Thursday, November 19, 2020

خیالات ‏کی ‏جنگ

سب سے بڑا خطرہ اندر ہے، باہر سب اندر کا عکس ہے
اک نورانی شکل لیے بابا بولا، جس نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا ...
نہیں، سب خارج سے ہے، درون تو خارج کا عکس ..
اک بدہیئت شکل موٹا جس کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں بولا ... اس نے اپنی تلوار نکالی اور جلاد کی سی سختی لیے مارنے کو لپکا ...
بابے کے چہرے پر سرخی نے رنگ جمانا شروع کردیا .... اس نے کہا پاس حرم ہے، اک بندہ وہاں منادی کر رہا ہے، خوشیاں لے لو، غم دے دو .. تم ایسا کرو اس کے پاس جاؤ ...
کالے بدہیئت آدمی نے جونہی حرم کے اندر قدم رکھنا چاہا، واپس مڑ آیا کہا کہ ساتھ چلو ...
بابا اور بدہیئت موٹا کالا آدمی دونوں منادی کرنے والے شخص کے پاس گئے ...
ابدی خوشی لے لو، عارضی مجھے دے دو ...
یہ ابدی خوشی کیا ہے؟
دیکھ کالا رنگ اس بابے کا ہے، مگر تری کالک نے تو مجھے پریشان کردیا ... تو ایسا کر یہ فیروزہ رکھ ... اس سے تجھے خوشی ملے گی ...
کالے بدہیئت موٹے آدمی نے بابے کی جانب دیکھتے فیروزہ لینا چاہا تو پیچھے ہٹ گیا جیسے کرنٹ لگا ....
میں یہ پتھر لے نہیں سکتا، مرا قبیلہ ناراض ہوگا ... میں تو قتل کرنے کو ارادے سے آیا ہوں .. نیک خیال کو ..
تو گویا تم اک بد خیال ہو، یہ کہتے ہی ندا دینے والے تو تلوار نکالی اور خیال کا قتل کردیا ..
اب کیا ہوگا، اس کا قبیلہ تو سیلاب کی طرح بہتا جائے گا اور ہمیں نگل لے گا ... میں تو مدینہ سے کعبتہ اللہ کو دیکھنے آیا تھا، راستے میں اس کا سامنا ہوگیا ...
مدینے سے آئے ہو مکے میں، راستے میں وہم پال لائے ہو ....
یکایک کالا پانی کسی پہاّڑ کی سرنگ سے نکلنے لگا ... منادی کرنے والے نے آنکھ بھر کے دیکھا ہی تھا اک نیلی شعاع نکلی جس نے پانی کو آگ لگا دی اور وہ جل گیا ....
بابا رقص کرنے لگا .. کہنے لگا خیال پر اس طرح کی بندش ہوگی تو وہم کبھی نہیں ستائے گا ..