Thursday, November 19, 2020

نشان

اللہ فرماتا ہے فلاں چیز میرا نشان ہے اور یہ میرا نشان ہے تو ظاہر کہ وہ کبھی ظاہر ہوا ہوتا ہے وہاں جیسا کوہ طور کی مثال آسانی سے سمجھائی جاسکتی ہے انسان کا دل کا قالب ایسا ہے وہ شہید ہے ہم مگر شاہد بنتے نہیں. سورہ حشر میں اللہ پاک اپنے لیے ھو الشہید کا لفظ فرماتا ہے میں نے یہ لفظ خود سے نہیں سوچا بلکہ غور نے اس درجہ کو فکر دی کہ وہ آپ میں شہید ہے مگر انسان کو وقعت اتنی بڑی دے دی اور انسان نے شہادت نہ دی. امام حسین نے شہادت دی تو کیسے مکمل نفی ہوگئی اور کہہ دیا یا اللہ میں شہید تو شاہد ...بس یہ ھو الشہید سے ھو الشاہد کا سفر ہے جسکو  ہم کلمہ کہتے ہیں لا الہ الا اللہ 
باطن میں نور ہے اس نور کی مثال سمجھیں شجر کی سی ہے قران پاک میں شجر زیتون کا ذکر ہے اور یہ زیتون کا درخت ملحم شدہ شاخوں سے منسلک ہے یہ الہام کی رم جھم ان شاخوں سے بمانند شبنم نمودار ہوتی ہے یہی عرش کا پانی ہے اس سے شجر کا وضو ہوتا ہے مگر اسکے لیے پاکی لازم یے نیت کی پاکی نیت بھی انسان کی خود کیساتھ ہے غرض انسان کی اپنے ساتھ ہے انسان کو خود کیساتھ خالص ہونا ہے خود اچھی سوچ کا عامل ہونا یہ زبان کے رٹے دل کی صفائی نہیں بلکہ عمل کا وظیفہ اصل طریقہ ہے جس سے سارے حجابات ہٹ جاتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے کہ منصور کہہ دیتے ہیں انالحق. وہ مجذوب تھے اس لیے جذب ہوگئے اس مقام میں. اب وہ کہتے رہے لوگ پتھر ماریں یا پھانسی دیں فرق کیا پڑتا سرمد کاشانی نے لا الہ کا ورد کیا الا اللہ ہو نہ سکا کہ اپنی نفی کے مقام کے مجذوب تھے مگر جب مرے تو شان خدا دیکھیے اثبات ہوگیا سر کٹا کے کلمہ پڑھنے والے سرمد کاشانی کیساتھ اللہ ہوا. اللہ نے ہمیں شعور دیا ہے خواہشات دیں اور ساتھ اپنا آپ دیا. تقدیر کے پہیے چلتے ہیں اور وہ ہمیں ارادہ ء کن سے نوازتا جاتا ہے ہم کہتے ہیں گھر بنالیا کیونکہ ارادہ تھا اور جادہ اس نے نہیِ ہم نے ارادہ سے بنایا اور یہ ارادہ یہ نیت یہ طاقت کہاں سے استعمال ہوئ باطن سے. باطن کی قوت سے خارج کے کام ہو جاتے مگر باطن کی قوت سے باطن کے کام مشکل لگتے ہیں دعا ہے کہ اللہ ہم.سب کو جذب حق عطا کرے وہی ہے جو نواز دے گدھے کو تو اسکی شان وہی جو شاہ کو گدھا کردے وہ یے جو چوڑے کو اختیار دے وہ ہی جو سالار کو بھکاری کردے ہم بس یہ کہتے رہیں نمی دانم نمی دانم نمی دانم حق گویم حق گویم حق گویم

زمانہ ‏تاجدار ‏مانتا ‏جسے ‏ہے ‏وہ ‏ہیں ‏علی ‏

زمانہ تاجدار مانتا  جسے ہے وہ ہیں علی
 بابِ علم ہیں، اماموں کے سردار ہیں علی 
انہیں کے نقش پر چلنا سنتِ دین ٹھہرا ہے 
ہماری سانسوں میں فقط علی کا پہرا ہے 
ہمارے دل کی چلمنوں کو ہٹا کے تو دیکھو 
یہ پردہ ء غیاب کا نعرہ ہے کہ سردار ہیًں علی 
قران ہے کلام اور یہ کرتا کس سے کلام ہے 
مرے علی کو شرف ہے ناطق قران ہیں علی

یا ‏زہرا ‏رض ‏

اسے ہے خواہش کہ پا لے ردائے محبت کو،
اسے ناز ہے کہ ملے گی مراد مدام شوق کو،

اک بات اہل چمن سنیں گے،  سنیں گے تو محبت پر یقین کرنے لگیں گے،  وہ حَیا کے مارے دل میں جھانکیں گے اور ہائیں گے کہ دل تو مجسمِ حَیا ہے.

ع: میں ہوں زَمین اور مطلَعِ انوار فاطــــــــمـــــہ  رضـــــــ

جب حَیا سے سامنا ہو تو نور کو کہنا چاہیے سلام!  سلام!  سلام!  جب سامنے ہو لفظِ فــــــاطــــــمہ رض، تو رقصِ قلم نو سے نکلیں گے ایسے بوٹے کہ فنا ہوجانا مقدر ٹھہرا 

طریقہ سوچیے کیا ہوگا؟ طریقہ ء وضو کیا ہوگا؟ طریقہ ء چشمِ نم کیا ہوگا؟ طریقہ بہ ہدایت کیا ہے؟ طریقہ تسلیم کیا ہوگا؟ طریقہ اطاعت کیا ہے؟

جوابا دل نے کہا محبت!  محبت!  محبت 

محبت کے داعی سے پوچھا میں نے کہ آسمانی جذبے کو زمین پے اتار دیا؟  
زمین تو بام فلک پہ ہوگی گویا!  
زمین کو اور کیا چاہیے ہوگا؟  

طریقہ وفا تو یہی ہے کہ جو وہ کہے وہ تو ہوجا 
وہ کہے پتھر ہوجا، تو کن سے کنم کا سفر ہوجا 
وہ کہے فلک پہ آجا تو بس فلک پر رسا نالہ ہوجا 
وہ کہے جانِ عندلیب ہو جا تو عندلیب کی جان ہو جا 
طریقہ کہتا ہے رقص کر تو بسمل کا رقص ہو جا 
طریقہ کہتا ہے کہ چراغ ہوجا، تو روشنی ہو جا 
اگر وہ کہے تو کیا ہے؟ کہہ دے نمی دانم کجا رفتم فنا گشتم 
اگر طریقہ کہے کہ فنائیت کیا ہے تو کہا تو ہے، نہیں ماسوا ترے 
طریقہ کہتا ہے شجر سے حجر میں چھپے اخفا راز کو دیکھ 
تو لفظ میم کی تسبیح ہوجا 
طریقہ کہتا ہے دیکھ بادل برستا ہے تو لفظ حـــــــ سے یــــا سے الــــف ہوجا 
طریقہ کہتا ہے حیا ہو جا تو عـین سے مـــــیم ہوجا 
طریقہ کہے کن  ---- کنم کنم در گدائی بہ فدا زہرا  

زہرا ----- زعشق فاطمہ دل فگارم است 
ایں نیستی بہ ہوش را -- دید کو می خواہد 
زہرا ------ جبین دل بہ نیاز مند، بہ چراغ کشتہ روشنی درکار 
زہرا -----  نے خرد سے بنے، کام عشق میں کارجہاں دراز است 

میں طریقہ ہوں میں سلیقہ ہوں 
مجھے جلایا گیا عشق میں 
مجھے رلایا گیا ہے پیار میں 
درد نے مجھے قوت اظہار دی 
حسن منم بہ عروج فلک است 
میں حاصلِ تمنا کا عین ہوں 
میں دید ہوں، رات کا چاند ہوں 
شکار ہوں،  اسکا شہکار ہو کے 

نذرانہ جب دیا جاتا ہے تو فتح مل جاتی ہے. پوچھیے فتح کیا ہے؟ بخدا قسم ذات کی جس کے قبضے میں مری جان ہے کہ کن کی طاقت مل جاتی جب فتح روح پر ہو.  "زیر "ہے انسان اور "زبر "ہوجاتا ہے.  "زیر سے "زبر "کا فرق جاننے والے کہہ دیتے ہیں نفس حجاب ہے بس وہ خود سے ہم کلام ہے وہ خود پکار رہا ہے،  وہ خود حسن کے شہہ کار پہ محو حیرت ہے. یہ میں اپنے پر خود حسن کی شیریں گفتگو نہیں کر رہی بلکہ وہ اپنی گفتگو خود کر رہا ہے. وہی ہے ہر جگہ. اے خدا ہماری روح کی "زیر "کو نفس پر "زبر " کردے آمین

یا ‏علی ‏، ‏یا ‏حسین ‏

کبھو تو چین آئے کبھی تو سر اٹھا کے چلیں 
کبھو تو ہم نہ رہے کوئ نہ رہے جو رہے وہ رہے 
وہ رہے تو سدا رہے یہ صدا کہ علی علی ہیں 
علی بڑے باکمال ہیں علی مرے لجپال ہیں 
علی سخیوں کے شاہ علی اماموں کے شہا 
علی علم کی زمین کا لا محیط آسمان ہیں 
گواہی علم کی ہیں وہ الواجد کا وجدان ہیں 
علی بہ راز نمی، علی مونسں دل خیر خواہ 
علی بہ حق روشنی کا جلال ہے وصل حال 
دما دم میں نعرہ لگتا رہے گا یہی علی علی 
دما دم میں توئی توئی کا آوازہ علی علی

حسین لعل یمنی،  حسین فرد آہنی ہے 
حسین حیدری جلال ہے مردِ آہنی ہے 
زمانہ کہتا خلیفہ انہیں ہے جنہوں نے 
سرکٹا کے خلافتِ زمن زمن چنی ہے 
وہ کربلا دلِ فگار لیے روتی رہی تھی 
زمین غازیوں سے شہید ہوتی رہی تھی
لہو جدھر جدھر گرا، تو کلمہ پڑھا گیا 
گواہی ذرے ذرے نے خدا کی دی تھی

خریدو ‏گے ‏مری ‏آنکھیں ‏

خَریدو گے مری آنکھیں؟ میں نے کَہا؟
یہ انمول آنکھیں کیا بیچنے کے لیے ہیں؟ 
یہ اتنی انمول ہیں کہ مول لگتا نہیں ہے 
لگا کہ مول کرنا کیا ہے؟ بے مایہ رہنے دو 

وہ کربلا کی زمین پہ کسی کو دیکھا گیا 
صبا کو قبورِ پاک گرد رقص میں دیکھاگیا 
حسینی ہوں میں یہ کہتے اسے سنا گیا ہے
مہک ہے عنبرین، مشک کی فضا کہا گیا ہے 
یہ دودِ ہستی حُسین ہے، یہ رشک باد ہے 
درود اس فضا پہ بارہا صبا نے بھیجا ہے 
بنامِ نور یہ درود کی مہک کربلا پہنچی 
مرے حُسین کو سلام کہتے شہید ہوئی 
ہے ناز ایں خاک بخشا نیستی کا لباس 
بہ فخرِ گردشِ گنبدِ سنہری رنگ خونین 
حصول عشق کی درسگاہ کا نسخہ ہوں 
میں کیمیا گری ہوں شہِ حسین کی 
منم چراغِ حسینی بہ نور لم یزل کی 

خریدار مل جائیں گے بُہت آنکھوں کے 
مگر نہ بیچو خزانہِ حسینی خواہی خواہی 
ذرہ ذرہ ہو مشکبار تو شکر گزاری سیکھ لو
کہ خاکِ اسفلی کو ملے کمالِ نور کا حال 
یہ عطیہ تحفتا دیا گیا، تحفتا دیا گیا ہے 

ہماری آنکھوں کے خریدار کربلا کے امام ہیں 
انہی سے مل رہے ہیں رنگ و نور کے جام ہیں 
انہی کے در پہ رکھ دی ہیں نَذر لے لیں گے 
عوض اسی جلوہ مستقل کے، جو موت دے

متلاشی ‏کی ‏تلاش ‏نمبر ‏۱

متلاشی کی تلاش نمبر۱

اللہ کا وُجود ڈھونڈنے والے جانے کس کس جگہ نہیں ڈھونڈتے اسکو ...قبل اس کے وہ عالم "لا " میں محیط ہوتا ہے مگر کہ اک کلی دل میں کھل جاتی ہے. اسکی خوشبو پھیلنے لگتی ہے .... اک جہان، نَہیں بشر کا کوئی نشان ..وُہی، وُہی تو ہر جا، ہر سُو ہے کہ دیوانہ بیٹھا یک ٹک، یک سو ہے ...اللہ ھو یا لطیف! نور کا کھلی آنکھ سے مشاہدہ کیا جائے تو باریکیاں اپنے فنِ دسترس کو تھما کے اوج ابد کی جانب گامزن اور دل سے نغمہ یوں نکلتا ہے 

یہ جہاں رنگ و بو ترا نور 
ہر کلی تیری یاد میں  مخمور

پروانے طواف میں رہتے ہیں .دیوانے یاد میں رہتے ہیں ..کوئل جب نغمہ بکھیرتی ہے ،خوشبو، صبا اور پتے پتے میں یا ھو کی صدا ہے .جب سب خاموشی سے دیکھے جاؤ تو خامشی میں ہم کلام ہونا ہوتا ہے. خالی پن کو اک صدا سے بھرنا ہوتا ہے ...انسان چاہے نا چاہے مگر فنا نَہ ہو سکے کہ ہوا تو وہ فنا ہی ہے ...

فنائیت  سے قبل اَدب ضروری تھا 
کہ امتحان کو سجدہ ضروی تھا 
محمد تکوینِ عالم کائنات ہیں 
محمد رسالتِ دل پر تعینات ہیں 
فاطمہ بنت محمد، زوجہِ علی 
فاطمہ کے دم سے کلی ہے کھلی 
فاطمہ آیت العلی،  آیت جلی بھی
فاطمہ کوثر کی جاری نہر ہیں 
علم کی سلاسل میں مرکزِ جلی 
صدیقِ اکبر مجذوبِ عشق ہیں 
صدیقِ اکبر میں نقشِ محمد ہے 
صدیقِ اکبر حق کی تلاوت ہیں 
یارِ غار،  جبل النور میں مقیم 
یارِ غار،  دیتے جائیں، دلنواز ہیں 
یارِ غار، عشق کے سپہ سالار ہیں 
امیرِ حیدر کی غنائی چادر ہے 
براق کو تھامے، ہیئت جلالی ہے 
امیرِ حیدر عشق میں کمالی ہیں 
امیرِ حیدر کی سیرت مثالی ہے 
امیر حیدر جلال کی آیت کا مرقع
امیر حیدر جمال کی آیت سے مزین

ثانی ‏ء ‏حیدر ‏شاہ ‏جلال ‏سرخ ‏پوش ‏بخاری ‏رح

شاہِ جَلال سُرخ پوش ثانی ء حیدر کَرار سے مل رہے ہیں اشک کے وظائف!  بڑے دل سے ملا ہے اک ذرے کو،  ذرہ ء خاکِ ناسوت کب معرفتِ شاہِ سرخ جلال الدین کی کَر پائے ہے، یہ نامِ حُسین جو چرخِ زمن پہ روشن ہے، اسی لعل کے لال ہے مخدوم جَہانیاں جَہاں گشت!  

شاہِ جَلال سرخ نگینہ ہیں ، شاہ جَلال لعلِ یمنی ہیں،  یہ ضوئے حُسین! یہ بوئے حیدری!  زمین پہ موتیا کی خوشبو سے ہوا اوج چمن کو نکھار، یہ بہاراں ہے! یہ نظارا ہے!  یہ.راز برگ گل و سمن ہے!  یہ راز نہاں یے کہ.عیاں ہے اک راز! بس راز خفتہ کو ظاہر پایا ہے کون جانے کون جانے کون جانے بس رب جانے بس رب جانے

تَڑپ سے آدم کو مِلا قَرار کیسے؟ منتہائے اوج جستجو پے وجہ تخلیق بشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے رشنائی پائی!  نہ ہوتے آدم تو میرا جُرم جَفا، کیسے ٹھکانا پاتا؟  
مجھ کو آسر جد سے ہُوا، خطاوار کو ملتی.رضا ہے
یہ ہاشمی قبا ہے، جو سر پر رِدا ہے، یہ حَیا سے وفا ہے 
کون جانے کس کی لگن میں آس کے سوت کتن جاوے مری روح!  جو جانڑے،  وہ حال دل سے باخبر ہیں مگر مخبر اپنے دل کو راز نہاں سے عیاں سے کہاں تلک کی رسائ سمجھ  لگے، کریم ان کی صدا ہے


لفظ خالی، جام خالی،  سب ہے خالی، دل بھی خالی، مندر من میں سمائی اک صورت --- ھو 
جیہڑی صورت نال ملے تے تار وجدی دے -- ھو 
میں ناہی، اوہی کہندا رہندا اے --- تو ہے جا بَجا 
کنجر دے دل وچ دیون بلدے ویکھے 
ملاں نوں سیاہی پھڑے مکداویکھے 
کج مینوں پلے نہ پَیا اس دنیا دے چکراں اچ 
چکر پڑن تے بی بی جیواندی سانوں یاد آون 
شاہ جلال دے فقیر نوں ملیا فقیری رنگ 
شاہ جَلال نے دیا سانوں کاسہ ء نور 
جیہڑی خوشو نے کیتا من مخمور 
مکان وچ ---لامکانی دا نوا سویرا -- ھو 
مقامِ دل میں جناب سیدہ زہرا رض کا پہرا 
مہجوری ہے!مجبوری ہے!رمز کیا رکھی ہے!
پی رکھی ہے!، نَہیں پلا دی گئی یے!
راج جنہاں دے ہے راجدھانی خدا وچ 
کون میں؟  بس اوہی چار چفیرے بانگاں مارے --- ھو 

کَریم نے جام سے نوازا 
گدائی کا مل گیا ہے کاسا 
میں شناسا سے ملن چلی 
شناسا من دیپ اچ ہے 
ملن دے گھڑی اچ ملن دی مثال نہ لبھے 
جیوں اس دی خدائ اچ میں نہ لبھاں 
اوہدی رمز انوکھی اے 
دنیا دی مشقت چوکھی ہے 
چلہا پھونک دل نوں جلایا 
من دی بھٹی اچ فرقت نوں پکایا 
فراق نے کیتا سانوں لال و لال 
لعل دی لالی وچ ملیا نگینہ ء یاقوت 
یا حسین کہندے رکھیا دل نوں قنوت 
قبور پہ حاضری ہے اٹھیں گے طیور 
حاضری ہے!  یہ حاضر ہے طائر بہ سوار 
کمال نے رکھی اسکی خوب مثال 
یہ دل مرا ان کی طاق میں جلا ہے 
مجھے شہ کے سوا کون ملا ہے 
شہ عرب کی مہک سے بنا دل مخمور 
دل میں وَجد سے وجدانی لہر کا ظہور 
اللہ اللہ اللہ رے - آنکھیں ہیں پرنور 
یہ جلوہ ء طور ہے،  یہ شمع کافور 
یہ ہادی سے ولایت، یہ ہے  امانت 
یہ نماز وفور ہے،  درد ضرور ہے 
دل مرا مجبور ہے دل مخمور یے
دل کافی ہے جس درد میں شفا ہے 
دل بہ مانند ادعامنظورِ دعا ہے 
دل کو ملا ہے سندیسیہ اک 
چراغِ حُسینی ہے کوئ کہاں 
یہ دل بہ لب موہوم سی دعا 
ان کے در پہ کھڑا ہے کوئی 
دست مقبول دعا کا ساتھ ہے 
میں نے پیش کیا نذرانہ 

یاحسین کہنے سے دل کہاں رکے گا 
یا حسین کہنے سے رات کب گئی ہے 
یا حسین کہنے سے حسن بڑھا ہے 
یا حسین کہنے سے لگن مگن ہوئی 
یا حسین کہنے سے سجن ملن ---- ھو 
یا حسین کہنے سے جلال کا رنگ 
یا حسین کہنے سے حال ہے سنگ 
یا حسین کہنے سے مجال کو زنگ 
یا حسین کہنے سے خیال بہ رنگ 
یا حسین کہنے سے جوت کی اٹھن -- ھو 
یا حسین کہنے سے سوت مرا کتن ----ھو 
یا حسین کہنے سے موت بہ حق --- ھو 
یا حسین کہنے سے پروازِ  گگن ----- ھو 

موجہ  ء صبا نے سلام کیا، کہا یا حسین!  خدا کا عین جلال!  علی حیدر کرار رض کے شہسوار،   رنگ لایا گیا، نور سمایا گیا،  کبریاء جاناں دل میں، میں رنگ نشاط سے شاہی کا سوار ہوں، میں کعبہ ء دل میں حجازی لگن میں مگن اک سگ!




اجنبی ‏سرزمین ‏

اک اجنبی سرزمین میں ہوں، میں کہاں ہوں یہ کس کو خبر ہے! بس سرِ نہاں میں لا الہ الا اللہ کی تار نے نغمہ ء آہو کو ھو میں بدل دیا ہے، مرے شجر سے بس حیا کی ردا عکس وفا بن کے ظاہر ہے، میں لب کشائی کیسے کروں!  وفا کی عین تصویر وہ قندیل منور ہوگئی طاق دل میں ستارہ ء سحری بن کے جیسے قسم کھائی ہو کسی نے روشن ستارے کی!  دل میں سے صد اٹھے کہ ماھو میں کہوں لا -- ھو کیسا عجب سوال جواب جو خاموشی میں سکوت نے دیا،  لاج نے ساز کو بجایا ہے کہ وہ صدا نکلی کہ عش عش کر اٹھی رگ رگ 
یہ رگ رگ کا پیغام ہے 
یہ ماہ صیام انعام یے 
یہ راز کا فقدان نہیں 
یہ لاج کا امکان  ہے 
یہ سرمہ ء خاک نجف 
مرا دل بَنا حرم ِ نجف 
صبا زلف اطہر کو چوئے 
میں نازم کہ.پایا شرف 
یہ ہجر میں رنگن  لائے 
یہ وصلت میں مگن کون 
یہ دیپ جو ستار کے ہیں 
یہی ساز دل کو بجا رہے 
میں سرراز الفت کا نشان 
میں نہاں آیت ہے عیاں 
شاہد سے شہید کا سفر 
میرے دل نے کیا ردِ کفر 
دل میں اخبار لگے ہیں 
کوچہ اشتہار ہے عشق 
عشق نے مورارنگ دیا 
یہ لفظوں سے دھواں 
مہک میں ہے رواں وراں

دل ‏والے ‏حاضرین ‏سنو

دل والے حاضرین!  سُنو!  اللہ کی ضرب سے ھو دکھتی ہے! جسکو ھو کا یقین مل جائے تو وہ ریت کے ذرے کی حرکت میں اللہ اللہ کا ورد پا لے گا، وہ پھوٹتی کونپل میں الا اللہ کا ورد پائے گا، جب کونپل نے کہا "میں نہیں تو ہے، تو کونپل پھول بن گئی،  تو دیکھے تناور درخت، کہتا ہے "میں نہیں، تو ہے " ..... سمندر کا فشار دیکھا ہے؟  دیکھو تو!  بولو تو!  کس سے؟  سمندر سے!  سمندر کے شور میں اللہ اللہ کی صدا ہے اور جب اس کی لہریں خاموش ہوتی ہیں تو "ھو ھو "ہوتی ہء
شور اور خاموشی کا فرق ہے، اللہ اللہ کرنے والا ہمیشہ خاموش ہوجاتا ہے، ہر جانب ھو ہے!

دل کہتا ہے لکھ، پر سوچ رہی ہوں محورِ عشق میں نقطہ کیا ہے؟ نقطہ الف کے گرد گھوم رہا ہے اور میم کا سرمہ وجدانی ہے!  عشق سے پوچھا میں نے "تیغ دل میں اتری؟ " جوابا خامشی کے لمحات نے صدیوں کا ناطہ توڑ دیا .....بولا  اللہ کی صدا کا ھو سے کیا رشتہ ہے؟  کیا فرق ہے جب الف نکال دی جائے، للہ .... اللہ کے لیے، اللہ باقی رہ جاتا ہے ..... لام نکال دو .... لہ ... لا نہیں مگر ھو .... تو الف سے چل اور ھو تک آ ... فرق میں نے کہا وہ موجود ہے ... روح بولے .... اللہ ....دل بولے ...ھو!  روح نے اقرار کیا، دل نے اسکو دیکھا، ثابت کیا اور یقین کیا ....

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 

اللہ ہمارے خیال میں بستا ہے!  خیال تو قلب کی تہہ فواد میں چھپا ہے!  جب تک قلب میں ھو کا ساز نہ بجے!  وہ ملتا نَہیں!  دل کی تہہ میں بس ھو ہے!  قلب میں بس "لہ " ہے سینے میں للہ ہے اور سانس آنے میں اللہ ..... اللہ ہمارے مقامات سر سے سینے میں حرف راز چھوڑے جارہا ہے!  جب فواد میں یہ ذکر جاتا ہے تو، فواد چار سو دیکھتا ہے اسکو فلک میں وہ دکھتا ہے، فواد کہتا ہے "ھو " ...... جب زمین کی ہستی میں جھانکتا اپنا نشان ڈھونڈتا ہے، تو جانتا بس "وہی ہے " 

میں اپنے نشان ڈھونڈنے نکلا 
اپنے پردے میں تو عیاں نکلا 
زمین و فلک گورکھ دھندہ ہے 
خاک بس جھوٹ کا پلندہ ہے 
سچ سُچّا تری، مری صورت ہے
مری صورت؟ نہیں تری صورت
مصور  شاہکار بناتا رہتا ہے!!! 
تصویر کمال میں کرسی ءحال ہے
الحی القیوم کی پہچان کر لے
وجود سے لا،  وجود سے وہ ثابت
تو ہو جا صامت، وہ ہے قائم 
اس کے قیام میں نور النور ہے 
اس کی بات ہے، یہ مری بات ہے؟
رات ہے؟  نہیں رات ماہتاب ہے

کعبے کو چلیں؟  دل میں اک کعبہ ہے جس سے نور کی شعاعیں فلک تک جا رہیں!  قندیل روشن ہے!  قندیل میں طاہر،  مطہر، منور، مجلی نور ہے! عشق مخمور ہے!  عشق میں ھو کا ظہور ہے!  اے کعبہ ء عشق! چل نماز عشق ادا کریں!  طوف حرم میں محجوب ہے وہ، چل کالا کپڑا ہٹا دیں!  ....کالا کپڑا ھو ہے! باقی عالم رنگ و بو ہے

دوست ‏نے ‏چھیڑا ‏راگ

دوست نے چھیڑا ہے راگ،  کردی ہم سے ساز باز، نم آنکھ سے کُھلا راز، ہم نہیں تھے، وہ تھا پاس پاس. رُلا ڈالا یار نے ہمیں جان لیا کہ راز میں راز رہا تھا. --------------

 شمع سے نروان لینے چلو، چلو نروان مہنگا ہوجانا!  اٹھو!  اٹھو!  اٹھو کہ مندر سونا نہیں ہے!  اٹھو --------  وہ ہماری رگ رگ میں پکار رہا ہے کہ شام الوہی الوہی ہے

رات کا سونا پن کس نے دیکھا تھا رات چلی محبوب کے پاس، ---------محبوب نے جان لے لی کہ جان تو باقی تھی. جب قطرہ قطرہ نیچے گرا تو کہا تھا

اشھد ان لا الہ الا اللہ

حق کی شہادت تھی، وہی لگا ادھر ادھر ...حق نے آواز لگائی------------ ..سن!  من نے کہا کہ  کس نے کہا،------- سن!  یہ زمین ہلتے ہلتے بولی کہ سن!  یہ جو مٹی ہے بکھر کہ کہہ رہی سن!  یہ جو کاسنی بیلیں ہیں، لہر لہر کہ لہکتے کہہ رہی ہیں سن!  سن!  سن !

ارے ہم کیا سنیں ریں!  بتا تو سہی!  کیا سنائی دیا نہٰیں کہ حق جلال میں ہے!  حق نے کہا تھا ساز الوہی یے! حق نے کہا تھا چشمہ الوہی ہے حق نے کہا تھا عشق کی لا ضروری ہے
تب سے ہم نے  کب تھا مڑ کے پیچھے دیکھا!  

جا کے بیٹھ گئے اس کے در پر!  درد درِ اقدس پہ بَہائیے....... کیونکہ حق تو ہی تھا درد،  درد نے ہم کو حق کی گواہی سے ملا دیا. خون کا قطرہ قطرہ شہادت سے شاہد ہوا ..حق میں صامت ہوا

یہ کیا کیا ہے!  یہ ہم کس نگر چل دیے ہیں!  یہ سازش کس ستار کی ہے!  یہ آگ آگ سی ہے جو ہم نے ہاتھ میں اٹھا رکھی یے!  یہ کشتی کیا ہے جو چل رہی اور اسکا سفینہ فلک تک چلا گیا گویا فلک خود زمین پہ آگیا ہے

عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت کا حال ہے 
عشق سرمہ ء وصال ہے 
عشق کے بازی کھیلو یم.سے

ہم.تو عشق کی لاگت میں مورے نین سے نیناں ملائے کھڑی رے!  عشق کی لاگی نے بجھائی نہ آگ،  جلا ڈالا جنگل سارا ..ہائے!  یہ ہوا حال کا حال! کمال چھاگیا ہے!  حال آگیا

ہم تو مجنون تو تھے نا رے!  ہم تو لیلی کی مانند حسن میں شامل تھے!  اب ہم کہ فنائے حال میں کمال کو ہے! جوگی کو دیکھے کون؟ جوگن دیکھو سارے!  لوگ لوگ گئے شہر شہر بھاگن!  دیکھن کہ سبز سبز مور سے کیا ہے لاگن!  ہائے لگن کی چنز نے مار ڈالا ...مار ڈالا

ہم تو مرگئے!  ہم تو فنا ہوئے رہے!  چاہے لگن میں سایہ افگن وہ بالِ میم سے آشنائی کس فلک کی جانب گامزن کردے

. ہم کو چاہت کے الوہی راگوں میں مگن کرنے والے پیا!  آجا!  دل میں سما جا!  آجا ہم سے نین ملا نا!  نین کی بازی کھیل نا!  ہم تجھ کو تو ہم کو دیکھ  کے جی لیں نا!  آ ہم سے کھیل!  یہ ہماری شوخ نگاہ ہے کہیں کھیل میں آگ پھیل نہ جائے!  جل جائے رے تو!  ہمارا من ہے تو!  ہماری آس میں جانے کس کس نے دیے توڑ دیے اور ہم نے تجھ کو اپنا دیا بنا دجا
 
خوشبو جلنے لگی ہے!  اووووو خوشبو پھیل رہی ہے

مدھم مدھم سی خوشبو نے سرمیٰ حال کردیا یے!  کاشانہ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیام سے کمال کی جانب اترنے والے الہام سے پوچھو کہ کس جانب جانا ہے اب تو طیبہ والے بھی منتظر ہے کہ سوار کو سواری مل چکی ہے!  یقین کی کونسی منزل ہے جس کے سب گمان حق میں بدل رہے 

جھکاؤ نظریں سب!  ادب!  ادب!  ادب!  درود!  درود!  درود!  حد ادب!  سرکار کا جلوہ ہے!  درود حال دل میں مقیم عالی پناہ ہستی پر  ...حق درود کی واج سنو ..نئی منزل کا آغاز سنو!  شام سے رات کی مثال سنو!  اختلاف لیل نہار سے وصل و ہجر کے بار سنو!  خاموش!  حد ادب!  ذی پناہ موجود دل میں!

کیسی گواہی چاہیے تھی!
الوہی ذات سے منسلک چشمے ہیں سارے ...
کوثر سے منسلک ہیں پیارے ..
یہ جو کعبہ دل میں ہے اب یہ منبر بنے گا 
یہ جو حرا کی شام ہے، رات میں ڈھلے گی 
یہ جو نوح کا قصہ، اک نئے آغاز میں ملے گا 
یہ جو ماتھے پہ نور کا نشان ہے، یہی حق کی گواہی ہے 
حق کی گواہی ہماری گواہی ہے
کاتب دل  کو اور کیا چاہیے؟
یہ فیض نور سے جاری چشمے ہیں ..
نور ہم سے منسلک اک ایسا چشمہ ہے، جو ہمارے نگاہ میں شامل رہتے کاملیت پہ گامزن ہے ..
اور کیا چاہیے ...

حد ادب!  بندگی میں سرجھکا رہا!  بندی غلام! شکرانے کے نفل ادا کرے گی!  حبیب نے کیسے یاد کیا ہمیں!  زہے نصیب!  زہے نصیب!  زہے نصیب!

نیلم کی کان ہی تمھاری ہے، کان کنی تم نے خود کرنی ہے!  ہم نے تم کو ایسے جبل کے لیے منتخب کیا ہے!  یہ تمھارا دل ہے جو نیلا ہے! اس کو سرخ ہم کریں گے!  حسینی لعلوں سے ...
رکوع!  رکوع!  رکوع ...
آقا جاتے ہیں .. آقا جاتے ہیں!  آقا جاتے ہیں ...
سر نہ اٹھے، مقام ادب ہے!  سر نہ اٹھے!  نہ نہ ...خاموش ...درود!  حد ادب!  خاموش!  درود!  دل کا جلا ہے،  یہ رات کا ڈھلا ہے، یہ شامی لباس ہے، یہ خونین پوشاک ہے!  یہ حسن کی یلغار ہے،  یہ روشنی کے لیل و نہاز ہے! یہ مصر کا نیل ہے،  یہ احرام دل میں آیت مقدس کی تلاوت ہے، دل صامت ہے، روح کو چاہیے لباس برہنگی، رکھ لے آس کی تلوار ننگی، شام سلونی ہے، رات نورانی ہے اور جھک کہ کہہ رہے 
.

رنگ لگا دے اور 
چنر پہنا دے اور
دل کا وضو کرایا 
جلوہ کرادے اور.
چنر کی لاگن ہے 
دل دیاں صداواں 
آجا ماہی، بے کول 
دل مرا وڈا انمول 
ساڈا دل رولیا گیا
آہاں وچ تولیا گیا 
فر تو ایڈ اچ آیا 
ھو دا ساز وجایا 
وجی تری ھو دی تار
الف دی گل کریندے آں
شام سلونی ویندے آں
ساڈا پیر مصطفی سائیں 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
وزیر جس دا علی سائیں 
مورا رنگ اچ تُواِں ویکھن

ماہی نے تماشا لایا اے،کنگنا پایا سی، لہو گرمایا سی ---ام سلونی سی، اکھ من موہنی.سی، اکھ ہن رکھ میڈےتے،ویکھدا رے میڈا رقص، ہر حرف اچ علی دا عکس،ہر صدا وچ ھو دی سج دھج
ہر رنگ میڈا محمد کریندا اے،جوگن کیتا مینوں تیڈے عشق نے

کنگنا پایا سی،
شہنائ وجی.سی
رات لگی سی 
شام کتھی گئ 
الف اللہ دی آئ 
ایہہ ساڈی کمائ
لائ وی گئی اے
نبھائ وی گئ اے

دل کا حال تجھ کو بتاتے ہیں ،راز سر تا دل تجھ کو بتاتے ہیں، سِر نہاں!  تہہِ جامہِ دل پنہاں!  تو .... تو ... تو ...گُم ہوتی ذات میں موج کی صدا میں تو،  دریا تو! بحر تو! نمی نمی!  بوند بوند دل پہ گرے! بوند کی صدا میں تم! شبنم نے ہرا گھاس تازہ کردیا!  تازہ تازہ شبنم میں تو! میرا عشق! 

میرا ستار!  اللہ ھو!
میرا قہار!  اللہ ھو 
میرا قدسی!  اللہ ھو!
میرا سامع!  اللہ ھو 
میرا قاری!  اللہ ھو!
میرا ہادی!  اللہ ھو!
میرا مسجود!  اللہ ھو!
میرا قبلہ!  اللہ ھو!
میرا نور!  اللہ ھو!

 
عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت

اللہ ‏اکبر ‏جمعہ ‏مبارک ‏

اللہ اکبر 
جمعہ مبارک 
سیاہی دوات مبارک!  
زندگی کی رات مبارک!  
انسان کو انسانیت مبارک!  
راج میں تاج مبارک 
اشجار کو ھو مبارک 
طائر کہیں "تو "مبارک 
سپاہی کو تلوار ھو مبارک 
چشم نم کو الہیات مبارک 

جمعہ مبارک! جمعہ مبارک!  جمعہ.مبارک!

یہ سندیسہ مل جاتاہے گفتگو کو ہنر مبارک!  واجد کو تحریر مبارک!  جمعہ کی ساعت شروع ہوتی ہے اندھیرے میں اجالے سے!  اس دن کو نسبت ہم مسلمین دیتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  تو ہم کو نسبت ِ دن مبارک 
درود!  
ان گنت درود!  
کیوں بھیجیں حساب سے درود 
دیا جب جاتا ہے بے حساب 
کیوں شمار کریں ہم گھڑیاں 
گھڑیوں میں ہوجاؤں مشہود 
گہرائیوں میں جھانکے جائیں 
گہرائی میں متحرک اسم غنود 
تجلیات سے بحر کا آیا وجود 
ستم کو جلا دل بنا بے حدود 
رگ دل کٹ کے ہوئی لا محدود 
منزل غنا سے فنا کی تیاری ہے 
یہ زندگی ہماری ہے! ہماری ہے



منم ‏فدایم ‏

منم فدایم درِ علی گدایم --- بَہ نگاہِ عَلی طواف اُو کردم --- 

یا علی یا علی یا علی 

نـــعرہ ء علی لگاکے دیکھو --- دل بہ لبِ زبان ہلا کے دیکھو ..

دل کے دالان میں نقش علی سے بات کر - دل سے دل نے کہا ڈوب جا- دل ڈوب گیا اور ظاہر ذات علی ہُوئی .. خود کلامی میں دو کو پایا تو رازِ خفی-- سرِ نہاں  پایا 

خامشی کا صیغہ ساتھ رکھ --- محو ہو -- تماشائی ہو، زبانِ دل میں نغمہ سن سنا -- طیور کو بخشا جاتا ہے میخانہ 

ووھبت!  ھنالکم ابتلی کے بعد! نواز کے خزانے میں جلِ جلالہ علی کی ذات میں گم - من نفی شد - تو ظاہر شد - خیال کیست؟  خیال نیست!  جب گمشدہ ہو، فنا ہو جاؤ تو کہہ دو 

علی علی علی علی علی علی علی علی علی 

دل چیر دے گا نعرہ- شگاف میں درز درز کی نکلی روشنی کی صدا یاحیدر یاحسین!  امامِ حسین یا علی اکبر سلام شوق کو منظور کرلیجیے 

کما کان اھبت؟  ووحیت لک 

سجا لیے گھنگھرو پیروں میں -- لعل سجا کے دل میں پائے دل کو لعل لال کرکے کہا یاحسین ابن علی سلام -- یا حسین ابن علی سلام 

یا شامِ صبح یا مولودِ حرم  --- دلم فگارم این درد کرارِ ثانی 

جلال.الدین شاہ سرخ بخاری حیدر ثانی کو سلام 
باد صبا کیے جائے ان سے کلام 
مرا ان سے بس یہی ہے اک کام 
کروں اظہار صبح شام بے نیام 
مل جائے گی وصلت ماہِ صیام 

باد کرتی ہے ان سے کلام- سگ کوئے یاراں بہ ہوشِ کلام -- منم محو شیدایم ایں در فدایم --- نظرکرم دلِ شکستہ کردہ است -- مست ولائے حیدرم دم ہما ہم یا علی 

توری پریتم میں نگاہ گم ہوئی - مورا سنگیتم توئی - تو جس جانب فکر لیے چل - اسی جانب دل بہ قدم پا بن کے چلے -- اندر جنگل میں مئے ناب میں صدائے فگارم سنو گے؟  اک کیساتھ اک کا راز سنو گے؟ جذبات کا اظہار سنو گے؟ کمالِ اطراف میں اترا جمال دیکھو گے؟ روشنی کے ہالے میں جمال مصطفائی صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو گے؟  سوچو کہ کہاں ہو؟  سوچو کہ کس مکان میں ہو؟  سوچو کہ تم لامکان میں ہو سوچو کہ زمان سے پرے ہو * سوچو کہ دم دم میں وہی صدا ہے - علی علی - مری زمین کا آسمان علی ہیں --* نگاہ کی بات ہے نگاہ میں نہیں ہے--- جہاں میں ہوں وہ جہاں نہیں ہے - رگ الفت چھڑ گئ - حرکت دل میں اتر گئی ہے -- شام سلونی سج گئی ہے - رات کفن باندھے کھڑے کہ صبح نہ ہونے دے گی --

درود



کتنا بھیجیں اور نہ ہو مکمل درود 
کتنی کریں تکریم نہ ہو مکمل سجود 
کتنا تڑپیں مگر ٹوٹیں نہ قیود 
رقص بسمل ہوگا ٹوٹیں گی حدود 



فرشتے ــ ملائک ـــ روح ـــ کروبیان ــــ بھیج رہے درود ... 
رب بھی ہے محوِ ثناء اور بندے ہیں مانند شہود ـــ اے دِل!  لیے.چل موجہء صبا کی مانند اور چھونے دے رنگِ چمن و نقش!  ہم.جبین جہاں قدم رکھیں گے،  وہاں وہاں بھیجیں گے درود ـــ بندہ جان لے راز تو ہے لامحدود ــ قرب تمنا کی اور تمنا میں قرب ...لذت مرگ کو دیتے ہیں وجود ... لباس فراق کو جامہ.ء موم دے کے شمع کی برق سے جلتے ہیں اور دیتے ہیں زمانے کو اسمِ محمد صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم.کا.دود ..پیشِ حضور ہوں.گے ہمارے نعتیہ ترانے اور.قبول.ہوگا سلام!  غلامی کو.چاہیے ماسوا کہ.لکھوں.ثنائے اسمِ موجود ..قاری.سے پوچھ! .قران.پورا ہے ثنائے محمد صلی اللہ علیہ.والہ وسلم! .کہیں.دلنشین،  کہیں.دلربا،  کہیں مصحف کے حامل کے پاکیزہ ترین انسان 
.. اللہ.سے پوچھو ورنہ.اللہ.پوچھے گا.کہ اللہ نے کیا. نہ.بھیجا.درود

سادات ـــ سیدہ فاطمہ ـــ نوری ہالہ ـــ اسم حال میں کہاں ہے مجال کہ کرے قال قال ـــ رنگ سنہری ہو رنگ جامنی.ہو کہ نیلا..سب کا اک.رنگ ہے ـــ سپیدی کا رنگ ــــ سفید رنگ بیداغ ـــ داغِ دل.سے ہوا یہ دل.پارہ.پارہ!  پارے میں نکلے مے و خم کے..نشان ..نشان.اور بے حجاب!

درود ـــ درود ـــ امامِ علی ــ رضی تعالی عنہ پر ـــ قائمِ مقام اعلیجناب پر ـــ مطہر جلال سے بھرپور عین اللہ.ـــ وجہ اللہ.ـــ شمس کی ماہتابی لیے ـــ میان دل میں الہیات کے جامے پہنے ـــ ناطقِ قران ـــ حادث میں ــ قدامت کے نور کو.سلام!  فتح مبین.کی صورت فاتح خیبر بنے مرے امام!  ناطقِ قران جب بولتے.تو.صامت ہو جاتے.اشجار ــکیا  اوقات ہماری 
.درود امام.عالیمقام پر 
درود خلفاء راشدین پر 
زندگی جن کی اخلاص سے بھرپور 
درود یار.غار پر صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم

السلام علیکم 
جمعہ مبارک 
درود ان کے لیے جو رات جاگ کرتا تھے، رویا کرتے تھے ہمارے لیے ـــ ایسے ہچکیاں لگ جاتی تھیں بدن مبارک کو، دیکھنے والا کا دل لرزشِ پیہم میں چلا جائے!  ہماری سراپا عفو ہستی!  ہماری محبوب ہستی!  ہمارے لیے گنجینہ الاسرار!  کنر مخفی بھی!  سرِ الہی!  جبین دل پر کنندہ نام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  اے ایمان والو!  درود پڑھنے سے صدقہ جاریہ شروع ہو جاتا ہے 
درود ـــ اس ہستی پر جس کا سفید لباس مبارک  ہمارے لیے تر ہو جاتا تھا!  درود ـــ جن کی داڑھی مبارک ایسی تر بتر ہوتی جیسے شبنم کے قطرے بہتے ہوں!  درود ان پر بوقت مرگ ـــ فکر ہماری لیے وصلِ شیریں میں رہے!  درود ان پر ـــ بنات کو بالخصوص سیدہ واجدہ عالیہ رافعہ صدیقہ مطہرہ فاطمہ الزہرا جیسی وفا کی دیوی،  حسن کامل،  خوش خصائل کا مرجع،  سیرت میں آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  جلال میں خدیجہ الکبری رضی تعالی عنہ ـــ ہمیں ملیں ـــ ہماری سردار پر درود ..درود سلام کا ہدیہ امِ ابیھا پر!  صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  جب وہ تلاوت کرتی تو سورج کی قسم!  ایسی شہد آگیں تلاوت تو لحنِ داؤدی میں تھی مگر کم!  ایسی ترتیل ہوتی ان کی آیت ان کے دل مبارک پر کہ صبر سے ایثار کا پیکر خدا کے آگے جھک جاتا یے ـــ جن کی تطہیر کی مثل نہ مثال!  ان کی تطہیر کی مثال کیا لاؤں! نہیں!  وہ پاکیزہ ترین خاتون ہیں کہ نام لوں بھی تو دل کو اشک سے تر کرلوں ـــ بے ادبی نہ ہو ...پیاری زہرا ـــ سلام سلام سلام!  
جمعہ مبارک

لطفِ ‏آشنائی

کاش پوچھے کوئی لطف محبت،
 لمحوں میں ہوتی ہے شَناسائی

انسان انسان سے مخاطب ہوتا ہے اور پتا نہیں چلتا ہمیں کہ درمیان میں حجاب ہے اور خدا کلام کرتا ہے ـ جب نفس کا حجاب اٹھتا ہے یا اٹھتا چلا جاتا ہے یا وہ خود چلمنوں سے جھانکے تو لطفِ آشنائی سے واسطہ پڑجاتا ہے. خدا سے ہمکلامی گرچہ عام نہیں مگر یہ یہ محیط مکان سے لامحیط لامکان تک چلتی ہے. انسان چاہے جتنا گنہگار ہو، جس پر لطافت کی باریکیاں عیاں ہوجاتی ہیں وہ جان لیتا ہے ـــ ایسے اوقات جب وہ عیاں ہو تب تب کیفیات استعارہ بن جاتی ہیں ـــ ذات خود صاحبِ استعارہ ہوجاتی ہے ـــ کتنے اداکار ہیں جو کھیل میں شامل ہیں ... دیکھو مگر جب تک اداکاروں میں سچ چھپا نہ ہو تو فریب ہو جاتا سب کام اور اللہ فرماتا ہے 

واللہ خیر الماکرین
خیال ملنے لگ جاتے ہیں، حق کے خیالات صورت صورت مل جاتے ہیں ــ کسی کو جذب صابر پیا کلیری سے مل جاتا ہے تو کسی کے قلم میں ہجر کی آتش رومی سے کہیں خسرو سے مل جاتی ہے ... خیال فیض ہوتے ہیں.  جب برتن صاف کردیا جاتا ہے تب منسلک کا اتصال ہوجاتا ہے یعنی کہ نسبتوں کا فیض، نسبتوں کو مکمل کردیتا ہے ـــــ فیض کیسے مکمل ہوتا ہے؟ جب نفس پر روح کا خیال غالب آجائے ـــ نفس کہتا ہے لا الہ ـــ روح کہتی ہے الا اللہ ــــ فنا مکمل ہوجاتا ہے جب یہ خیال کو شاہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کچھ مل جاتا ہے ـــــ 
ذات کی پریتم اچھی ہے اور خود کی نفی ذات کیجانب لیجاتی ہے ـــــ تب وجدان رہنما ہوجاتا ہے ... تحت الشعور کی روشنی پھیلنے لگ جاتی ہے ــــ وجدان مانند عرق نیساں کا موتی ـــ جس پر نور کے چھینٹے اسکو ایسی روشنی دیتے کہ سب حجابات ہٹا دیے جاتے ہیں ــــ  یہ مقام ایسا ہے کہ افلاک کے گرد زمین کی گردش تھم جاتی ہے  اور سکتہ حیرت میں وہ وہ دکھا دیا جاتا ہے جسے کبھی شعور دیکھ نہیں سکتا

وسعی کرسیہ السماوات والارض 
اسکی کُرسی کیا ہے؟  جب کہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ 

اللہ نور السماوات والارض 

کرسی ـــ استعارہ ہے اسکے اختیار کا کہ جَہاں چاہے جیسے چاہے وہ چلائے کہ ہرشے میں نور اسکا ہے ـــ ہر شے میں خیال اسکا ہے ـــ ہر شے میں اختیار اسکا ہے ـــ  کرسی کا درک و فہم ان پر کھلتا ہے جن کو وہ صاحب امر و دلِ بینا عطا کردیتا ہے ــ دل بینا کا شعور ایسی فراست عطا کرتا ہے جس کے لیے فرمایا گیا 

مومن کی فراست سے ڈرو ـــ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے 

تب بادل کا گرجنا الگ اور برسنا یعنی رحمان و رحیم سے قہاری وجباری کی فہم مل جاتی ہے تو کہیں بجلیاں نشیمن گرادیتی ہیں ..کتنے دل ٹوٹ کے تسلیم کا وضو کرلیتے ہیں ..چاہے وہ شہد جیسا میٹھا گھونٹ بن کے ملے.یا نیزے پر سرکٹانا پڑے ـــ بندہ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا ہے.

انسانوں کی کہیں مثال پہاڑ سے دی جاتی ہے تو کہیں شجر سے دی جاتی ہے ــــ شجر زیتون ایسا درخت ہے جسکو الہام سے شبیہ دی جاتی ہے ـــ جب انسان کا قطبی ستارہ تاریکی سے سحر میں طلوع ہوجاتا ہے یعنی کہ رابطہ مکمل پختہ ہو جاتا ہے تب الہام ذرائع سے ملتا جاتا ہے ــــ جب ذریعہ ذریعہ رہنما ہونے لگتا ہے تب یہ سمجھ لگتا ہے کہ آیت اللہ ـــ اصل میں وجہ اللہ ہے ـــــ جس کو صورت صورت میں یار کی جلوہ گری مل جائے تو اس سے بڑی کامیابی کیا ہو!اس لیے عارفوں کی زمین کا آسمان خدا بذات خود ہوتا ہے 

اللہ نور السماوات والارض 

لن ترانی سے من رانی کا سفر طے ہوجاتا ہے اور آنکھ کو بینائی مل جاتی ہے جب دیکھنے والے ہمیں دیکھیں ... آنکھیں اسکو پہنچ نہیں سکتیں مگر وہ آنکھوں کو پالیتا ہے اور نور.عطا کرتا ہے ــــ جس سے دل دید کے قابل ہو جاتا ہے

انسان کا دل عرش جیسا ہے اور جب جلوے کا احساس ہو تو علم ہوتا ہے وہی محرمِ راز ہے ـــ جہاں جہاں الہام ہے ـــ جب وہ پرواز دیتا ہے تو بیضائی ہالے دل پر کیے رکھتا ہے...جہاں جہاں اسکا جلوہ ہو ـــ وہ مانند پانی.شفاف ہوتی ہے ـــ دراصل یہ راستے وہ خود طے کرتا ہے تاکہ وہ اپنی دید کرے ـــ اسلیے اسکا دل پر مجلی ہونا.راز ہے!  یہ راز کی بات ہے نا وہ محرم راز ہے! وہ دکھ سکھ کا ساجھی ہے ــ وہی ماہی ہے ــــ  ذریعہ ذریعہ اس سے نور چھلکتا ہے چاہے یہ صورت ہو،  چاہے کوئی تحریر ہو، چاہے پتھر ہو   چاہے تصویر ــ  جب نور ملتا ہے تب دل وضو کرتا ہے، پانی مل جاتا ہے اور بندہ کہتا ہے کہ پانی ہے!  پاکیزگی ہے!  طہارت ہے! 

قران کا لفظ لفظ آیت ہے اور روح خود اک آیت ہے ـ  آیت آیت سے مل جائے تو نور علی النور کی مثال سب در وا ہونے لگتے ہیں ..

یار ‏من ‏

یارِ من سن تو سہی 
یارِ من دیکھ.تو سہی 
حقیقت نے بخشا آہنگ تجھے 
تو دھیمے سروں پر کھو جا

نَوائے نُو 

ہمسَفر نے سُنی نَہیں فریاد 
پیچھے مڑ کے نَہیں دیکھا 
میں نے لمحہ میں صدیوں کا فاصلہ طے کیا 
انتظار طویل ہے،  یہی پڑھا!  ہاں،  یہی سُنا!  
میں نے پکارا بارِ دگر 
جلوے ٹکروں میں بنٹا نَہیں کرتے، اُس نے کَہا 
طور سینا سے لوٹنے میں مدہوشی اک مقام تھا 
پھر سحر سے نَیا پیغام طلوع ہوا 
وہ پیغام نشان تھا ...
یار من!  سن 
تجھ کو پانے کی تڑپ ہے 
جاں بَلب ہستی ہے 
یارِ من!  نشان دو مجھے 
یارِ من!  کان دو مجھے 
یارِ من!  انتظام عام کرو

سدرہ ‏المنتہی

‌ـسدرتہ المنتہی   مقام ِِ پہچان ہے .یہ  وہ مقام ہے جس سے گزر چُنیدہ لوگ کا ہوا کرتا ہے. فرشتوں کی سب سے اعلی جماعت کے سردار   بھی مقامِ سدرہ سے گزر نہیں سکتے.  یہ قیام کی جگہ ہے جس جاء سے  زاہدین،  متقین اور صالحین  گزر نہیں سکتے.  ... اس مقام سے آگے جانے کی سکت سچے عاشق، عارف کی ہوتی ہے ... عارفین کی جماعت لباس مجاز میں نور  کی مثال ہے،  جن کا حق سے وصال مقرر  وقتِ مشاہدہ ہوتا رہتا ہے .. افضل ترین انسان سیدنا مجتبی،  مصطفی، شہ ابرار صلی علیہ والہ وسلم ہیں،  وہ اس مقام سے ایسے گزرے جیسے پلک جھپکنا جانِ   عزیز کے لیے آسان ہے ...انبیاء کرام  کو معراج بھی آپ کے دم سے میسر ہوئی ... جو عاشق صادق عین حق پر راضی ہوتے، پیرویِ رسول صلی علیہ والہ وسلم پر چلا،  اس نے بھی اوج کو پا لیا...

سدرہ ....... حجاب کا پردہ ہے ...حجاب کی انتہا وہ مقام ہے جہاں حجابی.و بے حجابی کا فرق بہت تنگ ہوجاتا ہے اور نور کو کالے رنگ میں پانا گویا نور علی نور کی مثال ہونا ہے .....اِ س دنیا(سدرہ المنتہی)  کی مثال سفید روشنی کی سی ہے جس میں بحالت  خواب داخل ہونا عین حق ہے.  خواب جاگتے یا سوتے دو حال میں درپیش ہوتا ہے ..لاشعور  کی بیداری تحت الشعور سے مل جاتی ہے ....سب فاصلے مٹ جاتے ہیں. عیاں، نہاں اور نہاں، عیاں ہوجاتا ہے ..سب نظر میں ہونے کے باوجود کچھ دکھائی نہیں دیتا مگر دل میں اُجالا ہوتا ہے ...مقاماتِ عالیہ جب نظر پہچانتی، شناخت کرتی ہے  تو تکریم میں جھک جاتی ہے ...سجدہِ شکر بجالانا لازمی  ہوجاتا ہے کہ عین بیداری میں دیدار نبی کریم صلی جس کو ہوجائے، اس پر عین حق، رب باری تعالی کا دیدار لازم ہوجاتا ہے .....جس نے دیدار باری تعالی کرلیا گویا اس نے صراط مستقیم کو عبور کرلیا ...گویا اس نے حوصِ کوثر کو پالیا ... اس کی روح شافعین میں شمار کیجانے لگے گی ....

عشاق  بامثال عارفین اسوہِ حسنہ کی پیروی کرتے ہیں، گویا انکی ارواح نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کی پیروی میں آپ  صلی علیہ والہ وسکم کے مشابہ ہوگئیں ...سردار پیامبراں، رہنما، اسوہِ کامل کی تمثیل حق، نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم نے مسجدِ اقصی میں جب نماز پڑھائی  تو آپ صلی علیہ والہ وسلم کی امامت کی اصحاب اجمعین کی ارواح شاہد  ہوگئیں .... گویا اسی مقام پر امام دو جہاں کے پیچھے شاہد ہوگئیں ..یوں شاہدین کے سردار سیدنا ابوبکر صدیق نے جب معراج پالی تو انکی پیروی میں تمام اصحاب نے بھی پالی ...مقام شہادت کے بعد تصدیق لازمی تھی، وہ گواہی سیدنا ابوبکر صدیق نے دی اور صدیق کا لقب پا گئے ...گواہی بھی یوں کی ادا ...

ہے : 
سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ

وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہئ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo

ان  رفعتوں کے بعد آپ کو احکامات دیے گئے جن میں  نماز اور شفاعت کا بطور خاص ذکر ہے ...

نماز پڑھنے سے مراد سبق سیکھ لیا جبکہ قائم کرنے سے مراد   شعور کو رب  کے حضور ختم کردیا ... باطن میں نور کے جلوہ افروز ہونے کے بعد وہ مقام آیا کہ گویا نماز  عین حق کا مشاہدہ ہے ...عشاق کو یہ صلاحیت ودیعت کردی جاتی ہے کہ بحالت نماز حواس توازن کھو دیتے ہیں ..... ان پر ناسوتی سے جبروت،  لاہوت  کے نظارے عیاں ہونےلگتے ہیں ... یہ نظارے کرنے والے شافعین کا درجہ پالیتے ہیں .... یعنی جو عاشق ہے، وہی شاہد ہے، وہی صدیق ہے ... وہی سردار ہے، وہی شافعین میں سے ہے ... میراث قلم سینہ بہ سینہ چلتی ان شافعین کو  مل جاتی ہے، سینہ تجلیات کا مسکن  بن جاتا ہے ... چار یاروں سے سلسلہ چلتے چلتے عشاق تک  جب پہنچتا ہے تو کہیں یہ مجذوب، کہیں قلندر، کہیں قطب تو کہیں ابدال کے روپ میں ملتے ہیں ....ان کے وجود  مثالی ہوتے ہیں ..ہالہِ نور  سراپے کے گرد اس قدر تقویت پاجاتا ہے کہ جسد خاکی اپنی اہمیت کھو دیتا ہے ..زمان و مکان کی قید سے آزاد سفر میں جسم کی مثال لباس کی سی ہوجاتی ہے کہ جب چاہا اتار دو تو جب چاہے پہن لو ...ایسے حال میں وجود کا سایہ انسان کھو دیتا ہے ..نور کی روشنی کا سایہ نہیں ہوتا  کہ اسکے آگے تمام روشنیاں ہیچ ہوتی ہیں 
..

ہم ‏کلامی

ہم کلامی 

وہ کہتا ہے کہ مجھ میں چھپ جا، وہ کہے اور دکھائی کچھ نہ دے تو بندہ کیسے چھپے اور کیسے وہ ظاہر ہو؟ ؟ ؟ 

وہ ظاہر میں  ہے ــــــ  تو اللہ ظاہر ہو تو دیکھے اپنے آئنے کو ـــــــ اسکا آئنہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں ..جب تک اپنی نفی نہیں  کی ہوتی ــــــــ خدا  ظاہر میں نہیں ملتاــــــــــ خدا نہ ملے تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کلمے میں پڑھنے سے کیا حاصل ہے؟؟؟  جب وارد نہ.ہوا تو.ماننے سے آگے کا.سفر چہ.معنی؟ ـــــــ  گویا یقین بھی کامل.نہ.ہوا.ــــــــ  پہلے خدا  کو  دیکھو جا بجا پھر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو جا بجا ... 

یہ روح پڑھتی نہیں کلمہ بلکہ یہ چادر بن کے تن جاتی کلمے کی جب کہ زبان کو سمجھ نہیں آتی" لا الہ الا اللہ" کا مطلب کیا ...اللہ کو ہم  نفس کی.حجابات کی.وجہ.سے دیکھ نہیں پاتے ـــــــ کجا وہ ہستی،  اسکا محبوب جن.پر.درود.بھیجا.جاتا ہے، ان  کو تو ہم کہتے اللہ تو نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا. 

اب بھلا بتاؤ اللہ اچھا کیوں نہ کرتا کیونکہ وہ بھی چاہتا اسکے محبوب کو دیکھیں جب اللہ محبوب کو دیکھتا ہے تو ہم بھی دیکھ لیتے ہیں .. یوں دید ہو جاتی ہے 

.یہ دیکھو محبوب کو دیکھو نظر کتنی پاک کرنی پڑتی ہے ... یہ نظر پاک اللہ کے نام سے ہوتی اللہ کہتا اللہ کا ذکر کر مگر میں اسکو کہتی ہوں کہ  درود پڑھوں گی پھر وہ مجھے دل کے کالے گند سیاہ غلاظت دکھا کے کہتا دل صاف نہ ہو درود کا فائدہ سو میں یہ سوچتے کہتی کہ اللہ کا ذکر سے  گھر صاف کر تاکہ وہ آئیں گھر تو دل مجلی ہو مگر کون جانے کون کس حد تک ہے، میں کہاں جاتی ہوں، میری حد کیا ہے، مجھے مری حد مل جائے تو کام بن جائے

مجھے اللہ سے لگاؤ ہے مگر اسکے محبوب سے لگاؤ  بیحد ہے ـــــصلی اللہ علیہ والہ وسلم ـــــــ  شاید اللہ سے لگاؤ کب کا یے مگر محبوب سے آشنائی کا احساس کلمے سے ہوا کہ پہلے لا --* الا اللہ --- پھر محبت پاک دل نہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہیں دکھتے کہنے کو کلمہ پڑھ لو مگر دکھیں گے تو گھر صاف ہوگا پھر چایے دل میںِ کتنا گند ہو وہ جلوے سے صاف ہوگا ان کے جلوے کا دیا اک دفعہ جل جائے تا عمر جل دل جاتا یے 

چراغ مصطفی بنا یے دل جلا ہے مثل طور جو 
ہوا بجھا نہ پائے گی یہ روشنی کمال یے

تب جذب ہوجاتے ہیں ہم بولتے نہیں ہم بولتے ہیں اور ہم بول بھی نہیں رہے ہوتے کوئی اور ہستی کلام کرتی ہےـــــ  ہم کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ کہتے جو کہا جاتاـــــ درحقیقت یہ وہ نظام چلا رہے مرے آقا نظام چلاتے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو جب وہ ہر جگہ ہیں تو میں اندھی ہوں مجھے آنکھ چاہیے ہر ہر جگہ ان کو دیکھنے کو

نقالی

کُچھ لوگ ساری زندگی نقالی میں گُزار دیتے ہیں.  سوچتے ہیں کہ انہوں نے شخصیت پرستی نہیں کی جبکہ نقال شخصیت پرست ہوتا ہے اور وہ لوگ جو من کی صدائیں سنتے ہوئے ان پر عمل کرتے ہیں ان کی زندگی میں مشاہدات ،  تجربات اندرونی عوامل  کو متحرک  کرتے ہیں.  انسان اس لیے ہیدا نہیں کیا گیا کہ بیرونی دنیا کو کھوجے جبکہ اندر کی دنیا کھوج بنا مر جائے.  ایسے لوگ ماسوا حسرت کے کیا اس جہاں سے لے جاسکتے ہیں. جن کی اپنی.تلاش کے سوت اک بڑے مرکزی دھارے سے مل جاتے ہیں ان پر عیاں ہوجاتا ہے کہ دنیا میں انسان مسافر ہے.  اس کی مثال مٹی کے بت جیسے ہے جس کو روح نے جان دی ہے.  روح کے لباس کئ ہوسکتے ہیں مگر سعید روحیں "نور " ازلی و ابدی کی حقیقت کو پالیتیں ہیں اور جان لیتی ہیں  کہ موت کی ساعت  وصل کی منتہی کا نام ہے.  

وصال کیا ہے؟  موت کیا ہے؟  روح کیا ہے؟  انسان کیا ہے؟  انسان مٹی کا پتلا ہت جس نے  پتھروں کی دنیا میں دل پتھر کردیا.انسانی دل جب ٹوت جاتا ہے تو کبھی چشمہ پھوٹ جاتا ہے تو کبھی پانی مل جاتا ہے تو کبھی پانی کو راستہ مل جاتا ہے. .انسانی دل کی زمین کو پانی تخریب سے مل جاتا ہے. جب چشم پھوٹ جاتا ہے تو خون میں "ھو "  "ھو " کی صدا ٹکراتی رہتی ہے. جب انسان مکمل "ھو " کے سانچے میں ڈھل  جاتا ہے تو وہ ""مطیع الرسول  و اللہ " " ہوتا ہے.  وہ نقال کے بجائے راہ کی سمت دیتا ہے اور اس کو ابدی ہاتھ خود اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں تب  وہ وصل و موت کی حقیقت کا راز شناس ہو جاتا ہے 

محبوب ایک آئنہ کی مانند نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ تمثال گر ہوتا ہے. جوں جوں عکس واضح  ہونا شروع ہو جاتا ہے ویسے ویسے انسان میں تفریق کا خاتمہ ہوجاتا ہے . جب جب اُس کا ذکر ہوتا ہے تو  گُلاب کی خوشو  کوچہ و دیوار میں بسیرا کرلیتی ہے.  انسان کا سفر  مالک کل کی طرف آسان ہوجاتا ہے.  اسی واسطے انسان کو پیدا کیا ہے.  اس میں عقل کا بیج رکھا تاکہ وہ سمجھ سکے اور دل میں الوہی چراغ پھونک ڈالا.  اب عقل کا.کام سمت متعین کرنا ہے کہ یہ اک راستہ واحد،  احد،  صمد کی طرف جانے کا.  اور انسان اس سے برائی کی طرف راغب ہوجائے تو اس کا قبلہ شیطان بن جاتا ہے یہی بات جو مرکز سے ہٹا دیتی ہے. 
نور

خیالات ‏کی ‏جنگ

سب سے بڑا خطرہ اندر ہے، باہر سب اندر کا عکس ہے
اک نورانی شکل لیے بابا بولا، جس نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا ...
نہیں، سب خارج سے ہے، درون تو خارج کا عکس ..
اک بدہیئت شکل موٹا جس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں بولا ... اس نے اپنی تلوار نکالی اور جلاد کی سی سختی لیے مارنے کو لپکا ...
بابے کے چہرے پر سرخی نے رنگ جمانا شروع کردیا .... اس نے کہا پاس حرم ہے، اک بندہ وہاں منادی کر رہا ہے، خوشیاں لے لو، غم دے دو .. تم ایسا کرو اس کے پاس جاؤ ...
کالے بدہیئت آدمی نے جونہی حرم کے اندر قدم رکھنا چاہا، واپس مڑ آیا کہا کہ ساتھ چلو ...
بابا اور بدہیئت موٹا کالا آدمی دونوں منادی کرنے والے شخص کے پاس گئے ...
ابدی خوشی لے لو، عارضی مجھے دے دو ...
یہ ابدی خوشی کیا ہے؟
دیکھ کالا رنگ اس بابے کا ہے، مگر تری کالک نے تو مجھے پریشان کردیا ... تو ایسا کر یہ فیروزہ رکھ ... اس سے تجھے خوشی ملے گی ...
کالے بدہیئت موٹے آدمی نے بابے کی جانب دیکھتے فیروزہ لینا چاہا تو پیچھے ہٹ گیا جیسے کرنٹ لگا ....
میں یہ پتھر لے نہیں سکتا، مرا قبیلہ ناراض ہوگا ... میں تو قتل کرنے کو ارادے سے آیا ہوں .. نیک خیال کو ..
تو گویا تم اک بد خیال ہو، یہ کہتے ہی ندا دینے والے تو تلوار نکالی اور خیال کا قتل کردیا ..
اب کیا ہوگا، اس کا قبیلہ تو سیلاب کی طرح بہتا جائے گا اور ہمیں نگل لے گا ... میں تو مدینہ سے کعبتہ اللہ کو دیکھنے آیا تھا، راستے میں اس کا سامنا ہوگیا ...
مدینے سے آئے ہو مکے میں، راستے میں وہم پال لائے ہو ....
یکایک کالا پانی کسی پہاّڑ کی سرنگ سے نکلنے لگا ... منادی کرنے والے نے آنکھ بھر کے دیکھا ہی تھا اک نیلی شعاع نکلی جس نے پانی کو آگ لگا دی اور وہ جل گیا ....
بابا رقص کرنے لگا .. کہنے لگا خیال پر اس طرح کی بندش ہوگی تو وہم کبھی نہیں ستائے گا ..

کینوس

''وہ'' اپنے کمرے کے اطراف کا جائزہ لے رہی تھی ۔کمرہ رنگوں کی خوشبو سے مہک ہوا تھا۔ کبھی  ایک پینٹنگ کو تنقیدی نظر سے دیکھتی اور کبھی دوسری کو دیکھتی اور یونہی ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے ''میں'' سے مخاطب ہوئی

''میں'' تم نے یہ پینٹنگ دیکھی ہے ؟ اس میں سارا رنگ اسکیچ سے باہر نکلا ہوا ہے ۔۔۔ پتا نہیں کب رنگ بھرنا سیکھو گی ؟''

میں نے ''وہ'' کو دیکھا، جس کا انداز  مجھے بہت کچھ جتا رہا تھا۔۔۔ میں نے ''وہ'' سے کہا:

'' جب میں نے رنگ بھرنا شروع کیا تھا۔۔۔ مجھے ایک بنا بنایا سکیچ دیا جاتا تھا۔مجھے اس میں رنگ بھرنا آسان لگتا تھا۔اب میں کبھی اسکیچ کو دیکھتی ہوں تو کبھی رنگ کو ۔۔۔۔۔ اس کشمکش میں رنگ باہر نکل آتا ہے''

''وہ '' نے ان پینٹنگس سے توجہ ہٹائی اور مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔ارے یہ کیا ''میں'' تمہارے چہرے پر  قوسِ قزح پھیل کر کپڑوں تک کو خراب کر رہی ہے ۔'' یہ کہ کر ''وہ '' ہنس پڑی

''میں'' نے اسے جواب دیا کہ شروع میں سب ہی مصور رنگ بھرے کپڑوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں ، ہنستے ہیں ۔۔۔ تمہیں کیا پتا یہی رنگ تو سرمایہ ہے ۔۔۔ یہ دیکھو سبز رنگ ! میرا چہرہ کس قدر حسین لگ رہا ہے ۔۔۔ یہ نیلا ،پیلا رنگ میرے کپڑوں پر لگا ہے۔ انہی رنگوں کی خوشبو سے تو مجھے مزہ آتا ہے ''

وہ کئی لمحات تک مجھے دیکھ کر مسکراتی رہی اور کہا: اس لیے تم نے ادھورے اسکیچ  مکمل نہیں کیے ۔۔۔ جب یہ مکمل کرلوگی تو تم پر رنگ بھی جچیں گے ورنہ سب رنگ تمہاری ذات سے نکل کر بھی مصنوعی تاثر دیں گے ''

''میں '' دل ہی دل میں ''وہ '' سے قائل تو ہوگئی مگر ہتھیار پھینکنے پر دل آمادہ نہ ہوا اور بولی:

'' یہ دیکھو ۔۔۔ادھر آؤ۔۔۔ یہ پینٹنگز دیکھو ۔۔۔۔جن کے اوپر سفید چادریں ہیں ۔۔۔ان کو میں نے ان سے کور کیا ہے تاکہ کوئی ان مکمل اسکیچ دیکھ نہ سکے ۔۔۔بس سب سفید ہی نظر آئے ۔۔۔۔''

''وہ '' نے جب وہ خالی اسکیچ دیکھے تو داد  دیے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔اور پھر چونک کر کہا ۔۔۔تم نے   اتنے سارے اسکیچ ادھورے چھوڑ کر صرف ایک ہی پینٹنگ میں سرخ ، پیلا اور پھر نیلا رنگ بے ہنگم طریقے سے بھرا ہوا ۔۔۔اچھی بھلے خاکے کا ستیا ناس کر دیا ہے ۔۔۔شاید اس لیے اس کو بھی غلاف سے ڈھکا ہوا۔۔۔''

''میں '' وہ کی چالاکی پر حیران ہونے سے زیادہ پریشان ہورہی تھی ۔۔۔مجھے معلوم نہ ہوسکا وہ اس قدر گھاگ نکلے گی ۔ابھی سوچوں میں گم ہی تھی ۔وہ پھر سے مخاطب ہوئی :

''تم ایک کام کرو، اپنے سارے رنگ خود سے اتار پھینکو ۔۔۔ !! بلکہ ایسا کرو اس رنگین لباس کو سبز، نیلا ،پیلے ، جامنی، سرخ ، اورنج اور نارنجی سے ملا کر  سفید کردو ۔۔۔ تاکہ تمہارے رنگ بھی ان غلافوں کے رنگوں سے مل جائے''

رغبت

تم ایک گناہ کی جانب راغب ہونے لگو اور عجب نہیں کہ اس کا ارادہ کرلو مگر تمھیں روکنے والا کون ہے؟  خالق!  
تمھیں نیکی کی طرف مائل کرنے والا کون؟  مالک 
تمھارے گناہوں کی عیب پوشی کرنے والا کون؟  ستار 
تمھارا گناہوں کا بھرم ر کھ کے تمھیں معاف کرنے والا کون؟  غفار 
تمھیں روحانی قالب میں ڈھالنے والا کون؟   کریم 
تمھیں حسین و جمیل کرنے و بنانے والا کون؟  مصور 
تم پر بارشیں کرم کی کرنے والا کون؟  رحمان 
تمھارے بدن کو رزق پہنچانے والا کون؟  رزاق 
تم اس کو یاد کرتے ہو تمھیں یاد کرنے والا کون؟  سبحان 
اس سے زیادہ بندے کے لیے کرم کی بات کیا ہے کہ بندے کو خدا یاد کرے اور وہ اس ادا پر مر نہ جائے؟  کیا وہ اس پر راضی نہ ہو جائے؟  کیا وہ مومن نہ ہو جائے؟  ایمان کے سانچے میں ڈھل جانے والے فولادی انسان ..جن کے یقین پر آگ ٹھنڈی ہوجاتی اور چاند ٹکرے ٹکرے ہوجاتا ہے ... جن کو انسان معبود بناتا ہے وہی انسان کے حکم کی تعمیل کرنے لگیں تو سمجھ لو کہ اللہ نے ایک بندے کو تم میں بھیج دیا ہے جو تم میں ایسے یقین پیدا کرتا رہے گا جس کی خالق کو آرزو ہے.  یہ سب جانتے ہیں وہ بے نیاز ہے مگر وہ  جو اس کو محبوب رکھتے پیں وہ ان کی طرف بھاگتا اور لپکتا ہے کپ میرے بندو!  میرے پیارو! میں نے جس کو تمھارے پاس بھیجا تم اس کی طرح ہو جاؤ!  کبھی میں انبیاء کو بھیجتا رہا مگر جب دین مکمل ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتیوں میں سے منتخب روحیں تم میں بھیجتا رہتا ہوں.  وہ پاک روحیں میری جانب سے اپنے بندوں کے لیے تحفہ ہوتی ہیں.

مٹی ‏کے ‏ذرے

مٹی کے ذرے 

لمحہ موجود میں قفس سے روشنی کی شعاع نے اندھیرے میں چراغ کا سماں بپا کردیا تھا ۔ دور کہیں اس اندھیری وادی میں سُروں کے سنگیت پر ایک شہزادی بھاگ رہی تھی ۔ اس کی آواز کانوں میں حلاوت بخشتی جاتی اور وہ رقص کُناں ایک ہی لے کا نغہ روز سنا کرتی تھی ۔ دوران رقص روشنی قفس کے اندھیرے ختم کر رہی تھی ، ملجگے اندھیرے ، سیلن زدہ دیواریں ، روشن ہوتی  اس میل کچیل کو صاف کر رہی تھی ۔ جوں جوں روشنی کی مقدار بڑھی ، ساز کی آواز تیز تر ہوتی گئی ۔ شہزادی وصل کے لیے بے قرار رقص میں محو وراء سے ماورا کی طرف سفر کر رہی تھی ۔۔ ہر لمحہ سلگتا، جوار بھاٹے کا من میں شور ، روشنی کا سمندر اس کی ذات کو تقسیم کیے جارہا تھا ۔  صحرا کی تپش میں گلشن کی سیر میں محو نغمہِ آہو کا خاتمہ ہوا ۔ نفرت کی دبیز تہ نے محبت کی روشنی چار سُو بکھیر دی ۔ مٹی کے ذرے ہوا میں اپنا حجم کھورہے تھے  ۔ مشرق و مغرب کی سمت سے بے نیاز صبا اپنی دھن میں ان ذروں کی ضوفشانی میں مصروف تھی ۔ رات کے اندھیرے میں سورج اپنی پوری تابناکی سے ان ذروں کے حجم کو واضح کیے دے رہا تھا ۔ جو ذرے ''طوھا کرھا '' اس سمت روانہ ہوئے تھے ۔ تحلیل شدہ ذروں کو نیا خمیر عطا ہوا تھا ۔  بے بسی ، بے قراری ، بے کیفی اور بخارات سے بادل بننے کے بجائے   روشنی کے سفر پر ترجیح دیتے یہ خود پر نازاں تھے کہ مقام ایزدی سے جو مقام ان کو ملا ہے وہ کم کم کسی کو عطا ہوتا ہے ۔ تفریق کی مٹی نے اپنا وجود جب واحد و یکتا کے حوالے کرتے  یہ نغمہ سنایا

ھو احد
ھو صمد 
ھو المالک 
ھو الخالق 
ھو المصور
ھو الباری 
ھو الرحیم 
ھو الرحمان
ھو الکریم 

اس سرمدی نغمے  سے ایک صدا ابھرتی رہی اور وجود فانی اپنی تسخیر پر نازاں یار کے روبرو نظارے میں مصروف تھا ۔

Mery Soch ka Safar /میری سوچ کا سفر

All chains unchained

All chains unchained
The Cage is uncaged
Fluttering is unuttered
Silence is made gossip
Burns are exhumed
Waves turned into sea
Flowers are in glea
Universe is in rhythm
Heart is toto broken
Desert warmth in full swing
Making one self to cry
Ah! thy love is unfathomable
Thy blessings irrevocable
Thy kindness uncountable
I am divine lamp
I am infinite in limits
I am mankind in cage
Who am I? I do not know!
Whisper of beloved is sweet
His voice is melodious
His attire is adorning world
I am He or He is I am
Who I am? Who is He?

ان ‏کی ‏خوشبو ‏نے ‏مست ‏کردیا ‏ہے ‏

ان کی خوشبو نے مست کر دیا ہے
نوری ہالے سے جذب مل گیا ہے
ان کی محفل حضوری کی خاطر
نور کا دل مچلتا جا رہا ہے
معجزہ یہ نگاہ یار کا ہے
جینے کا اب قرینہ مل گیا ہے
خاک مرقد پہ یاد کا کتبہ
جاوداں زندگی کو کر گیا ہے
رحمتَ دو جہاں ! فغاں سن لیں
ہجر کے غم سے سینہ پھٹتا ہے

come, come! Dazzling Snow

Come, come!  Dazzling snow
Come ,come!  An arrow bow 
Come, come! The whispering divine
Come, come!  Aye!  Light shine 
Residing in a  heart, in single voice
Come!  Now you have no other choice 
You are divine love!  Get not caged
Wander my world, its my seige 
Wandering will filter,  will pure
Its the way to get cured 
Hey!  Listen divine muse!
Pipe will make melody then,
O my pipe!  I am singing 
Bow!  Bow!  Bow to me.
My blessing are uncountable 
Let sing the world my muse!
O my lover!   Show your ring now

حضوری

تمہیں دل کہوں؟
دِل کو لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
تم کو مگر خیال پر دسترس نہیں 
خیال پر تم کو حضوری حاصل نہیں 
جب مرا خیال مجھ میں حضور نہیں اور کورے کاغذ جیسا سیال ہوں جسکا ہر حرف نگاہ سے بنتا ہے، مجھے لفظ بانٹنے کا کہنے سے کیا جائے گا مین حرف دل کی پجاری --- میم----حے ------میم----دال -- الف نہیں یے اس لیے دو دفعہ میم یعنی میم کے اوپر میم ..گویا نور علی النور --- گویا زیتون کا شجر بھی ہم رنگ ہے گویا شاخ انجیر میں مجلی ہتے "حے " جیسے ہیں گویا "دال " ایسی یے جیسے کلام کرے. تم نے محبوب کا حسن دیکھا میرے؟ اگر کبھی دیکھو تو پاگل ہو کے کہو میں مجذوبِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہو ... دِل تو دِل کی سنتا ہے تو بوجھ ہلکا ہوتا اگر تم ان کی زلفِ پوشیدہ کا نور دیکھو تو سمجھ آئے گی غشی سی طاری رہتی یہ صدائے غنود --- جسطرح لیل میں شمس موجود ہوتا ہے اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی رات میں موجود ہوتے ہیں اور اپنی کملی کا زلفِ نور کا سایہ کیے رکھتے ہیں اس لیے ہم چین کو سوجاتے ہیں مگر وہ لوگ جن کو جلوے کی تابش میں جلنا یوتا ان کو اس سے چین نَہیں آتا، پھر جب کملی ہٹاتے ہیں کائنات سے تو صبح ہوجاتی یہ سحر خیزی ..اس لیے پرندے اللہ ھو -- کرتے جبکہ چڑیاں چہچہاتی،  جبکہ پتے لہلہاتے، شبنم گرتی یہ آنسو خوشبو سے جدا ہونے کا جان لیوا ہوتا ہے .... ان کے چہرے کو جب دیکھو تو نگاہ جھک جائے جبکہ دیکھا ہے نہیں یہ تو گمان سے نکلتا نور ہے جو مرے سینے میں معجزن یے کہ شاید وہ دیکھ رہے ہیں --- اللہ آنکھوں کو پالیتا ہے اسیطرح وہ بھی آنکھوں کو پالیتے ہیں ...یہ حسن ملکوتی ہے جس کی مثال ملے گی نہیں اور بندہ گم صم ہو جائے گا --- دل کی فصل میں لالہ ء جنون کھل گیا ---- دل کو عندیہ ء بہار مل گیا

الف ‏کی ‏محفل ‏

الف کی محفل میں بیٹھے ہیں ہم،  الف نے کہا دنیا "ب " ہے اور ب کے بغیر الف  تک آنا کیسا؟  خاک تجھ پر اوڑھادی ہے،  تو خاک ہے اور آ،  آ مجھ تک آ کے دکھلا مگر میں تو نہ آسکا میں تو کھوگیا،  مجھے الف نہ ملا میں نے ب بھلا دیا.  نہ وصال صنم ہوا، نہ آتش ہجر نے کچھ بگاڑا،  یہ زندگی ہے میاں جس نے جلا ڈالا یے اور ہم کو تیر بہ تیر سینہ میں اوجھل ہوتا زخم دیکھنا تھا جس کے پیچھے راز تھا مگر یہ کاروبار بن گیا. کسی نے مہک سے پہچانا کسی نے روشنی کا بھیس بدلا، کسی نے صبا بن کے روک ڈالا،  تیرے روپ سائیاں!  مجبور کو لاگی لاگی میں لگا دی اور لگن میں رکھا نہ ساتھ کوئی. کوئ نہیں پاس،  کوئ نہیں ساتھ،  جیون اک کھلونا،  جیون میں کھیل گیا کوئ. میں نے کہا تجھے اور تو ہوگیا اور تو نے مجھے کہا ار میں تو تھی پہلے سے تیری. یہ کمال ہے تیرا،  بندے تجھے مانگے جبکہ بندے کا تو پہلے سے ہے. آنکھ کی سرخی لاگ دے،  دل کو کاجل لاگ دے،  حیا کے مارے جھکادے سر،  اور حسن بے نقاب کے جلوے دکھا دے. کبھی تو ہو سامنے گھنٹوں تکا کروں تجھے میِں

سلام

سلام ہو ان ہستیوں پر جن کا نام لینا بھول چکا یہ دل اور سلام ہو آلِ علی اور آلِ حسنین پر.  وہ کشش کا تیر ہے جو پیوست رہے گا دل میِں.  محبت کے بس میں کہاں دل میں سمائے، دل پاک نہیں مگر پاک کردیا جائے دل تو دل کو کیسا فخر. دل تو نفس کے مجہولات میں مغوی.  پھر کرم کے در کھول دیا جاتا ہے تو رحمت برسنے لگ جاتی ہے.  یہ نہر جو لہو میں ہے،  یہ چاشنی جو حسن میں ہے،  یہ نیرنگی جو خیال میں ہے،  یہ افتاد جو طبع میں ہے،  یہ خال خال میں چہرہ نقش ہے اور نقش پری ء جمال میں محو ہے.  یہ کیا ہے؟  کچھ نہیں!  یہ کہتا ہے کہ تو نے دل کتنے صنم وار دیے مگر صنم اک ہی ہے اور ترے حصے بیشمار. تری دوئی ختم ہو تو،  ترا چلنا محال نہ ہو اور یوں بیحال نہ ہو. یہ گرمی ء افکار جس سے دل فگار اور تن پر اشجار کا عکس!  یہ قیس نہیں جو مجنون ہوا،  یہ دل ہے جو مندوب ہوا اور قصہ خوب ہوا

تیر فگن ـ ساکنان بغداد ـ جانب کوفہ ـ لہو میں نہاں ـ دل پر الم کے سائے ـ گردش میں اشجار کے سائے ـ دل کرے ہائے ہائے ـ عین عین ہے وہ نور عین ہے ـ وہ نور العلی ہے ـ وہ نور بطحا یے ـ وہ شاہ بطحا ہے ـ وہ حبیب کبریاء جبرئیل لائے جن پر وحی ـ سلاسل اوہام کے جاری اور مجاوری کرنے والے حسینی ـ قافلہ ء عشق کے پاسدار ـ کرم نے لاگ لگا دی ـ جنم میں نئی آگ لگا دی ـ رگ رگ میں تار لاگی ـ رشتے نے قرطاس پر تحریر لگا دی ـ شامِ حنا ہے،  قبائے رات میں وہ

روئے قرطاس پر لہرِ دل جاری،  اب کہ جان سے جانے کی باری. یہ نہیں کہا کہ خامشی سے جھانکو بام و در کو. جو کہو وہ سنو اور جو سنو اس پر خمِ دل کو جھکائے رکھو. ساقی میخانہ نے پلائی ہے اور آنکھ ایسی ملائی ہے، نہ ملے نہ ملی کہ ایسے ملی اور ملی تو بنے حرفِ جلی. یہ حرف جلی نہیں کہ دل کی کلی ...

الہی ‏! ‏میرا ‏درد ‏

آج خود سے بات کرنے کو دل ہے، خود تو خود سے بچھڑ گیا .....،  اسکا درد کون جان پائے!  ہائے رے میرا دل،چُنر رنگ دی گئی  اور بے رنگی دی گئی! 
اِلہی ضبط دے، ورنہ قوت فغاں دے 
نالہ ء بلبل سننے کو، جہاں کو تاب دے 
باغِ گلشن سے اجڑ گئے سب پھول
تاج یمن سے اجڑ گئے سب لعل
قریب مرگ جان نوید جانفزاں آیا 
وقت مرگ مرض نسیاں کے طوفان نے عجب شور مچا رکھا ہے، کاٹ دیا گیا سر،  برہنہ تھی تلوار اور خون بہہ رہا تھا ... 
الہی ماجرا ء دل دیکھ کے اہل عدن رو پڑے 
یہ تری حکمت کی فصیل تھی، جرم تھا کڑا،   

باغ رحمت کے پاس کھڑی ہوں اور وہ کان لگائے ہمہ تن گوش ....
بَتا درد دیا تو قوت درد بھی دے 
یہ درد تو مرگ نسیاں ہے!  
کھاگیا بدن، پی گیا لہو،  کھنچ گئی رگ رگ ...
پھر ترے پاس کھڑی پکارتی رہی 
الہی درد دیا تھا تو تاب ہجر بھی دے 
وحشت دی ہے تو لذت مرگ بھی دے 
ملیں ترے وصل کے اشارے،  ملن نہ ہو 
ڈھونڈو ملنے کے بہانے،   بات نہ ہو!  ....
الہی، محرما نہیں کوئی ...
الہی،  روشن شب فرقت میں دیپ جلے ہیں 
الہی،  دست وصال لیے،  دست کمال ملا ہے 
الہی،  ہجرت کے درد نےاور ہجرت فزوں کردی 
الہی،  آشیاں تباہ ہوا، بنا تھا،  پھر بگڑ گیا   
الہی،  داستان غم لکھی تو نے، سناؤِں میں 
الہی، مزے تو لے اور درد کا گیت گاؤں میں 
الہی،  کچھ تو نگاہ کرم مجھ پہ کردیتا ہے 
الہی، یا تو لمحہ وصال مستقل کر، یا درد سے فرار دے 
الہی،  اشک تھمتے نہیں،  زخم بھرتا نہیں،  رفو گر کا کیا سوال؟  
الہی،  شدت درد نے مریض کردیا ہے،

ایک فریاد  وقت ِصبا سے!
ایک بات،  اک دل کی لگی کا قصہ  
اے وقت نسیم! 
سن جا!  محبوب کو بتانا 
ادب سے،  
ملحوظِ ادب کو سجدہ کرنا اور مانند رکوع نماز قائم کرنا 
یہ عشق کی نماز ہے ....! 
کہنا،  جب سے میخانے کا رستہ ملا ہے،  جام جم یاد نہ رہا،  جب سے دیوانہ بنایا ہے،  آپ کا نقشہ ہی یاد رہا،  
قرار نہیں ہے،  فرار نہیں ہے،  تپتا تھل ہے،  آبلہ پا!  کیا کروں؟ 
زخم رَس رہے، کوئے اماں کیسے جائیں؟
ہجرت کے نِشان ڈھونڈنے کَہاں کَہاں جائیں؟

یہ کسی کی سرگوشی جو سنی ہے دل نے!  
حکم الہی اور احساس کی تلوار 
یہ دی جاتی ہے اور رگ رگ سے جان نکالی جاتی ہے... یہی تلوار ہے جو پیوست رہے تو دمِ ہجرت میں دمِ وصلت کا احساس فزوں ہوجاتا ہے. اسی احساس کی روشنی میں ملاقات طے پاجاتی ہے!معجز نور کے سامنے کی بات ہے اور بات ہی چلتی ہے.احساس دل چاک کرتا ہے اور دل پر شوق کا رنگ کچا ہو تو محویت کا جام کیا سب رنگ پکا کردے ....
احساس کی صدا سنائی دیتی ہے! 
تجھے شوق سے دیکھوں ،  تو کدھر؟ 
میں تو گم ہوں،  نہ جانوں کدھر،  
یہ شوق احساس جو مانند شمع جلایا جائے اور جس کی مہک مانند اگربتی پھیل جائے ...
یہ معطر خوشبو ہے!  اس دھواں کی مثال عنبر و عود کی سی ہے! 

  قسم شب تار کی، ناز حریماں پہ سب تارے لٹا دوں،  شمس کیا،  سب آئنے محویت کے یکجا ہوکےٹوٹ جائیں گے اور کیا چاہیے؟
احساس سے کہا جاتا ہے جواباَ

دل کی لاگی ہے، نبھانی مشکل ہے 
ریشمی رومال سے لاگ کا سوال ہے
 
ریشم ریشم دھواں ہے،  دل میں لرزتا رواں رواں  ہے،  ... کیسے دل مطہر و پاک ہو؟  مصفی ہو؟ معجل ہو؟

او صاف صفائی دل دے کرئیے تو رب مل جانداں اے 
جنہاں کیتی  نیک کمائی اونہاں نوں رب مل جانداں اے

بات

یہ سب کہنے کہنے میں کہا نہیں جاتا ہے اور بات ایسے کہ رہا نہیں جاتا . کوئی خالی پن کی دیوار کو محبت کے گارے بھر دے تو عمارت شاندار ہو . کھنڈر سے کیا کہا جائے گا. کھنڈر کیا سنے گا؟  اے دل!  تو دل بن جا محبوب کا. محبوب کا دل ہونے کے لیے دل ہونا ضروری ہے . دل نہیں پاس اور سنے کون؟  دل دے کون؟ خون نہیں دیتا کون تو دل کون دے . اے ابتلا،  انتہا سے ملا!  اے ابتلا،  ابتدا میں نہ رکھ!  اے ابتلا!  چل در محبوب بن کے ہوا کے دوش اڑا،  کوئے جاناں کی خاک بنا. سنگ در جاناں بنا.  ان سے بات بنے اور دل چراغ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو جائے. ریشم کی لاگ ہے ریشمی سوال ہے ریشم والا جانے گا. بلاؤ کسی ریشم کی کان والو کو وہ سنے کوئلہ ہے کہ ہیرا. وہ بتائے زمین زرخیز کہ بنجر،  پہاڑ مضبوط ہے یا زمین بوس ہے اور دونوں حالتوں میں نفی اثبات ہو رہی ہے. نفی میں خوش کون اثبات اگر نہ ملے اثبات جلوہ ہے. جلوہ کہاں سے ملے گا؟  جلوہ جلوہ والوں سے. جلوہ آیتوں والے سے جلوہ دل کی لاگی والی سے جلوہ نم دل کی زبان سے نکلی.فریاد سے. جلوہ میں جب آہ ہوگی تب واہ ہوگی. جب وہ ہوگی تب بات ہوگی

حل

لکھنا  حل نہ تھا مگر حل تو ملا نہیں. اس لیے مدعا کہنے کو کہہ دیا جائے تو غم کو حوصلہ مل جاتا ہے یہ کس دل میں ٹھہرا ہے بولو تو سب دل اک جیسے   .بولو تو دل میں ذات اک جیسی. بولو تو رنگ بھی اک. بولو تو قزح بوند سے بنتی ہے اور رنگ خوشی دے دیتے بولو کہ نہی کے امر میں کن کا نقارہ وجا ہے اور وج جاوے اللہ کی تار ہوجاوے دل دیون درود دی پکار. جے کہوے سرکار سرکار،  ویکھاں میں اونہاں نے بار بار .... شام لٹ گئی میری تے رات وچ شمس دی لالی سی.

درد سے کہو مجھ سے ملے. اسکو تازگی ملے ... درد سے کہو آئے مجھ میں سمائے،  اسے روح ملے،  درد سے کہو، مجھ سے لمحہ لے اسے صدیاں ملیں درد سے کہو ستارے سے ملے اور روشنی دے. تلاش ہے. جی تلاش ہے  تلاش ہے اس کی جس کی مکھ چن نے دیوانہ کیا. وہ سوہنا چھپ گیا اور جان ہماری بن آئی. درد مل گیا... اے دل میں پڑی آرزو ..تو پرواز کر جا،  تجھے تو آشیانہ ملے میں تو ازل سے بے ٹھکانہ ہوں. مجھے ہجرت کا روگ ملا ہے اور وصلت کی لاگ لگی ہے. نہ جیا جائے جائے نہ مرا جائے. وہ آئیں تو مرجائیں گے اور مر کے جی جائیں گے ...کوئی تو مارے من کی میں کو .کوئ تو چلائے آرزو کو نیَّا میں .کوئ سفینہ دے دے. کوئ پیار کا اظہار لاگ دے کوئ جیون کو پیار دے کوئ تو دکھ کو اظہار دے کوئ تو شان میں سنوار دے کوئ تو چلمن ہٹا دے کوئ تو ایسے ہو. نہ ملے تو کوئ تو کا کریں گے بس مانگتے رہیں گے جلوہ ملے گا جلوہ اور کام ہوگا اپنا. ملے گا وہ سپنا جس میں اوج بشریت کو دکھایا گیا ملی گی رات میں رات. ملے گی کہانی کی مثال ملے گی جنون کو کبھی منزل. عشاق کا قافلہ ہے چلو سید! چلو سید!  چلو سید

سر ‏دست ‏میرے ‏لفظ ‏ہیں ‏

سر دست میرے میرے لفظ ہیں. خالی لفظ ہیں نہیں یہ خالی نہیں. ان میں اشک ہیں. یہ حرف دل ہیں.  ظاہر سے رنگ ان کا گہرا نہیں مگر اندر سرسبز ہے. ہدیہ اک ہے یعنی دل اک ہے جو نذر میں جاچکا ہے تو باقی بچتا ہے خالی دل. نَذر مانو تو پوری کرو 
نَذر کیسے پوری ہو؟
میرا دھیان بدل گیا 
میرا گیان بدل گیا 
حرف ترجمان میرا 
حرف نگہبان میرا 
میں نے لکھا صنم کو خط 
خالی تھے لفظ، حروف کے جام لیے 
لوگ سمجھے خالی کاغذ ہے 
دل سے جس جس نے دیکھا تو جذبات سے سینہ منور پایا 
گویا روئے احمر کو پایا 
تم کو پتا روئے احمر کیا ہے؟
وہ جس کے یاقوتی لب ہیں 
کس کے لب ہیں یاقوت جیسے
وہ جن کی زلف کے صبا ناز اٹھائے 
وہ جن کے کاندھے پر جھلکتی نور کی پوشاک کسی بیان میں نہ ہو 
وہ روئے یار امام حسین!  جن کی غایت نظر سے چاند چھپ جاتا ہے! بھلا اک سینے میں دو دل کیسے ہوں؟  سو زمانہ سمجھتا ہے زمین نے لکھا ہے جبکہ حرف بتاتے ہیں مطلعِ انوار بدلا ہے!  کسو سمجھاؤ کہ ہم نے جانے یہ انداز کس سے سیکھا ہے کہ نہ جانے ہم کو کونسی زمین میں جائے پناہ ملے یا ہم کسی فلک سے معلق زیست گزارن گے مگر دیکھیو صبا!  ہم راہ تکا کریں گے اس راہ کی جس راہ پر خونِ بہ لعل بہ جواہر گرا اور زمین نے جذب کیا تو حسرت دل کو ملے کہ زمین ہماری کس کام کی!  کاش دل پر گرا ہوتا!  کاش کہ یہ رقص سر بازار نہ ہوتا ہے کاش دینے والا ہاتھ میرا ہوتا، کاش کبھی لیا نہ ہوتا کاش دعا میری عرش سے ٹکرا جاتی،  کاش خدا کا جلال،  جمال مجھے باکمال کردیتا، کاش رویت کا عکس مجھے آئنہ کر.دیتا کاش میں! یہ کاش سے نکلے لفظ کانچ ہوئے!  ٹوٹ گئے اور پھر بھی رہا ترا وجود. تری ہست!  تری نمود! میں رہا سنگ اور قرار پایا ترا وجود 

چلیں اشک بندی کریں! محفل سجے گی!  چلو نعت کہیں محفل ہوگی. چلو خدمت کریں محفل ہوگی چلو پیار تقسیم کریں محفل ہوگی چلو کہ محبوب بلائے گا! چلو چلو ورنہ چلا نہ جائے رحمت افلاک سے برسے گی اور جواب نہ ہوگا!  چلو اظہار میں نہ پڑو!  چلو رنگ سے بچو!  چلو اک رنگ میں ڈھل جاؤ چلو اک چاہت والی کی چاہت اپنا لو 

چلو درود پڑھیں!  چلو آشنا سے آشنائی کو بہ آواز بلند پڑھیں!  چلو دل کے مالک کو تعریف کہنے دیں یا محمد کہتے اور نکل جائیں نفس کے حجابات سے!  چلو مالک جانے اس کا محبوب جانے مگر غافل تو نے مانا نہیں مجھے!  ارے غافل تو نے پہچانا نہیں مجھے!  ارے غافل تونے چال پہ نظر کی،  حال پہ دھیان کر!  غافل کو غفلت نہ لے ڈوبے!  غافل کا خیال خیال الوہی سے ملا جائے گا!  غافل پھر نہ غافل ہوگا اور عقل کا چولا ساتھ نہ ہوگا 

چلیں ہم چلے!  ناز بہ ندا اس کے پاس. اس کے ہاتھوں میں شہنائی ہے اور شہنائی محبت والی ہے اس نے کنگن پہنا ہے اور وہ کنگن محبت والا ہے. بجے گی شہنائی اندھیرا مٹے گا اور سویرا ہوگا. کیوں ہے تجھے مہجوری کہ تری مری کیا دوری. ترا مرا ساتھ ضروری اور خودی میں جانا ضروری!  تو چل!  تو چل دل میں جھانک!  اندر تو نور ہے اور رولا ڈالا ہے کہ اندھیرا ہے!  ارے غافل اٹھ!  اٹھ   اسکا ذکر پکڑ لے!  اس نے تجھے تھاما ہے تو بھی تھام لے اسکو. تو رہ کے رینا سیکھ لے.
احساس!  احساس نے دلاسہ دیا!  محبت کا کاسہ دیا!

خط

میں نے خَط لکھا اور لکھ کے اسکو بَہا دیا.  یہ خطوط تو عدم سے وجود اور وجود سے عدم تک پہنچتے رہے. میں بھی تو اسکا خط تھی مگر میرا چہرہ کس سورہ میں لکھا تھا،  حم کہتے کہتے نگاہ رک جاتی ہے اور نگاہ یٰسین پر ٹِک جاتی ہے.  حم کے انتظار میں ہجرت نے کتنے اژدہام میرے وجود میں اتارے دیے. لباسِ تار تار کو رفوگری سے ہو کیا کام،  اس کو چارہ گری سے ہو کیا کام. مگر پھر نقطہ یاد آتا ہے میں اک نقطہ تھا اس نے خط کھینچ کے مجھے بھیجا. میں نے سمجھا کہ میں دور ہوِ وہ خط گھٹ رہا ہے جیسے میں نے زمانی نور کو پالیا ہو جیسا وہ حم کی منزل پر مستقیم ہو اور حبِ حسینی جس نے خمیر کو جکڑ رکھا ہے اس کے بنا یہ کام ناتمام تھا. کسی نے کہا چلو قافلہِ عشاق میں اک سواری تمھاری تو کب سے خالی تھی مگر تم نے آنے میں دیر کی اور میں نے کہا کہ میں کس جگہ ہوں کہ میں نے نقطے کو نقطے جیسا پایا نہیں ابھی میرا خط ابھی میرے سامنے ہے. زمانی نور مکانی نور سے ملا نہیں. جب ملا نہیں سب جھوٹ ہے سب مایا. زمانے کو مکان میں آنا تھا یا مکان کو زمان میں جانا تھا. ہالہ ء نور ہے نہیں. بیساکھیوں کے ساتھ چل نہیں سکتا دل اڑان کیسی؟  اے دل تو اڑ جا!  غائب ہو جا!  تو مت پروا کر،  ترا ہونا ترا نہ ہونا ہے.  تو جسم موجود میں نہیں بلکہ زمانے کے ساتھ ہے

قدم

ہر قدم میرا قید ہے مگر میں اس قید میں بہت خوش ہوجاتی پر کبھی کبھی لطافت مجھے لحجاتی ہے . میں کبھی باہر کی دنیا کی سیر کرتی ہوں اور جہاں جہاں جاتی ہوں کھو سی جاتی ہوں اور اندر کی دنیا کیسی ہوگی . یہ دنیا شریانوں میں محسوس ہوتی شہ رگ میں مقید ہوجاتی ہے . اس مقید شے مجھے اپنا عکس نظر آتا ہے . اس عکس میں مجھے کون محسوس ہوتا ہے . وہ جو میری جاں سے قریں ہے ، وہ جو میری جبل الورید سے قریب ہے . اس کا ذکر میرے خون میں چلنے والی سانسیں کرتی ہیں . مگر میں اپنے خرابات میں کھوجاتی ہوں . مجھے سمجھ نہیں آتی کہ درود بھی پھولوں کا دستہ ہے جس کا ہر پھول ایل گل دستہ ہے . میں نے جب اس دردو سے اپنے تن میں خوشبو لگائی تو میرے اندر کی جمالیت نے مجھے حسن عطا کردیا ہے . مجھے خود کو حسین ترین کرنے کی طمع ہونے لگی ہے .

عشق ‏کا ‏" ‏ع ‏" ‏

عشق کا عین اس کی یاد میں فنا ہوجانا ، فنا ہوکے پھر سے زندگی پالینا ہے ۔ وہ تری آنکھ ، ترا ہاتھ اور کان بن جاتا ہے ، اندر کی کائنات بدل جاتی ہے ، وہی نظر آتا ہے ، دل کے دھک دھک میں وہی دکھتا ہے ، خون کی روانی میں شور اس کے ذکر ہوتا ہے اور اپنی حرکت میں اس کے نام کی تسبیح ہوجاتی ہے۔ روح نکل جائے تو جسم کو ٹکرے ٹکرے کردو تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ بالکل اسی طرح انا کا غبارہ اندر کی روشنی پر جالے بناتے ہے ، اگر ہٹا دیا جائے تو کیا ہو؟ بس اپنی تو روح اڑ گئی ، ذرہ کی کیا مجال سمندر کے سامنے! میرے اندر یار کا گھر ہے اور میری انا کی روح اڑ گئی تو بس میں ایک مکان ہو جہاں میرا یار رہتا ہے ۔میں فانی ہستی کو چھوڑ کے بقا کی منزل پر قدم رکھ رہی ہوں اور لوگوں کو پیچھے کھڑا دیکھتی ہوں ۔میں فلک کی جانب پرواز کر رہی ہوں اور مجھے دیکھنے والی آنکھ کھو گئی ہے ۔میں نے  بعد پرواز کے بادلوں کے مالک ، نور الہی کے گھر دستک دی اور ایک کے بعد ایک فلک  کو پار کرتی رہی ، یوں جیسے سمندر کو پار کر رہی ہوں ۔۔۔ سفیر پرندے اک دائرے میں ذکر میں مصروف ہوتے عشاق کی قربانی کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور میں ان کی باتیں غور سے سن رہی ہوتی ہوں کہ شاید میری قربانی کے بارے کوئی بات ہو! مجھ سے سوال کیا جائے مگر وہاں تو کارنامے بتائے جارہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔کوئی بھی ہستی قربانی دیے بغیر عشق کی منرل پر سوار نہیں ہوتی ہے ، عشق مانگتا ہی قربانی ہے جس کو دینے والے وجود ، دے کر ، خود کو دوامت اور ہمیشگی بخش جاتے ہیں ۔

حسن ‏ازلی ‏میں ‏بھی ‏عشق ‏ناچ ‏رہا ‏ہے

حسن ازلی میں بھی عشق ناچ رہا ہے 
عکسِ جَلی میں بھی عشق ناچ رہا ہے 
دشتِ غریباں میں ہو کا چھایا ہے عالم 
اس بے بسی میں بھی عشق ناچ رہا ہے 
نور

ورفعنا ‏لک ‏ذکرک ‏

وَرَ فعنا لَکَ ذکرک 

تری بات سے ذکر سب پس دیوار ہوئے 
چلے سب قافلہ ء عشق میں سالار ہوئے 
ترا نوری ہالہ گنبدِ جسم میں معجزن 
طٰہ کی باتوں میں رنگ بو برگ و سمن 
شام کی لطافتوں کا حال، گھنیری زلف 
حسن ازلی کے نشان لاپتا کو مت پوچھ 
ردائے نور میں ادب سے سر بسجود ہوئے 
میخانہ کہاں،  ساقی کدھر؟  میخوار کون؟
یہ درز درز وا ہوئے، اندھیرے دور ہوئے 
کالی کملی والے کی شان میں لب وا ہوئے
یہ بدلی رحمت کی، یہ برکھا اور بہاراں 
مرگ نسیاں زیست کو کافی، نہ اور پوچھ

شب ‏قدر

میں تمھیں بتاؤں اک بات کہ شب قدر کی رات دیدار کی رات ہے تو تم کو یہ بات مطلق سمجھ نہیں آئے گی. اطلاق سے نہیں انتقال سے سمجھ آئے -- دعا کیا کرو شب قدر میں صحیفوں کا انتقال ہو کیونکہ قران پاک کو مطہرین چھو سکتے اس لیے خدا فرماتا یے وثیابک فاطھر --- نیت ایسا بیچ ہے جب شجر الزیتون ہو تو ہر بھرا -- شجر الزقوم ہو صم بکم کی مثال ہوگئی -- نیت سنبھال نہ سیکھ لے ورنہ پتے کھلنے بیل بوٹے لگنے سے پہلے خزان نہ آجائے --- اٹھ مثلِ شجر سائبان یو جا-- مسافر کو چاہیے کہ زادراہ محبت کو جانے -- تسلیم کو تحفہ سمجھے -- نیاز تقسیم کرے -- خدمت کو شعار بنالے -- اے نفس -- قلب سلیم ہو جا کہ  فواد سے رابطہ ہوگا--- کلمہ کفر کا پڑھنے سے زندگی میں اندھیرا ہوا تھا --- اجالا زندگی یے اور حرا مقام دل میں وہ نشان یے جہاں طائر حطیم سے اڑتے ہیں اور منبر تلک آتے ہیں -- دانے چگتے اور غٹرغوں کرتے --- شہباز لامکانی کا ایسا پرندہ ہے جس کے پر اتنے قوی ہیں کہ ہواؤں کے سنگلاخ سینے پر داستان رقم ہو جاتی یے ---* کوہستان -- بیابان-- میدان کچھ بھی ہو یہ مراد ہوتے ہیں اور با مراد ٹھہرتے ہیں --- یہ کومل تلک جو ماتھے پر ہے یہ ھو کا نشان یے --- جب یہ نظر میں ہو تو طائر کو نشان مل جاتے ہیں --- تخیل کی تمام پروازیں ہیچ ہوتی ہو جاتی ہیں جب انسان کو نگاہ مل جائے *-- نگاہ ملے تو خیال مل جاتا یے --- محبوب خیال میں یے اور تو بھی محبوب کے خیال میں -- یہ جو خیال ملتے جاریے ہیں یہ عندیہ ہیں کہ واصل ہونا دور نہیں --- آیات ترتیل ہو جائیں تو قندیل روشن ہوجاتی ہے --- اصل کام یہی یے

بہت ‏خوب ‏دلنشین ‏احساس ‏

بہت خوب دلنشین احساس!  
سرسراتے پتے جیسے ہوں شاد 
رونقِ گِل میں ہے چھپا سراب 
دل ہے آب میں مگر آنکھ آب آب 
کم مایہ کو ملے کچھ تو نایاب

سیکھایا گیا الف کو 
سیکھا ہے جب تلک میم تک نہ گئے 
درد سہہ ب پ ت ٹ  س ش کا 
ورنہ نَہیں درون میں باقی کچھ 
حرف حرف کی حکایت سن لے
راوی اک ہے اور روایت سن لے 
شاہی کے پاسدار نے راز فاش کیا 
سینہ دل سے راز نیم بسمل نکلا 
یہ سیکھ کہ جگر گداز یے ابھی
یہ کہہ یا وہ کہہ نالہ رسا ہو جائے
عشق چیخ نہیں! پکار نہیں!  قرار نہیں!  اشکبار نہیں کچھ 
طلب کے ہار نہیں 
بس سیکھ لے جو سوجھ لیا جائے 
یہ بدھ کی شام ہے مگر ہے رات ہے حنا کی
ہر رات وصلت کی ہر صبح ہجرت کا 
وہ مرا روز ازل -- یہ میرا امروز

قریب ہو یا دور ہو! اے دل، تو فقیر ہو!  ورنہ منتِ غیر رسوائی ہے اور سودائے عشق نری رسوائی ہے! یہ کمائی ہے بوند بوند قطرے میں وفا کی شہنائی ہے!  تو نے جدائی کی بات کی اور آنکھ مری بھر آئی ہے! عجب یہ تری مری لڑائی ہے!  وضو سے آنکھ بھی بھر آئی ہے! کمی ہے!  اس لیے کم مائیگی لوٹ آئ یے

آنکھ سے دل کا سفر کیجیے 
ظاہر سے ولا کی بات کیجیے
رنگ رنگ میں بوئے علی ہے 
یہی ہر جا ہے حرف جلی ہے 
جسے ملے عین!  وہ ولی ہے 
مسکرا تو کہ کھلی کلی ہے 
یہی تار اللہ والی بجی ہے 
راگ میں عشق کی وحی ہے

جذبات سے تیرفگن عیاں ہوا 
ورنہ کیا تھا جو نہاں نہ ہوا 
خبر مری ہے اور اخبار ہوگئ 
سازش دہر ہے آشکار ہو گئی 
وجہِ بشر تخلیق کا حرف میم 
وجہِ آدمیت میں یہی تکریم 
وجہ اثبات کی یہی ہے دلیل 
رنگ رنگ میں یہی ہے وکیل
میں کہوں کیا حرف ہیں قلیل 
میں تو خود میں ہوئی  تحلیل 
راج ہے اور راجدھانی میں شاہی 
یہ سلطنت عشق کی ہے کمائی

ملا ہے تحفہ ء نسیان عشق میں اور وضو نہاں میں ہوا ... صبا نے کہا کہ انتشار سے کہو رفع ہو جائے  حاجت روا سامنے ہے! کہوں کسے؟ طبیب سامنے ہے! طبیب نے دل پر ہاتھ رکھا ہے اور دل کو اسم جلال میں رکھا ہے مجھ میں شاہ نے کمال رکھا ہے اور حرف حرف میں شہِ مقال رکھا ہے. سنگ دل میں وجہ وبال کا ستم ہے کہ ریزہ ریزہ ہے وجود اور ستم کا دھواں الہیات کا جامہ لیے کہے جائے 

یا میم!  یا محمد!  
الف!  الف اول اور اول سے آخر تلک بات یے اور بات میں راز، راز میں کمال، کمال میں حال،  حال میں ساز،  ساز میں جواب،  جواب میں وصال،  وصال میں ہجرت،  درد میں لذت،  لذت میں آشنائ،  آشنائ سے رسوائ ...لو عشق ہوگیا

کاجل سے رنگ لاگے اور لاگی لگن سے دل جلے اور جلے دل میں کیا رکھا ہے؟  رکھا ہے اسم نڈھال جس میں یاد کا توشہ ہے اور ازل کا نوحہ جس میِ حال مرا رکھا ہے میں نہیں ہے اس نے مکان میں لامکان رکھا ہے. عجب تماشا لگا ہے الفت کا اور الفت کو سر بازار رکھا!  رکھنے کو دل میں مہتاب رکھا اور مہتاب کا چاند رکھا اور گردش میں دل کو رکھا یے اور طواف کو حرم دیا گیا ...اے پاکی والے دل!  اے وضو سے نہاں اشک سے تیرتی نہر کیا ہے جو نہیں. سب عیاں ہے نہاں ہے جو وہی عیاں ہے یہی ستم ہے کہ نوک سناں ملے یا جاناں کی جان سے ملے ہمیں تو ہر مکان سے ملے کچھ نہ کچھ

کاجل سے رنگ لاگے اور لاگی لگن سے دل جلے اور جلے دل میں کیا رکھا ہے؟  رکھا ہے اسم نڈھال جس میں یاد کا توشہ ہے اور ازل کا نوحہ جس میِ حال مرا رکھا ہے میں نہیں ہے اس نے مکان میں لامکان رکھا ہے. عجب تماشا لگا ہے الفت کا اور الفت کو سر بازار رکھا!  رکھنے کو دل میں مہتاب رکھا اور مہتاب کا چاند رکھا اور گردش میں دل کو رکھا یے اور طواف کو حرم دیا گیا ...اے پاکی والے دل!  اے وضو سے نہاں اشک سے تیرتی نہر کیا ہے جو نہیں. سب عیاں ہے نہاں ہے جو وہی عیاں ہے یہی ستم ہے کہ نوک سناں ملے یا جاناں کی جان سے ملے ہمیں تو ہر مکان سے ملے کچھ نہ کچھ

یا حق!  سلام!  یا حق سلام!  یا الولی سلام!  یا والی سلام!  یا حاشر سلام!  یا رب عالمین سلام!  یا واجد سلام!  یا رب محمد  صلی اللہ علیہ والہ سلام ..سلام یہ ہے کہ سلام نہ ہوا اور شوق یہ ہے کہ عشق نہ ہوا!  خیال یہ ہے کہ خیال نہ ہوا!  محو تو نہ ہوا تو کمال نہ ہوا!  کمال نہیں کہ تو ڈوب  مگر ڈوب ڈوب کے رہ لے زندہ! رگ زیست کے بہانے ہیں اور ہم طیبہ جانے والے ہیں یہ روح کے شادیانے ہیں اور ہم.لو لگانے والے ہیں رنگ رنگ میں بوئے علی ہے یہ صحن نجف یے اور دل کربل کی روشن زمین ہے اور ملو اس صبا سے ورنہ رہ جاؤ گے ادھورے

چھپ رہا ہے اور ڈھونڈ رہا ہے زمانہ اسے! وہ مجھ میں قید ہے اور لامکانی کا پردہ جاتا رہا!  دل میں تسبیح ہے اور ھو کا تار ہے!  وہ جو لگاتار ہے وہی الوہیت کا سزاوار ہے. کاش یہ سنگ طیبہ کو چلے اور نعت کہنے کو زبان حق ملے اور ملے کچھ نہ ملے!  واللہ ہم چلے کہ دل ہمارا جلے!  واللہ ہماری سزا ہے!  اور ہم سزا لینے چلے!  واللہ سزا کی بات کرو نا!  ہم تو سہہ رہے درد جدائ کا ..لگ گیا روگ!  دل کو لگ گیا جدائ والا دھکا!  وہ ملا نہیں پرندہ لامکانی میں یے پھڑپھڑاہٹ بھی عجب یے اور قید بھی عجب ہے میں بے بس بھی بیخود اور بیخودی کا جام پلایا گیا اور تڑپایا گیا. واللہ سلام ہے کہ سلام عشق کو ہوا!  سلام واللہ عاشقین کو ملا 
قبول کرو ورنہ رہ جائے گا منہ کالا ..ہونا ہے اسم حق کا بول.بالا اور دل میں دھواں سے دود ہستی کو ملا اجالا. مجھے سرمہ و وصال میم.سے ملا اور حرف کمال الف سے ملا. یہ تکمیل کے در ہے اور رگ میں در کھلے ہے اٹھو سلام کرلو ورنہ رہ جاؤ گے کھڑے

نہ ہوا نے پوچھا، نہ اسکی مجال تھی 
نہ ہم نے کچھ کہا، نہ ہماری بات میں بات تھی 
وہ ملتا ہے تو باتیں جاتی رہیں اور وہ نہ ہو سو باتیں بھی ہوئی اسکی اور نہ ہوئیں ...وہ بات سے نہیں ملتا کبھی. وہ دل میں اترتا ہے اور نشان ہو جاتا ہے آیت آیت جیسا اترتا ہے جیسا کہ قران پاک اترتا ہے اور نفس کا روزہ سلامت!  نفس صامت نہ ہو شجر ساکت نہ ہو ڈھے جائے جیسا جبل خشیت سے چادر بن جائے اور سرخ ہو جائے 

یہ سرخی ہماری ہے میان
یہ لعل یمن ہمارے میاں
یہ صحن ارم والے ہیں 
یہ رنگ میں رہن والے 
پڑھو درود!  پڑھ لو 
کہ سلام دیے جانے ہیں 
درود کا تحٍفہ ہے اور دل پہ اسم محمد صلی اللہ علیہ والہ

دید

لوگ بھاگ رہے ہیں،  
بلکہ مانگ رہے ہیں،
کیا مانگ رہے ہیں،  
دید کی بھیک،  
ممکن نہ تھی دید آسان،
جب  حاجرہ کے چکروں کا لگنا
اسماعیل کے پا سے زم زم کا نکلنا،  
موسی کا خود شجر سے سراپا آگ بن جانا 
اللہ نور سماوات کی تمثیل تھے 
یقینا ہم نے سبھی سرداروں کو اسی برق سے نمو دی،  یہ شہ رگ سے قلبی رشتہ تھا ... .
جس پہ مقرر اک فرشتہ تھا.   
جس نے جان کنی کا عالم دو عالم میں سمو دیا،  
یہ عالم موت تھا،  یا عالم ھُو تھا 
دونوں عالمین کے رب کی کرسی نے الحی القیوم کے زینے دکھائے،  
باقی وہی ہے،  فانی تھا کیا؟
یقینا فانی کچھ نہیں،  
مٹی تو اک کھیل ہے،  
روح کے ٹکروں کا کٹھ پتلی بننا تھا 
قالو بلی کا آواز کن کے آوازے سے پہلے،  
تخلیق آدم اور اسماء کا القا ء 
ذات کی تجلی،  صفات کی تجلیات 
دونوں آدم کو مل گئیں اور  شیطین کو کہا،  
ساجد ہو جا،  سجدہ میرا تھا،  قضا کرکے،  منصف بنا؟  
نہیں،  خطا تو آدم نے کی تھی،  آدم کی توبہ اور شیطین کا تکبر،  در سے در ملنا،  بند ہونا،  قفل لگنا،  
یہی لوگ شرالدواب ہیں،  
صم بکم عمی کے تالے ہیں ان کے دل میں،  
ہم نے بدترین کو کیسے کھڑا کیا،  اپنے سامنے کہ للکارے ہمیں اور ہم نے کیسے اسکو اُس تماشے کے پیچھے رسوا کردیا، جس کا آخر زیاں تھا، جس کی ابتدا بھی زیاں ..... افسوس شیطین نے زیانی کا سودا کیا اور آدم کو ہم نے نور نبوت کے فیض سے نوازا،  
پہلے عارف کی معرفت محمد صلی اللہ  علیہ والہ وسلم پہ مکمل ہوئ،
یہی توبہ کی مقبولیت کا وقت تھا،  
حوا کی زمین سے کیسے کیسے عارف نکالے،  
آدم کی پشت میں،  کتنے پیامبر تھے،  جن کو حوا نے دیکھا،  .
آدم کو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جد ہونے پہ فخر ہوا،  یہی ہمارے حکمت ہے کہ کسی کو کم،  کسی کو زیادہ سے نوازتے ہیں!  
اے وہ ذات،  آگ لگی ہے!
اے وہ ذات، جس نے مجھے چراغوں سے تبسم دیا،  
اے وہ ذات،  جس نے روشنی سے تیرگی کا فرق دیا 
اے وہ ذات،  مقصد کیا تھا میرا؟  
سلسلہ ء ہدایت کے واسطے، میں تو خود ہدایت کی متمنی،  میں تو خود اوج معرفت کی خواہش مند ...
اے دل،  دل کے واسطے کائنات ہے،
دل، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  اس دل کے  کتنے حصے پھیلے؟  
جتنے حجاز مقدس کے گگن سے رشتے تھے،  
جتنے کربل کے  شاہ نجف سے رشتے تھے،  
جتنے لاھوتی کے ملکوتی سے سلسلے،  
جتنے عجائبات کا،  عالم سے سلسلے،  
رابطے ہوتے ہیں،  نور کے نور نبوت صلی اللہ.علیہ والہ وسلم ہے،  جس کو ملے ہدایت،  اسکو ملتی ہے اس نور تک رسائی

جس ‏کی ‏کرسی ‏کو ‏عرش ‏پر ‏قرار ‏ہے ‏

Jul 24 ۲۰۱۶

جس کی کُرسی عرش پر قرار ہے
وہ میرے ساتھ چلا ندی پار ہے
ندی میں عشق کا رنگ دیکھا
مقتول عشق ندی کنارے بہتا پایا
سُرخی نے لالیاں ندی اچ نیراں
سرخی اُتے نور، نور نال چلی جاندا اے
 سرخی اندر وی ! سرخی باہر وی اے
 ہستی اچ ہستی نے ہستی لبی اے
آئنہ جیوں آئنے دے اچ رلیا اے !
آئنے  تے نور دا ناں لکھیا اے
 سرخی نے پالیا سرخی چولا  اے!
میں لبدی پھراں کتھے گیا چولا!
یار نے رقص آئنہ وچ ویکھیا اے
 جیویں ندی اچ ندی ملدی پئی اے !
میرا رنگ روپ اُڈیا 
لالی نے  کیتا  مست حال
دل اچوں آری ہوگئی آرپار
بسمل وانگوں تڑپدی پیئ آں
اُوس نے ویکھ ٹھردی پئیی آں
یار حدوں حدی قریب ہویا اے 
اودھی خشبو دی سنیاں واجاں ایں
اللہ ھو ! اللہ ھو ! اللہ ھو !
ھو دی گلاں کریاں ہن  کیہ کیہ  میں
ھو نے کردی انگ انگ اچ سج دھج
نچاں ''الف '' تے ''میم'' دے سنگ
''م'' دی ہستی ویکھاں گی الف دے نال
اس کی آنکھوں سے جہاں دیکھا  میں نے 
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے میرے دل کا حال
وصل کے شیریں شربت کا  جام مل گیا ہے
وصل دی بوٹی مشک و عنبر وانگوں
کیہ دساں کیہ اے ہن میرا حال 
الف دی مستی لکی اے میری ہستی اچ
مٹڈے جاندے  نیں ہن ہستی دے زنگ
بارش چھم چھم کریندی جاندی اے
وصل دی گلاں کریندی جاندی اے
بارش میں بھیگی بارش بنتی گئی 
بارش نال بادل دا بسیرا
چھاندا جاندا اے ہنیرا
اندر سویرا تے بار ہنیرا
مینوں بار کج نظر نہ آوے
ایڈھے اچ میں ڈبدی جاندی آں
جیویں رت ہنیرا لاندی جاندی اے
رشنائی اندر چھاندی جاندی اے 
ایس رشنائی نے مینوں کیتا بے رنگ
رشنائی نوں رشنائی لکھواندی پئی اے
عشق دی رشنائی وڈی نورانی اے
لکھدی پئی میں ایس دی کہانیاں
ھو ! ھو ! ھو! ھو !
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو 

حرفِ نیاز مند:  سید نایاب حسین شاہ نقوی 
بقلم:  نور ایمان

اک ‏در ‏بند ‏تو ‏سو ‏در ‏کھلے

اک در بند  ہوتا ہے تو سو در کھل جاتے ہی.  وہ جو نیند کی طلب سے بے نیاز ہے یعنی کہ  پیغام اجل!  و وہی دے سکتا ہے. وہ سب سے بڑی طاقت ہے اس لیے نہیں کہ اس نے صرف دنیا بنادی مگر اس لیے کہ اس نے سب .چیزوں میں کشش پیدا کی.  اس کشش میں محبت و عشق کا خمیر ڈال دیا .گہرائی کو عشق سے اور سطح کو کشش سے بھر دیا ...زمین پر چلنے والا  نفس کشش میں رہتا اصل سمجھ نہیں پاتا،  فساد برپا کرتا ہے جبکہ مرکز کے اجسام کے پاس اصل کو پہچاننے کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بس اسی کے ہوجاتے ہیں ... بس ان کے دل مین واحد کا بسیرا ہوجاتا ہے ... اس کی بارش میں بھیگنے والے ہر غرض سے بے نیاز کر دیے جاتے ہیں ...آزاد روح!  آزاد روح کبھی قید نہیں ہوتی ..ان کی آزادی خالق کی نشانی ہوتی ہے ...اس نشانی کا احساس ایسا معجزن ہونے لگتا ہے کہ خود کی ذات معتبر ٹھہرنی لگتی ہے .... 
میرا وجود ترے عشق کی ہے خانقاہ 
ہوں آئنہ جمال ترے عشق کا کمال ہے 

بندہ مومن کے دل میں طلب دیدار پیدا کردی جاتی ہ ے..وہ شادی کی کیفیت!  دنیا ہیچ ہے اس کے سامنے !.  سب خزانے ہیچ .. 

علم.و روشنی کا خزانہ وہی تو ہے 
میراعشق و فسانہ وہی تو ہے 
قلم!  قلم کی قسم!  قلم کی عطا 
اس عطا کی انتہا مجھ پر ہے 
وہ کون ہے زمانے نہیں جانتا
وہ وہ ہے جسے میں جانتی ہوں 
وہ وہ ہے جس کی شہنائی درد والی یے
وہ وہ ہے جس کے در کی  دنیا سوالی ہے
ہم نے اس کے لیے کیا آنگن خالی ہے 
دیکھ!  میری گالوں  میں سرخی ہونٹوں پہ لالی ہے 
میں  اس کی ہستی کی مست حالی ہوں 
میری بستی میں اس کا بسیرا ہے 
جس کے دم سے جہاں میں سویرا ہے

بقلم نور 
بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی

لٹو

نور کی برسات میں سونے ، ہیرے ، چاندی گرتے دکھ رہے تھے جبکہ لینے والے نے دینے والے سے سوال کیا 
تقسیم میں فرق کیسا ؟
اختلاف میں حسن کیسا؟
اظہار میں دیر کیسی ؟
یہ معاملہ ، اسمیں معاملہ کیسا ؟

وہ جو ہروقت سب میں تقسیم کے اختلاف کو مدنظر رکھتا ہے ، اسنے مسکرا کے لینے والے کو دیکھا اور کہنے لگا ،
دل میں نور کی صورت کیسی ؟
صنم خانہ کی ضرورت کیسی ؟
جلوے کی بیتابی کیسی ؟
اظہار میں بے باکی کیسی ؟

ابھی دیالو کے چہرے کی مسکراہٹ ختم نہ ہوئی تھی کہ زمین نے گردش میں گردش کو رد کرتے نئے زاویے بنا دیے ! 
ایسے زاویوں پہ حرکت کرتے دیالو کو احساس ہوا کہ سیم و زر کی بارش اس اضطراب کو کافی نہ ہوگی ، اسنے ہیروں کو بغور دیکھا جسمیں کوئی سرخ رنگ ، کوئی گہرے نیلے رنگ اور کوئی کالے رنگ کا تھا ۔۔۔ 

یہ نیلے رنگ کا تمھارا تھا ۔کالا تم نے اتار پھینکا ہے۔سرخ سے تمھیں نوازا جانا ہے۔تمھارا ہاتھ خالی ہے ۔تمھارا چاند ، ماہتاب بنا نہیں ہے اسلیے تمھاری گردش بھی نئی ہے ، احساس بھی مختلف ہے ۔۔۔ابھی تک جتنے بھی نوازے گئے ، سب کے احساس میں اختلاف ، اضطراب میں خاصیت ، رنگ میں ماہیت ہے ! تمھاری گردش بھی نئی ہے 

لٹو ---------------------زمین اسطرح گھوم رہی تھی جیسے لٹو ! لٹو کی گردش سے اسکی ہیئت بدل رہی تھی ، ظاہر باطن میں جھلکنے لگا اور باطن ظاہر میں ۔۔۔ جب گردش تھمی لٹو ٹوٹ چکا تھا ، زمین کا رشتہ فلک سے جڑ چکا تھا ​

ہے ‏بنائے ‏خاکِ ‏کربل ‏آلِ ‏رسول ‏ص ‏

ہے بَنائے خاکِ کربل آلِ رسول 
کٹ گئے یاں لاشائے آلِ رسول؛ 
کام نَہ آسکے اس مقام پر جب 
روئے،یہ دیکھ کےصدیقِ رسول 
شاہد نے شہیدانِ کربلا دیکھے 
بقائے دین پہ شاہد اکبرِ رسول 
بسمل ہے ذرہ ذرہ خاکِ کربلاء کا 
کٹ گِرا یاں جگر گوشہ ء بتول 
ہے مَلال،نازم کہ ایں آلِ رسول 
حریت کی، جراءت کی پاسبان ہے 

اس ذی شہسوار کو سلام ہو.
آسمان جس سے ہم کلام ہو 
موت جس کو دیتی پیام ہو 
اللہ کی حرمت کا بس نام ہو 
دین کی خدمت جنکا کام ہو 
 یہ رسول کی ذیشان ہیں سارے
ان کو دیکھ کے، ہر بشر دل ہارے 
گنوادیے جنہوں نے پسر سارے 
منبرِ رسول سے ہے مسجد تلک 
چلا یہ سلسلہ کربلائے معلی تلک
سر کٹانے کی روایت، نہ جھکانے کی
پیام دے گئی ہے ہم کو آل رسول

نور
بہ نیاز :  سید نایاب حسین نقوی

یاد ‏کی ‏گلی

آج یاد کی بے نام گلی میں سڑکیں بڑی صاف ستھری ہیں. موسم  مگر اُداس ہے جیسے سکون میں حزن ہے . اس سنگم کو بہار و خزاں کے اوائل میں محسوس کیا جاتا ہے کہ بھیگتا دسمبر،  بکھرتی چاندنی، مہکتے پھول،  لہلپاتے کھیت،  تان کے کھڑے درخت،  آبشاروں کی موسیقیت سب کچھ کتنا پیارا ہے!  دستک!  اک دستک سنائی دی ... یہ کیسی دستک ہے؟  یہ  تو صدیوں پرانی آواز ہے،  نیلا آکاش میرے آئنوں کے بکھرے ٹوٹے کی شبیہ ہے ..اے سفید رنگت  والے ملیح چہرے کے حامل آبشار،  یہ رنگت تم نے کہاں سے چرائی؟  کیا پہاڑ جو بھورے رنگ کا ہے اس کے پیٹ سے نکلے ہو، اس لیے نور سے چمک رہے ہو ... کیا تم فضا کو جانتے ہو؟  مجھے علم ہے تم نے اس کی گود میں خود کے لیے بہت سا سکون اکٹھا کیا .. یہ ہلچل ... یہ بے نیازی کہ شانِ بے نیازی ....  یہ احساسِ بےخودی کی ضُو،  یہ کہسار جو جھکا شان توصیف کے لفظوں کی تسبیح میں ہے کہ گوجنتے ہیں کو ہسار، بکھرتے ہیں آبشار اور ملتا ہے آوازہ 

ورفعنا لک ذکرک 
یہ تو کن کی صدا ئے کہ الست کا نغمہ جانے کس صدی کی گود میں سورہا ہے تخلیق کا سوتا جاگ اٹھا ہے،  نیند کی وادی سے کہو جاگ جائے ... تو سجدوں میں آذانِ احدیت کی باتیں ....
فاذکرونی اذکرکم

19Dec, 2017 
بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی

الف ‏اور ‏میم ‏کا ‏سنگ ‏

اس بات میں اور اس بات میں 
 آپ نظر آتے ہو ہر ذات میں 
بہروپ پھرتے ہیں دیوانے 
چلتے ہیں شانے ملانے 
کون کس کا محرم حال جانے
صحرا کو جنگل اب کیا جانے
اس دنیا میں انسان کی قیمت
صورت و مورت سے بصیرت
حرص و تکبر کی  لکڑی  
او لکڑی!  دنیا مکڑی 
کیا جانے درد کا حال 
ذرہ ذرہ ہے نڈھال 
ہو گئے ہم تو مست حال 
کون جانے کس کی کھال
اللہ اللہ کرکے سارے 
ھو نال گلاں مارے 
ھو نے انگ انگ وچ 
کردی سج دھج
اب تو ناچ سنگ 
الف اور م کا رنگ
مٹا اب سب زنگ 
چل زنگی!  اٹھ رنگ نال
ناچ تے مار دھمال
ہجر نے ہن ستانا
اب تو ہے نبھانا
چل ہوگیا یارانہ 
اور مل گیا پرانا
سانس مہک اٹھی 
جاں لہک اٹھی
چھلکا یہ پیمانہ
مٹ گیا تفرقانہ 
جان جاناں! دور نہ جاناں
دل تم پہ قربان جاناں

غلام ‏سرخ ‏پوش ‏

غلامِ سرخ پوش ہیں 
کہ محوِ غم دوش ہیں 
نگاہِ مردِ حق سے ہُوا 
زمانہ جو تجھے کہہ گیا 
تو ہنس کے تیر سہہ گیا
جو زہر غم پی گیا، وہ تر گیا،
 وہ مر کے بھی رَہا ہے زندہ 
غلامئ حق میں موت جس نے قبول کی 
وہ شاہِ ذوالفقار کی رہ پر چلا 
امامِ حُسین کی لاج اس نے ہی رکھی 
وہ فاطمہ جناب کی نگہ میں ہے 
وہ  سیدہ جناب کی رِدا میں ہے 
وہ اسمِ حق میں جذب ہوگیا 
وہ حق پرست ، جو غلام رسول ہے 
کسی کے بس میں کہاں یہ قربتیں 
یہ راحتیں جو رات کا کمال ہے 
یہ رفعتیں جو صبح کا عروج ہیں 
یہ نصیب کی بات ہے، کرم کے فیصلے ہیں 
جسکو ملے گا عشق، کھلیں گے علم کے دَر اس پر
وہ نعت کا شرف،  وہ حمد کی  فضا
وہ نعت خوانی کی بات بھی الگ 
وہ مدحتِ شہِ وِلا بھی الگ

روہی ‏دے ‏خیالات

روہی دے خیالات وچ اک سہاگن دی داستان سی .. مان سلامت رکھے سہاگ،  وصلت دی چھاں بڑی تھی .. جوگ وی سی جوگن والا،  درد وی سی، روگی کیتا، سوت محبت دا کتدے کتدے، کتدی گئی اپنا آپ،  سہاگن دی منظور ہوئی دعا، رکھیا سانول نال ..شام ہنیری آئی سی، چند دی چانن تے دیوے بلدے سن .. انہوں ویکھ کے راہی تکدے تکدے مرجاندے سن .. روہی دا منظر سی وکھو وکھ،  مجنوں کھڑا سی، بانسری عشق والی وجن لگی، تار مل گئی مرشد نل،  اکھ لگ گئی سی،  ہتھ وچ پیالی سی،  عشق دی قوالی سی،  مستی توں رت خالی سی!  ہویا کیہہ!  سوانگ بھرلیا رانجھن یار نے!  رانجھن دا سواگ کون جانڑے؟  جانڑے، جانڑے اوہ! جنہاں لائیاں اچیاں نال 

بہ نیاز:  سید نایاب حسین شاہ نقوی

دوئی ‏کا ‏خاتمہ ‏

سورہ اخلاص میں دوئی کے خاتمے کی بات ہوئ 
سارے جَہان میں ترے جلوے دیکھنے کی متمنی 
تن میں جا بَجا آئنوِں میں نقش اللہ کو دیکھے جارہا ہے.
خالص ہوگئی ہے روح؟
نَہیں، نَہیں، نَہیں ... گِریہ باقی ہے. 
چالیس سال کا گِریہ میں نے ان چار دنوِں میں کیا،  
افسوس!  نہ کوئی نشانی ہے، نہ بصیرت ہے 
حُسن یوسف میں پنہاں جلوے کو یعقوب کے سوا کون جان سکا؟ جو روح کے کُل اسرار سے واقف ہو، وُہی قَلندر ہے 

شَہید ہورہا ہے جلوہ جاناں مجھ میں 
شاہد میرے لفظ ہورہے ہیں اور قسمت! تم دیکھ نہ سکے ان میں درد نِہاں کو جس نے غمِ فراق میں چالیس نہروں سے پورے تن میں سیلاب لادیا ہے 

تو کہاں سے مخلق؟
عرش کے پانی سے؟
یہ پانی کَہیں وہ تو نَہیں ہے؟
یہ یاد،  یہ سوگ اس جُدائی کا تو نَہیں جب میں اسی لباس سے بنتے تم کو تخلیق کا دکھ دے رہی تھی؟

سُنو!  روح بھی سہے گی وہی صدائے کُن کا درد 
سُنو!  روح یاد کرے گی اس میں موجود راز 
سن کہ تو راز الہی ہے، جس کو فاش کیا گیا ہے 
سن کہ تو اسم الہی ہے، جس کو شامل کیا گیا ہے 
سن کہ جو رگ حق میں کتاب ہے، وہی بس اک یے 
حق ھو!  ھو!  اللہ!  اللہ ھو!  ھو!  حق ھو 

کھنکھناتی مٹی سے سوکھے پیڑ میں اک دفعہ صور پھونکا گیا ہے 
یہ اسم الہی کا صور تھا، نفخ سے تار جیسے ملا ہو، گویا حق وصال چاہتا ہے، گویا ہجرت وصال کی مانند ہے 

اے حق! تو پری چہرہ میں ظاہر ہُوا ہے اور مجھ سے سب جلوے لے گیا!  میرے دل کو تباہ کرگیا ہے! تو رویت زمین کی دیکھ اور یاد کر میرے چاند سے شمس نہ ملا تو زمین ساری پانی سے بھرجائے گی، مدوجزر چاند لائے گا اور باقی کچھ کیا رہے گا؟  طوفان کیا ہے؟ مجھ سے پوچھ لے نا .. 

قران میں لکھا ہے الم ترکیف فعل ربک .... 
کیا نہ دیکھا میرا فعل کیسے ابرہہ کے ہاتھی مار بھگائے؟  
قران میں لکھا یے الم نشرح صدرک،
کیا نہ دیکھا میرا فعل کیسے صدر سے صدر مل جاتا ہے؟
بس جب چاہیں گے تو "ووضعنا وزرک "کی نقارہ بجادیں گے 
تب تری بقا نہیں ہوگی بلکہ یہ میری صدا ہوگی "ورفعنا لک ذکرک " 
درود صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

قران میں لکھا: اللہ نور سماوات ولارض 
تری زمین میں نور کے چالیس روشن دیے رکھ دیے گئے،  
قران میں لکھا ہے دل خیر البریہ ہوجاتے ہیں،  ارجعو نفس المطمعنہ!  تو اضطراب میں جلوہ کر میرا تاکہ اطمینان ہو 

قران میں لکھا ہے موسی غش کھا کے گر پڑے،  تو نے جلوہ ناز کیا ہے،  اور سلامت ہے،  یہ جان رحمت ایزدی کے دھاروں سے یہی بات ہو 

والکاظمین عین الغیض کی مثال اضطراب نہ دبا تو رحمان کے بندے،  رحمانیت کیسے پائیں گے؟  
تلاوت کرتے وجلت قلوبھم کی مثال نہ ہوں گے تو ظلوم جھولا کا خطاب پاتے جائیں گے

ہم ہی جو زمینوں کو ہلاتے ہیں والزلزلو زلزال کی مثال اور آزماتے ہیں "ھنالک ابتلی " تاکہ آزمائش ہو

جیسے حُنین والوں کی ہوئ زاغ البصر سے الحناجر تک جب تک جب دل آگئے  تو "وتظنون الظن "کی مثال یقین دیکھا جاتا ہے،  

تو قسم ہے " والتین والزیتون،  الطور سنین کی،  آدم سے لے محمدی چراغ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تلک،  سب میں  شہید اک ذات ہے، لوگ پھر بھی ہدایت کو فرشتہ مانگتے ہیں،  درحقیقت ان کو ہدایت نہیں ملتی

حم ‏کیا ‏ہے

نور یہ جو کیفیت ہوتی ہے نا ۔ اس میں ہوش نہیں کھویا جاتا باقی دل کھنچا چلا جاتا ہے. دل روتا جاتا ہے. آنکھ نم رہتی ہے. دل کے اندر سب کچھ اکٹھا اک مقام پہ ہوجاتا ہے.                      

دل کرتا ہے بے اختیار روتی جاؤں اور نہ بھی روؤں تو آنکھ نم رہتی ہے اور یوں لگتا ہے جسے مری ہستی جہانوں ک رحمت کی جانب کھنچی چلی جا رہی ہے ۔

اس کیفیت کی ابتدا اس وقت سے ہوئی جب سے " مرشد کی زیارت " بارے لکھی کسی اشرف المخلوق کی تحریر پڑھی ۔ تحریر کے لفظ  دل میں اترتے روح کو بے چین کرتے وجدان کے آئینے کو منور کرتے چلے گئے ۔ احساس ہوا کہ زیارت پاک ہونے کو ہے

دل نے دی صدا کہ  جب بھی ہوگی زیارت پاک ان کے کرم سے ہو گی ۔

تو بس درود پاک سے دل و زبان تر کر ۔

اپنے نفس کو پاک رکھ ۔

دل کو ہی نہیں بلکہ اپنے خیال کو بھی  ہر غیر کے خیال سے پاک رکھ ۔

اچانک یوں لگا جیسے میں لپٹی ہوں شاہا کے قدموں سے اور رو رو کر کہہ رہی ہوں ۔

مجھے خاتون جنت اپنی پاک بیٹی جناب فاطمہ علیہ السلام کی کنیزوں میں شامل کر لیں ۔

مجھے لگا جیسے رحمت بھرا روشن ہاتھ میرے سر کو سہلانے لگا  ۔

آنکھ روتی رہی دل سکون پاتارہا  ۔

پیر مہر علی شاہ  یاد آئے ۔۔

کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء ۔۔۔ گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں ۔

نور بے اختیار پکار اٹھی آپ تورحمت للعالمین ہیں  زمانے کے ستم کو  اپنےکرم میں ڈھانپ لیتے ہیں،  ان سے ہی فریاد کر  کہ زخم سے چور وجود ہے سرور انبیاء، شاہا! ۔۔ کرم کی اک نگاہ ہو مجھ پر

آپ کی بارگاہ میں  اپنے دکھ بیاں کرتے دل ہلکا ہو جاتا! جانے کیوں لگتا ہے کہ دل ہلکا ہوگیا! نہ گلہ کہ کتنوں پہ نظر نہ  کتنوں کو عطا ...

آپ کی جانب سے تقسیم برابر ہوتی ہے مجھے مگر تمنا زیادہ کی ہے ...

مجھےاپنے قریب کرلیجیے شاہا ... شاہا دل بڑا نم ہے ... شاہا آنکھ میں غم لہو کی مانند چھلک رہا ہے ...

شاہا رہنمائی کیجیے! اے میرے شاہا! اے میرے بابا .... اے میرے بابا ... اک بیٹی آپ کی محبت میں آنسو بہاتی ہے آپ ہی توہو جو مجھ دکھیاری کی سنتے ہو ...

بابا! مجھے قدموں میں کرلیں میں کیوں آپ کے ہوتے مضطرب رہوں .. آپ کے ہوتے مجھے رنج کیسا ؟!

بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی 
بقلم:  نور