Thursday, November 19, 2020
حم کیا ہے
خدا سے تعلق
صورتِ قران
نقش و بو کہ دوئی
جل رہا ہے دل کہ روح ہے
حق حق میں کریندی جانواں
آیات فاطمہ رض
ماہِ ربیع الاول
روح کی گردش
رقص
زندگی میں محبوب کو کہاں کہاں پایا
میں حسن مجسم ہوں
تجدید کی کنجی !
آسمانوں زمینوں کا مالک***
راز حقیقت "کن فیکون "
حاجی کون
کوئی اپنا ملے تو نصیب بن جاتا ہے
بنام حسین
بنامِ حیدر ع
ابتدائے آفرینش
مٹی کے پرندے بناؤ
ہتھیلی پر جگنو
جسکو میسر تھا ساتھ
خدا تو ظاہر ہے
یہ درود جو بھیجا جائے
دعا
میں ترے شوق کا آئنہ ہوں
انسانی فکر کی شمع جب بلندی کی جانب پرواز کرتی ہے تب اسے اپنی ذات کا آئنہ دکھنا شُروع ہوجاتا ہے ۔کبھی حسن مجسم بنتے ذات کا ساجد بن جاتا ہے تو کبھی من سے '' اللہ ھو '' کے ذکر کے سرمدی نغمے پھوٹنے شروع ہوجاتے ہیں ۔ عالمِ ذات میں اس کا وجود منقسم ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ ایک سے دو اور دو سے چار کرتے متعدد ذاتیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ عاشق مرکز میں بیٹھا رہتا ہے اور اس کے منقسم متعدد آئنے ' اللہ ھو '' کے ضرب سے ضُو پاتے جاتے ہیں ، جیسے جیسے شمع کی توجہ ان کی جانب ہوتی جاتی ہے تو وہ اٹھ کھڑے قلندی دھمال میں رقص کرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ذات کے کچھ پنچھی آسمان کی جانب پرواز ہوجاتے ہیں تو کچھ زمانوں کی سیر کو نکل جاتے ہیں تو کچھ '' عالم ھو '' میں مست رہتے ہیں تو کچھ انوار و تجلیاں سمیٹنے کے لیے رواں دواں ہوتے تاکہ حاجی کہلا سکیں ! ایک ذات کے اتنے آئنے وجود میں تب آتے ہیں جب عاشق اس کی ذات میں مست ہوجاتا ہے ، اس کا نظارہ --- اس کا جلوہ مستی و سرور پیدا کرتا ہے اور تقسیم ذات ہستی کی طرف لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
تخلیق کی وجہ تب سمجھ میں آنے لگتے ہیں کہ رب نے اتنے لاتعداد آئنے بنائے ہیں جو زمانوں و مکان کے دائروں پر محیط ہیں ---- کچھ انبیاء کرام ہیں تو کچھ رسول ہیں تو کچھ ولیاء اللہ ہیں ۔۔۔۔۔۔خالق نے اپنی پہچان کو محمد صلی علیہ والہ وسلم کا نور بنایا ۔۔۔۔تمام ارواح خالق کے شوق کے آئنے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جہاں ، مٹی ، پہاڑ ، سبزہ ، درخت کی وجہ تخلیق کی سمجھ آنے لگتی ہے ۔۔۔ارض و سماء کو نور محمد صلی علیہ والہ وسلم کے لیے سجایا گیا ۔ زمانوں ، نبیوں کا نظام آپ کی ہستی کی خاطر بنایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔''نور'' ان مشاہدات میں بھی ہے اور ''نور ''خلیفہ الارض میں بھی ہے ، مشرف ذات انسان کی ہوئی کہ اس کو ''علم اور سوچ ''عطا کی جس کی وجہ سے فرق کرسکے کہ وہ کون ہے ؟ اس کی وجہِ تخلیق کیا ہے ؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے شوق اور محبت کے عالم میں انسان کی تخلیق فرمائی ۔۔۔۔۔ انسان خود کو پہچان سکے گا تو رب کو پہچانے گا ۔۔۔
تخلیق آدم کی وجہ کیا ہے ؟ جب آدم علیہ سلام کو تخلیق کیا گیا تو سبھی ارواح کا اس وقت ظہور فرمادیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ انسان کی تخلیق ذات خدا وندی کی شوق کی خاطر ہوئی ۔۔۔۔۔۔ انسان اپنی پہچان کیسے کرے ؟ وہ کیسے جانے کہ رب کون ہے ؟ جب تک انسان کے اندر سوال پیدا نہیں ہوگا تب تک اس کے جاننے کی سعی بے کار جائے گی ۔ علم جو بنا سوال و احتیاج کے حاصل کیا گیا اس سے کوئی کامل فائدہ نہیں پہنچے گا ۔۔۔۔ سوچ کا سفر جب تک سوال سے شروع نہیں ہوتا تب تک پہچان کا راستہ ملتا نہیں ہے اور اس کی سمت کا تعین ہو نہیں پاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔سوال کرنے کے بعد اس پر غور و فکر کر تے، اس تفکر سے سبھی جوابات وجدان کی صورت دل میں اترنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔ کائنات کی تسخیر علم کے ذریعے ممکن ہے اور ذات کی تسخیر بنا کسی بھی شے کو مسخر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذات کی تسخیر سوال سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔وجدان کی صورت جو علم دل میں اترتا ہے وہ اتنا قوی ہوتا ہے کہ دنیا کا سارا علم اس علم کے آگے ہیچ ہے ۔۔۔۔۔۔
وہ نور جس نے مجھے پر نور کردیا ہے
وہ نور جس نے مجھے پرنور کردیا .... وہ نور جس نے بصیرت کو بڑھا دیا ... وہ نور جس کی تجلی طور کو سرمہ کردیتی ہے ... وہ نور جس کی انتہا کوئی نہیں ہے کسی زیرِ زمین سرنگ سے داخل ہوتا ہے، واصل ہوتا ہے ....... پانی ہماری ذات ہے، قطرے کی کیا بساط ہے ... روشنی ہمارے سینے میں ....محفلِ نوری کے خزینے ہیں .... یہ ماہ و سال یہ انجم یہ کواکب ......سب ہیچ !
یہ کیسا دھواں ہے؟ یہ.کیسی مدھانی ہے جو مجھے دھن رہی ہے ... یہ نیل ہے یا سیلاب ہے ...کیا ہے یہ؟ تن کے جابجا آئنوں پہ. تجلی کا گمان ہوتا ہے ...جیسے کسی بڑے مقناطیس نے بہت زور سے کشش کی ہو ....
جھکے. سلام کیے دیتے ہیں. .یہ سنگ درِ جاناں کی تسبیح ہے عاصی. ... جس کو مل جائے خاک اس در کو اسکو وہی کافی ہے. .. روئی بدن اڑ رہا ہے جیون محشر بنا ہے. ... تن سے ہائے رے اللہ. کی صدائیں ہیں. ..
یہ بے نیازی جو برہنگی کا لباس ہے ...... ہم اسکی چاہت میں ہے .... لیلیٰ فکر محو ہوگئ ہے ... رات کی بانہوں نے بارش کا طوفان سہا ہے ...زمین ساری سرخ ہے .... اس سرخی پہ لا الہ الا اللہ. لکھا ہوا .... کوئی شہید ہوا ہے ....جانے کون اسکے لیے شہادت کے جام نوش کیا جاتا ہے ... ابھی کچھ ایسی بندش نہیں رہی کہ دل کی آوازیں سنائی دیتی ہے ...منظر. دکھائی دیتے ہیں. .. رہائی. ..کیسے ملے رہائی کہ شیر پنجرے میں قید ہے. ... پرندے کی مانند روح پھڑپھڑاتی نہیں، رہائی کو ترسی روح کہ پتا ہے خاکی پتلا اسکو سونے نہیں دے گا. ..یہ کیسی. قید ہے جسکی سلاخیں ساری سرخ ہیں. ..جسکی سلاخی پہ چاندی چمک رہی ہے. ..رہائی ملے نہ ملے اب کہ وہ ملے
اجمالی ہو جلالی ہو ...تجلی ہوتی تجلی ہے ... دل کیا پورا تن ہی مجلی ہے ..دل کملی بن جاتا ہے ...ذات کی سرنگوں میں تہ در تہ. ہوتے جب سب سے نچلی زمین پہ پہنچتے ہیں ... تب. کعبہ کے گرد طوف ہوتا ہے ...اس کے بعد جلوہ
when your impulses ....!
When your impulses are turning to impudence ,when your earth is drowning into the water , when your chemistry is getting changes , when changes are unknown , when your curiosity is on the peak , when you want to fly high and high , when you are confined in your limits though limitless in your approach , when you have see inside , waves ruthlessness pushing whole body like a throbbed heart , when your existence is like mercury who boils and splashes after heating , when your heart has numerous hidden question not answered , when your pain is beyond your limit , when you are yearning for meeting with your beloved ,
then call Him !
O ` dear come near ~ So near , no distance can be mounted between , no boundaries can be imagined between , no painRain ! Rain ! it is falling and lightning the meadows , caves ,flowers and gives lights to fireflies ...One firefly has started rotating around rose ,and jasmine fragrance has started dispersing here and there ,when your your flutter the wings to un-cage the cage , when you sing like a nightingale , when music has started tuning you , when you are absorbed in Him ,
He says : O light ! Thy flaming light is mine , Thy shimmering is mine , thy voice is mine , thy dance is mine , what is yours ?
Tick ! Tick ! Tick ! Tock ! Tock ! Tock ! Tick tock ! Tick tock ! ticktock
Thy mingled voice , thy ignited flaming fire , thy glistening light , thy soothing voice ! aA ! What is mine ! All is yours ! Who is in me ? You ! Who are you ? My lord ? My master ? My beloved ? Yes ! you are my beloved ! Loook !The distances are like rifle shot and bullets are piercing into my heart , Your splashes are like flood , I am in flood ! I am in flood , you are immense , you are deep , you are supreme ..with your soft melodious voice you have cut my heart like knife cut an apple .......Your love wine is making me numb ........
When there was no one , I was .......Man has been given power and my self is absorbed in him ,,,My love he never understand and person who wanted to approach me would have to suppress the ego ...
Dance ! Sing ! smell ! see !
whirling fireflies moved around Rose in ecstatic state ! Some one has gone lunatic , some has lost senses , someone is finding her love , someone is in cage , someone is not able to resolve mysteries
Glass is shattered ! Crash! Crash ! Crash ! Awww ! pieces ! Who is seeing , to whom I am looking ? Who has same shade of mine ! I am Him or He is me ! I am Him , or He is me , I am Him , he is me ! Haq ! Haq ! Haq ! HO ! Hoo! Hooo! Hoo! He is in me ! He is me or I am him ! He is my dress , white dress , without any stain ! Whirl ! Whril ! Whril! O my wind ! O my wind whirl ! Whirl and see the world , He wants to see the world , He wants to make me see the world ...He is here , Where HE is ? He is in desert ? H e is in sea? He is shadow ? My
shadow ? No he is not anywhere . I am Him !
He says ! O Noor ! Your are mine .I am saying , you have flamed my heart , my heart is aching with pain , flood is spinnig the mountains , rain is making me insane ..... I am in your rain , no need for the pain ...
Dream ! Noor dream ...When the night of dream will come , then prayers will be in stream , showering will gleam , do not scream !
Aww ! Whirling wind ! I am His meloday , the melodies which are piped inside , He is piping and I am listening , He is pulling me , I am dancing , I want to scream , when you will meet with me , when night of dream will come , when lingering for will vanish , when snow will fall , when I will walk over bridge , When wind will blow giving a Rose smell ,
9:05 AM
will be hanging inside the case !
حضرت امام حسین رض اور قربانی کا پیش منظر
حضرت امام حُسین رض کی قربانی کا پس منظر
صُبح کا تارا ظُلمت کا پردہ چاک کرکے، خود کو دوام بخش کے، اسلام کو زندہ کرکے ، قربانی کی تجدید کرکے شاہد و شہید ہوکے اپنی سرداری کی دلیل دے کر گئے ۔ہم آج ان کی یاد میں دو چار لفظ کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے محرم کا پہلا عشرہ اس عظیم قربانی کی یاد میں گُزار دیا۔ قُربانی کی تمثیل یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے چلتی حضرت عبداللہ رض کو پُہنچی جن کے والد حضرت عبدالمطلب کے نو بیٹے تھے اور منت مانی تھی کہ دس بیٹے ہوئے تو دسواں قربانی کردیں گے ۔ جب حضرت عبداللہ رض پیدا ہوئے تو جناب عبدالمطلب کا دل نہیں کیا کہ اپنے دُلارے اور چھوٹے سے بیٹے کو قربان کردیں ۔ سردارانِ قریش و کاہنوں کے مشورے پر چلتے ہوئے سُو اونٹ قُربان کردیے گئے ۔حضرت ابراہیم کی نسل میں دو دفعہ قربانی ٹل گئی کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس دنیا میں آنا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قُربانی کی یاد میں عید الضححٰی منائی جاتی ہے اور حضرت عبداللہ کی بیٹے جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آنا تھا ، ان کے آنے میں خُوشی میں عید میلاد النبی منائی جاتی ہے ۔ اس قربانی کی تکمیل نبوت کی تکمیل کی لیے ضروری تھی کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ واسلم کو اس دنیا میں آنا تھا اور السلام کو پھیلانا تھا اس لیے حسنین کی قربانی نے نبوت کی تکمیل کرتے ہوئے اسلام کو زندہ کردیا ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام زہر دے کر شہید کردیئے گئے اور حضرت امام حسین نے پورے کنبہ ء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی دے کر آسمان پر مکین روح الامین جبرائیل کو بھی بے چین کردیا۔
صدقء خلیل بھی ہے عشق،صبرء حُسین بھی ہےعشق
معرکہء وجود میں بدرو حُنین بھی ہے عشق
کچھ تاریخ کے اوراق کو پلٹ کردیکھتے ہوئے میں نے تعصب کا چشمہ اتار پھینکا ہے ۔ میرا کوئی مسلک نہیں ہے : میں نہ شیعہ ہوں ، میں نہ سنی ہوں ، میں نہ اہل حدیث ہوں ، میں نہ بریلوی ہوں اور نہ ہی دیوبندی ہوں ۔ میں ایک ذلیل و عاجز ، سیہ کار و گُنہ گار مسلمان ہوں جس کا مقام اتنا گرا ہوا ہے کہ اس کو سفل سے نچلے درجہ کا بھی کہا جائے تو بجا ہوگا مگر کیا کروں کہ اسفل الاسافلین سے نچلا درجہ کوئی نہیں ہے ، یہ ہاتھ ، میرا دل ، میری زُبان اپنے تمام جُملہ شیطانی اوصاف رکھتے ہوئے بھی ان پاک ہستیوں کا نام لینے پر مجبور ہیں ۔ شاید اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سعادت سے محروم نہیں رکھا ہے اس بات پر میرا سجدہء شُکر ہے کہ میں آج ان پاک ہستیوں کو لکھ کر اپنی سیہ کاری کو چُھپانا چاہ رہی ہوں ۔ جنگ ء جمل و صفین نے دینِ اسلام کی متحد صفیں بکھیر دیں تھیں ۔ اسلامی حکومت دو حصوں میں بٹ کر خلافت و بادشاہت میں بدل چکی تھی ۔ ایک طرف حضرت علی رض حکمران تھے جو کہ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے تو دوسری طرف حضرت معاویہ رض حُکمران تھے جو بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ بنو ہاشم و بنو امیہ کی لڑائی واقعہء کربلا کا شاخسانہ بنی ۔ عبدالمناف کے دو جُڑواں بیٹے پیدا ہوئے جن کے دھڑ ایک دوسرےکے ساتھ منسلک تھے ان کو تلوار سے علیحدہ کردیا گیا ۔نجومیوں نے پیشن گوئی کی کہ ان دو کے درمیان لڑائی جاری رہے گی حضرت امیر معاویہ نے کے دور ء حکومت کے تین کام جس نے خلافت کو بادشاہت میں بدل دیا : بیت المال کی ذاتی تصرف ، یزید کی ولی عہدی اور سب علی یعنی خطبہء جمعہ کے بعد حضرت علی رض کو گالیاں و برا بھلا کہنے کا رسم کی شُروعات ۔ اس صورت میں وہ ساتھی جو حضرت امیر معاویہ کے ساتھ تھے ان کو شیعانء معاویہ اور جو حضرت علی رض کے ساتھ ان کو شیعانء علی کہا جاتا تھا۔حضرت علی رض کی شہادت کے بعد حضرت عمرو بن العاص نے امیر معاویہ کو یزید کی ولی عہدی کا مشورہ دیا اور اپنے وصیت نامے میں کچھ ہدایات لکھ گئے کہ اس وقت حجاز میں پانچ اشخاص ایسے ہیں اگر وہ تمھارے حق میں بیعت کرلیں تو پورے حجاز نے بیعت کرلی ۔ ان میں سے دو اشخاص بیعت کرلیں تو سمجھو سب افراد تمھارے تابع ہیں ۔ ایک حضرت امام حُسین رض ہیں ، جن کے بارے میں کہا کہ وہ قرابت دار ہیں ، جہاں ملیں حُسن سلوک کا مظاہرہ کرنا اور جو شخص تمھیں لومڑی کی طرح چالاک اور شیر کی طرح بہادر نظر آئے وہ حضرت عبداللہ بن زبیررض ہیں ۔ وہ جہاں نظر آئیں ان کو فورا قتل کرنا۔ یزید نے اپنے افراد حجاز بھیجے تاکہ ان سے بیعت لی جاسکی ۔ دونوں نے مہلت مانگی اور حضرت عبداللہ رض حجاز سے فرار ہوگئے جبکہ حضرت امام حُسین رض کوفہ کی طرف کوچ کرچکے تھے ۔ یہیں پر واقعہء کربلا پیش آیا ۔ جس کی ساری رُوداد ہم سنتے ہیں تو دل موم ہوجاتے ہیں اور چشم نم ہوجاتی ہے ۔
شیعان علی رض وہ لوگ جو حضرت امام حُسین رض کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلا چکے تھے مگر ان کو پورا نہیں کرسکے ۔ دوست نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت امام حُسین رض کی دوستی اللہ تعالیٰ سے کیسی تھی اور سوچوں میری دوستی کیسی ہے تو مجھے اپنا آپ انہی لوگوں کے کردار میں ملتا ہے جو دوست کی دوستی کا حق ادا نہیں کرتے ۔ دوست تو گواہی مانگتا ہے ۔ کُوفیوں کی گواہی ملاحظہ کیجئے اور امام عالی مقام رض کی گواہی ملاحظہ کیجئے جو انہوں نے اپنے خون سے کلمہء حق کو زندہ کرتے ہوئے دی کہ کربلا کی خاک تو بہت روئی تھی ، کاش میں وہ خاک ہی ہوتی جس پر اس پاک خون سے لا الہ الا اللہ کا کلمہ شاہد ہوگیا کہ اللہ کا دین غالب ہوگیا کہ وہ غالب ہوکر رہے گا اور باطل کا نام مٹ گیا کہ وہ مٹنے کے لیے ہی ہے ۔ ان شہادتوں پر ماتم کرنا بذات خود امام عالی مقام کی توہین ہے ان کی قربانی کی توہین ہے ۔ شہید تو زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے
کہ دو غم حسین منانے والوں کو
مومن کبھی شہدا کا ماتم نہیں کرتے
ہے عشق اپنی جان سے بھی زیادہ آل رسول سے
یوں سر عام ہم انکا تماشہ نہیں کرتے
روئے وہ جو منکر ہے شہادت حسین کا
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس قربانی میں حکمت کیا تھی ، اسلام کیسے زندہ ہوا ۔ آپ اگر یزید کی اطاعت کرلیتے تو اسلام کی اصل شکل اور روح ہم تک نہیں پُہنچ پاتی ۔میرا مسلک تو وہی ہے جو مجھے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک ہستی نے بتایا ۔ میں اس وقت موجود ہوتی تو خوش نصیبوں میں ہوتی ۔ مجھے دکھ ہے میں کسی طرح بھی ان کے ساتھ نہیں رہ سکی اور نہ کسی غزوہ و معرکہ میں شرکت کرسکی ، میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی اگر میں حضرت امام حسین رض کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیتی ۔ میں اس بات پر روتی ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی نہیں رکھا ۔ میرے دل میں خواہش رہی کہ ان بڑی ہستیوں کے طریقے پر چل سکوں مگر میں نہیں چل سکتی ۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکی ہوں ۔ میں سوچتی ہوں میں کسی مسلمان ہوں ِ؟ کیا واقعی ہی میں مسلمان ہوں ؟ یہ کیسا اسلام میرے دل میں ہے جو مجھے ایثار و بے لوث محبت نہیں کرنے دیتا جو مجھے نفسی نفسی کا سبق دیتا ہے ۔ میں تو اب سوچتی ہوں کہ میں انسان بھی ہوں؟ مجھے کوئی بتائے کہ میں انسان کہلائے جانے کے لائق ہوں ؟
مناجات
ہم مدینے میں جائیں گے واپس نہ آئیں گے
جشن ولادت منائیں گے، نعت سنائیں گے
در در پھرتے خاک ہوگئے ہم، ملی رفعت نور
در اقدس چھوڑ کے اب کدھر کو جائیں گے
ہوّاؤ! جاؤ بتاؤ اک عاشق روتا ہے زار زار
تڑپ بڑھتی جائے، در پر کب بلائیں گے
آؤ! نازِ حُسین سے سینے کو سجانے والو
شہِ کربل پاس قدموِِں کے بل جائیں گے
سینہ مدینہ بنتا ہے گہوارہ امن کو ہوتا ہے
حاضری کو ہمیں شاہا بار بار بلائیں گے
زندگی نے قفس سے رہائی کی یاد دلائی ہے
محشر تلک ہم انہی کو پکارے جائیں گے
حال دل کس کو سنائیں شاہا کے ہوتے ہوئے
سر بہ قدموں کے طیبہ جائیں روتے ہوئے
مقام دل جلوہ قائم دائم ہوگی حضوری
دل کی گلیاں سجائیں اشکوں سے دھوتے ہوئے
تاجدار وہ، غلام ہیں ہم، غلامی کی سند کو
چوم چوم کے نہ رہ جائیں رات سوتے ہوئے
میری نسبت متعین ہوئی ہے زہرا کے قدموں سے
کیوں نہ ہم دھل جائیں قدموں میں ہوتے ہوئے
ردائے فاطمہ سے نسبت نے داغ عصیاں دھوئے
گنہ کیسے در دل کھٹکھٹائیں آپ کے ہوتے ہوئے
حال دل کہتے ہیں، شان زہرا علی کہتے ہیں، جبین جھکائی جاتی ہے رحمت کے دروازے کھلتے ہیں .... رات کی جھولی میں ستارے چمکتے ہیِں، جگنو سجدہ کرتے ہیں ... طاہر طیب طائر ہوتے ہیں جبین کو جھکاٰئے چلے جارہے ہیں، نیاز والے ایسے چلتے ہیِں ... گل قدسی سے سیکھیں گے قدسی مہک، شجر ہلتے ہیں، پتے گرتے ہیِں جہاں پا مبارک زہرا کے پڑتے ہیں ... رک رہا دل گرفتار ہے محبت میِں، شان میں کہہ لوں کہ کہیِں دم نکل نہ جائے عجلت میں سرمہ ء عشق ملا دل کے لباس سے ظاہر ہوا نام فاطمہ .... تربت جسکی میعارِ حیا کا، ایسی ہستی کی قربت میں ہم رہتے ہیِں .. نور چل دھوون ہو جا ان کے قدموں کی، خزانے ملتے ان کے بندھن سے
پنجتن سے درِ دل فیض عام ہوا
دُروں میں ذکر زہرا سے کام ہُوا
غیر آگے جھکا نَہیں، ابن زہرا
کا تذکرہ ہر زمن میں عام ہوا
شہرِ دل میں مصطفوی چراغ سے
رگ رگ میں نور کا انتظام ہوا
حیدر کے ہوتے دشمن کہاں جاتا
قلعہ خیبر یوں حلقہ ء اسلام ہوا
چل رَہی نسبت کوثر سے کائنات
مداوا غم دل کا اک یہی جام ہوا
نوید سحر کی ہے، سعید گھڑی ہے
بسمل کے دم دم میں ذکر جلی ہے
تڑپ دیکھو مری پرواز کرنے والو
اشک لَہو، فگار دل اور بے کلی ہے
درود پڑھتے پڑھتے نیند آئی تھی
دل کے کاخ و کو صبا پھر چلی ہے
ہچکی بدن، لرزش پیہم،آمد شہا کو
شہر دل میں سجی ہر اک گلی ہے
کوئی دیکھے نگاہ لطف کے اسرار
دعا ہے کس کی، جبین جھک چلی ہے
چراغ کی تپش نے بے حال ہے کِیا
صدائے علی نے کِیا، کمال ہے کِیا
چَلو نَجف، دُھلے ہیں میل دل کے
بَتائیں گی گَلیاں یہی سلام یے کِیا
کھڑے ہیں روضے میں، تھامی جالی
نہ پوچھ کیا پایا، بس خیال ہے کِیا
ہمی تھے، حلقہ نور تھا، طواف تھا
یہ ناطہ چکروں میں بحال ہے کِیا
اٹھے تھے ہاتھ جو دُعا کو، تڑپ تھی
سنی گئی، اُسی نے شاملِ حال ہے کیا
نوری محفل سجی ہے غارِ حرا میں
نوری محفل سجی ہے غارِ حرا میں
مۓ شہادت جو پی ہے غارِ حرا میں
جلوہ تیرا دکھے ہر سو کہ سعادت
دید کی پائی تھی غارِ حرا میں
کوچہ کوچہ یہ صدا دے یا "محمد "
ہر طلب مٹ چکی ہے غارِ حرا میں
مٹ گئی تیرگی ، سرمایہِ زیست بس یہی ہے دیوانگی کو پی لیجیے ! زندگی کو جینے کا ڈھنگ سیکھ لیجیے ! ڈھنگ ہے کہ رنگ ہے ، رنگ ہے کہ سنگ ہے ، سنگ ہے تو درِ جاناں کا ، خاک بن کے اڑوں جاناں کے قدموں سے ، نازاں ہوجاؤں اپنی قسمت پر ، جاناں کا جلوہ کب دکھے گا ، جاناں کب دکھے گا؟ اپنی قسمت پر ناز ہوگا جب ناز دائمی ہوگا ، جلوہ جب دائمی ہوگا ، کہ جمالِ نبی ﷺ کے جمال کی حد کہاں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تجلیات آئنہ توڑ نہ دیں ، یہ جو جمال ہے کب ٹوٹنے دے گا ، لطافت لحجا دے گی ، جمال لٹ جائے گا باقی کیا بچے گا؟ عکس سے مینارہِ دل ، مینارہِ دل سے طور تک ، طور سے نور تک عکس مصطفی ﷺ ۔۔۔۔ جینے کا مقصد بس ایک ہے ، جو ملا ہے وہ دیے جا ! جو ملا ہے وہ دیے جا ! ملے گا اور۔۔۔۔ یہ نگینے سُرخ سُرخ ، یہ وصل کی مۓ درکار ہے
نجف کا سرمہ لیے بنا کیسے آنا ہوا؟ الا اللہ کا اثبات ہوا ؟ دید کیسے ہو؟ دل پر خواہشات کا جال مٹا کیا؟ فنا کو بقا ملی کیا؟ زندگی کو موت ملی کیا؟ رات کیا صبح میں ڈھلی کیا؟ نہیں ؟ تو جلنا مقدر ٹھہرا ! مقدر میں جل کے بکھرنا برا ہے کیا؟ ذرہ بکھرتا ہے تو گلنار ہوتا ہے
ہم تو جمالِ نبی ﷺ پر مٹے ، ہم تو کمالِ نبی ﷺ کو پا نہ سکے ! جمال میں ڈوبیں یا کمال کو پائیں؟ کمال ، جمال سے پرے جلال دکھے ۔۔۔ جلال ایسا کہ دکھے بھی نا ! یہ بھول بھلیاں جن میں راہی کھو جائے مگر کھوئے بھی نہ ! مل گیا ہمیں جاناں کا راز ، جاناں کا جلوہ کائنات کے دل میں ہے ، جاناں کا جلوہ شہ رگ میں ہے ، جاناں کی تجلی بوقت کن ملی ، جاناں کی تجلی ایسے جیسے الم ۔۔۔ اللہ نے لوح میں محمد ﷺ کی تجلی رکھ دی ۔۔۔
درود یا سیدی ﷺ سلام یا سیدی ﷺ
سر جھکا ! آنکھ پھر اٹھی نہ مقامِ ادب
انظرنا کی خواہش ۔۔۔ مقامِ ادب
جاناں کی مسکراہٹ پر لاکھوں سلام
اے کاش کہ آنکھ نہ اٹھے ، اٹھے تو سر کٹے ، سر کٹے تو ذرہ ذرہ جلوہِ جاناں لیے ہوئے ہو ۔۔۔ کٹنا کیا ہو ؟ کٹنا کہ مرنا ۔۔۔ مرنا بہتر یوں کہ جینا ہو ، ذات میں رہ کے ذات کی نفی ۔۔ لا الہ الااللہ ۔۔۔ محمد ﷺ کی دید کے بنا کیسے مل پائے ۔۔۔ اے طہٰ آپ پر ان گنت درود
پرواز
کبھی کبھی ہمارا درد ، اضطراب ایک مجسم صورت ڈھال لیتا ہے . ہمیں ایسی وادی کی سیر کراتا ہے جہاں پر ہم اپنے وجود کے لاتعداد
حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں . تب جاکے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کائنات کی دوئی کبھی ختم نہیں ہوسکتی . یہ سفر اس کائنات کے زوال پر ختم ہوگا . اسی لیے دل کے اندر کائنا ت سما جاتی ہے . میرے اندر سے کئی آدمی ، عورتیں ، بچے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں . یہ سب اپنی اپنی صفات رکھتے ہیں . کوئی خوشیاں مناتی مستی میں رہتی ہے تو کوئی ہجر کے غم میں لیر لیر ہوجاتا ہے . وہیں میرے جیسی درد کی متلاشی ہمزاد روحیں مزید بکھروں ، حصوں میں منقسم ہوجاتی ہیں .میں دور بیٹھے ان سب پرنظر رکھتی ہوں . یہ سب میری نگاہ سے اوجھل ہوتے ہوئے اوجھل نہیں ہے . یہ روحیں براہ راست اپنا حال بیان بنا بھی بیان کرتی ہیں .
پرانے برگد کے پیڑ تلے قبر پر ماتم کناں فاتحہ پڑھنے میں مصروف تھی . میرے دکھ کی تحریر کالے سیاہ دھواں کی شکل لیے مجھ سے نکلی اور پاس اک قبر پر جا کے آہ و فُغاں شروع کردی . لامتناہی درد کی بوچھاڑ پے در پے وجود کو منقسم کرنے پر تلے تھی . اس تقسیم کا مقابلہ ازل سے ہر ہستی کرتی آئی ہے . ہر روح جلتی آئی ہے . اس جلن کا دھواں آنسو بن کے نکلتا ہے تو کبھی ذات کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے .میں اپنے گرد ذاتوں کی تقسیم پر حیران ہونے کو تھی کہ میری ہم شکل صورتیں کہیں قبروں میں تو کہیں تحلیل ہوتے دھواں میں رقص کرتی دکھ رہی تھی .میری آنکھیں آنسوؤں کی خاموش تسبیح میں مصروف تھیں . میرا وجود آگ سے جل رہا تھا . جب کپڑا مکمل جل جائے تو راکھ بکھر جاتی ہے .مجھے پانی میں بگھو بگھو کے جلایا گیا ہے . دکھ کا ، یاس کا پانی جس نے میری آنکھوں سے بینائی چھین لی ہے . میں آرام سے گرم گرم آگ کی تپش کو برداشت کرتے خود سے وقفے وقفے سے خود سے بچھڑتے دیکھ رہی تھی . ہر دھواں اپنی اپنی قبر پر جاکے ماتم شروع کرتا ہے . لوگ کہتے ہیں کہ اجل کا سامنا ایک دفعہ ہوتا ہے جبکہ ہر گھڑی موت کا پیالہ زہر سمجھ کے پیا ہے کہ شاید مکمل موت مجھے تھام لے
میں برگد کے درخت سے ٹیک لگائے ان سب کو دیکھے جاتی ہوں کہ اچانک سیاہ لباس میں وجود حاضر ہوتا ہے . میری توجہ پاتے ہی جنازے کی اطلاع دی جاتی ہے .میرے مٹھی بند ہاتھ سے ریت پھسل کے پاس پڑی قبر سے ملنا شروع ہوتی ہے
اندر کتنے غم سائیں
اندر تیرے غم سائیں
غم کی برسات کر سائیں
اب تو نڈھال کر سائیں
اندر کتنے غم ہوں سائیں
دے دے اپنا آپ سائیں
لے لے میری ذات سائیں
اگربتی ساتھ لیتے جاؤ .. میں اس مخاطب ہوتی ہوں
آج محبوب نے آنا ہے.گلاب کے پھول بھی لے آنا.سجا دینا مٹی کو .. اس کو پسند ہیں ..!
وہ سرجھکائے کھڑا اثبات میں سر ہلا دیتا ہے
ہم فضا میں پرواز کرنے لگتے ہیں ...ایک فضا سے دوسری فضا، ایک آسمان سے دوسرے آسمان . ہم زمیں پر رہتے ہیں ، زمین پر بیٹھے ہیں مگر ہماری نظر ہرجگہ پر ہے ، اپنے اندر کے آسمان سے اپنے اندر کی زمین تک ....ہماری نظر ایسی وادی پر لگا دی جاتی ہے جہاں پر سیاہ لباس میں ارواح رقص میں مصروف ہے ان کے مرکز میں میرے یار کا جنازہ ہے .
ایک سیاہ نقاب پوش مجھے دیکھ کے بھاگنے لگا . اس کا تعاقب کیے بنا اسے جالیا اور ساتھ ہی اس مجلس میں شامل ہوگئی . جوں جوں روح جلتی ہے ، راکھ سلامت رہتی ہے اور آگ بھی سلامت رہتی ہے . مجھے ابھی مزید جلنا تھا کیونکہ میرے وجود میں ''میں '' کے سپید ٹکرے کہیں کہیں دکھ رہے تھے ان کی سیاہی میں بدلنے کی دیر تھی .جوں ہی جوش مسرت میں رقص شروع کیا ،مزید وجود نکلنا شروع ہوگئے . اتنے زیادہ وجود کہ تا حد نگاہ سب سیاہ لباس میں وجود بکھر گئے .........کالا سب اڑ گیا ، باقی سفید رہ گیا ....... وہ بھی سلامت نہ رہا ، روح یک دم اوپر کی جانب اٹھی اور آسمانوں میں غائب ہوگئی
مطلق سچ
جمال اچھا ہوتا ہے ۔۔۔زیادہ تر بندے اجمال کی جانب ہوتے ہیں مگر جو درد ہوتا ہے وہ نہ جلال کا حامل نہ جمال کا ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سچ کا حامل ۔۔۔ سچی روح جانے کیسے لکھتی مگر دیکھئے جامی نے لکھا نا تنم فرسودہ ۔۔۔۔۔۔۔ یا کچھ ایسے ہی کیونکہ جامی بھی مضطرب رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو دعائے کمیل سنیں تو علم ہو کہ لکھنے والے کا درد یا کچھ بھی ایسا جس سے دل کی شمع سلگ اٹھے تو جان لیں کہ یہ بندہ سچ کا حامل ۔۔۔۔۔جہاں سچ ۔۔۔۔۔۔۔وہاں سجدہ
نظر کو منظر کی تلاش رہتی ہے کہ دیدہ چشم کا فائدہ تب ہوتا ہے جب دیکھا جائے ، جیسے کان کا فائدہ تب ہوتا ہے جب سنا جائے ۔۔۔۔۔جو دیکھتے ہیں سنتے ہیں ، وہی یقین سے سرفراز کیے جاتے ہیں جو گونگے بہرے ہوتے ہیں وہ شر الدواب ہوتے ہیں ۔۔۔۔ بحوالہ سورہ الانفال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلق سچ محسوس ہوتا ہے ، مطلق سچ کو پایا جاتا ہے ، جب وہ ہوتا ہے تو تب نفی ہوتی ہے ذات کی م ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب ذات ہو تو وہ ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتا اک پردہ آجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس کے لیے ہم کو ایک نفی کا کلمہ ادا کرنا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لا الہ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کہتا الا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ہمارا ذکر ہماری نفی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکا ذکر ، اسکا اثبات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنا ذکر کریں ، وہ اپنا کرے گا مگر اسکا ذکر ہم سے ہوگا اور ہمارا ذکر اس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے کہا گیا ا فااذکرونی اذکرکم
حتمی سچ کو پانا ممکن ہے کیونکہ ازل کا نور ، ابد کے نور سے ملتا ہے تو بقائیت ہوتی ہے ۔۔۔ ازل کی تکمیل جب تک ابد نہیں کرتا تب یہ ہجر میں تڑپتا رہتا ہے ، یہ تو روح کے روح سے سنگم ا کا نتیجہ ہے جب دو روحیں ہجر سے وصل کرتے ایک ہوجاتی ہیں تو بس دونوں کی میں ختم ہوجاتی ہے ، دونوں اک منبع ء نور سے جڑ جاتے ہیں
اے حسن ازل ، توئی قریب ۔۔۔۔تری حقیقیت میرے خیال میں سمائی ہیں ۔۔۔ میں رقص میں ان اسرارات کو چھپائے کیے گئی .... اب وہ رقص جان لیے دے ہے
میں جمال یار ڈھونڈتی رہی! این جمالی؟ منم یارم ...این جانم؟ دلم پاشیدم، جانم گمشیدم .... مطلق.سچ ہجر ہے اور مطلق سچ وصل ہے. ان کے بین بین سب شدو مد ہے