گویا
گویا خیال سے خیال کا فاصلہ نہ تھا ....
گویا.دھاگہ تھا اک جو شاخہ تھا
گویا وہ مکمل وجود ہے اور وہ مجھ میں گم
گویا جب میں گم ہوا تو آنکھیں ایسی مل گئیں
جیسے دل تو کبھی جدا نہ تھے
گویا رات کا موسم تھا
گویا وصلت و ہجرت کا قصہ نہ تھا
گویا گرمی سردی نہ تھی
گویا جنت و دوزخ نہ تھا
گویا نہ شرقی تھا وہ نہ غربی
گویا نہ اچھا تھا کچھ نہ برا تھا کچھ
گویا وہ صفات سے مبراء تھا
گویا وہ عین ذات تھا
گویا وہ عین ذات ہے
گویا عکس بھی نہ تھا
گویا آئنہ تھا میں
پھر وجود ہو گیا
پھر آئنہ ہو گیا
پھر عبد کہلوایا گیا
پھر کہا ثمہ دنا
پھر کہا مازاغ
پھر دوئ نہ تھی
پھر میں جب لوٹا
تو وصلت شیریں
گویا اللہ نے کہا ھو
گویا اللہ نے کہا وہ
وہ کہا تو کہا محمد
اک وجود اک آئنہ
میں نہیں تھا کہیں
میں نہیں تھا کہیں
اک عکس اک شہود
اک مشہود اک شاہد
اک راز اور اک نقطہ
اک وجود دوجا مظہر