Thursday, November 19, 2020

حم ‏کیا ‏ہے

نور یہ جو کیفیت ہوتی ہے نا ۔ اس میں ہوش نہیں کھویا جاتا باقی دل کھنچا چلا جاتا ہے. دل روتا جاتا ہے. آنکھ نم رہتی ہے. دل کے اندر سب کچھ اکٹھا اک مقام پہ ہوجاتا ہے.                      

دل کرتا ہے بے اختیار روتی جاؤں اور نہ بھی روؤں تو آنکھ نم رہتی ہے اور یوں لگتا ہے جسے مری ہستی جہانوں ک رحمت کی جانب کھنچی چلی جا رہی ہے ۔

اس کیفیت کی ابتدا اس وقت سے ہوئی جب سے " مرشد کی زیارت " بارے لکھی کسی اشرف المخلوق کی تحریر پڑھی ۔ تحریر کے لفظ  دل میں اترتے روح کو بے چین کرتے وجدان کے آئینے کو منور کرتے چلے گئے ۔ احساس ہوا کہ زیارت پاک ہونے کو ہے

دل نے دی صدا کہ  جب بھی ہوگی زیارت پاک ان کے کرم سے ہو گی ۔

تو بس درود پاک سے دل و زبان تر کر ۔

اپنے نفس کو پاک رکھ ۔

دل کو ہی نہیں بلکہ اپنے خیال کو بھی  ہر غیر کے خیال سے پاک رکھ ۔

اچانک یوں لگا جیسے میں لپٹی ہوں شاہا کے قدموں سے اور رو رو کر کہہ رہی ہوں ۔

مجھے خاتون جنت اپنی پاک بیٹی جناب فاطمہ علیہ السلام کی کنیزوں میں شامل کر لیں ۔

مجھے لگا جیسے رحمت بھرا روشن ہاتھ میرے سر کو سہلانے لگا  ۔

آنکھ روتی رہی دل سکون پاتارہا  ۔

پیر مہر علی شاہ  یاد آئے ۔۔

کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء ۔۔۔ گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں ۔

نور بے اختیار پکار اٹھی آپ تورحمت للعالمین ہیں  زمانے کے ستم کو  اپنےکرم میں ڈھانپ لیتے ہیں،  ان سے ہی فریاد کر  کہ زخم سے چور وجود ہے سرور انبیاء، شاہا! ۔۔ کرم کی اک نگاہ ہو مجھ پر

آپ کی بارگاہ میں  اپنے دکھ بیاں کرتے دل ہلکا ہو جاتا! جانے کیوں لگتا ہے کہ دل ہلکا ہوگیا! نہ گلہ کہ کتنوں پہ نظر نہ  کتنوں کو عطا ...

آپ کی جانب سے تقسیم برابر ہوتی ہے مجھے مگر تمنا زیادہ کی ہے ...

مجھےاپنے قریب کرلیجیے شاہا ... شاہا دل بڑا نم ہے ... شاہا آنکھ میں غم لہو کی مانند چھلک رہا ہے ...

شاہا رہنمائی کیجیے! اے میرے شاہا! اے میرے بابا .... اے میرے بابا ... اک بیٹی آپ کی محبت میں آنسو بہاتی ہے آپ ہی توہو جو مجھ دکھیاری کی سنتے ہو ...

بابا! مجھے قدموں میں کرلیں میں کیوں آپ کے ہوتے مضطرب رہوں .. آپ کے ہوتے مجھے رنج کیسا ؟!

بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی 
بقلم:  نور

خدا ‏سے ‏تعلق ‏

خدا سے تعلق یقین کا ہے ـ یقین کا ہتھیار نگاہِ دل کی مشہودیت سے بنتا ہے. دل میں جلوہِ ایزد  ہے ـ درد کے بے شمار چہرے اور ہر چہرہ بے انتہا خوبصورت!  درد نے مجھ سے کہا کہ چلو اس کی محفل ـــ محفل مجاز کی شاہراہ ہے ـ دل آئنہ ہے اور روح تقسیم ہو رہی ہے ـ مجھے ہر جانب اپنا خدا دکھنے لگ گیا ہے ـ کسی پتے کی سرسراہٹ نے یار کی آمد کا پتا دیا. مٹی پر مٹی کے رقص ـ یار کی آمد کی شادیانے ـ یہ شادی کی کیفیت جو سربازار ــ پسِ ہجوم رقص کرواتی ہے ـ تال سے سر مل جاتا ہے اور سر کو آواز مل جاتی ہے ـ ہاشمی آبشار سے نوری پیکر ــ پیکر در پیکر اور میں مسحور ــــ خدا تو ایک ہی ہے ـ دوئی تو دھوکا ہے ـ ہجرت پاگل پن ہے ـ وصل خواب ہے ـ مبدا سے جدا کب تھے؟  اصل کی نقل مگر کہلائے گئے ـ کن سے نفخ کیے گئے ــ کن کی جانب دھکیلے جائیں گے ـ اول حرف کا سفر حرف آخر کی جانب جاری ہے اور خاموشی کی لہر نے وجود کو محو کر رکھا ہےـــ  ساکن ساکن ہے وجود ــ سکوت میں ہے روح اور صبا کے جھونکوں نے فیض جاری کردیا ہے ـ جا بجا نور ـ جابجا نوری پوشاکیں ـــ نہ خوف ـ نہ اندیشہ،  یقین کی وادی اتنی سرسبز ہے کہ جابجا گلاب کی خوشبو پھیلنے لگی ـ وجود مٹی سے گلاب در گلاب ایسے نمود پانے لگے،  جیسے گل پوش وادی ہو اور مہک جھونکوں میں شامل ہو ـ یہ وہ عہد ہے جسکو دہرایا گیا ہے اور اس عہد میں زندہ ہے دل ـ یہ وہ عہد ہے جسکی بشارت دی گئی ہے ـ اس عہد کے لیے زندگی کٹ گئی اور کٹ گئی عمر ساری ـ بچا نہ کچھ فقط اک آس ـ آس کیسی؟ جب یار ساتھ ہو تو آس کیسی؟  یار کلمہ ہے اور پھر کلمہ ہونے کی باری ہے ـ قم سے انذر سے اور خوشخبری ... جس نے یار کو جا بجا دیکھا،  تن کے آئنوں میں دیکھا،  نقش میں روئے یار ـ مل گیا وہی ـ سہاگن باگ لگی ـ راگ الوہی بجنے لگا کہ راگ تو ہوتا ہی الوہی ـ محبت کا وجود تھا اور وجود ہے اور رہے گا مگر جس نے محبت کا میٹھا سرر پالیا ـ اسکو علم کہ سروری کیا ہے ـاس سروری سے گزر کے کچھ بھی نہیں اور اس سے قبل بھی کچھ نہیں ہے ـ من و تو ــ یہ نہیں مگر اک وہی ہے. وہی ظاہر کی آیت،  وہی باطن کی آیت ـ وہی مشہد،  وہ مشہور،  وہی شاہد،  وہ شہید ــ وہی اعلی،  وہی برتر ـــ چلتے پھرتے دیوانے جو دکھتے ہیں اور بہروپ کا بھر کے بھیس پھرتے ہیں وہی تو چارہ گر شوق ہیں. وہی تو اصل کی جانب ہیں

بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی 
بقلم:  نور

صورتِ ‏قران ‏

کوئی امکان نہین صورت یار ہے کہ سورہِ قران جب تک قرات نہیں ہوگی، بھید بھید رہے گا.  روگ لگا ہے، مریض دیکھتا نہیں کوئی. ہم تو اسے ڈھونڈتے ہیں مگر ملتا نہیں کوئی  آہ!  دل چیرا دیا گیا اور دل خالی!  کوئی چیز تو خآلص ہوتی مگر بے مایا انمول کیسے ہو سکتا ہے.  جو ان کے در پر جانے کا خواہش مند ہو،  وہ در در رل کیسے سکتا ہے اور جو رُل جائے وہ دھل جائے اور جو دھل جائے دل مل جائے. میرا دکھڑا سنے نہ کوئی،  سنے نہ تو سمجھے نہ کوئی،  سمجھ تو نبض دیکھ کے معلوم ہوگا مگر طبیب چاہ ہے اور کوزہ گر کو دیکھیے سیراب کیے جاتا زخم ہرے ہیں اور پانی دے رہا. یہ بڑا دکھ ہے کہ حیاتی کو روگ لگا ہے اور حیات بھی حیاتی ہے. جیون کو روگ لگے ہے اور مجھے سوگ لگے ہے میں نمانی جاواں نہ چھڈا محبوب دا ویہڑا،  پے چھایا اکھ آگے انیرا،  اکھ پئیٰ روندی اے اور میں اشک وچ بہہ جاواں گی.  

چارہِ گرِ شوق کچھ کرو
نسیمِ صبح، جا محبوب کو بتلا دے 
مریض مر جائے گا، کچھ کر دیجیے 
چارہ گر شوق!  کچھ مرہم؟
چارہ گر شوق!  اور زخم؟  .چارہ گَرِ شوق!  کچھ نمی؟
چارہ گرِ شوق!  میں ہوں دکھی. 
چارہ گر شوق!  مجھے راز بتلا 
چارہ گر شوق!  مجھے الف الف سکھا 
چارہ گر شوق!  مجھے ب میں  مت الجھا 
چارہ گر شوق!  مجھے خونی رقص سکھا 
چارہ گر رقص! بسمل کی جاوداں حیاتی دیکھ. 
چارہ گر شوق!  کچھ کر،  کچھ کر 

مریض مر رہا ہے،  طبیب کے پاس شفا ہے. جس نے مار ڈالا،  وہ اس کی دید تھی، جو مارے گی،  وہ دید کیا ہوگی؟  جو مجھے دیکھے وہ تو میِں کسے دیکھوں؟  میں تجھے دیکھوں اے ذات!  نقشِ حریمانِ باغباں کے دیکھو،  جا بجا تن پر سر سبز نشان!  یہ روح کے نیل اور یہ جاوداں سر سبز نشان. ُ

بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی 
بقلم نور

نقش ‏و ‏بو ‏کہ ‏دوئی

رنگ نے جہانِ نقش و بو میں دھکیل دیا ہے ـ دوئی کا خاتمہ ایسی دنیا میں ہوجاتا ہے اور ست رنگی بہار، یک رنگ کی نَیا میں بہنے لگتی ہے.  یہ احساس کہ جب یار پاس ہو، یار کے رنگ سے جہاں دیکھو، بس ہر جگہ سوہنا مکھڑا دکھے ـ وہ صورت گر، اس نے یار کی صورت ایسی بنائی، اس میں یکجائی رکھ دی تمام عالمین کی اور کہہ دیا کہ الحمد اللہ رب العالمین اور کہا:  تلاش کرو رحمت کو ـ رحمت تو ہم کو خود تلاش کر رہی ہے پھر فرمادیا:  وما ارسلنک الا رحمت للعالمین ـ یہی شاہی ہے جس کو رحمت عالم عالم میں ملنے لگی. در در کا کیا فائدہ،  اک در کی جانب چلیں، جس در سے رحمت کا باڑہ بنٹ رہا ہے اور یہ رستہ ہادی کا ہے ـ محشر سے پہلے جام پی لو ـ کوثر کی آیت کا جاری چشمہ ہے اور اس میں حسینیت کے پانی سے دل کا وضو ہونے لگے تو سمجھو روح دھل کیا گئی،  نکھر گئی کہ گویا بات بن گئی ہے. اک انجیل تمنا:  یار کو دیکھیں،  اک حرفِ تمنا:  سنائیں حال یار کو اس طرز سے کہ حال سناتے حال میں نہ رہیں اور ان کے مکھ کو دیکھی جائیں. اشک با ادب!  اس جہاں اگر اشک بھی بنا اجازت نکل گئے تو گستاخ نین کہلائیں گے. ہم تو چلے نینوں کی بہار میں رلنے،  سہنے تیر سینے پر سہنے،  جگر میں داغ کو سنیچنے اور لفظ ہمارے برہنہ کر رہے. یہ برہنگی جو بے نیازی کا لباس ہے،  آج عیاں ہوئی ہے. 
اک تھا نین والا، جس کے پیچھے چلی باگیا ــ باگیا نے نین کی بازی میں سب ہار دیا ... پی کے سنگ رہنے میں ایسی الوہیت ہے جس میں رنگ بکھرنے کو مایا نہیں کہتے بلکہ کہتے:  جہاں پر اسکا ہے سایہ جس نے پلٹ دی کایا. یہ حدیث داستان سنیے!  جب پی سے ملے،  اک ہوئے!  ایک نے زمانہ دیکھا تو کوئی الگ نہ تھا. اک رانجھن یار کے پیچھے رکھ دی دلوں نے دنیا ـ دنیا گئی مگر مل گئی جہانبانی. یہ عجب رت ہے کہ دن میں رات کا سماں ہوگیا. گویا رات اور دن میں کچھ فرق نہیں مگر پھر بھی صبح و شام تسبیح کرتے. یہ فیکون سے کن کی جانب سفر جب دن و رات کا تضاد ختم ہوا. تضاد ختم ہونے لگے تو سورہ اخلاص سمجھ آنے لگتی ہے. آدمی بہت ہیں مگر انسان اکیلا ہے.  اور اکلاپے میں اس نے یار پایا ہے. یار پانے کے بعد احساس ہوا کہ فرق ہے :  وہ تو اولاد والا ہے اور خدا تو بزرگ و برتر ہے. لا روحی کی بات ہے.  اک دھاگہ،  اک کن،  اک نور کی دھار وجود کے گرد محو ہے اور بلا رہی ہے کہ چلو محبوب کو

بہ نیاز؛  سید نایاب حسین نقوی 
نور

جل ‏رہا ‏ہے ‏دل ‏کہ ‏روح ‏ہے

اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد 
ثنائے محمد کیے جاتے ہیں اور پیش حق مسکراتے جاتے ہیں ... پیش حق مسکرانے سے بات نہیں بنتی بلکہ دل کو دل سے ملانے سے بات بنتی ہیں. جب میں نہیں ہوتی تو وہ ہوتا ہے اور جو وہ کہتا ہے کہ چلو رہ توصیف اور کرو بیانِ کے بیان اورعالم نسیان میں وجدان اسرار حقیقی کے نئے دھاگے لاتا ہے اور میں کہتی ہوں. میں نہیں کہتی یہ وہ کہتا ہے. جلنے میں حرج نہیں مگر جل جانے سے کیا ہوگا؟ جل کے مرجانے میں کچھ نہیں مگر جل کے مرجانے سے کیا ہوگا؟  بس آنکھ کا وضو بڑھ جائے گا. بس دل کے ریشہ ہائے منسلک میں رہنے والے تار تار کا بیان ہوگا. حق ھو. وضو کی نہر جاری ہے اور نیت دل میں نماز ہجر کا بیان نہیں تو نماز.شوق کروں کیسے بیان کہ اشک نہاں میں کُھبا ہے اک پیکان اور دل کے میر نے کہہ دیا چل کہ یہ سفر کا موسم ہے اور موسم  کے رنگ بھی عجب ہے. یہ ڈھنگ میں کیسے بھنور ہے کہ بھنور کو ساحل مل گیا یے ... شمس کی غنائیت میں چھپا سرمہ اک عجب رنگ رکھتا یے کہ یہ وہ شمس تھا جس نے ملتان سے گرمی کے سامان کو، ہجر کا نشان کیا تھا ... رکھ دے دل اور مسجود ہو جا جس کے دم سے روح ماہی بے آب کی طرح کانپتی ہے کہ دل مٹ جا کہ بسمل کی تڑپ کے سو نشان بننے والے ہیں .

جل رہا ہے دل کہ روح ہے 
مل رہا ہے دل کہ روح ہے 
ذرے ذے میں کو بہ کو ہے 
جس کی محو ثنا میں تو ہے 
رگ جان سے قرین ہوں میں 
دل کے فسانے کہ دوں میں 
قلم ٹوٹ جائیں گے سارے 
 بیان نہ ہوگی ہجر کی داستان 
ہجر میں عشاق کے قبیلے ہیں 
دل میں جاناں کے میلے ہیں 
خزانے ہاتھ میں رکھے ہیں 
شاہا نے کمال سے دیے ہیں 
وہ جو رنگ یاقوت میں ہے 
وہ جو رنگ لاھوت میں ہے 
فنا کے چکر نہیں سارے 
لازوال ہیں  دوست سارے 
روشنی کا  مزاج  عجب ہے 
لگتا ہے ہر ماہ، ماہ رجب یے 
یہ انسان میں کیسا نسیان ہے 
اترا رمضان  میں یہ قران ہے

رات ہے اور رات میں رات نہیں ہے. یہ تو سویرا ہے اور میں کس کو جا بجا دیکھ رہی ہوں ..جلوے ہیں جابجا میرے اور ان میں کس کو دیکھا جا رہا ہے ...

مہک مہک ہے،  رنگ رنگ ہے 
دل تو دل ہے نا،  روشن ہے 
رنگ میں خمار کی مے ہے 
دل میں غم کے لاوے ہیں 

اے مرشد حق!  ہم جھکاتے ہیں دل کو وہاں جہاں سے یہ جواب مل جاتا ہے. یہ دائرہ کیا ہے؟  یہ نسیان کیا ہے؟  یہ حیات کیا ہے؟ میں نے پوچھا آقا سے کہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ..بندگی کیا ہے ...
بندگی خاموشی و ادب ہے 
بندگی  طریقہ دین ہے 
بندگی یاد میں رہنا ہے 
بندگی غلامی ہے 

میں تو غلام رسول ہوں. صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
میں خاک زہرا بتول ہوں 
عشق حرم کے فسانے ہیں 
چل پھر رہے دیوانے ہیں 
نبوت کے مینارے ہیں 
عجب یہ استعارے ہیں 
کنزالایمان،  بلیغ لسان 
محمد عربی کا ہر بیان 
شمس الدجی کی تجلی 
لگ رہی ہے کوئ وحی 
آنکھ میں ہاتھ رکھا ہے 
رات میں ساتھ رکھا ہے 
روحی چشمے سارے ہیں 
وصل کو پھرتے مارے ہیں 
 اشرف ہوئے سارے ہیں 
مدین سے پھیلے فسانے 
ناپ تول کے تھے پیمانے 
چھوٹ گئے سب یارانے 
جوگی مل گئے سب پرانے

حق ‏حق ‏میں ‏کریندی ‏جانواں ‏

حق حق میں کریندی جانواں ھو ! ھو ! ھو !
دل دیاں گلاں بتاندی جانواں ھو ! ھو ! ھو!
نور نیں ہن جاناں طور کول!
ویکھن کتھے زیادہ اے جل تھل!
طور نے مینوں ویکھ سجدہ کیتا ھو! ھو !ھو !
میں کیہ ویکھاں طوری دی جل تھل !
ایہہ دنیا ست دناں دا میلا اے
مٹی نے فر مٹی اچ رَل جانا ھو !
سچ کریندے کریندے سچی  ہوئی
''میں میں '' کریندے ذات سی کھوئی
آہاں دا بالن بنیندا اے سالن
فکران میں کیہڑا میں لگی پالن
طور نے سجدہ کرن میں چلی
طور نے مینوں ویکھ سجدہ کیتا
میں سہاگن ہوون ہن چلی آں
سرخ جوڑا پاون ہن چلی آں
نچ نچ کے یار مناؤں دا ویلا اے
واواں سنگ چلن دا ویہڑا اے
درد سے سوتے کٹن پئیں آں
یار نے باگاں میری کھنچی آں
گُلابی چوالا پاون لگی آں
اتھرو اکھاں اچ لا لئے نے بند
وصل نے لایا اے نوا چنگ 
کُھم کُھم جاون دل دیاں پھرکیاں
تاگے کھنچی جاندا چھیتی چھیتی
حق نے لا لیاں دل اچ بانگاں ھو ! ھو ! ھو 1
حق دا کلمہ عاشق بنندی جاندی اے ھو ! ھو ! ھو !
ھو دا کلمہ نے وچوں کلام وی کیتا اے ھو ھو ھو !
میں وی حق دے نال لا لیاں بانگاں ھو ! ھو ! ھو!
حق نے اندر لایا اے ڈیرا ھو ! ھو ! ھو !

میرے اندر ہوندا جاندا سویرا ھو! ھو! ھو !
اونہوں منان لئی ذکر اودھے یار دی کریندا آں !

عطر تے گلاباں دی خوشباں نے دتیاں نے مستیاں ! ھو ! ھو ! ھو !

یار دے یار نال میں لا لئیا نے یاریاں ! ھو ! ھو ! ھو !

خود نوں ویکھ ویکھ کے ٹھردی پھراں ! ھو ! ھو ! ھو!
زبان خشک حق کریندی ہوئی
محبوب دی گلاں وچ میں کھوئی
دل فر وی لاندا جاندا واجاں ھو ! ھو ! ھو!

ھو دل نال میں بندھی جاندی آں ! ھو ! ھو ! ھو

---------

ماں تُوں دوری بڑا ستاندی اے
اَکھیاں ہن نہراں وگاندیاں نیں
ماں نوں ہر شے اچ لبدی ساں
ماں ہن  ہر شے اچ دکھدی اے
او ! جیس دی شہنائی درد آلی اے
جیس دے در دا جگ سوالی اے
نور دا عرشاں تے ڈیرا اے
لالی نے کیتا ہن سویرا اے
لالی نے سہاگن کردتا اے
سہاگ شادی دی علامت اے
سہاگ وصل دی نشانی اے
تن سی میلا ، چھایا سی ہنیرا
سہاگ نے میل ہن لا چھڑیا
پانی نے زمین نوں سیراب کیتا
بیل بوٹے مالی نے لا چھڈے
مشک دی بوٹی دل اچ لا دتی
فنا تے بقا دی رمز سنا دتی
نور و نور ایس نگر دے وچ ہوئی آں
شاہِ ہادی نے خالی ہتھ کدی نی پیجیا !
اودھے کل میں ٹردی ٹردی پھراں
دل میرا دتی جاندا اے بانگاں
دل میڈا کھلدا گلاب  وانگر
جیویں قران اچا وچ کتاباں ھو ! ھو ! ھو!
مشک نے اندر ہن ورسایا
جاں میری ہولن تے آئی
میں نچ نچ کے یار کرینداں آں
نچ نچ کے یار مناندی آں
ھو ! ھو ! دی واجان لائی جاواں
رب نے لائیاں ہن نوری محفلاں
واواں مینوں ٹوھنڈی پھردیاں نے
ھو ! دے بسیرے نے سویرے کیتا
کالکاں مٹیاں ھو دی لگیاں صداواں
ذات دی نچی ، اچا میں کیتا اے
حق نے اندر میرے سویرا کیتا
''ھو '' دا دیوا اندر بلدا پئیا اے
ایڈھ بسیرے نے اجیارا کیتا اے
زمین ساڈی دا ھنیرا مٹیا اے
ھو نے انج  ونڈیاں سوغاتاں 
مٹھا میوہ شہد نال پیندی جاواں
جام دے جام میں لیندی جاواں
نیندر ایناں جاماں نے لٹیاں نیں
نچاں ھو دے نال میں فر وی نہ رجاں ھو !

آیات ‏فاطمہ ‏رض

آیات فاطمہ( سلام. ان پر)   مجھ میں ظہور ہیں، مخمور ہوں، خوشی سے  چور ہوں.....  زہے نصیب کہ مری خوش قسمتی کہ  میں نے مکرم ہستی کو پہچانا ہے!  مکرم ہستیوں کا مسکن مرا دل ہے!  عجب روشنی ہے جس کے پیچھے مقام کربل کیجانب قدم بہ قدم ہون!  حیرت نے غرق کردیا سیدہ فاطمہ کے قدم مجھ کو مل رہے ...سجدہ ...سجدہ ...سجدہ ... اے خدا، مری اعلی بختی پہ مری ذات خود نازاں ہے  ....

 کربل کی مٹی میں نے سونگھی نہیں بلکہ اس خاک کو خود پہ ملنا چاہا ..  وہ بی بی پاک جن کے نفس دم بہ دم نے یہاں پہنچایا ...وہ روشنی اس اصل روشنی کا چشمہ،  پردہ ء غیبت میں جاتے مرے دل پہ ہاتھ رکھ گیا ..

 طٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وارث  ہیں، یٰسین کی مانند دید میں گم رہیں ! میرے آقا شاہد ہوئے رب کے پاس، رب نے شہادت دے دی ..شاہد و شہادت کی نفی نے اک ذات کا پتا دیا ... اے یسین سے نکلنے والا نور،  ..  حُسین عالیمقام رضی تعالی عنہ  سے نکلنے والے چشمے میں ڈوب جا .. طٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی  مجلی آیت طور نے جلوہ گاہ حسن میں قربانیاں دیں

 رونے کا مقام نہیں دوستو،  یہ مقام فخر ہے کہ اس فخر نے آدمیت کی تلاش میں دیر نہ کی. اس پاک نورِ حُسین  نے" والعصر" کے گھاٹے کو پہچانا تھا  یہ حُسینی نور جس کو ملے، اسکو آیت معراج سے آیت دل میں پیوست ہر روشنی مل جاتی ہے ...طٰہ کی روشنی، نور علی النور ہے، یہی نور  حسین عالیمقام کی روشنی  ہے
 
مثل طٰہ، مانند برق موسم ہیں

 جب حسین (سلام ان پہ، درود ان پر)  کے نور میں خون شامل ہو رہا تھا،  جب اس نور میں خدا ظاہر ہوا تھا  تو دنیا نے دیکھا کہ یزیدی لشکر پیچھے ہٹنے لگا تھا،  وہ بَہتّر تھے مگر ہزاروں  پہ بھاری تھے،  حسینی لشکر میں کچھ مردان حُر(اللہ کی رحمت ہو ان پر)  تھے،  کچھ مردان علّی(سلام ان پر، درود ان پر)  تھے،  کچھ مردان مثلِ جعفر(سلام ان پر، درود ان پر)  پھیلے تھے حق یہ مری روشنیاں تھیں

جو بھول گئے رستے،  مگر پھر بھٹکے ہوئے لوٹ آئے جب رب نے کہا" ارجعو"  اس صدا کو جس جس نے سنا وہ لوٹ آیا ...مردان حُر کو سلام مرا .. جو پابہ زنجیر بھی رقص کرتے رہے،  کچھ ایسے تھے جو مانند علی اکبر(سلام ان پر، درود ان ہر)  نور سیدہ فاطمہ بی بی جانم (سلام ان پر، درود ان پر)  کے جمال میں گویا ہوئے!  یوں  جسم کٹائے،بریدہ جسموں نے خُدا کا نام غالب کردیا 

قائم رہنے والی روشنی ہماری یے،  وہ  حضرت جعفر رضی تعالی عنہ  کی روشنی جس نے خمیر بو طالبی سے روشنی پائی...نجاشی کے سامنے تلاوت قران الہی کی تھی، وہ جن کی سیرت و صورت دونوں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مشابہہ تھی 
. وہ  علی رضی تعالی عنہ. کی روشنی جس نے کعبہ سے اللہ کا  رستہ پایا،  وہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم جن کی تخلیق خالق کے مصوری کی انتہا تھی 

مثل حضور کوئی نہیں 
اوج ذات پر کوئی نہیں

ماہِ ‏ربیع ‏الاول

ربیع الاول کا ماہ مبارک شروع ہوا ہے  .... سب رنگ غم کے ماند پڑجاتے ہیں،  دل میں خوشی بہار کی مانند پھیل جاتی ہے ... درون میں جب سیرت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی پھیل جاتی ہے تو حیرت سے دل متعجب پوچھتا ہے کہ درون کیا ہے؟   درون باطن کو کہتے ہیں. ایسی دنیا جس کی بدولت خیالات متحرک ہوتے ہیں ...خیالات سوچ کے محور کے گرد گھومتے ہیں اور  احساس کو نمو دیتے ہیں ....احساس کی نمو سے  خیال کی تجسیم تلک، خیال کی تجسیم سے  حقیقت تلک .....  جب سوچ سے خیال، خیال سے تجسیم، تجسیم سے حقیقت مل جاتی ہے، تب مقامِ حیرت شروع ہوتا ہے .. ... کبھی کبھی یونہی گھٹنوں کے بل بیٹھے،  دیوار سے ٹیک لگائے خیال اکثر گنبد خضراء میں گھومتا ہے تو کبھی غارِ حرا کو ڈھونڈتا ہے .... گویا ایسے کہ غار حرا کی حقیقت پہلے بھی کھل چکی ہے یا کہ حرا کے مقام کی معرفت مل چکی ہو مگر اس کی حقیقت تلک رسائی میں خیال کی تجسیم دھندلا گئی ہے ... اس ماہ مبارک کی برکت تو یہی ہوتی ہے کہ دل کے آئنے پر غار حرا روشن ہونے لگتا ہے اور صدا یہی بازگشت بن جاتی ہے 

آؤ غارِ حرا چلیں ..،  چلو حرا کو چلیں .....

درون میں دراصل اصل خوشی ہے اور اصل ذات تک رسائی اصل الاصل خوشی ہے.  بچہ ماں سے جُدا ہوتے ہے مگر احساس کی مادی دنیا میں آتے اسکو نہیں پتا ہوتا اسکی ماں کون ہے مگر بچے کے دل میں ماں کی خوشبو بسی ہوتی ہے .ماں کا لمس اسکی خوشی ہوتی ہے ... اسیطرح جو خالق ہے، اسکا رشتہ بھی شناسائی کا ہے ... پہچان کرنے کا کہ کس دنیا سے آیا تھا اور کس جہاں میں آباد ہے. روح کا اک حصہ اس جہاں آباد ہے، جسکو عالم ملکوت کہتے ہیں ... اس عالم سے روح کو روشنی ملتی رہتی ہے اور روشنی کا ملنا گویا ربط کا سلسلہ ہونا .... ربط کا یہی سلسلہ اصل سے ملنا ہے، یہی وصال ہے اور جس قدر ربط بڑھتا جاتا ہے اسی قدر کمال نصیب ہوجاتا ہے .....

دل میں اسم حرا کی تکرار سے روشنی پھیل جائے تو ذکر کی تتلیاں،  درود کی پتیاں،  احساس کی اگر بتی سے سلگتا دھواں باطن میں عجب سا کیف طاری کردیتا ہے کہ گویا ذی وقار  کی ہی بات ہو ....  یہ احساس خوشی سے مسرور کردیتا ہے کہ احساس رگ و پے میں دوڑ رہا ہے اور ہر رگ فگار دل لیے ہے .... تار تار فگار دردِ ہجراں سے ہوا ہے اور ربط مل جائے تو درود واجب ہوجاتا ہے. اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ربط رکھنا ہو تو کثرت سے درود پڑھتا ضروری ہے .....

خارج بھی درون کا عکس ہے. پتا سرسراتا ہے کیونکہ میں نے اسے دیکھا ...میں نے آواز سنی اور میری روح نے وہ روشنی دی جس سے میں نے سننا شروع کیا تو احساس ہوا کچھ صدائیں معبد وجود کے درون اور کچھ خارج سے ہوتی ہیں .... درون کی آواز شناسائی ہے ....میں نے سرخ پھول دیکھا گویا میرے باطن نے سرخ رنگ جذب کرلیا اور باقی روشنی کے رنگوں کو منعکس کردیا ...... میرا رنگ سرخ ہوگیا .... مجھے پانی نیلا نظر آرہا ہے کیونکہ میری  آنکھ نیلا رنگ جذب کر رہی ہے اور باقی رنگ منعکس .... میرا رنگ بھی انہی سے نسبتوں سے معتبر ہوگا کہ اللہ کا رنگ سب رنگوں پر حاوی ہے ..... 

درون میں کمال کا، جلال کا،  جمال کا،  خشیت کا،  جبروت کا اور اسی اقسام کے رنگ ہوتے ہیں ... المصور،  عبد المصور کا ربط انہی رنگوں کو یاد دہانی ہے .... یہی ذات کا جوہر ہے .... یہی کندن ہونے کا عمل ہے
کاپی پیسٹ (نور)

روح ‏کی ‏گردش

روح مرکز کے گرد گھومتی رہتی ہے، اس قدر شدت سے کہ شیشہ ٹوٹ جاتا ہے .. آنکھ کو وہی نظر آتا ہے چار سُو جس کو جلوہ چار سُو .... وہ تو نم آنکھ کی نمی بڑھا دیتا ہے،  نم مٹی کی التجا تو ..... توئی چار سو ... اے جلوہِ جاناں دل گھوم گھوم کے تجھے چاہے .... ٍ تو جلوہ نما ہے .... 
 
 اے.میرے دل کے حبیب ...مٹنے لگے سب رقیب ... دوریاں گئیں سب مل گئے دل کو اپنے ..... یہ جدائی تھی جو سہی گئی تھی .... یہ جو وصل ہے جو چیخنے پر مجبور کرتا ہے ...دھمال ڈالنے کو .... یہ کیف آور رقص .. یہ گھومتے چوراہے .... یہ منازلِ بقا کے فاصلے .... یہ رابطے محبوب سے ... شادی کی کیفیت،  وصل قریب ہے وہ جو حبیب ہے جو رگ جان سے قریب ہے .... کھال اترگئ بس رہ گئ دھمال .... ہم پہ سرر طاری ہے ... ہم میں وہ رہتا ہے جس کے لیے گھر صاف ہے .... لا الہ الا اللہ .... ہم نے اس میں خود کو فنا کردیا .... کیا رہا؟  وہ رہا ... کیا ہے مجھ میں؟  نور علی نور کے سلاسل سے ملا پاک نور ہے ... یہ زیتون کے پتے پر مجلی ہوتا ہے کبھی طور پر مظہر تابع ہوتا ہے تو کبھی حبیب کبریا صلی علیہ والہ وسلم کی نظر سے بکھر جاتا ہے ... وہ سراپا طور وہ سراپا نور ... کرتے ہیں دل کو مخمور .. میرے کبریاء جاناں دل میں رہتے ہیں،  ان کی آنکھ مستانی ہے،  دل میرا نورانی ہے ... ورقہ عشقِ ہستی پلٹا جارہا ہے،  میرا صفحہ صفحہ نور سے پر نور ہے ... زندگی کی کتاب روشن کردی گئ ہے میرے لیے ہدایت لکھ دی گئی ہے ... مجھے ملا ہے اجازت نامہ،  سند عشق کی حدیث .. دل میں اک ہی عزیز .. اررررے وہ کدھر ہے 
 ارررے وہ ادھر ہے 
 ارررے میٹھا سا نغمہ سناؤ ... 
 سرمدی.عشق کا راگ ہے ... 
 یہ رات کا سہاگ ہے ... 
 دل اڑتا ہے فضا میں مانند باز.... سرخ ہاتھوں میں روشنی یار کی ..ذرہ ژرہ اسکی قندیل ... اس قندیل میں.زیتون کا تیل .... یہ شجر بڑا مضبوط ہوگیا ہے اس میں مہکتے گلاب کے خوشنما ہھول جن سے بسا رنگ و نور .... 
 
 طہ ... میرے طہ آگئے ... سارے پڑھو درود .... سارے پڑھو درود کہ سرکار آگئے ....  صلی علیہ والہ وسلم ...  
 
 
 دیے دیے پانی میں،  گلاب کی پتیاں رقص کریں گے .... روشنی بھی خوشبو بھی ... نور  و نور ہے زنجیر ... زنجیر عشق کی فولادی ہے ... عشق میں کیسی بربادی؟  ذات کے زندان سے پنچھی آزاد ... اس در چلیں گے جہاں پر مینار ِ نبوی صلی علیہ والہ وسلم ہیں ..... 
 
 الم نشرح لک صدرک ....
 
 کھل جائے جب سینہ تو خوشبو مل جاتی ہے، راز عیاں ہوجاتے ہیں ... حجاب مٹ جاتے ہیں .. اہنے اہنے مل جاتے ہیں .... روشنیوں کا شہر دل بن جاتا ہے دل میں نبی کا گھر ہو جاتا ہے .. دل حجاز ہوجاتا ہے ... حجاز کی سرزمین بڑی روشن ہے ... روشنی کے شہر میں کیا ہم اکیلے ہیں؟  کیا آبشار نہیں؟  کیا پہاڑ نہیں؟  کیا  اشجار نہیں؟  ارے جھک گئے سارے نورِ مجلی صلی.علیہ والہ وسلم آیا ... سر اٹھ نہ سکا،  نیاز  مند نیاز میں رہا .....  رات کا اعجاز .. رات کا اعجاز کہ رات بہت سہانی ہے ... رات نے بانٹی سرخی ... گلابی سرخی ... رواں رواں سرخ .... شہادت دی رہی نمازآزاں ... کٹ گئ رات .. سجدہِ شکر ہوا ادا .... شکر شکر شکر ...  یہ شکر وصل کی نشانی ہے یہ مسجود و ساجد کی کہانی ہے بیت ری اس پر جس کا دل نورانی ہے ..... 
 
 
 کعبہ.عشق کا کعبہ کون؟ 
 رات میں چاند کا مہتاب کون؟  
 عشق کی تمثیل کی تمثیل کون؟  
 شمیشیر غوث پاک ہیں ..... شمیشیر غوث پاک ہیں 
 
 مصحف کلمہ نظام صاحب ہیں .... 
 مصحف کلمہ.نظ صاحب ہیں ... 
 قلندروں کے امام حسین ہیں 
 جمال کائنات امام حسن ہیں 
 رہبر دو جہاں سرور کائنات 
 قصہ اک نیا شروع ہوا ... اک نئی منزل کا ازن .. مسافر آزان ِ عشق ادا ... نماز عشق قربانی کی رات ہے  شادی کی کیفیت ہے منادی کی کیفیت ہے .... یہ حج اکبر ہے ... حاجی کہلائے شادی کرایے ... اساں شاد تے آباد دل وچ رہندا ساڈا حبیب ... ....حبیب دے نظارے تو دل رجے وی نا ... اودھے جیا ایتھوں لبے وی کوئی نہ ....

رقص

رقص میں جہاں ہے یا میں رقص میں ....بات اک ہے ... میں ہی حقیقت ہوں ...باقی سب مایا ہے ....نور،  سب مایا ہے ...مایا جال میں پھنسنا کیا؟  دل مثلِ شمع فکر وجدان ...دل مثلِ بہار بکھرتے پھول ... دل مثل باد کے بکھر رہی جھول رہی ... دل مثل اشجار ... جھکے بندگی ...تیرے بندے تیرے بندے تیرے بندے 
 ..حم ...... حمعسق.... مر جانا مٹ جانا ... عین عشق ہو جائے بس... عین العین کا عکس ہوجانا اچھا ...فانی کو فنا ہوجانا اچھا ... باقی کو بقا میں قیام ہونا ..نماز کا عین ہے بقا ...بن بقا کے نماز نہیں ...بن بقا کے حج نہیں ... 
 شادی کی کیفیت 
 منادی کی کیفیت 
 آزادی کیوں مانگ 
 چل دے آزان 
 
 حبش میں ہو یا قرن ہو یا ارم میں ہو یا فلسطین میں یا کہ عرب کے صحرا میں ... قافلے سبھی مل جاتے ہیں چاہے ہند سے ہوں ... فرق نہیں رہتا جب سارے حاجی حج سے ہوں .... جب نمازیں قضا ادا ہوجائیں ... جب دل رب سچے کا ہو جائے تو دل منم جمال او ..... جمال میں کمال چھپے نورانی خزانے .... یہ منزل فنا ہے کہ بقا؟  یہ اوج ہے یا زوال؟  یہ کیسا مقام ہے؟  یہ جنگل،  نہ صحرا ...یہ موسی اور ہارون کا راز ہے ... یہ یحیی اور عیسی کا راز ہے ... دل انجیل مقدس دل انجیل مقدس ... دل میں قران مسلسل .. دل نماز میں مسلسل ... دل طوف شمع  میں ... دل حاجی .. دل اچوں حق ھو دیاں واجاں ... دل میں نمی .. دل عکس سے معمور... دل محو جمال .. دل حسین تجلیات کا مرقع .. دل قبلہ نما بنا .. دل مجذوب ..جذاب عالم محمد صلی علیہ ہیں

زندگی ‏میں ‏محبوب ‏کو ‏کہاں ‏کہاں ‏پایا

زندگی میں محبوب کو کہاں کہاں پایا!

مجسمِ حیرت ہوں اور دیکھ رہی ہوں اس کو... سب نظر آتا ہے جیسے کہ بس نظر نہیں آ رہا ہے ، سب ظاہر ہے مگر ظاہر نہیں ہے . نقش نقش میں عکس میں ہے آئینہ اس کا مگر میری نظر کمرے میں موجود ٹیبل لیمپ کی طرف مرکوز رہی .

میں نے اُس کو یک ٹک دیکھا اور سُوچا اس طرح محبت مل جائے گی . مسکرا دی ! اور بہار کا عالم سا محسوس ہوا کہ اب بہار کا موسم رہے گا کبھی نہ جانے کے لیے مگر اس بہار کو محسوس کرنا ہے کیسے .... یک ٹک دیکھنے سے ؟

نہیں ! پھر کیسے ؟

کمرے میں موجود ہوں اور مقید ہو کے نظر جمائے لیمپ کی روشنی دیکھ رہی ہوں اور کبھی ٹیوب لائٹ سے نکلنے والی روشنی ... یوں لگا منبع تو ایک ہے مگر ... مگر ایک نہیں ہے ..دونوں میں رنگ کا فرق ہے ... قریب گئی اور ہاتھ لگا کہ دیکھا ... لیمپ قدرے گرم تھا .. احساس ہوا کہ جاؤں اور ٹیوب لائٹ کو ہاتھ لگاؤں .. اس کا لگا کے دیکھا مگر مجھے محنت کرنی پڑی اس کو ہاتھ لگانے کے لیے ..... میں نے بالآخر لگایا ہاتھ .... احساس فرحت بخش تھا ... !

خود سے بولی : احساس ایک ہی ہے مگر جمال ہے جلال ..... ! جلال ہے کہ جمال ... ! یہ کہتی رہی ہوں میں .... روشنی روشنی ... بس روشنی روشنی ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں اس کو کوئی نام دوں ... روشنی کا نام ہے پھیل جانا اور اس کا کام اجالے دینا ، اُجیارا کرنا ... سیاہی کو مٹانا ...

فرق سے یاد آیا...
ارے !! یہ تو وہی چاند اور سورج کی روشنی ہے ... چندا روشنی لیتا ہے اور سورج کا ظرف ..... !!! سورج کا ظرف کہ وہ دے کر خاموش ہے ...تعریف چاند کی ہوتی ہے... تمثیل چاند ہوتا ہے .... محبوب بھی چاند ....!

سورج کی تمثیل نہیں کیا؟
ارے ! ہوتی ہے بابا!!! ہوتی ہے ! بس اس تمثیل میں آسمان و زمین کے قلابے نہیں ملائے جاتے ..... ظرف کا فرق ہے نا !!! ظرف ... جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا وہ خاموش ہے اور جو ہوتا ہے سمندر ... وہ خاموش رہ کر تصور باندھے رکھتا ہے چاند کا تو کبھی سورج کا اور سورج کا ہو کر چاند کو دیکھتا ہے کہ چاند ! کہ چاند ! تیری حقیقت کیا ہے ؟ کتنا غرور کرلے گا تو ؟ جتنا بھی کرے مگر اس پر کر .... ''دین'' تو ایک سے ہے اور لینے کا سلیقہ بس یہی کہ محبت میں رہے بندہ عاجز......!!!'

چاند گردش کس لیے کر رہا زمین کے گرد؟ کس لیے ؟ بتاؤ نا !!!
وہی تو .... لینے کا سلیقہ ہے اور دینے کا بھی ... اس ہاتھ لے اور اس ہاتھ دے ..... ملتا بھی تو ایسا ہے کہ فرق محسوس نہیں ہوتا کہ مل رہا ہے یہ چاند دے رہا ہے..

روشنی کی مشقت ! یا روشنی سے مشقت !

دونوں کرنی پڑتی ہیں... دونوں سے زندگی چلتی ہے جسم سے سرمدی نغموں کی لہریں نکلتی ہیں کہ نغمے کہاں سے آیا.... نغمہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے ... صدی بھی پل پھر کی ہوتی ہے یا پل میں صدیاں ... اور فاصلے کو کب ناپا جا سکتا ہے ... فاصلے بس فاصلے ... چلتے رہتے ہیں قافلے .... قافلے کو چلنا چاہیے کہ محبوب تو ایسے ملتا ہے ... نہ ملیں تو دکھ ، دکھ اور اس کے سوا کچھ ہوتا بھی نہیں ہے.... فاصلوں کا تکلف ... ہمیں کیا غرض ... ہمیں غزض ہو صرف اور صرف قافلے سے کہ جس کی سوچ پر چلنا ہے کائنات کا رُواں رُواں ... اس میں شمولیت کا ہونا عجب نہیں کہ عجب نہیں کائنات کے اس نگار خانے میں ... کوئی بیکار شے بھی کیا ہے کائنات کے اس کارخانے میں ؟؟؟

ارے ! ارے ! نہیں نہیں !!!! کچھ بھی نہیں ہے بیکار ! کچھ بھی نہیں ہے بیکار اس کارخانے میں....

کیا درد کا احساس بیکار نہیں ؟ کچھ بھی نہیں کہ دو پل کی زندگی ہے ، خوشی میں گزار دے اور جا نا ! جاکے عیش کر ! چار دن کی چاندنی ہے ...! گزار دے !

درد ! ہائے ! یہ درد ! جب سے محبوب جُدا ہوا ہے ،،،زمین تھم جاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ تھم دل بھی گیا ہے مگر اسی تیزی سے گھومتا ہے کہ صُبح کی نوید کوئی استعارہ ملے ....!!! کوئی اشارہ اور حوالہ ! یہ دنیا ہے ... دن اور رات کا چکر دنیا .... اس لیل و النھار کے چکر سے گھبرا مت .....!!! رات دن کی مجنوں اور دن رات کو لیلیٰ کی طرح چاہتا ہے ... رات کو دوام چاند سے ہے ... چاند کا رشتہ سورج سے ہے .... سورج روشنی ہے ! کون جانے گا اس روشنی کا.... کوئی کہے محشر کی گرمی ہے وصال میں اور کوئی راحت ہی راحت ہے چاند کے دیدار میں.... کون جانے درد کے کتنے چہرے ہیں ... کون جانے سب سے خوبصورت درد کا چہرہ .....؟

سب سے خوبرو چہرہ محبوت کا ہے.... سب سے پیارا درد کا چہرہ محبوب کا ہے .... اس کا احساس درد ہے ، مگر اس احساس سے دوامیت ملتی ہے ..... کون جانے گا اس محبت کے درد کو.... درد خوشبو ہے ، درد راحت بھی .. درد پیغام بھی ، درد الہام بھی ، درد اشکال بھی ، درد جمال بھی ، درد جلال میں.........کون جانے ! کون جانے ! کوئی نہ جانے ! جو جان جائے وہ کیا بتائے ! آہ ! درد بہت پیارا ہے............! اس درد کو میں اور آپ کیا محسوس کریں گے .....!

درد --------محبوب ---- روشنی

کیا تعلق درد کا روشنی سے کہ درد محبوب سے ملتا ہے ........ !!! جب تک ! جب تک درد نہ ملے ، آگاہی ہوتی نہیں ہے . اس کا انعام سمجھ اور تقسیم کو اکرام سمجھ ... اس تقیسم پر جہاں مرتا ہے ... مگر ہر کوئی مراد کہاں پاتا ہے .... راضی ہو جا اُس سے ، جو تجھ سے راضی ہے ... اس کی رضا میں سر جھکا ! سر جھکا ، مگر چھلکا کچھ بھی نا! جب جھکے گا سر ، تب ملے گا پھل ... اور جب ملے پھل تب کھلے گا اصل ... سب ایک ہی سے جڑا مگر مقصد جدا جدا ہیں...اصل اصل ہے اور نقل نقل ہے ..

مٹی کیا ہے َ؟ کیا ہے مٹی ہے؟ کچھ بھی نہیں ہے مٹی کی حقیقت .... کچھ بھی نہیں ... بس مٹی ایک ملمع ہے ، ایک پانی ہے ملمع کاری کا... بس اور کچھ نہیں .. نقلی چیز کون پسند کرتا ہے ...کوئی نہیں... سب سونا خالص مانگتے ! اور سونا خالص ہر جگہ ملتا نہیں ہے ....! جہاں ملے وہاں عطا ہوجاتی ہے ..

میرا سوال پھر بھی ادھوارا ہے کہ محبوب کو میں نے کہاں کہاں پایا ہے .....َ؟

سب کچھ سامنے ہے اور سوال پر سوال... غور کرآلے کچھ ... فکر کر لے کچھ.... محبوب کو درد میں پایا کیا؟ محبوب کا احساس میں پایا کیا؟ محبوب کو مظاہر میں پایا کیا ہے ؟ محبوب کو دل میں پایا کیا؟ اگر پایا تو سوال بڑا لا یعنی ہے اور نہیں پایا تو سوال بے معنی ہے جس کی تُک نہیں ... سب کچھ پکی پکائی کھیر نہیں کہ آنکھ چاہے ، دل مانگے جو وہی مل جائے ... بس جب فکر کی جائے تو آنکھ سے پہاڑ کی طرح کچھ بھی اوجھل نہیں ہونا.... بس راضی رہ ! راضی کرنا بھی سیکھ! خوش رہ اور خوش کرنا بھی سیکھ ! شکر کر اور شکر کرنا بھی سیکھ! چلتا بھی رہے اور ساکت رہنا بھی سیکھ کہ پانی بہتا بھی ہے اور ساکت بھی ہوتا ہے ، شور بھی مچا موج کی مانند اور خاموش بھی رہ سمندر کے جیسا...!!! درد لینا بھی سیکھ ، درد کو سمیٹنا بھی سیکھ ..! سیکھ سب ... فکر کر کیا کیا سیکھنا اور پھر جستجو کر ..........!!!

میں ‏حسن ‏مجسم ‏ہوں ‏

میں حُسنِ مجسم ہوں 

کبھی کبھی تعریف کرنے کو دل چاہتا ہے میں خود کی تعریف کروں کہ میں حُسنِ مجسم ہوں ۔ ویسے تو ہر کوئی حُسن پرست ہے مگر میں کچھ زیادہ ہی حُسن پرست ہوں۔ گھنٹوں آئنہ دیکھوں مگر دل نہ بھرے ۔ میں نے آئنہ دیکھنا تو بچپن سے ہی شروع کیا کہ ہر کوئی پچپن سے کرتا مگر اپنے حسین ہونے کا احساس بچپن سے ہی جڑ پکڑ گیا کہ میں نور مجسم ہوں۔ میں حسین اور مجھ سا کوئی حسین نہیں۔ سوا اپنی حسن پرستی اور خُود نمائی کہ کچھ نہیں ۔ کچھ عرصہ ایسا گزارا میرے دل نے آئنے کے سامنے کھڑا ہونا چھوڑ دیا مجھے لگا کہ میں حسین نہیں ہوں ۔ میں سدا کی حُسن پرست ، جمال و ذوق کی خاطر اپنا نقصان کرنے والی ، ایک دن دنیا کی خاطر اپنے ذوق کا نقصان کردیا۔

آج میں کھڑی ہوں آنئے کے سامنے اور صبُح سے تک رہی خود کو۔۔۔ سوچ رہی ہوں میں کتنی حسین ہوں ، مجھ پر سحر سا طاری ہو رہا ہے جیسے میں کسی جھیل کے کنارے کھڑی ہوں ، اور ندی کی جھرنے میں سے میرا عکس میرے ہوبہو کھڑا مجھ سے باتیں کر رہا ہے اور میں ان جھرنوں کی موسیقیت میں خود کو سمو لے کر پُھولوں کی مہک محسوس کرتی ہوں میرا تن من مہک جاتا ہے ۔ گُلاب کی خوشبو کی میں شُروع سے دیوانی۔۔۔!!! مجھے خوشبو پاگل کر دیتی ہے 

یہ میری خود پسندی نہیں ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے ہر بندہ خوبصورت ہے کہ نگاہ میں ہو خوبصورتی بس! تلاش کو گر خوبصورتی کی مورتیں ۔۔۔کہاں ملیں گی ؟ کھوج لو یہ مورت اندر ! مل جائے گی خوبصورتی ۔۔ اس کی قیمت ابدی ہے ۔ یہ ویسے ہی خوبصورتی ہے ، جیسا کہ دنیا میں ہر سو باد ک جُھونکوں نے اشجار کے پتوں میں آواز پیدا کر دی ہو۔۔۔ ہواؤں نے گُلوں کی خوشبو جہاں میں مہکا دی ہو ۔ ندیوں نے پانی کی غزل بنا دی ہو۔ پرندوں نے موسیقی سے تال ملا دی ہو ، پہاڑوں نے کوئی گواہی دی ہو تب۔۔۔۔۔۔۔!!! گواہی دی ؟ ہاں دی !

کس کی گواہی ؟ حُسن کی گواہی !

''میں'' کہ اس وادی میں، جہاں سب مظاہر میری تعریف کرتے ہیں کہ ''میں'' ہی سب کچھ ہوں اور ''میں'' ایک حقیقت ہوں ۔ کیا حسین ہونا ہی خوبصورتی ہے ؟ میں نے کبھی خود کی تعریف نہیں کی تھی مگر آج جی چاہتا کہ تعریف کیے جاؤں اور کہے جاؤں کہ ''میں'' خوبصورت ہوں ۔ ''میں'' سرمدی نغمہ ہوں ۔۔۔!!!

میری اندر کی ''تو'' کی جنگ کو شکست فاش ہوگئی ہے ۔ کشمکش کو انجام ہونا تھا ۔ کشمکش انجام پا گئی ہے ۔ اس لیے اب کہ ''میں ''خود اپنے جمال میں محو ہوں ۔ انسان کتنی عُمر لے کے آیا ؟ کتنی لے کر جائے گا؟ بچہ پیدا ہوا معصوم ۔۔ لے کر آیا جمال اور واپس نہ جاسکا بحالتِ جمال تو کیا ہوگا؟

ابھی جمال میں محو ۔۔۔!!!

ابھی اشکوں نے شرر بار کردیا ! ابھی ندامت میں سر جھک گیا ! ابھی حلاوت نے فرحت ختم کردی ! ابھی رموز و آداب سے واقف نہیں ہوں۔ اس لیے اپنے آپ میں محو ہوں ۔ ابھی سجدہ کیا ! سجدہ کیا کہ معبود کا سجدہ عین العین ہے ۔۔۔ ابھی گُناہوں کی معاف مانگی ۔!!! انسان سمجھتا نہیں ہے کہ انسان جمال کا طالب ہے ، حسن کا مشتاق ہے ، پاگل ہے ، آوارہ ہے ، نہریں کھودتا دودھ کے ، کچے گھڑے پر بھروسہ ہوتا ، اور جانے کیا کرتا ہے ، حاصل ِ ذات اگر کامل ذات نہ ہو تو فائدہ ؟ مجھے شرمندہ ہونا تھا ۔۔۔ آج کے بعد کبھی خود کو خوبصورت نہیں کہوں گی؟ مگر کیوں نہ کہوں اگر میں خود کو بُھلا دوں تو؟ مجھ میں کیا رہے گا ؟ مجھ میں واحد رہے گا ۔۔۔ تو پھر کیوں کروں خود سے نفرت ؟ میں خود سے نفرت کیوں کروں کہ خود سے محبت آج ہی تو کی ہے

تجدید ‏کی ‏کنجی ‏!

تجدید کی کُنجی .....!!!

اے پیارے دِل ، میری پیاری جان ، میرے مہمان .... جان لو ، گواہ بنا لو ، حق کی بات کو ...! گواہی کی ضرورت آن پڑی اور سجدہ کی اہمیت کو انکار کون کرسکتا ہے . سجدہ اور گواہی اور انسان .... ان کا تعلق بڑا گہرا ہے ، جو جان لے وہ مراد پا گیا اور گوہر کو لے اُڑا. انسان کی مٹی کی حیثیت کیا ہے ؟

کس کی حیثیت ہے ؟

وہ جس سے علم حاصل کرتے ہو ...!!!

کیا وہ حواس ہیں؟
نہیں پیارے ، او مرے دلدار ... اے جانِ جاناں ... حواس کا کام صرف محسوس کرنا ہے ، اندر محسوس کرنا ہے یا باہر .... استعمال پر منحصر ہے ... ؟

حواس کا کام محسوس کرنا ہے تو علم کہاں سے آتا ؟ حسیات سے تو آتا ؟

اے جانِ دل ، میری عزیز تر ، مجھ سے قریب تر ، کیا بتاؤں میں .... اے جان تجھ کو کیا بتاؤں ... علم کیا ہے ؟ علم ہی سب کچھ ہے مگر حاصل کہاں سے کیا ؟ حواس ؟ نہیں جانی ...!!! کبھی کمپیوٹر کو دیکھ لے ، ماؤس اور کی بورڈ کو دیکھ ..! اے جاناں ... یہ ہی حواس ہیں ... یہ کام کرتے ہیں ان کو جیسے چلایا جاتا ہے . مگر جاناں ... چلاتا ہے کون؟ انسان ... ؟ کون؟ کوئی سالار ؟ اے میرے قریب تر ، مجھے ہو عزیز تر... سُنو ! سنو! سُنو ! سن کے جب اثر ہوا تو کہاں ہوا؟ اصل تک اثر کس نے پہنچایا ؟ کس نے ؟ کوئی پروسیسر ہے ؟ ہے کوئی ... بس مانیٹر کرنے والی مشین جو ''دو '' کے درمیاں قائم کرے توازن ... وہ ہے عقل ...! کون قائم کرتا ہے عقل کو ؟ کون ملاتا ہے مالک کو غلام سے اور کون بناتا ہے غلام کو آقا؟ جو بناتا ہے غلام کو آقا...! وہ ہو جاتا ہے خراب اور خراب کون پوچھے ! سمجھ ! سمجھ ! سمجھ ! اور سمجھ کے غور کر ! غور کر اور حاصل کر ! حاصل کو عطیہ جان اور فخر کر کہ عطا خاص ہے جو ہر روح کو ملے مگر اس کے لیے راستہ سیدھا کون کرے گا؟ کون آئے گا محبوب کی تخلیق کے پاس ؟ او خاکی !!! ترا اوپر ایک مٹی کا ''میک اپ '' ہے .. اندر کی اصل اس لیپا پوتی میں نہ چھپا ! اپنے اندر کا چہرہ سامنے لا ....! لا سامنے نا ! لا سامنے ! اور سامنے لا کے دیکھ خود کو ...! محو ہوجا! مگر اگر بنالے تُو خُود کو حیوان اور ہوجائے ''میک اپ '' کا ماسک ترا چہرہ ... تو کون بچا پائے گا تجھ کو گمراہی سے !

اے دِل ، اس قدر ثقیل باتوں کو سمجھوں کیسے ؟ کیسے ؟ بتا دو نا ! بتا دو ! ثقیل کی عمیق میں کُھو کر پا جاؤں خُود کو .. یہ '' غلام " کون ہے ؟ اس غلامی سے نجات کی شرط کیا ہے ؟

اے حبیب ِ دل ! اے مکینِ دل ! اے قریب جان ! سوال بڑے عالمانہ ہیں مگر الجھ نہ ، سلجھا سب باتوں کو ..! سُن کہ غلامی حواس کے ذریعے اور نجات بھی حواس کے ذریعے ..! پروسیسر کی پراسسنگ ٹھیک ہونی چاہیے ... !

ہائے ! کیسے ہوگی ٹھیک !

ہوگی ٹھیک ! کر لے عہد کو تازہ اور شرشاری کو اپنا من و عن ، سمجھ کہ دو عالم کی سیر کے بعد ''الست بربکم '' پر سب نے کئے دستخط مگر کثافت میں آئے تو بھول گئے اور بھول گئے تو حواس نے غلام بنا لیا عقل کو .. محسوس موجودات کو کیا اپنی مرضی سے۔۔۔ اور چھوڑ دیا اپنا مرکز ، اپنی سمت کہ جس سمت سے دیکھنا تھا موجوادات کو... ہائے ۔۔!!!!کیا کریں گے وہ ۔۔! وہ جو چھوڑ گئے اپنے ''اعمال سیہ '' کے نشانات !!! کیا کریں گے ؟ جب ان کے سیہ کاریوں نے ان کو مرکز کو گُم کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! ان کی سمت مرکز کے مخالف ہوگئی اور عقل نے بنا لیا حواس کو قبلہ...!!! کہاں جائیں گے وہ ؟ کہاں جن کو اب آئنہ سے کچھ نہ ملا تو وہ آخرت میں کیا پائیں گے ؟ کیا پائیں گے ؟ کیا پائیں گے ؟

وہ جنہوں نے عقل کو تابع کرلیا اور حواس کو پہچان لیا اور زندگی میں کردی شُروع جنگ ! کردی گئی ان پر دنیا تنگ ! اور ہوگئے سب ننگ ! کیا کریں گے پتنگے ؟ کہاں جائیں گے ؟ شمع کہاں سے پائیں گے ؟ شمع جس نے پالی ..اُس نے حقیقت کو جان لیا ...! سب سے پہلے اپنی پہچان لازم ہے ..! وہ پہچان جس کے لیے مرکز کو حُکم کہ حاصل کر اپنا ایمان تجدید کے ذریعے ...! مرکز نے سجدہ کر دیا مگر اِس سے پہلے کیا کیا ؟ کیا؟ مرکز نے مانا عقل کو تابع اپنا اور عقل نے کیا حواس کو تابع اپنا اور جب ایک ہوگئے سب ... سب نے یک بیک کہا !

'' قالو بلی''

اور قالو بلی ! سے ''قلم '' کو ملی روشنی ! عقل نے سیکھا پیچ و خم میں سے الجھ کر نکلنا اور گنہ سے بچنا اور پروسیسر پر لکھا گیا پیمانِ الست ! ایک پیمان کیا پہلی تخلیق پر .. یعنی اصل کی تخلیق پر اور ایک پیمان کرو تم سب مٹی میں آجانے کے بعد ، کثیف ہوجانے کے بعد... تاکہ کثافت میں رہتے ہوئے مرکز کو جان کر عقل کو مطیع کرکے ، حواس کو اپنے روح سے کرلو قریب تر ! جب یہ کرچکے تو ہوگئی تجدید ! عہد ہو گیا تازہ ! اور تاز ہ ہوجانے کے بعد کُھلا الہام و کشف و وحی کا سلسلہ ! جس نے کر دی تجدید اور سلسلہ کھُلا تو سمجھ لو کہ راضی ہوا رب اور جب کردیا راضی رب کو ! تو فرض کیا ؟ فرض یہ کہ سجدہ کر و ! سجدہ کہ شکر واجب ہوا اور تم ہوگئے اور خالق کے قریب تر ، اس کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کتنا علم دے کہ '''وہ نوازنے پر آئے تو نواز دے زمانہ۔۔۔!!

مگر افسوس پیارے ! افسوس پیارے ! جنہوں نے اپنا خُدا بنایا مرکز کو چھوڑ کر ''دو'' سے ... یعنی تحقیق کی ، کھوجا ! اور کھوجا ماؤس اور کی بوڑد سے ، اپنی پروسییسر کے ذریعے .. انہوں نے منزل کھو دی ! جو منزل کھو دیں وہ کیا کریں ؟ بولو ؟ کیا کریں؟ کیا ؟ وہ مرکز جو سب مرکزوں کو اپنے سے جوڑے ہوئے ہیں ، اسکی تصویریں ہیں سب ، سب تصویروں میں لکھا خالق کانام اور جب خالق کا نام روح نے مٹا ڈالا تو ہوگئی اندھی ! اندھا کیا جانے سمت کیا ہے ؟ اندھے کا کام طنز کرنا ہے ، اندھے کا کام ہجو کرنا ہے ، اندھے کا کام دین میں سے نکالنا وہ باتیں جو پھیلائیں فتنہ اور کریں شرر بار ! جذبات کردیں مجروح ! اندھا تو کرے گا یہ کام مگر ہو گا کیا انجام اُس کا ؟

کبھی تٗوسوچو ! کبھی تو سوچو !

جو خالق کا نام لے لے کر ، اُس کے نام سے اُڑائے مزاق ، اُس پاک نام کی ہجو کرے ، اس کے بندے کو کرے ناراض ، اس کا انجام کیا ہوگا ؟ کیا ہوگا ؟ یقنیاً ! یقیناً! یقیناً ! ہوگا اس کا انجام بُرا مگر اے جاناں ! دُکھ اور تاسف ! دکھ انہوں نے پہچان کھو دی ! حقیقت سے دور ہوگئے اور اپنے خُدا بنا لیے ! ان خُداؤں سے نکلیں تو کریں تجدید !

افسوس ہے جو نہ کرپائیں گے تجدید ، وہ ہوجائیں گے رُسوا اور رُسوا ہو جانے کے بعد ملتا ہے عذاب ، درد ناک عذاب ، ملے گا پل پل میں صدی کا عذاب اور اس عذاب دُہرایا جائے گا صدیوں تک ! صدیوں کے پل اور صدیوں کا درد جب ملے گا تُو کیا ہوگا ! ہوگا کیا ! بس ہمیشہ کے لیے رہیں گے عذاب میں اور روئیں گے ہم نے علم حاصل نہ کیا جس کی وجہ سے ہمیں فرشتوں پر ٖفضیلت حاصل ہے !

سجدہ ! سجدہ ! اور بس ایک کر سجدہ اور ادا کر ساری عبادتیں قضا اس سجدے میں ، توبہ کرلے اور ہو جا حبیب ! بن جا خوش نصیب اور قریب ہونے سے حاصل کر رب سچے کا قُرب !

آسمانوں ‏زمینوں ‏کا ‏مالک***

آسمانوں زمینوں کا مالک اللہ تعالی ہے اور وہی حکیم الحکئم ہے ۔ اس کی ذات  کی تجلی جس پر پڑ جاتی تے وہ نور سے منور ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر جس انسان پر عنایات کی بارش کرتا ہے اس کی نوازش کی انتہا  کا تصور  نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ جو پیاررے رسول ﷺ اللہ کے محبوب ہیں اللہ تعالیٰ جب ان کو نوازیں گے تو کیسے نوازیں گے اس کا اللہ نے قران پاک میں جگہ جگہ ذکر کیا ہے ۔ کہیں کہا گیا ہے کہ مقامَ محمود سے نواز دیں گے تو کہیں کہا گیا ہے ایسی نہر کی عطا ہوگی جس کسی اور نبی یا بشر کو نہ ملے گی تو کہیں ارشاد ہوتا ہے ایک ہزاد محلات سے نوازیں گے تو کہیں شفاعت کا حق دیا تو کہیں ساقی حوضِ کوثر بنایا اور تو اور آپﷺ  پر نا صرف بلکہ آپﷺ کی آل پر بھی درود بھیجنا عائد کیا ہے ۔ میرے نبی ﷺ کی مثال تو ایسی ہے جیسے چمکتا سورج ہے اور ایسا سورج جس سے دیکھ کے چاند شرمائے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اکرامات کا ذکر سورہ الضحٰی میں کیا ہے اور براہ راست نبی کریمﷺ کرتے قسم کھائی ہے کہ میرے نبی کی مثال روشنی دیتے ہوئے سورج کی سی ہے جبکہ باطل میں رہنے والے افراد کی مثال تاریکی سے ہے ایسی رات جس میں خاموشی اور ہو کا عالم ہے جبکہ دن جس میں چہل پہل اور رونق ہے ۔ دن رات پر حاوی ہے اسی طرح میرے نبی کریمﷺ جیسا سورج افق پر نموادر ہوچکا ہے جو گھپ اندھیری رات میں باعث روشنی ہے ۔ سبحان اللہ اللہ جل شانہ کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہمیں راہ دکھلاتے ہیں تاکہ ہم نشانیاں سمجھیں اور ان پر غور کریں ۔ دن کے ساتھ اور رات کے ساتھ دن ہے بالکل اسی طرح نبی کریمﷺ کے ساتھ اللہ جل شانہ کا ربط مسلسل ہے کہ رات کا مالک بھی وہی ہے اور دن کا بھی ۔۔ اس ربط میں اگر وحی کا نزول نہ بھی ہو تو پریشانی کی بات نہیں اور جب ہو اس سے بڑھ کر خوشی کی بات نہیں ۔ دونوں حالت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریمﷺ سے راضی ہیں اور اسی بات کی بشارت دیتے ہیں کہ میں آپ ﷺ سے راضی ہوں اس رضا کی بدولت جب مجھ سے بدلے کی امید رکھو تو میں ہی سنو دینے والا ہوں اور میری عطا ایسی بے مثال ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے جب اللہ نوازنے پر آجائیں تو بے شک اس کی کوئی حد نہیں آتے کہ وہ نوازنے پر آئے تو نواز دے زمانہ تو نبی آخر الزماں ، میرے کبریاء پر اللہ کی نوازش ہے اس نوازش اور انعام کے بدلے ان کے ذمے کچھ احکامات اللہ تعالیٰ نے ان کے ذمے لگائے ہیں  ۔ جیسا کہ آپﷺ کو اللہ نے شریعت کا علم دیتے راہ دکھائی کہ اس سے پہلے اس سے لا علم تھے ۔ آپﷺ یتیم و مسکیں تھے مگر آپﷺ پر اللہ نے عنایات کی بارش کردی ۔ آپﷺ پر تنگی کو دور کیا بالکل اسی طرح  نبی اکرمﷺ پر واجب ہے کہ جیسا اللہ نے ان سے معاملہ کیا ہے ویسا ہی معاملہ وہ اس سے  کے بندوں سے رکھتے  عفو  و رحمت اور اجالے کا باعث بنے کہ ان کو علم دیا ہے تو اس کی تقسیم کریں ان کو غنی کیا ہے اس کی تقسیم کریں ۔اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو احسانات یاد  رکھنے کا حکم دیا ہے

چونکہ ہم آپﷺ کے پیروکار ہیں تو یہی بات ہم پر لاگو ہوتی ہے کہ اللہ نے مصائب و آلام میں ہمیں سہارا دیا ، ہم لا علم تھے ہمیں اسلام جیسا مکمل دین نواز ہے ، ہم عسرت میں ہوں تو اس کو پکارتے ہیں اور اس پکار کے ساتھ دل میں وہ راحت و تسکیں بھرتے غموں کو دور کر دیتا ہے بلاشبہ اللہ کا احسان عظیم ہے کہ ہمیں بھی دکھی انسانیت کو ویسا ہی سہارا دینا چاہیے جیسے نبی اکرمﷺ نے دیا ہے اور ویسے ہی طرز عمل رکھنا چاہیے جیسے ہمارے نبی اکرمﷺ کا تھا ۔۔جزاک اللہ خیر

راز ‏حقیقت ‏"کن ‏فیکون ‏"

راز حقیقت ''کن فیکون ''
جب لب ہلیں اور حرف واجب ہوجائیں تو تاثیر ختم ہوجاتی ہے ۔ احساس جس چڑیا کا نام ہے اس پرندے نے ہر ذی نفس کے جسم میں پھڑپھڑانا ہے ۔ جس طرح ہر ذی نفس نے ذائقہ الموت پہنچنا ہے اس کے لیے لازم ہے عہد الست کو یاد رکھے اور پنچھیوں کو اپنے آشیانوں کے بجائے درختوں کی شاخوں پر پڑاؤ کرنا پڑتا ہے ۔قانون قدرت ہے کہ ہجرت پرندوں کا مقدر ٹھہرتی مگر اس سے پہلے لازوال تمثیل ان کے روبرو ہوکے سارے غم غلط کر دیتی ہے ۔ تب خودی میں ڈوبنے والے ذات کا سراغ پانے کے بعد اپنی ذات سے مبراء محبوب کا کان ، ناک ، ہونٹ بن جاتے ہیں ان کے ہونٹوں سے ادا ہونے لفظ ، آنکھوں کی جنبش اور ہاتھوں کی لررزش مکمل ابلاغ کی حامل ہوتی ہے اور اس کو اپنے محبوب تک پہنچنی کے لیے فلک تا عرش کوئی راستہ نہیں روک سکتا ہے ۔ جب تری دعا، تری التجا اور مدعا محبوب تک ایسے پہنچنے لگے تو تجھے چاہیے کیا ِ؟ انسان کا کام ہے کہ ادھر ادھر چھپے مظاہر سے جستجو کا سفر جاری رکھے اور یہاں واں کھانے پینے سے زندگی کو دوام کہاں ملتا ہے ۔ مدام خوشی و ہجر اپنے وقت ء معین سے نکلتے رہتے ہیں مگر ان کے دائرے کبھی فضائے بسیط میں داخل ہو جائیں تو لامکان کی بلندیوں اور عرش کی حلقہ بندیوں میں چھپے اسرار عیاں ہونے لگتا ہے ۔ یہاں سے راز حقیقت ''کن فیکون '' اس تک پہنچنے لگتا ہے جس کا وعدہ بوقت تخلیق اللہ نے مشت ء خاک سے کیا تھا ۔ اس کے بعد نوازشات کی بے انتہا بارش سے انسان نہا جاتا ہے اور بعد اس کے ناشکری پر رب تعالی نے فرمایا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ِ؟ یہی پیغام اسی تحریر کے نہاں گوشوں سے نکلتا سرر و سحر کی کیفیتات کا موجب بنتا ہے اور بتاتا ہے آدم و حوا کی بنا کسی مقصد کے پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ آدم کی پسلی سے نکلنی والی حوا نے اسی کی نسل کو چلانے کا کام سر انجام دیا اور آدم کو بحثیت نائب روح انسانی پر تعینات کیا ہے ۔۔ قدرتی نظام انہی پنچھیوں سے چلتا ہے جن کے سردار انبیاء اور اولیاء ہیں جن کے کشف و کرامات کے قصے آج بھی انمول نقش رکھتے ہیں اور جو کہے کہ یہ تو قصہ ہیں وہ صرف حقیقت نہیں جانتے ہیں ۔ ان کو بس اپنی خودی چاہت مبتلا کرتی ہے ۔ انہی باتوں سے دور عشاق کا قافلہ اپنی علیحدہ درجہ بندہ کیے ہوئے ہیں اور یہی لوگ بالیقین منازل صراط عبور کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ان کے فرائض وقت بڑھاتا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ درجہ پانے والے بنتے جاتے ہیں ۔ نفس ملحمہ پر استوار روحیں جبروت ، ملکوت و لاہوت کی انتہا تک پہنچ مطمئنہ کی منزل قرار لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ اس سے اچھا اجر رب عالمین کے پاس سے کس کو مل سکتا ہے کہ رب اس کو محبوب رکھے جو اس کو محبوب رکھتا ہے اور جو اسکے محبوب کو محب جانتا ہے ۔وصل یار سے ہوتے نور کو پاتے عین العین کی منازل عبور کرنے والے ہوتے ہیں اور پھر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم اپنے
رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔
انسان کو اللہ تعالیٰ کبھی اپنی ہمت و استطاعت سے زیادہ نہیں آزماتا ہے ۔ جو جتنا برداشت کرتا ہے اس دنیا میں ، دوسرے جہاں میں صراط سے گُزرنا اتنا ہی قوی پاتا ہے ۔ دنیا آخرت پر مستوی ہے اور اس دنیا کا استوا ہمارا یقین ہے جو ہمیں آزمائشوں کے صراط سے نبرآزما ہونے کی توفیق دیتا ہے ۔ اس بات کی سمجھ کبھی نہیں آئی تھی کہ سب سے زیادہ برداشت اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کیوں کرنا پڑا اور صبر کی مثال جناب حضرت ایوب علیہ سلام سے کیوں مستعار لی جاتی ہے ۔ یہ دنیا ایک عالم ہے جہاں روحیں بستی ہیں اور روح بھی ایک خیال ہے اور خیال یعنی روح بھی اپنا عالم رکھتی ہے ۔ کوئی روحیں صرف شوق جستجو رکھتی ہے اور عشق کی آگ میں ابد تا ازل جلتی رہتی ہیں ۔ کاغذ چونکہ ایک خیال نہیں ہے اس لیے اس کی راکھ نظر آتی ہے اور روح چونکہ ایک خیال ہے اس لیے اس کا جلنا دکھتا نہیں اس کی راکھ بھی نہیں ہوتی مگر جلتی رہتی ہیں اور جتنے شوق سے جلتی ہے اسی لگن کا چراغ بنادی جاتی ہے ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بہت کم لوگ عشق کے لیے پیدا کیے گئے کہ جلنا ہر کسی کے بس کا بات نہیں مگر یہ بھی سچ ہے ہر روح جلتی ہے ، اس کی کاغذ کتنا بڑا ہے یا خیال جتنا بڑا ہوتا ہے ، اس کے مطابق جلتی ہے اور جو جلنا محسوس کرتی ہیں ان کو روشنی دے دی جاتی ہے ،ہم اس نبی کے امتی ہیں جن کو شوق کی پُھونک سے بنایا گیا ۔ ہمارا قافلہ عشاق کا قافلہ ہے جو جہاں سے چلا ہے وہیں سے اٹھے گا ، جو عشق دنیا رکھے گا وہ اس کو پا لے گا ، جو حدت جاوادانی کی شراب میں نشاط غم کے مزے لے گا ، اس کو شراب سے میخانہ بنا دیا جائے گا ۔ یہ تو اللہ کی عطا پر منحصر ہے کہ وہ کسی کو کیا بناتا ہے اور کس کو کتنا دیتا ہے اسکی دین کے مطابق ہمیں برداشت کی طاقت بھی مل جاتی ہے ۔

حاجی ‏کون

حاجی کون۔۔۔!
دنیا میں خواہش کا ہونا اللہ کے ہونے کی دلیل ہے اور اس کی حسرت ہونا انسان کے عبد ہونے کی دلیل ہے ۔ کچھ لوگ خواہش کو حسرت بنا لیتے ہیں اور کچھ لوگ خواہش کی تکمیل کے لیے جان لڑا دیتے ہیں اور کچھ امید کا دامن سدا یقین کے سفر پر رواں رہتے ہیں ۔ یونہی ایک دن میں نے بھی خواہش بُنی کہ میں حج کرنا چاہتی ہوں ۔ لوگوں کو حج کرتے دیکھا کرتی اور سوچتی کہ بڑے خُوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ کے گھر جاتے ہیں ۔ عید الضحی پر پچھلے سال افسردہ بیٹھی تھی کہ دل سے ایک صدا اُبھری :

حاجی کون۔۔۔۔۔!
وہ جو خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں
وہ جو قربانی کی یاد مناتے ہیں
قربانی جس کی ابتدا حضرت اسماعیلؑ سے ہوئی
قربانی جس کی انتہا حضرت امام حسینؑ سے ہوئی
میں انہی سوچوں میں غلطاں رہتی تھی کہ مجھے کون سی قربانی دینی ہے ۔
کیا ہم سب کو قربانی کی صرف یاد منانی ہے
یا اس کو مقصدِ حیات بنانا ہے ؟
مجھے اچانک ایسا لگا کہ کوئی اندر صدا لگا رہا ہے !
دل سے ایک صدا ابھر رہی ہو
جیسے کہ اچانک کوئی اندر مجھ میں صدا لگا رہا ہے ۔
میرے سامنے تو آؤ۔۔۔!
من مین چھپے لگاتے ہو صدائیں۔۔۔!
بڑی رنگوں کی پکار تم کرچکے
بہت سے رنگ مجھے دکھا دیے !
مجھے رنگوں میں الجھا دیا ہے!
پاؤں میں زنجیر ڈال مجھے مسافر کردیا ہے !
میری پاؤں میں اپنی تلاش کی زنجیر ڈال دی ۔
کس کے پیچھے میں بھاگوں...!
اور کروں تلاش کا سفر ۔۔!
اس نگر سے اس نگر کا سفر،
پاؤں میں ڈال تلاش کی زنجیر
مجھے تو مسافر کردیا ہے .......!
ہائے ! تم نے یہ کیا کر دیا ۔۔!
میرے لیے سب صحرا کر دیا۔۔!
کس سمت جاؤں اور کس کو پکاروں ؟
کہ میں رنگی ہوں تو کیسے ؟
یہ رنگ مجھ پر کیسا ہے ؟

''او رنگی ۔۔!
اپنے اندر جھانکتی کیوں نہیں ہے ؟
من میں جھانک اور پا سراغ ِ زندگی !
مٹا کے ہستی کے سب رنگ
تو کر اب میری بندگی
دیکھ ۔۔۔!
پاس جا'' کالے کپڑے ''کے
''کالے کپڑے'' میں چھپا حرم ہے ۔
کعبہ کو سلام پیش کر اور گزر جا۔۔!
یہی تیرا کام ہے ایسے ہی شور نہ مچا تو ''

کون ہو تم َ؟
''رنگی '' کہنے والے تم کون ہو ؟
مجھے کس نے رنگنا ہے ؟
میرا عشق باؤلا ہے اور روح مدہوش !
کیا تم نے رنگا مجھے ؟
ایک طرف جی چاہتا کالا کپڑا ہٹادوں ۔۔۔!
پھر جی چاپتا ہے پاس کھڑے مناجات کروں !
مجھے یقین ہے وہ میری دعا کو سنے گا !
وہ جس کا گھر ہے ''یہ''
دعا ہوگی میری قبول ،
اس کے بعد کیا ہوگا ؟
میرا نہ رنگ رہے گا اور نہ روپ ۔۔۔۔۔!!
میرے اندر کون ہوگا ؟کیا تم ۔۔۔۔؟

سنو۔۔۔!!

وہ کعبہ اِدھر ہے تو'' یہ'' کعبہ اُدھر ہے ۔
ِادھر بھی رنگ کالا ہے اور اُدھر بھی۔
اِدھر طوافِ خاک اور ادُھر میری ذات ہے۔
اِدھر بدن مست ہے اُدھر میں مدہوش ہوں
اِدھر تم نظر آتے ہو اور اُدھر تم بس چکے ہو
اب بس چکے ہو تو طواف ہو رہا ہے ۔
اِدھر بدن محو رقص تھا اب روح محوِ رقص ہے!!
اُدھر کوئی عاشق تھا تو اِدھر مجذوب ہے !!
اُدھر ست رنگی اور اِدھر یک رنگی ۔۔۔
اُدھر شاہد تھا کوئی اور اب مشہود
اُدھر کوئی ضرب لگائے پھرتا ہے۔
لا مشہود الا اللہ!
لا موجود الااللہ!
لا مقصود الا اللہ!
لا معبود الا اللہ!
حق ! لا الہ الا اللہ!
اور ِادھر خاموشی ۔۔۔!

'' خاموش'' تم اب بھی رنگی ہو ۔۔ !
سارے رنگ تمھارے میرے ہیں !
تیرا باطن اور ظاہر کس کا ہے؟
تیرا قبلہ و کعبہ کس کا ہے ؟
بھید چھپا اندر کس کا ہے ؟
تیرے دل میں عکس کس کا ہے ؟
یہ اکتساب و اضطراب کس لیے؟
فنا کے راستے پر حدود کس لیے ؟
اے خاکی ! یہ شبہات کس لیے ؟
یہ'' اضطراب۔۔۔! ''
تو نہ ختم ہونے کا ایک سلسلہ ہے۔
جو شاید قیامت تک جاری رہے گا۔
اس اضطراب کا اظہار کیسے کروں ؟
اپنے ''اندر ''کا جلوہ کیسے کروں ؟
وہ رنگ جو بکھرے تھے!
اب وہی رنگ جمع ہو کر،
ایک سفید روشنی کو جنم دیتے ہیں ۔
اس پر کالا کپڑا ہے ۔
اس کو دیکھوں کیسے؟ ؟

ہائے ! یہ اضطرابی۔۔۔!
کیسے ہوگی دید ؟
کتنے پردوں میں چھپا ہے'' تو''
یہ رنگوں کی دنیا ہے!
خوشبو کی دنیا ہے!
نغموں کی دنیا ہے!
اور سب کے اندر ''تو''
بس ایک آواز لگنی باقی!
بس وہ ہے تیری " حق ھو"
ہائے ! یہ حجابی ۔۔۔!
کیسے دیکھوں ؟
میرے رنگ'' کالے کپڑے'' نے کھینچ لیے
اور میں خالی ۔۔۔۔!
میرا اندر خالی!
میرا باہر خالی!
مگر باقی اک ''تو ہی ''تو''
تو ہی میرا سائیاں !
تو ہی میرا سائیاں!
دل کرے اب دہائیاں۔۔!
تو ہی میرا سائیاں۔۔!
جھلک کرداے نا اب!!

''سنو''
رنگی ۔۔۔۔!!!
حجاب ضروری ہے اور طواف بھی ضروری ہے ۔تم طواف کرتے رہے ہو اور تمھیں طواف میں سرشاری کے مقامات پر شاہد رہنا ہے ۔ تمھارا اضطراب اور خواب سب حقیقت میں بدلنے والے ہیں ۔اور ان کے بعد'' رازِ کن فیکون ''ہو جانا تم پر لازم ہے ۔زبان تمھاری خاموش رہنی چاہیے اور دل کو جاری رہنا چاہیے ۔ تمھاری ذرا سی کوتاہی تمھیں مجھ سے میلوں دور کر دے گی ۔اور دور ہوجانے والے بعض اوقات '' عین '' سے دور ہوجانے والے ہوتے ہیں۔۔۔!!!اپنی تقدیر تم کو خود بنانی ہے ۔وہ جو لوح و قلم پر رقم ہے اس کی دونوں انتہاؤں کو رقم کیا جاچکا ہے ۔ راستے متعین تمھاری عقل نے کرنے ہیں اور اس کے بعد عقل کا کام ختم ہو جائے گا ۔

او ۔۔!'' رنگی'' ۔۔۔!
جب عقل اپنا کام تمام کر چکے گی ۔
تیرا لا شعور تب جاگ جائے گا۔
تب خاکی سچا موحد ہوگا!
اور تیرے ذکر میں میرا ذکر ہوگا۔
''الا بذکر الا اللہ تطمئن القلوب''
میرا ذکر تیری چادر بن جائے گا!!
خوشبو چار سو پھیل جائے گی ۔
اور تب سب حجاب مٹ جائیں گے ۔
تیرا اضطراب بھی مٹ جائے گا۔
او خاکی ! تو صرف میرا ہوجائے گا ۔

خلقت کعبے کے گرد ''سو'' طواف بھی کرلے ''حج'' نہ ہوگا جب تک میرا طواف نہ کرے ۔ دیواروں کو چومتے چومتے ، کالا ہونے کی دعا مانگنے والے کم کم ہوتے ہیں ۔ یہی '' خلا '' تو بقا ہے ۔ اسی میں چھپی دوا ہے ۔ اور کالا رنگ اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے ۔ کیا سنا نہیں تم نے ؟

إنما أمره إذا أراد شيئا أن يقول له كن فيكون

یہی مجھ تک پہنچے کے مدارج ہیں ۔ ان مدارج کو پہنچے بغیر حج کا عین تم نہ پاسکو گے ۔ بالکل اسی طرح تم کو ثوابِ طواف ضرور ملے گا جس طرح تم قرانِ حکیم کو سمجھے بغیر پڑھتے ہو بالکل اسی طرح تم حاجی بھی کہلاؤ گے ۔ جب تم آیتوں کو کھول کر پڑھو گے اور آیتوں کو آیتوں سے ملاؤ گے تو مشہودیت تم پر لاگو ہوجاؤ گی
Mery Soch ka Safar /میری سوچ کا سفر

کوئی ‏اپنا ‏ملے ‏تو ‏نصیب ‏بن ‏جاتا ‏ہے

یہ نگاہ مست وار کی مست واری ،یہ دو نینوں کی رقص ، یہ حلقہِ فکر میں باریشوں کی محفل ، یہ جذب میں مجذوب کی دھمال ، یہ اللہ ھو اللہ ھو کی صدائیں  ، یہ سب اعجازِ نظر ہے ، ایک دفعہ کسی اللہ والے سے مل لو تو اللہ والے ہو جاتے ہو ، اک دفعہ اللہ والے سے مل لو تو اللہ والوں سے مل لیتے ہو ، اک دفعہ مل جائیں اللہ والے تو مست و مہجور و مجذوب  ہوجاؤ ، مگر نصیب شعور والوں کا کہاں کہ مجذوب ہو جائیں ۔۔۔ یہ جو رات چھائی ہے جس کے ماتھے پر چودھویں کا چاند چمک رہا ہے یہ اللہ جی کی نشانی ہوتی ہے ، جب بھی کوئی اللہ والا ملتا ہے اندھیرے میں پھیلا نور  اشجار کی رگوں سے نکلتا ہے اور پہاڑوں کی سطح پر جم جاتا ہے یہ نور پتوں کو جھکا دیتا ہے اور پوچھا جاتا ہے کون ہے شہ رگ سے قریب ؟ کہا جاتا ہے اللہ ، اللہ کے دوست جو اللہ کی یاد دلاتے ہیں ،،، پوچھا جاتا ہے کون ہے حبیب ، بتایا جاتا ہے جب محفل  سجتئ  ہے تو اللہ ھو کا ذکر کرنے والے اس کا ذکر کرتے ہیں ، اک ہاتھ میں اسکی قدرت کا عصا ہوتا ہے جو زمین پر جب  مارا جاتا ہے تو نعرہِ حیدری کی بازگشت دالانوں سے ہوتی آسمانوں تک جاتی ہے

یا علی ، یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی

حال والو ،میرا حال تو دیکھو ، کمال والو کچھ اپنی تو سنُاو ا ، طریقہِ وضو  کیا ہے ؟ چشمہِ نہاں سے نکلتی نہریں ، پانی جو سیراب کیا جائے تو ذکر جاگ جائے ،  جب ذکر جاگ جاتا ہے تب لہو سے صدائیں نکلتی ہیں

یا علی مرتضی ، یا علی مجتبی ، یا علی یا حیدر  ۔۔۔

شمس کی جب کھال کھینچی گئی تھی تو کس نے پوچھا تھا حسن کہاں سے آیا ؟ کسی نے کہا تھا حسین کون ؟ کسی نے کہا تھا تو کہا تھا شمس  فنا ہوگیا ، شمس کی فنائیت میں مٹی وفا کی تھی ، اسکی مہک دبستانِ اہل وفا کے لیے مثال ہوگئ ، کون ہوتے ہیں جو احساس کرتے ہیں اسکا کہ جب کوئی دوست آئے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ مہمان نواز زیادہ کون ؟ مہمان یا میزبان؟ فرق نہیں رہتا مہمان کا میزبان کا ، اک ہی برتن میں جب تناول ہوتا ہے تو فرق مٹ جاتا ہے ، جب مئے اک ہوجائے تو  جواز نہیں رہتا ،تو   اور میں کا ۔۔۔۔بس رقص کیا جاتا ہے ، حال والو دیکھو  حال ۔۔۔ کمال والو بتاؤ اپنی کچھ ۔۔۔۔

ملتان کا شہر مدینتہ اولیاء ہے ، جواز بنتا ہے نہ  کہ یہ  تجلیات کی وجہ سے حدت        ہوگئ یا کہ شمس شمس کے لیے بیتاب ہوگیا ہوگا ، شمس کو شمس کی تلاش ہوگی ، شمس کی گرمی میں سرمہِ وصال بھی تھا ، ملال ِ ہجر کا زیاں جاتا  رہا

دل میں بس جانے کو کیا پتا کہ شمس کی گرمی سے زمانہ مہجور ہوجاتا ہے ، ماننی پڑتی ہے روشنی کی ، روشنی کی مثال کہاں ہوگی َ؟ روشنی تو خود اپنی مثال ہے ، روشنی میں چھپا بذات خود اک کمال ہے ، جب کھال کھینچی گئی تھی تو ملال سے زیادہ وصال کا مزہ تھا ، وصال زیادہ شدت سے محسوس ہوتا دکھا تھا ، زخم جاتا رہا ، حلاوت گھلتی رہی کہتے ہیں نا کہ

عشق حلاوت میں کڑواہٹ ہے ، عشق کرواہٹ میں حلاوت ہے
عشق خونزیری کی علامت ہے ، عشق عاشق کی جلالت ہے

ایسی قربانی جو اپنی مثال آپ ہو ، مثال ہوتی ہے خیال میں سماتی ہے اور خیال رقص کرتا رہتا ہے ، خیال محو رقص ہو تو قربانی کا احساس تک نہیں ہوتا ، سب سود کی طرح واپس ہوتا رہتا ہے ،یہ زمانہ ،یہ دولت یہ تاج کچھ بھی نہیں ، کچھ بھی نہیں ، عشق اپنے عصا کیساتھ جب دھمال ڈالتا ہے تو قادرِ قضا کو جلال آجاتا ہے ، جلال ایسا کہ وصل شیریں ہوجاتا ہے ، وصل ایسا کہ وصل کی مثال نہیں ملتی ہے ، طریقہ وضو طریقہ بندگی  تک کامل ہوجاتا ہے اور بندہ صاحب حال ولی ہوجاتا ہے ، حال والو ، دیکھو میرا حال ، کمال والو سناؤ اپنے کمالات ۔۔۔

کمال کی بندگی میں سرجھکا رہا ، ذکر یار نے محو اتنا رکھا ، کچھ ہوش نہ رہا سوائے رقص یار میں گردش کرنے کی ، دنیا نے دیکھا کہ مجھے  دو حصوں میں بانٹا گیا ہے مگر میرے دو حصے ایک ہوگئے میرا بچھڑا یار مل گیا میری آزمائش میں ، بچھڑا یار تو آزمائش میں ہی ملتا ہے ، ہاں ہاں ، ٹھیک کہا ، وہ تو آزمائش میں ہی ملتا ہے ۔۔۔ آزمائش کے بعد راہ جو سیدھی ہوجاتی ہے اور کمال نصیب ہوجاتا ہے

بنام ‏حسین

خط نمبر ۸
بسلسلہ ء قلندری 
سید الامام،  سردارِ قلندر،  جانِ عشاق، مسجودِ کربل، قائم مقام علی علیہ سلام، بردار حسن، جان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  شاہِ سخا،  والی الفقراء 
السلام علیکم.    ... 

دل جل رہا ہے، بلکہ روح جل رہی ہے   ... یہ آپ کا فیض ہے روح جل رہی ہے اور رنگ در رنگ کا نقش "یا حسین، سید الشہدا "  آپ کو نور بہت یاد کرتی ہے شاید وہ گھڑیاں نہ بابرکت ہوں جب آپ کو روح نے یاد کیا ہے.   کاش روضے کے سامنے ہوتی اور قصیدہ شان قلندر لکھتی اور آپ ساتھ ساتھ جواب دیتے اور ساتھ اصلاح کرتے ہیں ... !  نور کو اتنی تڑپ ہے کہ کوشش کی فون کروں مگر دوسروں پل سوچا کیسے فون؟  پھر جب یہ سمجھ آیا فون تو آپ کو نہیں ہوسکتا....  تو کیسے پاک ہستیوں کو کروں ..پھر یہ خطوط کا سلسلہ ہوا .... میں آپ سے استقامت چاہتی،  چاہے مرجاؤں غم سے مگر استقلال،  ارادہ،  جراءت اتنی آہنی ہو کہ گر نہ پاؤِں .. آپ کا حیدری لہو علیہ سلام،  مصطفوی نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم، خمیر بی بی پاک علیہ سلام  کا ہے ..آپ تو گنجینہ الابرکات ہو ..متبرک ہستی ہو...میرا دل،  دل سے لگا کہ حوصلہ دو،  آپ کی نور ہوں ....میری روح حسینی ہے، دل میں چراغ کو فزوں کردیجیے .... مرے حبیب ، میرے دوست ہو نا سردار روح؟  مجھے وصال حق کرادو تاکہ قرار پاسکے بے چینی ...اے سید روح!  مجھ پہ روشنی کرو

بنامِ ‏حیدر ‏ع

خط نمبر ۵ 
شیرِ خُدا،  ولی اللہ،  سید الامام،  مہر ولایت،  باب العلم،  ذوالفقار،  فاتح خیبر 

السلام علیکم 
.آپ کو خط سب سے پہلے لکھتی ہے! یوں لگتا ہے آپ میرے بالکل نزدیک ہوں. ایسا لگتا ہے مرے قدموں کی چاپ، نہیں یہ آپ کی آہٹ ہے. .. دل میں محفلِ بزمِ حیدر کوئے یاراں سے چلتی ہے اور علی علی علی کا نعرہ دل کے دالانوں سے تا عرش گونجتا ہے اور زلزلے زد میں لے لیتے اور یوں لگتا ہے کہ آپ کی کرسی دل میں قرار پکڑ چکی ہے. آپ کی اس قدر شدید کشش ہے، جی چاہتا ہے دنیا چھوڑ کے آپ کے عشق میں مجذوب ہو جاؤں ..نہ جاؤں کہیں ..آپ کی خوشبو ایسی ہے جیسے پوری کائنات مسکرا رہی ہے،  دھوپ بھی سردیوں کی ہے،  شام نہ دھوپ مگر چھاؤں کی ٹھنڈی ہوا جیسا احساس ہے .. دل کی صدا ... شیرِ خدا سے ملنا ہے .. دل کو کیسے بتاؤں؟  شیر خدا سے کیسے ملتے ہیں؟  میں خوش بختی پہ نازاں ہوں مولائے کائنات ... میرے مولا،  میرے آقا ... کشش کا تیر،  سینہ خون خون ہے اور اس خون کو کربل کی خاک سے نسبت ہے اور جانے مری خاک کس کس در در سے ہے ...سیدی، مجھے خود سے ملا دیجیے ... .... ملامت کا ہنر مجھ کو بھی عطا کر دیجیے ...
سیدی مولا شیر خدا .... میرے خط کا جواب ضرور دیجیے گا ..منتظر رہوں گی ...
رحم و کرم کی منتظر 
آپ کی نور 
تاریخ   ۲۸ اپریل ۲۰۱۹ 
بوقت ۱۰:۴۵

ابتدائے ‏آفرینش

ابتدائے آفرنیش سے اب تلک جذبہِ دل پر حکمرانی کرنے والے انسان، سربندگی سے نکل جانے والے، کامل یقین والے لوگوں کو حیات دوامی بخشی گئی.جذبہِ دل پر حکمرانی کیسے ممکن ہے؟ کون اس قوی قوت پر حاکم ہوسکتا ہے؟ جذبات سے بڑی قوت حیات، اس کی تخلیق کرنے والی قوت ہے....نورِ ازل کا ربط جب نورِ حیات سے قائم ہونے لگتا ہے تب انسان کو نیابت کی سواری ملنے لگتی ہے ... زندگی کے مقصد کی تعمیل اسی مداروی حرکت میں ہے ...چاند روح میں روشنی کیے رہتا ہے جبکہ نور ازل آفتاب کی مانند جگمانے لگتا ہے تو انسان جو ذات میں شجر ہوتے سایہ دار برگد کا روپ ہوتا ہے، مثلِ آفتاب ہوجاتا ہے ...

آزاد روحیں غلامی قبول نہیں کرتیں ماسوا معبودِ حق کے .... اس لیے لگن، شوق انکے وجدان کو حرکت دیے رکھتا ہے ...یہ روم کا رومی چاند سے مثلِ آفتاب کیسے ہوا؟ کوئی شمس تھا جس نے رومی کے جلال کو توانا سرخ لہروں سے نیا جنم دیا تھا ... شمس تو ایسے رومی کی محبت میں الجھا جیسے کائنات کا حصول اسی نور میں ہے جو جلال الدین رومی کے سینے میں مدفن تھا .... شمس نے نورِ ازل کا طواف کیا اور نورِ حیات سے چمکتا نور رومی کو سونپ دیا ... رومی کے لفظوں میں دوامیت شمس کے نورحیات سے ہوئی تھی .... شمس کی تقدیر میں قربانی لکھی تھی ...

ہجرت بھی انوکھا جذبہ تھا، برق جو شمس کے دل میں چنگاری دیتی وہ شعلہ بن کے رومی کے سینے میں چمکتی تھی .... سوال یہ ہے کہ شمس تو فنائیت میں مجذوب تھا، اسکو رومی سے کیا غرض تھی؟ رومی کا کلمہ آیتہ الکرسی کی مانند عرش سے فرش تک جڑا لوحِ محفوظ کی خبر دیتا تھا تو شمس ماہِ وصال کی آبرو رکھتے فاذکرونی اذکرکم کرتے ذاکرین کی جماعت کا نائب تھا .. الم کی مثال ہستی نے کمال شوق سے رومی کی تربیت کی. یہ آدابِ گفتگو جو مثنوی میں ملتے ہیِ اسکی آگہی شمس کی دیدہِ بینا سے ملی ...

جب تخلیق کا مادہ رکھا جاتا ہے تو ذاکرین و منکرین کی جماعت ساتھ مخلق ہوتی ہے.... یہ نوری ...ناری ...آبی ... خاکی موجودات ارضی و سماوی لشکر کی مانند ہمرقاب ہوتے معاون ہوتے ہیں .... اسی نے جن و انس کو پیدا کیا ...شمس کو ذاکرین کی جماعت کا سردار بنا کے کائنات میں چاند سا کردیا ... اس کے قلب کو صیقل کرتے حدت جاودانی بخشتے آفتابی نور سے سرفراز کیا..

مٹی ‏کے ‏پرندے ‏بناؤ

مٹی کے پرند بناؤ، ان کو اڑاؤ ـ یہ اڑان کی طاقت کس نے دی مٹی کو؟ مٹی خود بخود اڑی؟ یہ تو اڑان والے کی مرضی تھی مگر تم نے جانا کہ تم خود ہی اسکے حق دار ہو ـ ابھی سمت دی، ابھی خاک میں دفن کیا، ابھی زندہ کیا، ابھی تم روح ہو یعنی میرے قریب ہو ـ قریب یہی ہے کہ خیال ہو جاؤ اور خیال ہو کے مجھ میں سما جاؤ. سمائے تو پہلے ہو مگر احساس نہیں ملو ـ فرق نہیں ہے نا کبھی فرق تھا مگر نظر نے نظر سے ملاقات کرلی تو بات بڑی آسان ہو گئی کہ جیسا کہ اپنا ملا . بات کرکے چل دیا کہ یہی رشتہ تھا؟ یہ بتاؤ کہ محبت بس ملنا ملانا یے یا نبھانا ہے؟ یار نال نبھائی نہیں تے آس لائی ملن دی. کدھی ہاسے وچ روون والی شہنائی سنی؟ کدی سنیا یار نچ نچ کے مناون اوکھا؟ کدی سنیا کہ جو وہ ملے تو بسمل کے رقص میں لطف آنے لگتا کہ وہ پھر سے جی اٹھتا ہے ـ یہ دوری و قربت کیسے فاصلے ہیں؟ نہ وہ قریب یے نہ وہ دور بلکہ تو ہے اور ترے ہونے سے احساس یے. یہ محسوس کیا تو نے کبھی کہ خالق از روئے خلق ہے اور خلق از روئے خالق ہے ـ کثرت میں جلوہ ہے اور جلوے میں وحدت ہے. وحدہ لا شریک لہ کے نشانات ہیں جیسے راہی چلے زمینی نقوش آدمیت پر تو سراغ مل جاتا یے بلکہ اسی طرح ماورائے نشانات ہیں جو دل میں اتر جاتے ہیں دل میں اترنا گویا ذات کا اترنا یے. شام ہو یا رات ہو تو سمجھنا کہ خالق کے قریب ہونے کی دلیل یے ورنہ قربانی ہے وصل کی صبح کو. وجود کی قربانی یے روح کی یے، خواب کی یے، احساسات و ارمان کی ہے، خواہشات کی یے کہ غرض تو نہیں ہے اور وہ ہے جب وہ ہے تو تیری نہیں یے. جب وہ چلائے اپنی تو بات تیری ہوگی. اک رشتہ ہے خالق کا مخلوق سے کہ مخلوق کا آئنہ اک سے منعطف و منعکس ہو ریا یے. اللہ اکبر یا محمد بشر اکبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم. ان کی بات سے جب نفس کی بات نکل جائے تو بات چلتی ہے کہ فنا میں بقا ہے. بقا کے لاوازمات میں چلے چلو تو باقی تو اک ذات ہے ـاللہ لا الہ الا اللہ ھو الحی القیوم. ہمارے دل میں اس کے نشانات ہیں جن سے نور بہہ رہا ہے .یہ نہریں ہیں جن سے پانی مل رہا ہے انسان زندہ یے ان اعصابی ریشوں سے مگر ہم نے سوچا نہیں کہ وہ کہاں کہاں ہے. وہ ہمارے دل میں انا حق انا حق کی صدا لگاتا ہے مگر کہنے والا من الحق کہنے کی جرات نہ کرے کہ جو ایسا کیا تو فنا کی بات کرنے والے نے بھلا دیا کہ وہ تو انسان ہے وہ بشر ہے اور اوقات میں رہنا انسان کا پہلا فرض یے. کہو اللہ اکبر،  کہو اللہ ھو الحی القیوم. یہ کائنات اسکے اختیار کی کرسی ہے اور زمین پر چل رہا یے اسکا اقتدار جبکہ بندے سمجھ ریے ان کی بات چل رہی. سب اسکا خیال ہے اوڑ خیال مجسم یے. خیال نعمت ہے

ہتھیلی ‏پر ‏جگنو

میری ہتھیلی پر اک جگنو چمک رہا ہے ـ یہ جگنو تو بس عکس ہے، اُس اصل کا جو دل میں قرار پائی ہے ـ میں اس نگر سے اس نگر اک تلاش کے سفر میں اور میری من کی سوئی اس روشنی سے پاتی دیپ بناتی جاتی ہے ـ میں کس سمت جستجو کے چکر لگاؤں؟ کس سمت سے پکاروں؟  غرض لامکان سے صدا مکان میں آتی ہے تو زمان و مکان سے نکل جانے کی سبیل بھی موجود ہوگی ـ اب تو لگتا ہے دل پتھر کا ہوگیا اور کیسے اس سے چشمہ پھوٹے گا؟  جب چشمہ نہیں رہے گا تو زمین بنجر ریے گی ـ دل کی زمین بنجر ہو تو ذکر اک وسیلہ بن جاتا ہے مگر ذکر کیساتھ روشنی کا انعکاس ضروری اور دل شفاف ہو جائے تو انعطاف بھی ضروری ـ غرض یا نہ عکس ہے نا کوئی شاہد ہے ـ نہ کوئی قرارِ مشہود ہے. ـ دل ایسے خالی ہے جیسے سونی زمین کو کسی ریتلے تھل سے مناسبت ہو ــــ 

کبھی موسم ہو تو بہار بھلی لگتی ہے ـ بہار میں اشجار کے گیت اور ہوتے ہیں ـ جو پتے لہلہاتے ہیں کبھی ان کی خوشی محسوس کرو ـ جسطرح وہ سر جھکائے شاخچے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو اس ذکر خیر کو رائیگاں نہ سمجھو ـ تم بھی یہیں بہار کا نظارہ کرلو تاکہ دل وحدت کی جانب چلے ـ جب وحدت نہ ہو تو کثرت کی جامعیت سے کیا سروکار ہے ـ میں تو اپنے ہاتھ نہ دیکھ سکوں پاؤں نہ دیکھ سکوں،  تو کیسے اپنا سراپا مکمل دیکھو ـ مجھے اپنے ہاتھوں میں ہی تجلی نہیں ملی ـ

جسکو ‏میسر ‏تھا ‏ساتھ

جس کو میسر تھا اسکا ساتھ اور جس کو نہیں تھا ساتھ ـ جس کا ہاتھ خالی اور جس کا دل بھرا ہوا تھا ـ جس کا من خالی اور ہاتھ بھرا ہوا تھا ـ دونوں میں فکری تفاوت کی خلیج نے فاصلے ایسے عطا کیے کہ من بھرے بھاگن سے تن پُھلے تن جاون کے مراحل تھے ـ یہ فکر جس نے پرواز کرنا ہے، یہ پرواز جس میں ماٹی کے قفس سے پرندے نے جگہ چھوڑ جانی ہے، اس کی بیقراری عجب ہے جیسا کہ سب بھول گیا ہو کہ وہ کن سے فیکون ہوا تھا ـ وہ تو نہ کن ہے اور نہ فیکون ہے ـ وہ نہ ازل ہے نہ ابد ہے ـ وہ تو لوح و کتاب کا خیال ہے اور وہ خیال بس آنکھ سے وارد ہوا اور سیدھا پیوست ہوگیا تو لا یدرکہ الابصار سے نظر والا ہوگیا ـ پھر جا بجا،  جگہ جگہ آیت اترتی دیکھی اور یاد آیا فثمہ وجہ اللہ اسی پر صادق اترا کہ خدا جابجا ہے اور کہیں نہیں ہے جس بے انکار کردیا ـ انکار کرنا کچھ بھی نہیں بس اثبات کی نفی ہے ـ اپنی نفی ہے اور تن کی چاشنی ہے،  روح کا سوگ یے ـ یہ ہجرت کے روگ ہیں اور جدائی کے سنجوگ ہیں ـ کتنی فطرت بیباک ہوئی ہے اور فطرت میں چھپا اک سیپ عیاں ہوا ہے ـ یہی نشان دل یے ـ یہی آیت دل ہے ـ پتوں کو ہلنے میں،  بوٹوں کے کھلنے میں، گلاب کی خوشبو میں،  پہاڑ کی سنگت میں،  وادی میں گونجتی آواز میں،  پنچھیوں کی اڑانوں میں ـــ اللہ وحدہ لاشریک یے اور جب یہ آیات دل میں اتریں تو منظر مشہد ہو جاتے اور بندہ شاہد پھر انسان اس آیت کی تفسیر ہو جاتا 
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم 
وہ زمانہ لوٹے اور پھر ہم نہ لوٹیں کبھی ـ اس زمانے میں رہیں سدا ـ یہی حقایت ہے ـ

خدا ‏تو ‏ظاہر ‏ہے

خدا تو ظاہر ہے،  وہ تو پیش رو ہے اس کے جو اس کے پیش ہے ـ بے نیاز ہے اور کائنات ساری جس وجود میں سمائی ہے، اسکو خبر نہیں بے نیاز سے نیاز مندی کو چلے قافلہ تو مل جاتا ہے سلسلہ ـ رونق لگے باغ میں ـ چڑیاں چہکے باغ میں اور ہوا چلے مہک کے ساتھ

سلام مرے دل!  اللہ ھو! اللہ ھو!  دل کی زمین پر جو پھول ہیں وہ پھول بہت خوب ہیں اسکی خوشبو میں کمال ہے. جہاں خوشبو ہوتی ہے وہاں خدا ہوتا ہے راز ہے نا!  وہ کثرت میں ہے اور تکثیریت کے جام ہم پی لیں تو کثرتیں دکھنے لگیں اور وحدت ہم میں سے ظاہر ہو.کہو اللہ اور کہو ھو اور کہو جمعہ یہ مبارک ہو. قربان یو جا اے دل کہ قربانی سے اصلاح اور اصلاح سے فلاح اور فلاح سے روشنی. روشنی جلوہ.

اے صدائے کن گونج دل میں بڑا درد ہے  .. یہ بات ہے گونجے گی یہ تو دل کو ہل جانا 

اذا زلزلت الارض زلزالھا 
ہل رہی یے زمین 
اے آسمان لوح مبین کے 
مجھ کو لے چل ..لے چل رکھ لے قدم میں 
تورے بنا مورا راگ ادھورا رے 
چل کہہ دے 
حسین ابن حیدر کو سلام

دل میں کرم یے دل میں نم ہے دل میں ہجر ہے دل میں وسیلہ.ہے دل میں حیا ہے دل میں ردا ہے دل میں ادعا اجازت رسول.معظم صلی اللہ علیہ.والہ.وسلم کملی.کالی یے دل کو یاھو کہو دل میں لب دل کاسے کلمہ لکھا یے

تو سنو!  
آنکھ جب روتی ہے تو میں نہیں وہ روتا ہے 
تم نے جب آنسو بہائے تھے یہ اس نے بہائے. وہ تمھارے دکھ میں برابر کا شریک رہا ہے اور تم نے سوچا کہ میں تنہا ہے. تم نے جب اسکو یاد کیا وہ پہلے تم کو یاد کر رہا تھا. تم نے جب محبت کی وہ تو وہی کر رہا تھا. جب تم نے دھوکہ کھایا. تو وہی خود کو دھوکہ دے رہا تھا اور تم نہیں وہ خود رو رہا ہے. تم اندازہ کر سکتی ہو وہ کس قدر ملال میں ہے

خدا نے آج سرگوشی کی ہے اور لرزش سے جان کنی کا عالم ہے میں نے اس عالم کو تخلیق جان لیا. مجھ میں میری تخلیق نے جنم لیا اور میں نے یہاں اسکو جنم دیا مگر میں کہاں سے لائ؟ یہ تو عدم سے آیا درد مجھ میں سما گیا اور میں نے بیخودی میں کہا تو تو تو

جب اس نے مجھ پر ہیبت طاری کی تو زوال شمس کی بات ہوئ. مجھے لگا غروب آفتاب ہے. اے دل! تم کو پتا کہ دل جب دل سے ملتا تو پگھل جاتا ہے مرا دل پگھل گیا یے

میں نے جلنا چھوڑ دیا اسنے جلانا کیونکہ شمع وجود کھو چکی ہے اب تو ودھوان ہے کیا جانو تم.دھواں کیسے بنتا ہے

اب شمع کہاں سے ڈھونڈے کوئ اور کس کو کہیے پروانہ بھی جل گیا اور شمع بھی نہ رہی. کس کو ڈھونڈ رہے تم دھواں ہے بس!  بس دھواں!  نہیں دنیا ہے!  نہیں دھواں ہے!  نہیں نہیِ محبت ہے!  نہیں خیال ہے!  نہیں وہم ہے

یہ درد ہے نا یہ چہرہ یار ہے اور چہرہ! اسکی تکریم نہ کرو گے تو کیسے پہچانو گے..جب درد کو جان لو اور دل سے لگالو تو فنا ہوجانا...تم بھی اے دل فنا ہو نا؟..؟بولو! تم کو بھی تو جدائ نے مار ڈالا یے

جب سرسبز پتے نے ہل ہل کے کہا کہو ھو تو یہ کہنے والی ذات کونسی تھی؟  جس نے اللہ کہا. اس نے ھو کہا. جس سے ھو کہا وہ چھپ گیا اور جس نے اللہ کہا وہ ظاہر گیا ... اللہ تم میں ظاہر ہے اور تم جان نہیں رہی...دل پگھل جانا ہے آنکھ نے پرشکوہ رہنا کہ درد کم ہے....یار. تم بہت پیاری ہو! اللہ نے تم کو حسین بنا دیا ہے. اوپر سے تم کو اپنا انرجی پوائنٹ بنا دیا. تم لعل ہو. اس لیے لعل کو لعل ملتی ہے. تم یا حسین کہو تاکہ لعلی ملے

ابھی جلوہ گاہ سے لوٹا تھا کہ کہیں سے صدا آئی، جوتے اتار دو!  میں نے یہ آواز سُنی تو اَن سُنی دُنیا سے ہوئی!
جب دو ارواح قریب ہوتی ہیں تو وہ دو نہیں رہتیں. اک ہو جاتی ہیں. بس جو پاک حجرہ ہوتا ہے وہ نسبت بی بی مریم پاک سے ہوتا عیسوی قندیل کی مانند ہوتا ہے اور مادر مریم سلام کہتی ہیں کہ ان کا خمیر ہے جبکہ وہ سیدہ فاطمہ الزہرا کا خمیر ہیِں .. 

واحد نے یہی بات بتائی. اے مرے دل تو قریب ہے تال ملا دوں؟ ساز بجادوں؟  رنگ لگادوں؟  سر نیا دوں؟  رقص کر،  تری روح رقص میں ہے. رقص بھی اسکا ہے 

یہ وحدت کی گھڑی ہے جس میں تمھارا چہرہ روشن ہے اور مجھ میں روشنی ہے. یہ تب و تاب لیے ہمارے رنگوں میں چھایا ہے دوئی سے خاتمے کا خمار ہے. وہ حرف اول ہے اور جب خواب میں جاؤ تو موت سے قبل وہی حرف آخر. وہ حرف باقی ہے اور اسکی کرسی مقرر ہے ترے دل میں. سنو دل!
سنو! جب کرسی مقرر ہو جائے تو الحی القیوم کی سمجھ آتی ہے. کرسی جلال والی مگر فنا کے بعد جمال والی. اللہ وہی ہے جو حیات ہے اور وہی قائم ہے اور میں نے قائم کیا ہے 
یہ دنیا میرا کھیل تماشا ہے یہ میرا درک ہے یہ میری کہانی اور تو مرا کردار ہے میں مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہوں کہیں اندھیرا نہیں بس ترے گمان کا اندھیرا نہیں. کہیں صبح نہیں کہیں شام نہیں بس یہ کہانی لیل و نہار سے پرے یے جب شاہ والے شاہ کے قدموں میں ہوں گے


یہ ‏درود ‏جو ‏بھیجا ‏جائے

یہ درود ہے جو بھیجا جائے  
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
اے کاش کہ وہ دل میں ہے جو ہے وہ رواں کرے ایسا درود 
سب کہیں وہ درود 
بات مکمل ہو ورفعنا لک ذکرک 
اے کاش وہ سینہ میں اپنی شرح کرے 
الم نشرح لک صدرک 
اے کاش صدر مل جائے صدرِ ہاشمی صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
اے کاش وہ بوجھ نازل ہو جس کے لیے کہا 
پیارے محبوب نے زملونی زملونی 
اور پھر وہ کہے سب سینوں کو 
ووضعنا لک وزرک 
یہ تو ہم نے سمجھی تفریق 
مگر فرق تو نہی ہے

دعا

آمین ..
یارسول اللہ 
آپ کے عاشق آپکو آپ سے مانگ رہے ہیں 
یارسول اللہ
کسی کو حال پہ شکوہ ہے کہ نظر کرم ہو 
یا رسول اللہ
کسی کو جانِ الم نے بیحال کیا 
یارسول اللہ 
کسی کو جدائ کے تیر کھا گئے 
یارسول اللہ 
کسی نے سینہ تھام رکھا کہ آپ تھام لیں 

یارسول اللہ --- صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

آپ کو سیدہ اطہرِ بی بی پاکدامن خاتون جنت امِ ابیھا کا واسطہ 
ہماری سن لیجیے 
آپ سنیں گے 
آپ سہارا دیں گے 
آپ کرم کریں گے 
ھو الحی ھو القیوم.
کرسی قائم ہے مگر کہاں پر 
یا رسول اللہ -- علم دیں کہ کرسی کے قرار و مکان کو دیکھیں 
یارسول اللہ 
نحن اقرب فرمایا یے. تو اقرب ہونے کو وسیلہ عطا ہو 
یا رسول اللہ -- ایسا درد عطا ہو کہ درد دوا ہو 
یارسول اللہ -- ایسی رات عطا ہو کہ صبح جس پر فدا ہو 
یا رسول اللہ ایسا دن عطا ہو جس میں جلوہ ہرشے میں رچا ہو 
نہ دن ہے!  نہ رات ہے!  کچھ نہیں کہ آپ کی دید سے دن و رات ہیں 
یارسول اللہ!  دکھ سے دل بھر گیا ہے اور عطا کا فاصلہ ابھی خطوط میں ہیں

میں ‏ترے ‏شوق ‏کا ‏آئنہ ‏ہوں

میں تیرے شوق کا آئنہ ہوں

انسانی فکر کی شمع جب بلندی کی جانب پرواز کرتی ہے تب اسے اپنی ذات کا آئنہ دکھنا شُروع ہوجاتا ہے ۔کبھی حسن مجسم بنتے ذات کا ساجد بن جاتا ہے تو کبھی من سے '' اللہ ھو '' کے ذکر کے سرمدی نغمے پھوٹنے شروع ہوجاتے ہیں ۔ عالمِ ذات میں اس کا وجود منقسم ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ ایک سے دو اور دو سے چار کرتے متعدد ذاتیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ عاشق مرکز میں بیٹھا رہتا ہے اور اس کے منقسم متعدد آئنے ' اللہ ھو '' کے ضرب سے ضُو پاتے جاتے ہیں ، جیسے جیسے شمع  کی توجہ ان کی جانب ہوتی جاتی ہے تو وہ اٹھ کھڑے قلندی دھمال میں رقص کرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ذات کے کچھ پنچھی آسمان کی جانب پرواز ہوجاتے  ہیں تو کچھ زمانوں کی سیر کو نکل جاتے ہیں تو کچھ '' عالم ھو '' میں مست رہتے ہیں تو کچھ انوار و تجلیاں سمیٹنے کے لیے رواں دواں ہوتے تاکہ حاجی کہلا سکیں !  ایک ذات کے اتنے آئنے وجود میں تب آتے ہیں جب عاشق اس کی ذات میں مست ہوجاتا ہے ، اس کا نظارہ --- اس کا جلوہ مستی و سرور پیدا کرتا ہے اور تقسیم ذات ہستی کی طرف لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ 

تخلیق کی وجہ تب سمجھ میں آنے لگتے ہیں کہ رب نے اتنے لاتعداد آئنے بنائے ہیں جو زمانوں و مکان کے دائروں پر محیط ہیں ---- کچھ انبیاء کرام ہیں تو کچھ رسول ہیں تو کچھ ولیاء اللہ ہیں ۔۔۔۔۔۔خالق نے اپنی پہچان کو محمد صلی علیہ والہ وسلم کا نور بنایا ۔۔۔۔تمام ارواح خالق کے شوق کے آئنے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جہاں ، مٹی ، پہاڑ ، سبزہ ، درخت کی وجہ تخلیق کی سمجھ آنے لگتی ہے ۔۔۔ارض و سماء کو نور محمد صلی علیہ والہ وسلم کے لیے سجایا گیا ۔ زمانوں ، نبیوں کا نظام آپ کی ہستی کی خاطر بنایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔''نور'' ان مشاہدات میں بھی ہے اور ''نور ''خلیفہ الارض میں بھی ہے ، مشرف ذات انسان کی ہوئی کہ اس کو ''علم اور سوچ ''عطا کی جس کی وجہ سے فرق کرسکے کہ وہ کون ہے ؟ اس کی وجہِ تخلیق کیا ہے ؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے شوق اور محبت کے عالم میں انسان کی تخلیق فرمائی ۔۔۔۔۔ انسان خود کو پہچان سکے گا تو رب کو پہچانے گا ۔۔۔

تخلیق آدم کی وجہ کیا ہے ؟ جب آدم علیہ سلام کو تخلیق کیا گیا تو سبھی ارواح کا اس وقت ظہور فرمادیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ انسان کی تخلیق ذات خدا وندی کی شوق کی خاطر ہوئی ۔۔۔۔۔۔ انسان اپنی پہچان کیسے کرے ؟ وہ کیسے جانے کہ رب کون ہے ؟ جب تک انسان کے اندر سوال پیدا نہیں ہوگا تب تک اس کے جاننے کی سعی بے کار جائے گی ۔ علم جو بنا سوال و احتیاج کے حاصل کیا گیا اس سے کوئی کامل فائدہ نہیں پہنچے گا ۔۔۔۔ سوچ کا سفر جب تک سوال سے شروع نہیں ہوتا تب تک پہچان کا راستہ ملتا نہیں ہے اور اس کی سمت کا تعین ہو نہیں پاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔سوال کرنے کے بعد اس پر غور و فکر کر تے، اس تفکر سے سبھی جوابات وجدان کی صورت دل میں اترنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔ کائنات کی تسخیر علم کے ذریعے ممکن ہے اور ذات کی تسخیر بنا کسی بھی شے  کو مسخر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذات کی تسخیر سوال سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔وجدان کی صورت جو علم دل میں اترتا ہے وہ اتنا  قوی ہوتا ہے کہ دنیا کا سارا علم اس علم کے آگے ہیچ ہے ۔۔۔۔۔۔

وہ ‏نور ‏جس ‏نے ‏مجھے ‏پر ‏نور ‏کردیا ‏ہے

وہ نور جس نے مجھے پرنور کردیا .... وہ نور جس نے بصیرت کو بڑھا دیا ... وہ نور جس کی تجلی طور کو سرمہ کردیتی ہے ... وہ نور جس کی انتہا کوئی نہیں ہے کسی زیرِ زمین سرنگ سے داخل ہوتا ہے، واصل ہوتا ہے ....... پانی ہماری ذات ہے، قطرے کی کیا بساط ہے ... روشنی ہمارے سینے میں ....محفلِ نوری کے خزینے ہیں .... یہ ماہ و سال یہ انجم یہ کواکب ......سب ہیچ !

یہ کیسا دھواں ہے؟ یہ.کیسی مدھانی ہے جو مجھے دھن رہی ہے ... یہ نیل ہے یا سیلاب ہے ...کیا ہے یہ؟ تن کے جابجا آئنوں پہ. تجلی کا گمان ہوتا ہے ...جیسے کسی بڑے مقناطیس نے  بہت زور سے کشش کی ہو ....

جھکے. سلام کیے دیتے ہیں. .یہ سنگ درِ جاناں کی تسبیح ہے عاصی. ... جس کو مل جائے خاک اس در کو اسکو وہی کافی ہے. .. روئی بدن اڑ رہا ہے جیون محشر بنا ہے. ... تن سے ہائے رے اللہ. کی صدائیں ہیں. ..

یہ بے نیازی جو برہنگی کا لباس ہے ...... ہم اسکی چاہت میں ہے .... لیلیٰ فکر محو ہوگئ ہے ... رات کی بانہوں نے بارش کا طوفان سہا ہے ...زمین ساری سرخ ہے .... اس سرخی پہ لا الہ الا اللہ. لکھا ہوا .... کوئی شہید ہوا ہے ....جانے کون اسکے لیے شہادت کے جام نوش کیا جاتا ہے ... ابھی کچھ ایسی بندش نہیں رہی کہ دل کی آوازیں سنائی دیتی ہے ...منظر. دکھائی دیتے ہیں. .. رہائی. ..کیسے ملے رہائی کہ شیر پنجرے میں قید ہے. ...  پرندے کی مانند روح پھڑپھڑاتی نہیں، رہائی کو ترسی روح کہ پتا ہے خاکی پتلا اسکو سونے نہیں دے گا. ..یہ کیسی. قید ہے جسکی سلاخیں ساری سرخ ہیں. ..جسکی سلاخی پہ چاندی چمک رہی ہے. ..رہائی ملے نہ ملے اب کہ وہ ملے

اجمالی ہو جلالی ہو ...تجلی ہوتی تجلی ہے ... دل کیا پورا تن ہی مجلی ہے ..دل کملی بن جاتا ہے ...ذات کی سرنگوں میں تہ در تہ. ہوتے جب سب سے نچلی زمین پہ پہنچتے ہیں ... تب. کعبہ کے گرد طوف ہوتا ہے ...اس کے بعد جلوہ




when your impulses ....!

When your impulses are turning to impudence ,when your earth is drowning into the water , when your chemistry is getting changes , when changes are unknown , when your curiosity is on the peak , when you want to fly high and high , when you are confined in your limits though limitless in your approach , when you have see inside , waves ruthlessness pushing whole body like a throbbed heart , when your existence is like mercury who boils and splashes after heating , when your heart has numerous hidden question not answered , when your pain is beyond your limit , when you are yearning for meeting with your beloved ,

then call Him !

O ` dear come near ~ So near , no distance can be mounted between , no boundaries can be imagined between , no painRain ! Rain ! it is falling and lightning the meadows , caves ,flowers and gives lights to fireflies ...One firefly has started rotating around rose ,and jasmine fragrance has started dispersing here and there ,when your your flutter the wings to un-cage the cage , when you sing like a nightingale , when music has started tuning you , when you are absorbed in Him ,

He says : O light ! Thy flaming light is mine , Thy shimmering is mine , thy voice is mine , thy dance is mine , what is yours ?

Tick ! Tick ! Tick ! Tock ! Tock ! Tock !  Tick tock ! Tick tock ! ticktock

Thy mingled voice , thy ignited flaming fire , thy glistening light , thy soothing voice ! aA ! What is mine ! All is yours ! Who is in me ? You ! Who are you ? My lord ? My master ? My beloved ? Yes ! you are my beloved ! Loook !The distances are like rifle shot and bullets are piercing into my heart , Your splashes are like flood , I am in flood ! I am in flood , you are immense , you are deep , you are supreme  ..with your soft melodious voice you have cut my heart like knife cut an apple .......Your love wine is making me numb ........

When there was no one , I was .......Man has been given power and my self is absorbed in him ,,,My love he never understand and person who wanted to approach me would have to suppress  the ego ...

Dance ! Sing ! smell ! see !

whirling fireflies moved around Rose in ecstatic state ! Some one has gone lunatic , some has lost senses , someone is finding her love , someone is in cage , someone is not able to resolve mysteries

Glass is shattered ! Crash! Crash ! Crash ! Awww ! pieces ! Who is seeing , to whom I am looking ? Who has same shade of mine ! I am Him or He is me ! I am Him , or He is me , I am Him , he is me ! Haq ! Haq ! Haq ! HO ! Hoo! Hooo! Hoo! He is in me ! He is me or I am him ! He is my dress , white dress , without any stain ! Whirl ! Whril ! Whril! O my wind ! O my wind whirl ! Whirl and see the world , He wants to see the world , He wants to make me see the world ...He is here , Where HE  is ? He is in desert ? H e is in sea? He is shadow ? My

shadow ? No he is not anywhere . I am Him !



He says ! O Noor ! Your are mine .I am saying , you have flamed my heart , my heart is aching with pain , flood is spinnig the mountains , rain is making me insane ..... I am in your rain , no need for the pain ...

Dream ! Noor dream ...When the night of dream will come , then prayers will be in stream , showering will gleam , do not scream ! 

Aww ! Whirling wind ! I am His meloday , the melodies which are piped inside , He is piping and I am listening , He is pulling me , I am dancing , I want to scream , when you will meet with me , when night of dream will come , when lingering for will vanish , when snow will fall , when I will walk over bridge , When wind will blow giving a Rose smell ,

⁠⁠⁠⁠9:05 AM⁠⁠⁠⁠⁠

  will be hanging inside the case !


حضرت ‏امام ‏حسین ‏رض ‏اور ‏قربانی ‏کا ‏پیش ‏منظر

حضرت امام حُسین رض کی قربانی کا پس منظر


صُبح کا تارا ظُلمت کا پردہ چاک کرکے، خود کو دوام بخش کے، اسلام کو زندہ کرکے ، قربانی کی تجدید کرکے شاہد و شہید ہوکے اپنی سرداری کی دلیل دے کر گئے ۔ہم آج ان کی یاد میں دو چار لفظ کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے محرم کا پہلا عشرہ اس عظیم قربانی کی یاد میں گُزار دیا۔ قُربانی کی تمثیل یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے چلتی حضرت عبداللہ رض کو پُہنچی جن کے والد حضرت عبدالمطلب کے نو بیٹے تھے اور منت مانی تھی کہ دس بیٹے ہوئے تو دسواں قربانی کردیں گے ۔ جب حضرت عبداللہ رض پیدا ہوئے تو جناب عبدالمطلب کا دل نہیں کیا کہ اپنے دُلارے اور چھوٹے سے بیٹے کو قربان کردیں ۔ سردارانِ قریش و کاہنوں کے مشورے پر چلتے ہوئے سُو اونٹ قُربان کردیے گئے ۔حضرت ابراہیم کی نسل میں دو دفعہ قربانی ٹل گئی کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس دنیا میں آنا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قُربانی کی یاد میں عید الضححٰی منائی جاتی ہے اور حضرت عبداللہ کی بیٹے جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آنا تھا ، ان کے آنے میں خُوشی میں عید میلاد النبی منائی جاتی ہے ۔ اس قربانی کی تکمیل نبوت کی تکمیل کی لیے ضروری تھی کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ واسلم کو اس دنیا میں آنا تھا اور السلام کو پھیلانا تھا اس لیے حسنین کی قربانی نے نبوت کی تکمیل کرتے ہوئے اسلام کو زندہ کردیا ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام زہر دے کر شہید کردیئے گئے اور حضرت امام حسین نے پورے کنبہ ء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی دے کر آسمان پر مکین روح الامین جبرائیل کو بھی بے چین کردیا۔

صدقء خلیل بھی ہے عشق،صبرء حُسین بھی ہےعشق

معرکہء وجود میں بدرو حُنین بھی ہے عشق

کچھ تاریخ کے اوراق کو پلٹ کردیکھتے ہوئے میں نے تعصب کا چشمہ اتار پھینکا ہے ۔ میرا کوئی مسلک نہیں ہے : میں نہ شیعہ ہوں ، میں نہ سنی ہوں ، میں نہ اہل حدیث ہوں ، میں نہ بریلوی ہوں اور نہ ہی دیوبندی ہوں ۔ میں ایک ذلیل و عاجز ، سیہ کار و گُنہ گار مسلمان ہوں جس کا مقام اتنا گرا ہوا ہے کہ اس کو سفل سے نچلے درجہ کا بھی کہا جائے تو بجا ہوگا مگر کیا کروں کہ اسفل الاسافلین سے نچلا درجہ کوئی نہیں ہے ، یہ ہاتھ ، میرا دل ، میری زُبان اپنے تمام جُملہ شیطانی اوصاف رکھتے ہوئے بھی ان پاک ہستیوں کا نام لینے پر مجبور ہیں ۔ شاید اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سعادت سے محروم نہیں رکھا ہے اس بات پر میرا سجدہء شُکر ہے کہ میں آج ان پاک ہستیوں کو لکھ کر اپنی سیہ کاری کو چُھپانا چاہ رہی ہوں ۔ جنگ ء جمل و صفین نے دینِ اسلام کی متحد صفیں بکھیر دیں تھیں ۔ اسلامی حکومت دو حصوں میں بٹ کر خلافت و بادشاہت میں بدل چکی تھی ۔ ایک طرف حضرت علی رض حکمران تھے جو کہ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے تو دوسری طرف حضرت معاویہ رض حُکمران تھے جو بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ بنو ہاشم و بنو امیہ کی لڑائی واقعہء کربلا کا شاخسانہ بنی ۔ عبدالمناف کے دو جُڑواں بیٹے پیدا ہوئے جن کے دھڑ ایک دوسرےکے ساتھ منسلک تھے ان کو تلوار سے علیحدہ کردیا گیا ۔نجومیوں نے پیشن گوئی کی کہ ان دو کے درمیان لڑائی جاری رہے گی حضرت امیر معاویہ نے کے دور ء حکومت کے تین کام جس نے خلافت کو بادشاہت میں بدل دیا : بیت المال کی ذاتی تصرف ، یزید کی ولی عہدی اور سب علی یعنی خطبہء جمعہ کے بعد حضرت علی رض کو گالیاں و برا بھلا کہنے کا رسم کی شُروعات ۔ اس صورت میں وہ ساتھی جو حضرت امیر معاویہ کے ساتھ تھے ان کو شیعانء معاویہ اور جو حضرت علی رض کے ساتھ ان کو شیعانء علی کہا جاتا تھا۔حضرت علی رض کی شہادت کے بعد حضرت عمرو بن العاص نے امیر معاویہ کو یزید کی ولی عہدی کا مشورہ دیا اور اپنے وصیت نامے میں کچھ ہدایات لکھ گئے کہ اس وقت حجاز میں پانچ اشخاص ایسے ہیں اگر وہ تمھارے حق میں بیعت کرلیں تو پورے حجاز نے بیعت کرلی ۔ ان میں سے دو اشخاص بیعت کرلیں تو سمجھو سب افراد تمھارے تابع ہیں ۔ ایک حضرت امام حُسین رض ہیں ، جن کے بارے میں کہا کہ وہ قرابت دار ہیں ، جہاں ملیں حُسن سلوک کا مظاہرہ کرنا اور جو شخص تمھیں لومڑی کی طرح چالاک اور شیر کی طرح بہادر نظر آئے وہ حضرت عبداللہ بن زبیررض ہیں ۔ وہ جہاں نظر آئیں ان کو فورا قتل کرنا۔ یزید نے اپنے افراد حجاز بھیجے تاکہ ان سے بیعت لی جاسکی ۔ دونوں نے مہلت مانگی اور حضرت عبداللہ رض حجاز سے فرار ہوگئے جبکہ حضرت امام حُسین رض کوفہ کی طرف کوچ کرچکے تھے ۔ یہیں پر واقعہء کربلا پیش آیا ۔ جس کی ساری رُوداد ہم سنتے ہیں تو دل موم ہوجاتے ہیں اور چشم نم ہوجاتی ہے ۔

شیعان علی رض وہ لوگ جو حضرت امام حُسین رض کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلا چکے تھے مگر ان کو پورا نہیں کرسکے ۔ دوست نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت امام حُسین رض کی دوستی اللہ تعالیٰ سے کیسی تھی اور سوچوں میری دوستی کیسی ہے تو مجھے اپنا آپ انہی لوگوں کے کردار میں ملتا ہے جو دوست کی دوستی کا حق ادا نہیں کرتے ۔ دوست تو گواہی مانگتا ہے ۔ کُوفیوں کی گواہی ملاحظہ کیجئے اور امام عالی مقام رض کی گواہی ملاحظہ کیجئے جو انہوں نے اپنے خون سے کلمہء حق کو زندہ کرتے ہوئے دی کہ کربلا کی خاک تو بہت روئی تھی ، کاش میں وہ خاک ہی ہوتی جس پر اس پاک خون سے لا الہ الا اللہ کا کلمہ شاہد ہوگیا کہ اللہ کا دین غالب ہوگیا کہ وہ غالب ہوکر رہے گا اور باطل کا نام مٹ گیا کہ وہ مٹنے کے لیے ہی ہے ۔ ان شہادتوں پر ماتم کرنا بذات خود امام عالی مقام کی توہین ہے ان کی قربانی کی توہین ہے ۔ شہید تو زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے

کہ دو غم حسین منانے والوں کو

مومن کبھی شہدا کا ماتم نہیں کرتے

ہے عشق اپنی جان سے بھی زیادہ آل رسول سے

یوں سر عام ہم انکا تماشہ نہیں کرتے

روئے وہ جو منکر ہے شہادت حسین کا

ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے

اس قربانی میں حکمت کیا تھی ، اسلام کیسے زندہ ہوا ۔ آپ اگر یزید کی اطاعت کرلیتے تو اسلام کی اصل شکل اور روح ہم تک نہیں پُہنچ پاتی ۔میرا مسلک تو وہی ہے جو مجھے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک ہستی نے بتایا ۔ میں اس وقت موجود ہوتی تو خوش نصیبوں میں ہوتی ۔ مجھے دکھ ہے میں کسی طرح بھی ان کے ساتھ نہیں رہ سکی اور نہ کسی غزوہ و معرکہ میں شرکت کرسکی ، میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی اگر میں حضرت امام حسین رض کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیتی ۔ میں اس بات پر روتی ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی نہیں رکھا ۔ میرے دل میں خواہش رہی کہ ان بڑی ہستیوں کے طریقے پر چل سکوں مگر میں نہیں چل سکتی ۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکی ہوں ۔ میں سوچتی ہوں میں کسی مسلمان ہوں ِ؟ کیا واقعی ہی میں مسلمان ہوں ؟ یہ کیسا اسلام میرے دل میں ہے جو مجھے ایثار و بے لوث محبت نہیں کرنے دیتا جو مجھے نفسی نفسی کا سبق دیتا ہے ۔ میں تو اب سوچتی ہوں کہ میں انسان بھی ہوں؟ مجھے کوئی بتائے کہ میں انسان کہلائے جانے کے لائق ہوں ؟

مناجات


ہم مدینے میں جائیں گے واپس نہ آئیں گے 

جشن ولادت منائیں گے، نعت  سنائیں گے

در در پھرتے خاک ہوگئے ہم،  ملی رفعت نور
در اقدس چھوڑ کے اب کدھر کو جائیں گے

ہوّاؤ! جاؤ بتاؤ اک عاشق روتا ہے زار زار 
تڑپ بڑھتی جائے،  در پر کب بلائیں گے

آؤ!  نازِ حُسین سے سینے کو سجانے والو
شہِ کربل پاس قدموِِں کے بل جائیں گے

سینہ مدینہ بنتا ہے گہوارہ امن کو ہوتا ہے 
حاضری کو ہمیں شاہا بار بار بلائیں گے

زندگی نے قفس سے رہائی کی یاد دلائی ہے 
محشر تلک ہم انہی کو پکارے جائیں گے

 حال دل کس کو سنائیں شاہا کے ہوتے ہوئے 
سر بہ قدموں کے طیبہ جائیں روتے ہوئے
مقام دل جلوہ قائم دائم ہوگی حضوری 
دل کی گلیاں سجائیں اشکوں سے دھوتے ہوئے 
تاجدار وہ، غلام ہیں ہم، غلامی کی سند کو 
چوم چوم کے نہ رہ جائیں رات سوتے ہوئے

میری نسبت متعین ہوئی ہے زہرا کے قدموں سے
کیوں نہ ہم دھل جائیں قدموں میں ہوتے ہوئے 
ردائے فاطمہ سے نسبت نے داغ عصیاں دھوئے 
گنہ کیسے در دل کھٹکھٹائیں آپ کے ہوتے ہوئے

حال دل کہتے ہیں، شان زہرا علی کہتے ہیں، جبین جھکائی جاتی ہے رحمت کے دروازے کھلتے ہیں ....  رات کی جھولی میں ستارے چمکتے ہیِں، جگنو سجدہ کرتے ہیں ... طاہر طیب طائر ہوتے  ہیں   جبین کو جھکاٰئے چلے جارہے ہیں، نیاز والے ایسے چلتے ہیِں ... گل قدسی سے سیکھیں گے قدسی مہک، شجر ہلتے ہیں، پتے گرتے ہیِں جہاں پا مبارک زہرا کے پڑتے ہیں ...  رک رہا دل گرفتار ہے محبت میِں، شان میں کہہ لوں کہ کہیِں دم نکل نہ جائے عجلت میں     سرمہ ء عشق ملا دل کے لباس سے ظاہر ہوا نام فاطمہ .... تربت جسکی میعارِ حیا کا،  ایسی ہستی کی قربت میں ہم رہتے ہیِں  .. نور چل دھوون ہو جا ان کے قدموں کی، خزانے ملتے ان کے بندھن سے

 پنجتن سے درِ دل فیض عام ہوا
دُروں میں ذکر زہرا سے کام ہُوا

غیر آگے جھکا نَہیں، ابن  زہرا
کا تذکرہ ہر زمن میں عام ہوا

شہرِ دل میں مصطفوی چراغ سے
رگ رگ میں نور کا انتظام ہوا

حیدر کے ہوتے دشمن کہاں جاتا 
قلعہ خیبر یوں حلقہ ء اسلام ہوا

چل رَہی نسبت کوثر سے کائنات 
مداوا غم دل کا اک یہی جام ہوا

 نوید سحر کی ہے، سعید گھڑی ہے 
بسمل کے دم دم میں ذکر جلی ہے

تڑپ دیکھو مری پرواز کرنے والو 
اشک لَہو، فگار دل اور بے کلی ہے

درود پڑھتے پڑھتے نیند آئی تھی 
دل کے کاخ و کو صبا پھر چلی ہے

ہچکی بدن، لرزش پیہم،آمد شہا کو
شہر دل میں سجی ہر اک گلی ہے

کوئی دیکھے نگاہ لطف کے اسرار 
دعا ہے کس کی، جبین جھک چلی ہے

 چراغ کی تپش نے بے حال ہے کِیا 
صدائے علی نے کِیا،  کمال ہے کِیا

چَلو نَجف، دُھلے ہیں میل دل کے 
بَتائیں گی گَلیاں یہی سلام یے کِیا

کھڑے ہیں روضے میں، تھامی جالی
نہ پوچھ کیا پایا، بس خیال ہے کِیا

ہمی تھے، حلقہ نور تھا، طواف تھا 
یہ ناطہ چکروں میں  بحال ہے کِیا

اٹھے تھے ہاتھ جو دُعا کو، تڑپ تھی
سنی گئی،  اُسی نے شاملِ حال ہے کیا

نوری ‏محفل ‏سجی ‏ہے ‏غارِ ‏حرا ‏میں ‏

نوری محفل سجی ہے غارِ حرا میں 

مۓ شہادت  جو پی ہے غارِ حرا میں

جلوہ  تیرا  دکھے  ہر سو   کہ سعادت

دید کی پائی تھی غارِ حرا میں 

کوچہ کوچہ یہ صدا  دے  یا  "محمد "

ہر طلب  مٹ چکی ہے غارِ حرا میں

مٹ گئی تیرگی ، سرمایہِ زیست بس یہی ہے دیوانگی کو پی لیجیے ! زندگی کو جینے کا ڈھنگ سیکھ لیجیے ! ڈھنگ ہے کہ رنگ ہے ، رنگ ہے کہ  سنگ ہے ، سنگ ہے تو درِ جاناں کا ، خاک بن کے اڑوں جاناں کے قدموں سے ، نازاں ہوجاؤں اپنی قسمت پر ، جاناں کا جلوہ کب دکھے گا ، جاناں کب دکھے گا؟ اپنی قسمت پر ناز ہوگا جب ناز دائمی ہوگا ، جلوہ جب دائمی ہوگا ، کہ جمالِ نبی ﷺ کے جمال کی حد کہاں ، کہیں  ایسا نہ ہو کہ تجلیات آئنہ توڑ نہ دیں ، یہ جو جمال ہے کب ٹوٹنے دے گا ، لطافت لحجا دے گی ، جمال لٹ جائے گا باقی کیا بچے گا؟ عکس سے مینارہِ دل ، مینارہِ دل سے طور تک ، طور سے نور تک عکس مصطفی ﷺ ۔۔۔۔ جینے کا مقصد بس ایک ہے ، جو ملا ہے وہ دیے جا ! جو ملا ہے وہ دیے جا ! ملے گا اور۔۔۔۔ یہ نگینے سُرخ سُرخ ، یہ وصل کی  مۓ درکار ہے

نجف کا سرمہ لیے بنا کیسے آنا ہوا؟  الا اللہ  کا اثبات ہوا ؟ دید کیسے ہو؟ دل پر خواہشات کا جال مٹا کیا؟ فنا کو بقا ملی کیا؟ زندگی کو موت ملی کیا؟ رات کیا صبح میں ڈھلی کیا؟ نہیں ؟ تو جلنا مقدر ٹھہرا ! مقدر میں جل کے بکھرنا برا ہے کیا؟  ذرہ بکھرتا ہے تو گلنار ہوتا ہے

ہم تو جمالِ نبی ﷺ پر مٹے ، ہم تو کمالِ نبی ﷺ کو پا نہ سکے ! جمال میں ڈوبیں یا کمال کو پائیں؟ کمال ، جمال سے پرے جلال دکھے ۔۔۔ جلال ایسا کہ دکھے بھی نا ! یہ بھول بھلیاں جن میں راہی کھو جائے مگر کھوئے بھی نہ ! مل گیا ہمیں جاناں کا راز ، جاناں کا جلوہ کائنات کے دل میں ہے ، جاناں کا جلوہ شہ رگ میں ہے ، جاناں کی تجلی بوقت کن ملی ، جاناں کی تجلی ایسے جیسے الم ۔۔۔ اللہ نے لوح میں  محمد ﷺ کی تجلی رکھ دی ۔۔۔ 

درود  یا سیدی ﷺ سلام یا سیدی ﷺ

سر جھکا ! آنکھ پھر اٹھی نہ مقامِ ادب 

انظرنا کی خواہش ۔۔۔ مقامِ ادب 

جاناں کی مسکراہٹ پر لاکھوں سلام 

اے کاش کہ آنکھ نہ اٹھے ، اٹھے تو سر کٹے ، سر کٹے تو ذرہ ذرہ جلوہِ جاناں لیے ہوئے ہو ۔۔۔ کٹنا کیا ہو ؟ کٹنا کہ مرنا ۔۔۔ مرنا بہتر یوں کہ جینا ہو ، ذات میں رہ کے ذات کی نفی ۔۔ لا الہ الااللہ ۔۔۔ محمد ﷺ کی دید کے بنا کیسے مل پائے ۔۔۔ اے طہٰ آپ پر ان گنت درود 

پرواز


پرواز

کبھی کبھی ہمارا درد ، اضطراب ایک مجسم صورت ڈھال لیتا ہے . ہمیں ایسی وادی کی سیر کراتا ہے جہاں پر ہم اپنے وجود کے لاتعداد

حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں . تب جاکے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کائنات کی دوئی کبھی ختم نہیں ہوسکتی . یہ سفر اس کائنات کے زوال پر ختم ہوگا . اسی لیے دل کے اندر کائنا ت سما جاتی ہے . میرے اندر سے کئی آدمی ، عورتیں ، بچے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں . یہ سب اپنی اپنی صفات رکھتے ہیں . کوئی خوشیاں مناتی مستی میں رہتی ہے تو کوئی ہجر کے غم میں لیر لیر ہوجاتا ہے . وہیں میرے جیسی درد کی متلاشی ہمزاد روحیں مزید بکھروں ، حصوں میں منقسم ہوجاتی ہیں .میں دور بیٹھے ان سب پرنظر  رکھتی ہوں . یہ سب میری نگاہ سے اوجھل ہوتے ہوئے اوجھل نہیں ہے . یہ روحیں براہ راست اپنا حال بیان بنا بھی بیان کرتی ہیں .

پرانے برگد کے پیڑ تلے قبر پر ماتم کناں فاتحہ پڑھنے میں مصروف تھی . میرے دکھ کی تحریر کالے سیاہ دھواں کی شکل لیے مجھ سے نکلی اور پاس اک قبر پر جا کے آہ و فُغاں شروع کردی . لامتناہی درد کی بوچھاڑ پے در پے وجود کو منقسم کرنے پر تلے تھی . اس تقسیم کا مقابلہ ازل سے ہر ہستی کرتی آئی ہے . ہر روح جلتی آئی ہے . اس جلن کا دھواں آنسو بن کے نکلتا ہے تو کبھی ذات کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے .میں اپنے گرد ذاتوں کی تقسیم پر حیران ہونے کو تھی کہ میری ہم شکل صورتیں کہیں قبروں میں تو کہیں تحلیل ہوتے دھواں میں رقص کرتی دکھ رہی تھی .میری آنکھیں آنسوؤں کی خاموش تسبیح میں مصروف تھیں . میرا وجود آگ سے جل رہا تھا . جب کپڑا مکمل جل جائے تو راکھ بکھر جاتی ہے .مجھے پانی میں بگھو بگھو کے جلایا گیا ہے . دکھ کا ، یاس کا پانی جس نے میری آنکھوں سے بینائی چھین لی ہے . میں آرام سے گرم گرم آگ کی تپش کو برداشت کرتے خود سے وقفے وقفے سے خود سے بچھڑتے دیکھ رہی تھی . ہر دھواں اپنی اپنی قبر پر جاکے ماتم شروع کرتا ہے . لوگ کہتے ہیں کہ اجل کا سامنا ایک دفعہ ہوتا ہے جبکہ ہر گھڑی موت کا پیالہ زہر سمجھ کے پیا ہے کہ شاید مکمل موت مجھے تھام لے

میں برگد کے درخت سے ٹیک لگائے ان سب کو دیکھے جاتی ہوں کہ اچانک سیاہ لباس میں وجود حاضر ہوتا ہے . میری توجہ پاتے ہی جنازے کی اطلاع دی جاتی ہے .میرے مٹھی بند ہاتھ سے ریت پھسل کے پاس پڑی قبر سے ملنا شروع ہوتی ہے

اندر کتنے غم سائیں

اندر تیرے غم سائیں

غم کی برسات کر سائیں

اب تو  نڈھال کر سائیں

اندر کتنے غم  ہوں سائیں

دے دے اپنا آپ سائیں

لے لے میری ذات سائیں

اگربتی ساتھ لیتے جاؤ .. میں اس مخاطب ہوتی ہوں

آج محبوب نے آنا ہے.گلاب کے پھول بھی لے آنا.سجا دینا مٹی کو .. اس کو پسند ہیں ..!

وہ سرجھکائے کھڑا  اثبات میں سر ہلا دیتا ہے

ہم فضا میں پرواز کرنے لگتے ہیں ...ایک فضا سے دوسری فضا، ایک آسمان سے دوسرے آسمان . ہم زمیں پر رہتے ہیں ، زمین پر بیٹھے ہیں مگر ہماری نظر ہرجگہ پر ہے ، اپنے اندر کے آسمان سے اپنے  اندر کی زمین تک ....ہماری نظر ایسی وادی پر لگا دی جاتی ہے جہاں پر سیاہ لباس میں  ارواح رقص میں مصروف ہے ان کے مرکز میں میرے یار کا جنازہ ہے .

ایک سیاہ نقاب پوش مجھے دیکھ کے بھاگنے لگا . اس کا تعاقب کیے بنا اسے جالیا اور ساتھ ہی اس  مجلس میں شامل ہوگئی . جوں جوں روح جلتی ہے ، راکھ سلامت رہتی ہے اور آگ بھی سلامت رہتی ہے . مجھے ابھی مزید جلنا تھا کیونکہ میرے وجود میں ''میں '' کے سپید ٹکرے کہیں کہیں دکھ رہے تھے ان کی سیاہی میں بدلنے کی دیر تھی .جوں ہی جوش مسرت میں رقص شروع کیا ،مزید وجود نکلنا شروع ہوگئے . اتنے زیادہ وجود کہ تا حد نگاہ سب سیاہ لباس میں وجود بکھر گئے .........کالا سب اڑ گیا ، باقی سفید رہ گیا ....... وہ بھی سلامت نہ رہا ، روح یک دم اوپر کی جانب اٹھی اور آسمانوں میں غائب ہوگئی


مطلق ‏سچ

 جمال اچھا ہوتا ہے ۔۔۔زیادہ تر بندے اجمال کی جانب ہوتے ہیں مگر جو درد ہوتا ہے وہ نہ جلال کا حامل نہ جمال کا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سچ کا حامل ۔۔۔ سچی روح جانے کیسے لکھتی مگر دیکھئے جامی نے لکھا نا تنم فرسودہ ۔۔۔۔۔۔۔ یا کچھ ایسے ہی کیونکہ جامی بھی مضطرب رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو دعائے کمیل سنیں تو علم ہو کہ لکھنے والے کا درد یا کچھ بھی ایسا جس سے دل کی شمع سلگ اٹھے تو جان لیں کہ یہ بندہ سچ کا حامل ۔۔۔۔۔جہاں سچ ۔۔۔۔۔۔۔وہاں سجدہ


نظر کو منظر کی تلاش رہتی ہے کہ دیدہ چشم کا فائدہ تب ہوتا ہے جب دیکھا جائے ، جیسے کان کا فائدہ تب ہوتا ہے جب سنا جائے ۔۔۔۔۔جو دیکھتے ہیں سنتے ہیں ، وہی یقین سے سرفراز کیے جاتے ہیں جو گونگے بہرے ہوتے ہیں وہ شر الدواب ہوتے ہیں ۔۔۔۔ بحوالہ سورہ الانفال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلق سچ محسوس ہوتا ہے ، مطلق سچ کو پایا جاتا ہے ، جب وہ ہوتا ہے تو تب نفی ہوتی ہے ذات کی م ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب ذات ہو تو وہ ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتا اک پردہ آجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس کے لیے ہم کو ایک نفی کا کلمہ ادا کرنا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لا الہ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کہتا الا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ہمارا ذکر ہماری نفی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکا ذکر ، اسکا اثبات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنا ذکر کریں ، وہ اپنا کرے گا مگر اسکا ذکر ہم سے ہوگا اور ہمارا ذکر اس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے کہا گیا ا فااذکرونی اذکرکم

حتمی سچ کو پانا ممکن ہے کیونکہ ازل کا نور ، ابد کے نور سے ملتا ہے تو بقائیت ہوتی ہے ۔۔۔ ازل کی تکمیل جب تک ابد نہیں کرتا تب یہ ہجر میں تڑپتا رہتا ہے ، یہ تو روح کے روح سے سنگم ا کا نتیجہ ہے جب دو روحیں ہجر سے وصل کرتے ایک ہوجاتی ہیں تو بس دونوں کی میں ختم ہوجاتی ہے ، دونوں اک منبع ء نور سے جڑ جاتے ہیں

اے حسن ازل ، توئی قریب ۔۔۔۔تری حقیقیت میرے خیال میں سمائی ہیں ۔۔۔ میں رقص میں ان اسرارات کو چھپائے کیے گئی .... اب وہ رقص جان لیے دے ہے

میں جمال یار ڈھونڈتی رہی! این جمالی؟ منم یارم ...این جانم؟  دلم پاشیدم، جانم گمشیدم .... مطلق.سچ ہجر ہے اور مطلق سچ وصل ہے. ان کے بین بین سب شدو مد ہے