فقیر مرد حُر
کھو جائیں کیا؟ لہر لہر دریا بحر ہوجائے کیا؟ ہستی کھو گئی میاں. زندگی سوگئ میاں. آدمیت سے رشتہ کیسا، ھو سے ہے یارانہ، جب کوئی ملتا ہے پرانا، کہتا ہے چل آ ہے یہ ویرانہ! ھو! ھو! ھو! اک تری ھو نے سنبھال رکھا ہے، جیوں کیسے؟ جینا مشکل میں ڈال رکھا ہے. یونہی تو جینے میں کمال رکھا ہے ہستی کا جو جلال.رکھا ہے! اے ہم نشین دیکھ مرا عکس! دیکھ مری.چال! دیکھ مرا رنگ! دیکھ مرا ڈھنگ! کہ اللہ.ھو اللہ.ھو اللہ.ھو
یہ کیسا ہے عکس جلال؟
کیا اس میں ترا کمال؟
وہی ہے رب ذو الجلال
جس نے دی.یہ مثال
دیکھ تو اپنا یہ حال
کیسی ہوگئی ہے چال
دل مٹنے کا ہے سوال
آنکھ بہنے کا.ہے ملال
تو ہی مرا رب ذو الجلال
حق! حق! حق! حق
حق ہے، سچ ہے!
نور سے ملنا، کیا سعادت ہے!
نور سے ملنا ہے بس اسلیے زندہ ہیں
زندہ ہیں کب کے مرگئے ہیں آرزو میں
آرزوئے ہستی سے بکھر رہے ہیں سندیسے
جہاں چلو رک رک کے کہو ہم ہیں کیسے
تم جلال تم جلال تم جلال میں کمال
تم لذت وصال میں حیرت وصال
تم مرگ آرزو کا دھواں میں لذت وصل کی شراب
نہیں آرزو کی یہ کتاب، نہ دل کفن مانند گلاب
یہ سحاب آرزو ہے، باردگر برسنا چاہے گا
یہ دل کی زمین ہے ترے ابر کی منتظر
میری چاہت گلاب ہے مرا عشق گلاب ہے
میری ہستی میں خوشبو لعل و زر ہے
میں مانند کافور جلتی شمع کا دھواں
میں رزم گاہ کا ترانہ ہوں جذب سے نڈھال
اللہ اللہ اللہ مت پوچھو مرا حال
فقیر مرد حر سے مری ملاقات ہوئی
یوں ہوئی کہ بیشتر سر ِ مناجات میں
کھوئی ہوئی تھی، روحی کی ضربوں میں
مضراب ہستی اول، عشق کی لو پیش پیش
میں خواہش شوق نور، تو خواہش شوق حضور
تر دل حجابات سے ماورا، مرا دل ماورائے حجاب
تو اضطراب قدیم ہے، میں رستگان رفعت مشعل
تو طفل مکتب ہے کہ مشعل منور
یہ جاننا ہے کہ جانتے ہیں!
اے ہمنشین! تو مادر زاد حساس روح
میں ترے حلقہ عشق کا وہ روشن دیا
نہیں جس کے ساتھ سے مفر شب نور کو
دائم تیرا سفر، قائم ترا وصال، تری ملال ہستی، مری نیم شبی
تو پیش حق ہے میں شوق منظر
تو سسکتا سحاب میں مانند گلاب
ترا عشق ازل ہے تو حق ابد ہے
تو جلتا دیا ہے چراغ الوہی ہے
تو معبود حق کی آیتوں کی آیت
تو حق کا تراشیدہ قلم، سخن ور تو پیامبر تو
میں خاک! میں خاک میں سجی افلاک کی شمع
افلاک سے سجائی گئی ہے، دلوں میں بسائی گئی
سن راہی!
یہ مشعلِ میم! یہ سرمہ مستی و وجدانی
طوفان روپ بدل بدل کے آتے نہیں
شوخ حسن شوق کفن شعر گو
سن شعر گو!
حکایات بہت ہیں! اضطراب کم ہے
داستان سن! دھمال کے ساتھ!
اب مرا عشق ضربوں سے آگے ہے
مجھے کہنے کو اک لفظ کافی ہے
ھو! ھو! ھو! ھو! ھو! ھو! ھو! ھو! ھو!
ہستی ء دھواِں ہے ھو!
تار تار رواں رواِں ..ھو
سر بہ کف راہی ہوں
میں عشق کا سپاہی ہوں
میں جسم فانی میں لافانی
میں چشم تر، بصارت کی کہانی
میں خاک ستم، میں نور ازل
مین قدامت کی روشنی کا جلتا دھواں
رنگوں سے منقسم قزح دیکھ ترا رنگ لال ہے
ترا رنگ پر ملال ہے
کہیں نیل نیل ترا بدن
کہیں سرمئی حلقے ہیں
مگر ترا رنگ لال ہے
تو نے موسویت کی چادر میں
عیسی علیہ سلام کی رسم نبھائی
تو اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نکلا نور
ترا عشق مگر سرمدی ہے
حریم اول سے حریم دوامت لے لیں، کچھ اور قدامت کا نور لے لیں. کچھ حکایات سے منور سینہ کرلیں. کچھ تو روشنی لے لیں. خواہش یہ رہی شعور شعور نہ رہے، لاشعور لاشعور نہ رہے. روحی ہو صبوحی ہے شبنم ہو! رفعت ہو. پیش حق لکھوں ایسے کہ حق مسکرائے! بس اجازت خامہ سخن درکار ہے. دل تو کب سے فگار ہے آنکھ بھی اشکبار ہے.
گگن کب سے لال ہے. سایہ افگن محبوب کے بال ہیں. وہ محبوب جن کے میم سے مجھے تراشا گیا. وہ محبوب جن کی میم سے آشنائی ہے. ...---------- صلی اللہ علیہ.والہ.وسلم
دلجانب علی.رضی تعالی عنہ ہے
ع علی حق جلی نور علی.......،
شوق ولی! علی مرے دل کا سرور ہے!
علی رض سے منور یہ طور ہے
مولا علی شناسائی حــــ سے کرائیں گے
. ح سے حسین! رض ...
حسین مرے دل کی نشانی ہے دل انکی یاد میں حسینی چراغ ہوِں. مجھے عشق حسین کے واسطے بنایا.گیا. میرا حج اسی قبیل سے سجایا گیا. حج اکبر سے اصغر تلک کا سفر ہے یارو! دل ہے کہ دل رکتا نہیں یارو!
میں جھوم کے کہوں حق علی! حق حسین! میں نمانی! میرا عشق سچل مست میرا عشق عین حضور میں مست و مہجور. نہیں شوق حسن پر غرور. طالب کو نہیں اس سے کوئی سروکار کہ جھولی میں کیا ہے. کیا ملے گا؟ طالب تجلی عشق میں سرمہ وصال کی خواہش میں جل جل کے طور ہوا چاہتا ہے،مخمور ہوا چاہتا ہے. صدور سے صدور تک عین عیانی بات ہے کہ روشنی کی بندش نہیں