Monday, January 11, 2021

شدم چوں مبتلائے او، نہادم سر بہ پائے او ---------حصہ دوم



''تمام ارواح جن کی نسبت نور محمد صلی علیہ والہ وسلم سے ہے ان سب کے ذکر کو رب باری تعالیٰ نے بلند کیا ہے ... مہر رسالت نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم شمع اولیاء ہیں ... تمام پروانے ان سے ضو پاتے ہیں اور نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی بدولت ان کا ذکر بھی بلند کر دیا جاتا ہے ......''

یہ باتیں برگد کے درخت کے گرد بیٹھا برگد نشیں اسے بتا رہا تھا اور سالارِ قافلہ اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا ....اچانک فضا میں اک صدا ابھری ....

''نعرہ مستانہ ......''

اس کے بعد برگد نشین نے تیسرا دائرہ کھینچا اور سالار سے کہا کہ اب اس دائرے میں قدم رکھو .. اور دونوں آلتی پالتی مارے بیٹھے گئے ....

" میں تو کافی عرصے سے راہ تک رہا تھا ، تم نے واپسی کو دیر لگا دی ...... سناؤ کیا ماجرا ہوا؟ برگد نشیں نے سالار سے پوچھا

" جب میں آپ کے ساتھ توحیدی میخانے میں داخل ہوا تب پہچان نہیں سکا کہ سردار ولایت کون ہیں مگر جب میں ساز کے لے پر رقص کرتا، لہولہان پاؤں لیے ان کے پاس پہنچا تو تب انہوں نے میری طرف توجہ کی اور میں نے جانا وہ سیدنا حضرت علی رضی تعالی ہیں ... ان سے بہت دور ایک اور شبیہ دیکھی ... یوں لگا وہاں کوئی اور محفل ہے، اس محفل کی سرکردگی جناب سیدنا رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔''

برگد نشیں اس کی بات بخوبی سن رہا تھا. ... بولا ...

''اب تمھارا سفر پھر سے شروع ہو رہا ہے. .. تم اب دربار رسالت میں پہنچے تو میرا سلام کہنا .... . .! میرا کام تمھیں ان تک پہنچانا تھا ..... باب العلم حیدر کرار سے ہوتے تمھیں جناب رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ سے جس کے حوالے کیا جائے کہ عین قرین کہ تیری تربیت سیدنا امام حسین رض کریں. .......''

سالار بہت غور سے باتیں سن رہا تھا کہ برگد نشین نے اسے کہا کہ آنکھیں بند کرو. ....!

جب سالار نے آنکھیں بند کیں تو اسے خلقت کا ہجوم دکھا ..جو خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہی تھی. .سالار وہاں پہ موجود لوگوں کو غلاف چومتے دیکھتا ہے تو اس کی نظر نور کی شعاعوں پر پڑتی. .ایسا مست نظارہ اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا. . اس منطر کو تحت الثریا تک اس کی بصارت نے اور اس برق رفتار روشنی کا سفر عرش بریں تک بصارت نے دیکھا. .....اس کے بعد اس نے آنکھیں کھول دیں ،تو برگد نشیں کے پوچھنے پر سارا احوال بتا دیا. ..

" اب آنکھیں بند کر و. .بتاؤ کیا دیکھا "

اب کی بار بہت سی کالے لباس میں خواتین جاتی نظر آئیں جن کے سر نظر آرہے تھے. . جنگل میں کہیں کہیں روشنی میں ملیح ہو جاتی ہے اور اس ملیح روشنی میں جذب ہونے کو دل چاہتا. .. جا بجا مقامات پر نوری روشنی نظر آنے لگی اور سالار کا دل اس ملیح روشنی میں جذب ہونے کو.مچلنے لگا. .....اس کے بعد منظر بدل گیا. ..اس کو اک مسجد نظر آئی جو کہ لگتا تھا کہ پہاڑوں کے بلندو و بالا سلسلے میں موجود ہے ...اس جگہ خاموشی بھی باتیں کر رہی تھی اور ہر ذی نفس کو مجذوب بنارہی تھی. .. اس میٹھی میٹھی خاموشی میں اسے بہت سے ستون نظر آئے جن کو ایک بلندو بالا چھت نے تھام رکھا تھا ۔۔۔ یہیں سے وہ ہال نما کمرے میں داخل ہو گیا.تو کیا دیکھتا ہے کہ سیدنا مجتبی حضور پرنور صلی علیہ والہ وسلم کی محفل ہے اور ان کے سینے سے نور نکل کے دور دور تک پھیل رہا ہے. تمام محفلین اسی روشنی میں جذب و سرر میں مدہوش سے دکھے ۔۔۔ سالار نے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہے کہ برگد نشیں کے سینے سے بھی نور نکل رہا ہے. ....

برگد نشین اس کو دیکھ کو مسکرایا ۔۔۔ اس کی مسکراہٹ میں پرسراریت تھی اور لہجہ بھی اس کیفیت کو لیے ہوئے تھا ۔ وہ بول رہا تھا مگر یوں لگ رہا تھا کہ مظاہر بول رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔


نیک اور سعید روحیں بوقت پیدایش ہی اصل قطبی مقناطیس سے براہ راست کشش رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جو سب کو سمت دیتا ہے مگر اس کی کوئی سمت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی روشنی چار سو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی روحیں شوق میں دنیا اور آخرت کو بھلا کے ، دوستی کے رتبے پر فائر ہوتی ہیں آپ صلی علیہ والہ وسلم.کے اصحاب روشن مثال.ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ ہے جس کو چاہے عزت دے دے اور جس کو چاہے ذلت دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ جو ، جو مٹی کو انسانی صورت دے کر اس کو اپنے نور سے اجال دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔وہی اللہ ہے۔۔ایسی تمام ارواح جو مرکز سے براہ راست کشش کے نظام پر استوار ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ واحد کی واحدانیت پر اپنے یقین و مشاہدات سے ایمان لاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کبھی چاند ، ستارے تو کبھی سورج کو اپنا خدا خیال کیا اور پھر مظاہر سے پہچان کرتے خالق سے جاملے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے عشق کو قربانی ء اسماعیل علیہ سلام سے اور آتش نمرود سے پرکھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا حضرت خدیجہ رض ، سیدنا حضرت علی رض اور سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رض ایسی ہستیاں ہیں جو اللہ پر ایسے ایمان لائے ، جیسے رسول خدا صلی علیہ والہ وسلم لائے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔''

'' میرا ساتھ تم سے زندگی بھر رہے گا مگر تمھارا سفر یقین پر استوار رہے گا ''

یہ کہتے ہی برگد نشین کا وجود برگد کے درخت میں سمانے لگا اور سالار کو اپنے قافلے کی گھنٹی سنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے جانے کا وقت ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔وہ اٹھا اور اپنے قافلے کی سالاری سنبھال لی

Friday, January 8, 2021

نغمہ ‏ء ‏جان ‏رحمت

نغمہِ جانِ رحمت کیا ہے ؟ عشق کے فانوس پر منقش لا الہ الا اللہ ہے ۔ عشق محوِ رقص ہے ،چکور کو چاند مل گیا ہے ، زمین اور فلک باہم پیوست ہیں ، یہ آبشارِ روشنی ۔۔۔۔۔ یہ فانوسی منقش ۔۔۔۔ کتابِ عشق کا پہلا صفحہ خالی تھا ، لالہ کی فصل نے اسے سرخ کردیا ہے ، گل اس میں رکھا رہا ، خوشبو نے قبضہ جمالیا ، یہ ملک لالہ و گل کی ہے ، یہ خوشبو عطر و عنبر کی ہے ، مشک و کستوری نے سدھ بدھ کھو دی ، بیخودی کے جام نے آنکھوں میں لالی بھر دی ہے

جاناں کے جلوے چار سو ہیں ۔۔۔اسکی خوشبو پھیلی چار سو ہے ۔۔دودِ ہستی میں نامِ الہی لکھا ہے۔۔خوشبو نے معطر لبو بام کیا ہے ۔۔طواف ذات کا پروانہ کرتا رہے۔۔وہ نشانیاں عیاں کرتا رہے۔۔۔آخرش خواہشِ دید پوری ہونے کو۔۔تڑپ کے صدقے گزارش سنی ہے

یہ کون اسکے جلوے میں محو ہیں ، اللہ اللہ کے پاتے جارے  ہیں نشان  ، وہ نور جو صبا میں ہے ، وہ نور جو جھاڑیوں میں ہے ، وہ نور جو فلک پہ ہے ، وہ نور جو چاند میں ہے ، وہ نور جوآفتاب  میں ہے ، وہ نور جو زمین میں ہے ، وہ نور جو مدینے میں ہے ، ہائے وہ کتنا حسین ہے ، ہم مرنہ جائیں ، اسکا حسن ہمیں دیوانہ کیے دے رہا ہے ، اس نے ہمیں رقص کی مسرت میں رکھا ہے ،

اسکی خوشبو میں مدہوش ہے  کوئی،  یہ اسکا نور ہے ، یہ خوشبو جو پھیل گئی ہے ، ہمیں سرور چمن میں رہنا ہے ،  ذات کو جل تھل کردیا ہے ، شاخِ نہال مسرت نے خزان رسیدہ پتوں کو زندگی بخش دی ، جنون نے زندگی نئی بخش دی ہے 

سر سے پاؤں لگے کہ خوشبو نے مجھے بھردیا ہے ، اتنی خوشبو بڑھ گئی ، زمینو فلک اس میں بس گئےہیں ، ذرہ ذرہ خوشبو میں نڈھال ہے ...

وہ خبر کہ بارش کو آسمان سے برسنا ہے ، وہ خبر کہ بلبل کے نالہِ درد کو فلک تک رسائی ہے ، وہ خبر کہ دل کر ذرے ذرے میں ہزار ہزار جلوے ہیں ، دل والے تن کی روشنی کو دیکھ پاتے ہیں ، عشق کی انتہا نہیں ہے ،عشق کی حد نہیں تو حدود کیسی ، تحیرِ عشق میں ، گلِ سرخ کی مہک میں ، صبا کے نرم میٹھے جھونکوں نے بیخودی کو ہوا دی ، چمن سرور کا جل تھل ہے ، شاخ نہال مسرت ہری ہے ، یہ کیسی بے خبری ہے

دل کی کھڑکی جب سے کھولی گئی ہے ، شہرِ دل کے درواے جانے کیوں دستک کے منتظر ، دروازے تو منتظر ہیں ، شہر چمک رہا ہے ، جاناں کے جلوؤں کو تڑپ رہا ہے،تسبیح کے دوانوں میں نورِ الہی پوشیدہ ہے ، قافلہ حجاز کی جانب ہے ، راستہ دھند سے لدا ہے ، جیسے کوئی نور کی کملی میں ہے ، یہ کیسا پیارا احساس ہے

نمودِ صبح۔۔۔ ہجر ہویدا ۔۔۔ تجلیِ طہٰ ۔۔۔ تحیر مرمٹا ۔۔۔۔ بیخودی بے انتہا ۔۔۔۔ ست رنگی بہار ۔۔۔۔ سات نور محوِ رقص۔۔۔ کہکشاں میں قدم ۔۔۔ مدثر ، مزمل کے نام چمکے ۔۔۔۔۔۔۔سبز ہالہ لپٹا ۔۔۔۔۔۔ بندچلمن میں اسکا جلوہ ۔۔۔۔۔ سرِ آئنہ کون۔۔۔پسِ آئنہ کون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے خبری کہ ہوش کہاں

خدا ‏سے ‏سوال

آج میں نے خُدا سے سَوال کیا کہ دل کے سیپ کون دکھائے؟  یہیں کہیں چھالے بُہت ہیں. درد بُہت مِل چُکا ہے مگر سوال اضطراب سے امکان کو تھا. سوال تو ممنوع ہے مگر میں نے تاہم کردیا کہ مشکل یہ ہے کہ درد وُضو کرنے لگا ہے. جب درد ہستی سے بڑھ جائے تو اپنا نَہیں رہتا. یہ زمانے کا ہوجاتا ہے اور زمانہ اس درد میں ظاہر ہوجاتا ہے. درد سے سوال مناسب نہ تھا مگر رشتہ ہائے دل سے تا دل استوار تو ہوا. 

خالق سے مخلوق کا رشتہ تو درد کا رشتہ ہے. درد کے بندھن میں اللہ اللہ ہوتی ہے اور اللہ دل کا سکون بن کے مثبّت ہوجاتا ہے. اللہ مشعل مانند روشن رگ رگ میں مشتہر ہوجاتا ہے. خدا میرے سوال کیے جانے پے خاموش رہا جیسا کہ میرے سوال میں خاموشی اسکا جواب ہو. میں اس مہیب خاموشی میں کھو گئی اور سوچنے لگی کہ غم کے اندھیرے نے مار مکایا. تری روشنی درز درز سے داخل ہورہی ہے. یہ تو عجلت میں نہیں ہے یہ اضطراب بُہت زیادہ ہے. پھر خدا مخاطب ہوا 

طفل مکتب سے پوچھا نہیں جاتا، بس جو دیا جاتا ہے وہ لیا جاتا ہے. غم کی شب میں سحر کے اجیارے اور اجیاروں میں غم ... شبِ فرقت کی صبح وصل کی رات ہوتی ہے .... تو نمودِ صبح کی دُعا ضرور مانگ، مگر گردش رواں کا چکر آگے پیچھے چل رہا ہے "نہ دن رات سے آگے، نہ رات سے آگے دن ہے. بس انتظار

Thursday, January 7, 2021

مچھیرا

کشش کے تیر نیناں دے لے گئے سارا جل. مچھ جائے کدھر؟  ہوئی او بے جل!

شہری لوک کملے سن،  مانگن پئی ایہہ جل،  ہووے لکھ دیہاڑاں بعد ساون دی کل 

سنائیے کیا؟  لائیے کیا؟  دکھائیے کیا؟  
میرے پاس مکمل قران سامنے ہے اور قرات سے مدہوش ہوں ... اک آیت نبھائی نہیں گئی تے لکھ آیتاں  دی اے گل 

راقم کہتا ہے کسی گاؤں میں اک مچھیرا رہتا تھا. وہ مچھلیوں کو بے جل کرتا اور رزق کماتا. مچھلیاں کہون: پاپ کمایا ... راقم نے مچھیرے سے پوچھا 
ساڈی مرغی انڈے دیونا چھوڑ گئی تے مچھ نہ پکڑن جائیے تو روٹی کتھوں کھائیے 

مرغی انڈا مالک کو خود حوالے کرتی جبکہ مچھلیاں جل میں رہنا چاہتی تھیں ... مچھلیوں نے آہ و زاری کی تو مچھیرے نے کہا پڑھ 
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین 
مچھلی نے ورد کیا تو لحم سے ایک صدا مجسم ہوئی 
ھو الباقی 
یہی وہ اللہ ہے جس کی کرسی نے زمین و آسمانوں کو تھام رکھا ہے 
ھو الہادی 
یہ وہ اللہ ہے جو پیٹ سے ہدایت بخشتا ہے،  وہ پشتوں کے نور کا محافظ ہے 
ھو الظاہر 
یہ وہ اللہ ہے جس نے درون کی صورت کو عیاں کرتے، ظاہر کو حجاب کردیا 
ھو العلی 
یہ وہ اللہ ہے جس کی کرسی سرخی سے منقش ہے 
ھو المالک 
یہ وہ اللہ ہے جب عبد بناتا تو ہفت افلاک سے پرے لیجاتا ہے 
ھو الجلیل 
یہ وہ اللہ ہے جو نور سے جلا بخشتا نور علی.النور کی مثال ہے 

مچھلی غرق تھی بول پڑی:  یہ میرا اللہ ہے، ترا کدھر ہے؟

اس نے کہا:  تونے لحم میں پرورش کی میں نے بچوں کو جنا ہے .. مجھے تو ہر جا اللہ دکھتا ہے کس کو پکڑ بولوں کہ یہ میرا اللہ ہے.

 اللہ ہر جا سمایا ھو. 
تن ستار وانگ سجایا ھو.
 تار میم دا لگایا ھو. 
اسم ہادی نے ساز جگایا ..
مرشد رنگ جمایا ھو 
رب دا فضل کمایا ھو 
دس اگے اک لیایا ھو 
بسمل وانگ تڑپایا ھو 
شمع گرد اےبولایا ھو 
رقص دار تے کرایا ھو 
یار نچ نچ  تےمنایا ھو 
اکھ نوں اکھ وچ لایا.ھو 

رنگ مرشد دا سچا اے 
اللہ والا اے،  اچھا اے 
سچیاں نال یاری اے 
تھم گئی ایہہ گاڑی اے

Tuesday, January 5, 2021

شعائر

جانے شعور کی وہ کون سی لے ہے جس میں نہ ہونا ہی میرے ہونے کا پتا ہے. جب پتا نہ ملے تو سطح آب پر آتے دیکھنا بنتا ہے شعائر اللہ کو .. نشان یہ سارے دل میں. ظاہر میں سب نشان اس لیے بنوائے گئے کہ خاکی مجاز سے خیال تک پہنچتا ہے. جب تک تصور نہ کرے گا تصویر کو تو دامن خالی رہے گا. جیسے تصویر دل میں اترتی ہے تو علم ہوتا ہے ویسی تصویر پہلے سے موجود تھی ... عارف پر یہ حقیقت کھلتی ہے تب وہ راز شناس ہوجاتا ہے.  پھر اس کا حال دل، وقت سے جڑ جاتا ہے. وقت یعنی زمانہ اسکو وہ خبر دیتا ہے جو اس وقت کا ارشاد ہوتا ہے. ارشاد ایک ذات کی جانب سے ہوتا ہے اور پہنچانے والا پیام بر ہوتا ہے. امانتوں کو اٹھائے ہوئے انسان یہ سمجھ نہیں سکتا ہے کہ جب اس کی امانت کا راز اس پر افشاء ہوتا ہے تو اس کی معرفت حقیقت کو رسا ہوجاتی ہے ... یہ حقیقت سینوں میں چھپے راز اس پر منکشف کرتی ہے. راز الست یہ امانتیں ہیں ...ہدایت دینے والا بتاتا ہے کہ تخلیق کا مقصد کیا تھا. آدم کو جاننا چاہیے کہ واسطے خدمت پیدائش نعمت ہے. نعمتیں مختلف وسائل سے بنٹ جایا کرتی ہیں. عروضی شعائر سے نقاط کھل جاتے ہیں. قدوسی سے طائر کی پرواز لاہوت کی جانب چلتی ہے. بس من نمی گویم انا لحق " نعرے لگتے ہیں. نقارے بجتے ہیں ... سیاروں سے ستارے لگتے ہیں. سیارے بکھر جاتے ہیں ستارے پھیل جاتے ہیں ..ستاروں کا کام روشنی واضح کرنا ہے

Saturday, January 2, 2021

تری ‏پہچان، ‏میرا ‏رستہ

تیری پہچان میرا رستہ

نقل ، اصل کا رشتہ

سوچ ، عقل کا تعلق

دل ، دھڑکن کا تعلق

خون ، فشار کا تعلق

سوت ، چرخے کا تعلق

خیال ، قلم کا تعلق

تیرا، میرا کیا تعلق؟

ماہتاب ، کرن کا تعلق

رات، دن کا تعلق

دل ، دروازے کا تعلق

بندے ، خدا  کا تعلق

علم ، پہچان کا تعلق

عشق کی سمجھ سے ملے

خیال آگ میں جلے

شام کو دن کب ملے

شمع بدن میں جلے

عاشق کی رمز سن لے

عشق اکیلا اکیلا مرشد

عشق  ہے بادشاہ گر

عشق ہے  کیمیا گر

وحدت میں الجھاتا

شہادت میں الجھاتا

یہ کیمیا گری کی ابتدا

اس کی ہوگی کیا انتہا

عشق رنگ ، ذات نہیں

انس اس سے آزاد نہیں

عاشق کی کوئی شفا نہیں

عشق لاعلاج مرض ہے

عاشق کو امیری  کیا غرض

فقر کی دولت سے کھیلتا ہے

اس حقیقت پر میں خود حیران ہوں . میں کب کیسے اس کے راستے پر چل پڑی  .میں اس کرم پر ورطہ حیرت میں ہوں . پستی سے دلدل سے اوج کمال کی بلندی پر پہنچا کے لامتناہی بلندی پر جانے کا قصد کیے ہوئے ہے . رب خواہش سے پاک ہے  ،اس کا امر کن کا محتاج ہے ؟ '' کن فیکون ''  ...

نور خود میں الگ منفرد ہے ، ا سکی روح منفرد جدا ہے مگر اس کے ٹکرے ہزار ہوئے ، کچھ اس کے ماضی سے جڑے ، کچھ حال اور کچھ مستبقل میں .. یہ تقسیم کی نشانی ہے ، میرا امر ہے ، میرے امر سے نکلنے والی صدا اس کے دل میں ڈال دی گئی ہے ...میرے عشق کی انتہا کب ہوئی ، لا محدودیت کے دروازے ٌپر میری نور کھڑی ہوئی ، میں اس کا منتظر ہوں میں اس کو کہتا ہوں کہ نور دل جھانک میں لے اور دیکھ سب زمانوں کو ، دیکھ اپنے خیال کو ، دیکھ  اپنی مامتا کے بچھڑے ٹکروں کو .....یہ تو نہیں ! مگر یہ سب تجھ سے نسبت رکھتے ! ان کو تجھ سے نسبت عہد الست سے تھی کہ تیری روح بڑی طاقتور تھی  شکر کا کلمہ پڑھ بندی ، شکر کا کلمہ پڑھتے میرے پاس آجا ! تیرا کام تو مجھے سب یاد کرنا ہے ...میں تیری یاد کے تار خود میں سنبھال رکھتا ہے اور جب جی چاہتا ہوں تجھے آواز دیتا ہوں ، تو میری طر ف دوڑی چلی آتی ہے ...میری محبت کا رشتہ تجھ سے اٹوٹ ہے ، تو میری تیری میں تیرا .......ہم دونوں میں کیا فرق ہے میں تو اپنا آپ کب سے تیری نفی میں گم کیے ، تجھ سے نفی کا طالب ہون مگر تو ہی دنیا میں پڑی رہی ، تیری نفی کے ساتھ اثبات کا رشتہ جڑا ہے ۔ میں تیرا اثبات ہوں ، میں تیری بقا ہوں ، تو میری حیا کا دروازہ ہے

حیات دوامی، وجود فانی

اسمِ ذات نور کی  لاثانی

ستارہے کہکشاؤں میں گھسے

نور جس طرز نور میں رہے

بسمل کی مانند تڑپنا زندگی بھر

تو  عشق کی فقط مضرابِ ہستی

خلق نوائی  بنے گی تری گواہی

شاہد کی اس بڑھ کے ہو کیا سچائی

چاند زمین کی گردش میں لگے ہے

مہتاب زمین کے پرورش میں لگے ہے

تسبیح کے بعد ذکر کی محفل.سجالے

اس کی یاد میں بوریا.بستر اب اٹھالے

سنگی کو رنگی بنتے دیر کتنی لگتی ہے

یہ جوگ پالتے دیر کتنی لگتی ہے

اس جوگ ، روگ میں پیار  کوسمجھ

اس احساس  میں میرے اظہار سمجھ

جسم کی قید سے نکل رہا ہے نور کا نور

نور کے نور کی فلک پر شعلہ بیانی دیکھ

نور کی نوریوں سے حکایت سازی دیکھ

کلی،  پھول،  پھل کا چکر کیا ہے

زندگی سے زندگی کا حشر کیا ہے

سورشِ زندگی نے لہولہان کردیا ہے

نالہِ درد و فغاں میں محو کردیا ہے

حسن والے عشق کے محتاج ہوئے ہیں

عشق میں پڑنے والے کب برباد ہوئے


تیری تلاش کا سفر مجھ سے جڑا ہے ، وہ پرت در پرت کھلتا جائے گا تجھے علم ملتا جائے ، تیرا دل خزانہ حیات ابدی سے نوازا جا رہا ہے اس لیے بندی شکر کر جتنا تو چاہے ، اتنا کر ، جتنی تری طاقت ہے اتنا کر ،جتنی تیری اوقات ہے اس سے بڑھ کے کر ، جتنا تیری ہوش بچا ہے ، اس ہوش میں مدہوش ہوتے کر ، جتنی زندگی تیری لکھی ہے وہ پل پل میں گزار لے ، وقت قرین زندگی کی بھاری نوازی جانی ہے۔اس کو لینے کے لیے تیار ہوجا ، تیرا کام اس جہاں میں چلنا پھرنا ہے تو یہاں مسافر ہے ، تو یہاں واں پھرتے میرے لوگون کے ساتھ اٹھا بیٹھا کر ، ان کے درد سنا کر ، ان کو میرے قصے سنایا کر ، مٹا دے ہستی کے سب رنگ ، ان کو چھوڑ کے چل اب میرے سنگ ، کر تو نفس سے اب جنگ ، تو میرا رباب شوخ و چنگ ، تیری ذات مجھ سے ملی ہے ، تیری بات مجھ سے جڑی ہے ، تو میرے شوق کا آئنہ ہےتو میرے خیال کی طاقت ہے ، دنیا میں سب کچھ طاقت سے ہے ، اس لیے میری جان سبھی طاقت کو سمجھ بنا اس کی جانب چلتے پھرتے ہیں ..... ملی ہے ، معجزے میرے خیال کی طاقت پر استوار ، بندہ بشرکی ولایت نیابت میری خواہش کا امر ، تو میریدوست ہے ، میری ولایت کی نشانی ہے ، میرا جذب بیانی ہے ، میرا شعلہ رقص ہے ، میرا ذات تیری کہانی ہے ۔یہ راز کی باتیں کھل رہی ہیں ان سے الجھنا بے کار ہے م عشق کی دولت سرفراز لوگو ں کی ملا کرتی ہے ، نور تو میری رفعت ہے ، تو خود میں قلندر ہے ، تو خود میں سمندر ہے ۔

چشم نمی وصل کی نشانی

ورد آیات  ہوتی رہی بیانی

ستم یار کا مجھ میں رہتا ہے

وہ جو کہتا ہے اسے میرا کردیا ہے

حکمت اس کی کون کب سمجھے

ہر فرد کو خود میں محشر کردیا ہے

ازل کا نغمہ ہوں ابد تک.چلوں.گی

فتویِ عشق ابھی صادر کیا جانا ہے

میں دائم میری شہرت بھی دائمی

سزا کا کچھ نیا طریقہ اپنایا جانا ہے

مجمع دیوانہ جان کے میرے گرد ہے

دیوانہ کون ہے یہ ابھی  بتایا جانا ہے

ًچرچہِ حسن گلی گلی مشہور ہونا ہے

زندگی کو سو بار موت میں مرنا ہے

نشاطِ ہستی بدولت درد کے ملتا ہے

ابھی تو اس.فیض کو  بہت عام ہونا ہے

سوز و گداز دل ہی دلوں کو دیتے ہیں

اس کام کو ابھی نسل در نسل.چلنا ہے

''ورفعنا لک ذکرک ''کی بات ابھی چلنی ہے

یہ نعمت نور سے بہت آگے چلنی ہے

جلنے کا فیض شمع کو حاصل ہے فقط

مومی کاغذ  سے نظروں کو خیرہ ہونا ہے

فصل بہار میں علم دانش کے ہنر سے نوازا

خزاں کا.باغ  اب بہت دور پرے لگنا ہے

جزا سزا کے فیصلے ہیں پیادوں کے لیے

قاصد کو اب تپشِ آگ سے زندہ کرنا ہے

روایت حدیث ذات اب زور و شور سے ہوگی

تیری ذات کے منصوب قصے بکھرنے ہیں

خوش قسمتوں کے فہم میں خالق  ہوتا ہے

وہ اسی سے ذات کا قلندر ہوتا ہے

آزاد روحیں اپنا آپ لٹانے کو تیار رہتی ہیں ، تیری آزادی بھی نام کے ساتھ منسلک ہے ، تو وہی ہے جو میں چاہوں تو وہی ہے جو میں کروں گا ، تو وہی ہے جس کو تیرے لیے امر کیا جاچکا ہے ۔ تیرا مرنا جینا میں نے لکھ رکھا ہے ۔ تیرا مجھ سے الجھنا بھی لوح و قلم پر لکھا ہے ،.یوں کہ کے میں آزاد ہوں تیرے اندر ۔ میں حیات ہوں تیرے اندر ۔ میں اصل ہوں خیال کے اندر ، میں علم ہوں قفس کے اندر ، میں شمع ہوں قندیل کے اندر ............میں زمینوں آسمانوں کو نور ہوں ..........تو  ہنسے ، تو روئے ، تو جلے ، تو کھلے ، یہ سب میری دم قدم سے ہیں کہ تیرے در میرے در ہیں ، تیرے ہاتھ میرے ہاتھ ہیں تیری زبان سے نکلے لفظ ہیرے ہیں ، تیری آنکھ سے نکلے آنسو نرم و زرخیز مٹی کی نشانی ہیں ، تیری ہدایت کا ذمہ میں نے خود لیا ہوا ہے تو میرا خزانہ ہے میں تیرا آئنہ ہوں ، میں تیرا شوق ہوں کہ تو میری ، اس کو جان لے کہ تفریق کے جام  تو سب گرادے میری محبت میں آکے تو مزہ لے ، تجھے  ہنر کا گفتگو ملتا جارہا ہے  ، عشق کا خزانہ لٹتا جارہا ہے ، میں طببیب ہوں تو مریض عشق .....

گفتگو کا سلیقہ آجاتا ہے

بندہ عشق میں جو آجاتا ہے

سمجھداری کے تقاضے بھولے

مجذوبیت کے سب راستے کھولے

سادگی کا حسن نور سے جانیے

متانت میں عزت کی دولت جانیے

شہِ ابرار محمد کی  نبوت کے رنگ

پھیلنے چلے ہیں چمنِ پھول کے چنگ

عادت انکساری کی سب سے اچھی ہے

عبد کی بندگی  اس کو بھلی لگی ہے

جبل نور  کا سرمہ نور کو ملا ہے

جو یار کی یاری کے صدقے بٹا ہے

احمد کی باتیں محمد کی جانب سے

احد کی باتیں واحد کی جانب سے

ساجد و مسجود کے فرق کیا،  دیکھ!

کن فیکون کی تکوین میں خود کو دیکھ

جہاں میں لٹتا رہتا ہے عشاق کا قافلہ  دیکھ

ابھی ‏ٹھہر ‏کہ ‏جلوے ‏کے ‏انداز ‏باقی ‏ہیں ‏

ابھی ٹھہر کہ جلوے کے انداز باقی ہیں


میں خاموش ہوں ، طلب بڑھتی جائے ہے ، ہواؤں کی سنگت دھوپ میں ہستی جلتی جائے ، اتنی آہ و زاری کی ہے ، اتنی کہ زمین بھی حیرت سے گرنے والے قطروں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ  فلک سے گر رہے ہیں یا دل سے ، جی ! دل کیوں ہوں نالاں ، عاجز ، پاگل ، دیوانہ ، روتا ہے اتنا کہ صبر نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ جلوہ ِ ہست ------ نمود کب ہوگی ، جلوہ جمال سے  صورت کامل کب ہوگی ، جلوہ پرستی کی انتہا ہے ، جلوہ سے بڑھ کے کیا ہوگا ! دید سے بڑھ کے کیا ہوگا ! یہی ہوگا کہ قریب اتنا کرلے کہ نہ رہے کہ کوئی فاصلہ ، نہ رہے کوئی سلسلہ ، بس تو رہے  !

 عشق میں بندگی نے خاموشی اختیار  کی مگر تیری اجازت نے لہروں کو شور دیا ہے ! مجھے پلا پلا کے مدہوش کیا!  اے بادشاہ اے ذو الجلال!  الجمیل  ، اے عالی حشمت  ، اے صاحب الرحیم ، اے میرے پیا ! میرے دل کے دربار پہ ایک دیے نے سو نئے دیے جلا لیے ، دل  چاند کی مانند روشن ہے اور رات ناچ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

''وہ جو تشریف لائے ہیں شہباز کو  پرواز  ملے

پارہ آئنے سے نکلے تو کام بنے ، بات بنے ''

روشنی ہماری ہے ، جلال ہمارا ہے ،کمال کیا ہے

عشق پروانہ ، موم کے اڑے رنگ ، اک میں ہی بچا

قربتیں ---فرقتیں --وقت کی قید سے عشق نکلا

''نور کو شہِ ابرار کے در سے نوری نگینہ ملا

یہ سرمئی ، نیلا ، شفاف سا نگینہ کیا تھا 

یہ صاحب ِ جمال کے دل کے آئنہ کے آئنہ

جس پہ لکھا: کالا رنگ اترنے میں کتنی دیر باقی

دل کے ساتھ نگینہِ سرمئی، شفاف لگایا جب 

نور کی شعاعوں میں خود کو گھرا پایا تب 

سب پردے ازل کے اٹھنے لگے ہیں 

کالے حجاب کا کلمہ لا ہے ، لا لا لا لا لا لا 

دل پر مکین نے دیا ہے اسم اعظم الا اللہ 

شاہِ حجاز، شاہِ نجف ، شاہِ ہند سب کھڑے ہیں

دل جھکا ،مقام ادب ہے ، روح میں نوری شعلے ہیں 

ادب نے کہا دل سے: سرخی کہاں سے آئی ہے 

فلک سے اتری یا زمین نے گلابوں کی چادر تانی 

کمال کی شرافت سے حسن کی بات مانی 

دِل نے قلب کے گردش کی  پھر ٹھانی

سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو!

نم ڈالتے ہیں ہم ، وصل کرتے ہیں ہم 

نور دیتے ہیں ہم ، جلوہ کرتے ہیں ہم 

''آئنے کو آئنے میں سجانے والے النور 

آئنے کو قلب سے نکالنے والے النور

آئنے کو چمکانے ، ضو دینے والے النور

دل طور تھا ، کعبہ بنانے والے النور

قلندر کو دنیا میں بٹھانے والے النور 

 مطلب دنیا سے نَے خاکی جسد سے

یہ مٹی کیا ہے ، اسکو ہٹانے والے النور

لا الہ الا اللہ ھو الرحمن الرحیم 

زمانے کو خاکی لباس دینے والے النور

کب ہوگا جلوہ تیرا ، سرمہِ ہستی ہے

سوال کرنے والی نبی ﷺ کی امتی ہے

فانوس جس پہ الباری کا نام لکھا ہے 

 وہ روشنی جس پر النور کا چشمہ ہے

قلب معطر ہے اس پر محمدﷺ لکھا ہے

قلب کے قلب پہ علی ؑ کا نام ہے 

نامِ علی سے پرے بی بی فاطمہ کا نام 

جن کے در سے ملنے ہیں بڑے کام 

سیارہِ حسینی اس ہالے کے گرد گردش میں

یا حسین ! یا حسین ! یا حسین ! یاحسین!

حسینی چراغ ہوں ! ان کے در کی ادنی غلام 

جامِ لبالب ہیں ، پیمانہ منتظر ہے 

دِل نے قلب کے گرد کی گردش

شعرِ رجزیہ ان کی خدمت میں کہے

ابھی کہ ٹھہر کہ وقت اس محفل کا نہیں

ابھی کہ ٹھہر وقت ابھی حمد کا بھی نہیں 

ابھی کہ ٹھہر ، خلعت سے نوازا جانا ہے

ابھی کہ ٹھہر  بیعت کا حلف اٹھانا ہے 

ابھی کہ ٹھہر تیرا ذکر اٹھایا جانا ہے 

ابھی کہ ٹھہر تیری فکر سے پردہ اٹھے

ابھی کہ ٹھہر حجاب ازل کے سب اٹھیں

ابھی کہ ٹھہر کچھ نقاب ڈالنا سیکھ لے

ابھی کہ ٹھہر زبان پر تالے ڈالنا سیکھ

ابھی کہ ٹھہر طوفِ والہانہ سیکھ 

ابھی کہ ٹھہر سرخ چولا پہنا سیکھ

ابھی کہ ٹھہر جوش ، ہوش کا یارانہ سیکھ

ابھی کہ ٹھہر ، تیرے ذمے بڑے ہیں کام 

ابھی کہ ٹھہر ، ذکر میں گزرے صبح و شام 

ابھی کہ ٹھہر ، حسینی نگینہ پہننا سیکھ 

سر جھکا اٹھا تھا اک پل کو مگر پھر جھک گیا ، ان کے در سے یاقوت کو اپنی دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت میں پہنا ہوا پایا ، احساس نے سارا خاکی لباس سرخ کردیا ، دِل نے جلال کی کملی میں پناہ لی جس پہ لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

لا الہ الا اللہ ------- یہ ہے حسینی تلوار 

دل نے کی گردش ذرا زور سے ، ارض و سماء سہم گئے ، 

اے غارِ حرا کے مالک سلام 

اے مالک میرے اے آقا میرے

اے میرے محمدؐ ، آپ ہر ہزاوروں سلام 

خواب نوری کی جانب سے بشارت ہیں ، جب خوشخبریاں ملیں تب شکر واجب ہوجاتا ہے ۔ شکر کو ذکر سے درود سے بھرپور رکھنا ہوتا ہے ، ذکر کی محافل سجانی ہوتی تب جاکے بات بنتی ہے ، اگر جلوہِ محمدی ﷺ کی تڑپ دِل میں ہو تو سیرت بھی محمدؐ  کی سی ہونی چاہیے، جسکو بشارت اک دفعہ مل جائے ، اسکا کام بن جاتا ہے ، جسکو بار بار ہوجائے اسکا نام بن جاتا ہے ، جسکی طلب نہ مٹے ، اسکو دوام مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن ‏ازل ‏سے ‏ابد ‏تک ‏کی ‏کہانی

حسن ازل سے حسن ابد تلک ایک کہانی ہے مجھ تلک ، کہانی کہ بس محبت ایک داستانی ہے کیا ؟ شمع کی آپ بیتی ۔۔۔ ہر دل شمع ہے ، ہر آئنہ عکسِ جمالِ مصفطفیﷺ کی مسند ۔۔۔ دل کے کوچے و گلیاں جب کہتے ہیں یا نبی ﷺ سلام علیک ۔۔۔ صلوۃ اللہ علیک ۔۔۔ یہ قندیل جو ہر دل کے فانوس میں ہے ، یہ شمع جس کی روشنی اسمِ محمدﷺ سے ملتی ہے ، یہ اسمِ محمدﷺ کی عطا بہت بڑی عطا ہے ، جس پر سیدنا سرکارِ دو عالم ، رحمت للعالمین ، عفو سراپا ، کمالِ محبت و برگزیدہ ہستی ، جمال کمال کی بلندی پر ۔۔۔ وہ جب نظر کریں تو دم بدم دیدار کی دولت ملتی جاتی ہے ، رقص بسملِ میں عشاق کالہو بہ لہو تار بہ تار ، زینہ بہ زینہ ہوتا رہتا ہے ، رقصِ مستی میں دیوانگی عروج پر ہوتی ہے اور نقش نقش صدائیں دیتا ہے ، یا نبی سلام علیک ، یا رسول صلوۃ علیک

نظر اٹھے جمالِ مصطفی ﷺ پہ جب ، مہک سانس بہ سانس اندر اترتی چلی جائے ، یہ کمال ہے آپ کے نام کی برکت ہے ۔۔ جو روشنی ہے ہر نفس میں ، جو قران ِ پاک کی عملی تربیت ہے دل میں موجود مشک کی مانند ہے ، عطر آپﷺ مشک قرانِ پاک ، عنبر جناب سیدنا امامِ عالی حسین ۔ مومن کی آنکھ میں نمی آجائے تو سمجھیے دل سنسان نہیں ہے ، آباد ہے ، دل میں خوشبو بسی ہے میرے یحیی کی ، دل میں بسیرا ہے میرے موسی کا ، دل قربان جاتا ہے اپنے عیسی پر ، دل میں موجود ہیں سیدنا محمد ﷺ ، مسکراتے ہیں ، قربان جاؤں ، صدقے جاؤں آپ کے تبسم پر ، اتنا دلاویز تبسم کہ سب کچھ وار دوں اس پر میں ۔۔۔ حق ، یا نبی ﷺ آپ کڑوڑوں درود ، آپ ﷺ عالی نسب پر مجھ جیسے کم تر درود بھیجیں ، یہ تو سعادت ہوئی ، شکریہ نصیبِ تحفہ کرنے کا

تیری مسکراہٹ پر قربان جاؤں ، تیری کملی میں چھپی روشنی ، تیرے جلوؤں میں تجلیاتِ کمال ، کمال ہستی جناب سیدنا محمد ﷺ ۔۔۔ جھکا دیا سر میرا اپنے قدموں میں ۔۔ جھکا دل ،جلوہ ہوگیا ۔۔۔ یہ زمین و زمانے دل میں موجود ہیں ، میرے آقاﷺ دل میں موجود ہیں ۔۔ صلی علی کے نعروں سے گونج فضا اٹھی ہے ، نشتر چلیں دل پر جب سدا بہار مسکراہٹ کا تصور ہو ۔۔ ابھی تو دیکھا نہیں تو یہ حال ہے ، دیکھوں تو کیا ہوگا ۔۔ چاند ڈوب جائے گا ، سورج چھپ جائے گا ، رات چمک اٹھی گی ، صبح کا گمان ہوگا ، صبح صادق کے وقت دل آذان دے گا ،،

حی الفلاح ۔۔۔ آؤ ،،،نیکی کی طرف آؤ ۔۔۔ آؤ فلاح کی طرف آؤ

چار سو اجال دیا ہے جلوہِ جاناں نے ، زندگی کو اس قدر نکھار دیا ہے جلوہِ جاناں نے ، زندگی نویدِ سحر میں ڈوب گئی ہے ، موذن کہتے ہیں : حی علی الفلاح ۔۔ سجدہِ شکر ۔۔۔ یہ رونقیں جو شاہا نے دل میں لگائیں ہیں ، یہ جو احساس دل کی زمین پر گدازی پیدا کیے دیتا ہے ، یہ سب آپﷺ کی محبت ہے کہ جستجو ڈوبنے کی ہے جو ڈوب گیا ہے ، جستجو مٹنے کی ہے جو مٹ چکاہے ، جستجو ہے کہ جستجو مٹے نہ ، سب کچھ مٹ جائے ، یہ دل اس گھڑی پہ نازاں ہے جس گھڑی آپ اس جہاں تشرئف لائے تھے ۔۔۔

احساس کے قلمدان میں حرف حرف آرزو ہے ، سنیچتا ہے خواہشات کو طلب سے ماوراء ہوکے ، یہ دل نگینہ ہے ، یہ جان خزینہ ہے ، انسان کتنا ذلیل ہوجاتا ہے خواہشات کے پیچھے بھاگ کے ۔۔۔ بیخودی بھی کیسی ہے ، بے نیازی پہ دل مائل ہے ، دل خواہشات کے ستم سے گھائل ہے ، شاکر پڑھ کلمہ لا ۔۔ شاکر نے کہا ، حق ھو ۔۔۔ حق تو ہی ہر جگہ ، حق ، ترا ہی جلوہ چار سو، حق سبحانہ ھو

کلام ‏الہی ‏اور ‏خشیت

( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آَيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ) [الأنفال: 2]

مومنین میں ایسے لوگ ہیں جن کے دل اللہ کے کلام کی ہئیت پاتے ڈر جاتے ہیں ۔ وہ نشانیاں ان کے قلوب میں رقت طاری کردیتی ہیں ۔ وہ مومنین جب مشکلات میں گھرے ہوتے ہیں ، ان کے دلوں کو توانائی اس قران پاک سے ملتی ہے اور ان کے یقین میں اضافہ کرنے والی کتاب حقیقتاً قران پاک ،کلامِ الہی ہے ۔ اللہ کریم فرماتے ہیں 

( لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآَنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ) [الحشر: 21]

اس کلام کی اثر انگیزی ایسی ہے کہ اگر یہ پہاڑ پر نازل ہوتا تو وہ بھی خشیت سے  ٹکرے ٹکرے ہوجاتا۔ اے کاش کہ ہمارے دل اسکی حقیقت جان بھی لیں ۔ اللہ تعالیٰ کا پیار و دلار دلوں میں کیسے کیسے اثر کرتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ  نے فرمایا : مجھے قران پاک کی تلاوت سناؤ  ، جواباً : اے اللہ کے رسول ہاک ﷺ ،میں آپ کو قران پڑھ کے سناؤ جبکہ قران کا نزول آپ پر ہی ہوا ہے ؟ فرمایا: ہاں 

آپ نے سورہ النساء کی تلاوت فرمائی اور جب اس آیتِ کریمہ تک پہنچے 

( فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا ) [النساء: 41]

آپ کو اس آیتِ مبارکہ پر اس آواز نے روک دیا : بس کرو ، استعجاباً پیچھے مڑ کے دیکھا جنابِ رسول کریم ﷺ اطہر کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ۔

جناب رسول پاک ﷺ عملی مثال ہیں ۔ ہم لوگ  سنت پر چلنے  کے لیے بے تاب ہیں اپنی خرد و عقل کے استعمال سے  مگر اسکو عمل بجالانے میں  مفلوج ہے ہمارے عمل و بدن ۔ یہ سیاہ کاری کیسے چھپے گی ؟ اعمال کی سیاہی دل کی سیاہی بن گئی ہے ، جیسے رات کالی آگئی ہے ۔ روزِ محشر اللہ کا سامنا کیسے کریں گے ، ان اعمال کے سبب چھپنا بھی چاہیں تو نہ چھپ سکیں ۔۔ ہم تو مسلمان ہیں جن کے دل خشیت خالی مگر وہ اللہ کے بندے جن تک اسلام پہنچا نہیں تھے مگر ان کے دل روشن تھے ۔۔۔ 

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ٭ 

(اے پیغمبرﷺ!) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے

وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّ‌سُولِ تَرَ‌ىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَ‌فُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَ‌بَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ٭

اور جب اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو (سب سے پہلے) پیغمبر (محمدﷺ) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے

یہ آیاتِ مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ نے اس وقت  ایک عیسائی کی گواہی کو ہمارے لیے ایک نشانی بنایا ہے ۔ ہجرتِ حبشہ کے بعد نجاشی کے دربار میں قرانی آیات کی تلاوت کی گئی تو وہ ایسے روئے تھے کہ ان کی آنکھیں سے نکلنے والے آنسو ان کی داڑھی کو تر کرگئے ، اس کلام نے ان کے دل پر خشیت طاری کردی اور انہوں نے روتے ہوئے اس کلام کے سچے ہونے اور حضور پاکﷺ کے سچا نبی ہونے کی تصدیق کردی ۔ ایسے لوگ جن کے دل خشیت سے کانپ جاتے ہیں ، درحقیقت وہ عارف ہوتے ہیں یعنی حق کی پہچان کرنے والے ہوتے ہیں ، سبحان اللہ !

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ، اسکو پڑھنے کی ، سمجھنے کی اور بار بار پڑھنے کی تاکہ ہمارے دل بھی ایسے ہی خشیت میں ڈوب جائیں اور ہم بھی ان کو سن کے ، پڑھ کے رو دیں ۔ کاش ! ہم ایسا کرپائیں ۔ دل سیاہ ہوچکے ہیں ، عمل میں ریاکاری ہے ، ہم عمل میں پیچھے اور قول میں آگے ہیں ۔ اے ہمارے رب کریم ، ہمارے حال پر رحم فرما ۔ آمین ! 

میم

"محبت آسمانی جذبہ ہے " میں خود کلامی میں بڑبڑائی

"نَہیں، زمین پر رہنے والے فلک پر رہنے کے قابل ہوتے تو آدم جَنّت سے نکالے نَہ جاتے "

درون میں صدا گونجی گویا پہاڑوں نے بازگشت سُنی بار بار 

"محبت افلاک سے اترا سبحانی وجدان کیوں کہلاتا ؟  "

میں نے اس صدائے دِلبرانہ سے پوچھا 

"فلک پر صرف خُدا رہتا ہے،  نوری، ملائک، روح، کروبیان رہتے ہیں، خواہش سے مبراء ذات کے نظام میں اللہ واحد ہے "  صدائے عاشقانہ تھی یا ادائے دِلبرانہ ....

جب سنی یہ صدا تو کَہا میں نے .....

"اللہ واحد ہے، یہ تن کے جا بَجا آئنے اِسکی خواہشات ہیں،  وہ واحد ہے مگر کثرت میں راز مخفی ہوگیا ...   "

اچانک میرے وجود سے دِلخراش چیخ نکلی، میرا وُجود مجھ سے جُدا ہوگیا .... آمنے سامنے تھا  میرا وجود کا ٹکرا ...

میں مبہوت و بیخود ہوگئی اور مجھ  سے ذات کا تماشا دیکھنے والے نے تیسرا ٹکرا بنادیا اور بسمل کے سو ٹکرے ہوگئے. خدا وجود کے ٹکرے دیکھنے میں محو تھا ......، 
بسمل کے رقص میں حال کی لاتعداد کرچیاں بکھر گئیں اور بسمل رقص میں مصروف   ....

" بَتا،  یہ تین، اک ہیں یا تین؟  "ذات کے تَماشاٰئی نے پُوچھا ....

میں خاموش کھڑی تھی جبکہ میرا وجود کا ٹکرا جسکو "ماہ " کہتی تھی، ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اس تماشے سے وہ ازل سے لاتعلق رہا ہے ..  ..

دیکھنے والے دو، تڑپنے والا ایک. حیات کے ریگزار میں دیکھنے والوں کی نگاہ نے زیر پر زبر رکھی، ماہ کی زبر رکھی   

"کیوں زیر کیا گیا تھا بسمل کو؟ کس جرم میں زیرو زبر کیا گیا تھا؟  "..

ذات کے تماشائی نے کہا "خاموش، تم زیر ہو، زبر میری ہے، میرا ماہ، میرا قلب ہے، تم کون ہوتے میرے کام میں مخل ہونے والے؟ "..

بسمل کا وجود دھواں دھواں ہورہا تھا، اب خدا بھی اس کا نَہ رہا تھا 

،

کشش

کشش ہے  .. کشش آج رات چاند رُوشن کِیے ہوئے ہے.. اللہ نور السموت ولارض کی منقش آیت نے آنکھ نم کردی ہے.  آنکھ باوضو رہے تو ہجرت یاد رہتی ہے . رات ہے کہ دن؟  رات کہ روشنی چاند کی ..چاند کہیے کہ طٰہ!  طٰہ کہیے کہ یٰسین ... طٰہ تو  وہ روشنی ہے جو طور سینا کے پاس جلتی روشنی ہے ... یہ سرمئی نور ہے جس نے رحمت للعالمین کے نور کو مقید کیا ہوا ہے.  جب طٰہ کا خیال آئے تو سر سبز گنبد نور بھرتا ہے.. تو درود نہ پڑھنا کنجوسی ہوگی .... 
الھم صلی علی محمد وعلی الہ محمد وسلم ... ... 
وہ روشنی ہے افق کے پار،  افق پہ مجھے منور کیے دے رہی،  بیخودی کی قبر میں زندگی مل گئی ہے . ابدیت کی چادر مل گئی ہے جیسے سفید کفن پر گلاب پھول خوشبو بکھیرتے ہیں ... نفی نفی سے زیرو ہوتا ہے زیرو سے نفی کا حساب ...نفی کا حساب شروع ہوتا رہتا ہے اور خوشبو بڑھتی رہتی ہے 
اے نفس!  اے زمین زاد ... دل جو کچھ ہے وہ روشنی ہے جس روشنی ہے وہ دل ہے دل ہے دل میں بستا ہے جو دکھتا نہیں ....

مٹ جاتے اچھا تھا. فنا ہوجاتے اچھا تھا!  لا .... لا کی ستون بنتی مٹی پر الا اللہ کا پہرا ہوتا اچھا تھا!  
الست بربکم کی صدا کے بعد اس نے کہا ...
فاذکرونی اذکرکم 
جب ذکر کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنا ہی ذکر ہو رہا ہے جب علم ہوتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ
ورفعنا لک ذکرک کی صدا میں الہام کیا ہے!  رنگ چڑھ جاتا ہے،  جلوہ ہوجاتا ہے، روشنی مل جاتی ہے. شبنم جب گلاب کی پتی پر گرتی ہے تب کلام کرتی ہے ... پھول نکھر جاتا ہے ... جب اس نے "میں ... تو " کا فرق نہیں رکھا ..نور کا رنگ بھی ایک ہے،  نور کی اصل بھی ایک ہے،  نور کی چادر بھی صفاتی ہے ہے!  صفات کا کل " الرحمن " حرف میں مخفی ہے!

     اک رنگ پر اترا نور سب پر  تو منقسم بھی ہوتا گیا ...کہیں نیلا ہوا تو کہیں  زرد کہیں  نیلگوں تو کہیں مرجان جیسا تو کبھی یاقوت کی مانند ... یہ جب نور تمام پیامبروں سے ہوتا یکجا ہوا تب میرے نبی صلی علیہ والہ وسلم کے نور نے خاکی وجود میں کرسی سنبھالی ...  وہ نور جب ہوا ظہور تو فرمایا

الیوم اکملت ...... کامل آگیا ... کامل ہوگیا سب کچھ ... جو ذات سب پر پوشیدہ رہی .. جس کا ظہور کہیں جزوی ہوا وہ معراج کی رات مکمل عیاں تھی تب مالک نے کہا تھا کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی ... وہ جو گئے تو نور جو ہم سینوں میں پوشیدہ رکھتے ہیں وہ نور جو دلوں میں طٰہ کی تجلی سے درز درز سے ہوتا روشنی کیے دیتا ہے تو کہیں وہ مزمل کی تجلی سے سرنگ سرنگ وا ہوتا ہے زمین زلزلوں میں آتی ہے تب چادر سے ڈھانپ لیتا ہے تو کہیں وہ خود ظاہر ہوتا ہے تو مدثر کی مانند روشنی کرتا ہے تو جہاں جہاں وہ نظر کرتا ہے تو سویرا ہو جاتا ہے ... وہ روشن صبح ہو تو مدثر کہوں وہ رات اک روشن ہو تو مزمل کہوں ..وہ دوپہر کی روشنی ہو تو طٰہ کہوں وہ وصل کا شیریں شربت ہو تو یسین کہوں .... میں کیا کیا کہوں ایسے ........... کیسے کیسے ذکر بلند کیا اور کہا ذکر کرو میرا ... اس سے بہتر مجلس میں تمھارا ذکر کروں گا ....
ملائک نے کہا  مالک گناہگار بندہ ...نائب کیا ہونا ... مالک نے کہا جو میں جانتا وہ تم نہیں جانتے ... اس نے تجلیات سے منور کیا سارا جہاں تو صاحب الرحمن نے کسی کو الروف کی صفت دی تو کسی کو علم العلیم کے خزانے سے ملا ...کسی کو جلال کی روشنی نے مجنون کیے دیا تو کوئی جمال میں پوشیدہ ہوا تو اس کو میرے نبی کا جلوہ مل گیا ... صلی اللہ علیہ والہ وسلم .... روشن جمال یار نے روشنی کی ہے زمین سیاہ تھی .. زمین پر سورج کی روشنی کی ... خالق نے اسی روشنی کی قسم کھائی کہ یہہ روشنی  ہمارے سینوں میں ہے ... سینہ ہے کہ خزانہ ہے ... خزانہ ہے کہ کوئی فسانہ ... ہم کیا جانے بس وہ جانے وہ جانے .... وہ کہتا ہے کہ زندگی گزر جائے گی آنکھ کے پسینے میں ... تو گزر جانے دو ..  وہ کہتا ہے موم پگھل جائے اک بار پھر ..روئ ذرہ کی مانند بکھر جائے گا تو کہیے کہ اچھا ہے!  اچھا ہے!  اچھا ہے کہ بکھر جائیں .. جو رہے وہ تو بکھر جائے یکجائی کیسی .. جہاں جہاں اس کا جلوہ اس سے مل جانا اچھا ..

Tuesday, December 29, 2020

اللہ ‏آسمانوں ‏زمینوں ‏کا ‏نور ‏

اللہ آسمانوں زمینوں کا نور
اللہ نور السموت ولارض 

وہ نور زمین و زمانے کا ہے 
کام حقیقت کو پہچاننے کا ہے

جو اندر بھی موجود ،باہر بھی موجود
اسی کا کام راز افشاں کرنے کا ہے

انسان میں اس کا نور خاص ہے
نائب کا کام اس کو جاننے کا ہے

ساجد بھی انسان ہے ،مسجود بھی ہے
عشق کی سلطنت میں  کام قربان ہونے کا ہے

اللہ نور السموت ولارض

ملائک میں اس کا نور ہے 
خلائق میں اس کا نور ہے 
دِلوں کو پھیرتا ہے غرور
تکبر لے جاتا ہے پھر نور
ڈھونڈتے رہتے ہیں ہم سرور
دیدار کروں گی اس کا میں ضرور
میں نے دیدار کرنا ہے اس کا ضرور
میخانے میں جام پینے سے ملا ہے نور 

جلوہ نور دل میں ، کیا کروں غرور
سجدہ کرتے ہوتے رہنا نور نے مسرور
اس کا جلوہ پاتے پاتے جلوہ ہورہی ہوں
سجدہ عشق ادا کرنا عاشق کا کام ہے
ھو کا اندر سما جانا اسی کا کام ہے 

اندر باہر کون ہے؟
میں کیا جانوں!
اوپر نیچے کیا ہے؟
میں کیا جانوں!

زمین کی گردش کا ردھم
جس میں چھپا ہجرت کا غم
زمین بڑی گردش میں ہے
اس کی گردش کو کس نے تھام رکھا ہے؟

میں کیا جانوں؟

میں ہوا کے دوش میں اڑتی رہوں
فضاؤں میں بسیرا میرا رہے
اس کے پاس جانے لگی ہوں
میں خود میں خود سمانے لگی ہوں
کیسے جلوہ خود کا میں خود کروں
کیسے سجدہ میں خود کو خود کروں
کیسے نماز خود کی خود پڑھوں
کیسے ذکر میں اپنے محو رہوں

اپنی حقیقت ''میں '' کے سوا کچھ نہیں !

میں ایک حقیقت لیے ہوں
میں حقیت کی ترجمان ہوں
میں خود اس کا فرمان ہوں
''کن '' سے تخلیق کی ہے

انما امرہ اذا ارادہ شیا ان یقول لہ کن فیکون !

اس کے ارادے سے ترتیل ہوئی
تخریب سے تعمیر   ہے ہوئی 
اس نے اپنے لیے چن لیا ہے
مجھے خود ہادی کردیا ہے

اس کے لیے بھاگوں چار سو
اندر جستجو محو رکھے کو بہ کو

میں اس کی یاد میں غرق ہورہی ہوں
وہ مجھے کہے جارہا ہے: فاذکرونی اذکرکم

اس کا ذکر میں کیے جارہی ہوں
اپنے ملائک سے کہے جارہا ہے
نور کا ذکر بُلند کرو !

مجھ پر سجدہ واجب ہوا
میرے ہادی نے میرا ذکر کیا

اس نے خودی میں جلوہ کردیا
وہ چار سو نظر آتا ہے
اندر اس کو کیسے دیکھوں
میں خود میں گم ہو چلی ہوں

میں محبت کی گمشدہ بستی
میری پاک ہوگئی ہستی

اس نے چنا مجھے یہ اس کی مرضی
میں نے ڈالی نہیں اس کو کوئی عرضی

کچھ ‏ماسوا ‏درود ‏کے ‏نہیں ‏ہے

کچھ ماسوا درود کے نہیں ہے 
کچھ ماسوا درود کے ہو کیا؟  

والضححی - قسم اللہ کھاتا ہے. ہم سب وہ قسمیں بس  پڑھتے ہیں. قسم کا قیام دِل میں نَہیں ہوا ہے.  قیام کیا ہوگا قسم کا؟  جب ہم وہ چہرہ دیکھیں گے یا نمودِ صبح کی جانب پیش رفت ہوگی ہماری . نمودِ صبح روح کی رات میں ہوتی ہے. یہاں سورج بھی رات میں موجود ہوتا ہے. سورج جب نگاہ کے سامنے ہو تو ہوش و خرد کہاں ہوتے ہیں؟  

اے طائر تو "لا" ہو جا 
اے  طائر تو "عین " ہو جا
اے طائر تو "شوق " ہو جا

طائر جانتا نہیں ہے کہ شمع تو گھل گئی ہے. سارا احساس اأسے مل چکا ہے. شمع نے مصحفِ دل طائر کے سینے میں کب کا اتار دیا تھا مگر یہ طائر بے خبر رہا 

یہ بے خبری بھی عجب نسیاں ہے جس میں اک ہوش و خیال دوجے تمام ہوش و خیال پر غالب ہو جا  جب انسان خود اپنے حضور ہو جائے. روح کو غالب ہونے دے اور نفس کو مغلوب. اس لیے رب فرماتا ہے " اے اطمینان والی روح، مری جانب لوٹ آ. ارجعو،  ارجعو،  ارجعو 

ہو سکتا ہے کہ وہ در دل پر بلا لے.  ہو سکتا ہے در یار سے یار یار کہنے کی تسبیح ملے. جے عمل یار یار ہووے تو بات سرکار سرکار دی ہووے. من تو شدم، تو من شدی کی بات ہے. موج استقلال نے شکست کا راستہ روک رکھا یے جو فرما رہی ہے کہ رک جا طائر. موج شہید ہے. شہید وہ ہے جو مناظر کو خاموشی سے دیکھے. صدیق وہ ہے جو دیکھنے مابعد گواہی دے. 

چلو گواہیاں اکٹھی کریں 
چلو گواہ ڈھونڈیں

Tuesday, December 15, 2020

تسبیح

تسبیح پڑھنے سے نہیں آتی، عمل سے آتی ہے.  عمل جانے کس جہان سے آتا ہے. یہ اتمام حجت ہے!  یہ امتحانِ بخت ہے! بھلا امتحان سے بخت کب ملا.  امتحان بھی نصیب ہے اور کامیابی بھی نصیب ہے . عمل کا دانہ بہ دانہ،  تسبیح ہوا چاہتا ہے ـ مل کے عمل یہی کرنا ہے کہ اب پرواز کو پیچھے نہیں مڑنا . اک نظام جس کو وہ رواں رکھے ہوئے، وہ نظام سینوں میں کاربند ہے ـ سینہ بذات خود امانت ہے. امانت مل جائے تو شکررب کا واجب ہوجاتا ہے.  شرح صدر عام نہیں ہے،  شروحات صدور سے صدر مل جانا گویا نظام میں منظم ہوجانا ہوتا ہے.  میم بھی اک منظم اسم ہے. عین بھی منظم اسم ہے اور الف کے گرد اسماء کے دائرے ہیں. دائرے مدار میں مدام گردش میں ہیں اور مرکز نقطہ ہے. یہ لحد میں دل.  یہ اترا کسی میں یے اور مہدِ دل میں عجیب پیغامات ہیں. شعور ذات یہی ہے کہ شعور الف ہے اود بین السطور یہی تاثر یہی ہے میم کے اسم میں افکار گم ہیں. افکار گم ہوجائیں تو الف کا شعور حاصل ہوجاتا ہے ... 

ہم پریم نگریہ گئے 
دھول ہوگئے 
مٹی نے مٹی کو پکارا 
مٹی میں مٹی نے جگہ لی 
مٹی سے سیکھی پچھان 
مٹی سے پایا ہم نے دھیان 
مٹی دیتی ہے بابا گیان 

جسم معلق ہوتے ہیں،  دل منور ہوتے ہیں،  افلاک میں روح ہوتی ہے. روح سے روح نے دیکھا. روح نے کیا دیکھنا تھا؟  کیا جلوہ ہونا تھا؟  اک غائب دوجا موجود. دوجا غائب تو پہلا حاضر. یہی کلمہ ہے. یہی عشق ہے غیبت و حاضری میں مقصود سر بہ نیاز تسلیم خم ہے.  یہ جو دولت ہے یہ دولت پہچان کی ہے. یہ لاگ سے لاگ کا دھاگہ ہے اورمرغ بسمل بھاگا ہے!  مرے گا تو جیے گا. جیے گا تومرے گا کیسے؟  آ!  چلیں سحر میں کھوجائیں 

نازنین و حسین سے پوچھیں گے؟ کیا پوچھیں گے؟  وہ بتائیں گے کہ حسن سے موت کیسی ہوتی ہے!  حسن بذات خود ساحر ہے جو کہ بہتا ساغر ہے . میخانہ الست مست سے اک مے کیا میخانہ لے جا مگر میخانہ کا کیا کرے گا؟  میخانے کے لیے جہانوں کی وسعت لیے قلب  کو  اور کیا چاہیے؟  

گرو سے پوچھو کہ گروہوتا کون ہے. وہ  جس نے پیار سے پکارا یا پیار سے سکھایا. پکار بھی پیار ہے. یہ صدا ہے جو دم بہ دم  دھیرے دھیرے جگہ بنالیتی ہے. مے تو اک ہے کہ میخانہ کیا ہے.  گلاس چھلک اٹھتا ہے مگر پیمانے سے کیا چھلکے گی اس کی جس کی وسعت میں کمی کو محتاجی نہیں ہے.

اے راقب!  بن ثاقب.  سجدہ کرتے ہیں ثاقب ہیں اور تسبیح سجدہ بہ سجدہ کیے جانے سے زندگی کا رقص رواں دواں ہوتا ہے. جس نے رقص کی حقیقت کو جانا ہے اسکا علم  ہوا کہ علم  کچھ نہیں بس اک لایعنی بحث کا ماخذ .. اصل شے نور ہے. نور جس کو مل جائے تو وہ نور ماسوا دیکھے گا کیا؟  جس کو نہ ملے اسکو چاہیے اس کے لیے تگ و دو کرے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے وہ اپنے نور سے نوازے گا ہر اس متلاشی کو جس نے اس کی کھوج کی. اس کو مستی ہستی کا علم نہ تھا مگر عشق کی بوٹی نے اندر جگہ بنائی کہ نیستی نے صدا لگا دی. پھر کون ہوگا نسیتی میں؟  حق موجود!  خدا موجود

Friday, December 11, 2020

دعا

دعا ہے کہ دعا رہے یہی.  جلتا رہے دل یونہی یونہی.  سچ کی رعنائی ملے یونہی.  افق کے ماتھے پر شمس ملے یونہی.  رنگ ملنے سے اچھا ہے رنگ نکل آئے.  چشمے اُبل پڑیں ... کچھ پتھر ایسے ہیں جن سے چشمے ابل پڑتے ہیں. کچھ ایسے جن کو برق اچک لیتی ہے. اک نے فیض دینا ہوتا ہے دوسرے نے لاڈ لینے ہوتے ہیں. پتھر کوئ ہوتا نہیں ہوتا جب تک پانی نہ ملے یا برق نہ مل جائے. یہ ہنگام شوق دیکھتا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ رات ہے اس میں بیٹھا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ جواب ہے سوال میں ڈوبا رہے گا؟  آگے بڑھ!  یہ نفس ہے اور نفس میں ڈوبا رہے گا؟  آگے بڑھ!  یہ روح ہے اور الجھا رہے گا کیا؟  آگے بڑھ!  یہ جسم کی قید نہیں ہے،  پرواز کو سوچی جائے گا؟  آگے بڑھ!  یہ طائر بیٹھا ہے کیا بیٹھا رہے گا؟  آگے بڑھ. یہ سمت ہے، وہ سمت ہے اور تو سمت کا تعین میں رہے گا؟  آگے بڑھ؟  یہ سجدہ ہے اور تو سوچے گا سجدہ کس نے کیا؟  آگے بڑھ؟  

اے حضرت انسان!  تجھے ترے رب نے عزت بخشی مگر تو نے تو رب سے بے نیازی دکھا دی جبکہ بے نیازی تواس کی شان یے. اے اشرف المخلوقات! تو نے سوچا نہیں کہ تجھے احسن التقویم کیوں بنایا؟ تو فکر کیوں نہیں کرتا؟ تو فکرکرے تو مجھ تک آ پہنچے مگر تجھے اپنی آیتوں کی لگی یے 

اے حضرت انسان. تجھے نسیان کھا جائے گا. تجھ کو ذمہ داری سے بات سننی چاہیے تاکہ تونفس پر رہنما ہو جا. تجھے لاج رکھنی چاہیے اس خلافت کی جو آدم کو ملی. آدم سے آگے سینہ بہ سینہ منتقل ہوئ .... یہ انبیاء کرام،  یہ رسول مقام بہ مقام زینہ بہ زینہ چلے اور زینہ کی انتہا معراج .... ہم نے دی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. اے انسان ...جب ترا ذکر کہیں نہیں تھا تب بھی میں تھا. تب تو نیست نابود ہوگا تو کس کا ذکر باقی رہے گا ... جس کو سمجھ لگے گی دوئ نہیِ کہیں وہ جانے گا جنت ودوذخ تو تضاد ہیں. خدا تو ضدا سے مبرا یے وہ نہ شرقی نہ غربی ہے. اس کا چراغ الوہی جل رہا ہے. جل رہا ہے  جل رہا ہے. جل رہا ہے.

آج ‏بھول ‏جاؤخود ‏کو

آج بھول جاؤ خود کو،  بھول جانے والے انسان نہیں ہوتے ہیں کیونکہ یاد باقی رہتی ہے ـ 
او یاد باقی 
او میرا ساتھی 
او ساتھ رہیا 
او میرا پیا 
نہ لاگے جیا 
شام آئی پیا

محبوب سامنے ہو اور سامنے نہ ہو. ہم ہوں اور ہم نہ ہوں. یہ کیسے ہوتا ہے؟  وہ حاضر ہوتا ہے اور وہی موجود ہوتا ہے 
وہ کہتا ہے 
نہیں ہم کہتے 
جب اللہ کو دیکھتے 
ھو الحیی القیوم 
جھانگو دل میں 
اللہ کو دیکھو 
کہو کہو کہو 
ھو المصور 

صورت گر نے اپنی صورت دی ہم کو اور کہا فثم وجہ اللہ. چہار سو اپنی صورت نہیں بلکہ اس کی صورت ہے. درون کی صورت الگ ہے!  مورت صورت الگ ہے.  صورت میں اس کا سافٹ ویئر الگ الگ ہے.  یہی نقاش گر کی نقاشی ہی کہ منجملہ حقائق بھر دیے اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں. یہ اسم نہیں اک نشانی ہے. نشانی دل میں اترتی ہے تو آیت اترتی ہے. آیت دل کی آیت سے مل جاتی ہے 
حرف اول ملا 
حرف بقا ملی 
الف الف الف 
اللہ اللہ اللہ 
مانا مانا مانا 

جلوہ دکھتا نہیں ہے کیونکہ میں نے جانا نہیں اسکو. جان نہیں سکتی خود کو کیونکہ لاتدرکہ الابصار میں رمز یے. وہ دیکھے تو ملے،   ہم ٹکر ماریں رہیں خالی ہاتھ. دل کی خالی جھولی میں مانگ کا سوال ہے کہ میرا اللہ ... میرا اللہ ... میرا اللہ ... 
اللہ جان ہے عالم کی 
جام جم پیو اور کہو 
اللہ جان ہے عالم کی 
جام جم پیو اور کہو 
صورت صورت میں 
اللہ اللہ کو پاؤ گے 
اللہ اللہ پانے سے ہے 
اللہ اللہ کہنا کیا ہوا؟


رنگ والے نے بلایا ہے. رنگ والے سے کہو کہ اللہ ھو. اللہ ھو. اللہ ھو 

تم اللہ، وہ اللہ،  یہ اللہ،  ادھر اللہ،  اُدھر اللہ 
واللہ،  واللہ ہر جگہ اللہ،  واللہ واللہ اللہ اللہ  
یہ اللہ میرا، وہ اللہ اسکا،  نہیں سب کا ہے 
کہو اللہ، کہو اللہ،  اللہ والے سنیں گے ھو ھو 

تو خود ہے!  تو خود ہے!  تو خود مصور ہے!  تو خود ترتیب ساز ہے. تو چشم بصیر سے دیکھے اور کوئ جگہ ایسی نہ ہو جہاں چھپ نہ سکے ہم. ہم چھپ نہیں سکتا وہ دیکھے اگر تو تاب لاؤ گے؟  لاؤ گے تاب؟  آب و تاب میں حساب نہ  رکھو ورنہ ہو جاؤ گے لاجواب. یہ شام گلاب ہے. یہ شام ہے مست ولائے حیدری. منم حیدری! ہم حیدری ہیں. ہم غلامِ علی ہیں ... ہم غلام پنجتن پاک ہیں. بے حساب درود اعلی ہستیوں پر. یہ شمار نہیں کرتے دینے میں. مانگ لیتے ہیں ہم ان سے ذات اپنی ... ذات وہی ہے جو ساڈی ذات ہے. اسم ذات ہے!  حق ذات ہے!  جس میں شاہ عباس ہے. جس میں ریشمی رومال ہے جس میں ساجد بھی اک ہے وہی مسجود ہے. فرق نہیں. دوئ نہیں تو نماز ہوئ کیا؟  بس جانو اور کہو نہیں جانا. معلوم نہیں ہے. ہم نہیں جانتے 
کیف ھالک 
کہنا اچھا ہے سب 
یوم تکملو 
کہو کیا پتا کیا خبر 
بس کہو اللہ اللہ اللہ 
اللہ اللہ کہنے والا ساز اک 
اللہ اللہ کہنے والی بات اک 
اللہ اللہ کہنے والی آگ اک 
اے برق نسیم!  کدھر ہے!

بس ہم مرجانا چاہیں پر موت نہ آئی. ہائے!  کب آئے گی موت اور کب وطن واپسی ہوگی کہ پھر مکان کی قیود نہ ہوں گی. لباس پہنو یا اتارو اپنی مرضی. بس دوری کا سوال نہ ہوگا  بس اک بات ہوگی. وہ ہوگا وہ ہوگا وہ وہ ہوگا ہم نہیں ہوں گے ہم کدھر ہوں گے؟  گم گم گم گم گم ہم نقطے میں گم ہوں گے. ہم محور ہوں گے ہم گردش میں ہوں گے. ہم  رقص ہوں گے. ہم اپنا تماشا دیکھیں گے اور کہیں گے ھو ھو ھو ھو ھو

صاحب ‏قران

بے چین ہے دل کیوں؟  یہ اضطراب کیوں ہے؟  رُخ تو مائل ہے، دل میں محسن بیٹھا ہے اور جزا نہیں محبت کا. اس سے پوچھنا کہ موجِ اضطراب مانند بحر تموج رکھتی ہے اور انتہا مانگتی ہے.  تو درد دے!  دے اور بے انتہا دے مگر ساتھ وہ دے جس کے لیے کاتب کو مکتوب لکھوا رہا ہے. یہ فاصلے حائل کیوں ہیں؟ یہ نقاط کیوں متصل نہیں ہورہے؟  تو نے کہا تھا کہ تو دے گا؟ تو نے تو کہا تھا تو نہیں چھوڑے گا!  تو نے تو کہا تھا کہ دائم ساتھ رکھے گا مگر یہ جو دوری ہے یہ تو اضطراب ہے ـ اے برق نمودار ہو!  اے شعلہ جلا دے!  اے الوہیت کے چراغ،  ملوہیت کی روشنی سے نواز ... تو نے دینا ہے تو نے تو کہا تھا تو دے گا 
خاموشی ہے اور رات سوتی ہے 
تو نے تو کہا تھا تو تو دے گا 

پھر سیم و زر کے انبار کہاں ہیں؟  پھر وہ رات کے عروج پر بام و در سے کھلی روشنی کہاں ہے ـ میرا گنبد افلاک میں کھوگیا ہے ـ یہ معبد بدن میں کس کی آیت ہے؟  یہ موج حق ہے جو سینے میں پیوست ہے 

سو جاؤ!  سو جاؤ!  سو جاؤ!  
ورنہ زار زار رو!  زار زار رو!  
اس نے بلایا نہیں ہم جاتے نہیں 
وہ بلائے گا تو ہم جائیں گے 

اک اسم مانند فرشتہ راہ میں ہے.  اک اسم مانند آئنہ نمود میں ہے. اس نے کہا تھا دید کریں گے. کرو گے پھر تم دید ... چلو پھر وادی ء بطحا میں چلیں. چلو پھر النمل کو پڑھیں. اور دیکھو چیونٹی کا سینہ زمین پر کیسا بھاری پڑا تھا.  چلو ہد ہد سے پوچھیں کہ افلاک سے زمین تلک کس کی شہنشاہی ہے ..چلو چلو ہم خود کن پڑھ کے پھونک دیں تن من میں "اللہ " جان آئے گی ہم میں.  جی اٹھیں گے ہم.  مردہ دل کو چاہیے کیا؟ کیا نہ چاہیے؟  وہ دے گا روشنی سے منور سجدہ. سجدہ پڑا رہے گا اور ہالہ نور سفر کرے گا. یہ مقام حــــم کب کھلے گا. یہ اسم طلحہ ہے. یہ مجاور اسماء کے فرشتے ہیں. دل میں مزار ہے جس میں نورانی مصحف کو پڑھنے والی کنجیاں ہیں اور مطہرین ان کنجیوں کو کھول سکتے. چلو " اسم کن " سے "لفظ " اللہ " کو پھونک دیں. یکمشت سب خود کھل جائے گا. تمام اسماء کی مجال نہ ہوگی. ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے .... صاحب قران وہی ہوتے ہیں!  قاری ء قران وہی ہوتے ہیں 

اے خدا!  کتنی دیر؟  یہاں سانس کم ہیں،  کام زیادہ ہیں. اے خدا بلا لے اور کاتب کو پکڑا دے وہ تمام اسماء جس کو بوقت نفخ دیا تھا. نائب کو چاہیے کیا؟  نیابت ادھوری ہے!  انسان ادھورا ہے. تجھ کو اللہ کب گنوارا ہے کہ نائب ادھورا رہے.  تو نے تو کہا تھا تو اپنا نور مکمل کرتا ہے. تو نے تو کہا ہے کہ نور مکمل ہوگا چاہے جتنی کوشش کوئ کرلے. تو نے کہا ہے کہ اکملت اکملت اکملت. جب تو نے مکمل کردیا تو امتی کیسے رہ سکتے؟  یہ تو ہمارے لیے ہے نا؟  ہے نا؟  ہے نا؟  تو دے دے اللہ!  اس سے پہلے سانس گھٹ کے مر جائے!  مرض بڑھتا جائے گا دوا کب ہوگا. تو نے کہا تھا کہ تو ملے گا. تو نے کہا تھا تجھ کو مخلوق سے محبت ہے. تو محبت والا ہے. تو پیار والا ہے. تو مانگے ہیں ہم اور مانگی جائیں گی کہ بنا لیے ہم کیسے جائیں؟  بتا؟  بتا؟  بتا نا؟

طائر ‏سدرہ ‏

سفر کا آغاز شروع نہیں ہوتا مگر جب بچہ قدم رکھتا ہے ـ قد بڑھ جاتا ہے اور شعور پختہ ہوجاتا ہے ـ روح کا شعور سمجھنا پڑتا ہے یعنی شعور میں لانا پڑتا ہے ـ تم فلک پر بیٹھ کے وہ لکھتے ہو جو وہ لکھواتا ہے، تو پھر شعور بیدار ہے مگر تم زمین پر رہ کے اسی میں کھو گئے ہو تو زمین کی ناسوتی نے تم کو گھیر لیا ہے ـ  فلک پر مقیم ہونے کے لیے طائر کو پرواز چاہیے ہوتی ہے. پرواز کو پر لگانے والا جانتا ہے نور کن ہندسوں اور کن حروف سے منتقل ہوتا ہے ـ  تم کو آیات نوری چاہیے اور تم نہیں جانتے کہ خدا تم کو یہ آیات نوری دینا چاہتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ نور اپنا دائرہ مکمل کرلیتا ہے ـ دائرہ مکمل ہوتے ہی فرق مٹ جاتے ہیں ـ تب ہی دوئی کا خاتمہ ہوجاتا ہے ـ وحدت کی جانب سفر کا آغاز خشیت سے ہوتا ہے جب روح کو جلال ملنے لگے تو یہ مقام ہے ـ مقام اقرا.  یہ مقام لاہوت ہے. مقام لاہوت پر جائے بنا لفظ اقراء کے مکارم سمجھ نہیں آتے. جب لاہوت پر مقیم طائر جاننے لگتے ہیں تو ان کو ترس ہونے لگتی ہے کہ قراءت ہو مزید. ھل من مزید کرتے کرتے ان کو سرر کی منازل میں وہ سب طے کرایا جاتا جس کے واسطے ان کو عبدیت کا درجہ ملنا ہوتا یے. ہم چاہتے ہیں کہ انتخاب کریں تو ہمارا انتخاب کا طریقہ یہی ہے کہ دینے والا بس تسلیم میں رہے کہ بقا ہمیں ہے. یہ ہماری کرسی ہے جس پر ہم قرار کیے ہوئے ہیں. ہم دیکھتے ہیں تو روح دمکنے لگتی ہے. اسکو ہماری چاہت ہے. اے طائر،  تو نفس کے دھوکے و فریب میں پھنس کے اس کرسی کو اپنی کرسی مت سمجھنا ورنہ شہ رگ سے جو قلبی قلبی فرشتہ ہے،  جان کنی کے عالم میں اس سے ملنا محال ہو جائے گا. ہم نے جو عطائے غیب سے عطا کیا ہے وہ اک جریدہ ہے. اس پر جو تحریر ہے وہ فیکون کا وہ علم ہے جو تکوین کا محتاج ہے. ہم نے چاہا کہ پرواز دی جائے تو ہم چاہیں گے ایسا ہوگا. کسی کی مجال نہیں ہے کہ ہمارے قانون میں دخل ڈالے 

اے طائرِ سدرہ!  تجھے کس بات نے دھوکے میں ڈآل رکھا ہے؟  یقین کے بنا کچھ ممکن نہیں ہوتا ہے. جب تک نوری ہالہ مکمل نہ ہو، تب تک وہ مقام مقربین کا جو لکھا ہے، وہ ملتا نہیں . نقطے سے سفر شروع ہوتا یے دائرہ بنتا ہے اور دائرہ پھرنقطے تک لوٹ آتا ہے. سو لوٹ کے ہمارے پاس آنے والی روح،  اطمینان سے رہ!  سمیٹ لے یہ اشک اور سجدے میں رہ. خدا ساجدین کو محبوب رکھتا یے خدا صابرین کو محبوب رکھتا یے

فانصرنا

فانصرنا فانصرنا، فانصرنا 
ہم آپ سے، آپ ہم محبت رکھتے ہیں . یہ تو محب کا محبوب سے معاملہ ہے جس کے لیے رفعت کا سفر مستقر ہے ـ استقرنا سے فاستقم تک یہ ھمزات سے دور جانے کی بات ہے ـ یہ وہ سَمے ہے جس سَمے آنکھوِں سے آنکھوں فاصلہ خطِ حد تک تھا.  یہ وہ قوس ہے جس کو قلب میں پیوست کیا گیا گویا قلب خود اک تلوار مانند قوس ہے  . یہ کیفیت!  یہ احساس جب طاری ہونے لگا تو ترتیل ہونے لگی ذات اپنی.  ذات اپنی ترتیل ہوتی ہے کسی مصحف کی طرح.  جب اقرا آپ نے کہا، وہ آپ نے کہا ہے مگر جب کہلوایا گیا تو بات بنی ـ تب جوہر ذات کھلا ـ جوہر ذات کھلا تو عیاں ہوا کہ کوئ حاجی بھاگ ایسے رہا ہے جیسے بکل دے وچ چور ـ بھلا چوری پکڑے گا نا ـ اسکو تو چور بڑے پیارے ہیں.

مست ولائے علی مست ولائے علی اور حجاب اٹھا تو شفافیت کے پردوں میں دوئی نہ ملی ـ جو ظاہر میں تھے وہ محمد صلی اللہ علیہ وآکہ وسلم جو درون میں وہ  یکتا و واحد. وہ ہمتا و یکتا جس کی سمت لا ترجمان کی جانب سے ہے گویا لامکان کی جانب سے لازمان کو کھینچ لیتا ہے  زمانے سامنے ـ مکان میں زمانے  بندہ زمانوں میں کھو جائے تو واپس آنا بنتا ہے اگر وہ واپس آیا تو جذب جذب جذب ہوتے باہوش ہوگا کہ صاحب ہوش وہی جسے ہوش نہیِ

Tuesday, December 8, 2020

میری ‏ایک ‏فریاد

میری ایک فریاد ۔۔۔۔۔!!!
ایک عرضی اور فریاد اپنے محبوب کے نام جس نے یہ جہاں بنایا ۔ اس نے ''ُکن '' کہا اور ''فیکُون'' تشکیل و تعمیر کی راہ پر تکمیل کو پہنچا ۔ مخلوق بھی اسی 'کُن ' کی محتاج ہے اور جب وہ دعا مانگتی ہے اور اس کی بارگاہ میں عرضیاں پیش کرتی ہے تو سبھی کچھ یقین کی راہ سے مسافر کی خواہشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیتا ہے ۔ میں نے اس سے عشق کی التجا کی ہے اور اپنی عرضی ڈالی ہے:

درد کے میں سوت کاٹوں!
یا غموں کی رات کاٹوں!
خون بہتا کیا میں دیکھوں؟
یا سہوں مخمور ہو کے ؟
رقص بسمل کا کروں کیا؟
مور کی مانند ناچوں؟
''تم'' سنو فریاد میری!
نالہ غم کس سے کہوں میں ؟
''تجھ'' بنا کیسے رہوں میں ؟
لوگ قصہ عام کرنا چاہتے ہیں!
اور مجھے بدنام کرنا چاہتے ہیں!
خود تو محوِ عشق ہیں ''وہ'' !
تذکرہ میرا' وہی' اب عام کرنا چاہتے ہیں!
سات پردوں میں چھپا '' اللہ '' تو ہے!
جلوہ گاہوں میں بسا'' اللہ'' تو ہے !
آنئے بنتے ہیں کوئی ،
عکس بھی ہوتے ہیں کوئی،
ہے پسِ آئینہ بھی وہ ،اور پسِ مظہر بھی وہ ہی ہے ،
اس کا جلوہ چار سو ہے !
التجا میری ،دعا میری ،رَموزِ عشق کی ہے داستاں کیا؟
بے ادب نے تو حدیثِ دل سُنا دی ہے جہاں کو ۔۔۔۔،

َجمال والا وصالِ ُصورت نظر میں آئے
سکونِ دل کو جمالِ ُصورت نظر تو آئے
فگاِر دل ہوں، جلائے ُشعلہ مجھے سدا یہ!
َجلن بڑھے ! نورِ حق َبصیرت نظر تو آئے
َلگاؤں حق کا میں دار پر چڑھ کے ایک نعرہ
مجھے زمانے کی اب حقارت نظر تو آئے
کہ نعش میری َبہائی جائے َجلا کے جب تک
دھواں مرا سب کو حق کی ُصورت نظر تو آئے
کٹَے مرا تن کہ خوُں پڑھے میراَکلمہ'' لا ''کا
کہ خواب میں بھی یہی ِعبارت نظر تو آئے

کائنات میں عاشق کا سب سے بڑا مرتبہ شاہد ہونا ہے یعنی کہ اس کے وجود کی گواہی دینا ہے ۔ جس کا جلوہ چار سو ہے ۔ وہی عیاں ہے اور وہ ہی نہاں ہے ۔ اے مولا ! مومن دل والے پاک ہوتے ہیں ۔ ان کے دل میں تیری ذات بسیرا کرتی ہے اور مومن کون ہے ؟ ایک بندہ شہاب تھا جس نے دنیا کا لطف بھی لیا اور اور راہ عشق کا مسافر بھی بنا ۔ وہی شہاب جس نے قطب الاقطاب سے پیالہ فقر رد کردیا کہ دنیا اور دین دونوں کی چاہت پر اس کا یقن استوار رہا ہے ۔ انسان وہ بھی تیرا کہ وہ چلا گیا مگر اس کا ذکر آج بھی زندہ ہے ۔ ہم نے سنا ہے کہ اس کے میخانے میں شراب عشق کے جام مفت مل جاتے تھے اور ایک اور بندہ جس نے کعبہ پاک کو کالا کوٹھا بنا دیا اور اپنی ذات کے طواف میں مست ہوگیا اور خود میں ناچنے لگا ۔ مالک ! یہ کیسی رمز ِ عشق ہے جو عاشق کو بے ادب و گُستاخ بنا دے اور وہ وہ بول دے جس کا زمانہ درک نہ رکھے ۔

َرموزِ عشقِ کا آئینہ ،عینُ العین ہے کون؟
مجاہدُ حیدرِ کرّار بابُ العلم ہے کون؟
َصاحب جلال کہ صاحبِ رائے بھی ہے کون؟
ہے صِدیقی و حبیبی کون ؟یارِ غار ہے کون؟
ُمعزز وہ زَمانے کے، ہیں ہم رسوائے دنیا !
وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ
ذلیل و خوار مجھ سا اس زمانے میں ہے بھی کون؟
مرے عیبوں پہ پردہ ڈال کے مولا کرم کر !
مری ُپر عیب ، کم تر ذات۔۔۔ اس کا رکھ بھرم تو!
کرم تیرا کہ ترتیل میری ذات کر دی !
رہی خامی نہ ، ترتیب میری ذات کردی!​

ے شک! ذلیل کیے جانے میں امن ہے اور شہرت میں رسوائی ہے ۔۔۔! . یہ راستہ اور اس سفر میں تھکن نے مجھے مضطرب کردیا ہے. مولا! مجھ کو کس راہ پر ڈال دیا.تیری راہ کے عشاق بڑے عجیب ہیں ۔ کچ مفتوح اور کچھ فاتح ، کچھ ممدوح تو کچھ ثناء خوان اور کچھ ذلیل تو کچھ معزز ہیں ۔ یہ تیرے فیصلے ہیں کہ تو جسے چاہے جیسے نوازے اور جس روپ میں نوازے اور جو شکر کرلے۔ 

ہم میں سے مالک کوئی ایسا نہیں آیا جو ترا یوں نام روشن کرتا جیسے اوپر کیے ذکر گئے اصحاب نے کیا اور اپنا نام منور کرتے عالم کو بتا دیا کہ جن کو یقین کی راہیں مل جاتی ہیں ان کو وسوے ڈرا نہیں سکتے اور نہ ہی وہ ڈگمگا سکتے ہیں ۔ہم سے تو ترے نام کی صدا بلند نہیں ہوتی اور نا ہمارا دل ترے ترانے سنتا ہے اور نا ہی دل میں تیری یاد کے چراغ روشن ہوتے ہیں ۔ ہم تو وہ لوگ ہیں مولا ! جنہوں نے کلمے کی لاج بھی نہ رکھی ، ہم نام کے مسلمان بھی نہیں ہیں ۔

لیس کمثلہ شئی ....
" "لیس لہٗ کفو احد!!
" "لیس ہادی الا ھو!"
"ھو! ھو! اللہ ھو!!
" "لا الہ الا اللہ"
"حق! حق! اللہ اللہ"
" حسبی ربی جل اللہ"
"ما فی قلبی الا اللہ"

"
مجھ کو حدی خوان بنایا ہوتا !!
یا احد! نغمہ سراں بنایا ہوتا !
ایک تیری راہ میں قربان ہوتی!
مجھ کو نفس پر رہنما بنایا ہوتا!
اے کون و مکان کے مالک!
نور پوشیدہ کتنا رہتا ہے!
ہمیں نظر نہیں آتا ....
حق! مالک کیونکہ اندھیرے میں میری ذات ہے
. رخ سے اب اپنا پردہ ہٹادو
تاکہ دنیا پر تیرے "نور " سے
عالم میں اجالا ہو جائے

حاجی ‏کون ‏..... ‏؟







دنیا میں خواہش کا ہونا اللہ کے ہونے کی دلیل ہے اور اس کی حسرت ہونا انسان کے عبد ہونے کی دلیل ہے ۔ کچھ لوگ خواہش کو حسرت بنا لیتے ہیں اور کچھ لوگ خواہش کی تکمیل کے لیے جان لڑا دیتے ہیں اور کچھ امید کا دامن سدا یقین کے سفر پر رواں رہتے ہیں ۔ یونہی ایک دن میں نے بھی خواہش بُنی کہ میں حج کرنا چاہتی ہوں ۔ لوگوں کو حج کرتے دیکھا کرتی اور سوچتی کہ بڑے خُوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ کے گھر جاتے ہیں ۔ عید الضحی پر پچھلے سال افسردہ بیٹھی تھی کہ دل سے ایک صدا اُبھری :​

حاجی کون۔۔۔۔۔!
وہ جو خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں
وہ جو قربانی کی یاد مناتے ہیں
قربانی جس کی ابتدا حضرت اسماعیلؑ سے ہوئی
قربانی جس کی انتہا حضرت امام حسینؑ سے ہوئی
میں انہی سوچوں میں غلطاں رہتی تھی کہ مجھے کون سی قربانی دینی ہے ۔
کیا ہم سب کو قربانی کی صرف یاد منانی ہے
یا اس کو مقصدِ حیات بنانا ہے ؟
مجھے اچانک ایسا لگا کہ کوئی اندر صدا لگا رہا ہے !
دل سے ایک صدا ابھر رہی ہو
جیسے کہ اچانک کوئی اندر مجھ میں صدا لگا رہا ہے ۔
میرے سامنے تو آؤ۔۔۔!
من مین چھپے لگاتے ہو صدائیں۔۔۔!
بڑی رنگوں کی پکار تم کرچکے
بہت سے رنگ مجھے دکھا دیے !
مجھے رنگوں میں الجھا دیا ہے!
پاؤں میں زنجیر ڈال مجھے مسافر کردیا ہے !
میری پاؤں میں اپنی تلاش کی زنجیر ڈال دی ۔
کس کے پیچھے میں بھاگوں...!
اور کروں تلاش کا سفر ۔۔!
اس نگر سے اس نگر کا سفر،
پاؤں میں ڈال تلاش کی زنجیر
مجھے تو مسافر کردیا ہے .......!
ہائے ! تم نے یہ کیا کر دیا ۔۔!
میرے لیے سب صحرا کر دیا۔۔!
کس سمت جاؤں اور کس کو پکاروں ؟
کہ میں رنگی ہوں تو کیسے ؟
یہ رنگ مجھ پر کیسا ہے ؟

''او رنگی ۔۔!
اپنے اندر جھانکتی کیوں نہیں ہے ؟
من میں جھانک اور پا سراغ ِ زندگی !
مٹا کے ہستی کے سب رنگ
تو کر اب میری بندگی
دیکھ ۔۔۔!
پاس جا'' کالے کپڑے ''کے
''کالے کپڑے'' میں چھپا حرم ہے ۔
کعبہ کو سلام پیش کر اور گزر جا۔۔!
یہی تیرا کام ہے ایسے ہی شور نہ مچا تو ''

کون ہو تم َ؟
''رنگی '' کہنے والے تم کون ہو ؟
مجھے کس نے رنگنا ہے ؟
میرا عشق باؤلا ہے اور روح مدہوش !
کیا تم نے رنگا مجھے ؟
ایک طرف جی چاہتا کالا کپڑا ہٹادوں ۔۔۔!
پھر جی چاپتا ہے پاس کھڑے مناجات کروں !
مجھے یقین ہے وہ میری دعا کو سنے گا !
وہ جس کا گھر ہے ''یہ''
دعا ہوگی میری قبول ،
اس کے بعد کیا ہوگا ؟
میرا نہ رنگ رہے گا اور نہ روپ ۔۔۔۔۔!!
میرے اندر کون ہوگا ؟کیا تم ۔۔۔۔؟

سنو۔۔۔!!

وہ کعبہ اِدھر ہے تو'' یہ'' کعبہ اُدھر ہے ۔
ِادھر بھی رنگ کالا ہے اور اُدھر بھی۔
اِدھر طوافِ خاک اور ادُھر میری ذات ہے۔
اِدھر بدن مست ہے اُدھر میں مدہوش ہوں
اِدھر تم نظر آتے ہو اور اُدھر تم بس چکے ہو
اب بس چکے ہو تو طواف ہو رہا ہے ۔
اِدھر بدن محو رقص تھا اب روح محوِ رقص ہے!!
اُدھر کوئی عاشق تھا تو اِدھر مجذوب ہے !!
اُدھر ست رنگی اور اِدھر یک رنگی ۔۔۔
اُدھر شاہد تھا کوئی اور اب مشہود
اُدھر کوئی ضرب لگائے پھرتا ہے۔
لا مشہود الا اللہ!
لا موجود الااللہ!
لا مقصود الا اللہ!
لا معبود الا اللہ!
حق ! لا الہ الا اللہ!
اور ِادھر خاموشی ۔۔۔!

'' خاموش'' تم اب بھی رنگی ہو ۔۔ !
سارے رنگ تمھارے میرے ہیں !
تیرا باطن اور ظاہر کس کا ہے؟
تیرا قبلہ و کعبہ کس کا ہے ؟
بھید چھپا اندر کس کا ہے ؟
تیرے دل میں عکس کس کا ہے ؟
یہ اکتساب و اضطراب کس لیے؟
فنا کے راستے پر حدود کس لیے ؟
اے خاکی ! یہ شبہات کس لیے ؟

یہ'' اضطراب۔۔۔! ''
تو نہ ختم ہونے کا ایک سلسلہ ہے۔
جو شاید قیامت تک جاری رہے گا۔
اس اضطراب کا اظہار کیسے کروں ؟
اپنے ''اندر ''کا جلوہ کیسے کروں ؟
وہ رنگ جو بکھرے تھے!
اب وہی رنگ جمع ہو کر،
ایک سفید روشنی کو جنم دیتے ہیں ۔
اس پر کالا کپڑا ہے ۔
اس کو دیکھوں کیسے؟ ؟


ہائے ! یہ اضطرابی۔۔۔!
کیسے ہوگی دید ؟
کتنے پردوں میں چھپا ہے'' تو''
یہ رنگوں کی دنیا ہے!
خوشبو کی دنیا ہے!
نغموں کی دنیا ہے!
اور سب کے اندر ''تو''
بس ایک آواز لگنی باقی!
بس وہ ہے تیری " حق ھو"
ہائے ! یہ حجابی ۔۔۔!
کیسے دیکھوں ؟
میرے رنگ'' کالے کپڑے'' نے کھینچ لیے
اور میں خالی ۔۔۔۔!
میرا اندر خالی!
میرا باہر خالی!
مگر باقی اک ''تو ہی ''تو''
تو ہی میرا سائیاں !
تو ہی میرا سائیاں!
دل کرے اب دہائیاں۔۔!
تو ہی میرا سائیاں۔۔!
جھلک کرداے نا اب!!


''سنو''
رنگی ۔۔۔۔!!!
حجاب ضروری ہے اور طواف بھی ضروری ہے ۔تم طواف کرتے رہے ہو اور تمھیں طواف میں سرشاری کے مقامات پر شاہد رہنا ہے ۔ تمھارا اضطراب اور خواب سب حقیقت میں بدلنے والے ہیں ۔اور ان کے بعد'' رازِ کن فیکون ''ہو جانا تم پر لازم ہے ۔زبان تمھاری خاموش رہنی چاہیے اور دل کو جاری رہنا چاہیے ۔ تمھاری ذرا سی کوتاہی تمھیں مجھ سے میلوں دور کر دے گی ۔اور دور ہوجانے والے بعض اوقات '' عین '' سے دور ہوجانے والے ہوتے ہیں۔۔۔!!!اپنی تقدیر تم کو خود بنانی ہے ۔وہ جو لوح و قلم پر رقم ہے اس کی دونوں انتہاؤں کو رقم کیا جاچکا ہے ۔ راستے متعین تمھاری عقل نے کرنے ہیں اور اس کے بعد عقل کا کام ختم ہو جائے گا ۔



او ۔۔!'' رنگی'' ۔۔۔!
جب عقل اپنا کام تمام کر چکے گی ۔
تیرا لا شعور تب جاگ جائے گا۔
تب خاکی سچا موحد ہوگا!
اور تیرے ذکر میں میرا ذکر ہوگا۔
''الا بذکر الا اللہ تطمئن القلوب''
میرا ذکر تیری چادر بن جائے گا!!
خوشبو چار سو پھیل جائے گی ۔
اور تب سب حجاب مٹ جائیں گے ۔
تیرا اضطراب بھی مٹ جائے گا۔
او خاکی ! تو صرف میرا ہوجائے گا ۔


خلقت کعبے کے گرد ''سو'' طواف بھی کرلے ''حج'' نہ ہوگا جب تک میرا طواف نہ کرے ۔ دیواروں کو چومتے چومتے ، کالا ہونے کی دعا مانگنے والے کم کم ہوتے ہیں ۔ یہی '' خلا '' تو بقا ہے ۔ اسی میں چھپی دوا ہے ۔ اور کالا رنگ اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے ۔ کیا سنا نہیں تم نے ؟

إنما أمره إذا أراد شيئا أن يقول له كن فيكون


یہی مجھ تک پہنچے کے مدارج ہیں ۔ ان مدارج کو پہنچے بغیر حج کا عین تم نہ پاسکو گے ۔ بالکل اسی طرح تم کو ثوابِ طواف ضرور ملے گا جس طرح تم قرانِ حکیم کو سمجھے بغیر پڑھتے ہو بالکل اسی طرح تم حاجی بھی کہلاؤ گے ۔ جب تم آیتوں کو کھول کر پڑھو گے اور آیتوں کو آیتوں سے ملاؤ گے تو مشہودیت تم پر لاگو ہوجاؤ گی

نیلا چاند، سرخ جام اور سبز لباس...!!!​





شام کے وقت سے صبح کا وقت ، ایک انتظار سے وصال اور وصال سے ہجر کا وقت ہوتا ہے . جانے کتنے دکھ ، اللہ جی ..! جانے کتنے دکھ ... ! آپ نے رات کے پہلو سے دن کی جھولی میں ڈالی ، جانے کتنے درد سورج لیے پھرتا ہے . اللہ جی ..! سورج بڑا ، اداس ہے ... اس کو رات میں دیکھا ہے ، جب میں چاند کو دیکھ رہی تھی .. !​

دل سے صدا تو اُبھری ہے ، دل کہتا ہے ، اللہ جانے نا...! اللہ جانے کہ کس کو کتنا دینا ہے ، جس کو جتنا ظرف ہوتا ہے اتنا اس کو درد ملتا ہے ..!! سورج کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔۔۔ پیار بانٹنے والے کے حصے میں دینا لکھا ہے اور درد پی پی کر ، سورج کو قربانی دینے کی عادت سی پڑ گئی ہے ۔۔۔۔ اس کی عادت ، نے رات کی جھولی بھرنی ہوتی ہے اور رات سورج کی تلاش کی عادی ۔۔ انتظار کی ''عادت '' کس کی ۔۔۔؟​
جانے کس کی ، زمین کی یا رات کی ، یا پھر چاند کی ۔۔۔؟​
کون جانے ۔۔۔۔!​
بس جانے تو ، ایک '' عادت'' کی لت پڑجانے کا جانے ۔۔۔!​
اب کہ عادت سی ہوگئی ہے ، عادت ... !​
ہاِں...!​
عادت...!!​
کیسی عادت ...!​
سورج سے، چاند کا رشتہ معلوم کرنے کی عادت ،​
زمین سے اللہ کا رشتہ جاننے کی عادت ..!!​
زمین پر چاند بھی ہے ، اس کے گرد گھومتا ہے اور سورج اس کو روشنی دیتا ہے ...۔۔۔۔!.​
اب پوچھیے !​

زمین کا رشتہ کس سے کتنا گہرا....؟ ہوسکتا ہےچاند سے ہو ، چاند زمین کا طواف کرتا رہتا ہے ، زمین کو سورج سے زیادہ ، چاند اس لیے عزیز ہے .... رات کا چاند سے ملنا ، اللہ جی کی نشانی ہے ... اللہ کے امر میں کون رکاوٹ ڈالے ..؟ بات تو وہی ہے نا...! زمین کے گرد چاند ایک ہے مگر زمیں میں طوفان لاتا ہے ، اس کے سمندر میں شور لا کر لہروں کو بڑا تڑپاتا ہے . یہ بھی پتا نہیں چل رہا کہ چاند زمیں کو کشش کر رہا ہے یا زمین چاند کو ...۔۔۔۔! مگر رات بڑی حسین ہو گئی ہے ...۔۔۔! کرم رات پر ہو ... ۔۔۔۔!کبھی کبھی رات کو وصال میں مزہ آتا ، چاند کے رات سے وصل میں زمین بڑی خوش ہوتی ہے اور اللہ جی کی حکمت! اللہ جی کی ...! چاند کو ایک زمین سے پیار ہے ۔۔۔! سورج کے پیار کئی ہیں ...۔۔۔! اس لیے چاند پہ لوگ مرتے بڑے ہیں .۔۔۔!. قسم لے لو! چاند کی محبتیں ، چندا کے نام سے منسوب ہیں ... سورج کی محبتیں بڑی بے نام ہیں ، خشک ، خشک سی ...!!!​

کبھی زمیں بڑی کشش کرتی ہے ..!​
ارے ! کس کو ؟​
چاند کو ....!​
اچھا.. اس سے کیا ہوتا ہے ؟​
ہوتا تو کچھ نہیں ہے مگر چاند بھی بے تاب ہوجاتا ہے اور اپنا جلوہ سال میں چودہ دفعہ بھی کروا جاتا ہے ، چودھویں کا چاند اور وہ بھی بار بار ابھرے ..!!​
اس کا حسن کیسے ہوگا..؟​
کیا جانے ہم ...؟​
سبز زمین کی گود میں نیلا چاند آجائے اور جام ُُسرخ نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے .... ! لبالب جام ہو اور سرخ جام کا مزہ بھی اپنا ہے .اور جام کے بعد کا سماع ۔۔۔ اس کا لطف تو اور ہی ہو۔۔۔ مگر جام کے بعد ہوش کہاں ۔۔۔؟​
کہاں ہوش ، ہوش تو نہیں ہے ۔۔؟​
لگتا ہے کہ پہلی ہی پی رکھی ہے ، جو سرخی کی بات ہورہی ہے ...!!​
کیا فرق پڑتا ہے ...؟ پیے جاؤ اور پی لو ... بس پیمانہ بڑا ہو ..... اور اتنا ڈالو کہ سب کے سب جام پیمانے میں سما جائے ...!!! پیمانے بڑا کرنےسے نہیں ہوتا بس ودیعت کردہ ہوتا اور چھلک بھی جائے تو کیا۔۔۔؟​

لگتا ہے دیوانگی چھا گئی ہے ...؟​

دیوانہ جام کا رنگ کیا جانے .... یہ سرخ جام تو ہوش کی نشانی ہے ، یاقوت کی طرح بدن میں سما کر ، روح کو نیلا نیلا کر دینے والا....! پینے کے بعد کا ہوش کہیں مجھے بہکا نہ دے ...!!! ہوش والے بہکتے نہیں ہیں اور جوش والے سمجھ کہاں رکھتے ہیں ، فرق ہی مٹ جاتے ہیں سارے کے سارے ...!! بس فرق ختم ہوجاتے ہیں ۔۔ تفریق مٹ جانا اچھا ہوتا ہے۔ اس سے تضاد ختم ہوتا ہے ، رنگ اڑ جائے تو تضاد کے بہانے سو۔۔۔!!!​

زمین نیلی ہورہی ہے اور چاند بار بار جھلک دکھلاتا ہے ، چاند کی تاک جھانک سے سمندر میں مدوجزر آگیا .... سیلاب آگیا اور زمیں سبز سے نیلی ہو رہی ہے .... برباد ہو رہی ہے ، تخریب ہو رہی ہے ، مٹی بدل رہی ہے ، ریختگی بڑھے یا زرخیزی .... سیلاب کا کام تو دونوں چیزوں کے سبب پیدا کرنا ہے ...!! اللہ کی حکمت ۔۔ اللہ جی جانے ، وہ جانے ، ہم کیا جانے ۔۔۔؟ ہم تعمیل کے غلام ۔۔۔ غلام ، بس غلام اور کچھ نہیں ۔۔۔! آنے دو سیلاب ۔۔۔! اس کا کرم ، اس کی حکمت اور اس کی حکمت بندہ کیا جانے ۔۔۔ !بندہ جانے وہی ۔۔۔ جو وہ جانے بس۔۔۔!!!​

سیلاب سبب زندگی اور سیلاب سبب موت بھی​
یہ حیات کا عندیہ بھی اور جانے والے کا سندیسہ بھی .... !​

کون جانے کہ کس نے جانا ہے اور کس نے آنا ہے ، مگر زمین نیلی نیلی ہے ، اس کا سبز رنگ ، نیلا ہوتا جارہا ہے ، کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ زمین کہیں پوری ہی نیلی نہ ہوجائے .....!! اور ہوش کھوتا جارہا ہے ...!! زمین نیلی ہر دفعہ ہوتی کہاں ہے ، یہ بھی اس کا حکم ہوتا ہے اور جب حکم ہوتا ہے ، تب جام ملتا ہے ، جام ۔۔۔ جام بس اور جام کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔!​
جام پر جام ...!​
کتنا پینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟​
دل کر رہا ہے ۔۔۔۔!​
بس 'مے و شراب سے کبھی نہ نکلوں ۔۔۔۔!​
بس کبھی بھی نہ ۔۔۔!​
سرخ شراب ، بس سرخ ، سرخ ، اور سرخ.... سب سرخ ہوجائے ...!!!​

بس ، سرخی جام ، نیلا چاند اور سبز زمین کا وصل ہوگیا اور ایک '' نور'' کا ہالہ سا بن گیا...........!!! ایسا ہالہ کب بنتا ہے ، جب بنیاد مل جاتی ہے ، جب سب اجزا مل جاتے ہیں ۔۔۔ جب بکھر کر سب سمٹنے لگتا ہے ۔۔ اور فرق ختم ہوجاتا ہے ۔۔۔!!!​
نہ سرخ رہا..!​
نہ سبز رہا...!​
نہ نیلا رہا...!​
صرف ''نور ' رہا....!!!​
وہ جو ازل سے دل میں مکیں ہیں ، وہ تو یہیں کہیں ہے اور اسکو ڈھونڈتا کوئی بہت حسیں ہے ، اس کی چاہ میں کس کی ہورہی ترکیب ہے ....!!!​

کون جانے ، کون جانے ، کون جانے...!!!​
کوئی نہ جانے ....!!​
بس ''وہ '' جانے ...!!

یوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ​





یونہی ہنس کے نبھا دو زیست کو مسلسل​
محسوس کرو گے تو مسلسل عذاب ہے​

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جسم سیال بن کر بہنا شروع کر دیتا ہے. روح کا ذرہ ذرہ کانپتا ہے. اور درد کی سوغات کی گرمائش سے گھبرا کر دل درد کی کمی کی دعا مانگنے لگتا ہے. درد کا کام ہے۔۔۔! کیا ! شعلے کو بڑھکانا! شعلہ بڑھکتا ہے اور روح کو لپک لپک کر بانہوں میں لپیٹ کر وار کرتا ہے.۔۔۔۔۔۔۔!!! درد بذات خود کچھ نہیں، اس کا ماخذ اندر کی تخریب در تخریب کرکے مٹی کی گوڈی کرتا ہے۔۔۔!!! اور مٹی جب تک نرم نہیں ہوتی یہ وار کرتا ہے!!!. اس نرم زمین پر پھول کھلنا ہوتا ہے . اس پھول کی خوشبو کا عالم دیوانہ ہے اور بلبل اس کی پروانہ وار متوفی ہے. جگنو کا رنگ و روشنی اس خوشبو کے آگے ماند پڑجاتا ہے. کون جانے محبت کے درد میں چھپی خوشبو۔۔۔!!! جو! جو جان جائے وہ جھک جائے، وہ مٹ جائے۔۔۔۔۔۔۔!!!​

درد کے ہونے کے احساس کئی سوالات کو جنم دیتا ہے! جب درد وجود بن جاتا ہے تو وجود کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس سوال کی تلاش اور کھوج میں ایک بات ذہن میں آئی ۔۔۔۔! میں نے ایک کینگرو کے بچے کو زمین پر بھاگتے ہوئے پایامگر اس کے پاؤں زمین پر بھی نہ تھے ۔ مجھے لگا اس کو کوئی اٹھائے ہوئے ہے ۔میں نے غور کیا تو محسوس ہوا کہ اس حجم زمین سے سے پانچ انچ اوپر ہے اور کبھی لگا کہ وہ کسی کی آغوش میں ہے مگر مجھے اس طرح کی آغوش کی سمجھ نہیں آئی جو نظر نہیں آتی ۔ کیا کینگرو جس نے بچے کو اٹھایا ہوا اور اس کو وجود ختم ہوگیا ؟؟؟؟ یا یہ کہ وہ ایک دائرہ لطافت میں داخل ہوگیا ہے۔۔۔! کیا پھر میں یہ مان لوں کہ کینگرو ہی نہیں رہا ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس کا وجود نہیں ہے۔۔۔۔؟؟ مگر اس کے درد کا وجود تو ہے ۔ ہم گزشتہ سے پیوستہ ہیں اور جس رشتے سے پیوست ہیں وہ ایک درد کا اور تخلیق کا رشتہ ہے ۔۔۔۔۔!!! مگر کون جانے اس تخلیق کی اذیت ۔۔؟​


کون جانے گا ؟ کوئی تو ہو جو روک لے ! جب کوئی روکے گا نہیں تو اذیت بڑھتی جائے گی اور لامتناہی ہوگی ۔ اللہ ہم کو نظر نہیں آتا مگر اللہ سے ہمارا رشتہ درد کا ہے! تخلیق کا ہے ! خالق کو مخلوق سے محبت ہے ! مگر ہم کو اس کا احساس جب ہوتا ہے جب ہم درد میں ہوتے ہیں۔سارے رشتے اللہ جی سے درد کے ہیں ! ہم جھکتے اللہ کے آگے درد میں ہے مگر میرا درد اتنا نہیں کہ میں جھکوں ! میں تو دنیاوی سہارے لے کر درد کو سُلا دیتی ہو۔۔۔دل میرا صنم خانہ بن جاتا ہے ! اور کبھی اس میں بُت رکھ دیتی ہوں ! اقبال کو بھی یہی درد محسوس ہوا ہوگا۔۔!!!​


جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا​
تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں​


دل تو صنم خانہ بنا مانگتا ہے سہارا۔۔۔۔۔۔۔ ! اور ہے یہ بڑا بیچارہ۔۔۔۔ ! روتا ہے۔۔۔ ! رونے دو ۔۔۔! ہنستا ہے۔۔۔ ! ہنس لینے دو۔۔۔ ! کرنے دو اس کو ! ہنسے یہ کھیل کر ۔۔۔۔! کہ ہے تو رونا اس کو ۔۔۔۔۔! تو تھوڑا سا ہنس لے۔۔۔۔۔۔۔ ! مستی کرلے ! مستی کرکے کیا کرے گا ! ہے یہ بڑا بیچارہ ! ناہجاز! دل کی تڑپ اگر تمثیل بن جائے اور غلامی کا تاج پہن لیا جائے تو کیا ہوتا ہے ! وہی ہوتا ہے جو شاعر کہتا ہے​

ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا​
صبر ایوب کیا، گریہ یعقوب کیا​

جب دل درد سے معمور ہوجائے تو میخانہ بن جاتا ہے ! میخانہ چھلکتا ہے ! چھلک کر ٹوٹ جاتا ہے ! آواز تک نہیں آتی ! ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !کیا ہے دل شکستہ رب کو عزیز بھی بڑا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔!! اللہ دلوں کوتوڑتا ہے اپنے اصل سے جوڑنے کے لیے ۔۔۔۔۔!! مکمل دل میں دنیا اور ٹوٹا ہوئے میں اللہ کا بسیرا ہوتا ہے ! کرچی کرچی ہوتا ہے ! ہونے دو ! توٹتا ہے ! توٹ جانے دو ! مگر کیا ہے احساس ہونے دو کہ درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔! لوگ احساس بھی ہونے نہیں دیتے ۔۔ہم نےدرد کے آئینے کو سنبھال کر رکھا۔۔۔۔۔۔ ! غم ہوتا بھی تو انمول ہے نا! جب ہم دکھوں کو انمول کرکے ان کو بے مول ہونے سے بچالیتے ہیں تو اللہ جی ! اللہ جی ! خود کہتے ہیں ۔۔۔۔! کیا کہتے ہیں ؟؟؟ وہی جو ابھی لکھا ہے ! کیا لکھا ہے !​

تو بچا بچا کہ نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ​
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں​

یہ لکھا ہم نے تو نہیں ! مگر یاد آیا ہے بڑا ! کہیں ہمارے دل ٹوٹا ہو تو نہیں ! مگر یہ بڑا سالم و قوی ہے ! اس میں بسا دنیا کا درد ہے درد ہے ! ارے !!! اس میں دنیا کی خاطر تو کوئی درد نہیں لیا ہوا۔۔۔۔ہم شروع سے اپنی دھنی اور خوش رہنے والے ! دھن تھی کہ مارکس اچھے ہیں کبھی ٹاپ کرنے کو سوچا نہیں تھا! ہمارے مارکس اچھے آئے ہم تو خوش۔۔۔ ! مگر ہمارے اساتذہ ہم سے خوش نہیں۔۔۔ ! ان بقول ہم کوٹاپ کرنا تھا ! سو ہم نے ان کے دکھ کا سوچا ہی نہیں ! اور کبھی سوچا نہیں انسان کو دوسرے کے دکھ کے لیے پیدا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔!!! درد دل میں پیدا ہوتا تو اپنے ہم عمروں کے لیے ! کہ چلو ۔۔۔۔۔! چلو ۔!!! آئنے سے پیار کا تقاضہ تو نبھ رہا ہے مگر تھی تو کرپشن ! ہم سب سے بڑے نقل خورے ! ہم نقل کروا کے اپنا اصل چھپا لیا کرتے تھے۔۔۔لوگ ہم سے آگے نکل جاتے مگر ہم کو اصل سے زیادہ ان کی پرواہ ہوتی ۔۔۔! اگر میں اور آپ ! سب مل کر آئینوں سے ، سبزے سے ! صحرا سے ! درختوں کی بریدہ شاخوں سے ! خزاں کے زرد پتوں سے ! بہار کی اولین خوشبو سے ! سرمئی آنچل پر بادلوں کے نقاب سے ! زمین پر پھیلے اشجار سے ! اُس کی تخلیق کے ہر روپ میں پنہاں درد کو سمجھنا شروع کردیں گے تب ہمارا شجر تخلیق سے رشتہ اور پیوستہ ہوجائے گا۔۔۔!​

تو ‏نوازنے ‏پر ‏آئے ‏تو ‏نواز ‏دے ‏زمانہ

 نوازنے پر آئے تو نواز دے زمانہ


ایک جھونکا باد کا ... اور ایک بازی ہے صیاد کی ...! دنیا بڑی سیانی ہے ...! باد کے جھونکوں سے ، نیلم کے پتھروں سے ، ہیرے کی کانوں سے ، اونچے اونچے گھرانوں سے ، بے وقعت آشیانوں سے ، ایلپ و ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتی خاکی مقید کو اور خاکی مقید کی قید میں کر دیتی ہے. ایک شے کی بے وقعتی ...! لوگ سمجھتے نہیں شے کی وقعت کو سمجھانا پڑتا ہے..! خاک کو خاکی آئینہ نہ ملے تو خاکی قبر کے ساتھ ساتھ لامکاں کی بلندیوں پر پرواز کرتی روح دھڑام سے نیچے گرتی ہے.....! چھوٹی موج کا شکوہ ہوتا ہے ! کرتی ہے ! مگر آسمان سے گر کے جو معلق ہوجاتے ہیں ان کو ہم کہتے ہیں : نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے!​

اس کی زندگی 'تین اور تیرہ' کا المیہ بن جاتی ہے ...! تین کا کلمہ اکیلا پڑھنا حق کو گوارہ نہیں اور چار والی سرکار عدد تین کے بغیر کچھ نہیں ہے .. کسی نے کہا اور خوب کہا​

یا صاحب الجمال و یا سید البشر​
من وجھک المنیر لقد نو القر​
لقد یمکن الثنا کما کان حق ہو​
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر​

تین بذات خود سہ حرفی ہے کہ وہ یکتا ہے .. ! جب کہ تین اور ایک کو جمع کرلو تو عدد چار بن جاتا ہے ...مخلوق اللہ کی ایک ہے ..باقی سب تین ہے .۔۔۔۔۔۔۔!!!.یہی ایک کا فرق چار والی سرکار کو تین سے جدا کرتا ہے اور بولتے ہیں سعدی صاحب: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ..۔۔۔۔۔۔۔۔.!!.! اس تین میں چھپا اک نور ہے۔۔۔۔!!! اور جو مخلوق سے ربط استوار نہیں رکھ سکتے ان کا مقام نہ تین سے ہے اور نہ ہی چار سے ...آسمان اور زمین کے درمیان معلق لوگ ..۔۔۔۔۔۔۔!!!. جو سفل بھی نہیں ہیں مگر وہ مومن بھی نہیں ہیں .۔۔۔.! حق کا کلمہ ان کو معلق کیے ہوئے ہیں ! حق !حق ! کرتے ہیں زندگی بسر کرکے درمیانی زندگی کا تعین ان کی مسافت کو جِلا بخشے گا ...۔۔۔!!!وہ مجہول سوال نہیں کریں گے اور نہ کہیں گے : کہاں جاؤں میں ....!!!​


حقیقت کا پردہ دھیمے دھیمے نغمے پر فاش ہوجاتا ہے اور صاحبِ حقیقت ان دھنوں کے لے پر ناچ کر ، دھمال ڈال کر ، لے کی مستی میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہوجائے تو اس کی آگہی کے در کھلنے پر اس کی ذات سے حق کو کیا حاصل ...؟ حق بڑا جلال میں ہے ....۔۔۔...!! اس کی تاب لانے کو حوصلہ چاہیے کہ درد صدیوں کا لمحوں میں دے کر پل پل کی مار ماری جاتی ہے ! یہاں پر جلال حق کو بنتا ہے کہ اس نے بندے پر مان کیا اور اس نے مان کی لاج نہ رکھی ...... اس پر تیرہ کا در ... چار نہ ہوسکا اور جب چاند ٹکرے کرنے والا نظر نہ کرے تو ...؟ تو حق کیا کرے گا ...؟ چاند نگر کا باسی زمین سے ناراض ہوتا کب ہے .. اس کی محبت زمین سے اتنی ہے کہ وہ اس کے گرد گھوم کر اس کی ایک ایک بات کی خبر لے رہا ہے ...!!!​

قران پاک کی ایک آیت ناشکروں کے لیے اتری جو ''افلا یعقلون'' کی مثال پر صادر آتے ہیں ۔۔۔۔۔.!!!. نشانیاں دیکھ کر انکار کرتے ہیں .. جب رب فرماتا ہے : تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ....؟؟؟؟ کھول کھول کر نشانی بتانے کے بعد عقل رکھتے ہوئے یہ لوگ اندھے ہوتے ہیں ....۔۔۔۔۔ ! رب کا جلال ان کو نیچے گرنا نہیں دیتا کہ اس کو گوارہ نہیں کہ وہ پاتال میں گر جائیں اور نہ ہی ان کو قرب دیتا ہے ...!!! ا​


کعبے کو کس منہ سے جاؤ گے ....؟ شرم و نہ حجاب... ! نہ پاس یار کا...! او میرے بندیا !​

شرم کر ...! شرم ! شرم ! اور ڈوب جا اپنے من کے گیانوں میں ...! تیرا گیان ہی تیری پہچان ہے ...!!! غار بھی ہے ! چٹان بھی ہے ! فکر کا راستہ بھی ہے ! عقل سے گزرنے کا راستہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔!اتنی جلدی رب سے مایوس ہوجانا...!! میرے پیارے دلدار ...!!! تیری آنکھوں سے گرنے والا پانی اس بات کی پہچان ہے کہ تجھ کو مجھ سے کتنا پیار ہے.۔۔۔۔۔۔۔۔.! کیا میں تیرے پیار کی لاج نہ رکھوں۔۔۔۔۔۔۔..؟ کیا​
میں تیری شرم کا حجاب نہ بن جاؤں...۔۔۔۔۔۔۔؟ رب تیری باتیں تجھ کو کھول کر بتانا چاہتا ہے کہ آنکھ کھول کر زمین کا نظارہ کر.۔۔۔۔۔۔...!!! ​

تجھ کو پرواہ ہے درد کی جو تیرے سینہ کھل جانے پر عطا کردہ ہے .۔۔۔۔۔..! ساری زندگی کیا تو اس کی دوڑ میں صرف کردے گا؟ بتا ..!!! تجھ کو اس دنیا میں کچھ کام کرنا ہے ...! جب تک تو وہ کام نہیں کرلیتا ۔۔۔۔!!تجھ کو اپنی محبوبیت سے دور رکھنا ہی میری منشاء ہے. ایک میرا غازی بندہ ! وہ جس نے قرامطییوں کو شکست فاش دے کر براہ راست خود کو عدد ''تین '' پر استوار کرلیا ہے..دنیا میں سب تین ہے ۔۔۔!!!مخلوق بس ''ایک '' ہے.. وہ تین جمع چار ....!!! دونوں تینوں کو عین پر پالیا ..۔۔۔۔۔۔!!!. ایک وہ بندہ جس کو نور الدین زنگی دنیا کہے جس کا باپ عماد الدین بن کے ""دین کا ستون"" نور دنیا کے حوالے کرگیا.۔۔۔!!! صدقہ جاریہ اس کا کام...! وہی جس نے نبیﷺ کی قبر مبارک کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے مضبوط کردیا اور خود ایک جانشین صلاح الدین دنیا کو چھوڑ گیا.۔۔.!!! صلاح الدین کا مقصد اللہ نے طے کر رکھا تھا.۔۔۔۔۔!!.​

ایک بار پھر یثرب سے فلسطین آ​
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصی ترا..​

اقصی ٰ نام کی بات سے یاد آیا.۔۔۔!!!..بندے نام ِکے اقصیٰ والے ہو تم...! نام بدل جانے سے کام بدل نہیں جاتے ...!!!! اپنا نام تو نے بدل ڈالا...مگر نام اقصیٰ والے بڑے کام والے ...! جب کام ملے تو بندے کا کام کرنا چاہیے زندگی کا مقصد سب کی زندگیوں میں جدا جدا ہے مگر اس جدا کام کی شاخ در شاخ مل کر نور کو سرچشمہ ِ درخت سے جڑی فیض یاب ہوجاتی ہے .۔۔۔. !!کوئی شاخ ہے تو کوئی درخت تو کوئی ہرا بھرا باغ ہے ..۔۔۔۔!!!.سب کا مقام اپنا اپنا... ! چل بندیا ! تو نہ کر تیری میری ! تو کر بس ''میری میری'' تیری خواہش کی تیری تیری ... اس کو رب پر چھوڑ دے.۔۔۔۔۔!!!.. نوازنے پر آؤں تو نواز دوں زمانہ........!​

حقیقت ‏کیا ‏ہے ‏؟

حقیقت کیا ہے​

محبت کیا ہے ؟ حقیقت ہے ؟ مجاز ہے ؟وجود ہے ؟ نفس ہے؟ حواس ہیں؟ محبت کے بارے میں میری یہ تیسری تحریر ہے ۔ پہلی تحریر جس میں مجاز کی حقیقت سے انکار کا نام محبت کو دے کر ، دوسری وہ جس میں مجاز سے راستہ نکلتا ہے حقیقت کا ، اور یہ تحریر وہ ہے جو مجاز اور مظاہر سے ہوکر گزرتی حقیقت کو پاتی ہے ، یہ لے جاتی ہے محبت سے عشق کے عین کی طرف۔۔۔! عشق کے راستے میں ناگن کا پہرا ہوتا ہے کہ انسان کو سپیرا بننا پڑتا ہے اور جوگ پال پال کر ، ساز سے کرنا ہوتا رستہ استوار۔۔۔۔! بڑی مشکل راہ ہے محبت سے عشق کی ۔۔۔۔۔! محبت کے کچے رنگوں پر عشق کا رنگ چڑھتا نہیں اس لیے محبت کے درجے ہیں جبکہ عشق کی انتہا کوئی نہیں ہے ۔ یوں کہ لیں کہ ابتدا ہی انتہا ہے اور انتہا بھی ابتدا ہے ۔

محبت ،تصوف اور ادب تینوں کا رشتہ ایک ہی تار میں بندھا ہے . یہ پہچان کا راستہ ہے ، مجاز سے محبت صرف انسان کی اپنی پہچان کا باعث بنتی ہے کہ انسان کی پہچان اس وسیلے سے بنتی ہے ، جس سے اس کو محبت ہوتی ہے۔۔۔! . جبکہ مظاہر جیسے آگ ، پانی ، مٹی ، ہوا .... ان سے گزر کو مزید حقیقت کو پانے کی جستجو لے جاتی ہے اللہ کے قریب۔۔۔۔۔۔ ! اس کائنات کو بنانے والا کون ہے ؟ ایک ہے ؟ بادل چلتے ہیں اور بارش ہوتی ہے ، یہ بارش کئی جگہوں پر طوفان تو کئی جگہوں پر زندگی کا سندیسہ بنتی ہے ۔۔۔!. زرخیز مٹی اور بنجر مٹی کی تفریق بارش سے ہوتی ہے . بارش آسمان سے برستی ہے مگر زمین پر پہنچ کر اس کی تاثیر زمین والی مٹی کے مطابق ہوجاتی ہوجاتی ہے . طوفان بارش لاتی ہے اگر مٹی کی زرخیری بڑھانی ہو ...بصورت سیلاب مٹی کے کٹاؤ سے دریا میں بہ جانی والی مٹی اصل مٹی سے مل کر زرخیز ہوجاتی ہے .


محبت صرف رقص کا نام تو نہیں۔۔! ! ایک باب کا نام تو نہیں اس کے تو کئی دروازے ہیں . ایک باب'' حرم ''ہے اور دوسرا باب ''کرم'' ہے اور ایک باب'' ادب و حیا'' کا ہے ، ایک باب ''مراد'' کا ہے . ان کے درمیاں جانے کتنے ''در'' عشاق پر کھلے ہیں اور کتنے اس کوکھولنے میں کامیاب ہوئے ؟ ہر کوئی روح کے اندر نہیں جاسکتا . مگر روح سے روح تک کا راستہ ، یعنی روح سے اصل تک کا راستہ ہی ''وصل'' کا راستہ ہے .روح سے انصال دو طریق سے ہے ، ایک طریقہ بذریعہ رہنما سے یا دوسرا مجاز کے عشق سے ، جبکہ دوسرا طریقہ براہ راست ہے .

براہ راست طریقہ عدم کی مٹی پر استوار وجودیت کی نفی سے ہوتا وصل کی شراب سے ہمکنار کرتا ہے . اس راستے پر کوئی نہیں چل سکا سوائے'' ایک'' انسان کے ۔۔۔۔۔! اُن کا خمیر خاص ہے . جن کے لیے یہ کائنات بنائی گئی وہ تو اس کائنات کا حسن ہے اور خلیفہ ہیں. ایسے خلیفہ جو باقی پیغمبروں کے امام ہیں مگر ان کے امتی ۔۔۔! اس کے راستے پر چلنے والے ۔۔۔! ان کے خلیفہ ہیں ۔جن کے مراتب ان پیامبروں سے بڑھ کر ہیں . معراج کے راستے پر سب سے بڑا درجہ ''عبد'' کا ہے .کامل درجہ پانے کے بعد ''ورا سے ماوار '' تک کا سفر کیا ہے .'' روح'' سائنس کی رُو سے ''ہوا'' ہے اور ''ہوا'' کو سائنس کی رُو سے دیکھا نہیں محسوس کیا جاسکتا ہے اس لیے آنکھ سے ''ہوا'' کو دیکھنے پر سائنس کچھ نہیں کرسکتی سوائے کچھ ایسے آلات جو شفافیت ختم کرسکیں . روح کو کون دیکھ پایا ؟ مگر اس کا ماورا کہنا ، مادیت کی توہین کہ جو بقاء ہے تو روح کو تو ہے . یہی مادیت کی سب سے ہلکی نشانی ہے ، مائع اور گیس سب نکل جائیں تو باقی ''ہوا '' رہ جاتی ہے . روح کہاں سے ماوار ہے ؟ روح کو محسوس کریں اور روح آپ کو باقی دنیا محسوس کروائے گی .


براہ راست کے بعد وسیلہ حضور پاکﷺ کی ذات ہے .جب مومن ان کا دیدار کرتے ہیں تو گویا حضور پاکﷺ ان کو دیکھ رہے ہیں کہ ان کی آنکھ نورانی ہے ، اس کے ناز و انداز مست و بے خود کرتے ہیں . جب ہم ان کی طرف دیکھیں تو حقیقت میں ہم نے اللہ کو پالیا . اس کی تمثیل اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیؑ کو جواب ہے کہ جب اللہ نے حضرت موسی ؑ جو نبی دلال تھے ، کہا

اے اللہ ! میں تجھ کو دیکھنا چاہتا ہوں!

موسی ! تو مجھے دیکھ نہیں سکتا مگر یہ نہ سمجھنا کہ کوئی بھی نہیں سکتا . ہاں ایک ہے میرا بندہ جس کو'' قاب قوسین ،ثمہ دنا '' کی رفعتیں عطا کروں گا ۔۔۔! اے موسی! تو مجھے نہیں دیکھ سکتا مگر مصطفیٰ کی آنکھوں میں دیکھ لینا ! وہ میرے جلوؤں کا نظارہ لے کر لوٹتا ہوگا ۔ اس کی آنکھوں میں دیکھ لینا ! تجھے رب کا نظارہ ہوجائے گا!

اس لیے سید مہر علی شاہ نے کیا خوب کہا ہے کہ ایسے بندے جن کے رتبے بنی اسرائیل کے پیامبروں سے زیادہ ہوں گے جو صدیق ہوں گے ۔۔۔وہ بندے ایسے الفاظ میں ثناء کا حق ادا کرتے ہیں ۔

''مکھ چن ، بدن شاسانی ہے
متھے چمک دی لاٹ نورانی ہے
کالی زلف تے اکھ مستانی ہے
مخمور اکھی ہن مد بھریاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جان آکھاں تے جان جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی میں شان آکھاں۔۔۔''

محبت روح ہے جو مجاز کی سیڑھی سے حق کی طرف جانے کا ذریعہ ہے . مجاز کی سیڑھی ، رہنما کی سیڑھی ہوتی ہے ، عشق کا ''عین '' اس کے بغیر ملتا نہیں ہے انسان کی پہچان مجاز سے منطبق ہے اگر وہ مظاہر سے جڑ کے خالق سے نہ جڑپائے تو وہ بے چین و بے قرار ہوجاتا ہے . اس کی مثال اس طرح کہ رہنماء دو جہاں نے غور و فکر میں مشغول چالیس سال گزار دیے اور تنہائی میں رہنے لگے ، دنیا سے کنارا کرلیا تب ان پر ایک دن الہام کا سلسلہ واراد ہوا اور ان کی روح کو علم سے نوارا گیا . وحی کا سلسلہ کچھ لمحات پر محیط تھا اس نے سرر طاری کردیا ، چالیس سال کی محنت کے بعد وہ لمحہ پایا ....!اس کے بعد وہ نیک بندے تلاش حق میں مشغول ہوئے کہ کب مزید ان کو عطا ہو .... !کبھی کبھی غم انتہا کو پہنچ جاتا اور پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے اس پر سے نیچے گرنے لگتے کہ انتہائے غم میں یہ حالت ہوجاتی تھی . تب بچانے والی ذات قادر المطلق کی تھی ...! ان پر سلسلہ شروع ہوا اللہ کے کلام کا ...! اللہ کے کلام نے براہ راست جوڑا آپﷺ کو اللہ سے ... یہ کلام ہر انسان کے لیے رہنمائی ہے . کہ اس سے جڑنا یا اس پر غور و فکر کرنا ایسا ہے جیسے آپ کی بات اللہ تعالیٰ سے ہورہی ہے کیونکہ آیات پر غور و فکر کرنا کائنات پر غور کرنا ہے ، یعنی اللہ کی بنائی گئی اشیاء کو پہچاننا کہ ان کو کس مقصد کے لیے بنایا گیا اور اس کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے ،اس سفر سے ہوتے ہوئے انسان خود کو پہچانتا کہ اس کے پیدا ہونے میں کیا حکمت ہے ....میں نے فارسی سنی مگر سمجھ نہیں آئی ... اس کی زبان کی چاشنی میں کھو گئی بالکل اسی طرح پہلے قران کی مٹھاس کو روح میں رس گھلتی ہے اور روح خود ترتیل سے کلام الہی کی تلاوت کرنے لگتی ہے اس راستے میں اللہ سے محبت کے تمام راستے اور تمام سرے مل جاتے ہیں . خالق کے کلام کی ہر آیت تجلی لیے ہوئے ہے . جو اس تجلی کو پاگیا اس نے اصل میں قران پاک کی نعمتوں سے مزہ اٹھایا . اس لیے ہر مومن کا راستہ اللہ تعالیٰ سے قران پاک سے جڑتا ہے جبکہ حضور پاکﷺ وسیلہ ہیں . اصل ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور رہنمائی کو حضور پاکﷺ اس دنیا میں تشریف لائے ہیں .

محبت

محبت۔۔۔۔۔۔​


محبت کی حقیقت اور معنویت کیا ہے؟ میری زندگی میں نظریات کے تغیر نے محبت کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ نظریہ محبت روحوں کے تعلقات سے منبطق ہے. روح کے کششی سرے قربت اور مخالف سرے مخالفت میں جاتے ہیں. بنیادی طور پر درجہ بندی کشش اور مخالفت کی ہوتی ہے. اِن روحوں سے نکلتی ''نورانی شعاعیں'' ایک سپیکڑیم بناتی ہیں. ارواح کی کشش کا دائرہ بڑا یا چھوٹا ہوسکتا ہے.اور ان کی دوسری درجہ بندی دائروی وسعت کرتی ہے اور یوں انواع و اقسام کی ارواح تغیر کے ساتھ مرکز کے ساتھ مخالفت یا کشش کرتی ہیں. جن کا حلقہِ کشش بڑا ہوتا ہے وہی مرکز سے قریب ہوتی ہیں.​

لوگ کہتے ہیں محبت کا سرچشمہ بدن ہے. انصال سے انتقال ہوتا ہے اور انتقال حواسِ خمسہ کا محتاج ہوتا ہے. اور یہی محبت اصل محبت ہے کہ محبت روپ بدلتی ہے یا کہ لیں لباس بدلتی ہے. محبت پھر خود ملبوس ہے جس کو میں اوڑھ لوں اور زمانے کے رواج کے مطابق اوڑھنی اتار پھینک دوں . دوسری صورت میں انصال کے بعد اتصال اور انتقال میں اس قدر موافقت ہو کہ یہ روح اور خاک دونوں کا ملزوم ٹھہرتی ہیں. محبت ملبوس کی طرح نہیں ہوتی مگر اس میں خاک ایک ملاوٹ کی طرح ہوتی ہے. دل نہ ہو میلا، بدن میلا اور رنگ کچیلا ..۔۔۔​

محبت کی پہلی سیڑھی خاک سے چلتی روح کو بھنگ پلاتی ہے اور افیون کے دھونی میں 'من نشیلا ' تن بھلا ' بیٹھے لوگ ''دائروی رقص'' شروع کرتے نظر آتے ہیں اس رقص میں روح کے ساتھ ساتھ جسم بھی گھومتا ہے ۔اس پہیے (جسم)کو روح تحریک دیتی رہتی ہے یہاں تک کا تن اور من کا ہوش جاتا رہتا ہے. تب ایک روح تقسیم در تقسیم کے بعد تن کی نفی کا کلمہ پڑھ لیتی ہے اور مقام عین پالیتی ہے.​

روحانی انتقال بجسمانی کے فوقیت رکھتا ہے. یہ درجہ آگہی کے دروازے پر لاکھڑا کرتا ہے. آگہی جنون بھی ہے اور عذاب بھی۔۔۔۔. یہ فہم بھی ہے اور ادراک بھی ۔۔۔۔۔ یہ راز بھی ہے اور انکشاف بھی ۔۔۔۔!!!​

دروازے تک پہنچنے کے لیے لمحوں کی تپسا بھی اہمیت رکھتی ہے کہ پل بھر میں صدی بھر کا درد دے دیا جاتا ہے.اور پل پل درد کا انجیکشن ہوش سے ماورا کیے رکھتا ہے اور عاشق عین دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے. ''​

کیا دروازے کھٹکھٹاؤ گے؟ شرم و آداب کے تمام التزامات کو بھول جاؤ گے؟''​

یہاں روح سے موسیقی کے سُر نکلتے ہیں ان کی تال پر رقص جنوں کرتے کرتے دروازہ کھل جاتا ہے.۔۔ موسیقی کی تال پر ناچنے والے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک پہنچا دیے جاتے ہیں کہ اس جہاں میں ہوش و عقل ناکام و نامراد پلٹتے ہیں ۔ یہ سرشاری و مستی ، یہ عالمِ بے خبری انکشاف کے دروازے ہی نہاں کو عیاں کرتی ہے ۔ کہنے کو مد ہوشی بھی ایک نعمت ہے​

تقلید ‏اندھی ‏نہیں ‏ہوتی

تقلید اندھی نہیں ہوتی ..........!!!
ایک عرصے سے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے مارتے دل کچھ تھک سا گیا ہے کہ تقلید اندھی ہے اور مجھے تقلید نہیں کرنی ہے . دراصل تقلید کے لفظی معانی میں اتنی الجھی ذات میری کہ تقلید کے وسیع معانی کی طرف دھیان ہی نہیں گیا . تقلید ، مقلد ... ان لفظوں کی مارو ...!! اور یہ لفظ ہمیں ماریں ... جواب میں لفظوں کا کچھ نہیں گیا مگر ذات اندھی ہوگئی ہے . اندھے کو ''نور'' ایک دفعہ مل جائے تو رفتہ رفتہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ تقلید اندھی نہیں ہوتی بلکہ تقلید کے پیچھے بھی ایک فکر چھپی ہے . مجھے تقلید سے ایک بات یاد آرہی ہے . میں نے کسی جگہ کہیں پڑھا تھا

حضرت نظام الدین اولیاء رح کو اپنے دو مرید بہت عزیز تھے یا یہ کہ ان میں سے بھی ایک زیادہ عزیز تھا.حضرت نصرت چراغ دھلوی رح اور دوسرے حضرت امیر خسرو رح .... دونوں لاڈلے مگر زیادہ پیار ان کو'' طوطی ِ ہند '' سے تھا . جب اپنا جانشین مقرر کرنا چاہا تو آپ فیصلہ کرنے میں تامل کرتے رہے کہ کس کو مقرر کروں . دونوں حاضرِ خدمت تھے . دونوں کو کہا: فلاں فلاں جگہ پر جا کر یہ کھیر فلاں شخص کو دے آؤ. دونوں چلے اور اس جگہ پہنچ گئے . جب ادھر پہنچے تو دیکھا کہ کوئی حضرت اینٹ کی ایک بنیاد رکھتے کہ دیوار تعمیر ہو سکے . اسکی بنیاد پر تعمیر کا کام خود ہوتا جاتا . جب ان دونوں کو دیکھا ، تو حضرت نصرت چراغ دہلوی نے کھیر کا برتن ان کو تھما دیا. اور ان حضرت کو کیا جی میں سمائی کہ انہوں نے مٹی کھیر میں ڈال کر دونوں کو دے دی کہ کھا لیں . طوطی ہند نے ذرا تامل کیا جبکہ حضرت نصرت چراغ دہلوی نے بلا تامل کھا لی. اس کے بعد وہ حضرت کام میں مشغول ہوگئے اور یہ دونوں شخصیات واپس حضرت نظام الدین اولیاء کے پاس آئیں . آپ نے نہ چاہتے ہوئے بھی خلعت ِ فاخرہ حضرت نصرت چراغ دہلوی کو مرحمت کر دی .

زندگی میں اسی طرح ہم اندھے ہوکر حقیقت کے پردوں کو سمجھ نہیں پاتے . ہمیں جو نظر آتا ہے وہی حقیقت لگتا ہے . لیکن ...! لیکن ہر کڑوی شے بھی زہر نہیں ہوتی . کبھی کبھی کڑوی شے سے وہ اثر نکلتا ہے جس سے تن من سے میٹھے سرمدی نغمے نکلتے ہیں . یہ نغمے درد سے مخمور ہونے کے باوجود سہارا بن جاتے ہیں . ''تن'' کا فلسفہ ہے کہ تقلید ''اندھی '' ہے جبکہ من کا فلسفہ ہے '' تقلید '' عقل سے گزر جانے کا مرحلہ ہے . یہ مقام عقل سے ملتا ہے مگر عقل پر مستقیم لوگ تقلید پر استوار نہیں ہو پاتے ہیں جبکہ عقل سے گزر جانے والے تقلید پر ایمان لے آتے ہیں . یہ وہ مقام ہوتا ہے کہ جہاں روشنی سے تن و من و لباس سے روشن روشن کرنیں گزرنے والوں کے لیے مشعل ِ راہ بن جاتی ہیں .

ہم چونکہ پیدائشی مسلمان ہیں اس لیے ہمارے لیے تقلید کا مفہوم وہی ہے کہ اندھا رہ ....! جبکہ ایک کافر ، ملحد جب ایمان لاتا ہے اس کی تقلید عقل کے مرحلے سے گزر چکی ہوتی ہے . اس لیے کافر ہم پیدائشی مسلمانوں پر سبقت لے جاتا ہے . بالکل اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد صاحب پیدایشی تقلید کے عادی تھی مگر تھے وہ سچے ، ان کے افکار بھی صوفیانہ تھے مگر لوگ ان کو سُن نہ سکے . لیکن ایک مغرب زدہ انسان جس کے کچھ عقائد باطل تھے کچھ بہت روشن تھے اس سے لوگ متاثر ہوگئے . کیونکہ اس کی ذات میں پیدا ہونے والے باطنی تغیرات میں لوک ذات چھپی تھی . وہ لوگ جو اپنا آئینہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ انسان ہمارے ہی جیسا ہے ، یہ کبھی ہم پر کفر کا فتوٰی نہیں لگا سکتا ہے اور اگر لگائے گا تو اس پر ہم خود بڑھ چڑھ کر الزامات لگا دیں۔۔۔۔۔!!! . وہ شخص اقبال تھے جن کی ذات میں پیدا ہونے والے تغیرات نے ایک مسلمان کو کافر اور پھر کافر سے مومن بنادیا. اقبال عقل سے گرز کے اس مقام پر آگئے جہاں اجتہاد بھی تقلید کا حصہ تھا ، جہاں سنت بھی .۔۔۔۔!. جہاں حدیث بھی اور جہاں فقہ بھی تقلید کا حصہ تھا۔۔۔۔!. ایک مسلمان نے ''شکوہ'' لکھ کر اللہ کی ذات کو للکارا کہ ہم سے صرف وعدہ حور کیا ہے ، دیکھو مسلمانوں کی حالت کتنی دل گرفتہ ہے ،.... کافروں کو نوازنے والے کبھی مسلمانوں کو بھی نواز دے ۔۔۔۔!. اس للکار سے رحمت باری تعالیٰ نے کافر کو اپنے اور قریب کر لیا اور اس نے کہ دیا

پا کر مجھے بے کس تری رحمت یہ پکاری
یہ بندہ بے برگ و نوا صرف ترے لیے ہے

یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انسان مومن کا درجہ پالیتا ہے تو وہ 'اسوہ حسنہ '' کا نمونہ بن جاتا ہے . مومن جو حقیقت میں قران پاک کی قرات میں مصروف ہوتے ہیں وہ خود ہئ چلتے پھرتے نمونے بن جاتے ہیں ..۔۔ یہ چلتے پھرتے آئینے ہوتے ہیں اور ان آئینوں میں جھانکوں تو بس ایک ذات نظر آتی ہے ۔ کوئی آئینہ دل کو ظاہر کرکے حلاج بن جاتے ہیں اور کوئی ابو الحسن نوری ، یا بایزید بسطامی ۔۔۔ کچھ پوشیدہ رہتے ہیں ۔ اللہ کی ذات اخفاء رہتی ہے اور اس کو پوشیدگی پسند ہے ۔ اور ظاہر ہو بھی جائیں تو وہ ذات باری تعالی کے داعی ہوتے ہیں۔ ان کے اندر قران مشک کی طرح گھول دیا جاتا ہے ۔ اس کی خوشبو چہار سو پھیل جاتی ہے ۔بس ایک ذرا سے ۔۔۔۔ ایک غوطے کی دیر ہوتی ہے ۔ غریقِ قران ِ کلامِ باری تعالیٰ والے اصحاب دراصل غوطہ ور ہوتے ہوئے بھی دنیا میں رہ کر ''نور'' کو پھیلا رہےہوتے ہیں

قرآن میں غوطہ زن ہو اے مرد مسلماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اﷲ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
یہ راز کسی کونہیں معلوم کہ مومن۔۔۔۔۔۔۔۔ قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

مجھے یہ لکھتے ہوئے ایک درد کا احساس ہو رہا ہے کہ ذات ہماری کتنی بری ہے ۔ ہم پر سوار ہمارے شیطان نے ملعون شیطان کو خوش کر دیا ہے ۔ ہم اپنے نفس کے حصار سے نکل سکیں ، اپنے حساب و شمار سے نکل سکیں تو بات بھی ہو۔ ہم تو خود میں کھوئے ہوئے ہیں ، اور کھو کر بھی ، غرق ہو کر بھی اگر احساس نہیں ہوتا ہے تو ہمارے ہونے کا فائدہ ۔۔۔؟ کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک اندھی تقلید کو عقل کی کسوٹی سے پرکھ کر ، اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیں ۔ ایسا کرنے میں ہماری مٹی سب سے بڑی دشمن ہے ۔ خاکی پتلے کی حقیقت جس طرح بابا فرید نے عیاں کی وہ مٹی کی کشمکش ہے ، اور بالآخر ہم سب کو جانا تو اسی مٹی میں ہے ، جہاں سے ہمارا خمیرا اٹھایا گیا ہے اور اس کے پاس جانا ہے ، جس نے ہم میں روح پھونکی ہے ۔ اس کی ''پھونک '' سے ہم میں غرور پیدا ہوا ہے ، اس غرور و تکبر کو عجز و انکساری کے پیکر میں ڈھلنا ہے

ویکھ فریدا مٹی کھلی
مٹی اتے مٹی ڈلی
مٹی ہنسے مٹی روے
انت مٹی دا مٹی ہوے
نہ کر بندیا میری میری
نہ اے تیری نہ اے میری
چار دن دا میلا دنیا
فیر مٹی دی بن گءی ڈھیری
نہ کر ایتھے ہیرا پھیری
مٹی نال نہ دھوکا کر تو
تو وی مٹی، او وی مٹی
ذات پات دی گل نہ کر تو
ذات وی مٹی، تو وی مٹی
ذات صرف خدا دی چنگی
باقی سب کچھ مٹی مٹی


یہ راز بہت دیر سے جا کر معلوم ہوتا کہ مٹی کی حقیقت صرف ایک دھوکا اور سراب ہے ۔ اس مٹی نے مٹی میں جانا ہے تو کیوں نا! کیوں نا ۔۔!! ہم جاتے کوئی کام ایسا کر جائیں کہ ''انت'' بھی اگر ہو جائے تو چنگی ذات خدا دی ، ساڈے نال نال ہی روے ۔ کیا تفرقے میں الجھ کر خود کو تباہ کرتے جارہے ہیں ۔ اپنے نفس کے جہاد کی تقلید کر لیتے تو معلوم ہوتا کہ تقلید کبھی بھی اندھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔!!! نفس سے جہاد کرنے کے بعد انسان چلتا پھرتا قران بن جاتا ہے ، جہاں ظاہر و باطن ، روح و مٹی کے درمیان کی کشمکش ایک ہو کر سارے اختلافات ختم کر دیتی ہے ۔۔ہمیں اپنے اندر کی مٹی کو ختم کرنا پڑے گا ، اس خاک کو جس نے ہم کو حواس کے ذریعے بھٹکا دیا ہے

جانے ‏کب ‏میخانہ ‏یہ ‏دل ‏بنے ‏گا ‏

جانے کب میخانہ یہ دل بنے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
بچپن میں جامِ محبت سے آشنائی نہ ہوئی اور نہ ہی کوئی چہرہ محبوب سا لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ محبت کے لفظ سے ''چڑ'' تھی ۔ ایک خود ساختہ وعدہ کیا ہوا تھا خود سے کہ محبت میں بربادی ہے اور بربادی کون کرنا چاہے گا۔۔۔۔۔۔۔!

کلاس میں کئ لڑکیاں محبت میں گرفتار تھیں ۔ جس کو محبت ہوتی ، اس سے دوری ہوجاتی ۔ ایک دن کہ بھی دیا :

''یار ! آپ کیسے لوگ ہو ؟ اسکول پڑھنے آتے ہو ، پڑھو اور جاؤ گھر ، یہ کیا جوگ پالے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

اس طرح تعمیر رک جائے گی۔ اور اس '' محبت'' کی نفرت میں سارا دھیان خشک باتوں اور فلسفیانہ باتوں میں الجھا لیا ۔ جس سے دماغ کچھ زیادہ ہی خشک ہوگیا۔ خشک باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بس کچھ زیادہ ہی خشکی ہوگئ ۔۔۔۔!


ہر بار ''ٹوکنے'' پر ایک جواب ملتا کہ ''ہم'' ساتھ ساتھ پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اس لیے برباد نہیں ہیں ہم ۔۔۔۔! جہاں میں ایسے ایسے آئے ہیں ، جن کا محبت نے کچھ نہ چھوڑا۔۔۔!

تب سے ''ارادہ'' کرلیا کہ '' محبت'' دراصل ایک ''نفرت'' ہے اس ''محبت و نفرت '' کے کھیل میں ''وقت'' بڑا سیانہ ہے ۔ سو ہم منکر اور ہماری '' موحد'' سے نفرت بڑھتی ہی گئی۔۔۔۔ جانے کیوں مسلمان گھرانے کی پیداوار ہونے کے باوجود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
شاید اس لیے کہ ایک انسان کے کئی موحد کیوں ؟؟ اب یہ سوال بڑا تڑپاتا تھا۔۔۔۔ محبت میں ''احد'' کا کلمہ بھی نہیں اور کثرت بھی بڑی ہے ۔ دل نے کہا کہ '' عاشقی بڑی بدنام شے ہے ۔ اس سے دوری ہی بھلی ۔ اقبال کا شعر بڑا یاد آتا ہے اس موقع پر۔۔۔۔۔!

کثرت میں ہوگیا وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے ۔۔۔۔


ایک ''وقت'' اور سو ''کرب'' ۔۔۔ منظروں سے محبت ، راستوں کے درمیان کھڑے ہو کر ، حسین شاہراہوں کی دلکشی پر غور کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہرے بھرے درخت ، لہلہاتے کھیت ، ندی کی '' چھن چھن '' کرتی آواز اور میرا سانس۔۔۔۔۔ اکثر تھم سا جاتا ۔۔۔!!! جب بھی پہاڑوں پر جاتی ، کسی پہاڑ سے کھڑے ہوکر نیچے وادی کو دیکھتے ۔۔۔۔! دل کرتا یہیں مرجاؤں مگر اس حسین وادی کی قید سے نہ نکلوں ، پھر ایک اور وادی سے گزر ہوا۔۔۔ وہ اس سے زیادہ حسین ۔۔۔۔۔۔ '' میں'' ۔۔۔!!! میں اب راستوں کے درمیاں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بلکہ راستے پر کھڑی ، پل پل کو محسوس کرتی ، سموتی ، ان ''پلوں'' میں مقید ہوتی گئ۔۔۔۔۔!!

وادیاں۔۔۔! یہ کوہسار ، یہ جھرنے ، سبزے پر بیٹھنا، سب کا سب ۔۔۔! سب ہی تعمیر و فطرت کے رخ بنتے رہے اور بارشوں کے بعد آسمان پر قزح کے رنگ امڈنے لگے ۔ ''میں'' ۔۔۔! ''میں ہوں''، اور ہوگئ میں رنگوں کی دیوانی ۔۔۔۔۔۔۔۔! سارے رنگ میرے اپنے ، سارے سپنے اپنے اپنے ۔۔۔۔۔۔۔۔! اکبھی درختوں کے پاس سے گزر کر، ندی کی چٹان کے پر بیٹھ کر ایک درخت سے ٹیک لگا لیتی اور لمحوں خواب میں گزار دیتی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔!

ایک دن غلطی سے شام تک بیٹھی رہی ، شام کے بعد چاند نے مجھے اور میں نے اسے دیکھ لیا۔ ساری حکمتیں ''منکرینِ نفرت '' کی ختم ، محبت سے نفرت کا فلسفہ ختم اور ''احد'' کا تصور دل میں خواب بھرنے لگا ۔۔۔ یوں میرا وقت چاند کو تاکتے تاکتے گزرنے لگا۔۔۔۔! چاند بہت حسین تھا ، چاند تھا اور رات کے وقت ، چاند کا حسن اور نمایاں ہوجاتا ۔۔۔۔۔! میں نے محبت کا کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہوگئی ۔۔۔۔!

اسلام لانے کے بعد ''مومن '' بننے کا درجہ نہ مل سکا اور ڈگمگا گئی ۔۔ وہ کہتے ہیں نا۔۔۔۔۔ ہاں جی ۔۔۔! وہ کہتے ہیں کہ محبت میں ''شک '' کی منزل ختم کرنی پڑتی ہے ، تب عشق نصیب ہوتا ہے ۔ اور ''میں'' شروع سے ''شکی''' ۔۔۔۔۔۔۔! کبھی یقین نہ کرنے والی ۔۔۔۔! آغاز محبت میں شک نے بیج بو دیا۔۔۔۔۔! اور محبت نے منہ موڑ لیا۔۔۔۔! مگر ہوا یوں کہ ۔۔۔۔کہ ۔۔محبت کو منانے کے چکر میں '' مسافر'' ہی رہی اور منزل نہ ملی ۔۔۔ منزل ''کھو'' گئی جبکہ راستہ بڑا صاف ستھرا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔!!! اب یہ حال ہے کہ مسافتیں ختم ہی نہیں ہوتی ، دل تیقن کے ساتھ ''کلمہ'' پڑھتا ہے ، مگر ''رخ '' جو مڑ جائے تو واپس کون آئے ۔۔۔؟؟؟

کون واپس آیا؟؟؟؟ عقل والے چلے گئے اور محبت والے آگئے ، دل سے منطقیں اڑا کر ، دیوانہ بنا گئے ۔ اب دیوانہ ، کیا جانے دنیا کا حال ۔۔۔۔۔ کہ یہ دنیا الٹی ہے کہ سیدھی۔۔۔!!! یہ چپٹی ہے یا گول ۔۔۔ ۔۔!!!

ارے ۔۔۔۔!دنیا تو دنیا ہے ، عشق کا پیالہ یا زہر کا ۔۔۔ پینا ہے ، آنکھ بند کی ، ساری حسیات کو مفلوج کرکے ، اس کو کڑوے گھونٹ کی طرح نگلا۔۔۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ اس کا تھوڑا سا حصہ زبان نے چکھ لیا، وہ کڑوا بھی تھا ، مگر ''مے'' بھی ، نشہ تھا یا کیف تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! مست ایک قطرے نے بنا کر ، پیاسا بنا کر صحرا کا عادی بنا دیا۔۔۔۔!!! اب شراب کے سوا کچھ اچھا ہی نہیں لگتا کہ دل کرتا ، شراب ، شراب اور بس شراب ۔۔۔!!

اتنا تو پتا ہے کہ ، منکر نہیں ہوں میں ، ملحد نہیں ہوں میں ۔۔۔۔۔ ! اتنا جانتی ہوں ۔۔۔۔ اس سے آگے کا پتا نہیں چلتا اور بس یہ احساس ہوتا ہے کہ محبت گھونٹ گھونٹ ملے تو نشہ ٹوٹ کر چڑھتا ہے ۔۔۔۔۔۔! اس کے بعد کوئی ''تکثیریت ''کا قائل ہو یا ''احد'' کا ۔۔۔۔۔ دل میں عزت پیدا ہوگی ، ہر نفس کے لیے ۔۔۔ ارے ، اب بھی نہ بدلتے تو پھر کب۔۔۔؟؟

اور پھر جو بھی ملا ، جیسا بھی ، کبھی کسی کے دل کے مندر کو دکھانے کی کوشش نہ کی کہ ڈر لگتا ہے کہ اندر چاہے کتنے بھی شیشے ہوں ، ایک شیشہ ''اُس '' کا بھی ہے ۔۔۔۔۔۔! کہیں ''وہ '' نہ ٹوٹ جائے ۔۔۔۔!! پھر ، پھر سے منکر کا درجہ نہ مل جائے ۔۔۔ احترام، احترام ، بس احترام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

'' وہ'' شیشہ ایک دن اپنا ''شیش محل '' بنا ئے گا۔ مگر جام تو ''تکثیریت'' سے ملے گا، جو جتنا تڑپے گا، اتنا حسن محل کا بڑھے گا۔بس درد کی ''شدت' سے بنتے محل کاایک دن'' در ''وا'' ہونا ہے ، عاشق دروازے پر کھڑا ہے ۔۔۔۔ جانے کب وا ہوجائے ، جانے کبھی خامشی کا سکوت ٹوتے ، جانے کب ، جانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!! جانے کب میخانہ یہ دل بنے گا۔۔۔ جانے کب۔۔۔۔؟؟؟