Thursday, November 19, 2020

مٹی ‏کے ‏پرندے ‏بناؤ

مٹی کے پرند بناؤ، ان کو اڑاؤ ـ یہ اڑان کی طاقت کس نے دی مٹی کو؟ مٹی خود بخود اڑی؟ یہ تو اڑان والے کی مرضی تھی مگر تم نے جانا کہ تم خود ہی اسکے حق دار ہو ـ ابھی سمت دی، ابھی خاک میں دفن کیا، ابھی زندہ کیا، ابھی تم روح ہو یعنی میرے قریب ہو ـ قریب یہی ہے کہ خیال ہو جاؤ اور خیال ہو کے مجھ میں سما جاؤ. سمائے تو پہلے ہو مگر احساس نہیں ملو ـ فرق نہیں ہے نا کبھی فرق تھا مگر نظر نے نظر سے ملاقات کرلی تو بات بڑی آسان ہو گئی کہ جیسا کہ اپنا ملا . بات کرکے چل دیا کہ یہی رشتہ تھا؟ یہ بتاؤ کہ محبت بس ملنا ملانا یے یا نبھانا ہے؟ یار نال نبھائی نہیں تے آس لائی ملن دی. کدھی ہاسے وچ روون والی شہنائی سنی؟ کدی سنیا یار نچ نچ کے مناون اوکھا؟ کدی سنیا کہ جو وہ ملے تو بسمل کے رقص میں لطف آنے لگتا کہ وہ پھر سے جی اٹھتا ہے ـ یہ دوری و قربت کیسے فاصلے ہیں؟ نہ وہ قریب یے نہ وہ دور بلکہ تو ہے اور ترے ہونے سے احساس یے. یہ محسوس کیا تو نے کبھی کہ خالق از روئے خلق ہے اور خلق از روئے خالق ہے ـ کثرت میں جلوہ ہے اور جلوے میں وحدت ہے. وحدہ لا شریک لہ کے نشانات ہیں جیسے راہی چلے زمینی نقوش آدمیت پر تو سراغ مل جاتا یے بلکہ اسی طرح ماورائے نشانات ہیں جو دل میں اتر جاتے ہیں دل میں اترنا گویا ذات کا اترنا یے. شام ہو یا رات ہو تو سمجھنا کہ خالق کے قریب ہونے کی دلیل یے ورنہ قربانی ہے وصل کی صبح کو. وجود کی قربانی یے روح کی یے، خواب کی یے، احساسات و ارمان کی ہے، خواہشات کی یے کہ غرض تو نہیں ہے اور وہ ہے جب وہ ہے تو تیری نہیں یے. جب وہ چلائے اپنی تو بات تیری ہوگی. اک رشتہ ہے خالق کا مخلوق سے کہ مخلوق کا آئنہ اک سے منعطف و منعکس ہو ریا یے. اللہ اکبر یا محمد بشر اکبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم. ان کی بات سے جب نفس کی بات نکل جائے تو بات چلتی ہے کہ فنا میں بقا ہے. بقا کے لاوازمات میں چلے چلو تو باقی تو اک ذات ہے ـاللہ لا الہ الا اللہ ھو الحی القیوم. ہمارے دل میں اس کے نشانات ہیں جن سے نور بہہ رہا ہے .یہ نہریں ہیں جن سے پانی مل رہا ہے انسان زندہ یے ان اعصابی ریشوں سے مگر ہم نے سوچا نہیں کہ وہ کہاں کہاں ہے. وہ ہمارے دل میں انا حق انا حق کی صدا لگاتا ہے مگر کہنے والا من الحق کہنے کی جرات نہ کرے کہ جو ایسا کیا تو فنا کی بات کرنے والے نے بھلا دیا کہ وہ تو انسان ہے وہ بشر ہے اور اوقات میں رہنا انسان کا پہلا فرض یے. کہو اللہ اکبر،  کہو اللہ ھو الحی القیوم. یہ کائنات اسکے اختیار کی کرسی ہے اور زمین پر چل رہا یے اسکا اقتدار جبکہ بندے سمجھ ریے ان کی بات چل رہی. سب اسکا خیال ہے اوڑ خیال مجسم یے. خیال نعمت ہے