سلام مرے دل! اللہ ھو! اللہ ھو! دل کی زمین پر جو پھول ہیں وہ پھول بہت خوب ہیں اسکی خوشبو میں کمال ہے. جہاں خوشبو ہوتی ہے وہاں خدا ہوتا ہے راز ہے نا! وہ کثرت میں ہے اور تکثیریت کے جام ہم پی لیں تو کثرتیں دکھنے لگیں اور وحدت ہم میں سے ظاہر ہو.کہو اللہ اور کہو ھو اور کہو جمعہ یہ مبارک ہو. قربان یو جا اے دل کہ قربانی سے اصلاح اور اصلاح سے فلاح اور فلاح سے روشنی. روشنی جلوہ.
اے صدائے کن گونج دل میں بڑا درد ہے .. یہ بات ہے گونجے گی یہ تو دل کو ہل جانا
اذا زلزلت الارض زلزالھا
ہل رہی یے زمین
اے آسمان لوح مبین کے
مجھ کو لے چل ..لے چل رکھ لے قدم میں
تورے بنا مورا راگ ادھورا رے
چل کہہ دے
حسین ابن حیدر کو سلام
دل میں کرم یے دل میں نم ہے دل میں ہجر ہے دل میں وسیلہ.ہے دل میں حیا ہے دل میں ردا ہے دل میں ادعا اجازت رسول.معظم صلی اللہ علیہ.والہ.وسلم کملی.کالی یے دل کو یاھو کہو دل میں لب دل کاسے کلمہ لکھا یے
تو سنو!
آنکھ جب روتی ہے تو میں نہیں وہ روتا ہے
تم نے جب آنسو بہائے تھے یہ اس نے بہائے. وہ تمھارے دکھ میں برابر کا شریک رہا ہے اور تم نے سوچا کہ میں تنہا ہے. تم نے جب اسکو یاد کیا وہ پہلے تم کو یاد کر رہا تھا. تم نے جب محبت کی وہ تو وہی کر رہا تھا. جب تم نے دھوکہ کھایا. تو وہی خود کو دھوکہ دے رہا تھا اور تم نہیں وہ خود رو رہا ہے. تم اندازہ کر سکتی ہو وہ کس قدر ملال میں ہے
خدا نے آج سرگوشی کی ہے اور لرزش سے جان کنی کا عالم ہے میں نے اس عالم کو تخلیق جان لیا. مجھ میں میری تخلیق نے جنم لیا اور میں نے یہاں اسکو جنم دیا مگر میں کہاں سے لائ؟ یہ تو عدم سے آیا درد مجھ میں سما گیا اور میں نے بیخودی میں کہا تو تو تو
جب اس نے مجھ پر ہیبت طاری کی تو زوال شمس کی بات ہوئ. مجھے لگا غروب آفتاب ہے. اے دل! تم کو پتا کہ دل جب دل سے ملتا تو پگھل جاتا ہے مرا دل پگھل گیا یے
میں نے جلنا چھوڑ دیا اسنے جلانا کیونکہ شمع وجود کھو چکی ہے اب تو ودھوان ہے کیا جانو تم.دھواں کیسے بنتا ہے
اب شمع کہاں سے ڈھونڈے کوئ اور کس کو کہیے پروانہ بھی جل گیا اور شمع بھی نہ رہی. کس کو ڈھونڈ رہے تم دھواں ہے بس! بس دھواں! نہیں دنیا ہے! نہیں دھواں ہے! نہیں نہیِ محبت ہے! نہیں خیال ہے! نہیں وہم ہے
یہ درد ہے نا یہ چہرہ یار ہے اور چہرہ! اسکی تکریم نہ کرو گے تو کیسے پہچانو گے..جب درد کو جان لو اور دل سے لگالو تو فنا ہوجانا...تم بھی اے دل فنا ہو نا؟..؟بولو! تم کو بھی تو جدائ نے مار ڈالا یے
جب سرسبز پتے نے ہل ہل کے کہا کہو ھو تو یہ کہنے والی ذات کونسی تھی؟ جس نے اللہ کہا. اس نے ھو کہا. جس سے ھو کہا وہ چھپ گیا اور جس نے اللہ کہا وہ ظاہر گیا ... اللہ تم میں ظاہر ہے اور تم جان نہیں رہی...دل پگھل جانا ہے آنکھ نے پرشکوہ رہنا کہ درد کم ہے....یار. تم بہت پیاری ہو! اللہ نے تم کو حسین بنا دیا ہے. اوپر سے تم کو اپنا انرجی پوائنٹ بنا دیا. تم لعل ہو. اس لیے لعل کو لعل ملتی ہے. تم یا حسین کہو تاکہ لعلی ملے
ابھی جلوہ گاہ سے لوٹا تھا کہ کہیں سے صدا آئی، جوتے اتار دو! میں نے یہ آواز سُنی تو اَن سُنی دُنیا سے ہوئی!
جب دو ارواح قریب ہوتی ہیں تو وہ دو نہیں رہتیں. اک ہو جاتی ہیں. بس جو پاک حجرہ ہوتا ہے وہ نسبت بی بی مریم پاک سے ہوتا عیسوی قندیل کی مانند ہوتا ہے اور مادر مریم سلام کہتی ہیں کہ ان کا خمیر ہے جبکہ وہ سیدہ فاطمہ الزہرا کا خمیر ہیِں ..
واحد نے یہی بات بتائی. اے مرے دل تو قریب ہے تال ملا دوں؟ ساز بجادوں؟ رنگ لگادوں؟ سر نیا دوں؟ رقص کر، تری روح رقص میں ہے. رقص بھی اسکا ہے
یہ وحدت کی گھڑی ہے جس میں تمھارا چہرہ روشن ہے اور مجھ میں روشنی ہے. یہ تب و تاب لیے ہمارے رنگوں میں چھایا ہے دوئی سے خاتمے کا خمار ہے. وہ حرف اول ہے اور جب خواب میں جاؤ تو موت سے قبل وہی حرف آخر. وہ حرف باقی ہے اور اسکی کرسی مقرر ہے ترے دل میں. سنو دل!
سنو! جب کرسی مقرر ہو جائے تو الحی القیوم کی سمجھ آتی ہے. کرسی جلال والی مگر فنا کے بعد جمال والی. اللہ وہی ہے جو حیات ہے اور وہی قائم ہے اور میں نے قائم کیا ہے
یہ دنیا میرا کھیل تماشا ہے یہ میرا درک ہے یہ میری کہانی اور تو مرا کردار ہے میں مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہوں کہیں اندھیرا نہیں بس ترے گمان کا اندھیرا نہیں. کہیں صبح نہیں کہیں شام نہیں بس یہ کہانی لیل و نہار سے پرے یے جب شاہ والے شاہ کے قدموں میں ہوں گے