راز حقیقت ''کن فیکون ''
جب لب ہلیں اور حرف واجب ہوجائیں تو تاثیر ختم ہوجاتی ہے ۔ احساس جس چڑیا کا نام ہے اس پرندے نے ہر ذی نفس کے جسم میں پھڑپھڑانا ہے ۔ جس طرح ہر ذی نفس نے ذائقہ الموت پہنچنا ہے اس کے لیے لازم ہے عہد الست کو یاد رکھے اور پنچھیوں کو اپنے آشیانوں کے بجائے درختوں کی شاخوں پر پڑاؤ کرنا پڑتا ہے ۔قانون قدرت ہے کہ ہجرت پرندوں کا مقدر ٹھہرتی مگر اس سے پہلے لازوال تمثیل ان کے روبرو ہوکے سارے غم غلط کر دیتی ہے ۔ تب خودی میں ڈوبنے والے ذات کا سراغ پانے کے بعد اپنی ذات سے مبراء محبوب کا کان ، ناک ، ہونٹ بن جاتے ہیں ان کے ہونٹوں سے ادا ہونے لفظ ، آنکھوں کی جنبش اور ہاتھوں کی لررزش مکمل ابلاغ کی حامل ہوتی ہے اور اس کو اپنے محبوب تک پہنچنی کے لیے فلک تا عرش کوئی راستہ نہیں روک سکتا ہے ۔ جب تری دعا، تری التجا اور مدعا محبوب تک ایسے پہنچنے لگے تو تجھے چاہیے کیا ِ؟ انسان کا کام ہے کہ ادھر ادھر چھپے مظاہر سے جستجو کا سفر جاری رکھے اور یہاں واں کھانے پینے سے زندگی کو دوام کہاں ملتا ہے ۔ مدام خوشی و ہجر اپنے وقت ء معین سے نکلتے رہتے ہیں مگر ان کے دائرے کبھی فضائے بسیط میں داخل ہو جائیں تو لامکان کی بلندیوں اور عرش کی حلقہ بندیوں میں چھپے اسرار عیاں ہونے لگتا ہے ۔ یہاں سے راز حقیقت ''کن فیکون '' اس تک پہنچنے لگتا ہے جس کا وعدہ بوقت تخلیق اللہ نے مشت ء خاک سے کیا تھا ۔ اس کے بعد نوازشات کی بے انتہا بارش سے انسان نہا جاتا ہے اور بعد اس کے ناشکری پر رب تعالی نے فرمایا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ِ؟ یہی پیغام اسی تحریر کے نہاں گوشوں سے نکلتا سرر و سحر کی کیفیتات کا موجب بنتا ہے اور بتاتا ہے آدم و حوا کی بنا کسی مقصد کے پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ آدم کی پسلی سے نکلنی والی حوا نے اسی کی نسل کو چلانے کا کام سر انجام دیا اور آدم کو بحثیت نائب روح انسانی پر تعینات کیا ہے ۔۔ قدرتی نظام انہی پنچھیوں سے چلتا ہے جن کے سردار انبیاء اور اولیاء ہیں جن کے کشف و کرامات کے قصے آج بھی انمول نقش رکھتے ہیں اور جو کہے کہ یہ تو قصہ ہیں وہ صرف حقیقت نہیں جانتے ہیں ۔ ان کو بس اپنی خودی چاہت مبتلا کرتی ہے ۔ انہی باتوں سے دور عشاق کا قافلہ اپنی علیحدہ درجہ بندہ کیے ہوئے ہیں اور یہی لوگ بالیقین منازل صراط عبور کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ان کے فرائض وقت بڑھاتا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ درجہ پانے والے بنتے جاتے ہیں ۔ نفس ملحمہ پر استوار روحیں جبروت ، ملکوت و لاہوت کی انتہا تک پہنچ مطمئنہ کی منزل قرار لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ اس سے اچھا اجر رب عالمین کے پاس سے کس کو مل سکتا ہے کہ رب اس کو محبوب رکھے جو اس کو محبوب رکھتا ہے اور جو اسکے محبوب کو محب جانتا ہے ۔وصل یار سے ہوتے نور کو پاتے عین العین کی منازل عبور کرنے والے ہوتے ہیں اور پھر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم اپنے
رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔
انسان کو اللہ تعالیٰ کبھی اپنی ہمت و استطاعت سے زیادہ نہیں آزماتا ہے ۔ جو جتنا برداشت کرتا ہے اس دنیا میں ، دوسرے جہاں میں صراط سے گُزرنا اتنا ہی قوی پاتا ہے ۔ دنیا آخرت پر مستوی ہے اور اس دنیا کا استوا ہمارا یقین ہے جو ہمیں آزمائشوں کے صراط سے نبرآزما ہونے کی توفیق دیتا ہے ۔ اس بات کی سمجھ کبھی نہیں آئی تھی کہ سب سے زیادہ برداشت اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کیوں کرنا پڑا اور صبر کی مثال جناب حضرت ایوب علیہ سلام سے کیوں مستعار لی جاتی ہے ۔ یہ دنیا ایک عالم ہے جہاں روحیں بستی ہیں اور روح بھی ایک خیال ہے اور خیال یعنی روح بھی اپنا عالم رکھتی ہے ۔ کوئی روحیں صرف شوق جستجو رکھتی ہے اور عشق کی آگ میں ابد تا ازل جلتی رہتی ہیں ۔ کاغذ چونکہ ایک خیال نہیں ہے اس لیے اس کی راکھ نظر آتی ہے اور روح چونکہ ایک خیال ہے اس لیے اس کا جلنا دکھتا نہیں اس کی راکھ بھی نہیں ہوتی مگر جلتی رہتی ہیں اور جتنے شوق سے جلتی ہے اسی لگن کا چراغ بنادی جاتی ہے ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بہت کم لوگ عشق کے لیے پیدا کیے گئے کہ جلنا ہر کسی کے بس کا بات نہیں مگر یہ بھی سچ ہے ہر روح جلتی ہے ، اس کی کاغذ کتنا بڑا ہے یا خیال جتنا بڑا ہوتا ہے ، اس کے مطابق جلتی ہے اور جو جلنا محسوس کرتی ہیں ان کو روشنی دے دی جاتی ہے ،ہم اس نبی کے امتی ہیں جن کو شوق کی پُھونک سے بنایا گیا ۔ ہمارا قافلہ عشاق کا قافلہ ہے جو جہاں سے چلا ہے وہیں سے اٹھے گا ، جو عشق دنیا رکھے گا وہ اس کو پا لے گا ، جو حدت جاوادانی کی شراب میں نشاط غم کے مزے لے گا ، اس کو شراب سے میخانہ بنا دیا جائے گا ۔ یہ تو اللہ کی عطا پر منحصر ہے کہ وہ کسی کو کیا بناتا ہے اور کس کو کتنا دیتا ہے اسکی دین کے مطابق ہمیں برداشت کی طاقت بھی مل جاتی ہے ۔