی جانب ، نور کی سرحدوں میں داخلے
، کیسے داخلے ؟ کیسے رابطے ؟ کیسے ضابطے ؟
مر مٹنے کے ضابطے ؟ کیسے سابقے َ؟
شاید کوئی ماضی میں کھوگیا ہے ،
کوئی تو گمشدہ ہے ؟ کوئی گمشدہ ہے
اور ستم زدہ ہے ..

ابھی سرحدِ نور میں چار سو نور کو دیکھ رہا ہے ، حجاب ازل کی جانب خیال پروازمیں ہے اچانک ، گمان نے راستے روک دیے ؟
مصطفوی ﷺ نور کہاں ہے ؟ ارے ! وہ کہاں نہیں ہے ؟

اندر ہے ! باہر ہے !
اوپر بھی ، زمین میں بھی ،
عیاں بھی ، نہاں بھی ! تو کیا وہ خدا ہے ؟
نہیں ! وہ خدا کے بعد ہے
تو وہ ہر جگہ کیوں ہے ؟
وہ تو ایک کی جگہ ہے !

ایک نے ایک جگہ ، ایک کو دے دی ۔ محبوب نے محبوب کو اپنی محبوبیت کی سند دے دی ، جا ! جس دل میں دیکھ ! مندر میں جا ، مسجد میں بیٹھ ، کسی باغ میں بیٹھ ، گلوں کی خوشبو سے مہک ، جگنو کی روشنی سے نکلتا نور دیکھ .......

''تو وہ جو ہر جگہ ہے ،جس کا جلوہ ہر جگہ دکھ رہا ہے، وہ خدا ہے''
اللہ نور السماوات و الارض ۔۔۔۔۔

''ا جو ہر جگہ ہے ، جو دکھ رہا ہے ، وہ محمد ﷺ ہے''

و ما ارسلنک الا رحمتہ للعالمین

موسیؑ کو جلوہ ِ جاناں نہ دکھا مگر طور جلا دیا گیا ...ؑ محمدﷺ وہ کہ جنہیں خود دیدارکے لیئے خود فلک پر بُلا لیا گیا ، موسی ؑ کو چالیس رات اس تپش میں جلنا پڑا جبکہ محمد ﷺ کو چالیس سال سرور کی منازل میں محو رکھا ......

اللہ الصمد

میں تجھے چاہوں مگر تو کہاں ہے ؟ کس در دکھے گا تیرا جلوہ ۔۔؟ آئی صدا جہاں محمد ﷺ کا ذکر ہے ، وہاں ہی میں رہتا ہوں ۔۔۔۔ ۔۔لامکاں کی بلندیوں پر رفعت محمد ﷺ کے نور کو ملی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کی حد بندیوں سے اوجِ ثریا کے رفعتوں میں نورِ علیِ نور کے سلاسل میں محمد ، احمد ، طہ ، یسین ، مزمل ، مدثر کے نوری اسما گردش میں ، ۔۔۔۔ افلاک بھی اس گردش کا حصہ ہے ،

اللہ ھو

دل والے حاضرین!  سُنو!  اللہ کی ضرب سے ھو دکھتی ہے! جسکو ھو کا یقین مل جائے تو وہ ریت کے ذرے کی حرکت میں اللہ اللہ کا ورد پا لے گا، وہ پھوٹتی کونپل میں الا اللہ کا ورد پائے گا، جب کونپل نے کہا "میں نہیں تو ہے، تو کونپل پھول بن گئی،  تو دیکھے تناور درخت، کہتا ہے "میں نہیں، تو ہے " ..... سمندر کا فشار دیکھا ہے؟  دیکھو تو!  بولو تو!  کس سے؟  سمندر سے!  سمندر کے شور میں اللہ اللہ کی صدا ہے اور جب اس کی لہریں خاموش ہوتی ہیں تو "ھو ھو "ہوتی ہے


شور اور خاموشی کا فرق ہے، اللہ اللہ کرنے والا ہمیشہ خاموش ہوجاتا ہے، پھر ہر جانب ھو ہے!

دل کہتا ہے لکھ، پر سوچ رہی ہوں محورِ عشق میں نقطہ کیا ہے؟ نقطہ الف کے گرد گھوم رہا ہے اور میم کا سرمہ وجدانی ہے!  عشق سے پوچھا میں نے "تیغ دل میں اتری؟ " جوابا خامشی کے لمحات نے صدیوں کا ناطہ توڑ دیا .....بولا  اللہ کی صدا کا ھو سے کیا رشتہ ہے؟  کیا فرق ہے جب الف نکال دی جائے، للہ .... اللہ کے لیے، اللہ باقی رہ جاتا ہے ..... لام نکال دو .... لہ ... لا نہیں مگر ھو .... تو الف سے چل اور ھو تک آ ... فرق میں نے کہا وہ موجود ہے ... روح بولے .... اللہ ....دل بولے ...ھو!  روح نے اقرار کیا، دل نے اسکو دیکھا، ثابت کیا اور یقین کیا ....

 اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 

اللہ ہمارے خیال میں بستا ہے!  خیال تو قلب کی تہہ فواد میں چھپا ہے!  جب تک قلب میں ھو کا ساز نہ بجے!  وہ ملتا نَہیں!  دل کی تہہ میں بس ھو ہے!  قلب میں بس "لہ " ہے سینے میں للہ ہے اور سانس آنے میں اللہ ..... اللہ ہمارے مقامات سر سے سینے میں حرف راز چھوڑے جارہا ہے!  جب فواد میں یہ ذکر جاتا ہے تو، فواد چار سو دیکھتا ہے اسکو فلک میں وہ دکھتا ہے، فواد کہتا ہے "ھو " ...... جب زمین کی ہستی میں جھانکتا اپنا نشان ڈھونڈتا ہے، تو جانتا بس "وہی ہے " 

میں اپنے نشان ڈھونڈنے نکلا 
اپنے پردے میں تو عیاں نکلا 
زمین و فلک گورکھ دھندہ ہے 
خاک بس جھوٹ کا پلندہ ہے 
سچ سُچّا تری، مری صورت ہے
مری صورت؟ نہیں تری صورت
مصور  شاہکار بناتا رہتا ہے!!! 
تصویر کمال میں کرسی ءحال ہے
الحی القیوم کی پہچان کر لے
وجود سے لا،  وجود سے وہ ثابت
تو ہو جا صامت، وہ ہے قائم 
اس کے قیام میں نور النور ہے 
اس کی بات ہے، یہ مری بات ہے؟
رات ہے؟  نہیں رات ماہتاب ہے

کعبے کو چلیں؟  دل میں اک کعبہ ہے جس سے نور کی شعاعیں فلک تک جا رہیں!  قندیل روشن ہے!  قندیل میں طاہر،  مطہر، منور، مجلی نور ہے! عشق مخمور ہے!  عشق میں ھو کا ظہور ہے!  اے کعبہ ء عشق! چل نماز عشق ادا کریں!  طوف حرم میں محجوب ہے وہ، چل کالا کپڑا ہٹا دیں!  ....کالا کپڑا ھو ہے! باقی عالم رنگ و بو ہے۔

اک الٰہ تھا، لا تھا سب

اک اِلٰہ (معبود)  تھا!  لا تھا سب!
مملکت تھی، مگر کوئی شریک نَہ تھا
خُدائی فوجدار نَہ تھے
دعویدار نہ تھا کوئی معبودیت کا
کسی نے موسی(ع)  بن کے نَہ دکھایا تھا
کوئ مثلِ مثال یوسف (ع)  نَہ تھا
کسی کا اوجِ کمال با جَمال خُدا نہ تھا،معراج بشریت نَہ ہُوئی تھی
یعنی  محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی نہ تھے
کوئ نوری خلق نہ تھا
نار بھی کوئی نہ تھی، گُلنار ہوتی
مگر اک اِلٰہ تھا ...

پھر یُوں ہوا،  اس نے خود سے خود کو نکال کے دیکھا
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وجود آیا
اس کی ذات کی روشنی پھیلنے لگی،  کائنات نور پانے لگی
ادھر ناری بھی پائے جانے لگے
نوریوں نے سکتہ ء حیرت،  سکتہ  میں سجدے، رکوع، قیام کی حالتیں پائیں
مگر اب بھی اطمینان نہ تھا اس کو ...
اس نے روح الامین سے روحی روحی ذاتیں بنائیں ..
الوہی صفاتیں بنائیں،  الہیات کے جامے میں ذاتوں نے پایا اک وُجود.....
نمود ہست کے دیے جلنے لگے
قلندری کا  وجود ظہور ہوا...
آدم (ع)  اسم ذات کا کلمہ ہوئے
ساجد تھے، مگر مسجود ہوئے....
ابلیس کا وجود بھی مُشّکل ہوا....
کچھ اسکو اطمینان ہوا....!!

اب شُروع ہوا اسکے خیالات کا تسلسل
اب دیکھنا تھا کون کس کا ہے؟
کس نے اس کو پہچانا ہے،
کس نے اسکو دور جانا ہے،
آدم سے ہوگئی خطا،
جرم میں شامل تھی مگر حوّا
وساوس میں، گماں میں تھا شیطان
کھیل ہوا شُروع الہ کی ضرب الا اللہ کا ...
آدم معصوم، نہ جان پائے اس وساوس کے کھیل کو
ان شیطن  لکم عدو مبین
قل اعوذ برب الناس سے الذی یوسوس فی صدور الناس کا کھیل سمجھ آیا آدم کو مگر، خطا نے فلک سے فرش پہ لاٹپکا
آدم کو حوّا سے جدا کیا گیا ...
لا ... لا ... لا... لا...
خَطا کی لا  ....
جَفا کی لا ....
من کی میں کہ لا ....
آدم کو لا کا لباس پہنایا گیا،
حّوا نے اس لباس کو دیکھا اور پہچانا،
ارواح نے لباس لا،  لباس مجاز جنت کے پتوں میں...

عشق نے دو قبائیں پہنیں، لا اور الہ کی قُبائیں ...  حجاب تھیں اک دوسرے کا...پردے گرنے، جلوے کی بات تھی ...
آدم کو دوری نہ محسوس ہوئی اب
کس سے؟
اللہ سے...!
دل کے آئنے میں منقش اللہ تھا...
نبوت کا فرض سونپا گیا
قسم کھائی گئی
والتین،  والزیتون ...
اور جب ذمہ داری سونپی گئی، کہا.
لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم
نظام قدرت نے بتایا...

لا اور الا اللہ کا فرق
دو قبائیں اک دوجے سے پیوست
دونوں اک دوجے کا لباس
آدم  علیہ سلام سے نوح  علیہ سلام تلک کا سفر آسمان نے لکھا
ہابیل سے قابیل کی نذر میں اک نشانی تھی
ابراہیم  علیہ سلام آئے، فرمایا گیا دین حنیف لائے ہیں ...
فرق نہ رکھا گیا تھا پیمانوں میں ...
دیکھے تو یاد کرے صورت خُدا
ہابیل سے سفر اسماعیل علیہ سلام تک پُہنچا تھا
قربانی کیا تھی؟
لا تلک کا سفر،
جدائی ہی جدائی تھی
ہجرت کا سوگ تھا ...
روگ کی یاد تھی، جو بوقت نفخ سے دم ہجرت تک روح کا نالہ تھا
کیوں جدا کیا گیا ؟ کیوں جدا کیا گیا؟ کیوں جدا کیا گیا؟
بتایا گیا تھا کہ لا الہ الا اللہ کی مضمر کہانی ہے
کائنات کی داستان سننے کو کٹھ پتلیاں ہیں ..
آزاد تھیں کچھ روحیں، کچھ قید ِ قفس میں آہنی سلاخوں میں ...
ان روحوں نے لا اور  اور اللہ کا فرق بتلا دیا
من و تو وجود یہی تھا! 
لا الہ، الا اللہ کا میں مضمر کہانی ...
آزاد ہے  روح!

جھک گئے، سجدے کیے،  نہ اٹھائے سر
اللہ کے رنگ میں ڈھال دیے گئے تھے
رنگ  پھر جدا  نہ رہا
صبغتہ اللہ کی مورت بننی لگے...

موجود تھے ہم تب بھی جب داؤد  (ع) کو خلیفہ بنایا گیا ..لحن داؤدی تھا دیکھا میں نے، اور  صورت با جمال میں حال کو غائب پایا    ...

تصویرِ خدا تھے، مصور نے اپنے الوہیت کے باجمال جامے سے ان کو تخلیق کیا تھا، گویا وہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خاص نور .....
جب سلیمان علیہ سلام کا وجود میں پایا گیا نشان.   جلال تھا! جمال تھا.   خطا کا وجود نہ تھا ...خدا تھا خدا تھا خدا تھا... خدا ہے!  خدا ہے!  خدا ہے!
خدا جس نے جان دی تھی وجود میں ...
سلیمان علیہ سلام نے پائی زمین میں خلقت سے کلامی
زبانی، زبانی روحی ،روحی ...
اللہ ... اللہ اللہ ...
یہی سب خود اس نے خود سے بات کی ...
راز نہ جان پایا تھا کوئی ...
سلیمان  علیہ سلام کے سامنے سب چرند پرند اشجار کی غیبت ہوگئی تھا
لا الا اللہ کا رقص تھا کل کائنات میں
سماوات نے دیکھا تھا یہ نظام رشک سے
وقت ڈھلتا رہا تھا!

سسکیاں سنیں گئی تھیں
آہوں سے وجود کو ڈبویا گیا تھا
یعقوب  علیہ سلام کا گریہ وجود میں آیا
اس نے جدائی ڈال دی دو اک جیسی ذاتوں میں ...
یوسف علیہ سلام کی محبت میں یعقوب(ع)  نے کلمہ پڑھا تھا. ...
لا ... حق
لا ...حق
لا.... حق
گریہ یعقوب  میں خُدا موجود ہوا ...
الا اللہ الا اللہ الا اللہ
بازار حُسن میں یوسف کو بیچا گیا
مصر کے شاہ نے قصر شاہی میں رکھا تھا
زُلیخا نے حسن یوسف دیکھا
غیبت ہوگئی زلیخا کی، کہا حاش للہ
لا الہ الا اللہ مکمل ہوگیا تھا زلیخا کی غیبت میں     .....،
یوسف علیہ سلام نے نفی کردی تھی خود کی
رسوائی تھی، غم تھا،  جدائی تھی ...
نفی نفی کرتے ترس آیا خدا کو بہت
دے دیا یوسف  علیہ سلام کو سارا جہاں....!
حق ہوگیا تھا عیاں
لا الہ الا اللہ ...

کھیل چلتا رہا تھا سارا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم عرش سے فرش کو آئے .
ہم امتی ان کے،  ساتھ ساتھ سفر کرتے رہے تھے
ہم نے دیکھتے ہی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کہا تھا....
آمنا باللہ والرسول ...
ہم مومنین میں تھے ...
یقین کامل پایا ...

فنا میں خدا کو دیکھا
فنا میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جلوہ ....
عشق میں فنائیت تھی مقدر
عشق میں لذات ہست میں روحی روحی آزادی تھی ... غیبت میں نور محمد  کا جلوہ تھا ..  صلی اللہ علیہ والہ وسلم.....
پیش صحابہ وجود لم یزل سے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم  تلک صفات ارض میں موجود ذیشان نے دیکھا کہ سو صفات ہیں قلندر میں.....!   سو ذاتیں ہیں قلندر کی ... سو ٹکرے وجودیت کے مظہر سے ڈھلنے تھے ..اڑان بھری گئی تھی، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دم بہ اجازت سے  فلک تک رسائی پائی تھی ..گویا شہید ہوئے تھے شاہد کے ...
بیعت رضوان سے مٹی پھینکنے کا سفر
ولکن اللہ رمی....
یہ جانا تھا پہچانا تھا ...
معراج تھی ، قبلے مقرر ہوئے تھے، ملاقاتیں تھیں ...دیکھیں ...سب نے جانا تھا ان کو...
قرار نہ تھا کسی روح کو ..
کسی کے پاس لوح مبین کی کنجی نہ تھا ..
محمد تھے اور خدا تھا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
محمد ہیں اور خدا ہے .
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
آمنہ کے لعل باجمال نے زمانے کو لوح مبین سے روشن کردیا
ان کے دو نورِ خاص:  حسنین (رضی تعالی عنہ) 
حسن رضی تعالیٰ عنہ گویا جمال  محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ...
علم و عمل میں کامل ...حلم میں مکمل شامل ... آہ! مشہد میں شہید کیے گئے تھے ...آہ!  جمال کو نہ چھوڑا گیا تھا!  خدا نے دیکھا تھا زمین کو سرخ تھی ...جمال کی نفی ہوئی ..جمال اٹھ گیا ...دنیا بے رونق ہوگئی تھی ...

احمریں احمریں وجود آیا دنیا میں
یاقوتی یا قوتی لب تھے جس کے
لعل جڑے  تھے سینے میِں...
حسین (رض)  تھے، خدا اور جلال ... 
حسین (رض)  ہیں، خدا اور جلال ...
خوشی بھی، آہ، غم بھی
جلال کی نمود ہونے جا رہی تھی ...
قربانی حسنین کی تھی،  آسمان کی لالی دیکھی نہ تھی کسی نے
مگر علی اکبر  (رض) کا خون سے لت پت لاشہ نہ دیکھا گیا کسی سے
اللہ کی مشیت کا اثبات ہوگیا اک بار پھر سے...
شہید ہوئے ...
اللہ ھو الشہید ...
نفی ..قربانی ..تسلسل قربانی چلتا.گیا تھا ...
کربل کا مقتل پھر سینوں میں سجایا گیا
حسینی و یزیدی لشکر کو لڑایا گیا ...
سر کٹ گیا گھا ... سر نہ جھکا تھا
غیبت ہوگئی تھی  خاک کی ..حق اثبات!  حق  اثبات!  الا اللہ ...
یہی کہانی ہے لا الہ الا اللہ کی
قربانی ہی قربانی یے.
یہ اسکی راجدھانی ہے.
ہم اس کے نوکر شاہی ہیں ..
یہی  مری کہانی ہے

رادھا

رادھا بے چین رہتی ہے، اسکو بہت سے گیت سینے پر تحریر ملے تھے!  ان گیتوں کو گانے کے لیے اس کو پڑھنا تھا ان گیتوں کو! رادھا کا غم جگنو جان سکتا تھا! کیوں؟ رادھا اندھی تھی ...اس کے اندر دیپ کے تیل کو جلنا تھا!  اک دن جنگل میں جاتے ہوئے رادھا نے جگنو کو دیکھا 

جگنو کہاں سے آرہے ہو؟
"رادھا، گُلاب کے پاس رہتا ہوں " 

رادھا جھوم جھوم جائے، گلاب کا بَہار سے گہرا تعلق تھا!  شام سلونی میں رات کا پہرا تھا ...  رادھا کا رقص سرر سے شروع ہوتے بیقراری میں ڈھلنے لگا .....!  بیقراری دھیرے دھیرے تپش بڑھانے لگی!  رادھا کے پاؤں سے چنگاریاں نکل رہیں تھیں اور جگنو کھڑے تماشا دیکھتا رہا!  

بے چین مضطرب حیات لاتی ہے حساس روح! لافانیت کا خمیر ہے!  جدھر سے آئی ہے، ادھر جانا چاہتی ہے!  جب تک اللہ نہ دیکھے گی چین نہ آئے گا .... رادھا نے کہا 

دید تو سر طور ممکن ہوئی تھی؟ دید معراج میں معین تھی .... کلیمی سے محبوبیت کے راستے میں ہو .... اوج بشریت کے تقاضے پورے ہونے باقی ہیں ....

کفا بربنا .... رب کافی میرا اور یہی کہنا تھا رادھا کے گول چکر نے دائرے آگ کے بنا دیے!

تمھارے شرار میں سب کچھ ہے،  اسم ذات نہیں ہے!  

جگنو نے روشنی کردی!  آگ کے دائرے میں اللہ لکھا تھا

شہادت بہ حسن روایت

دل کے ٹکرے شُروع ہوگئے اور ہاشمی چراغوں سے اُجالا کرنے لگا یہ قَلم ... حَلم سے رکھ لفظ اے قلم!  ہاشمی چراغوں سے دل روشن ہونے جارَہا ہے!  استاد کہتے ہیں اسے جو ہدایت کا چراغ پہلے روشن کردے! دل میں اسم الہی کی تکرار ہے اور دفینے کی تہہ میں ھو لکھا ہے ...... 

سینے میں اَحد کا میدان ہے اور حمزہ پِیا کی قبر ہے!  بوطالبی چراغ، ہاشمی روشنی .... رضاعی بھائی، حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ... غنیم کی سرحدوں میں گھرے، دلیری سے لڑتے رہنے والے میرے محبوب صحابی نے جان کی قربانی سے دریغ نَہ کیا .... ناک، کان، ہاتھ، ہاتھ، غرض عضو عضو قربان ہُوا!  دل والے حاضرین ...یہ وہ قربانی ہے جو اک ہاشمی چراغ کا خاصہ ہے!   

دل کی سرزمین پر جبل احد پر حمزہ پیا شَہید ہوئے ... دل کو دُکھ ہے؟ دل کو غم ہے؟ دل نازاں ہے ایسی قربانی پر ... سرخ تیروں سے زخم کھانے والے، دل میں احد احد کہنے والے اللہ کے وجود کا اثبات ہیں ... اللہ قران پاک میں فرماتا ہے...

ولا تقولو لمن یقتل  فی سبیل اللہ اموات  بل احیاء ولکن تشعرون 

وجود اثبات حق کا دلیل ہے،  
حمزہ شہید ہو کے بھی شاہد ہے 
دل نَذر کیا گیا تھا راہ خدا میں
بعد میں جان کا نذرانہ دیا گیا 
نعرہ تکبیر اللہ اکبر کہا گیا تھا 
اکبریت کو شَہادت سے بتایا گیا 
چشم نم عالیجناب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہوئی تھی 
ہاشمی چراغ فنا بعد بقا ہوا ہے

بوطالبی دہن، داؤدی لحن لیے شاہِ نجاش کے سامنے کون تھے؟  جعفر طیار بن ابوطالب برادر علی شبیہِ صاحب جمال سید البشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم ...ہاشمی چراغ روشنی کرے، دل میں خشیت نہ اترے؟  ورتل القران سے وجلت قلوبھم کا سفر نَہ ہو؟ کیا ممکن ہے! شاہ نجاش نے عیسوی قندیل کا قصہ سُنا اور دل تیقین  سے اسکا حق حق کرنے لگا! دربار میں ھو کی خاموشی چھا  گئی .... 
حق ھو!  حق ھو!  حق ھو!  حق ھو!  

گفتار میں اللہ کی شان جعفر 
کردار میں اللہ کا ایقان جعفر 
زیست کا قصہ ء صداقت ہے 
شہادتِ جعفر حق کی امامت ہے

موتہ کا میدان اور عَلم جعفر رضی تعالی عنہ کے ہاتھ میں ...  تیر سے تیغ سے لہو لہو بدن ...سرخی دیکھ گگن کی! ارض پر گرتا رہا لہو اور نازاں ہوئی زمین!  شاہِ ہاشم ہیں جعفر طیار! پرواز میں شہباز ہیں جعفر طیار!  آنکھ سے نہ پائیے لفظ میرے، دل میں اتر جائیے! دیکھیے گھڑ سوار لہولہو گھوڑے سے لگا عَلم کو سنبھالے! واہ کیا ذیشان ہے! جس کی شان رشک ملائک ہے! جس کو پَر دیے گئے پرواز کو!  حق کو بھی تو پیار ہے نا جعفر سے!  اس لیے تو بُلالیا سکینت کی نیند میں .... میرے دل میں اردن کی سرزمین روشن ہے اور جنگ و جدل نے حرف و صنعت میں جہاد نہیں سیکھا! 
اللہ نے فرمایا اس لیے شہید کو مردہ نَہ کہو! شہید زندہ ہے! جس کی زیست حق کا اثبات ہو!  وہی احسن التقویم کی بنیاد ہے

حق کی زَمین میں مقدس ترین مقام ہے کعبہ!  علی رضی تعالی عنہ کی ولادت کی جا ہے!  مولود کعبہ نے شان سے آنکھ کھولی! حرمت کی مثال فاطمہ بنت اسد تھیں ان کی ماں، جن کی تربیت میں ذیشان مثل خورشید ایمان لانے والوں میں سبقت کرگئے!  گویا اللہ کے پیغام پر لبیک کہہ دیا بنا کسی تردد کے! 

نے رد کفر، نے جنگ و جدال سے، 
کلمہ ء حق پڑھا حق کی مثال سے
آیتِ تمجید لوحِ دل پر اتری ہے 
علی بُراق ہاشمی، الواجد کا وجد
الماجد کی تمجید، آیتِ تطہیر 
ولایت کی زمین،  امامت کے تاج 
نور کے آفتاب، تجلیات کا مرقع
ناطق قران ہیں اسم الہی ہیں 
العلی کی مثال، قدسی تخت ہیں 
جبروتی کرسی، ھاھوت پر فائز 
صبر کا اخبار ہیں، لوح قرانی ہیں 
مقطعات کا علم، گنجینہ الاسرار

امام علی ایمان لائے!  وصال آیت پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وقت .... امام علی  ساکت!  ہر شے میں سکتہ ء درد، دل کی کرسی ہجرت میں لرزے لرزے گرتے گرتے بچی ہے!  علی رضی تعالی عنہ کو جب یقین آیا تھا تو وفا کی لاج نبھاتے آیت پاک  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تدفین کی ...کیا سعادت پائی! حق والے ہیں! اس پاک مقدس آیت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لحد میں اتارے صامت ہوگئے! عالم ھو میں سب ہوا ...آنکھ اشکبار تھی، دل میں اللہ اللہ کی صدا تھی ..وہاں پر شجر بمثال مرا دل بھی رویا تھا! میں نے جب دیکھا یہ منظر تو لرز اُٹھا دِل ....! 


 جانتے تھے شہادت ان کی راہ  دیکھتی ہے! مرغ جس دن بانگ دینے سے گھبرا گئے! سحر نمودِ صبح سے گھبرائے!  سپاہی گھبرائے گھبرائے سب! فضا پر ملول تھی!  اشک بندیاں میری دیکھو دل والو ...اک مرغ بسمل کی مانند تڑپ رہی تھی میں، امام علی مسجد میں تھے اور میرا دل لرزاں!  جب تلوار چلائی گئی! مسجد خون سے نہلا دی گئی!  امام علی نے کہا میں کامیاب ہوگیا ... حی الفلاح کی آذان پر شہید

ہاشمی چراغ گیا نہیں، میرے سینے میں فانوسِ نور میں لُو کا نام ہے یہ ..... یہ چل رَہی ہے رِوایت، اشک بہ اشک، دل بہ دل، لعل بہ لعل ...

.اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ ..... 
 
روحِ حسینی استقلال آہنی 
روح حسینی لوحِ قرانی 
روحِ حُسینی  باعمل کہانی 
الا اللہ سے نسبت چلانی 
روح حسینی، زنجیرِ الہی 
روحِ حُسینی، پیہم جاودانی
روح حُسینی، جہاد ایمانی
روح حسینی، قربانی پرانی 
روح حسینی، یقین کا اثبات 
روح حسینی، کوثر کی بات 
روحِ حسیی، تار حریر ریشم
روح حسینی، سیف اللہ 
روح حسینی رخِ وجہ اللہ 
روحِ حُسینی الحی القیوم 
روحِ حسینی کربل کی نشانی

خاک کربل نازاں بہ ایں ہاشمی و بو طالبی چراغ! مقتلِ کربل میں کچھ مردان مثلِ علی، کچھ مردان مثل جعفر، کچھ مردان مثلِ حُر تھے!  حُر والوں نے جان دے دی، بَہا دیا خون!  زمین سرخ کردی!  مردان مثل جعفر نے عَلم کی حفاظت میں جان دیدی کہ اسلام زندہ رہا ان کی قربانی سے!  مردان مثل علی نے اَبدی چَراغ روشن کیے اسلام کی حرمت خلافت سے مملوکیت میں بدل نہیں سکتی!  زمین پر انسان نائب ہے، اللہ حاکم ہے! یہی تو لڑائی تھی ساری کہ حاکمیت اللہ کی اور انسان اسکا نائب!  حسینی قربانی یاد رکھنے والو!  فخر سے سر بلند کرلو!  خلافت آج بھی جارہی ہے جبکہ بادشاہت مٹ چکی ہے!  جس جس کو خلیفہ الارض کا ناز حاصل ہے! مل کے اک نعرہ لگاؤ 
حسین زندہ باد!
خلافت زندہ باد!
اللہ مالک و مقتدر!
اللہ العلی! اللہ الوالی 
اللہ حق!  اللہ والے حق

فرق

درد کے سمندر میں غوطے لگائے اور پھر ڈوب گئی ..درد لحظہ لحظہ شان بڑھاتا گیا اور میں جھکتی گئی. وہ وقت آیا کہ پیمانہ چھلکتا رہا، جتنا چھلکا اتنا موجود رہا، میں حیران رہی کہ باہر اور اندر برار ہوگیا کیا؟

حاضرینِ دل!  سنیے 
یہ جو حال ہے، یہ درد ہے، فکر میں ڈھل رہا ہے. یہ فکر عمل سے عامل کرتے جانبِ رقص ہے. کیا سودِ زیاں؟ کیا زیانی؟ کیا حکم ربانی کے بغیر یہ حال ممکن ہے؟  ممکن نہیں کہ درد کی اساس بنا کے اس نے یاد کے طرب میں مدہوش کردیا ہے 

میرے لب خاموش ہوچکے اور دل ہمہ وقت گفتگو میں ہے ...کائنات کی ناتمامی کا دکھ میری کائناتیں جلا رہا ہے .... کب ہوگا یہ غم تمام؟ کب؟ جبکہ میں اک خیال محض ہوں اور حیثیت کچھ نہیں. خاک کا پلستر خیال کی بجلی ....خیال اسکا جب دھیان ہٹائے گا، موت کا وقت .... درمیان میں کشمکش ہے سی ہے کہ وہ میں ہی ہوں جو اسکے دھیان میں ہوں؟  وہ تو لمحہ بھر غافل نہ ہوا مجھ سے. پھر مجھے کس کی طلب ہے؟ پھر میرا گیان اس کے گیان سے کیوں نہیں مل رہا ہے ...بس یہی فرق ہے ...فرق مٹ گیا تو حقیقت کھل جانی ہے

رنگوں میں ڈھلی صورت

کیا علم تھا کہ  مرض عشق ہوجانا ہے. جتنا اس مرض سے بھاگا جاتا ہے اتنا یہ جان کو لگ جاتا ہے. پھر گریہ بھی کیا،  لہو بھی آنکھ کے پار ہوجاتا ہے .. بدلے میں جفا رہ جاتی ہے. کہنے کو سوداگری نہیں محبت کہ بدلہ مانگا جائے مگر جس دل میں محبت کے بے تحاشا سوراخ ہو، اسکے پیالے سے سب باہر آتا جاتا ہے .ہر آنسو آیت بن جاتا ہے اور ہر نشان میں خودی جلوہ گر ہوجاتی ہے. یہ وہ مقام ہے جس میں ہر شے آئنہ ہوجاتا ہے. درد سے پُر ہے دل، جان بلب ہے، شکستگی پر غشی سی طاری ہے، گماں ہوتا ہے نزع کی ہے باری،

طبیبا!  تخلیہ!  درد ہمارا مداوا
طبیبا! تخلیہ!  درد میرا تماشائی
طبیبا! تخلیہ!  درد محرم راز ہوا
طبیبا!  تخلیہ!  درد سے پُر میرا کاسہ
طبیبا! تخلیہ! دم دم میں ہمہ ہمی
طبیبا تخلیہ!  شور کی ہے کمی
طبیبا! تخلیہ!  زندگی ہے بچی
طبیبا!  تخلیہ!  رقص جگر مانند بسمل
طبیبا تخلیہ!  شوریدگان عشق کی ذاتیں
طبیبا تخلیہ!  دل میں پری چہرہ کا نقش

نقش  جمال سے جلال میں محو کمال نے فنا کے رہ میں حائل ملال سے زوال کا.پوچھا. زوال نے رستہ روک کے ملال کے سیلاب بہا دیے. افسوس مکان شہر سے نیچے تھا. پانی پانی دل اور غم بہتا ہے نہ کوئ ہے جالی ... اس خیال میں درد کی تجسیم نے کیا حال کردیا ہے. دل میں وہی ہے، میرا دل مجھ سے شمیشر بکف ہے کہ
من تو شدی ...

تحریر درد کی دیوار پر لکھی گئی ...کچھ حرف منقش ہوئے

آؤ سوختہ جگر!  آؤ مرض عشق کے اسیرو!  آؤ چراغاں کریں درد سے. آؤ شام غم میں درد سے روشنی کریں کہ ایندھن یہی بچا ہے ... لہو نکل رہا ہے اور لفظ بسمل کا رقص دیکھ رہے.

بسمل کے رقص کا تماشا سب نے دیکھا
کسی نے تھام کے ہاتھ آسرا نہ دیا

مثال دوں بھی تو کیا دوں جب ارسطو نے
کسی بھی طور فلاطوں سا حوصلہ نہ دیا

رنگ میں ڈھلی ہے اک صورت ہے وہ صورت رسول معظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شبیہ ہے. جب وہ دکھے تو سارے درد ماند پڑنے لگنے لگتے ہیں. جیسے درد کی چاندنی کا شمس کی بینائی کے آگے کیا سوال!  دکھ تو شمس کی روشنی کا ادھورا حصہ ہے. آفتاب ہے مثال روشنی کمال ذات پر دیکھا جانے والا وہ لب بام پر گلاب ...گلاب پنکھڑی سے ہونٹ پر کھلتی مسکراہٹ اور دندان مبارک سے نکلنے والی چاندنی ..دل کو دکھے تو سہا نہ جائے. دل دیکھی جائے عالیجناب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ریشم ریشم زلف ..وہ زلف جس کے تار تار کو ہوا چھو کے نازاں ہوں ..ہوا کی ٹھنڈک وجود اس لیے آئ کہ بال مبارک سے چھو کے گزری تھی اور عالم کو تحفہ دیتی رہی. اے باد صبا تجھ کو لاکھ سلام کہ تو محبوب کے در سے گزری ہے. ... آقا کی روشن آنکھ صبیح چہرے پر ایسے ہیں جیسے خواب کے بعد صبح ہو جائے ..جب آنکھ نیم وا ہو تو شام سے رات کا گمان ہو اور جب کھلے تو کائنات کا گمان ہو ...جب بولیں تو پھول گرتے محسوس ہوں. جب مسکرائیں تو کائنات مسکرانے لگے ...جب ہاتھ اٹھائیں تو روشن تجلیات کا ہالہ دکھنے لگے. جب کہ پیشانی کے خط پر کسی شمسی کا گمان ہو گویا شمس کی ذات میں ہزار شمس رکھے ہوں ... گویا لاکھ نظام و عالمین کا مجموعہ ہو ...اے شمس تو اک نظام کا مرکز. آقا کئی شمسین کے مرکز ...جو چہرہ تکے تو ساکت ہو جائے، جب ہوش آئے تو اصحاب کہف والوں کا سحر ٹوٹ جائے. رات کو بیٹھنے والے دیکھتے ہیں کہ چاند بھی آقا کی روشنی سے روشن ہے

خوش وصال گھڑیاں

سوچتی ہوں اُن خوش وصال گھڑیوں کو، عہدِ محمدی صلی اللہ علیہ والہِ وسّلم اور حضرت سلمان فارسی کی تَلاش کا سفر ..... آگ کی پَرستش کرتے ہیں مگر ان کا دِل ایسی پرستش سے خالی تھا، ان کو جستجو تھی ایسی ہستی کو چاہا جائے جو واقعی  اللہ کہلائے جانے کی مستحق ہو ....



فالھمھا فجورھا واتقوھا



حضرت سلمان فارسی سفر میں رہنے لگے تاکّہ اصل کی جستجو کی جاسکے. راہب سے ملے، اس کی خدمت کی تو علم ہوا، خدا اَلوہی اَلوہی ہستی ہے اور ان حضرات سے اللہ کا پتا ملتا ہے جو خود الہیات کے جامے پہنے ہوئے ہوتی ہیں ... راہب نے مرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خبر دی، ساتھ مہر نبّوت کی خبر دی....، فارس کے سلمان رضی تعالیٰ عنہ،  جستجو لیے مدینہ منّورہ پُہنچے اور کھجور کے جھنڈ دیکھے. دل کے اُن کے قرار آیا کہ  وُہی ہے سرزمین ہے جسکی عید جیسی خبر ملی ان کو، خُدا کی تلاش کو ایسے شخص کی تلاش کی جس کے پشت پر مہر نبّوت ہو، صلی اللہ علیہ والہ وسلم ..... فارس کے سلمان رضی تعالیٰ عنہ نے جب آیتِ نبوت دیکھی تو وجود خشیت سے لَرزنے لگا، اشک گرنے لگے،  خوشی کے آنسو، تلاش مکمل ہونے کے بیحال آنسو ......،  نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت پر ایمان لے آئے .......  اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ...



سلمان منا اھل بیت ....



تلاش و جستجو کا سفر،  حضرت ابو ذَر غفاری کا جناب سلمان فارسی سے بڑھ کے لگا،   دور جاہلیت میں فرمایا کرتے تھے، اللہ ہر جگہ موجود ہے، قبلہ بھی جس جانب وہ، اسی جانب وہ!  دل میں موجود خانہ کعبہ مقدس سمجھ کے خدا کو چاہے جاتے اور ایسی نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انتظار کرنے لگے،  جو ان کو حق سے واصل کرے ... ،  



فالھمھا فجورھا واتقوھا



حقیقت میں اللہ نے بَدی و نیکی ملحم کردی ہے مگر اِس کا اِحساس ایسے چند نفوسی کے لیے مثبّت ہوا، جنہوں نے دورِ جاہلیت میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرح خود کو پاک و صاف رکھے. حضرت ابوذر غفاری تو اس حد تک پہنچ گئے،  قبیلہ ء غفار کے منکرین کے بُت توڑ ڈالے .... تلاش ان کو درِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم لے گئی، یقین ایسا تھا بنا کسی نشانی کے کلمہ پڑھ لیا ....

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ



آپ صلی نے فرمایا اس سفر کو اخفاء رکھنا، مگر حق جس کو ظاہر کردے وہ رُکے نَہ رُکے، یہی حال جناب ابو ذر کا ہُوا، خانہ کعبہ گئے بُلند آواز میں کلمہ پڑھ آئے بنا کسی احتیاط کے پتھر برسیں گے، گھونسوں سے لاتوں سے مارا جائے گا،  غرض جتنا مار کھاتے، اسی جوش سے کلمہ جاری رہتا تھا ....یہاں تک کہ مدہوش ہوگئے ....اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی .... شیر دلاور کیسے چھپ چھپ کے اسلام کو رکھتا ... !



ان ہستیوں کو سوچتے اُویس قرنی کا خیّال آیا،  روح کا ربط روح سے کیسے جدا تھا، دور بیٹھے بھی کوئی بندہ ء خدا تھا،  سینے میں چلتا رہا قران کا علم،  انتقال کا یہ سلسلہ جُدا تھا!



محبت کے یہ سلاسل سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ذات بہت حقیر ہے. ذات کے تکبر کو نفی کیا جانا چاہیے تاکہ کسی اک صفت سے اللہ نواز دے اور مسلمان ہونے کی غیرت جاگ جائے،  تاکہ عمل کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے ..... پھر محبت ہو ایسی کہ حضرت بلال رضی تعالی کا سوز و گداز نصیب ہو، روح کو اذن ملے تو سفر ہو

انہماک

سوچتی ہوں اُن خوش وصال گھڑیوں کو، عہدِ محمدی صلی اللہ علیہ والہِ وسّلم اور حضرت سلمان فارسی کی تَلاش کا سفر ..... آگ کی پَرستش کرتے ہیں مگر ان کا دِل ایسی پرستش سے خالی تھا، ان کو جستجو تھی ایسی ہستی کو چاہا جائے جو واقعی  اللہ کہلائے جانے کی مستحق ہو ....



فالھمھا فجورھا واتقوھا



حضرت سلمان فارسی سفر میں رہنے لگے تاکّہ اصل کی جستجو کی جاسکے. راہب سے ملے، اس کی خدمت کی تو علم ہوا، خدا اَلوہی اَلوہی ہستی ہے اور ان حضرات سے اللہ کا پتا ملتا ہے جو خود الہیات کے جامے پہنے ہوئے ہوتی ہیں ... راہب نے مرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خبر دی، ساتھ مہر نبّوت کی خبر دی....، فارس کے سلمان رضی تعالیٰ عنہ،  جستجو لیے مدینہ منّورہ پُہنچے اور کھجور کے جھنڈ دیکھے. دل کے اُن کے قرار آیا کہ  وُہی ہے سرزمین ہے جسکی عید جیسی خبر ملی ان کو، خُدا کی تلاش کو ایسے شخص کی تلاش کی جس کے پشت پر مہر نبّوت ہو، صلی اللہ علیہ والہ وسلم ..... فارس کے سلمان رضی تعالیٰ عنہ نے جب آیتِ نبوت دیکھی تو وجود خشیت سے لَرزنے لگا، اشک گرنے لگے،  خوشی کے آنسو، تلاش مکمل ہونے کے بیحال آنسو ......،  نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت پر ایمان لے آئے .......  اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ...



سلمان منا اھل بیت ....



تلاش و جستجو کا سفر،  حضرت ابو ذَر غفاری کا جناب سلمان فارسی سے بڑھ کے لگا،   دور جاہلیت میں فرمایا کرتے تھے، اللہ ہر جگہ موجود ہے، قبلہ بھی جس جانب وہ، اسی جانب وہ!  دل میں موجود خانہ کعبہ مقدس سمجھ کے خدا کو چاہے جاتے اور ایسی نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انتظار کرنے لگے،  جو ان کو حق سے واصل کرے ... ،  



فالھمھا فجورھا واتقوھا



حقیقت میں اللہ نے بَدی و نیکی ملحم کردی ہے مگر اِس کا اِحساس ایسے چند نفوسی کے لیے مثبّت ہوا، جنہوں نے دورِ جاہلیت میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرح خود کو پاک و صاف رکھے. حضرت ابوذر غفاری تو اس حد تک پہنچ گئے،  قبیلہ ء غفار کے منکرین کے بُت توڑ ڈالے .... تلاش ان کو درِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم لے گئی، یقین ایسا تھا بنا کسی نشانی کے کلمہ پڑھ لیا ....

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ



آپ صلی نے فرمایا اس سفر کو اخفاء رکھنا، مگر حق جس کو ظاہر کردے وہ رُکے نَہ رُکے، یہی حال جناب ابو ذر کا ہُوا، خانہ کعبہ گئے بُلند آواز میں کلمہ پڑھ آئے بنا کسی احتیاط کے پتھر برسیں گے، گھونسوں سے لاتوں سے مارا جائے گا،  غرض جتنا مار کھاتے، اسی جوش سے کلمہ جاری رہتا تھا ....یہاں تک کہ مدہوش ہوگئے ....اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی .... شیر دلاور کیسے چھپ چھپ کے اسلام کو رکھتا ... !



ان ہستیوں کو سوچتے اُویس قرنی کا خیّال آیا،  روح کا ربط روح سے کیسے جدا تھا، دور بیٹھے بھی کوئی بندہ ء خدا تھا،  سینے میں چلتا رہا قران کا علم،  انتقال کا یہ سلسلہ جُدا تھا!



محبت کے یہ سلاسل سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ذات بہت حقیر ہے. ذات کے تکبر کو نفی کیا جانا چاہیے تاکہ کسی اک صفت سے اللہ نواز دے اور مسلمان ہونے کی غیرت جاگ جائے،  تاکہ عمل کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے ..... پھر محبت ہو ایسی کہ حضرت بلال رضی تعالی کا سوز و گداز نصیب ہو، روح کو اذن ملے تو سفر ہو

انہماک

انہماک کا کوئی قاعدہ ہوتا ہے؟ انہماک گہرائی پیدا کرنے سے وجود میں آتا ہے. جب بچہ نَیا نَیا اسکول جاتا ہے تو اسکو حروفِ تہجی کی ابجد کا علم نَہیں ہوتا ہے . اک اچھا استاد حروف تہجی کے تصور کی گہرائی ذہن میں پیدا کرتا ہے. وہ "گانے " کی، tracing کی،  mimes اور حروف تہجی کی کردار نگاری کرتے گہرائی پیدا کرتا ہے. بچہ کے اندر جیسے گہرائی پیدا ہوجاتی ہے، اسکا انہماک پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں. اسکو ہم "دھیان "کی قوت بھی کہتے ہیں. جدید تعلیمی نظام میں پڑھانے کے انداز میں جدت جس قدر پیدا ہوئی ہے، اسی قدر ماضی میں دھیان کی قوت (cram)رٹے سے لگواتے پیدا کی جاتی ہے. رٹے سے انہماک تو پیدا ہوجاتا ہے مگر گہرائی پیدا نَہیں ہوتی اور انسانی سوچ سطح پر رہتی ہے. اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری بچے جب کسی فیلڈ میں جاب کرنے جاتے ہیں، وہ کچھ عمدہ کر نہیں پاتے. تعلیمی نظام کا اصل مقصد گہرائی اور انہماک پیدا کرنا ہے تاکہ سوچنے کی قوت سے بچہ تعلیمی مدارج طے کرسکے.

قران پاک کو بھی ہم گہرائی اور  انہماک کی قوت سے سمجھتے ہیں. اکثر میں ٹی وی پروگرامز میں دیکھتی ہوں کہ انہماک "اللہ ھو " کی ضرب لگوا کے پیدا کیا گیا ... اک مخصوص تعداد میں اوراد اذکار کرنے سے اللہ تک پہنچنے کی سعی کا نقطہ سمجھایا گیا ... میرے نزدیک یہ رٹا ہے، ایسا رٹا جو  ہمیں اللہ کے قریب تو لے جاتا ہے مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو صلب کرلیتا ہے.

اس بات کی وضاحت میں اسطرح سے کرسکتی ہوں. اللہ اک خیال واحد ہے اور اس خیال واحد سے ننانوے ذیلی خیالات نکلتے ہیں. ان ننانوے خیالات نے کائنات کی تنظیم و تعمیر، کاروبار کائنات کو چلائے رکھنے میں کردار ادا کیا ہوا ہے. اللہ نے جب سوچا کہ کائنات تخلیق کی جائے تو اس کے ارادے کی قوت نے خیال کی تجسیم کردی. یہ ارادے کی قوت ان ننانوے ناموں کی خصوصیات لیے ہوئے ہے. چنانچہ ہر تخلیق میں اس کے چند ناموں کی اک مخصوص صلاحیت جمع ہے. ہمیں خود وہ صلاحیتیں پہنچاننی ہیں تاکہ ہم اپنے منبع خیال سے اس تک پہنچ سکیں ..اللہ تک پہنچنے کے لیے، خود پہ غور و فکر کرنا لازم ہے. میں کس لیے پیدا کیا گیا؟ میرے اندر کونسی صلاحیتیں ہیں ...یہ صلاحیتیں ہماری گہرائی میں چھپی ہیں .. اس کے لیے ہم میں گہرائی کا پیدا ہونا ضروری ہے ...اللہ کا تصور یا تصوارت ہمیں درون میں ابھارنے ہیں تاکہ ان احساسات سے اللہ کو ھو الشاھد سے ھو الشہید تلک کے مراحل تک جان سکیں.

اللہ پاک نور ہے..سورہ النور میں اس نے یہی فرمایا ہے کہ 
اللہ نور السماوات والارض 
اللہ آسمانوں زمین کا نور ہے 

نور کیا ہے؟ نور مثبت سوچ ہے ..مثبت سوچ احساس تشکر سے ابھرتی ہیں، یہ اسکے امر میں راضی رہنے سے ابھرتی ہے، یہ قربانی،  ایثار،  رواداری جیسے جذبات سے پنپتی ہیں  ...اس نور کو ہم خود میں خود پیدا کرسکتے ہیں اگر اسکے دیے گئے غموں پر راضی ہوجائیں اور اسکی دی گئ نعمتوں کے بارے میں سوچنے میں زیادہ وقت صرف کردیں  .. 

دلوں میں نور کا پیدا ہونا اس بات پر شاہد ہوتا ہے کہ ہم نے اللہ کی سوچ /تخییل سے خود کو ملالیا ہے. یہ گہرائی کا پیدا ہوجانا خود انہماک پیدا کرتا ہے. قران پاک میں جگہ جگہ ہمیں غور و فکر کی ہدایت کی گئی ہے.    ہمیں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ ماسوا ایمانیات کو نکال کے غور و فکر چھوڑ دو. بلکہ یہ کہا گیا کہ ہر بات میں آیت ہے، ہر چیز اسکی نشانی ہے. ہمیں اسکی کائنات کی ہر شے سے اپنے ساتھ ربط پیدا کرنا ہے ... 

ربط پیدا  کس طرح کیا جاتا ہے؟ ہم کبھی درختوں کے پاس بیٹھ کے سکون محسوس کرنے لگتے ہیں تو کبھی ہمیں غاروں میں سکون ملنے لگتا ہے، غرض اس کی جتنی آیات ہیں ان سے سکون کا رشتہ تلاشنا ہے. انسانوں سے انسانوں کا ربط بھی اس سکون کے رشتے تلاشنے کی غرض سے ہونا چاہیے 

جب ہم مظاہر سے ہوتے،  اسکی آیات سے ربط پیدا کرتے قران پاک پڑھتے ہیں تو اسکے کلام سے ہمارے اعمال سیدھے ہونے لگتے ہیں،  احکامات کو عمل کرنے میں آسانی پیدا ہونے لگ جاتی ... ہمارا مقصد حیات یہی ربط ہے، یہی آسانی ء عمل ہے، یہی سوچ کا سوچ سے ربط ہے ..یہی قران پاک پڑھنے کا طرز ہے جو مومن کے درجے پر فائز کردیتا ہے

نور

دید کا مقام





عشق کیا ہے؟
کیا آسان ہے؟
یہ تن آسانی کا سوگ ہے 
یہ بے سروسامانی کا عالم ہے 
یہ حَیا کی تقدیس ہے 
جیسے دلوں میں اترتی تمجید ہو 
عشق بس اک کلمہ ہے؟
عشق کی عین میں کیا اسرار ہے؟
عین سے عشق،  عین سے دید، عین سے لا اور عین سے الا اللہ کا سفر 
عین نفی اثبات کا سفر ہے 
جب اللہ کو واحد مانا گیا تو 
ملائک نے عرضی پیش کی 
" انسان تو خود رولا سیاپا ہے"
مگر فرمایا گیا 
"وجہِ بشر تخلیق کون ہے؟
وجہِ منظر نوید کون ہے؟
کس کے واسطے مشّکل ہوا؟
کائنات کی آیات سے اظہار کا سلسلہ!
لا کے واسطے سجائی گئی کائنات 
الا اللہ سے بنائی گئی کائنات 
میم کی مثال کوئی نہیں ہے" 

خُدا نے چاہا کہ وہ خود کو دیکھے 
لاکھ آئنے ہوئے، کامل اک ہوا 
عشق نے ہر آئنے میں تھا جھانکا
کچھ دھندلائے کچھ دھندلائے سے 
کچھ شفاف شفاف سے،
کچھ نور علی النور کی مثال 
جس آئنے نے جھلک  المصور کی پائی
تو لگ لگئی لگن کی بازی 
جلی جس سے دل کی وادی

دیکھنے دکھانے کا سلسلہ جاری!  
عہد کن کا وقت تھا! دید کا موقع تھا 
فلک پر جب سب نے کہا 
ہم نے مانا!  خدا کو مانا.
ہم نے جانا!  انبیاء کی تقدیس کو ..
ہم نے پہچانا، محمد کی میم کو 
سب گنگ زبان میں ہم کلام تھے 
جو بول رہا تھا، وہی سن رہا تھا 
بس اک بازگشت تھی 
بس اک صدائے کن تھی 
وہ بازگشت بھی آئنہ تھی 
"
خاک کی جستجو ہے صدائے کن 
گونجی  ہے کو بہ کو صدائے کن


ماننے سے ہوا یقین کا سفر 
خاک کے پتلے میں صور کی پھونک 
قم باذن کی صدا 
اقراء بسم ربک الذی خلق
دید کرکے، قلم.بنائے گئے 
الذی علم بالقلم  
قلم نے لوح مبین کی کنجی بتلائی 
خدا کی ہستی کی باتیں دکھائیں 
علم الا نسان ما لم یعلم 
اقرا وربک الاکرم 
کرم تھا نا، ورنہ مارے جاتے 
لفی خُسر میں گرائے جاتے 


اس نے سکھایا قلم سے ہر ذات کو 
آئنے نے یوں آئنے کو جانا 
جس نے اسکو دیکھا 
اسکی تن کی لاگی لگی ایسی کہ نہ بجھی


دید ہوئی اسکی مگر 
لا الہ الا اللہ مکمل نہ تھا
اک سفر درپیش رہا 
انبیاء سے انبیاء تلک 
جزو سے کل تلک.
کلمہ اور نقطے تلک کا سفر 
نور علی النور کی مثل 
نقطہ نور سے بھرتا رہا 
نقطہ مکمل ہوگیا تھا 
لا الہ الا اللہ کی مکمل تمجید 
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ  
محمد جو عالم کی کائنات ہیں 
ہر دل میں رسالت پر تعینات ہیں 


جب نقطہ ان انوارات سے مکمل ہوگیا 
تو خاک نے صدا سنی 
ھو المصور 
وہ خاص قلم ... .
جن کے ہم امتی 
جن کے لیے یہ آوازہ اٹھا 
ورفعنا لک ذکرک 
جن کے لیے کہا ... 
سنقرئک فلا تنسی 
ما ودعک ربک، وما قلی
تسلی، دلاسہ دیا گیا  
آسانی کی گئی ... 
تسکین دی گئی ... 
فان مع العسر یسری 
یہ ندا بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی 
رہ حیات طویل رہی اور یقین کے سفر میں یقین کے عالی پیکر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم عاجز رہے ... 

سیہ بدلی میں معجز نور پوشیدہ تھا 
طٰہ تو خشیت مارے گھبرا کے کملی میں رہے اکثر 

اور پھر فرمایا گیا 
وجاء الحق 
 وذھق الباطل سے الیوم اکملت تلک سب نے دیکھا 
تکلیف سہی گئی 
درد کو سب سے لیا گیا 
سب کو شیریں محبت دی گئی 
درود کی تقسیم تھی ... 
اللہ نے کہا محبوب کی محبت کی قسم 
فاذکرونی اذکرکم ... محبوب کی محبت خدا نے بانٹی 
ہم نازاں ہوئے کہ ان کے امتی ہیں 


عشق کی شرحیں جب کھلیں تو ہم نے دیکھا 
یتیمی کا دکھ ... 
تنہائی کا غم ... 
قربانی سے کام چلتا رہا 
جب بوطالب نے کہا کہ "رک جاؤ"
تب قسمیں کھائیں گئیں چاند اور سورج کی 
یہ یقین کی قسمیں، یہ ایمان پر گواہی ...
عشق کا کلمہ شروع ہوا زبانی 
شعب کی گھاٹی اور تنگی کا عالم 
بھوک سے،  پیاس سے بے چینی کا عالم 
دیمک نے سب کھالیا جب، 
اللہ تو باقی رہا تھا!
  اللہ ہی باقی ہے 
گریہ دیکھا؟
سب خاموشی سے سہا گیا 
جدائی کا غم 
محبوب بیوی کا 
محبوب چچا کا 
عالم الحزن رکھا گیا نام 
اور وہ عالی مرتبت دل میں رہے مثبّت 
اللہ کافی ہے!  اللہ کافی!  اللہ کافی!  
انسان آیا اکیلا اور جانا بھی اکیلا ہے

یہ عشق تھا جب خندق کی زمین میں 
پتھر چار چار اٹھاتے رہے 
دو دو پتھر پیٹ پر باندھتے رہے ... 
بھوک پیاس سے اک بار پھر آزمایا گیا ...
پائے مضبوط میں شکن نہ تھی 
قدم ایسے کہ کشتیاں جلا دی جائیں ... 
امید پہ قائم سویرے کی... 
طائف کا وہ منظر!  
ہائے وہ خون کا زمین تک بہنا 
وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھنا ... 
وہ سراپا دعا 
وہ سراپا دعا ان کے لیے جو تھے قابل بددعا 
اشک آنکھوں میں،  
راتوں کو جاگ جاگ کے دعا مانگنا 
یہی تو عشق تھا!  
نہ دیکھا گیا خود کو 
بس جو خدا نے بشر میں دیکھا 
بشر نے اسکو دیکھا جانا اور پہچانا ... 
جذبات ہوئے بہت مگر خدا کی رہ میں جذبات کی بڑی قربانی دی 
وہ تخلیق ... خالق کی محبوب ترین ... ..
ہاں اس عشق سے بڑھ کے جب چاقو چلا تھا گردن پر ... 
ادھر نواسہ ء رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نوک سناں سر کٹایا گیا 
ہاں اس عشق سے بڑھ کے جو گریہ ء یعقوب کا سبب رہا ... 
کامل ہوش میں جدائی کو سہا اور تڑپ کو سینے میں چھپادیا گیا ...
کہاں بھول سکے تھے محبوب ترین بیوی کو ... 
ہاں، اس عشق سے بڑھ کے عیسی نے پتھروں میں نعرہ خدا لگایا ...
بھوک پیاس، تنگی کی بات الگ .
طائف میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا گیا 
ہاں!  اس استقلال سے بڑھ کے، جو نوح علیہ سلام نے دکھائی بآلاخر بددعا کو ہاتھ اٹھ گئے 
یہاں نسلوں کے بار تک اٹھائے گئے 
رت جگوں میں الغفور سے تار ملائے گئے ... 
یہ عشق تھا جس کو ہوش کی نماز میں ادا کیا گیا 
یہ دیوانگی تھی، جس میں جنون کی پردہ دری کی گئی 
یہ دید کا مقام تھا

آیت حق نمبر ۴

آیتِ حق نمبر ۴ 

احساسِ کلیمی دیکھنا چاہو تو کبھی لال لباس میں موسی علیہ سلام سے ملنا. وہ ایسی ہستی جو دیکھتے ہیں تو گمان ہوتا ہے خدا جلال عین حق ہے مگر یہ کہ ان کا تبسم عنایت ہے. میں نے اُن سے پوچھا کہ خدا کَہاں ہے. وہ گفتہ ہوئے کہ خدا سچ ہے اور سچی داستانوِں میں پوشیدہ ہے ...

اللہ ھو الشہید 

لعل لباس میں گھنگھریالے بالوں والے، ہاتھ میں عصائے اِلہی لیے، دراز قد وہ بزرگی کی چادر پہنے ہوئے تھے. 

متلاشی پوچھتے ہیں کہ آپ نے تو خُدا کا جلوہ کیا ہے نا ..یہ جو لباس لعل ہے یہ اسکے دید کے حامیوں کو ملا ہے .خدا کی دید کیسے ہوگی؟ بتائیے؟  

خدا انسان میں پوشیدہ نورانی آیات میں ملے گا. خدا خضر سے رستہ پوچھ کے ملے گا. 

دستِ شفقت کو سر پر پاتے جب متلاشی اس بزرگ کی جانب گیا  جن کے جسم سے نکلنے والا نور آنکھیں چندھیائے دے رہا تھا ... متلاشی پاؤں بڑھائے تو نقش تک جلتے محسوس ہوں ..ان کے جلال سے دل جلتا ہوا محسوس ہوتا تھا ... ان کے رعب سے غلبہ ء ہیبت سے مدہوشی کا گمان ہوتا ہے. یوں لگا کہ موت واقع ہوگئی ہے

متلاشی نے مست نگاہی سے پوچھا کہ یا عیسی علیہ سلام!  خُدا کَہاں ملے گا؟  

خدا، الم کی ہستی میں اَلوہی نور ہے. خدا مجسم نہیں ہے مگر شاہد محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں ہے.  

وہ خاکی لبادہ!  وہ  خدائے نور سے پرنور گنجینہ! 
تو میں مدینے کیسے جاؤں؟
کیسے جاؤں؟
وجدان کے پَر قوی ہوں تو پرواز کرتے کرتے .... 
محمد کی غلامی رستہ اول ہے 
عشق نے پانی جو رہ مکمل ہے 
محمد نبوت و ولایت کا چشمہ 
انہی کے سامنے جھکاتے سر اپنا

آیت حق نمبر ۳

آیتِ حق نمبر ۳ 

لفظوں کی  اقسام ہیں: کچھ خوشی و شادی کا بیان، کُچھ حسد، کینے کی جلن لیے، کچھ صحیفہ کی مانند دل میں اُترتے ہوئے، کچھ الہام کی مانند سینہ کھولتے ہوئے، کچھ کلیمی کی ضرب لیے ..کچھ خالق کا امر بنتے ازل کا حُکم رقم کیے ...کچھ لفظ جھوٹے ہوتے فریب دیتے ہیں تو کچھ حیات کا فلسفہ لیے،

لفظ لفظ تری آیت ہے
آیت سے آیت جڑی اک خزانہ
جوڑوں ان کو تو کبھی دیکھوں توڑ کے
سمجھ آنے لگے تو سر دھنتی رہوں میں
لفظ ترے ملحم ہوتے رہتے ہیں
نرم زمین ہوتی ہے تو روشن فلک ہوتا ہے
بارش ہوتی ہے آشیانے پر تو برق بھی گرتی ہے
موت کے بعد نیند ملتی جاتی ہے
یہ صدائے غنود، چھارہی غنود
یوں جیسے کہ مٹ رہی قیود
ذاکر کب سے ہیں محوِ سجود

آیت آیت کی مانند اک اک لفظ ہے جو لفظِ قران ہے. قران صحیفہِ الہامی ہے جب دلوں میں اُترتا ہے تب رقت سے دلِ موم کو کچھ سُوجتا نہیں مگر کہ سجدہ کیا جائے ...

اللہ کی مثال نور کی سی ہے، نور کو ہر زمین و آسمان کی ہر شے کا لازمہ قرار دیا ہے. وہ آسمانوں زمینوں کا نور ہے. قران پاک کے آفاقی الفاظ ہر شے (جاندار، بے جان) پر یکساں پورا اترتے ہیں ... انسان بھی مثلِ نُور ہے کہ اس میں حجاب در حجاب نور پوشیدہ ہے.....نور کی مثال درخت کی سی ہے یہ شجر سے فلک تک اور فلک سے نور تلک ..........، فلک پر نور کا چراغ ہے .. یہ فلک ہی ہے جو اک طاق کی مانند ہے، جس کے بُلندی پر ایک روشن ستارہ ہے ...اس روشن ستارے کو شجر ِ زیتون جوڑتا ہے...گویا انجیر کا درخت توانا زیتون کے پتوں سے حاصل تیل سے ہوتا ہے. تب برق نور سے کلیمی حاصل ہوجاتی ہے ..یہی زیتون کا تیل ہے جو بنا آگ کے برقی نظام کو چلاتا ہے تو کبھی اس سے ایسی چنگاری پیدا ہوتی ہے کہ دیدِ خدا کا دعوی ہوجاتا تو کوئی کہتا ہے میں نہیں بولتا، میرا یار مجھ میں بولتا ہے ......

یہ لفظ دل پر اترے تو اک حال سے دوسرے حال کو چلے ..... یہ تجلیات جو لفظ لیے ہوتے ہیں آنکھ ان کو اچک لیتی ہے، جسم پر اختیار ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور نرمی سے ہچکیاں لگ جاتی ہے. یہی فلک ہے جہاں ستارہِ نور روشن ہے اور اس کو سیرابی زمین سے ملتی ہے، یہ زمین کسی کی بنجر تو کسی کی سخت تو کسی کی زرخیز تو کسی کی نرم ہوتی ہے ...زمین کو پانی نہ ملے تو فلک تک رسائی نہیِ ہوتی ہے ..جب زمین پانی سے تر ہوجاتی ہے تو ذکر ِحلقہ ِِ ھو سے سب کچھ فلک کی جانب گامزن ہوجاتا ہے اور نور کو نور ملنے لگتا ہے....

لفظ جو دل پر اترے، روح میں پیوست ہوجائے تو استعارات کھُلنے لگتے ہیں .... روح سنتی ہے جب ذکر میں کلام الہی ہو .... آیات کو آیات سے ملاتی ہچکیاں لیتی ہے کہ زلزے آجاتے ہیں .. ، روح کی اثر پذیری پانی کی طرح ہوتی ہے .... یہ زیتونِ مجلی جب دھیرے دھیرے پتوں کی نسوں سے ہوتا ستارہِ سحری کو پہنچتا ہے تو رات اور صبح اک مقام پر ٹھہر جاتے ہیں ...یہیں روح سجدہ کرتی ہے جب سجدہ رکوع سے شروع ہوجاتا ہے، ساجد سر اٹھاتا ہے تو سویرا ہوجاتا ہے ... یہی مقام ہے جو طلوعِ شمس کی مانند روشن آیت ہے .....

الہامی کتاب، قران پاک کے لفظ واقعات کو ظاہر کرتے ہیں گویا شاہد بھی ہیں مشہود بھی ہیں ... یہی اسرار افشاء ہونے پر باعثِ مسرت ہوتے ہیں ...

اللہ النورالسماوات و الارض
الحمد للہ رب العالمین و سلام علی المرسلین
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ.....

آیت نمبر ۲

آیت حق نمبر ۲

آپ نے سوچا کبھی طسم کیا ہے؟ لباس بندگی میں دید کے بعد طلوع آفتاب کی روشنی لیے مجلی ہستی  جسکو روشنی دی گئی ..موسی علیہ سلام کا آگ کے لیے جانا اور روشنی سے سرفراز کیا جانا ..مگر رحمن کی رحمت میں "ت " اور "ن " کا فرق ہے....

 خدا کی آیات میں کھو جانے کے بعد فنائیت سے ہوتے احترام کے وضو سے تقدس کی نماز پڑھی جاتی ہے.   عشق کا قاف جس دل میں قبلہ بن جاتا ہے، تو منزلِ نماز کے بعد منزلِ جہاد آتی ہے.  نفس سے لڑنا، جہاد اکبر ہے.  آیتِ حق جس کو ملے تو اس سے باقی آیات منعکس ہونے لگ جاتی ہیں ..اس سے پنجتن پاک کی سوندھی خوشبو تن من کو پاک کیے دیتی ہے. 

لکھنا تو بہانہ ٹھہرا،  میں اظہارِ محبت میں مجسم ہوجاتی ہوں. جس وقت نظر کرم کی جاتی ہے، بندہ خود میں محو ہوجاتا ہے... اس خیال میں خدا کی تلاش شُروع ہوجاتی ہے ..

خدا کہاں ملے گا؟  عرشِ معلی پر یا عرشِ حِجاز پر؟ عرش کے پاس جو پانی ہے اس کے پاس عکس کس کا تلاش کروں؟  جو تلاش میں ہوتے، وہ پہلے سے ہی خُدا کے زیرِ سایہ ہوتے، فقط ان کو پہچان کا دھوکا ہوتا ہے ...  وہ روح میں ہے، جبل الورید کے قریب ہے .. پتھر سے براق نمودار ہوتے متلاشی کو اُچک نہ لے....!   وہ شجر جس پر وہ خودی ایستادہ ہُوا تھا، وہ شجر متلاشی خود تو نہیں کہیں؟ 

متلاشی ارواح کو پاک آیات پسند ہوتی ہیں ..  بی بی پاک مریم، پاک طینت  ایسی ہیں کہ متلاشی کو گمان ہونے لگتا ہے کہ وہ اُنہی کا خمیر ہے،  انہی سے دم پذیر ہے.  ان کے سائے سے ملنے والی روشنی مسحور رکھتی ہے. جب کبھی سایہ منور ہوتا ہے تو خوش بختی پر نازاں ہُوا جاتا ہے .. ان کے تبسم میں الوہیت عین العین وحّیت ہے.  دو ارواح کا ملن ہوتا ہے تو تار پاک سے نغمہ جاوداں نکلتا ہے.  ان کا لباس سفید ہے ... ان سے پوچھا جاتا ہے خدا کَہاں ملے گا تو  ان کی جانب سے جواب دیا جاتا ہے کہ خدا دل میں موجود ہوتا ہے ..ان سے پوچھا جاتا ہے کہ جلوہ کب ہوگا؟  وہ کہتی ہیں کہ جب ہوگا تب پوچھنے کی نوبت کہاں آئے گی؟

آیت نمبر۱

یہ سَچی الوہی کیفیت ہے جو ازل سے عطا کردہ ہے...  یہ دھیان کی قوت ہے نا جس نے نا جانے کتنی تمناؤں کے سینے چاک کیے، تو کتنے یار فنائیت سے دار بقا کو چلے .. دل میں جو نور ہوتا ہے وہ خود اک تجلی ہوتا ہے . گرد رہ ہوتے دل جانے کتنی بار ٹوٹتا ہے. جب یکجائی کا پیالہ ٹوٹتا ہے تو  حق کے سِوا کچھ نَہیں بچتا.. حق کی موج سینے میں پیوست ہوجاتی ہے 

الم نشرح لک صدرک 


 یہ دل میں جو آیات ہوتی ہیں، یہ حق کی روشنی ہوتی ہے. یہ نشانِ ھُو ہیں ... ان آیات میں حق ظاہر ہوتا ہے ..یہ ھو اسکی بات ہے. جب دل فنا ہوجاتے ہیں تو کچھ نَہیں بچتا ہے، تب دل کی بقا پہ ھو فائز ہو جاتی ہے.

عشق کا قصہ صدیوں پر محیط ہے.  یہ قصہ اتنا مقدس ہے جتنا کہ اک مجذوب کا دل ...  عشق ماشاء اللہ قصہ ہے، یہ داستان ہے کٹھ پتلیوں کی ...  یہ تماشائے الفت سَرِ بازار لگاتا ہے کون؟ 


صدائے ھو، ساز میں بجتی ہے،تار کو پکڑا جاتا ہے تو بُو علی کا نقارہ سُنا جاتا ہے تو کبھی امیر خسرو کی بات سُنی جاتی ہے.   تو کوئی صابر پیا کی طرح عالمِ سکر سے گزر جاتے ہیں ... کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے زمانہ کٹھ پتلی جیسا رقص کرتا ہے.  یہ شہباز قلندر پرواز کرتے ہیں ..عشق کا کلمہ کسی کی تسکین اوسط نہیں مگر یہ ساز صدیوں سے قلندروں سے بجتا آیا ہے 


قلندر مثلِ نور ہست ، مجاز کے پرندے، مٹی میں قید ہوتے ہیں ... جذب ان کو مسحور کرتا ہے ..یہ ایسے نسخہ ء کیمیا کی پیداوار ہوتے ہیں جن کے لیے والزیتون کا لفظ استعمال ہوتا ہے. خشک انجیر رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے،  والتین کہتے قسم کھائی جاتی ہے.  سودا، جنون خاک کو سلگائے رکھتا ہے .. باہر کی آگ کی حیثیت کچھ نہیں ہوتی جو آگ من کو آنچ دیے رکھتی ہے .باہر کے آبلے کچھ نہیں ہوتے، جو اند کا شیشہ چور چور ہو 


عشق میں فنائیت کیسے ملتی ہے؟ جب سچی آیات مل جاتی ہیں، یہی نشانیاں راہ دکھاتی رہتی ہیں ... راہ ہجر دکھا دی جاتی ہے، وصلت کے شوق کو تپش بڑھا دی جاتی ہے.... یہ آیات تن من میں تڑپ،  شوق کو ہوا دیے رکھتی ہیں ...  دل کے میل دھل جاتے ہیں،  آئنے صیقل ہو جاتے ہیں .. جو علم حاصل کیا جاتا ہے وہ اُڑ جاتا ہے اور اک نَیا علم مل جاتا ہے. صحرا کی دھوپ کوئلے پر اس قدر تیز ہو جاتی ہے کہ ہیرا برآمد ہوجاتا ہے ....  روشنی جب وجود کا حصہ بننے لگے تو اک پکار یہی ہوتی ہے 

 عشق حیدری ہوتا ہے 
قلندر غلام ہوتا ہے
غلام،کو کام ہوتا ہے 
لا الہ کہنا عام ہوتا ہے
شاہا کی تسبیح ہوتی ہے 
کہیں یسین، کہیں  حم 
کہیں مزمل، کہیں طسم 
کہیں مدثر، کہیں  الم 
وہ حرف اول بقا چاہے 
وہ حرف ابد اک راز ہے 


عشق مانند برق لَہو میں دوڑ رہا رَہا ہے. یہ اصل مقناطیس کی قطبی کشش ہے. یہ جمال مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جن میں انسان کھویا رہتا ہے ..قربانے کے مقررہ وقت پر سب سے قیمتی جوہر لٹادیا جاتا ہے ..لٹا کے، لٹانے والے کہتے ہیں .. 

حیدری ہیں،  حسینی ہیں 
چراغ میں روشنی عالی 
یا علی کہتے جلا ہے پائی
اندھیرے نے زندگی پائی

ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے

ترے دیار سے کبھی بھی دور ہم نہ جائیں گے
کہ دفن ہم یہاں پہ ہوں گے ،ایسا بخت پائیں گے


چراغ بجھ رہا ہے، وہ نہ آئیں گے، دلِ امید!
زماں مکاں کی قید سے تو ہم نکل ہی جائیں گے


کہیں کرائیں اور کیوں جگر کے زخم کا علاج 
مسیحا منتظر ہیں ہم، تجھی سے چوٹ کھائیں گے 

بھرم وفا کا رکھ چکے، خموش ہم رہے سدا
ذَرا بَتائیں،  آپ اور کتنا آزمائیں گے


کرم کرے، کرے ستم، یہ سر سدا رہے گا خم
بنا رہے یہ رشتہ، ہم اسے نہ اب اٹھائیں گے 


صَدائے کُن کی یاد میں یہ دل ہے محو آج بھی
تمام عمر نغمۂ ازل نہ بھول پائیں گے

"ہم " کی صورت لانے سے روانی کم ہوتی 
کبھی بھی ہم نغمہ ء ازل نہ بھول پائیں گے 

ہے کائنات کی کتاب اس کا روئے خوبرو
کہ جس کے ہر ورق ورق میں حسن اسکا پائیں گے


لباسِ درد نےجو. فہم شعرِ گوئی کا دِیا
تو بعد مرگ بھی یہ شعر لوگ گنگنائیں گے

اسی کے جلوے سے ملی ہیں نور، ہم کو خلوتیں
کہ شوقِ وصل سے ملال ہجر کو مٹائیں گے

خُدا نے میرے قلب میں صدا یہی لگائی ہے

خُدا نے میرے قلب میں صدا یہی لگائی ہے
سَدا یہ دُنیا اُس کے ہونے کی بَڑی گَواہی ہے 

نمازی جب وَفورِ شوق سے ہو گر قَیام میں 
وہ مُنہَمک ہو کے خُدا سے ہوتا ہے کلام میں 

رُتوں کو  بَدل دے یار کے حُضور ایک سجدہ 
وِصال میں کمالِ حرفِ دل سے ہو  گیا ہے بندہ

یہ اَجنبی ہے کون؟ رقص میں یہی ہے جھومَتا   
دُھواں یہ کیسا نعش کے چَہار سو ہے گھومتا 
 
حُسینی لعل نے جواہِرات سب لُٹا دیے 
سَخا کے دریا کربلا کی ریت میں بَہا دِیے 


یہ اقتَباسِ زندَگی مِلا جو کربَلا سے ہے 
لٹا دو سارا مال جو خدا سے پایا تم نے ہے  

 
سکوت میں وہ نغمہِ بہاراں تو سُنا کرو 
ثَبات کی نہی  میں  یُوں ہی  جستجو کیا کرو


دُعا کو ہاتھ جب اُٹھے، وہ کام پورا تب ہوا  
خدا سے مانگنا تو ربط کا  بہانہ ہے بنا


قَضا کا عہدہ دے فَرشتوں کو،یہ اس کی بات ہے
خلیفہ انس کو بنایا ہے، یہ اس کی ذات ہے 


وہ عالی، وہ خبیر، وہ جلیل، وہ شہید ہے
صفات میں نہاں وہی، خیال عین دید ہے 

 
شبیر نے جو رسمِ حج اَدا  کی تھی سجود میں 
حُسینی رنگ کیوں رَہے جَہاں میں پھر حدود میں

پاکستان نور ہے

 


پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں!(سرکار واصف علی واصف)

یہ جملہ نہیں میرا مگر یہ میرا جملہ بن گیا ہے. کوئی چھ سال قبل یا اس سے بھی زیادہ میرا نظریہ پاکستان بدل گیا تھا. زیادہ کتابیں پڑھنے سے مجھے لگنے لگا تھا قائد اعظم تو بس اک pawn تھے تاکہ برطانوی سامراج کے لیے اسکو gateway بنایا جاسکے. ..، دو قومی نظریہ اور بنگال کا معرض وجود ... یہ دو چیزیں اتنی متضاد تھیں اس پےستزاد بلوچستان تحریک، سندھ کا royalties کا مطالبہ اور سرائکستان کی تحریکوں نے اس نظریے کو مزید تقویت دی اور میں سمجھنے لگ گئی جیسا کہ کچھ دانشور کہا کرتے تھے وہ اک غدار ہیں اور مجھے مولانا آزاد حسین اس وجہ سے اچھے لگنے لگے کہ انہوں پان اسلام ازم کا نظریہ پیش کیا .... غرض کہ پاک افواج کی ہار، ہر جنگ میں جب ان جنگوں کا جرنلز سے مطالعہ کیا تو احساس ہوا کہ کتابوں میں جھوٹ لکھوایا گیا... پھر اقبال محترم کا خط، خطبہ الہ باد جس میں نظریہ پاکستان دے کے ۱۹۳۶میں اک خط میں اس کی تردید کردی ... وہ خط پڑھ کے احساس ہوا بہت تضاد ہے بہت کچھ چھپایا گیا ہے ہم سے!

پھر میں نے یہ جملہ سنا "پاکستان نور ہے، نور کو زوال نہیں " یہ جملہ دل میں سرائیت کرگیا کہ پاکستان جس کو روحانی بنیاد پے حاصل کیا گیا، وہ قوت جو ناممکن کو ممکن کرگئی وہ قوت روحانی ہوسکتی ہے. یہ عطا ہوتی ہے. یہ نہ ہوتی . جو فیکٹس اور فگرز میں نے پڑھے وہ بظاہر معلوم ہوتے تھے کہ یہ سب جھوٹ ہے ...ہم نے وہ تقسیم و ہجرت جھیلی کہاں تھی .. ہم جھیلتے تو مانتے! آج ہندوستان میں جو مظالم ہورہے ہیں تو مزید احساس قوی ہوگیا کہ پاکستان اسلامی اجتہاد کے نتیجے میں وجود آیا ..nation -state کا تصور وہی ہے جس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت کی اور اسلامی حکومت قائم کی. اس کے بعد ہی احکام شریعت کا نزول شروع ہوا. یہ بھی حقیقت ہے جہاں مسلمان وہیں ریاست ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلامی نظام کو چلانے کے لیے ریاست کا تصور اہم یے!

آج بھی اک غیر مرئی قوت اسلامی نظام دلوں میں نافذ کیے جارہی ہے. اسلام اتنا خشک مذہب نہیں کہ یہ جسٹ اصول پے چلے. نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اخلاق حسنہ کی وہ مثال قائم کی کہ ان کے عشاق بھی مثل نور ہوگئے. اس لیے غلام، غلام رہنے پے مصر رہے! جن کو ایسا تاجدار مل جائے ان کو آزادی سے کیا لگاؤ ہوگا ... ہمارے دل جب تک طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نہیں چل سکتے تب تک ہم شریعت کو نافذ نہیں کرسکتے! دل میں محبت کا پودا جو نبی کی محبت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے ہو، نہ ہو تو شرع محض اک چیز رہ جاتی ہے اور تب تفرقہ پیدا ہوتا ہے. ہم جتنے اسوہ ء حسنہ سے نبی کی محبت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دور ہوئے، ہمارے طریقے یعنی نیتِ دل میں نفاق پیدا ہوتے ابتری میں لیے گئے ..

چار یاروں میں کیسا فرق ..ہم عام انسان و مسلمان اتنے چھوٹے ہیں کسی بھی صحابی پے بات کرسکیں یا نام لے سکیں کجا کہ ہم الزام دیں جو تاریخ لکھیں. ہمیں اتنا علم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں کوئ بھی کسی سے جدا نہ تھا، کسی صحابی کی رائے اتنی اچھی ہوتی کہ قرانی احکام سے اسکو اثبات مل جاتا تو کسی کو فاتح خیبر بنا دیا جاتا کسی کو ذو النورین بنا دیا جاتا ہے کہ کسی کی حیا سے فرشتے شرمائیں کسی کی محبت کی انتہا اتنی کہ اپنا سب مال و اسباب قربان کردیا ... یہ جلیل القدر ہستیاں ہماری ہیں اور ہم ان کے ہیں ..

سو روپے ہور دیوو

 موسم خنکی و سردی لیے ہوا تھا. وہ لمبے ڈگ بھرتا سڑک پر چلتا جارہا تھا... قریب دس بجے ٹریفک کی ہماہمی سے دور، سڑک کے دو کناروں پے درخت عجب ٹھنڈک لیے تھے..ابھی وہ مزید چلنے کو ہی تھا کہ اک نسوانی صدا نے اسکے پاؤں جکڑ لیے


"صاحب، اللہ تجھے اللہ بیٹا دے گا "

مخمصے میں گرفتار شخص نے بغور اُسے دیکھا

میلی کچیلی، وضع قطع میں اجاڑ ویران عورت جسکے بال اصل رنگت کھوچکے تھے. اسکے کپڑے جابجا داغوں سے بھرے ہوئے تھے.

اس فقیرنی نے اس شخص کا ہاتھ پکڑلیا اور اپنے شاپر سے جو کہ جابجا دھاگوں اوردوڑیوں سے بھرا ہوا تھا، اسکی کلائی میں باندھنے لگی ...

"سو روپے دو! "

"پیسے کس لیے؟ "

"نہ دو گے، توبددعا دوں گی! "

اسنے سو روپے کا نوٹ نکالا اور کہا

"میری جاب کی دعا کردو "

وہ فقیرنی فورا بولی

"سو روپے ہور دیو "