Thursday, November 19, 2020

مناجات


ہم مدینے میں جائیں گے واپس نہ آئیں گے 

جشن ولادت منائیں گے، نعت  سنائیں گے

در در پھرتے خاک ہوگئے ہم،  ملی رفعت نور
در اقدس چھوڑ کے اب کدھر کو جائیں گے

ہوّاؤ! جاؤ بتاؤ اک عاشق روتا ہے زار زار 
تڑپ بڑھتی جائے،  در پر کب بلائیں گے

آؤ!  نازِ حُسین سے سینے کو سجانے والو
شہِ کربل پاس قدموِِں کے بل جائیں گے

سینہ مدینہ بنتا ہے گہوارہ امن کو ہوتا ہے 
حاضری کو ہمیں شاہا بار بار بلائیں گے

زندگی نے قفس سے رہائی کی یاد دلائی ہے 
محشر تلک ہم انہی کو پکارے جائیں گے

 حال دل کس کو سنائیں شاہا کے ہوتے ہوئے 
سر بہ قدموں کے طیبہ جائیں روتے ہوئے
مقام دل جلوہ قائم دائم ہوگی حضوری 
دل کی گلیاں سجائیں اشکوں سے دھوتے ہوئے 
تاجدار وہ، غلام ہیں ہم، غلامی کی سند کو 
چوم چوم کے نہ رہ جائیں رات سوتے ہوئے

میری نسبت متعین ہوئی ہے زہرا کے قدموں سے
کیوں نہ ہم دھل جائیں قدموں میں ہوتے ہوئے 
ردائے فاطمہ سے نسبت نے داغ عصیاں دھوئے 
گنہ کیسے در دل کھٹکھٹائیں آپ کے ہوتے ہوئے

حال دل کہتے ہیں، شان زہرا علی کہتے ہیں، جبین جھکائی جاتی ہے رحمت کے دروازے کھلتے ہیں ....  رات کی جھولی میں ستارے چمکتے ہیِں، جگنو سجدہ کرتے ہیں ... طاہر طیب طائر ہوتے  ہیں   جبین کو جھکاٰئے چلے جارہے ہیں، نیاز والے ایسے چلتے ہیِں ... گل قدسی سے سیکھیں گے قدسی مہک، شجر ہلتے ہیں، پتے گرتے ہیِں جہاں پا مبارک زہرا کے پڑتے ہیں ...  رک رہا دل گرفتار ہے محبت میِں، شان میں کہہ لوں کہ کہیِں دم نکل نہ جائے عجلت میں     سرمہ ء عشق ملا دل کے لباس سے ظاہر ہوا نام فاطمہ .... تربت جسکی میعارِ حیا کا،  ایسی ہستی کی قربت میں ہم رہتے ہیِں  .. نور چل دھوون ہو جا ان کے قدموں کی، خزانے ملتے ان کے بندھن سے

 پنجتن سے درِ دل فیض عام ہوا
دُروں میں ذکر زہرا سے کام ہُوا

غیر آگے جھکا نَہیں، ابن  زہرا
کا تذکرہ ہر زمن میں عام ہوا

شہرِ دل میں مصطفوی چراغ سے
رگ رگ میں نور کا انتظام ہوا

حیدر کے ہوتے دشمن کہاں جاتا 
قلعہ خیبر یوں حلقہ ء اسلام ہوا

چل رَہی نسبت کوثر سے کائنات 
مداوا غم دل کا اک یہی جام ہوا

 نوید سحر کی ہے، سعید گھڑی ہے 
بسمل کے دم دم میں ذکر جلی ہے

تڑپ دیکھو مری پرواز کرنے والو 
اشک لَہو، فگار دل اور بے کلی ہے

درود پڑھتے پڑھتے نیند آئی تھی 
دل کے کاخ و کو صبا پھر چلی ہے

ہچکی بدن، لرزش پیہم،آمد شہا کو
شہر دل میں سجی ہر اک گلی ہے

کوئی دیکھے نگاہ لطف کے اسرار 
دعا ہے کس کی، جبین جھک چلی ہے

 چراغ کی تپش نے بے حال ہے کِیا 
صدائے علی نے کِیا،  کمال ہے کِیا

چَلو نَجف، دُھلے ہیں میل دل کے 
بَتائیں گی گَلیاں یہی سلام یے کِیا

کھڑے ہیں روضے میں، تھامی جالی
نہ پوچھ کیا پایا، بس خیال ہے کِیا

ہمی تھے، حلقہ نور تھا، طواف تھا 
یہ ناطہ چکروں میں  بحال ہے کِیا

اٹھے تھے ہاتھ جو دُعا کو، تڑپ تھی
سنی گئی،  اُسی نے شاملِ حال ہے کیا