Thursday, November 19, 2020

یا ‏علی ‏، ‏یا ‏حسین ‏

کبھو تو چین آئے کبھی تو سر اٹھا کے چلیں 
کبھو تو ہم نہ رہے کوئ نہ رہے جو رہے وہ رہے 
وہ رہے تو سدا رہے یہ صدا کہ علی علی ہیں 
علی بڑے باکمال ہیں علی مرے لجپال ہیں 
علی سخیوں کے شاہ علی اماموں کے شہا 
علی علم کی زمین کا لا محیط آسمان ہیں 
گواہی علم کی ہیں وہ الواجد کا وجدان ہیں 
علی بہ راز نمی، علی مونسں دل خیر خواہ 
علی بہ حق روشنی کا جلال ہے وصل حال 
دما دم میں نعرہ لگتا رہے گا یہی علی علی 
دما دم میں توئی توئی کا آوازہ علی علی

حسین لعل یمنی،  حسین فرد آہنی ہے 
حسین حیدری جلال ہے مردِ آہنی ہے 
زمانہ کہتا خلیفہ انہیں ہے جنہوں نے 
سرکٹا کے خلافتِ زمن زمن چنی ہے 
وہ کربلا دلِ فگار لیے روتی رہی تھی 
زمین غازیوں سے شہید ہوتی رہی تھی
لہو جدھر جدھر گرا، تو کلمہ پڑھا گیا 
گواہی ذرے ذرے نے خدا کی دی تھی