سلام ہو ان ہستیوں پر جن کا نام لینا بھول چکا یہ دل اور سلام ہو آلِ علی اور آلِ حسنین پر. وہ کشش کا تیر ہے جو پیوست رہے گا دل میِں. محبت کے بس میں کہاں دل میں سمائے، دل پاک نہیں مگر پاک کردیا جائے دل تو دل کو کیسا فخر. دل تو نفس کے مجہولات میں مغوی. پھر کرم کے در کھول دیا جاتا ہے تو رحمت برسنے لگ جاتی ہے. یہ نہر جو لہو میں ہے، یہ چاشنی جو حسن میں ہے، یہ نیرنگی جو خیال میں ہے، یہ افتاد جو طبع میں ہے، یہ خال خال میں چہرہ نقش ہے اور نقش پری ء جمال میں محو ہے. یہ کیا ہے؟ کچھ نہیں! یہ کہتا ہے کہ تو نے دل کتنے صنم وار دیے مگر صنم اک ہی ہے اور ترے حصے بیشمار. تری دوئی ختم ہو تو، ترا چلنا محال نہ ہو اور یوں بیحال نہ ہو. یہ گرمی ء افکار جس سے دل فگار اور تن پر اشجار کا عکس! یہ قیس نہیں جو مجنون ہوا، یہ دل ہے جو مندوب ہوا اور قصہ خوب ہوا
تیر فگن ـ ساکنان بغداد ـ جانب کوفہ ـ لہو میں نہاں ـ دل پر الم کے سائے ـ گردش میں اشجار کے سائے ـ دل کرے ہائے ہائے ـ عین عین ہے وہ نور عین ہے ـ وہ نور العلی ہے ـ وہ نور بطحا یے ـ وہ شاہ بطحا ہے ـ وہ حبیب کبریاء جبرئیل لائے جن پر وحی ـ سلاسل اوہام کے جاری اور مجاوری کرنے والے حسینی ـ قافلہ ء عشق کے پاسدار ـ کرم نے لاگ لگا دی ـ جنم میں نئی آگ لگا دی ـ رگ رگ میں تار لاگی ـ رشتے نے قرطاس پر تحریر لگا دی ـ شامِ حنا ہے، قبائے رات میں وہ
روئے قرطاس پر لہرِ دل جاری، اب کہ جان سے جانے کی باری. یہ نہیں کہا کہ خامشی سے جھانکو بام و در کو. جو کہو وہ سنو اور جو سنو اس پر خمِ دل کو جھکائے رکھو. ساقی میخانہ نے پلائی ہے اور آنکھ ایسی ملائی ہے، نہ ملے نہ ملی کہ ایسے ملی اور ملی تو بنے حرفِ جلی. یہ حرف جلی نہیں کہ دل کی کلی ...