اسے ہے خواہش کہ پا لے ردائے محبت کو،
اسے ناز ہے کہ ملے گی مراد مدام شوق کو،
اک بات اہل چمن سنیں گے، سنیں گے تو محبت پر یقین کرنے لگیں گے، وہ حَیا کے مارے دل میں جھانکیں گے اور ہائیں گے کہ دل تو مجسمِ حَیا ہے.
ع: میں ہوں زَمین اور مطلَعِ انوار فاطــــــــمـــــہ رضـــــــ
جب حَیا سے سامنا ہو تو نور کو کہنا چاہیے سلام! سلام! سلام! جب سامنے ہو لفظِ فــــــاطــــــمہ رض، تو رقصِ قلم نو سے نکلیں گے ایسے بوٹے کہ فنا ہوجانا مقدر ٹھہرا
طریقہ سوچیے کیا ہوگا؟ طریقہ ء وضو کیا ہوگا؟ طریقہ ء چشمِ نم کیا ہوگا؟ طریقہ بہ ہدایت کیا ہے؟ طریقہ تسلیم کیا ہوگا؟ طریقہ اطاعت کیا ہے؟
جوابا دل نے کہا محبت! محبت! محبت
محبت کے داعی سے پوچھا میں نے کہ آسمانی جذبے کو زمین پے اتار دیا؟
زمین تو بام فلک پہ ہوگی گویا!
زمین کو اور کیا چاہیے ہوگا؟
طریقہ وفا تو یہی ہے کہ جو وہ کہے وہ تو ہوجا
وہ کہے پتھر ہوجا، تو کن سے کنم کا سفر ہوجا
وہ کہے فلک پہ آجا تو بس فلک پر رسا نالہ ہوجا
وہ کہے جانِ عندلیب ہو جا تو عندلیب کی جان ہو جا
طریقہ کہتا ہے رقص کر تو بسمل کا رقص ہو جا
طریقہ کہتا ہے کہ چراغ ہوجا، تو روشنی ہو جا
اگر وہ کہے تو کیا ہے؟ کہہ دے نمی دانم کجا رفتم فنا گشتم
اگر طریقہ کہے کہ فنائیت کیا ہے تو کہا تو ہے، نہیں ماسوا ترے
طریقہ کہتا ہے شجر سے حجر میں چھپے اخفا راز کو دیکھ
تو لفظ میم کی تسبیح ہوجا
طریقہ کہتا ہے دیکھ بادل برستا ہے تو لفظ حـــــــ سے یــــا سے الــــف ہوجا
طریقہ کہتا ہے حیا ہو جا تو عـین سے مـــــیم ہوجا
طریقہ کہے کن ---- کنم کنم در گدائی بہ فدا زہرا
زہرا ----- زعشق فاطمہ دل فگارم است
ایں نیستی بہ ہوش را -- دید کو می خواہد
زہرا ------ جبین دل بہ نیاز مند، بہ چراغ کشتہ روشنی درکار
زہرا ----- نے خرد سے بنے، کام عشق میں کارجہاں دراز است
میں طریقہ ہوں میں سلیقہ ہوں
مجھے جلایا گیا عشق میں
مجھے رلایا گیا ہے پیار میں
درد نے مجھے قوت اظہار دی
حسن منم بہ عروج فلک است
میں حاصلِ تمنا کا عین ہوں
میں دید ہوں، رات کا چاند ہوں
شکار ہوں، اسکا شہکار ہو کے
نذرانہ جب دیا جاتا ہے تو فتح مل جاتی ہے. پوچھیے فتح کیا ہے؟ بخدا قسم ذات کی جس کے قبضے میں مری جان ہے کہ کن کی طاقت مل جاتی جب فتح روح پر ہو. "زیر "ہے انسان اور "زبر "ہوجاتا ہے. "زیر سے "زبر "کا فرق جاننے والے کہہ دیتے ہیں نفس حجاب ہے بس وہ خود سے ہم کلام ہے وہ خود پکار رہا ہے، وہ خود حسن کے شہہ کار پہ محو حیرت ہے. یہ میں اپنے پر خود حسن کی شیریں گفتگو نہیں کر رہی بلکہ وہ اپنی گفتگو خود کر رہا ہے. وہی ہے ہر جگہ. اے خدا ہماری روح کی "زیر "کو نفس پر "زبر " کردے آمین