Saturday, November 14, 2020

مرے دھاگے

 

مرے دھاگے

شمس نے فلک پہ پایا۔۔فلک نے قمر پہ پایا ۔۔قمر سے زمین نے پایا۔۔محمد ﷺ  کی 'م' کا راز۔۔سینے کے چلتا آر پار۔۔صدقے جاوں بار بار۔۔اللہ ! محمد ! اللہ ! محمد !۔۔حق ! محبت خالق کی۔۔حق ! محبت عاشق کی۔۔حق ! محبت محمد کی ۔۔حق ! محبت خلائق سے۔۔جو میرے آقا نے کی

یہ زمین یہ چاند یہ ستارے ، یہ آبشاریں ، یہ دل کیا ہے ! یہ کچھ نہیں ہے ! میں کسی اور دنیا میں مقیم ہوں یہ جو نیلے نیلے دھاگے ہیں ، یہ جو زرد زرد ریشم ہے ، یہ سیاہ سیاہ  کپڑے ہیں ! یہ جو سبز لباس ہے ! یہ جو ریشمی پوشاک ہے ! یہ جو کالا کپڑا ہے یہ ایک حجاب ہے ! جو مجھے دیا گیا ہے ! ، یہ جو سبز پوشاک ہے ، یہ محبوبیت کی نشانی ہے ، یہ میرے تن پہ سجا ہے  !

گوہرِ مراد ، فیضِ نگاہِ کیمیا سے قسمت بدلنے والی ہے ، ان کی نظر نے میری روح کو بدل دیا ہے ، نئی ترتیب سے جینے والی روح کو خوشخبری دی گئی ہے کہ نگاہِ کیمیا  بدل دے گی ہستی ، اٹھیں گے سب اسرار کے پردے ۔۔۔ محبت کے دروازے  کھول دیے گئے ہیں ،فلک سے نوری شعاعیں کسی کسی رسی کی مانند لٹکے دکھائی دیتے ہیں ۔۔ یارحیم کی نوری شعاع-----یا کریم کی نوری شعاع ۔۔۔ یا  واجد کی نوری شعاعیں ۔۔۔۔ یا قہار کا پرنور شعاع ۔۔۔۔۔۔۔۔ یا باسط تو کہیں المھیمن کی پرنور منور شعاعیں ۔۔۔ یہ شعاعیں تیر کی مانند سینے میں پیوست ہوئی جارہی ہیں ۔۔۔ رحمت برس رہی ہے ، کرم ہو رہا ہے

یہ دھاگے ، یہ وعدے ! یہ جو مجھے ملے ہیں نگینے ! یہ لباسِ سرخ ، یہ سیاہ حجاب ، یہ نگاہِ کیمیا کی دلپذیری ، یہ محبوبیت کی پوشاک ۔۔۔ پوشاک فیضِ گنجور ، رحمتِ صبور ہے ۔۔۔ یہ حجابات ذات ۔۔ مصور نے ترتیب دیے ہیں رنگ !۔۔یہ میرے رنگ ! یہ میرے نگینے !یہ سفینے ہیں جو ہیں نگینے ۔۔یہ دیرینہ آرزو کے آبگینے بکھررہے ۔۔یہ جو چمک دمک کے سفید پتھر ہیں۔۔نور کے ہالے سے چمک رہے ہیں ۔یہ جو آئنہ ہے وہ مکمل ہو رہا ہے ، وہ آئنہ ، وہ رنگ ، وہ جمال کے رنگ ! وہ کمال کا نگینہ ، محبوبیت کی پوشاک ،۔۔ یہ جلال کے رنگ ،  ، یہ حجابات اوڑھنے کے سلیقے  ،  ، یہ جلال و جمال ، یہ سرسبز رنگ  ، یہ رحیمی ، یہ کریمی کی نشانی ہے 

 حق ھو ! حق محمد ! حق علی ! حق حسین ! حق حسن ! حق فاطمہ ! حق عائشہ ! حق خدیجہ ! حو ابوبکر ! حق عمر ! حق عثمان ! حق ابو ذر ! حق ! طلحہ !  یہ جلال و جمال کے رنگ ، یہ کمال کے رنگ جو میرے حسین کے پاس ہیں ،  یہ جمال کے رنگ ہیں جو میرے حسن کے پاس ہیں ، یہ جو جمال و کمال کے رنگ ہیں وہ میری فاطمہ کے پاس ہیں ، یہ جلال ، یہ کمال ، یہ جمال ، یہ ملال ، یہ رحیمی ، یہ کریمی ، یہ جبروتی ، یہ ملکوتی ! یہ شہنشاہی ! یہ فقیری ! یہ رنگ میرے علی کے پاس ہیں ! یہ جو جمال ہے ، یہ رحیمی ہے ، یہ کریمی ہے ، یہ جبروتی ہے ، یہ کمال ہے  جو میرے ابوبکر کے پاس ہے ، یہ جلالت ہے ، یہ کمالی ہے ، یہ قہاری ہے ، یہ جباری ہے ، یہ شہنشاہی ہے ، یہ حشمت، یہ شوکت و  شاہی  یہ میرے عمر کے رنگ ہیں ، یہ حلاوت ، یہ متانت ، یہ لطافت ، یہ کرامت ، یہ جمال ، یہ فقیری ، یہ نرم خوئی ، یہ رحیمی ، یہ نوری رنگ ، یہ میرے عثمان کے رنگ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے سیدہ ! میری خدیجہ ! کیا ہے آپ کی خوشبو ! بزرگی ، جلالت ، حشمت ، محبت  کے رنگوں میں رنگی ہیں روح آپ کی مبارک ، میری فاطمہ ! میری فاطمہ ! میری تاجدار ! میرے دل کی مالک ! اے میری فاطمہ ! اے میری فاطمہ میرے دل میں آپ کے الفت رنگ ! آپ کے نام سے دل کے اترے زنگ ! بہنے لگے سب چشمے ، ملنے لگے مجھے نئے رنگ ! دل کی زمین اب کہ نہ ہو کبھی تنگ ! اے فاطمہ ! اے میرے رسول کی بیٹی ! کیا کیا رنگ ہیں آپ کے پاس؟ کیا کیا نہیں ہے آپ کے پاس ! علم کا جھنڈا ! فقر کی بادشاہی ، شہنشاہی میں جمالیت کا وظیفہ! قہاری ، ستاری ، جباری ، مختاری کے رنگ سے نکلنے والی شعاعوں نے دل کو منور کردیا ہے 



زمین نے فلک سے کہا اللہ ھو۔۔چاند نے سورج سے کہا اللہ ھو۔۔طیبہ نے کعبے سے کہا اللہ ھو ۔۔موت نے زندگی سے کہا اللہ ھو۔۔صبح نے رات سے کہا اللہ ھو۔۔رات نے شام سے کہا اللہ ھو۔۔ستارے نے آبشاروں سے کہا اللہ ھو!۔۔کہکشاں نے خالق سے کہا اللہ ھو!۔۔خالق نے سب سے سنا '' اللہ ھو ''۔۔کن-- فیکون کی صدا سب نے سنی!۔۔قالو بلی کا آوازہ رفعتوں سے گرا !۔۔اللہ ھو ! اللہ ھو ! اللہ ھو! اللہ ھو!۔۔حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! ھو ! ھو!۔۔نیا خاکی ، نیا خمیر ! بنا ہے اک نیا وجود۔۔حق  ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو!۔۔وہ عکس صبح کی مانند روشن ہے ، ۔۔وہ عکس جس میں پلی فقیری ہے۔۔وہ عکس عیسی کی مانند شفاف ہے۔۔وہ عکس  محمد ﷺ کا پرتو ہے ۔۔ وہ عکس  ولایت کی امانت ہے۔۔مبارک ان نیک ساعتوں کو مبارک ہو۔۔مبارک ہو یہ قہاری کی علامت ہے ۔مبارک ہو کہ جبروتی کی علامت ہے ۔۔مبارک ہو کہ ملکوتی کی دلالت ہے۔۔مبارک ہو کہ امین کی امانت ہے۔۔مبارک ہو کہ صدیق کی صداقت ہے۔۔مبارک ہو کہ جذبِ حق کی ضمانت ہے

رازدان

 

رازدان

رازدان ہے وہ ... عرش کا رازدان ہے کہانی کا عنوان ہے، کہانی میں الہام ہے. طائر کو بوقت پرواز کہا گیا تھا کہ ید بیضا تھام لے. اس نے راستے طے کیے وہ جہاں جلوہ فرما تھا. وہ جگہ پانی میں تھی. پانی سے وضو کا طریقہ پوچھا تو جگہ نے کَہا،  راز ہے!  راز ہے!  راز ہے!  بات بات میں راز ہے اور راز میں بات پتے کی ہے، پتا بھی ہلتا ہے گواہی ہے اعمال کی اور شجر نیتوں کے وضو سے پروان چڑھا ہے. اندر بڑا پانی ہے،  یہ خیال میں اک سچ ہے اور سچ حق ہے اور حق رب ہے. رب ہم سب میں ہے مگر ہم سب رب میں نہیں ہاں اس سے ہیں. ہمارا ڈھانچہ خاکی،  ہماری روح نوری، ہماری فکر وجدانی،  کرو ذکر قرانی،  واقعہ ہے ہر اک سبحانی،  جذب آیت آیت ہے اور یہی روایت ہے. جذب اور جاذب بن،  جذب ہو پھر جاذب بن،  جذب ہو پھر جاذب بن 
یہ پتوں اشجار کی بولی ہے 
یہ چلمن سے اسرار کی بات 
یہ واللہ ہے اعتبار کی بات 

ترجمہ تفسیر قران اک ذات ہے،  ذات نقطہ ہے، نقطہ بحر ہے اور بحر سبحانی ہے،  سبحان کی نشانیاں ہیں رحمان کی وساطت جیسی کوئی مل جائے ریاست،  جب آنکھ چلی جائے تو منانا کیسا؟ جب ذکر پھیل جائے تو مرنا کیسا؟  جب جاودانی کا سفر ہو تو رکنا کیسا؟  جب انجیل تمنا پریشان کرے تو مایوس ہونا کیسا 

التباس میں حقیقت ہے اور طریق رہ حق التباس ہے جیسے جیسے ہم.شعور کی گہرائ میں اترتے ہیں ہم جان لیتے ہیں اس کی مملکت میں انسان کا ذکر نہ تھا اب ذکر ہے. انسان آپے آپ اپنا ذکر کر ریا او رب نے ذکر کرن نہ دیوے. کج تے کریا جانا چاہی دا
تعلق میں آشنائی ہے،  آشنا تجھ میں ہے اس لیے تعلق خود سے بَنانا ہے. سچا مرشد سچل سائیں ہے.  شاہ کے لیے تحفہ درود ہے. اسم محمد خود اک قطب ہے جس میں کشش ساتھ ہے. کشش کے کناروں پے آجاؤ، کنارے لگ جاؤ گے،  قوت ہے اس میں ہے جس قوت سے ہمارے دلوں کو توحید سے پاک کیا ہے وہ مثال سے پاک ہے مگر اپنی مثال خود قران میں دی ہے. اک طرف کہا لیس کمثلہ شئی تو دوسری طرف کہا کہ مثال بمانند طاق جس میں ستارہ اور ستارے میں نور اور جو نور علی النور ہو جائے اسکی کیا بات ہے؟

نشان

 

نشان

اللہ فرماتا ہے فلاں چیز میرا نشان ہے اور یہ میرا نشان ہے تو ظاہر کہ وہ کبھی ظاہر ہوا ہوتا ہے وہاں جیسا کوہ طور کی مثال آسانی سے سمجھائی جاسکتی ہے انسان کا دل کا قالب ایسا ہے وہ شہید ہے ہم مگر شاہد بنتے نہیں. سورہ حشر میں اللہ پاک اپنے لیے ھو الشہید کا لفظ فرماتا ہے میں نے یہ لفظ خود سے نہیں سوچا بلکہ غور نے اس درجہ کو فکر دی کہ وہ آپ میں شہید ہے مگر انسان کو وقعت اتنی بڑی دے دی اور انسان نے شہادت نہ دی. امام حسین نے شہادت دی تو کیسے مکمل نفی ہوگئی اور کہہ دیا یا اللہ میں شہید تو شاہد ...بس یہ ھو الشہید سے ھو الشاہد کا سفر ہے جسکو  ہم کلمہ کہتے ہیں لا الہ الا اللہ 
باطن میں نور ہے اس نور کی مثال سمجھیں شجر کی سی ہے قران پاک میں شجر زیتون کا ذکر ہے اور یہ زیتون کا درخت ملحم شدہ شاخوں سے منسلک ہے یہ الہام کی رم جھم ان شاخوں سے بمانند شبنم نمودار ہوتی ہے یہی عرش کا پانی ہے اس سے شجر کا وضو ہوتا ہے مگر اسکے لیے پاکی لازم یے نیت کی پاکی نیت بھی انسان کی خود کیساتھ ہے غرض انسان کی اپنے ساتھ ہے انسان کو خود کیساتھ خالص ہونا ہے خود اچھی سوچ کا عامل ہونا یہ زبان کے رٹے دل کی صفائی نہیں بلکہ عمل کا وظیفہ اصل طریقہ ہے جس سے سارے حجابات ہٹ جاتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے کہ منصور کہہ دیتے ہیں انالحق. وہ مجذوب تھے اس لیے جذب ہوگئے اس مقام میں. اب وہ کہتے رہے لوگ پتھر ماریں یا پھانسی دیں فرق کیا پڑتا سرمد کاشانی نے لا الہ کا ورد کیا الا اللہ ہو نہ سکا کہ اپنی نفی کے مقام کے مجذوب تھے مگر جب مرے تو شان خدا دیکھیے اثبات ہوگیا سر کٹا کے کلمہ پڑھنے والے سرمد کاشانی کیساتھ اللہ ہوا. اللہ نے ہمیں شعور دیا ہے خواہشات دیں اور ساتھ اپنا آپ دیا. تقدیر کے پہیے چلتے ہیں اور وہ ہمیں ارادہ ء کن سے نوازتا جاتا ہے ہم کہتے ہیں گھر بنالیا کیونکہ ارادہ تھا اور جادہ اس نے نہیِ ہم نے ارادہ سے بنایا اور یہ ارادہ یہ نیت یہ طاقت کہاں سے استعمال ہوئ باطن سے. باطن کی قوت سے خارج کے کام ہو جاتے مگر باطن کی قوت سے باطن کے کام مشکل لگتے ہیں دعا ہے کہ اللہ ہم.سب کو جذب حق عطا کرے وہی ہے جو نواز دے گدھے کو تو اسکی شان وہی جو شاہ کو گدھا کردے وہ یے جو چوڑے کو اختیار دے وہ ہی جو سالار کو بھکاری کردے ہم بس یہ کہتے رہیں نمی دانم نمی دانم نمی دانم حق گویم حق گویم حق گویم 

خدا کی بات

 

خدا کی بات

خُدا مجھ سے مرے لیے ہم کلام ہے،  تم نے سمجھا کہ یہ تمھارا کلام ہے! ہاں یہ گفتگو کچھ عام ہے،  ہم میں دھڑکتا ہے مگر عام نَہیں. تم اسکا استعارہ تو ہو مگر تم خدا نَہیں ہو. میں گنہ گار ہوں مگر قرین ذات ہوں. یہ الوہی کیفیت ہے نا اس میں سچ حقیقت بن کے سامنا آجاتا ہے. تم دیکھو اس نے کتنے اداکار بنائے مگر صنعت اک سچ کو ہے وہ خدا ہے. خدا دل میں اتر آئے سچی گواہی بن کر تو اے مرے دل مت جھٹلانا. وہیں بمانند سنگ سجدہ ریز ہوجانا

خسرو  پیا لامکاں میں نشان ہے، صابر پیا  خدا کا وجدان ہے، من آشکارکر، رگِ نہا میں بستے کردار ہیں یہ ... خزانہ ہے!  یہ بَہانہ ہے! یہ یارانہ ہے!  یہ نذرانہ ہے!  یہ ہستیوں کا کیف ہے!  یہ نشاط ہست کے سائے!  وہ دور سے بلائے! کون؟  وہی جو پاس ہے! کتنا پاس؟  اتنا کہ بس سانس کا ردھم آری چلاتا ہے. تو روک دو سانس!  لاشریک لہ

کبھی لا الہ الا اللہ کہا؟
کَہو 
نہیں کہہ سکتی 
کیوں 
جذب نفی نہیں الا اللہ کا اثبات کیسے ہو 
رگِ باطل کاٹ ڈالو 
فنا کتنا دشوار ہے گویا اشکوں کا ہار ہے، یہ گیت سنگھار ہے، یہ ذات سے پیار ہے 

تو نہ کر ذات کی پریتم، تو ہو جا اس ذات کی، کر نفی ہو اثبات کی ..چل درودں کی دستار پرو، چل اشکوں سے ردھم لا،  چل لامکانی چل ..حق لامکانی ھو ...
حق ترا وجدان جو ترا مہمان ، میری رگ رگ میں نسیان 
تو عرق نیساں کا شفاف موتی، تری ذات میں مدوجزر کا استعارا ہے ڈوبتا کنارا گویا چاند ستارا 
افلاک کی گردش تھم گئی ...تھم گئی ..رک گئے ماہ سال ...رک گئے طوفان ....
گرج رہے تھے بادل،  اتر رہی تھی کرسی، بکھر رہے تھے بادل، کڑک رہی تھی بجلی اور پگھل رہے تھے پہاڑ ..حشر ..وضو ..حشر ..وضو ..حشر ..وضو ..یہ کیا ہوا؟ چاند ہے رات ہے!  بڑی سوغات ہے. اسکی کیا بات ہے جس میں جذبات ہے. اللہ کا نعرہ الا اللہ کی تار میں ..حق سبحانی ھو ..حق کی زبان ہے یہ حق کی ترجمان ہے یہ آیت کاشان ہے دل میں مہمان ہے بندے بڑے انجان ہیں.شاید کوئی قربان ہے مگر رہتا انجان ہے ..کون مہربان ہے 
وہ کبریاء جاناں 
وہ شیریں شہد 
وہ میٹھا میوہ 
وہ گفتار حیرت 
وہ روشنی ہے 
ہاں روشنی ہے

پتوں سے پوچھو 
اشجار سے پوچھو 
انوار سے پوچھو 
کیا کیا پوچھو گے؟

کرسی ... لا الہ الا اللہ ھو الحیی القیوم 
یہ جلالِ وحدت ہے، یہی جمالِ شیریں ہے، یہ رسم سخاوت ہے، یہ دل کی عداوت ہے. یہ معاملے ہیں جب کہا گیا 
امروز میں کیا ہے 
کہا ترا جلوہ ہوگا 
فردا سے کیا لو گے 
کہا تو.ہی تو ہے 
من کنت ربی 
ہاں ہاں تو.ہی مرا سائیاں،  دل دیتا ہے دہائیاں 
صورت دیکھی مری؟
من آیتِ وجہ اللہ 
من رویت وجہ اللہ 
ھو رویتی؟  
حق اللہ 
اللہ واحد ہے!  اللہ عالی ہے اللہ عارفوں کی زمین کا آسمان ہے اور ہر عارف کی زمین کے آسمان عارف ہی ہیں. یہ ساری کہانی ہے ...لن ترانی سے من رانی کا.سفر ہے ..جسے دیکھا اسے دیکھا کہ مازاغ چشم سرمگیں محبوب کبریاء صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم کی ہے حق سے پایا وہ نشان ہے جس کے نشان ہیں ارض و سما

یا زہرا

 

یا زہرا

اسے ہے خواہش کہ پا لے ردائے محبت کو،
اسے ناز ہے کہ ملے گی مراد مدام شوق کو،

اک بات اہل چمن سنیں گے،  سنیں گے تو محبت پر یقین کرنے لگیں گے،  وہ حَیا کے مارے دل میں جھانکیں گے اور ہائیں گے کہ دل تو مجسمِ حَیا ہے.

ع: میں ہوں زَمین اور مطلَعِ انوار فاطــــــــمـــــہ  رضـــــــ

جب حَیا سے سامنا ہو تو نور کو کہنا چاہیے سلام!  سلام!  سلام!  جب سامنے ہو لفظِ فــــــاطــــــمہ رض، تو رقصِ قلم نو سے نکلیں گے ایسے بوٹے کہ فنا ہوجانا مقدر ٹھہرا 

طریقہ سوچیے کیا ہوگا؟ طریقہ ء وضو کیا ہوگا؟ طریقہ ء چشمِ نم کیا ہوگا؟ طریقہ بہ ہدایت کیا ہے؟ طریقہ تسلیم کیا ہوگا؟ طریقہ اطاعت کیا ہے؟

جوابا دل نے کہا محبت!  محبت!  محبت 

محبت کے داعی سے پوچھا میں نے کہ آسمانی جذبے کو زمین پے اتار دیا؟  
زمین تو بام فلک پہ ہوگی گویا!  
زمین کو اور کیا چاہیے ہوگا؟  

طریقہ وفا تو یہی ہے کہ جو وہ کہے وہ تو ہوجا 
وہ کہے پتھر ہوجا، تو کن سے کنم کا سفر ہوجا 
وہ کہے فلک پہ آجا تو بس فلک پر رسا نالہ ہوجا 
وہ کہے جانِ عندلیب ہو جا تو عندلیب کی جان ہو جا 
طریقہ کہتا ہے رقص کر تو بسمل کا رقص ہو جا 
طریقہ کہتا ہے کہ چراغ ہوجا، تو روشنی ہو جا 
اگر وہ کہے تو کیا ہے؟ کہہ دے نمی دانم کجا رفتم فنا گشتم 
اگر طریقہ کہے کہ فنائیت کیا ہے تو کہا تو ہے، نہیں ماسوا ترے 
طریقہ کہتا ہے شجر سے حجر میں چھپے اخفا راز کو دیکھ 
تو لفظ میم کی تسبیح ہوجا 
طریقہ کہتا ہے دیکھ بادل برستا ہے تو لفظ حـــــــ سے یــــا سے الــــف ہوجا 
طریقہ کہتا ہے حیا ہو جا تو عـین سے مـــــیم ہوجا 
طریقہ کہے کن  ---- کنم کنم در گدائی بہ فدا زہرا  

زہرا ----- زعشق فاطمہ دل فگارم است 
ایں نیستی بہ ہوش را -- دید کو می خواہد 
زہرا ------ جبین دل بہ نیاز مند، بہ چراغ کشتہ روشنی درکار 
زہرا -----  نے خرد سے بنے، کام عشق میں کارجہاں دراز است 

میں طریقہ ہوں میں سلیقہ ہوں 
مجھے جلایا گیا عشق میں 
مجھے رلایا گیا ہے پیار میں 
درد نے مجھے قوت اظہار دی 
حسن منم بہ عروج فلک است 
میں حاصلِ تمنا کا عین ہوں 
میں دید ہوں، رات کا چاند ہوں 
شکار ہوں،  اسکا شہکار ہو کے 

نذرانہ جب دیا جاتا ہے تو فتح مل جاتی ہے. پوچھیے فتح کیا ہے؟ بخدا قسم ذات کی جس کے قبضے میں مری جان ہے کہ کن کی طاقت مل جاتی جب فتح روح پر ہو.  "زیر "ہے انسان اور "زبر "ہوجاتا ہے.  "زیر سے "زبر "کا فرق جاننے والے کہہ دیتے ہیں نفس حجاب ہے بس وہ خود سے ہم کلام ہے وہ خود پکار رہا ہے،  وہ خود حسن کے شہہ کار پہ محو حیرت ہے. یہ میں اپنے پر خود حسن کی شیریں گفتگو نہیں کر رہی بلکہ وہ اپنی گفتگو خود کر رہا ہے. وہی ہے ہر جگہ. اے خدا ہماری روح کی "زیر "کو نفس پر "زبر " کردے آمین

لفظ خالی جام خالی

 

لفظ خالی جام خالی

لفظ خالی، جام خالی،  سب ہے خالی، دل بھی خالی، مندر من میں سمائی اک صورت --- ھو 
جیہڑی صورت نال ملے تے تار وجدی دے -- ھو 
میں ناہی، اوہی کہندا رہندا اے --- تو ہے جا بَجا 
کنجر دے دل وچ دیون بلدے ویکھے 
ملاں نوں سیاہی پھڑے مکداویکھے 
کج مینوں پلے نہ پَیا اس دنیا دے چکراں اچ 
چکر پڑن تے بی بی جیواندی سانوں یاد آون 
شاہ جلال دے فقیر نوں ملیا فقیری رنگ 
شاہ جَلال نے دیا سانوں کاسہ ء نور 
جیہڑی خوشو نے کیتا من مخمور 
مکان وچ ---لامکانی دا نوا سویرا -- ھو 
مقامِ دل میں جناب سیدہ زہرا رض کا پہرا 
مہجوری ہے!مجبوری ہے!رمز کیا رکھی ہے!
پی رکھی ہے!، نَہیں پلا دی گئی یے!
راج جنہاں دے ہے راجدھانی خدا وچ 
کون میں؟  بس اوہی چار چفیرے بانگاں مارے --- ھو 

کَریم نے جام سے نوازا 
گدائی کا مل گیا ہے کاسا 
میں شناسا سے ملن چلی 
شناسا من دیپ اچ ہے 
ملن دے گھڑی اچ ملن دی مثال نہ لبھے 
جیوں اس دی خدائ اچ میں نہ لبھاں 
اوہدی رمز انوکھی اے 
دنیا دی مشقت چوکھی ہے 
چلہا پھونک دل نوں جلایا 
من دی بھٹی اچ فرقت نوں پکایا 
فراق نے کیتا سانوں لال و لال 
لعل دی لالی وچ ملیا نگینہ ء یاقوت 
یا حسین کہندے رکھیا دل نوں قنوت 
قبور پہ حاضری ہے اٹھیں گے طیور 
حاضری ہے!  یہ حاضر ہے طائر بہ سوار 
کمال نے رکھی اسکی خوب مثال 
یہ دل مرا ان کی طاق میں جلا ہے 
مجھے شہ کے سوا کون ملا ہے 
شہ عرب کی مہک سے بنا دل مخمور 
دل میں وَجد سے وجدانی لہر کا ظہور 
اللہ اللہ اللہ رے - آنکھیں ہیں پرنور 
یہ جلوہ ء طور ہے،  یہ شمع کافور 
یہ ہادی سے ولایت، یہ ہے  امانت 
یہ نماز وفور ہے،  درد ضرور ہے 
دل مرا مجبور ہے دل مخمور یے
دل کافی ہے جس درد میں شفا ہے 
دل بہ مانند ادعامنظورِ دعا ہے 
دل کو ملا ہے سندیسیہ اک 
چراغِ حُسینی ہے کوئ کہاں 
یہ دل بہ لب موہوم سی دعا 
ان کے در پہ کھڑا ہے کوئی 
دست مقبول دعا کا ساتھ ہے 
میں نے پیش کیا نذرانہ 

یاحسین کہنے سے دل کہاں رکے گا 
یا حسین کہنے سے رات کب گئی ہے 
یا حسین کہنے سے حسن بڑھا ہے 
یا حسین کہنے سے لگن مگن ہوئی 
یا حسین کہنے سے سجن ملن ---- ھو 
یا حسین کہنے سے جلال کا رنگ 
یا حسین کہنے سے حال ہے سنگ 
یا حسین کہنے سے مجال کو زنگ 
یا حسین کہنے سے خیال بہ رنگ 
یا حسین کہنے سے جوت کی اٹھن -- ھو 
یا حسین کہنے سے سوت مرا کتن ----ھو 
یا حسین کہنے سے موت بہ حق --- ھو 
یا حسین کہنے سے پروازِ  گگن ----- ھو 

موجہ  ء صبا نے سلام کیا، کہا یا حسین!  خدا کا عین جلال!  علی حیدر کرار رض کے شہسوار،   رنگ لایا گیا، نور سمایا گیا،  کبریاء جاناں دل میں، میں رنگ نشاط سے شاہی کا سوار ہوں، میں کعبہ ء دل میں حجازی لگن میں مگن اک سگ!

شاہ جلال

 

شاہ جلال

شاہِ جَلال سُرخ پوش ثانی ء حیدر کَرار سے مل رہے ہیں اشک کے وظائف!  بڑے دل سے ملا ہے اک ذرے کو،  ذرہ ء خاکِ ناسوت کب معرفتِ شاہِ سرخ جلال الدین کی کَر پائے ہے، یہ نامِ حُسین جو چرخِ زمن پہ روشن ہے، اسی لعل کے لال ہے مخدوم جَہانیاں جَہاں گشت!  

شاہِ جَلال سرخ نگینہ ہیں ، شاہ جَلال لعلِ یمنی ہیں،  یہ ضوئے حُسین! یہ بوئے حیدری!  زمین پہ موتیا کی خوشبو سے ہوا اوج چمن کو نکھار، یہ بہاراں ہے! یہ نظارا ہے!  یہ.راز برگ گل و سمن ہے!  یہ راز نہاں یے کہ.عیاں ہے اک راز! بس راز خفتہ کو ظاہر پایا ہے کون جانے کون جانے کون جانے بس رب جانے بس رب جانے

تَڑپ سے آدم کو مِلا قَرار کیسے؟ منتہائے اوج جستجو پے وجہ تخلیق بشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے رشنائی پائی!  نہ ہوتے آدم تو میرا جُرم جَفا، کیسے ٹھکانا پاتا؟  
مجھ کو آسر جد سے ہُوا، خطاوار کو ملتی.رضا ہے
یہ ہاشمی قبا ہے، جو سر پر رِدا ہے، یہ حَیا سے وفا ہے 
کون جانے کس کی لگن میں آس کے سوت کتن جاوے مری روح!  جو جانڑے،  وہ حال دل سے باخبر ہیں مگر مخبر اپنے دل کو راز نہاں سے عیاں سے کہاں تلک کی رسائ سمجھ  لگے، کریم ان کی صدا ہے

شاہِ جَلال سُرخ پوش ثانی ء حیدر کَرار سے مل رہے ہیں اشک کے وظائف!  بڑے دل سے ملا ہے اک ذرے کو،  ذرہ ء خاکِ ناسوت کب معرفتِ شاہِ سرخ جلال الدین کی کَر پائے ہے، یہ نامِ حُسین جو چرخِ زمن پہ روشن ہے، اسی لعل کے لال ہے مخدوم جَہانیاں جَہاں گشت!  

شاہِ جَلال سرخ نگینہ ہیں ، شاہ جَلال لعلِ یمنی ہیں،  یہ ضوئے حُسین! یہ بوئے حیدری!  زمین پہ موتیا کی خوشبو سے ہوا اوج چمن کو نکھار، یہ بہاراں ہے! یہ نظارا ہے!  یہ.راز برگ گل و سمن ہے!  یہ راز نہاں یے کہ.عیاں ہے اک راز! بس راز خفتہ کو ظاہر پایا ہے کون جانے کون جانے کون جانے بس رب جانے بس رب جانے

تَڑپ سے آدم کو مِلا قَرار کیسے؟ منتہائے اوج جستجو پے وجہ تخلیق بشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے رشنائی پائی!  نہ ہوتے آدم تو میرا جُرم جَفا، کیسے ٹھکانا پاتا؟  
مجھ کو آسر جد سے ہُوا، خطاوار کو ملتی.رضا ہے
یہ ہاشمی قبا ہے، جو سر پر رِدا ہے، یہ حَیا سے وفا ہے 
کون جانے کس کی لگن میں آس کے سوت کتن جاوے مری روح!  جو جانڑے،  وہ حال دل سے باخبر ہیں مگر مخبر اپنے دل کو راز نہاں سے عیاں سے کہاں تلک کی رسائ سمجھ  لگے، کریم ان کی صدا ہے

دوست نے چھیڑا راگ

 

دوست نے چھیڑا راگ

دوست نے چھیڑا ہے راگ،  کردی ہم سے ساز باز، نم آنکھ سے کُھلا راز، ہم نہیں تھے، وہ تھا پاس پاس. رُلا ڈالا یار نے ہمیں جان لیا کہ راز میں راز رہا تھا. --------------

 شمع سے نروان لینے چلو، چلو نروان مہنگا ہوجانا!  اٹھو!  اٹھو!  اٹھو کہ مندر سونا نہیں ہے!  اٹھو --------  وہ ہماری رگ رگ میں پکار رہا ہے کہ شام الوہی الوہی ہے

رات کا سونا پن کس نے دیکھا تھا رات چلی محبوب کے پاس، ---------محبوب نے جان لے لی کہ جان تو باقی تھی. جب قطرہ قطرہ نیچے گرا تو کہا تھا

اشھد ان لا الہ الا اللہ

حق کی شہادت تھی، وہی لگا ادھر ادھر ...حق نے آواز لگائی------------ ..سن!  من نے کہا کہ  کس نے کہا،------- سن!  یہ زمین ہلتے ہلتے بولی کہ سن!  یہ جو مٹی ہے بکھر کہ کہہ رہی سن!  یہ جو کاسنی بیلیں ہیں، لہر لہر کہ لہکتے کہہ رہی ہیں سن!  سن!  سن !

ارے ہم کیا سنیں ریں!  بتا تو سہی!  کیا سنائی دیا نہٰیں کہ حق جلال میں ہے!  حق نے کہا تھا ساز الوہی یے! حق نے کہا تھا چشمہ الوہی ہے حق نے کہا تھا عشق کی لا ضروری ہے
تب سے ہم نے  کب تھا مڑ کے پیچھے دیکھا!  

جا کے بیٹھ گئے اس کے در پر!  درد درِ اقدس پہ بَہائیے....... کیونکہ حق تو ہی تھا درد،  درد نے ہم کو حق کی گواہی سے ملا دیا. خون کا قطرہ قطرہ شہادت سے شاہد ہوا ..حق میں صامت ہوا

یہ کیا کیا ہے!  یہ ہم کس نگر چل دیے ہیں!  یہ سازش کس ستار کی ہے!  یہ آگ آگ سی ہے جو ہم نے ہاتھ میں اٹھا رکھی یے!  یہ کشتی کیا ہے جو چل رہی اور اسکا سفینہ فلک تک چلا گیا گویا فلک خود زمین پہ آگیا ہے

عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت کا حال ہے 
عشق سرمہ ء وصال ہے 
عشق کے بازی کھیلو یم.سے

ہم.تو عشق کی لاگت میں مورے نین سے نیناں ملائے کھڑی رے!  عشق کی لاگی نے بجھائی نہ آگ،  جلا ڈالا جنگل سارا ..ہائے!  یہ ہوا حال کا حال! کمال چھاگیا ہے!  حال آگیا

ہم تو مجنون تو تھے نا رے!  ہم تو لیلی کی مانند حسن میں شامل تھے!  اب ہم کہ فنائے حال میں کمال کو ہے! جوگی کو دیکھے کون؟ جوگن دیکھو سارے!  لوگ لوگ گئے شہر شہر بھاگن!  دیکھن کہ سبز سبز مور سے کیا ہے لاگن!  ہائے لگن کی چنز نے مار ڈالا ...مار ڈالا

ہم تو مرگئے!  ہم تو فنا ہوئے رہے!  چاہے لگن میں سایہ افگن وہ بالِ میم سے آشنائی کس فلک کی جانب گامزن کردے

. ہم کو چاہت کے الوہی راگوں میں مگن کرنے والے پیا!  آجا!  دل میں سما جا!  آجا ہم سے نین ملا نا!  نین کی بازی کھیل نا!  ہم تجھ کو تو ہم کو دیکھ  کے جی لیں نا!  آ ہم سے کھیل!  یہ ہماری شوخ نگاہ ہے کہیں کھیل میں آگ پھیل نہ جائے!  جل جائے رے تو!  ہمارا من ہے تو!  ہماری آس میں جانے کس کس نے دیے توڑ دیے اور ہم نے تجھ کو اپنا دیا بنا دجا
 
خوشبو جلنے لگی ہے!  اووووو خوشبو پھیل رہی ہے

مدھم مدھم سی خوشبو نے سرمیٰ حال کردیا یے!  کاشانہ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیام سے کمال کی جانب اترنے والے الہام سے پوچھو کہ کس جانب جانا ہے اب تو طیبہ والے بھی منتظر ہے کہ سوار کو سواری مل چکی ہے!  یقین کی کونسی منزل ہے جس کے سب گمان حق میں بدل رہے 

جھکاؤ نظریں سب!  ادب!  ادب!  ادب!  درود!  درود!  درود!  حد ادب!  سرکار کا جلوہ ہے!  درود حال دل میں مقیم عالی پناہ ہستی پر  ...حق درود کی واج سنو ..نئی منزل کا آغاز سنو!  شام سے رات کی مثال سنو!  اختلاف لیل نہار سے وصل و ہجر کے بار سنو!  خاموش!  حد ادب!  ذی پناہ موجود دل میں!

کیسی گواہی چاہیے تھی!
الوہی ذات سے منسلک چشمے ہیں سارے ...
کوثر سے منسلک ہیں پیارے ..
یہ جو کعبہ دل میں ہے اب یہ منبر بنے گا 
یہ جو حرا کی شام ہے، رات میں ڈھلے گی 
یہ جو نوح کا قصہ، اک نئے آغاز میں ملے گا 
یہ جو ماتھے پہ نور کا نشان ہے، یہی حق کی گواہی ہے 
حق کی گواہی ہماری گواہی ہے
کاتب دل  کو اور کیا چاہیے؟
یہ فیض نور سے جاری چشمے ہیں ..
نور ہم سے منسلک اک ایسا چشمہ ہے، جو ہمارے نگاہ میں شامل رہتے کاملیت پہ گامزن ہے ..
اور کیا چاہیے ...

حد ادب!  بندگی میں سرجھکا رہا!  بندی غلام! شکرانے کے نفل ادا کرے گی!  حبیب نے کیسے یاد کیا ہمیں!  زہے نصیب!  زہے نصیب!  زہے نصیب!

نیلم کی کان ہی تمھاری ہے، کان کنی تم نے خود کرنی ہے!  ہم نے تم کو ایسے جبل کے لیے منتخب کیا ہے!  یہ تمھارا دل ہے جو نیلا ہے! اس کو سرخ ہم کریں گے!  حسینی لعلوں سے ...
رکوع!  رکوع!  رکوع ...
آقا جاتے ہیں .. آقا جاتے ہیں!  آقا جاتے ہیں ...
سر نہ اٹھے، مقام ادب ہے!  سر نہ اٹھے!  نہ نہ ...خاموش ...درود!  حد ادب!  خاموش!  درود!  دل کا جلا ہے،  یہ رات کا ڈھلا ہے، یہ شامی لباس ہے، یہ خونین پوشاک ہے!  یہ حسن کی یلغار ہے،  یہ روشنی کے لیل و نہاز ہے! یہ مصر کا نیل ہے،  یہ احرام دل میں آیت مقدس کی تلاوت ہے، دل صامت ہے، روح کو چاہیے لباس برہنگی، رکھ لے آس کی تلوار ننگی، شام سلونی ہے، رات نورانی ہے اور جھک کہ کہہ رہے 
.

رنگ لگا دے اور 
چنر پہنا دے اور
دل کا وضو کرایا 
جلوہ کرادے اور.
چنر کی لاگن ہے 
دل دیاں صداواں 
آجا ماہی، بے کول 
دل مرا وڈا انمول 
ساڈا دل رولیا گیا
آہاں وچ تولیا گیا 
فر تو ایڈ اچ آیا 
ھو دا ساز وجایا 
وجی تری ھو دی تار
الف دی گل کریندے آں
شام سلونی ویندے آں
ساڈا پیر مصطفی سائیں 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
وزیر جس دا علی سائیں 
مورا رنگ اچ تُواِں ویکھن

ماہی نے تماشا لایا اے،کنگنا پایا سی، لہو گرمایا سی ---ام سلونی سی، اکھ من موہنی.سی، اکھ ہن رکھ میڈےتے،ویکھدا رے میڈا رقص، ہر حرف اچ علی دا عکس،ہر صدا وچ ھو دی سج دھج
ہر رنگ میڈا محمد کریندا اے،جوگن کیتا مینوں تیڈے عشق نے

کنگنا پایا سی،
شہنائ وجی.سی
رات لگی سی 
شام کتھی گئ 
الف اللہ دی آئ 
ایہہ ساڈی کمائ
لائ وی گئی اے
نبھائ وی گئ اے

دل کا حال تجھ کو بتاتے ہیں ،راز سر تا دل تجھ کو بتاتے ہیں، سِر نہاں!  تہہِ جامہِ دل پنہاں!  تو .... تو ... تو ...گُم ہوتی ذات میں موج کی صدا میں تو،  دریا تو! بحر تو! نمی نمی!  بوند بوند دل پہ گرے! بوند کی صدا میں تم! شبنم نے ہرا گھاس تازہ کردیا!  تازہ تازہ شبنم میں تو! میرا عشق! 

میرا ستار!  اللہ ھو!
میرا قہار!  اللہ ھو 
میرا قدسی!  اللہ ھو!
میرا سامع!  اللہ ھو 
میرا قاری!  اللہ ھو!
میرا ہادی!  اللہ ھو!
میرا مسجود!  اللہ ھو!
میرا قبلہ!  اللہ ھو!
میرا نور!  اللہ ھو!

 
عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت

فقیر مرد حُر

 

فقیر مرد حُر

کھو جائیں کیا؟ لہر لہر دریا بحر ہوجائے کیا؟ ہستی کھو گئی میاں. زندگی سوگئ میاں. آدمیت سے رشتہ کیسا، ھو سے ہے یارانہ، جب کوئی ملتا ہے پرانا، کہتا ہے چل آ ہے یہ ویرانہ! ھو! ھو! ھو! اک تری ھو نے سنبھال رکھا ہے، جیوں کیسے؟ جینا مشکل میں ڈال رکھا ہے. یونہی تو جینے میں کمال رکھا ہے ہستی کا جو جلال.رکھا ہے! اے ہم نشین دیکھ مرا عکس! دیکھ مری.چال! دیکھ مرا رنگ! دیکھ مرا ڈھنگ! کہ اللہ.ھو اللہ.ھو اللہ.ھو

یہ کیسا ہے عکس جلال؟  
کیا اس میں ترا  کمال؟  
وہی ہے رب ذو الجلال 
جس نے دی.یہ مثال 
دیکھ تو اپنا یہ حال 
کیسی ہوگئی ہے چال 
دل مٹنے کا ہے سوال 
آنکھ بہنے کا.ہے ملال
تو ہی مرا رب ذو الجلال 
حق!  حق!  حق!  حق

حق ہے، سچ ہے! 

 نور سے ملنا، کیا سعادت ہے!
نور سے ملنا ہے بس اسلیے زندہ ہیں 
زندہ ہیں کب کے مرگئے ہیں آرزو میں 
آرزوئے ہستی سے بکھر رہے ہیں سندیسے
جہاں چلو رک رک کے کہو ہم ہیں کیسے
تم جلال تم جلال تم جلال میں کمال 
تم لذت وصال میں حیرت وصال 
تم مرگ آرزو کا دھواں میں لذت وصل کی شراب 
نہیں آرزو کی یہ کتاب،  نہ دل کفن مانند گلاب 
یہ سحاب آرزو ہے،  باردگر برسنا چاہے گا 
یہ دل کی زمین ہے ترے ابر کی منتظر 
میری چاہت گلاب ہے مرا عشق گلاب ہے 
میری ہستی میں خوشبو لعل و  زر ہے 
میں مانند کافور جلتی شمع کا دھواں 
میں رزم گاہ کا ترانہ ہوں جذب سے نڈھال
اللہ اللہ اللہ مت پوچھو مرا حال

فقیر مرد حر سے مری ملاقات ہوئی 
یوں ہوئی کہ بیشتر سر ِ مناجات میں 
کھوئی ہوئی تھی،  روحی کی ضربوں میں 
مضراب ہستی اول، عشق کی لو پیش پیش 
میں خواہش شوق نور، تو خواہش شوق حضور 
تر دل حجابات سے ماورا، مرا دل ماورائے حجاب 
تو اضطراب قدیم ہے، میں رستگان رفعت مشعل 
تو طفل مکتب ہے کہ مشعل منور 
یہ جاننا ہے کہ جانتے ہیں!
اے ہمنشین!  تو مادر زاد حساس روح 
میں ترے حلقہ عشق کا وہ روشن دیا 
نہیں جس کے ساتھ سے مفر شب نور کو 
دائم تیرا سفر،  قائم ترا وصال، تری ملال ہستی، مری نیم شبی 
تو پیش حق ہے میں شوق منظر
تو سسکتا سحاب میں مانند گلاب
ترا عشق ازل ہے تو حق ابد ہے 
تو جلتا دیا ہے چراغ الوہی ہے 
تو معبود حق کی آیتوں کی آیت
تو حق کا تراشیدہ قلم، سخن ور تو پیامبر تو 
میں خاک! میں خاک میں سجی افلاک کی شمع 
افلاک سے سجائی گئی ہے، دلوں میں بسائی گئی 
سن راہی!  
یہ مشعلِ میم!  یہ سرمہ مستی و وجدانی 
طوفان روپ بدل بدل کے آتے نہیں 
شوخ حسن شوق کفن شعر گو 
سن شعر گو!  
حکایات بہت ہیں!  اضطراب کم ہے 
داستان سن!  دھمال کے ساتھ!  
اب مرا عشق ضربوں سے آگے ہے 
مجھے کہنے کو اک لفظ کافی ہے 
ھو!  ھو!  ھو!  ھو!  ھو!  ھو!  ھو!  ھو!  ھو!
ہستی ء دھواِں ہے ھو!
تار تار  رواں رواِں ..ھو
سر بہ کف راہی ہوں 
میں عشق کا سپاہی ہوں 
میں جسم فانی میں لافانی 
میں چشم تر،  بصارت کی کہانی
میں خاک ستم،  میں نور ازل 
مین قدامت کی روشنی کا جلتا دھواں 
رنگوں سے منقسم قزح  دیکھ ترا رنگ لال ہے 
ترا رنگ پر ملال ہے
کہیں نیل نیل ترا بدن
کہیں سرمئی حلقے ہیں 
مگر ترا رنگ لال ہے 
تو نے موسویت کی چادر میں 
عیسی علیہ سلام کی رسم نبھائی 
تو اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکلا نور 
ترا عشق مگر سرمدی ہے

حریم اول سے حریم دوامت لے لیں، کچھ اور قدامت کا نور لے لیں.  کچھ حکایات سے منور سینہ کرلیں. کچھ تو روشنی لے لیں.  خواہش یہ رہی شعور شعور نہ رہے،  لاشعور لاشعور نہ رہے.  روحی ہو صبوحی ہے شبنم ہو!  رفعت ہو. پیش حق لکھوں ایسے کہ حق مسکرائے!  بس اجازت خامہ سخن درکار ہے. دل تو کب سے فگار ہے آنکھ بھی اشکبار ہے.

 گگن کب سے لال ہے. سایہ افگن محبوب کے بال ہیں.  وہ محبوب جن کے میم سے مجھے تراشا گیا. وہ محبوب جن کی میم سے آشنائی ہے. ...---------- صلی اللہ علیہ.والہ.وسلم
دلجانب علی.رضی تعالی عنہ ہے

 ع علی حق جلی نور علی.......،
شوق ولی!  علی مرے دل کا سرور ہے!  
علی رض سے منور یہ طور ہے 
مولا علی شناسائی حــــ سے کرائیں گے 
.  ح سے حسین!  رض ...
 حسین مرے دل کی نشانی ہے دل  انکی یاد میں  حسینی چراغ ہوِں. مجھے عشق حسین کے واسطے بنایا.گیا. میرا حج اسی قبیل سے سجایا گیا.  حج اکبر سے اصغر تلک کا سفر ہے یارو!  دل ہے کہ دل رکتا نہیں یارو! 

 میں جھوم کے کہوں حق علی!  حق حسین!  میں نمانی!  میرا عشق سچل  مست میرا عشق عین حضور میں مست و مہجور. نہیں شوق حسن پر غرور. طالب کو نہیں اس سے کوئی سروکار کہ جھولی میں کیا ہے. کیا ملے گا؟  طالب تجلی عشق میں سرمہ وصال کی خواہش میں جل جل کے طور ہوا چاہتا ہے،مخمور ہوا چاہتا ہے. صدور سے صدور تک عین عیانی بات ہے کہ روشنی کی بندش نہیں

دل کو بہت خوشی ہے ***

 

دل کو بہت خوشی ہے

دل کو بہت خوشی ہے کہ خوشی کا راز ملے گا وگرنہ لگا تھا کہ سانس نہیں رہا. فلک کے پاس طائر مقیم.اجازت بہ کف نقش پائے نعلین حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم چلنا چاہے مگر وہ کیا ہے کہ انتظار کے دیپوں کی روشنی نے عجیب طوفان مچا رکھا یے. میں میں تو بہت ہوگئی اب تو تو سے آغاز ہوگا --- ہم ہوجائیں تو مثلِ توحید پیہم شہادتوں کے سلسلے شہید پے نازم ہو جائیں. دل میں رگ رگ سے کھینچا جانے والا فشار پکار پکار کے  "یا حسین ابن علی " کا فریادی، نقش فریادی ہے مگر رقص بسمل کا تماشا لگانے کا نشہ مانند وصلت رگ رگ میں سر چڑھ دوڑ رہا یے. آج تو لگن کی محفل ہے اور لگن کے دیپوں میں دیپ وصلت  کے جلنے کے منتظر کہ دل کہے کہ وصلت عین گھڑی یے،  وصلت حال یے،  وصلت لفظی چال ہے،  یہ.اسمِ شہ مقال ہے کہ جانب بطحا وادی ایمن سے ملنے والی ہواؤں نے سلام بخدمت جناب عالی پرور سرور رہرو منزل صلی اللہ علیہ والہ وسلم.!  جلوہ نہیں یے مگر مجلی آیات نے لگن لگا دی یے مورے ہاتھوں میں محبوب  الہی کے لگن کے دیپ ہیں 

منم فدایم در علی گدایم

 

منم فدایم در علی گدایم

منم فدایم درِ علی گدایم --- بَہ نگاہِ عَلی طواف اُو کردم --- 

یا علی یا علی یا علی 

نـــعرہ ء علی لگاکے دیکھو --- دل بہ لبِ زبان ہلا کے دیکھو ..

دل کے دالان میں نقش علی سے بات کر - دل سے دل نے کہا ڈوب جا- دل ڈوب گیا اور ظاہر ذات علی ہُوئی .. خود کلامی میں دو کو پایا تو رازِ خفی-- سرِ نہاں  پایا 

خامشی کا صیغہ ساتھ رکھ --- محو ہو -- تماشائی ہو، زبانِ دل میں نغمہ سن سنا -- طیور کو بخشا جاتا ہے میخانہ 

ووھبت!  ھنالکم ابتلی کے بعد! نواز کے خزانے میں جلِ جلالہ علی کی ذات میں گم - من نفی شد - تو ظاہر شد - خیال کیست؟  خیال نیست!  جب گمشدہ ہو، فنا ہو جاؤ تو کہہ دو 

علی علی علی علی علی علی علی علی علی 

دل چیر دے گا نعرہ- شگاف میں درز درز کی نکلی روشنی کی صدا یاحیدر یاحسین!  امامِ حسین یا علی اکبر سلام شوق کو منظور کرلیجیے 

کما کان اھبت؟  ووحیت لک 

سجا لیے گھنگھرو پیروں میں -- لعل سجا کے دل میں پائے دل کو لعل لال کرکے کہا یاحسین ابن علی سلام -- یا حسین ابن علی سلام 

یا شامِ صبح یا مولودِ حرم  --- دلم فگارم این درد کرارِ ثانی 

جلال.الدین شاہ سرخ بخاری حیدر ثانی کو سلام 
باد صبا کیے جائے ان سے کلام 
مرا ان سے بس یہی ہے اک کام 
کروں اظہار صبح شام بے نیام 
مل جائے گی وصلت ماہِ صیام 

باد کرتی ہے ان سے کلام- سگ کوئے یاراں بہ ہوشِ کلام -- منم محو شیدایم ایں در فدایم --- نظرکرم دلِ شکستہ کردہ است -- مست ولائے حیدرم دم ہما ہم یا علی 

توری پریتم میں نگاہ گم ہوئی - مورا سنگیتم توئی - تو جس جانب فکر لیے چل - اسی جانب دل بہ قدم پا بن کے چلے -- اندر جنگل میں مئے ناب میں صدائے فگارم سنو گے؟  اک کیساتھ اک کا راز سنو گے؟ جذبات کا اظہار سنو گے؟ کمالِ اطراف میں اترا جمال دیکھو گے؟ روشنی کے ہالے میں جمال مصطفائی صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو گے؟  سوچو کہ کہاں ہو؟  سوچو کہ کس مکان میں ہو؟  سوچو کہ تم لامکان میں ہو سوچو کہ زمان سے پرے ہو * سوچو کہ دم دم میں وہی صدا ہے - علی علی - مری زمین کا آسمان علی ہیں --* نگاہ کی بات ہے نگاہ میں نہیں ہے--- جہاں میں ہوں وہ جہاں نہیں ہے - رگ الفت چھڑ گئ - حرکت دل میں اتر گئی ہے -- شام سلونی سج گئی ہے - رات کفن باندھے کھڑے کہ صبح نہ ہونے دے گی --

ابتدائے آفرینش

 

ابتدائے آفرینش


ابتدائے آفرنیش سے اب تلک جذبہِ دل پر حکمرانی کرنے والے انسان، سربندگی سے نکل جانے والے، کامل یقین والے لوگوں کو حیات دوامی بخشی گئی.جذبہِ دل پر حکمرانی کیسے ممکن ہے؟ کون اس قوی قوت پر حاکم ہوسکتا ہے؟ جذبات سے بڑی قوت حیات، اس کی تخلیق کرنے والی قوت ہے....نورِ ازل کا ربط جب نورِ حیات سے قائم ہونے لگتا ہے تب انسان کو نیابت کی سواری ملنے لگتی ہے ... زندگی کے مقصد کی تعمیل اسی مداروی حرکت میں ہے ...چاند روح میں روشنی کیے رہتا ہے جبکہ نور ازل آفتاب کی مانند جگمانے لگتا ہے تو انسان جو ذات میں شجر ہوتے سایہ دار برگد کا روپ ہوتا ہے، مثلِ آفتاب ہوجاتا ہے ...

آزاد روحیں غلامی قبول نہیں کرتیں ماسوا معبودِ حق کے .... اس لیے لگن، شوق انکے وجدان کو حرکت دیے رکھتا ہے ...یہ روم کا رومی چاند سے مثلِ آفتاب کیسے ہوا؟ کوئی شمس تھا جس نے رومی کے جلال کو توانا سرخ لہروں سے نیا جنم دیا تھا ... شمس تو ایسے رومی کی محبت میں الجھا جیسے کائنات کا حصول اسی نور میں ہے جو جلال الدین رومی کے سینے میں مدفن تھا .... شمس نے نورِ ازل کا طواف کیا اور نورِ حیات سے چمکتا نور رومی کو سونپ دیا ... رومی کے لفظوں میں دوامیت شمس کے نورحیات سے ہوئی تھی .... شمس کی تقدیر میں قربانی لکھی تھی ...

ہجرت بھی انوکھا جذبہ تھا، برق جو شمس کے دل میں چنگاری دیتی وہ شعلہ بن کے رومی کے سینے میں چمکتی تھی .... سوال یہ ہے کہ شمس تو فنائیت میں مجذوب تھا، اسکو رومی سے کیا غرض تھی؟ رومی کا کلمہ آیتہ الکرسی کی مانند عرش سے فرش تک جڑا لوحِ محفوظ کی خبر دیتا تھا تو شمس ماہِ وصال کی آبرو رکھتے فاذکرونی اذکرکم کرتے ذاکرین کی جماعت کا نائب تھا .. الم کی مثال ہستی نے کمال شوق سے رومی کی تربیت کی. یہ آدابِ گفتگو جو مثنوی میں ملتے ہیِ اسکی آگہی شمس کی دیدہِ بینا سے ملی ...

جب تخلیق کا مادہ رکھا جاتا ہے تو ذاکرین و منکرین کی جماعت ساتھ مخلق ہوتی ہے.... یہ نوری ...ناری ...آبی ... خاکی موجودات ارضی و سماوی لشکر کی مانند ہمرقاب ہوتے معاون ہوتے ہیں .... اسی نے جن و انس کو پیدا کیا ...شمس کو ذاکرین کی جماعت کا سردار بنا کے کائنات میں چاند سا کردیا ... اس کے قلب کو صیقل کرتے حدت جاودانی بخشتے آفتابی نور سے سرفراز کیا..

کیا لکھوں

 

کیا لکھوں

کیا لکھوں؟ 
کسے لکھوں؟
کہوں کیا؟
یہی ان گنت فسانے ہیں.
بے شمار باتیں جن کی
کھو گئیں ہیں
قلم نوکِ دل پر پھر بھی زور لگائے ہے  کہ لکھ فسانہ ء دل .....
حیات کی کشمکش میں کسے کہیں اپنا ؟
یہاں سبھی اپنے ہیں ،پھر بھی پرائے ہیں

رقص قلم دیکھ کے جنبشِ مژگان نے دو موتی کیا ٹپکا دئیے!
قیامت آگئی!
خشک سیاہی میں کیسی جان آگئی ؟
لہو خشک تھا، فشار میں روانی آگئی
میں نے پھر بھی کہ دیا " کیا لکھوں؟ 
کسے لکھوں؟
کیا کہوں؟
کسے کہوں؟ 
یہاں سبھی اپنے ہیں پھر بھی پرائے ہیں "
موتی ٹپکتے رہے، ہاتھ بھرتا رہا
تنگی ء دامن پر گلہ کیا کرتے؟ 
تپش!  یہ تپش حشر کی تپش کی مانند برفابی جھیلوں کے حُسن کا اضافہ کرتی دکھتی ہے
تپش نے گویا خنجر کی جگہ لے لی،  زخم جگر مگر دیکھے کون ؟
ان کہی کہانی کے ان کہے لفظوں سے کچھ لکھنا چاہا ہے

ایک لکھنے کی کشمکش ہے کہ لکھ دل سے مگر میں سوچتی ہوں کہ کیا لکھوں.  یہ ہم کلامی سی ہے یا خود پر جھیلا احساس ہے.  اصل میں کچھ ہوا یوں ہے کہ سرحد پار ایک اجنبی سے میری ملاقات ہوئی.  میں نے اس سے پوچھا تم سرزمین حشر میں کیا کر رہے ہو؟  اسنے کہا میں حجاز سے آیا ہوں اور ایک پیام لایا ہوں!  میں نے پوچھا حجاز مقدس سے کیا پیغام ہے؟ 
کہا "نماز قائم کرو "
کہا نماز تو پڑھی نہیں کبھی
کہا پھر باوضو رہا کرو،  نماز آجائے گی
کہا وضو تو ہمیشہ سے "تو، میں " کی تکرار سے ناقص ہے
کہا نیت دل پر جا،  شوق حضور کی طلب رکھ
کہا قال کے بنا حال بھی کچھ نہیں. 
کہا نیت سب کچھ ہے، عمل سچا، سچی شریعت ہے، مگر مت پڑ ان باریکیوں پر
کہا نیت حضوری کیسے کروں
کہا آیتِ سجدہ تلاوت کر
کہا کہاں کہاں سے لاؤ،  کس کس کو پڑھو!  .
کہا،  لکھا جو خط محبوب نے،  جہاں سے شروع کر، ترے لیے موجود ہے
کہا خط پڑھنے کا سلیقہ نہیں،  امی ہوں
کہا  کہ آیت معراج پڑھ
کہا کہ پڑھ لوں گی مگر فہم نہ ہوگا
کہا کہ فہم اللہ کی جانب سے ہے، نیت منجانب عبد ہے
کہا کہ شہنائی کیوں سنائی دی
کہا کہ اخلاص سے نکلی دعا تھی یہ تری
کہا کہ اتنا کچھ کہ ڈالا،  عمل سے دور ہوں
کہا کہ  دل کا سجدہ کر،  دل والوں کے لیے سجدہ لازم
کہا کہ سویرا کب ہوگا
کہا جب شمس رات کو طلوع ہوگا
کہا شام حنا کب آئے گی
کہا جب رات قبا بدلے گی دن کا
کہا کہ.رات اتنی سجیلی کیوں ہے
کہا کہ نور ہے!  نور ہر جگہ ہے اس لیے رات بھی دن ہے

حاظرین ایک کشمکش ہے کہ بہت کچھ لکھنا ہے گویا سیلاب پر بند باندھوں کیسے؟  کسے کہوں کہ شام غم کی سحر میں مرغ مؤذن نے اندھیرے مٹا دئیے ہیں ....کسے کہوں اذن حاضری ہو تو بس حی علی الفلاح کی صدا آتی ہے  ... فلاح کی جانب قدم پر لاکھ تاویلیں ہیں،  کیوں کروں؟اس لیے کیا لکھوں؟  کیا کہوں؟

لکھتے ہم جو شب وروز،  عمل سے اپنے ....کیا ہے؟  سیاہ باب ہیں تمام
آہیں اٹھیں دل سے ایسی کہ آہ ناتمام بھی ہوگئی تمام
امید رستگان عشق کا دیا ہے، ہم کہ جلتی لُو میں،  جل جل کے راکھ ہوئے جائیں ہیں ... ..شرر ہستی نے وہ ضو بخشی کہ جھک گئی نگاہ مگر دھیان نہ ہٹا!  درد ایسا نڈھال ہے کہ کچھ نہ آیا کام .... شمیم نے جلتے دئیے کو کیا کیا زخم دئیے یہ کون جانے!  لکھیں گے وہی جو اُس نے لکھ رکھا ہے، کہیں گے وہی جو اس نے کہ رکھا ہے.  نامہ ء اعمال اختیاری ہے،  زنجیرِ عشق کے لازمی باب میں زخم سے کس کو مفر. دامن دریدہ کیسے دکھائیں گے کسی کو!  سوال ہے!  سوال ہے

دوست نے چھیڑا راگ

 

دوست نے چھیڑا راگ

دوست نے چھیڑا ہے راگ،  کردی ہم سے ساز باز، نم آنکھ سے کُھلا راز، ہم نہیں تھے، وہ تھا پاس پاس. رُلا ڈالا یار نے ہمیں جان لیا کہ راز میں راز رہا تھا.  شمع سے نروان لینے چلو، چلو نروان مہنگا ہوجانا!  اٹھو!  اٹھو!  اٹھو کہ مندر سونا نہیں ہے!  اٹھو کہ وہ ہم اسکا کھلونا نہیں!  وہ ہماری رگ رگ میں پکار رہا ہے کہ شام الوہی الوہی ہے

رات کا سونا پن کس نے دیکھا تھا رات چلی محبوب کے پاس، محبوب نے جان لے لی کہ جان تو باقی تھی. جب قطرہ قطرہ نیچے گرا تو کہا

اشھد ان لا الہ الا اللہ

حق کی شہادت تھی، وہی لگا ادھر ادھر ...حق نے آواز لگائ ..سن!  من نے کہا کہ  کس نے کہا، سن!  یہ زمین ہلتے ہلتے بولی کہ سن!  یہ جو مٹی ہے بکھر کہ کہہ رہی سن!  یہ جو کاسنی بیلیں ہیں، لہر لہر کہ لہکتے کہہ رہی ہیں سن!  سن!  سن !

ارے ہم کیا سنیں ریں!  بتا تو سہی!  کیا سنائی دیا نہٰیں کہ حق جلال میں ہے!  حق نے کہا تھا ساز الوہی یے! حق نے کہا تھا چشمہ الوہی ہے حق نے کہا تھا عشق کی لا ضروری ہے
تب سے ہم نے دیکھا کب تھا مڑا کے پیچھے!  جا کے بیٹھ گئے اس کے در پر!  درد در اقدس پہ بَہا نا کیونکہ حق تو ہی تھا درد،  درد نے ہم کو حق کی گواہی سے ملا دیا. خون کا قطرہ قطرہ شہادت سے شاہد ہوا ..حق میں صامت ہوا

یہ کیا کیا ہے!  یہ ہم کس نگر چل دیے ہیں!  یہ سازش کس ستار کی ہے!  یہ آگ آگ سی ہے جو ہم نے ہاتھ میں اٹھا رکھی یے!  یہ کشتی کیا ہے جو چل رہی اور اسکا سفینہ فلک تک چلا گیا گویا فلک خود زمین پہ آگیا ہے

عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت کا حال ہے 
عشق سرمہ ء وصال ہے 
عشق کے بازی کھیلو یم.سے

ہم.تو عشق کی لاگت میں مورے نین سے نیناں ملائے کھڑی رے!  عشق کی لاگی نے بجھائ نہ آگ،  جلا ڈالا جنگل سارا ..ہائے!  یہ ہوا حال کا حال! کمال چھاگیا ہے!  حال آگیا

ہم تو مجنون تو تھے نا رے!  ہم تو لیلی کی مانند حسن میں شامل تھے!  اب ہم کہ فنائے حال میں کمال کو ہے! جوگی کو دیکھے کون؟ جوگن دیکھو سارے!  لوگ لوگ گئے شہر شہر بھاگن!  دیکھن کہ سبز سبز مور سے کیا ہے لاگن!  ہائے لگن کی چنز نے مار ڈالا ...مار ڈالا

ہم تو مرگئے!  ہم تو فنا ہوئے رہے!  چاہے لگن میں سایہ افگن وہ بالِ میم سے آشنائی کس فلک کی جانب گامزن کردے. ہم کو چاہت کے الوہی راگوں میں مگن کرنے والے پیا!  آجا!  دل میں سما جا!  آجا ہم سے نین ملا نا!  نین کی بازی کھیل نا!  ہم تجھ کو تو ہم کو دیکھ  کے جی لیں نا!  آ ہم سے کھیل!  یہ ہماری شوخ نگاہ ہے کہیں کھیل میں آگ پھیل نہ جائے!  جل جائے رے تو!  ہمارا من ہے تو!  ہماری آس میں جانے کس کس نے دیے توڑ دیے اور ہم نے تجھ کو اپنا دیا بنا دجا

فنائیت کا سوال لے گیا، کوئ ہم سے شرارت کرتا ہے مولا! بتا اس شرارت کیا کریں؟  آگ لگا دے!  آگ لگا دے!  آگ لگا دے!  جا ہم نے تجھ کو آگ دی!  جا کچھ ہم رکھیں گے، کچھ تری!  آگ لگنے لگی ہے چنز جلنے لگی ہے!  اووووو خوشبو پھیل رہی ہے

مدھم مدھم سی خوشبو نے سرمیٰ حال کردیا یے!  کاشانہ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وحی سے کمال کی جانب اترنے والے الہام سے پوچھو کہ کس جانب جانا ہے اب تو طیبہ والے بھی منتظر ہے کہ سوار کو سواری مل چکی ہے!  یقین کی کونسی منزل ہے جس کے سب گمان حق میں بدل رہے 

جھکاؤ نظریں سب!  ادب!  ادب!  ادب!  درود!  درود!  درود!  حد ادب!  سرکار کا جلوہ ہے!  درود حال دل میں مقیم عالی پناہ ہستی پر  ...حق درود کی واج سنو ..نئی منزل کا آغاز سنو!  شام سے رات کی مثال سنو!  اختلاف لیل نہار سے وصل و ہجر کے بار سنو!  خاموش!  حد ادب!  ذی پناہ موجود دل میں!
کیسی گواہی چاہیے تھی!
الوہی ذات سے منسلک چشمے ہیں سارے ...
کوثر سے منسلک ہیں پیارے ..
یہ جو کعبہ دل میں ہے اب یہ منبر بنے گا 
یہ جو حرا کی شام ہے، رات میں ڈھلے گی 
یہ جو نوح کا قصہ، اک نئے آغاز میں ملے گا 
یہ جو ماتھے پہ نور کا نشان ہے، یہی حق کی گواہی ہے 
حق کی گواہی ہماری گواہی ہے
کاتب دل  کو اور کیا چاہیے؟
یہ فیض نور سے جاری چشمے ہیں ..
نور ہم سے منسلک اک ایسا چشمہ ہے، جو ہمارے نگاہ میں شامل رہتے کاملیت پہ گامزن ہے ..
اور کیا چاہیے ...
حد ادب!  بندگی میں سرجھکا رہا!  بندی غلام! شکرانے کے نفل ادا کرے گی!  حبیب نے کیسے یاد کیا ہمیں!  زہے نصیب!  زہے نصیب!  زہے نصیب!
نیلم کی کان ہی تمھاری ہے، کان کنی تم نے خود کرنی ہے!  ہم نے تم کو ایسے جبل کے لیے منتخب کیا ہے!  یہ تمھارا دل ہے جو نیلا ہے! اس کو سرخ ہم کریں گے!  حسینی لعلوں سے ...
رکوع!  رکوع!  رکوع ...
آقا جاتے ہیں .. آقا جاتے ہیں!  آقا جاتے ہیں ...
سر نہ اٹھے، مقام ادب ہے!  سر نہ اٹھے!  نہ نہ ...خاموش ...درود!  حد ادب!  خاموش!  درود!  د: دل کا جلا ہے،  یہ رات کا ڈھلا ہے، یہ شامی لباس ہے، یہ خونین پوشاک ہے!  یہ حسن کی یلغار ہے،  یہ روشنی کے لیل و نہاز ہے! یہ مصر کا نیل ہے،  یہ احرام دل میں آیت مقدس کی تلاوت ہے، دل صامت ہے، روح کو چاہیے لباس برہنگی، رکھ لے آس کی تلوار ننگی، شام سلونی ہے، رات نورانی ہے اور جھک کہ کہہ رہے 
.

رنگ لگا دے اور 
چنر بڑھا دے اور
دل کا وضو کرایا 
جلوہ کرادے اور.
چنر کی لاگن ہے 
سہاگن یار دی 
دل دیاں صداواں 
آجا ماہی، بے کول 
دل مرا وڈا انمول 
ساڈا دل رولیا گیا
آہاں وچ تولیا گیا 
فر تو ایڈ اچ آیا 
ھو دا ساز وجایا 
وجی تری ھو دی تار
الف دی گل کریندے آں
شام سلونی ویندے آں
ساڈا پیر مصطفی سائیں 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
وزیر جس دا علی سائیں 
مورا رنگ اچ تُواِں ویکھن

ماہی نے تماشا لایا اے
کنگنا پایا سی 
لہو گرمایا سی
شام سلونی سی
اکھ من موہنی.سی
اکھ ہن رکھ میڈے تے
ویکھدا رے میڈا رقص
ہر حرف اچ علی دا عکس
ہر صدا وچ ھو دا سج دھج
ہر رنگ میڈا محمد کریندا اے
جوگن کیتا مینوں تیڈے عشق نے

کنگنا پایا سی،
شہنائ وجی.سی
رات لگی سی 
شام کتھی گئ 
الف اللہ دی آئ 
ایہہ ساڈی کمائ
لائ وی گئی اے
نبھائ وی گئ اے

جمادی الاول اے 
جمادی الثانی اے
شام دی کہانی اے
لام صدا آنی ہے 
مک جانیاں آساں نے
دور ہونے انیرے نے
ساڈے کول اجیارا اے
ساکوں مار بھگایا سی 
لوکی کہون کملی اے 
یار دی کملی پائی سی 
کملی یار دی! کملی یار دی

قدسی اترن ویلا اے 
نوریاں دا لگیا.میلا اے
لحمی وار دی بانگاں! ھو!
اقصیٰ دا نمازی کہوے! ھو
شام سلونی اے!  ھو 
رات من موہنی اے!  ھو

کاجل لگیا سی 
آنکھ وگی سی 
رات رسی سی 
او ویکھدا سی
فلک.اترا سی 
دل اچ میلا سی
دل نور و نور سی 
دل ہویا طور سی
کون مخمور سی

راگ چھڑیا سی 
لہو دی صدا سی
الا اللہ الا اللہ 
ھو ھو ھو ھو ھو
ہتھ دی کچ دا سوال
نہ پچھ میڈا حال 
ذات میڈے اچ اے 
ذات دی ذات دا حال 
ہن تے ملیا مینوں کمال

دہست دے سائے سن!  روٹی کھاون آئے سن!  گولیاں چلیاں سن!  شاہد بنیا کون؟ شہید ہوئے سن!  وضو کیتا سی!  اکھ روئ سی!  دل جلیا سی!  اگ وی لگی سی!  طور تے نور دا ڈیرا سی!  طور چلیا سی اڈدا اڈدا طیبہ جانب!  طور نے دسیا سی! جلال ساکوں ڈسیا سی! حال دا حال گیا سی!  موتی سیپ توں نکلے سن!  آہاں دا بالن کڑاہڈا پیا!  ایہہ کیہٍڑا منڈا پجدا اے!  ایڈ دے پچھے لکھیا اللہ ھو!  پکڑو اینوں

کچ دی لاج دا سوال ہے ہائے میرا دل میرا دل!  میرا دل

دل کا حال تجھ کو بتاتے ہیں ،راز سر تا دل تجھ کو بتاتے ہیں، سِر نہاں!  تہہِ جامہِ دل پنہاں!  تو .... تو ... تو ...گُم ہوتی ذات میں موج کی صدا میں تو،  دریا تو! بحر تو! نمی نمی!  بوند بوند دل پہ گرے! بوند کی صدا میں تم! شبنم نے ہرا گھاس تازہ کردیا!  تازہ تازہ شبنم میں تو! میرا عشق! 

نعرہ سبحانی 
میرا عشق!  نعرہ کمالیہ 
میرا عشق! نعرہ جلہ جلالہ
میرا عشق!  تارِ وجدانی ھو
میرا عشق! عکس روحی ھو
میرا عشق! بُوئے گل ھو

میرا عشق! گلِ قدسی ھو!
مشک و کافور .. ھو!  
گلِ صندل ھو!  جامن جامن میں کاسنی رنگ ھو!
میرا عشق! ھو کا ساز
میرا عشق!  الوہی راگ 
میرا عشق!  عکس آئنہ جات
میرا عشق!  اویسی ھو 
میرا عشق! بلالی ھو!
میرا عشق!  صدق صادق صدیقی  ھو!
میرا عشق!  خیبری تلوار کی دھار!  ھو 
میرا عشق!  جلالِ عمر کی شان سے نکلی بوند!
میرا عشق!  رنگِ لوح قرانی!  ھو
میرا عشق!  صبح کی کہانی!  ھو 

میرا یار!  اللہ ھو!
میرا ستار!  اللہ ھو!
میرا قہار!  اللہ ھو 
میرا قدسی!  اللہ ھو!
میرا سامع!  اللہ ھو 
میرا قاری!  اللہ ھو!
میرا ہادی!  اللہ ھو!
میرا مسجود!  اللہ ھو!
میرا قبلہ!  اللہ ھو!
میرا نور!  اللہ ھو!

میرے یار دی یاری نے کمال کردتا!  سبحان تے سبحانی حال کردتا!  میں موج سا، مینوں کمالی کردتا!  مینوں حال اچ جلالی کردتا!  مصور میکو کمالی.کر دتا

 دوست نے چھیڑا ہے راگ،  کردی ہم سے ساز باز، نم آنکھ سے کُھلا راز، ہم نہیں تھے، وہ تھا پاس پاس. رُلا ڈالا یار نے ہمیں جان لیا کہ راز میں راز رہا تھا.  شمع سے نروان لینے چلو، چلو نروان مہنگا ہوجانا!  اٹھو!  اٹھو!  اٹھو کہ مندر سونا نہیں ہے!  اٹھو کہ وہ ہم اسکا کھلونا نہیں!  وہ ہماری رگ رگ میں پکار رہا ہے کہ شام الوہی الوہی ہے

حق کی شہادت تھی، وہی لگا ادھر ادھر ...حق نے آواز لگائ ..سن!  من سے کس نے کہا، سن!  یہ زمین ہلتے ہلتے بولی کہ سن!  یہ جو مٹی ہے بکھر کہ کہہ رہی سن!  یہ جو کاسنی بیلیں ہیں، لہر لہر کہ لہکتے کہہ رہی ہیں سن!  سن!  سن !

عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت کا

حسین احساس

 

حسین احساس

یہ حَسین احساس ہوا ہے کہ لگتا ہے احساس سب یے- کسی کے دل کے جلے ہوئے کو دیکھنا بھی تحمل سے کام ہوتا ہے - جب انسان جلتے کو دیکھتا ہے تو جذباتی ہو جاتا ہے- وہ کہتے ہیں اس نے دیکھا - دیکھ وہ رہا ہے مگر ہم سب کہتے ہیں کہ ہم دیکھ رہا ہے- نظر نے نظر سے ملاقات کرلی --- یہ بس پھونک دیا تن من اور تن من کی لاگی آگے منتقل ہوگئی - یہ کیسے ہوتا ہے - جب درویش بابا کہے اللہ ھو - اللہ اللہ کہنے سے اللہ نہیں ملتا بلکہ یہ آواز کی شدت ہے جو دل کے تار رگ رگ میں جوڑتی ہے - اے دِل تمنا ہے کہ اس سرمئی شام میں اللہ کو اس شدت سے یاد کریں کہ وہ ہم پہ نظر کردے - پھر نظر ہو جائے تو دل نشان ہوتا یے- آیتہ اللہ، وجہ اللہ ہو جاتی یے پھر جو کہتا ہے اللہ کا دیدار ہوا اسکو حقیقت میں اللہ کے بندوں کا دیدار ہوتا مگر دیکھ وہ اللہ کو رہا ہوتا ہے یہ راز ہوتا ہے کہ نظر نظر سے ملاقات کرے تو رات ہو جاتی ہے یہ باہم رشتہ ہے رات کا چاند سے کہ چاند کو سورج چاہیے وہ بھی رات --- چاند اللہ سے ضد کرتا ہے تو اللہ جب رات میں شمس اتارتا ہے تو جلوہ ہو جاتا اب کہو رات سورج ہے یا سورج رات ہے تو صبح بھی رات ہے اور رات بھی صبح یے یہ حال والے ملیں گے تو کہاں سے ملیں گے کہ کمال کا سرمہ نصیب نہیں ہے

درد ترا مجھ میں بول.رہا یے

 

درد ترا مجھ میں بول.رہا یے

درد ترا مجھ میں بول رہا ہے میں تو مجھ میں شور ہو رہا ہے --- لہر لہر کہانی ہے میاں ---- زندگی برموج زبانی ہے میاں --- کنارا ملتا نَہیں ہے اور آنکھ میں اشک رسانی ہے میاں -- کیف ھـــذا سے تکملو تعدلو کی بات سنا کریں ---- وتعدو وثبت والحق سے والجُملَ کی کہانی ہے  میں حرف ہائے جملہ بقا کہا بات ہے سزا کی بات ہے-- انتہا کی بات ہے -- دلربا کی بات ہے ---شجر انتہا کی بات ہے -- ساز دل میں سادات ہیں -- یہ بڑی شان کی بات ہے --- دل جمع ہے اور تنہائی کی بات ہے -- موجود ہیں --- نفی کی بات ہے --- کہانی رقم ہو رہی ہے اور میں رقم کر رہی ہے مجھے --- میں ازلی اور ابد کی تیاری ہے -- جس نے بھیجا ہے وہ اچک لے گا کسی بجلی کی مانند پھر مرے پاس کچھ نہ رہے گا اور رہے گا کیا؟  نور الھدی کا آئنہ ہوں -- نور باقی رہے گا -- جب چاہے بلائے جب چاہے ستائے کون جانے گا کہ کلام العشق میں حب العطش سے واجب درود تلک کہ بیانی باتیں محض کہانی نہیں ہے یہ شعلے جلے ہیِ دل میں -- پریتم کریو تے پریت کریو سارے زمانے نے چکھی نہیں پریت دی زہر -- میٹھی ہے وہ زہر یے -- کھاؤ اور مرجاؤ -- مرجائیں گے میاں --- لہر لہر ہو جائیں گے میاں کاشانہ رسالت میں رینے والے اشک جوہر سے ہوچھو کہ عزیز یے یہ دل. جو چاہے جس کو عزیز رکھے اور وہ رحمت کو حریص ہیں --- وہ شاملِ حال یے جس نے حرف دیے زبان یے -- کیف کی سرحدیں ہیں یہ سرمدی لہریں ہیں --- یہ وجدانی باتیں ہیں -- یہ فہیم سمجھائے تو فہم میں آتی ییں کہ کاجل لگ جاتا ہے اور پھر سندر ہو جابے سے حجاب کرنا پڑتا یے بس حجاب ضروری طواف ضروری. سندر ہی سندر کا طواف کرتا ہے


درویش

 

درویش

درد سے ہلالِ نو کی تخلیق
حسن سے گل رو کی تخلیق

صاحبو! دل تھام کے رکھو. تھام کے دل دھک دھک کی صدا میں یارِ من کی پُکار سُنو! حسرت ہے یارِ من کی سنی نَہیں. خلوت جلوت میں یار من نے سنایا اک قصہ. اک درویش روٹی کھا کے اللہ اللہ کی ضرب لگاتا ـــ اللہ اللہ جاری ہوا کھانے سے ـــ درویش نے پوچھا ـــ مرے پیٹ میں پُکار کیسی
اس نے کہا
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین 
درویش نے کہا:  تجھے خدا نے محفوظ رکھا تو آہ و بکا کیسی؟

جوابا وہ گویا ہوئی ـــ وادی ء من کے سیپ جب خیال میں ڈھلیں تو آنکھ حیرت زدہ دل پگھل جائے. اگر میں محفوظ رہی تو تری معرفت مجھے جلا دے گی ... تب و تاب کو سہنے کا حوصلہ تو پہاڑ میں نہیں ... اسکے بعد درویش نے روٹی کو خود سے الگ کرلیا اور  یکسو ہو کے متوجہ ہوگیا ...توجہ کے بعد نہ خرد رہی نہ جنون رہا ـــ نہ فراق کا نوحہ ـــــ نہ وصال کا قصیدہ ..اک موسم چھا گیا 
الحی القیوم 
لا تاخذہ سنتہ ولا نوم 
بس مرگیا ـــ وہ مرا نہیں تھا


درددردِ زہ کے بعد تخلیق ـــ یہ میرے حرفِ نو ـــ جن کے خمیر میں تری چاہت کے رنگ 
مرے کوزہ گر!
تو کَہاں ہے؟
میں نے ویسے زمین کو درد دیا جیسا پاؤں سے بہتا لَہو عیاں ہے 
دردِ زہ!  
تخلیق!
اک منجمد پانی سے نئی روشنی 
اک برق سے نئے اشجار 
اشجار سے برقِ نو 
درد زہ!
پتھر صم عم بکم 
درد زہ!  
وجلت قلوبھم کی مثالیں کھالیں نرم 
دردِ زہ!  
شر البریہ سے شیطان ــ
خیر البریہ سے انسان ـــ 
درد کے چہرے میں رحمان 
تخلیق کا رنگ صبغتہ اللہ 
سنو چارہ گر 
اک بار ملو 
حرف سے بات کرو 
لفظوں کی سازش پکڑو 
سانس کی مالا میں روشنی ہے 
حریص ہو جاؤ ایسی مثال 
لقد جاءکم.رسول ــــ حریص بالمومنین 
درد زہ!  
اذ زلزلت الارض 
نکل ریا زمین سے شر و خیر کا تناسب ...نکل رہا ہے شرع کا حوالہ رنکل رہا ہے نوری ہالہ،  نکل رہا ہے آسمان ... 
والسماء والطارق 
ستارے سے ملو!
روشنی ہو گی 
آبشار کے طریق بہہے گا وہ لافانی چشمہ ..جس میں پربت والجبال اوتاد سے والجبال نسفت کی مثال ہوں گے 
تری کیا مثال ہوگی!  
ماں صنف سے بے نیاز رہی ــــ 
ماں بے نیاز یے ـــ
ماں لا محیط یے 
وسعہ کرسیہ السماوات والارض 
تخلیق سے نیلگوں مادہ وجود!  
اے عینِ ظہور بتا!  
درد کتنا سہا؟
بتا ترے آنگن کے سیپ کس کو ملیں 
حج واجب ہوگا ...حج واجب ہوگا ...حج واجب ہوگا 
جب تو.ساجد.ہو گا ...جب تو اسم لا پڑھے تو.لاشریک میں نے خود کو نفی کرے ... جہل کو نفی کر ...علم میں اضافہ ہوگا ـــتسلیم کر انسان ظلوما جہولا ــــبارامانت اٹھانے کی سعی کرتا ہے مگر ایسے
لا تدرکہ الابصار سے نہیں 
اس کی نگاہ سے دیکھتا یے 
مومن کی فراست ـــ راب کی فراست

اٹھو اس گھاٹی سے

 

اٹھو اس گھاٹی سے

اٹھو اس گھاٹی سے
وما ادرئک ماالحطمہ
اٹھو، ورنہ پرندے نہیں آئیں گے، تمھارے شیطان پر کنکریاں نَہیں گرائیں گے

وارسل طیر ابابیل
پرندے کنکر گرا کے تُمھارے کعبہ ء دل کو بچائیں گے اور ہاتھی جیسے ابرہہ مانند برائیاں قدموں کے بل پلٹیں گی
وزھق الباطل ـــ باطل نے مٹنا ہوتا ہے جب حق آتا ہے
اسلام تکمیل تئیس درجوں میں ہوا کرتا ہے ہر زمن میں
وادی ء ارم سے وادی ء بطحا چل
ورنہ تجھ کو علم کیسے ہوگا رات نے چھانا ہے
والیل اذ یغشٰی
رات جب چھائے تو قسم کھائی جاتی ہے کردار کی
وانک لعلی خلق العظیم
تو رات کو دیوانگی سے تعبیر کرنے والے موحد کی حکمت کیا جانیں. موحد شاہد ہے اور شہید کہاں مرتے ہیں
جنبشِ کاکل سے صبا وجود آئے
پیشِ حُسن نور منظر ہو منظور کا
جیسے شاہد ہو سامنے مشہود کے
چلو تیاریاں کریں ــ پاکی ملے
احسن التقویم.ــ زمانہ ء حُسن ملے کہ بُرائی کی جہنم نے اسے گھیر رکھا ہے

ابھی خدا منتظر ہے! ابھی خدا منتظر ہے!  ابھی خدا منتظر ہے 
کوئی آئے لوحِ محفوظ سے قران پڑھے 

بل ھو قران مجید ــ فی لوح محفوظ 
ابھی وقت ہے!  ابھی وقت ہے!  ابھی وقت ہے!
وثیابک فااطھر 
جب تک دل صاف نہ ہوگا ــ رابطہ لوح تلک نہ ہوگا 
ابھی وقت ہے خدا کی جانب چلو 
ولا تمنن تستکثر 
بس گھاٹی سے نکلنا عین شہود ہے. گھاٹی اندر ہے جلا رہیں مجھے میرے گمان 

اجتنبو کثیراً من الظن 
گمان کی وادی سے نکلوں تو جنت جیسی سرشاری ملے 
علی سرر متقبلین 
سرر کی چادر سے اوڑھیں جائیں گے. دید کیے جائیں گے کہ دید تو لافانی ہے. دید تو تمجید سے لوح قرانی کی باریک نوک دل پر رقم ہو تو اترتی ہے جیسے نقش کسی پری چہرہ کے پہلے سے کنندہ!  بس روشنی نے آکر اظہار کردیا 
ھو الاول ـــ وہی پہلے ہے 
ھو الا خر ــ وہی جس نے دید دے کے سب لوٹانا ہے اپنی اپنی جنت و دوذخ کے پیمانوں میں ـــ وہ پیمانے جن کی مثال شجر زیتون و شجر زقوم سی ہے 
انما الاعمال ... 
اعمال کا انحصار نیت پر 
نیت نے دیا ہے بیج ... بیج میں قربانی تخم، بیج میں محبت کے نمونے، بیج میں خول سے وساوس سے حفاظت کا .. یوسوس فی الصدور الناس 

بیج ہے برائی کا جس کا تخم ہے منفیت کے دھارے، خود غرضی کے استعارے جس میں بہکنے والے ہم سارے ..ـــ ثمہ رددنہ فی اسفل الا سافلین ..گرادیے جاتے ہیں گھاٹیوں میں ــ یہ بیج جس کے پیچھے روحی منفیت!  جالِ شیطانی. کیسے ملے پھر لوحِ قرانی 

وقت ــ زمانہ جس کی قسم ہے! 
ان الانسان لفی خسر 
بس خسارے والے بدترین ہوگئے شرالدواب کی مثل. جن کی منفیت ملحم کرنے لگی بدگمانیاں ... ہیلوسی نیشن کے جالوں سے چھٹکارا نہ رہا ـــ شجر زقوم کو ضرورت ہدایت کو تو مل جاتی ہے ہدایت بیشک اللہ جسے چاہے ہدایت سے نواز دیتا ہے 

ملحم ہوتی ہیں آیتیں شجر زیتون پر ... والتین!  والزیتون!  قسم ہے جس شجر کو نسبت ہے فلک سے اور فلک راوی ہے احادیث کا .. سجدہ واجب!  سجدہ واجب!  سجدہ واجب

گویا

 

گویا

گویا خیال سے خیال کا فاصلہ نہ تھا ....
گویا.دھاگہ تھا اک جو شاخہ تھا
گویا وہ مکمل وجود ہے اور وہ مجھ میں گم
گویا جب میں گم ہوا تو آنکھیں ایسی مل گئیں
جیسے دل تو کبھی جدا نہ تھے 
گویا رات کا موسم تھا 
گویا وصلت و ہجرت کا قصہ نہ تھا 
گویا گرمی سردی نہ تھی 
گویا جنت و دوزخ نہ تھا 
گویا نہ شرقی تھا وہ نہ غربی 
گویا نہ اچھا تھا کچھ نہ برا تھا کچھ 
گویا وہ صفات سے مبراء تھا 
گویا وہ عین ذات تھا 
گویا وہ عین ذات ہے 
گویا عکس بھی نہ تھا 
گویا آئنہ تھا میں 
پھر وجود ہو گیا 
پھر آئنہ ہو گیا 
پھر عبد کہلوایا گیا 
پھر کہا ثمہ دنا 
پھر کہا مازاغ 
پھر دوئ نہ تھی 
پھر میں جب لوٹا 
تو وصلت شیریں 
گویا اللہ نے کہا ھو 
گویا اللہ نے کہا وہ 
وہ کہا تو کہا محمد 
اک وجود اک آئنہ 
میں نہیں تھا کہیں 
میں نہیں تھا کہیں 
اک عکس اک شہود 
اک مشہود اک شاہد 
اک راز اور اک نقطہ 
اک وجود دوجا مظہر