خَریدو گے مری آنکھیں؟ میں نے کَہا؟
یہ انمول آنکھیں کیا بیچنے کے لیے ہیں؟
یہ اتنی انمول ہیں کہ مول لگتا نہیں ہے
لگا کہ مول کرنا کیا ہے؟ بے مایہ رہنے دو
وہ کربلا کی زمین پہ کسی کو دیکھا گیا
صبا کو قبورِ پاک گرد رقص میں دیکھاگیا
حسینی ہوں میں یہ کہتے اسے سنا گیا ہے
مہک ہے عنبرین، مشک کی فضا کہا گیا ہے
یہ دودِ ہستی حُسین ہے، یہ رشک باد ہے
درود اس فضا پہ بارہا صبا نے بھیجا ہے
بنامِ نور یہ درود کی مہک کربلا پہنچی
مرے حُسین کو سلام کہتے شہید ہوئی
ہے ناز ایں خاک بخشا نیستی کا لباس
بہ فخرِ گردشِ گنبدِ سنہری رنگ خونین
حصول عشق کی درسگاہ کا نسخہ ہوں
میں کیمیا گری ہوں شہِ حسین کی
منم چراغِ حسینی بہ نور لم یزل کی
خریدار مل جائیں گے بُہت آنکھوں کے
مگر نہ بیچو خزانہِ حسینی خواہی خواہی
ذرہ ذرہ ہو مشکبار تو شکر گزاری سیکھ لو
کہ خاکِ اسفلی کو ملے کمالِ نور کا حال
یہ عطیہ تحفتا دیا گیا، تحفتا دیا گیا ہے
ہماری آنکھوں کے خریدار کربلا کے امام ہیں
انہی سے مل رہے ہیں رنگ و نور کے جام ہیں
انہی کے در پہ رکھ دی ہیں نَذر لے لیں گے
عوض اسی جلوہ مستقل کے، جو موت دے