مٹی کے ذرے
لمحہ موجود میں قفس سے روشنی کی شعاع نے اندھیرے میں چراغ کا سماں بپا کردیا تھا ۔ دور کہیں اس اندھیری وادی میں سُروں کے سنگیت پر ایک شہزادی بھاگ رہی تھی ۔ اس کی آواز کانوں میں حلاوت بخشتی جاتی اور وہ رقص کُناں ایک ہی لے کا نغہ روز سنا کرتی تھی ۔ دوران رقص روشنی قفس کے اندھیرے ختم کر رہی تھی ، ملجگے اندھیرے ، سیلن زدہ دیواریں ، روشن ہوتی اس میل کچیل کو صاف کر رہی تھی ۔ جوں جوں روشنی کی مقدار بڑھی ، ساز کی آواز تیز تر ہوتی گئی ۔ شہزادی وصل کے لیے بے قرار رقص میں محو وراء سے ماورا کی طرف سفر کر رہی تھی ۔۔ ہر لمحہ سلگتا، جوار بھاٹے کا من میں شور ، روشنی کا سمندر اس کی ذات کو تقسیم کیے جارہا تھا ۔ صحرا کی تپش میں گلشن کی سیر میں محو نغمہِ آہو کا خاتمہ ہوا ۔ نفرت کی دبیز تہ نے محبت کی روشنی چار سُو بکھیر دی ۔ مٹی کے ذرے ہوا میں اپنا حجم کھورہے تھے ۔ مشرق و مغرب کی سمت سے بے نیاز صبا اپنی دھن میں ان ذروں کی ضوفشانی میں مصروف تھی ۔ رات کے اندھیرے میں سورج اپنی پوری تابناکی سے ان ذروں کے حجم کو واضح کیے دے رہا تھا ۔ جو ذرے ''طوھا کرھا '' اس سمت روانہ ہوئے تھے ۔ تحلیل شدہ ذروں کو نیا خمیر عطا ہوا تھا ۔ بے بسی ، بے قراری ، بے کیفی اور بخارات سے بادل بننے کے بجائے روشنی کے سفر پر ترجیح دیتے یہ خود پر نازاں تھے کہ مقام ایزدی سے جو مقام ان کو ملا ہے وہ کم کم کسی کو عطا ہوتا ہے ۔ تفریق کی مٹی نے اپنا وجود جب واحد و یکتا کے حوالے کرتے یہ نغمہ سنایا
ھو احد
ھو صمد
ھو المالک
ھو الخالق
ھو المصور
ھو الباری
ھو الرحیم
ھو الرحمان
ھو الکریم
اس سرمدی نغمے سے ایک صدا ابھرتی رہی اور وجود فانی اپنی تسخیر پر نازاں یار کے روبرو نظارے میں مصروف تھا ۔
Mery Soch ka Safar /میری سوچ کا سفر