Saturday, November 14, 2020

درویش

 

درویش

درد سے ہلالِ نو کی تخلیق
حسن سے گل رو کی تخلیق

صاحبو! دل تھام کے رکھو. تھام کے دل دھک دھک کی صدا میں یارِ من کی پُکار سُنو! حسرت ہے یارِ من کی سنی نَہیں. خلوت جلوت میں یار من نے سنایا اک قصہ. اک درویش روٹی کھا کے اللہ اللہ کی ضرب لگاتا ـــ اللہ اللہ جاری ہوا کھانے سے ـــ درویش نے پوچھا ـــ مرے پیٹ میں پُکار کیسی
اس نے کہا
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین 
درویش نے کہا:  تجھے خدا نے محفوظ رکھا تو آہ و بکا کیسی؟

جوابا وہ گویا ہوئی ـــ وادی ء من کے سیپ جب خیال میں ڈھلیں تو آنکھ حیرت زدہ دل پگھل جائے. اگر میں محفوظ رہی تو تری معرفت مجھے جلا دے گی ... تب و تاب کو سہنے کا حوصلہ تو پہاڑ میں نہیں ... اسکے بعد درویش نے روٹی کو خود سے الگ کرلیا اور  یکسو ہو کے متوجہ ہوگیا ...توجہ کے بعد نہ خرد رہی نہ جنون رہا ـــ نہ فراق کا نوحہ ـــــ نہ وصال کا قصیدہ ..اک موسم چھا گیا 
الحی القیوم 
لا تاخذہ سنتہ ولا نوم 
بس مرگیا ـــ وہ مرا نہیں تھا


درددردِ زہ کے بعد تخلیق ـــ یہ میرے حرفِ نو ـــ جن کے خمیر میں تری چاہت کے رنگ 
مرے کوزہ گر!
تو کَہاں ہے؟
میں نے ویسے زمین کو درد دیا جیسا پاؤں سے بہتا لَہو عیاں ہے 
دردِ زہ!  
تخلیق!
اک منجمد پانی سے نئی روشنی 
اک برق سے نئے اشجار 
اشجار سے برقِ نو 
درد زہ!
پتھر صم عم بکم 
درد زہ!  
وجلت قلوبھم کی مثالیں کھالیں نرم 
دردِ زہ!  
شر البریہ سے شیطان ــ
خیر البریہ سے انسان ـــ 
درد کے چہرے میں رحمان 
تخلیق کا رنگ صبغتہ اللہ 
سنو چارہ گر 
اک بار ملو 
حرف سے بات کرو 
لفظوں کی سازش پکڑو 
سانس کی مالا میں روشنی ہے 
حریص ہو جاؤ ایسی مثال 
لقد جاءکم.رسول ــــ حریص بالمومنین 
درد زہ!  
اذ زلزلت الارض 
نکل ریا زمین سے شر و خیر کا تناسب ...نکل رہا ہے شرع کا حوالہ رنکل رہا ہے نوری ہالہ،  نکل رہا ہے آسمان ... 
والسماء والطارق 
ستارے سے ملو!
روشنی ہو گی 
آبشار کے طریق بہہے گا وہ لافانی چشمہ ..جس میں پربت والجبال اوتاد سے والجبال نسفت کی مثال ہوں گے 
تری کیا مثال ہوگی!  
ماں صنف سے بے نیاز رہی ــــ 
ماں بے نیاز یے ـــ
ماں لا محیط یے 
وسعہ کرسیہ السماوات والارض 
تخلیق سے نیلگوں مادہ وجود!  
اے عینِ ظہور بتا!  
درد کتنا سہا؟
بتا ترے آنگن کے سیپ کس کو ملیں 
حج واجب ہوگا ...حج واجب ہوگا ...حج واجب ہوگا 
جب تو.ساجد.ہو گا ...جب تو اسم لا پڑھے تو.لاشریک میں نے خود کو نفی کرے ... جہل کو نفی کر ...علم میں اضافہ ہوگا ـــتسلیم کر انسان ظلوما جہولا ــــبارامانت اٹھانے کی سعی کرتا ہے مگر ایسے
لا تدرکہ الابصار سے نہیں 
اس کی نگاہ سے دیکھتا یے 
مومن کی فراست ـــ راب کی فراست