Thursday, November 19, 2020

لطفِ ‏آشنائی

کاش پوچھے کوئی لطف محبت،
 لمحوں میں ہوتی ہے شَناسائی

انسان انسان سے مخاطب ہوتا ہے اور پتا نہیں چلتا ہمیں کہ درمیان میں حجاب ہے اور خدا کلام کرتا ہے ـ جب نفس کا حجاب اٹھتا ہے یا اٹھتا چلا جاتا ہے یا وہ خود چلمنوں سے جھانکے تو لطفِ آشنائی سے واسطہ پڑجاتا ہے. خدا سے ہمکلامی گرچہ عام نہیں مگر یہ یہ محیط مکان سے لامحیط لامکان تک چلتی ہے. انسان چاہے جتنا گنہگار ہو، جس پر لطافت کی باریکیاں عیاں ہوجاتی ہیں وہ جان لیتا ہے ـــ ایسے اوقات جب وہ عیاں ہو تب تب کیفیات استعارہ بن جاتی ہیں ـــ ذات خود صاحبِ استعارہ ہوجاتی ہے ـــ کتنے اداکار ہیں جو کھیل میں شامل ہیں ... دیکھو مگر جب تک اداکاروں میں سچ چھپا نہ ہو تو فریب ہو جاتا سب کام اور اللہ فرماتا ہے 

واللہ خیر الماکرین
خیال ملنے لگ جاتے ہیں، حق کے خیالات صورت صورت مل جاتے ہیں ــ کسی کو جذب صابر پیا کلیری سے مل جاتا ہے تو کسی کے قلم میں ہجر کی آتش رومی سے کہیں خسرو سے مل جاتی ہے ... خیال فیض ہوتے ہیں.  جب برتن صاف کردیا جاتا ہے تب منسلک کا اتصال ہوجاتا ہے یعنی کہ نسبتوں کا فیض، نسبتوں کو مکمل کردیتا ہے ـــــ فیض کیسے مکمل ہوتا ہے؟ جب نفس پر روح کا خیال غالب آجائے ـــ نفس کہتا ہے لا الہ ـــ روح کہتی ہے الا اللہ ــــ فنا مکمل ہوجاتا ہے جب یہ خیال کو شاہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کچھ مل جاتا ہے ـــــ 
ذات کی پریتم اچھی ہے اور خود کی نفی ذات کیجانب لیجاتی ہے ـــــ تب وجدان رہنما ہوجاتا ہے ... تحت الشعور کی روشنی پھیلنے لگ جاتی ہے ــــ وجدان مانند عرق نیساں کا موتی ـــ جس پر نور کے چھینٹے اسکو ایسی روشنی دیتے کہ سب حجابات ہٹا دیے جاتے ہیں ــــ  یہ مقام ایسا ہے کہ افلاک کے گرد زمین کی گردش تھم جاتی ہے  اور سکتہ حیرت میں وہ وہ دکھا دیا جاتا ہے جسے کبھی شعور دیکھ نہیں سکتا

وسعی کرسیہ السماوات والارض 
اسکی کُرسی کیا ہے؟  جب کہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ 

اللہ نور السماوات والارض 

کرسی ـــ استعارہ ہے اسکے اختیار کا کہ جَہاں چاہے جیسے چاہے وہ چلائے کہ ہرشے میں نور اسکا ہے ـــ ہر شے میں خیال اسکا ہے ـــ ہر شے میں اختیار اسکا ہے ـــ  کرسی کا درک و فہم ان پر کھلتا ہے جن کو وہ صاحب امر و دلِ بینا عطا کردیتا ہے ــ دل بینا کا شعور ایسی فراست عطا کرتا ہے جس کے لیے فرمایا گیا 

مومن کی فراست سے ڈرو ـــ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے 

تب بادل کا گرجنا الگ اور برسنا یعنی رحمان و رحیم سے قہاری وجباری کی فہم مل جاتی ہے تو کہیں بجلیاں نشیمن گرادیتی ہیں ..کتنے دل ٹوٹ کے تسلیم کا وضو کرلیتے ہیں ..چاہے وہ شہد جیسا میٹھا گھونٹ بن کے ملے.یا نیزے پر سرکٹانا پڑے ـــ بندہ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا ہے.

انسانوں کی کہیں مثال پہاڑ سے دی جاتی ہے تو کہیں شجر سے دی جاتی ہے ــــ شجر زیتون ایسا درخت ہے جسکو الہام سے شبیہ دی جاتی ہے ـــ جب انسان کا قطبی ستارہ تاریکی سے سحر میں طلوع ہوجاتا ہے یعنی کہ رابطہ مکمل پختہ ہو جاتا ہے تب الہام ذرائع سے ملتا جاتا ہے ــــ جب ذریعہ ذریعہ رہنما ہونے لگتا ہے تب یہ سمجھ لگتا ہے کہ آیت اللہ ـــ اصل میں وجہ اللہ ہے ـــــ جس کو صورت صورت میں یار کی جلوہ گری مل جائے تو اس سے بڑی کامیابی کیا ہو!اس لیے عارفوں کی زمین کا آسمان خدا بذات خود ہوتا ہے 

اللہ نور السماوات والارض 

لن ترانی سے من رانی کا سفر طے ہوجاتا ہے اور آنکھ کو بینائی مل جاتی ہے جب دیکھنے والے ہمیں دیکھیں ... آنکھیں اسکو پہنچ نہیں سکتیں مگر وہ آنکھوں کو پالیتا ہے اور نور.عطا کرتا ہے ــــ جس سے دل دید کے قابل ہو جاتا ہے

انسان کا دل عرش جیسا ہے اور جب جلوے کا احساس ہو تو علم ہوتا ہے وہی محرمِ راز ہے ـــ جہاں جہاں الہام ہے ـــ جب وہ پرواز دیتا ہے تو بیضائی ہالے دل پر کیے رکھتا ہے...جہاں جہاں اسکا جلوہ ہو ـــ وہ مانند پانی.شفاف ہوتی ہے ـــ دراصل یہ راستے وہ خود طے کرتا ہے تاکہ وہ اپنی دید کرے ـــ اسلیے اسکا دل پر مجلی ہونا.راز ہے!  یہ راز کی بات ہے نا وہ محرم راز ہے! وہ دکھ سکھ کا ساجھی ہے ــ وہی ماہی ہے ــــ  ذریعہ ذریعہ اس سے نور چھلکتا ہے چاہے یہ صورت ہو،  چاہے کوئی تحریر ہو، چاہے پتھر ہو   چاہے تصویر ــ  جب نور ملتا ہے تب دل وضو کرتا ہے، پانی مل جاتا ہے اور بندہ کہتا ہے کہ پانی ہے!  پاکیزگی ہے!  طہارت ہے! 

قران کا لفظ لفظ آیت ہے اور روح خود اک آیت ہے ـ  آیت آیت سے مل جائے تو نور علی النور کی مثال سب در وا ہونے لگتے ہیں ..