Thursday, November 19, 2020

حی ‏علی ‏الفلاح

احساس کے قلمدان سے نکلے لفظ جب نکلتے ہیں تب تلاطم برپا ہوجاتے ہیں ۔ روشنی کا سفر شُروع ہوجاتا ہے اور احساس کچھ یوں قرطاس پر تحریر ہوتا ہے

''وہ جو عشق کی لو بڑھا دی گئی ہے،دل میں تمجید بڑھا دی گئی ہے، خشیت وضو کرا گئی ہے ،طائر کو پرواز دی گئی ہے ،روشنی قندیل (دل) کا حسن بڑھائے اور شُکر کا کلمہ ادا نہ ہو ، بھلا کیوں ؟''

احساس سے نکلے لفظ جب تحریر ہوتے ہیں ، سوال سامنے ہوتا ہے اور جواب کی تلاش کی جاتی ہے، شکر کا اگر کہا جائے تو شکر لازم اور بندہ خود کلامی کرتا ہے

شاکر پڑھ کلمہِ لا : سبحان اللہ

شاکر پڑھ کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

شاکر پڑھ کلمہِ عشق:

أَشْهَدُ أنْ لا إلَٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

یہ عشق مثلِ توحید اخلاصِ عمل ،یہ عشق مثلِ بحرِ موج  طغیان مشتاق ،یہ عشق علائق سے جان چھڑانے کو،یہ عشق تیز ہوا میں لے جائے،تندِ باد سے کون گھبرائے اب،وہی گرائے جو اٹھائے بار بار،بالآخر عشق کہے :

عشق تو ہی اندر ،میں کون؟عشق رونما ،جلوہ نما ، دنیا کہاں؟۔عشق جنم در جنم کھیل کی پوٹلی سے نکلا دھاگہ،عشق داستان ہے کٹھ پتلیوں کی ،عشق بے کلی میں گامزن اوج کا سفر ہے ،عشق شہادتوں کا سلسلہ ہے ، یہ امامت کا رتبہ ہے ،سعادت کا کلمہ ہے ، شجاعت کا پیکر ہے تیغ زن ہادی ہے۔سیدنا اما حسینؑ عشق کی ان تمام باتوں پر پورا اترتے ہیں ،عشق کی آذان دی اور بُلایا

شاکر پڑھ کلمہِ عشق:

أَشْهَدُ أنْ لا إلَٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو فلاح کی طرف : فلاح محبت سے ہے ، محبت عبادت ہے

سیدنا امام حسین کی پیروی ہر مسلمان و مومن پر جائز ہے ، ان کی دی گئی قربانی فلاح کی ترویج کے لیے تھی ، عشق کے موذن نے کیا خوب آذان دی ۔ اس آذان میں عشق جب چاہا وار کیا  ...  یہ  نماز ایسی ہے کہ نمازِ عشق میں عاشق لہو لہان ہوجائے اور جب چاہے علاج کرے  یا طبیب جی مرضی کے بے بس چھوڑ دے ! اسکے مریض   عُشاق ہیں !    عشق ستم نوک سناں دیتا ہے،  پیدا ہوتے ہجر کا جہاں دیتا ہے!   بعدء امر  عاشق کا رواِں رواں فغاں کرتا ہے!  ضرب العشق سے موت کو ہجر کا آسمان دیتا ہے. نشاط ہست کا مثردہ ہے  عشق! عشق کو جو بیان کریں، نہ کر پائیں!  جواسکو کر سکیں،ان سے ہو نہ پائے، جو ان سے ادا ہو عشق  ،تو بیان ہو جائے ... سیدنا امام حسینؑ عالی مقام نے کیا خوب عشق ادا کیا ہے، عشق  فریضہ حج کی نمازِ قربانی ہے. تسلیم جس کا وضو ..رضا اس  کی نیت ہے ...

٭٭٭٭

شاکر پڑھ کلمہِ لا : سبحان اللہ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

اے زندگی!  بدل جا مٹ جا!  اے زندگی!  حقایت ہو جا!  داستان ہو جا!  اے موجِ نفسِ ذات ہماری ہوجا!!  تیرے لیے بنایا جہاں!  ہمارے لیے جہاں کی ہو جا!

تو ساز عشق ہے ... تو صلیبِ وفا ہے!  تو مریضِ دعا ہے، تو نم مٹی کی التجا ہے!  تو میری حیا ہے!

اے مٹی!  مٹی ہو،  مٹی بن،  مٹی رہ،  مٹی سے رل،  مٹی کھا،  مٹی اوڑھ ...

''اوڑھ لی تیری چادر ساقی!  اوڑھ لی ... تیری نظر میں ہم ہیں!  گھائل نہ کیجیو!  ہم تو اب مانگے رے حجاب! ''

نہ کر بندیے تیری میری!!  ہو جا تو اب فقط میری ...

''شرمندہِ خواب کی مانند رسوا نہیں ہم!

ہم وہ جو چاہیں تجھے عمر بھر!''

احساس عاشق کو توانا کرتا ہے!  لباس مجاز میں حقیقت کی اوڑھنی پہناتا ہے ،  چاہت کا نغمہ سنانا عاشق کا کام!  عاشق تیرا اور کیا کام؟  چل لے میرا نام،  ہے مردود بس شیطان،  لے میرا نام،  ملے تجھے انعام ہوگا تجھ پرہوھا اکرام،  بارش یہ نہیں عام،  مٹ جانا تیرا کام، باقی رہے گا میرا نام!  آجا !  آجا میرے کول!   عاشق ہو جا میرا!  کیوں ہے یہ دوری!

عاشق :میں تیراں آں مولا!    میرا مرشد سائیں توں،  ہادی سچا توں،  میرا عشق وی توں،  پیامبر وی توں،  میری ذات نوں شمع مثل کیتا توں،  میرا کی کام مولا،  لواں گا بس تیرا نام!

صبوح!  قدوس!

الرحمان!  الرحیم!  الروف!   الماجد!  الرافع!  المقیم!  المغنی!  المقسط!  الحئی القیوم!

یہ ترا رنگ ہے جلال کا  یا کہ کمال میں چھپے بے شمار خزانے!  یہ خرانے علم کے ...یہ جواہرات اسماء القدیم!  یہ منقش کرسیوں پر آیتیں!  یہ دل کی سنگتوں میں حق  ھو کی واجیں!  یہ تری ،مری کہانی!  حق تیرا عاشق  جہاں جہاں گیا،  نہ ملا تو ،تو ملا کیا؟  ملا تو، رہا کیا؟  رہا کچھ نہیں ،تو تماشا کیا؟  تماشا بزمِ توحید کا سجاتے ہو!  ہر آیت وحدت کی بتاتے ہو!  جلاتے ہو!  بجھاتے ہو!  ہائے!  اتنا جلا دو کہ ہوش نہ رہے!  جلا کے کیجیو بے ہوش!  کہیو نا ہمیں!  کہاں کہاں نہیں ہم!  یہ کرسی!  یہ فلک!  یہ عرش!  یہ نکہتِ زیبائش سے گل رنگ مصفطوی نور جس سے چمکے لوح مبین!  دمک اٹھی زمین!  نوریوں نے کہا!

٭٭٭٭٭

پڑھو: کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

  نور مجلی آیا!  چھپ جاؤ!  حجاب لے لو،  بے نقاب آیا!  جھکتے کیا !!!  گر گئے سارے!  تسبیح رک گئی!  تھم گئی کہانی!  سکتہِ حیرت کو سو سال سنائے گئے کہ سکتہِ وصل کی بوندوں سے ترسائے گئے!  سکتہِ جذب میں مٹی کیا گیا!  سکتہ جمال نے ہوش دے دیے! مجذوب کردیا!  کمال ہوگیا!  نوریوں کو ہوش آگیا، دم میں دم آگیا. جبین اٹھ گئی ،سر نیاز میں گیا،  رات کٹ گئی وصل میں،  صبح کا اعجاز گیا،  شام ہجران کو بدلا الفتِ کی بدلیوں نے رات کی ماہتابی میں، چاندنی میں!  مسکرا کے قمر نے آنکھ موند لی!  چمک اٹھا سورج!  لوح مبارک چمک اٹھی!  اشک زار زار! پوچھو میرا حال!  کمال!  کمال!  کمال!  حال!  حال!  حال!  بے حال جاناں ہیں ،کیا سنائیں۔۔۔؟ ...قصہِ مختصر رگوں کا سکون چھن گیا،  طنابیں کھینچ لی گئیں اور سورج کو سجدہِ شکر ہوا!  سجدہ شکر!                

شاکر پڑھ کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

دل اچ واجاں درود دیاں آندی نیں!  دل وچ ہادیؐ، مرسلؐ سچا عشق سائیں!  دل وچ طٰہؐ سچا مسیحا ؐتوئی!  دل وچ طبیبؐ تے حبیب ؐاے! یہ نصیب کی بات ہے ، کرم کے فیصلے ، جسے چاہا اپنا بنالیا ، جسے چاہا اپنا بنا لیا ! جسے چاہا محفل میں بلا لیا ،

یا نبی سلام علیک ، یا رسول سلام علیک ، یا حبیب سلام علیک

سارے پڑھو درود ، صلی علی حبیبِ ناز ، صلی علی محمد ؐ

٭٭٭٭٭

شاکر پڑھ کلمہِ لا : سبحان اللہ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

تیری بزم میں سر جھکائے کھڑے ہیں ، ادب سے جھکی گردن ہے ، دل کہ ستم سے بیحال ! مت پوچھو کیا ہے دل کا حال ! بعد وصال فراق کا موسم نہ ہو ، بہار ہے ، سدا بہار رہے !

یہ رنگ جو کائنات میں بکھرے ہیں ، یہ سارے میرے رنگ ہیں ! میں ہی دکھ دیتا ہوں ،میں ہی طبیب ہوں

صدا سنتے ہی عشق جو مودب کھڑا  ، سدھ بدھ کھو دیتا ہے

توں اندر،  باہر توں!

توں متوف،  مطاف وی توں

تو حاجی تیں،  کعبہ وی توں

توں معبود تے ،عبد اچ توں

تو'' لا ''دی مٹی اچ وسیا نور

''الا اللہ'' کہیے تو مارے'' اللہ ھو'' دی تار!

ھو !  سبحان ھو!   صبوح قدوس!  صبوح قدوس!

حق رحمانی ھو!  اللہ والی تار وجی!

  مرشد ترا کون؟  عشق!

    ہادی کون؟  عشق؟

    خالق کون؟  عشق

  مخلوق اچ کون؟  عشق

عشق کتھے کتھے،  چارے جاواں، چار چفیرے،  مٹ گئے سارے ہنیرے!

حی الفلاح!  حی الفلاح!

  آذان سنا دی گئی!   فلاح کی بات کر دی گئی! آذان عشق کی، نماز عشق کی، تسبیح عشق کی، قربانی عشق دی .... نعمتیں مکمل! جب سب مکمل ہو جائے تو ربِ تعالیٰ فرماتا ہے

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

رب کی رضا ہوجاتی ہے ، جب زندگی اسکے دیے گئے طریقے کے مطابق بسر ہوجاتی ہے ، جب طاعت مکمل ہوتی ہے تب اسکی نعمتیں بھی مکمل ہوجاتی ہیں ، وہی والی ہوجاتا ہے عبد الولی کا !  یہ نعمتیں کس پر مکمل ہوئیں ؟ سیدنا امامِ عالی  نبی محتسمؐ پر ، جن کے بارے رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ

لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾

                 

شاکر پڑھ کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

اے عشق، دیار عشق چل!

اے دیار عشق!  نبیؐ کے در چل!

اے دل تھم جا!  رک جا!  یہ نبیؐ کا در ہے!  اے دل مٹ ہی جا! نصیب بن جائے گا!  رک جا!  مر جا!

ہم مرنے نہیں دیتے!  ہوش والوں کے ذمے بہت سے کام ہیں!  یہاں دیوانگی سر عام نہیں!  عشق منبر کا کلام نہیں!  یہ تلوار نیام میں نہیں! ...

سیدی!  مرشدی!  یا نبی!  یا نبی!

سارے پڑھو درود سرکار آگئے!  سارے پڑھو سلام سرکار آگئے!

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

محفل مقدس میں حاضری کا مقدر ہے ،  آپ کی غلام ہوں ،  آپ کی سگ ہوں !  آقا!  لے لو سلام!  مرا آقا!  سلام لے لو !  اے ہادی!  اے یسینؐ!  اے طٰؐہ!  اے شوق کے آئنے میں براجمان تجلی ..... آپ کی عنایات نے  دل بھر دیا ہے !  شکر کیسے ہوا ادا!!!

آقا!   قدموں میں جگہ دے دیجیے!  آقا!  آقا یہ دل اپنی پناہ میں لے لیں... !  اے میرے یحیی! اے میرے عیسی! اے مرے موسی!  اے مرے ہادی ...! ن... اس دل  کو پاس رکھ لو اپنے آقا. یہ دل  آپ کا دیکھتا رہے گا تبھی سکون میں رہے گا!  مجھے در پر پڑا رہنے دو!   آپؐ کو کتنے عزیز تھے سیدنا بلال رضی تعالیٰ عنہ،  سیدنا زید رضی تعالیٰ عنہ  ... ان کے پیار کے صدقے مجھ پہ کرم کر دو نا آقا !  آقا لے لو سلام!

ایسا نہ ہو کہ دم گھٹ کے مر جاؤں، ایسا نہ ہو کہ آقا ہچکیاں  لیتے لیتے مرجاؤں ...اس دنیا سے ہر رشتہ جھوٹا ، سب سچے رشتے عشق کے  دل میں آپؐ کا خیال ہے آقاؐ ... دل نم ہے آقاؐ!  اشکوِں کے ردھم کی مالا نے سانسوں کو ضوفشانی بخشی ہے. طغیانی  میں  خاموش!  خاموش!  با ادب!

حسن کو نوازش کی انتہا سے ہماری محفل میں جگہ مل چکی ہے ...

وہ مبارک چہرہ مسکرائی جائے!  مسکراہٹ دلنشین ... اک اک ادا پہ قربان آقا!   .. شاہا!  آپ کے دندان مبارک سے جو روشنی نکلتی ہے مجھ میں  اس کی تاب نہیں!  مگر پھر بھی جلوے کو بے تاب  کہ  آرزو مکمل ہوجائے، تصویر مکمل ہو ،زندگی رہے بے شک ادھوری ... شاہا آپؐ کے  دندان مبارک سے غار حرا کے دیواریں تک روشن ہیں، جب سرکار دکھیں گے دل مدینہ ہو گا  کہ مکہ!  دل سر زمین حجاز ہے. عشق کا یہ اعجاز ہے

                 

یا ‏نور ‏یا ‏قدوس

یا نور ،یا قدوس ۔۔۔


ان سائلُ سالکَ ، این طیری ؟ 


یا اللہ ۔۔۔انی اسئلک ، این نوری؟

یا الرحمن ۔۔ انی اسئلک ،این حبی؟


العالم   ۔۔۔۔۔ انی اسئلک این العلمی؟


العالی ۔۔۔۔ انی اسئلک این روحی؟


یا وھاب ۔۔۔ انی اسئلک این نفسی ِ ؟


یا ذوالجلال،۔۔۔ انی اسئلک این جمالی؟


الوالی ۔۔۔۔ انی اسئلک این حبیبی ، روحی مریضی 


الباری ۔۔۔ انی اسئلک این مراۃ الخاصہ بک؟


السمیع ۔۔۔۔ انی اسئلک این استماعی ؟


البصیر ۔۔۔ انی اسئلک این الرویتی؟ 


اللہ ۔۔۔ سوالی فی بی کثیری ۔۔۔ 


المصور ۔۔  این صورتٰی ۔۔۔؟ 


النور ۔۔۔ این نوری ۔۔۔۔؟ 


اللہ ۔۔۔۔ سوال فیہ ، ماذا ساجدی ؟ 


حم ۔۔۔۔۔۔۔  یجب سجدک ، مقامی من اعترافی بعجزک 


القادر ۔۔۔ ستجدنی ، اللہ نور سماوات 


اللہ ، سوال فیہ ماذا بحثک  نوری؟


انت یجب علیک المعراج 

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1) وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِن دُونِي وَكِيلًا (

م




سلام ‏پنجتن ‏پاک

#سلام #پنجتن #پاک 

الَّهمّ صَلِّی علي محمّدٍ و علي آلِ محمّدِ كَما صَلِّيًتَ علي اِبًراهيِم و علي آلِ اِبًراهيِم اِنَّك حميِد‘ مجيِدِ اَللَّهمّ بارِك علي محمّدٍ و علي آلِ محمّدٍ كَما باركتَ علي اِبًراهيِم و علي آلِ اِبًراهيِم اِنَّك حميِد‘ مجيِدٍ

سلام پنجتن پاک !

سلام میرے آقا کریم !اے نور خدا ! اے مجتبی ! اے مصطفی ! مدحت کا ہوکیسے بیان !

اے میرے آقا ! اے آقا میرے حیبب ! آپ پر کڑوڑوں درود !اے سردار اہل بیعت !

اے سردار قریش ! اے سردار  الانبیاء ! اے خاتم الانبیاء ! اے صادق ! اے امین !

اے مزمل ! اے مدثر ! اے یسین ! اے طہ ! اے جمالِ عالی ! اے آئنہ ساز ہستی ! اے ہادیِ برحق !

اے میرے کبریاء ! اے دو جہاں کی رحمت ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ۔۔

فان تولو فقل حسبی اللہ  لا الہ الا اللہ ھو علیہ توکلت ھو رب العرش العظیم

روح کی نشانی اس کلمے کے ساتھ جڑی ہے ! مجھے اس کلمے میں آپ صلی علیہ والہ وسلم  کا مکمل عکس نظر آتا ہے ! یہ کلمہ آسمان کے بلند ترین کلموں میں سے ہے ۔ آپ مجھے مجھ سے بڑھ کے عزیز ہیں  ! میں آپ کی محبت اور اپنے مالک پر توکل میرا راستہ ہے  ۔ جب یہ کلمہ مجھے عطا ہوا تو روح کے سوتے کھل اٹھے مجھے محسوس ہوا کہ  نور کا دِل مکمل نوری ہالے میں لپٹا ہوا ہے ! آپ کی نظر سے اس کلمے کی روشنی نے مجھے نئی زندگی عطا کی !

اے میرے شاہا ! اے میرے دلِ اے میری جان ! آپ پر سلام ! آپ کے روضے پر کھڑی ہوں، ایسا گمان ہو کہ وہیں کھڑے بھیجوں میں سلام، آپ کو  میرا سلام !

 گمان تو یہی ہے کہ احساس مجھے جبل نور پر لے گیا ہے!  میں نے احساس کی بلندی میں عالی ہستیوں کو محسوس کیا ـ جبل نور پر کھڑے آپ کو میرا سلام ! اس مبارک محفل میں کھڑی ہوں کہ مبتظرم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، قبول ہو میرا سلام !

سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام سلام ! سلام یا حق ! سلام اے نور علی نور ! سلام اے عالی ! سلام اے ذی وقار !

سلام اے دو جہاں کے شیش نگر بنانے والے ! سلام ! سلام ! سلام اے خالص عبد !

سلام اے وجہِ بشر تخلیق ! سلام اے ہادی برحق ! سلام اے ظلمتیں مٹانے والے ! سلام اے علی کے نسبتی برادر !

سلام اے حسین کے نانا !سلام اے زین العابدین کے جد ! 

سلام اے غمخوراوں کے میخوار ! سلام اے عالی نسب ! سلام اے یسین ! سلام اے یسین !

سلام اے معراج کی رفعتوں والے ! سلام اے حسن جیسے شاہ کے نانا !سلام اے میرے آقا ! سلام میرے ہادی !

یہ کیسی روشنی ہے کہ گمان میں جبل النور میں حرا مقام اور مقام حرا میں گویا کوئی محفل ہو. اس محفل کی مسندِ شاہی پر ایسی عالی دلاویز ہستی ہیں، جن کی قدموں کی دھول ہیں ہم ـ 

آپ کے ہاتھ پر میری بیعت ! سلام اے وجہ بشر تخلیق ! سلام اے  لا الہ الا اللہ کی تصویر !

سلام اے حق کی تمجید ! سلام اے حق کی تلوار ! سلام اے صادق !

میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہےـ یہی تو بیعت ہے!  میرا دل آپ نے تھاما ہے گویا انشراح کے بعد سینہ روشن ہے  ! سلام ! سلام ! اے ذی دو وقار !

سلام اے شیش محل بنانے والے ! سلام  دو جہانوں کے سردار ! سلام یا شافعی محشر !

سلام یا ساقی کوثر  ! سلام ! سلام ! آپ کے در پر کھڑے کھڑے سلام !

سلام اے نبیوں کے امام ! سلام اے محبوبِ خُدا۔۔۔ اللہ اپنے نبی پر درود و سلام تحفہ بھیجتا ہے!

اے جد الحسینی !آپ پر لاکھوں درود !اے شافع المذنبین ! اے راحت العاشقین !

اے سراج سالکین ! اے انیس الغریبین ! اے رحمت العالمین !

آپ پر لاکھوں کڑوڑوں دردو !
محفل سجنے کو چلی ہے
شمع جلنے چلی ہے
محفل سج کے لگی رہے گی
شمع جل کے جلتی رہے گی

اے خاتم الانبیاء آپ پر کڑوڑوں درود !اے میرے ہادی ! بڑی دیر ہوگئی ! اب تو قدموں میں بلالیجئے !

سینہ مدینہ بنا دیجے! اے شافعی محشر بڑی دیر ہوگئی ! اے آقا اپنی نور کو قدموں میں بلا لو !

اے آقا اپ کی خفگی میں قبول نہیں کرسکتی ! اے آقا میری خطاؤں کو معاف کردو ! اے عفو کمال ہستی !

اے صبر بے مثال ہستی ! اے نور ازل کی تمثیل ! اے جمیل ! اے عالی نسب !

مجھے لگا کہ یک لخت میں تو آقا کے قدموں میں بیٹھی ہوں،  گریہ و زاری کر رہی ہوں ـ 

اے میرے آقا نور کا سر پر آکے قدموں میں ہے ! اے میرے آقا نور کا سر آپ کے قدموں میں ہے !
اے میرے آقا نور کا سر آپ کے قدموں میں ہے !

یہ سر تب تک آپ کے قدموں سے نہیں اٹھے گے جب تک آپ سے نوازی نہ جاؤں !

جب تک اے کبریاء جاناں ! آپ کے چہرے پر مسکراہٹ نہ درر آئے ! اے مصباح المقربین !

اے مصباح امقربین !اے دوستوں میں سورج ! اے دوستوں میں ماہتاب ! کیا ہے آپ کی آب و تاب !

بے خودی کا ملے مجھے جام ! اے سورج کی سی چمک والے ! تیری چمک سے میں چمک پاؤں گی !

خود میں ستارہ کہلاؤں گی ! اے میرے آقا ! نور کا قدموں میں سر ہے ! نور کا سر قدموں میں رہے گا !

میرا رونا قبول کیسے ہو ! یہ تو مقبول ہوگیا گوکہ قابل نہ تھی!  مجھے میری پیاری ہستی ام ابیھا نے تھام لیا ہے ! انہوں نے سینے سے لگا لیا ہے
 
ان گنت درود سیدہ پاک بی بی فاطمہ الزہرا رضی تعالی عنہا پر 

میرے رسول کے چہرے پر مسکرا ہٹ ہے ! وہ فرما رہے ! نور محفل مبارک میں شامل ہے  !

میری خامشی کو ملے زبان ! میں کہوں آقا میں ترے قربان ! آقا! میں تیرے قربان !

اے آقا میں تیرے قربان !

وہ فرماتے ہیں ! فاطمہ ! اے خواتین میں عالی مقام !

نور کو کرلو غلام  !

وہ فرماتی ہیں ! نور نے کیا مرا کام ! اس کو ملے انعام ! روشن ہے اس کا نام ! اس کو دے دیجئے پیغام ! اس کو ملے جن و انسان ! ان پر کرے راحت کا سامان !

میری آنکھوں سے آنسوؤں کے نشان ! میری روح پر ملاحت کے نشان ! میری بصیرت کو ملا انعام !

میں واری جاواں آقا میں واری جاؤں !  آقا میں واری جاواں ۔۔۔ ایتھے فاطمہ تے ایتھے  علی نوں پاواں !

کنھیاں اکھیاں میں لاواں ! میری روح دا ذرہ ذرہ بنیا قران ! میں کیتا کیہڑیاں نال کلام ! حق ھو ! حق ! ھو ! حق ھو!

  قدموں میں روشنی سے عطا کیجئے ! اے سید الخاتون جنت ! آپ کے در سے جڑا ہے ذرے ذرے کا بیان !

آپ کی رحمت میں عکس محمد ﷺ ! آپ کے عکس میں رحمت محمد ﷺ ! آپ کی مسکراہٹ میں شبیہ محمد ﷺ کی !

آپ کی مسکراہٹ میں شبیہ ہے محمد کی ﷺ ! آپ کو میرا تو سلام ! قبول کیجئے میرا سلام !

اے فاطمہ نازشِ عورت ! اے فاطمہ خاتونِ عفیفہ ! اے پاک حیاباز ! اے شرم و حیا کا پیکر !

اے تقدس میں مریم سے بڑھ کے ! اے حسین کی ماں ! کیا کیا کروں میں آپ کو بیاں ! کیا کیا آپ کا ہو بیان !

اپنے قدموں میں رکھ لیجئے ! قدموں میں تا حیات رکھ لیجئے ! ازل سے میں آپ کی غلام ! میری خوشی کو ملے دوام !

اے فاطمہ ! خاتون سیدہ جنت ! اے عالی نسب ! اے ام بیھا !  عکس خدیجہ ! اے فاطمہ پاکباز مریم کی سی !

اے فاطمہ علم میں عائشہ رضی تعالی عنہا  کی سی ! امہات کی کل  صفات کا مظہر ! نبی کی بیٹی ! نبی کی آل  پر میرا سلام !

مجھے قدموں سے مت اٹھنے دیں !
مجھے قدموں میں پڑھا رہنے دیں!
میں اپ کی قدموں کی دھوون ہو جاؤں
خاک اڑے اور میں خاک ہوجاؤں
میری راکھ پھرے نگر نگر
میری راکھ کو ملا ہے آپ سے پیغام!
ذیشان ! رحمن ! عالی وقار کا ملا فرمان
پھیلے گا اب رب کا گھر گھر یہ اعلان
مجھے آپ کے قدموں میں ملی ہے جان
قدموں میں رکھ لیجئے !
قدموں میں قدم کر دیجئے !
ایک قدم پر میں ہوجاؤں قربان !
آپ کا ہاتھ مرے سر پر رکھا رہے
مجھے ملتی رہے سرشاری اورریحان

سلام اے حسنین ! سلام اے حسن ! سلام اے حسین ! سلام اے حسن ! سلام اے حسین! دل مٹھی میں پگھل پگھل جائے !

میں خود سے نکل نکل جاؤں ! آپ کی شان و ہیبت کو دیکھتے ہی نکلے میری جان  !

کیا شان ہے دو احسن تخلیق میرے سامنے ہیں ! دو شاہد میرے سامنے ہیں !

سجدے میں سر کٹانے کی روایت آپ سے چلی ! یا حسین علیہ سلام 

امن کی خاطر قربان کرنے کی روایت آپ سے چلی ! یا حسن ! علیہ سلام 

آپ دونوں کو میرا سلام ! قبول کرلیجئے ! میرا سلام ! قبول کرلیجے  میرا سلام !

اے علی شہسوار ! اے علی شیرِ یزدان !

اے علی حیدر کرار ! اے علم کے قاضی ! اے علم کے واجد ! اے علم کے ماجد ! علم سے نکلا بیان !

اے علم البیان ! آپ کو میرا سلام ! اے حیدر کرار ! اے مجتبی ! ا ے مرتضی میرا سلام !

ہجرت کا غم بڑا رُلا رہا ہے ! شاید کہ جدائی پھر سے مقدر کردی گئی ! روح جو خوشی خوشی ناچ رہی تھی اب رو رہی ہے !

کیسے ملوں گی اِن سے سب سے میں تو ہوئی ان سب پر قربان ! لے لیجئے میری جان ! دوری میرے لیے ہے سوہان!

  ! اے عالی مرتبت ! اے میرے محمد ! اے میرے آقا ! کب ملوں گی ! کب آپ کو دیکھوں گی جیسا کہ آپ خلق کیے گئے ! 

کب آپ کے نقش میرے دل میں اتریں گے ! کب آپ میرا دِل آپ کے نور سے منور ہوگا !

کب نور محمد دل میں مجلی ہوگا ! کب نور سے نور کو ملے برسات ! غم سے ہورہی بری حالت !

ایسے ہوگئے نور کے حالات ! آپ سے دوری سوہانت ! دکھ روح کا وبالِ جان ! مجھے اپنے قدموں میں پڑا رہنے دیں !

ہجرت کی دلسوزی سے سینہ پٹھتا جار ہا ہے !

سن اے میرے دِل! نیک سعید روحیں یونہی بچھڑتی ملتی رہتی ہیں اس لیے واویلا کرنا کیسا ہے! خوش قسمتی ہے کہ ملنے والے کو ہم ملیں ! یہ نصیب کی بات ہے کہ محفلِ نوری ملی ہے !

محفلِ نوری ساقی کے دم سے چلے
بادہِ مے سے سب داغ دل کے دھلے

عشق ‏کی ‏الف ‏میں ‏کیا ‏کیا ‏ہے

جوگ پالنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے رانجھے کو ڈھونڈنا پڑتا ہے ، رانجھا مل جائے تو اُس کے لیے رانجھا ہونا پڑتا ہے ۔خاک چھانیے یا دربدر پھریے ! نگر نگر بھٹکیے ، اُس کو مظاہر میں ڈھونڈیے ۔۔۔۔ ہر مظہر کے باطن میں جھانکیے ، گویائی نا ہونے کے باوجود ہرشے  اس سے باتوں میں مصروف ہوں ۔ درخت کی لکڑی زمین کی نیچے بھی اتنی ہے ،جتنی زمین کے اوپر ہے ، سورج اور زمین کی کشش میں درخت برابر قوت سے نمو کرتا ہے ۔رانجھا ڈھونڈیے ! اندر کی مٹی ، باہر کی مٹی سے ربط کیجے ! کسی کو باہر کی مٹی سے مل جاتا تو کسی  کو اندر مٹی سے! کشش دونوں جانب متوازن ہو تو محبت کے دَرخت پر عشق کی بیلیں پھوٹتی ہیں ، سچائی کی تلاش میں ،سچ کا کڑوا گھوانٹ ، دھیمی آنچ پر پکنا چاہیے ! دھیمی لوُ پر چلتی ہانڈی کا ذائقہ بڑے سواد کا ہوتا ہے ، تن کی ہانڈی میں جذبات کی آگ کی دھیمی آگ سے ، عشق کے اظہاریے  کو اُبھاریں یا ابھریں تو ایک مصور کی ذات بذات خود تصویر ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔جب تصویر کی روشنی ملے تو جانیے کہ وصل ہوگیا !

وصل گوکہ لطف و کیف کی سرشاری عطا کرتا ہے مگر عُشاق کے لیے ہر قدم سلگنا ، ہر قدم امتحان بن جاتا ہے ۔ گومگو کی کیفیت عشق میں کبھی پیدا نہیں ہوتی ہے اس لیے عاشق کے قدم آہستہ آہستہ بُلندی کی جانب اٹھتے ہیں ! جب اٹھتے ہیں تو تھمتے نہیں !جب تار ہلایا جاتا ہے تو درد سے راگ چھڑ جاتا ہے ، عاشق کی ذات بھی ایک ساز کی مانند ہوتی ہے ، عشق سرمدی نغمہ ، سُر جس کو دینے والی ذات صاحبِ امر ٹھہری ! وہ چاہے تو قربان کردے ، وہ چاہے تو قربانی لے ! وہ چاہے تو وصل دے ! وہ چاہے تو ہجر سے کبھی نکالے ہی نا ! وہ چاہے تو بس ایک ''کُن '' کی محتاج ساعت اپنی منزل کی جانب روانہ ہوجاتی ہے ۔ عشق  اکی پہلی منزل عبادت ہے مگر  ایسی عبادت جس کا ظاہر نہیں ! ایسی جو دکھتی نہیں ہے ! ایسی جس سے خلق کو فائدہ ملتا ہے ! ایسی جس سے انسان پھر سے جی اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں عاشق عابد بہت کم ہیں ! دنیا میں معلم عالم بہت کم ہیں ، دنیا زاہد و عابد اور مبلغ عالم سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔ عشق کے سوت تو باطنی ہیں ، اس لیے عبادت عشق کا ظاہر وہی دیکھ سکتے ہیں جو عشق میں ہیں

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اس عبادت سے فائدہ کیا جس سے مخلوق کو فائدہ نہیں ملے۔ ہمیں سُنانے والے منبر پر بیٹھ کے اچھی باتیں سناتے ہیں ، وہ بھلائی میں مصروف ہے کیونکہ دل پھر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ نے اسی ایک رات کے سیکھے کو آگے پھیلایا تو آپ کامیاب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بندہ بھی جس نے اچھا سبق دیا مگر آپ پھیلا نہیں سکے اور اصرار پر رہے تو جان لیجئے کہ آپ کے استاد کی بات کی تاثیر کھوچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔بات میں تاثیر ہو تو لفظ ''الف'' ایسی ضرب لگاتا ہے کہ ''ب '' کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اور الف ۔ ب کا علم نہیں تو ''م ، د '' کا علم کیسے لو گے ، اگر تم نے علم نہیں حاصل کیا تو مجھے پہچانو گے کیسے ؟ اگر پہچانو گے نہیں تو میری طرف کیا خالی لوٹو گے ؟ اُس نے امت محمد صلی علیہ والہ وسلم کی امت میں عشق کو مرشد بنا دیا ہے ، عشق مرشد تو ہست نابود ، عشق مرشد تو مستی کا جمود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں لباس کی طرف توجہ دیتے ہو ، اس کو صاف کرتے ہو مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ لباس تو خود تمھارے جسم کا محتاج ہے ، اگر تمھیں جسم کی صفائی مقصود نہیں تو شریعت کا لباس فائدہ دینے کے بجائے ،دین کو خشک کردے گی ، جب لباس معطر نہیں ہو ، اس کی خوشبو بدبُو کھینچ لے تو باقی پہننے والی قُبا بھی بدبودار ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔آج کے دور میں منافع پرستوں نے دین کو کاروبار بناتے ، دین اسلامی کی قُبا کو میلا ، بد بو دار کردیا ہے ۔۔۔

خدشہ بیٹھا ہے دل میں .. جو مجھے خوفزدہ کر رہا ہے کہ اگر الف کا علم حاصل نہیں کیا تو اس کی طرف لوٹو گی کیسے؟ اگر لوٹ گئ تو دنیا میں جس مقصد کے لیے وہی فوت ہوگئ ..کیا انسان مقصد کے فوت ہونے کے بعد زندہ رہتا ہے؟ اررے جب حق دل میں سما جآئے تو کسی کی اور ضرورت نہیں رہتی ..یہی الف کا علم.ہے ....یہی عشق کی ابتدا ہے؟ اسی الف سے آدم کو ملی بقا ہے ...الف کو جانو گو تو جو عیاں وہ کتنا نہاں ہے ..وہ جو ظاہر ہے اس "الف " کا پردہ " ب " ہے .... تب رانجھا رانجھا کہتے بندی خود ہی رانجھا بن جاتی یے تب شیرین کا آئنہ فرہاد اور فرہاد کا آئنہ.شیریں ...کیا فرق باقی؟ نہیں نا جب دو پرتیں کھلتی ہے تو محمد صلی علیہ والہ وسلم کی حقیقت کھلتی ہے .... حقائق کب کہاں کسی پہ عیاں ہوتے ہیں؟ حقائق انسان کے دل میں ہیں ان کو دریافت کرنا پڑتا ہے .....روح کو ظاہر کیسے سبق دے گا؟ مٹی کے پوست کو مٹی سبق دے سکتی ہے مگر روح کا علم روح سے مشروط ہے ...کون جانے گا اس کو؟ حق تو دل میں ہے؟ حق کے کلمہ نے خون کو رواں کیا ہے! ہمارا عہد، قالو بلی کا، ہمارا لاشعور چلا رہا ہے ...ہم فطرتا نیک ہیں ..جب فطرت نہیں تلاش کریں گے تو جھگڑیں گے، قیل و قال میں پڑیں گے نا!!

''الف'' کا الٹ ''ب'' اور ''ب ''سے نکلی'' پ ،ت'' ۔۔۔۔۔۔۔۔ الف ہمارا قیام ہے ، حالت نماز میں قیام کی حالت ہمارا عشق ہے اور رکوع کی حالت میں '' حمد ' کی بات نکلتی ہے ، ہمارا سجدہ ہمارے ''مرکز '' سے ''محبت '' کی گواہی ہے ۔مرکز سے محبت کی گواہی کے بعد حالت تشہد اس کی فنا میں غرق ہوکے گواہی دینے کا نام  ہے ۔ نماز عشق کبھی کسی نے اد ا کی ہے ؟ چُنیدہ لوگ ایسی نماز پڑھتے ہیں ، چُنیدہ لوگ حج کی '' فنا'' میں لوٹنے کے بعد ''بقا'' کو پاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ رحمتِ خاص ہے جس کے بار ے میں پروردگار عالم نے فرمایا ہے

هل جزاء الإحسان إلا الإحسان..

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے ؟ اس نے تم پر کرم کیا تم اس کے بندوں کے لیے رحمت ہوجاؤ ۔۔۔۔۔۔۔رحمن و رحیم کا یہ مفہوم ہمیں قران پاک کی ہر سورہ میں ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔ذات اُحد نے اپنے بندوں کے لیے رحمت عام کردی اور کچھ پر اس کی عنایت خاص ہوئی ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی  خاص رحمت  سیدنا  حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم  پر کی اور ان کو تمام زمانے کے لیے رحمت العالمین بنا دیا  ۔ احسان کے بدلہ دیتے فرماتا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔۔۔اس کی رحیمی و رحمانی بذاتِ خود  نعمتیں ہیں

خالص ‏ارواح

ٌدنیا میں سب سے اچھا جذبہ محبت کا ہے ، آسمان سے عطا تحفہِ محبت اوجِ بقا کی رفعتوں تک پہنچا دیتا ہے .عشق الہی عطا ہے اور اس  آگ میں کودنے کو حوصلہ ہر روح نہیں رکھتی ہے . رب باری تعالیٰ نے ارواح کا ''امر'' کرتے ان سے عہد لیا اور پوچھا ' کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟ تب سب نے یک سکت ہو کے کہا '' قالو بلی ''. خالق سے  بوقت عہد سبھی ارواح نے خالق کو رب مانا ہے . جب  روح کو مادی لباس دیا گیا تو اس نے اس لباس میں بےچینی محسوس کی . کسی نے بےچینی دور کرنے کے لیے دنیاوی تعیشات کا سہارا لیا تو کسی نے اس بے چینی کو حسن کی سنگت غم غلط کرنا چاہا تو کسی نے بنا کسی ملمع ، رنگ کے براہ راست خالق سے رجوع کرلیا .یہ وہ ارواح ہیں جو مادی لباس میں خدا کی تسبیح کرتے دنیا میں تشریف لائیں اور بنا کسی کھوٹ کا شکار ہوئے اسکی یاد میں زندگی گُزار دی .... جو روحیں خالق کے زیادہ قریب ہوتی ہیں ، وہی اس کو براہ راست محسوس کرتی ہیں اور اس پر یقین کرتی ہیں . ایسی ارواح اپنی اضطرابی کو دور نہیں کرپاتی ہیں اور زمانہ ان کے درد کو سنتا ہے اور سر دھنتا رہتا ہے .یہی ارواح اس کی حمد میں مصروف رہتی ہیں ...ہجر ت کا غم ، وصال سے دور کیا جاسکتا ہے اور ان کی زندگی وصال کی لذت حاصل کرنے میں الجھ ہوجاتی ہے

کائنات کی ہر شے ادھوری ہے ، یعنی ہر شے خام ہے . کوئی ذات خود میں کامل نہیں سوا اللہ کے . درخت ، سورج ، مٹی ، پانی ، ہوا کے دم سے زندہ ہیں جبکہ جانور ان درختوں کے بل ہوتے پر..... بادل ، پانی اور ہوا پر منحصر تو  تمام اجسام سورج پر انحصار کرتے ہیں ...... دنیا میں اپنی پہچان  اپنی ضد سے ہوتی ہے . زمین کی پہچان آسمان سے ہوتی ہے جبکہ  پانی کی پہچان ہوا ، مٹی سے ہے . روشنی کی ضد اندھیرا ، عورت کی مرد ، زندہ کی مردوں ہے . انسان اپنی پہچان خالق سے کرتا ہے

وہ لا محدود ہے ، انسان محدود

وہ بے نیاز ہے ، انسان نیاز مند ،

وہ نیند سے ماورا، انسان نیند کا محتاج

وہ کھانا کھلاتا ہے ، انسان کھاتا ہے

وہ تقدیر کا مالک ، تدبیر تقدیر کی محتاج

وہ خالق ہے ، انسان مخلوق

وہ روشنی ہے ، انسان روشنی کی حاجت رکھتا ہے

وہ عطا کرتا ہے ، انسان لیتا ہے

وہ کُل  ، انسان جزو

وہ مالک ، انسان غلام ........

انسان مظاہر سے درک لیتے خالق کی ذات کا درک پالیتا ہے ، اسی اضداد کے علم سے خالق کو جان لیتا ہے ....اس کی پہچان ، اس کو اکیلا ماننے میں ہیں ......انسان جزو ہے اور اس پر انحصار کرتا ہے . جزو  کی تکمیل کل سے ہوتی ہے ...کل کو کسی کی احتیاج نہیں ہے. کائنات کی ابتدا خیال سے ہوئی ہے اور دنیا میں سب کچھ ''خیال '' ہے . روح بھی ''خیال'' ہے ....خیال کو اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ''اصل'' کو کسی کی ضرورت نہیں ہے.سورہ الاخلاص میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

قل ھو اللہ احد

اللہ الصمد

لم یلد ولم یو لد

لم یکن اللہ کفو احد

اللہ اکیلا ہے ، بے نیاز ہے ،  وہ  نہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا ،کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے .........

اللہ اکیلا ہے ، بے نیاز ہے .....انسان اکیلا نہیں ہے ، اس کو اپنی پہچان ''اصل '' سے کرنی ہے . انسان بے نیاز نہیں ، وہ ہر وقت کائنات کے معمار کا محتاج ہے ... انسان اس کی ''کن '' پر امر ہوا ہے ... جب تک تکمیلِ ذات نہیں ہوپائے ، ہجرت کا غم کھاجاتا ہے ..جیسے ہی اس کا ربط ''اصل'' ذات یعنی خالق سے ہوجاتا ہے ، وصل کی لذت سے روح آشنا ہوجاتی ہے ..... وصل کے بعد روح اس کی وحدانیت کا اقرار کرتی ہے اور اس کو وحدہ مانتی ہے ........... تضاد ، تفریق ایک اثاثہ ہےجس سے محبت کی پیداوار خالق سے ربط اور نفرت کی پیداوار خالق سے دوری کی مظہر ہے ......جو روحین محبت بانٹتی نظر آئیں ، ان کو اے دل ! چوم لے ! ایسی ارواح بہت کم و قلیل ہوتی ہیں ......جہاں جہاں پائیں جائیں ، محبت کا درس دیں گی ، خالق کی طرح بے نیاز دکھیں گی ......

Wednesday, November 18, 2020

نظام ‏پیا ‏

نظام پِیا تنہا نَہ چھوڑیں گے ہم کو،  
نظام پِیا دل کو میخانہ کردیِں گے 
نظام پیا مری ہستی مٹا کے چھوڑیں گے 
نظام پیا مجھے صبر کا اقتباس کریں گے 
چُنر مری نظامی،  شاہ اجمیر کا پرند
یا معین الدین،  یا نظام الدین ...
اجمیر کے شہنشاہ کی زمین میری 
موری لَگن نے جوگنیا کو بُلایا ہے 
موری سجنیا مورا راگ ہے رے 
خواجہ نے صدر میں اک واج دی
چُنر خواجہ جی کی مورے تن پر

اک تھا پرندہ، اڑتا پھرتا رہا تھا، اشارہ دِیا سرکار نے .... ان کے کاندھے پہ بیٹھا ہے،
یا نظام الدین ...پریت موری سنگ ترے،
یا نظام الدین.... پنچھی نے لگائی صدا 
سرکار نے کملی میں پَناہ دے دی ....درد سے چیخ رَہا تھا عُضو عضو، جُزو جُزو ... جوگنیا کا ہویا بُرا حال،  عشق نے دیا تھا کمال، لباس میں جا بَجا پیوند، غُبار سے اٹا ہوا تھا ....

رہائی مل گئی دل کو دل سے 
ساتھ چھوٹا ذات سے خود کی
کامل ذات، کامل سائیں سرکار 
گگن کی لالی میں موجود جناب
سرکار درد لاگی رے، تن لاگی رے 
رنگ لاوو سرکار یا نظام الدین 
سرکار نے موری چُنر رنگ دی ....
ست رنگ میں سرخی کا سنگ 
یہ کمال،  دہلی میں شاہی کمند
دلی دلی کرتا دل، دلی مورا رنگ 
سرکار نے چُنر موری رنگ ڈالی 
سرکار نے درد کے کانٹے نکال دیے ..
محفل اقبال میِں ہیں محبوب الہی 
دین کے یہ فقیر ہیں دلاور  الہی 
حیدری سُر لگاتے رہتے ہیں 
حیدری مئے پیتے رہتے ہیں

نظام الدین سے ہماری لاگی، لاگی کہ بھی کبھی چھوٹی نہ ... درد نے ٹکرے نَہ کیے، پیس ڈالا ..... مورا سُرمہ نظامی مہک سے بھرپور ہے!  دل مشک کافور ہے!  درد کو جذبات میں بھگویا گیا،  ذات میری کو جھنجھوڑا گیا،  ذات میں ہے فریدی ڈھنگ، روح میں ہے نظامی رنگ!  ہند کے شہنشاہ کا ہوں پرند،  دودِ ہستی میں اک نَیا ترنگ،  شمس قُبائے نظامی میں موجود ہے!  شمس کا اک نَیا وجود ہے !  تماشائے بسمل کی ذات شیدائی تھی، درد کی نار پر چلنے کی تمنائی تھی!  ذات کا سودا ہوگیا،  لے کے مجھ سے شاہی دی گئی .... میں کچھ نَہیں،  وہ سب کچھ ہے .. میں کُچھ نَہیں،  وہ سب کچھ ہے! ذات کی قناتوں میں ھو کی شہنائی ہے ... ذات کی خانقاہ میں عشق کی بادشاہی ہے!  شاہی ملی!  شاہی ملی!  ذات لی گئی، شاہی دی گئی!  چُنر نظامی میری ....

یا نظام پیا!  درد سے لائی نہ گئی 
یا نظام پیا!  درد سے نبھائ نہ گئی
توری اک نظر نے فرحاِں کردیا 
برسوں کی جدائی  کم کی گئی

مورا رقص دیکھو،  نیناں ملے رے! مورا رقص دیکھو، نیناں ملے رے!  شام سے رات تلک نیناں ملے رے، نینوں کی بازی نے سر دہلیز پر ٹکا دیا!  ہاتھ سر پر بہ رحمت رکھا گیا .....نیناں کی بازی تھی، نین میرے پی کے سنگ،  پی نے کردیا ملنگ،  شاہی کے ملے سب رنگ،  چال چلن کے فریدی ڈھنگ،  حال میں مگن اک ملنگ،  اجمیر کے شاہ نے پرواز کو ڈھنگ دیا، غم کے دھلے سب زنگ ....

پی رکھی ہے؟
نَہیں پلا دی گئی ہے 
کون ہے ساقی؟
مورے ساقی،  نظام 
چنر کس کی ہے؟
پیا نظام نے دی 
لاگی رے،  لاگی رے، درد سے موری لاگی رے 
درد سے زیست بھاگی رے، درد سے راگ کی بازی رے،  آئیو رے،  آئیو رے    مورے دل میِں دیکھو رے .... سرکار زمانہ ہیں، لجپال گھرانہ ہے، کمال آستانہ ہے نور کا کاشانہ ہے، دل سرکار کا دیوانہ ہے

جوگنیا کو ملا نظامی سنگ 
جوگنیا کو کیا مست ملنگ 
جوگنیا کے ملے نظامی رنگ 
جوگنیا کے طریق وفا پر ..
جوگنیا چلی رہ عشق پر 
جوگنیا کو شمع دی گئی 
جوگنیا کو جمال دیا گیا 
کاجل نے دِیا دیکھن کا ڈھنگ
درود سے ملا نور و رنگ 
جمالی کملی میں  رات ہماری 
کمالی کے سلاسل دلی میِں 
کانچ سب ٹوٹے آس کے 
راس نہ آئے رنگ آس کے 
خاک ہوئی نور خاک میں 
خاک میں خاک شفاء تھی.
رات کی جھولی میں ماں تھی 
شام سلونی واجب الادا تھی 
کمال رے، دل پہ جمال رے 
کمال سرکار نے ہم پر کردیا 
شاہی میِں سرر سے رنگ کیا.
درد نے نیا اک تحفہ دے دیا 
کنگنا شاہ کے در سے ہے ملا 
بن مانگے درد کی صدا رے 
سرکار نوازتے ہیں ادا سے 
دل گرفتہ بوجہ کیا جاتا ہے 
نغمہ ء درد سے لبریر پیمانہ.
درد کو تو کیا جاتا میخانہ ....
درد لا ہست سے لا غرور ہے.
درد فنا ہے،  پے باقی ضرور ہے.
درد وفا ہے،  پے مخمور ہے.
درد کی سازش، میِں تو ضرور ہے

The light has passed in and has made a pass for holy and sacrosanct persons

O 'Nizam udin! My moon has been shimmered!
O 'Nizam ud din! Candle has been lit 
Ya Nizam!  Each iota of my dress is coloured 
Lights says! Rub off the Nizami cloak!  
The divinity is in me and providence is with me 

Nizami moon is in me! I am divine bird of Chist saint .... Shah has given me old wine and me like a drunk is numb and intoxicated.The shrine of Khawaja je is in me

The kaaba has been settled.
The drink in  the vessel rattled 
The vessel is in ecstacy!
Esstatic!  Divine! Holy! 

پریت لگن سے بڑھ گئی ہے 
No, the vessel is empty 
پریت نَہ کیجیو، درد ملتا ہے 
O pain! my clad is empty! Come and be my dress 
پریت جس نے کی، دیوانہ ہوا 
O love! You made me immortal 
دیوانے پاگل کہاں جانے جاتے ہیں!
Insanity is my sign! I am His identity!
وجدان پاگل کرتا ہے،  دھوکا دیتا ہے!
O insane! Never!  Never!  Never! Intution is my hand, my ear and my smell! Look in to me and  be the absorbent  like wind makes leaves rustle!  
پاگل ہُوئے تو ناچیں گے، جنگل میں مور ناچے کون دیکھے؟  
You are my soul! I will watch myself in you 
نغمہ ء ھو بن ترے نَہ نکلے گا،  ساز کو جِلا نَہ دے گا؟
The drunk never asks, rather subdue ... You and me are one! COME ...The distances are shimmering ..Come to my path and made the.path luminous with colors 
معکوس کے سلاسل نہیں ہمارے پاس 
رنگے ہیں، کہاں سے رنگے جائیں گے؟
شاہ تبریز کے رنگ میں رنگے ہیں ہم 
ان سے ملتے رہتے ہیں ہستی کو ڈھنگ
شاہ تبریز ہماری روح کے یکتا سنگ 
شاہ تبریز نے لگن حجازی لگا دی یے 
شاہ تبریز نےرات کو لالی سکھا دی یے 
شاہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں، شاہا ہمارے 
شاہ ہند کے ہم دلارے، اجمیر کے پرند
شاہ معین سے لگن موری بڑی پرانی 
سنگ رد سنگ سے نسبت کیا چلانی 
نظام پیا کے رنگوں میں رنگی گئ جوگنیا
جوگنیا کو ہوش نہ رہا،  رقص کرے انگ انگ
رشتے سب جھوٹے، محبوب الہی.ہمارے سنگ 
رنگ دے چنریا مورے نظام! مورے نظام 
نظامی پیا!  جوگنیا کا حال ہُوا ہے بُرا 
آس کا دیوا ٹٹا ہے، لاج کے کانچ بکھرے ہیں 
نظام پیا!  جوگنیا کا بُرا حال ہوا ہے
چنر میں تورے نام کے رنگ مورے سنگ 
نظام پیا!  گھر کا بھیدی!  پکڑو نا اسکو 
یا نظام!  جوگن تمھاری در کے جائے کہاں؟  
حق موری پریتم میں نظامی رنگ ہیں 
لاگی رے لاگی رے، لاگی نبھائ رے 
لاج سے گئے،  سر تا پا چنر سرکائے.گئے
جوگنیا کے چکر نہ دیکھو رے! چکر آون 
جوگنیا کے انگ انگ میں دیپک! چکر آون
جوگنیا نے چُنر سرکادی، لاگی رے لاگی رے
حجاب نَہ رہا!  نقاب نَہ رہا!  نہ لاج!  نہ شرم!
رنگ میں رنگ کی لاگی رے،  رنگ میں رنگ کی لاگی.رے 

مورے پریتم کی بازی کھیلن چلا تھا سنگی
مورے حجاب کو کھینچن چلا تھا سنگی
نظام پیا!  بُرا حال کیا مورے سنگی نے!
چُنر مانگے توری آس کے نئے اقتباس رے
نئے خواب، نئے حساب، نئے رستے،  
کجل برسن لگن تے خسرو پیا یاد آون 
لاگی رے لاگی رے،  خسرو  پیا سے لاگی رے 
لاگی رے سجنیا کی،  لاگی رے جوگنیا کی 
واج ساز میں خسرو کی،  واج ساز میں خسرو کی 

عشق کے سب عذاب مانگے خسرو پیا سے 
صبر کے سب انجذاب مانگے صابر پیا سے 
رنگ کی لاگی لاون آئے مرے نظام سرکار 
گلے میں پہناون گے ہم کو دیپک کے.ہار 
جلن کے، لگن کو جاون گے نظام پیا پاس 
 نظام پیا سے لگن میں جاون.گے سرحد پار

مجاب دل ہے، قبول ہوا بعد ِایجاب.. حجاب نہ رہے گا،   سرکار کے رنگ میِں محجوب ہمی دانستہ نہ تھے.نظامی چشمے روح کے رنگ در رنگ میں، پیا کی چنر پہنے موری حیا کے رنگ بے نقاب تھے   ..،  

روح تماشا نَہ تھی،  کاغذ پھر بھی جلایا گیا ہے  .علی رضی تعالی عنہ کے نقش تھے سارے، غیر نے دیکھے  ...مورے پیا  برا حال کیا رے، رنگ لاوو! سرکار ملن کے رنگ لاوو، آس نراس سے نکل گئے، توری پریت میِں جوگنیا نے جنم لیا ہے، سینے میں نوری کنجیاں تھیں، سرکار اٹھاتے اٹھاتے کھولیں گے،   دکھیاری روح  ماری ماری چیخاں ماریاں! پیا رے، پیا رے، پیا رے! توری صورت موری مورت،  روشن!  جانن پیئاں اکھیاں دل وچ اتھرو وگن!  ویکھیو حال مارا،  ، دکھیاری روح ماری  .... قرب کی ساعت ! درد جانیو کہ موری لگن بن سجن بیکار جانی .. نین سے نین ملنے کا لمحہ ہے! سرکار مورے پیا رے! حساب بن برکھا برسے رے!  نظام الدین، محبوب الہی ........ ناؤ ڈوبی نہیں، توری آس تھی سنگ، ناؤ ڈوبتی کیسے؟ لاج میں ساز میں تورے رنگ ....
یا نظام الدین وصلت کو چاہیے لگن کے پل ...پل پل میِں نینوِں کے سنگ ملیِں گے ہم ..... قرب کی ساعت، قریب! عین قربت میں پیمانہ اک ہوتا ہے، حجاب اٹھ جاتے ہیں! مورے  پیا نظامی کی وصلت میِں رنگ رنگ میں نکلا نور بہ ترنگ        ھو!  فلک میں ہے دل  خوام خم!  جھک گئے ہم!  جھک گئے ہم!  جھک گئے ہم!  ان کی محفل میں رہیں گے ہم  ھو ھو ھو ھو ھو!

ترے نال ہوگئے مست حال 
ترے نال لائیاں  ہن اکھیاں

یار نے دم دم میں ساز کو دیے ترنگ،  موج ہست نکل گئی، بحر وجود میں مل گیا ... 
حق وصلت کرتا ہے،  ہم اس ذات کے پیارے ہیں، 
دوست رنگ لا گیا، اللہ تار اچ،  اج ھو ھو دی صدا لگاوے، کاغذ دی خوشبو نے مار مکایا!  عشق نے سہاگن کیتا ھو!  عشق ساکوِں دار چڑھایا ھو!     فلک تے نوری ویکھن نہ سکن شادمانی دے پل!  سچ اچ ھو نے انج راگ لگایا، ھو ... 
ذات نوِں مٹی مٹی کیتا 
مٹی اس دا بنی  کھلونا 
جیون وچ ہن کیہ کھلونا 
مر کے ویکھیا یار سونا 
پاگل کیتا سی پریت نے. 
سرکار ہن من مندر اندر ... 
واج لگائے جیویں قلندر
پیا بن ہُن جیون رمز نرالی 
جیویں چن چانن توِں خالی .
مرا پیا گھر اچ آیا ہے.
دل دا فقیر جگایا ہے.
میرے سرکار سہاگن بنایا
اتھرو ساڈے  مار پجایا ھو 
چنر سرکے گی نہ غیر اگے 
سرکار نے سہاگن بنایا اے 
ویکھو رنگ و رنگ برکھا رت
ساون اچ پیگن چلی آں  
دل دا دکھڑا سناون دی لوڑ نئیں
سرکار دی لالی نے دتی نوی ترنگ

نماز

نماز پڑھ!  نماز پڑھ!  نماز پڑھ!
گیان نہیں، مکان نہیں، جہان نہیں 
تو جلوہ گر ہوگا تو قضا بھی ادا 
فقیر کے سر پر ڈال دے گا وہ ردا
وہ ہے تو سب ادا، وہ نہیں تو سزا

نماز میں دستار باندھی گئی کسی شاہ کے والی کے،  دیکھنے والوں نے شوق کے مارے سرجھکا لیا، کہیں لاگی میں دم نہ رہے. دم نہ رہے تو گم رہے کون. اک جدا ہوتے ساتھ ہے،  اک ساتھ ہوتے جدا ہے. یہ خیال ترے سدا بہار ہمارے قبلے بنے. ہم نے دستارِ شوق میں قیام کی حالت سے،  سجدے کے حال تلک دیکھا ـــ حــم ... اس کی رمز نہ جانو، جو جانو تو تیار مذبحِ وقت میں سر کا سواد قضا نہ جانو!  وہ لیتا پہلے ہے اور دیتا بعد ہے. وہ فصلِ گل و لالہ کی لگالیتا ہے اور کربل کی زمین میں راکب کو ثاقب بناتا ہے. شامیانے جہاں لگے ہیں،  آستانے وہیں کے، جہاں ناز خاک نے کیا کہ یہ کس سجاد نے فخر بخشا.  وہ نماز بدلتی رہی؟ نماز بدلتی ہے؟  نماز نذر کا نام ہے، نماز ہدیہ کے نام ہے،  جان ہدیہ ہوئی تو نماز قائم ہوئی. جس کا اپنا کچھ نہ تھا، یار اس کے سنگ،  وہی تو ہے مست ملنگ، جس کو ملے ہست ہست سے رنگ، یہ ستار ہے رنگ برنگ!  کس نے پوچھا تھا کہ دستار باندھی کیوں جاتی ہے؟  کس کو بتایا گیا تھا کہ جس کو سرداری دی جائے، جسکو شوق کی سالاری دی جائے، جس کو قائم سواری دی جائے، جس کو یاری دی جائے کہ اسکو باری دی جائے.. پھر جان وار دی جائے کہ کہنے میں،  سننے میں قصے ہیں!  دکھ جائیں تو اجالے ہیں ‍. سالک کو چاہیے دیکھے تمام سیر کو اور حلقہ ء بگوشِ دستِ خرامِ مہرِ نبوت کے رہے کہ رہنے والوں نے دستِ الوہی میں تن دان دیا، من دان دیا. کیا  قربان ہوا، کیا نہ قربان ہوا یہ حساب نہ رکھا. اس لیے خدا نے ان کو بے حساب دیا. اجر ِ رحیم محبت ہے . رحمت سے رحیمی ملتی ہے اور رحیم بانٹ دیا جاتا ہے.

Tuesday, November 17, 2020

دل ‏غمگین ‏بہ ‏رخ ‏استم ‏

دل غم گین بہ رخ استم
دل حزین بہ قرب استم
شام گزید، ستم مکن ...
شاخ بَہ حَرم قرب استم.
خدارا رحم کن بَہ احوال نور....
منم پاشیدم  ،منم روحی  شمشیدم ، حیات گمشیدم، چشم در روح قرار دھید ... کجا رفتم، فنا گشتم....
ستم جانیا بیا پیش دلم
نہم مجرمی بہ عشقم
من رقصی بہ دار عشقم
شمع دل از فنائے رفتم
منم قلندرم منم حیدریم
دل کے قرار کو گلاب لہجہ بنا، آنکھ رکھ، دل میں گمشدہ رہا کر!  دل کسے کب حال سے نکالتا ہے، یہ انسان خود حال سے نکل جاتا ہے ....رقص محفل میں نہیں ہوتا، محفل رقص میں آتی ہے ...زلزلہ دل میں آتا ہے، طوفان  وقوعہ پہ آئے تو تھام کے دل سجدہ کر ...
سجدہ! سجدہ!  سجدہ!
منم ساجد  ...منم ساجد
سجدہ شکر بسمل کا، سجدہ شکر بسمل پہ رقص واجب .....
انا حسینی!  انا حسینی!  انا حسینی!  محبت حسین خمیر میں ہے!  اسکے عشق میں ڈوبی،  غوطہ زن ہو ...کچھ الفاظ کے سمندر ہیں، کچھ معارفت کی گہرائیاں ہیں، کچھ تجلیات سے منور روزن دل، کچھ حدت ہے،  آتش فشانی عمل ہے!  کچھ زلزلوں نے جسم کو ہلا رکھا. ...ہاتھ دعا کو اٹھتے ہیں مالک رحم! رحمی بہ حال بسمل!
تبسم!  تبسم!  تبسم!
تو جس حال کے لیے تخلیق کی گئی، اسی حال میں رحم .... اشکوں کی مالا پرو، رحم کی ندیاں بَہا .... رحم مل جائے گا ...خدمت میں جاودانی ہے ...جا خدمت کر، مرا دل جیت لے! میں تو منتظر ہوں کب سے محبت دوں! تو نے اس راہ آنے میں وقت ضائع کیا ....  آجا!  آجا میری بندی!  میں ترا معبود .....
پڑھ لا الہ الا اللہ
منم:  اللہ ھو اللہ ھو ...ھو، ھو ...اللہ ھو
مالک:  پڑھ رب زدنی علما
منم:  ازدنی علما او رب ....ازدنی، ازدنی ...
مالک: تیرے ساتھ چند فرشتے ہیں، تسبیح خوان ہیں ... چل تجھے علم ملا
منم:  سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا ....
مالک:  سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی مسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا ...انہ السمیع العلیم ....
منم:  میں مسکین و عاجز .... کیا اوقات ....
مالک:  ما تفکرون؟  ما تدبرون؟  اللہ الوالیی .... اللہ العلیی ...اللہ الرحیم ...پڑھ یا اللہ یا الرحمن یا الرحیم یا ذوالجلال والاکرام .....
منم : میرے احوال پہ رحم ...میرا شمس کہاں گیا!  دل پہ حال، ملال ہے! شکر واجب ...مولا شکر واجب

آیات ‏بی ‏بی ‏فاطمہ ‏رض ‏ــ ‏پارٹ ‏۳ ‏

آیاتِ بی بی فاطمہ سلام علیہ پارٹ ۳ 

آیاتِ سیدہ.فاطمہ 
تحریر نمبر ۳
اجمال کی تفصیل کیا ہے ہم کیا جانیں گے ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ مصحفِ حُسینی، روحِ ابراہیمی میں ظاہر ہوگیا ـ آگ گلنار ہوئی اور قربانی کا وقت مقرر ہوا. 

یہی.وہ نعمت ہے جس کے لیے اللہ نے فرمایا 

"الیوم اکملت ..."

وہ وجود(نور) مکمل ہوگیا وہ مصوری جس کے لیے المصور نے دنیا.بنائی  ...وجود، مصوری،  سب مکمل ہوا،  قلم حسن کے شاہکار پہ توڑ دیا گیا کہ اس سے بہتر نقاش گر نے کیا بنانا تھا

تمام انبیاء کا نور مکمل ہوکے  مقدس نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے   سیدہ فاطمہ رضی تعالی عنہا کی روح میں منتقل ہوا،  تو اللہ نے فرمایا 

انا اعطینک الکوثر،

سیدہ.طاہرہ عالیہ زاہدہ مرضیہ، راضیہ، مطہرہ،  عارفہ  بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ کو پہچاننے والے، خود کی پہچان کرگئے،   یوں امِ ابیھا بی بی فاطمہ(سلام و درود ان پر)  سے رکھنے والے کشتی پار کرگئے

قسم کھائی خالق نے  اس کعبے کی جس کو تخلیق کیا گیا،  قسم  کھائی  اس حُسن کی جو  ظہور آدم سے نمود ہوتے،  یوحنا علیہ سلام  سے جوزف علیہ سلام  سے،  محمد  صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں پہنچا،  ساری کائنات نے محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سینے(قلب /نور)  کا طواف کیا،  اس لیے پتھرمسجود ہوگئے،  کلمہ پڑھنے لگے، اس لیے چاند شق ہوگیا،  اس لیے مکڑی نے غار ثور میں جالا بُن دیا،  اس لیے جب بوقت ہجرت مٹی پھینکی گئی تو کفار اندھے ہوگئے ... اس لیے احساس کی رم جھم دلوں پہ پڑنے لگی،  اسی وجہ سے شجر جھک جھک کے باد کو سلام کرتے ہیں کہ باد بھی سیدہ بی بی  فاطمہ علیہ کو  سلام کرکے آتی ہے

  بی بی مریم علیہ سلام ہوں ،  آسیہ بی بی ہوں،  یا ام عائشہ رضی تعالی عنہ ہوں ... یہ  سب سلاسل نور کے مرکوز ہائے رنگ پیرہن سیدہ پاک بی بی  میں مجتمع ہوئے ...   جب امام  حسین  عالی مقام نے نوکِ سناں سجدہ کیا،تو خدا  چاہتا تو نار ابراہیمی جیسے گلنار ہوئی،  اس طرح یہ مقتل گاہ  نہ سجتی نہ نوک سناں پر سجدہ ،  یہ نہ ہوتا  تو جنون کی  سب پردہ دری کرتے رہتے... 

اسی نے "خضر" کا رستہ اختیار کرلیا،  گویا "موسی "خود میں خضر ہو گیا،  

اے خضر راہ،  بتا تو سہی کہ انجیل مقدس کے راستے کون سے ہیں 
اے خضر راہ بتا، نمود جلال سے ظہور جمال کی پہنچ 
اے خضر راہ بتا،  درد کی منتہی پہ کیا رکھا ہے 

وہی فضل ہے جو سیدہ بی بی مریم علیہ سلام کے دل میں اترا،  انجیل  مقدس دل میں اترتی ہے،  یوحنا کی تعظیم اترتی ہے،  کعبے میں جگہ مل جاتی ہے 

حیا کی مٹی سے جب تخلیق کیا گیا تو سب سے پہلے اس خاص مٹی سے  سیدہ پاک دامن بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ کو تخلیق کیا گیا، باقی کا باڑہ اسی نور سے بنٹا،  بنٹتا رہا 

اسم نور علی النور کی کہانی ہے 

یا ایھا النفس المطمئنہ کا بیان ہے،  اسی آیت کے لیے آیت خاص کو ملحم کیا گیا،  آیت خاص وجدان کی سطح پہ اترتی ہے،  نسلیں تب قبائے ہاشمی پہن لیتی ہیں،  جہاں جہاں نور بکھرتا ہے،  اجالا ہوتا جاتا ہے،  درد کی بھی تھیں قسمیں،  اک درد قربانی کا،  اک درد نفس کا،  اک درد تڑپ کا تھا،  اک درد احساس کا تھا،  اک درد پیار سے نکلا خاص تھا،  یہ درد تمام رنگ اسی نسل میں،  اہل بیت، پنجتن پاک میں اتار دئیے گئے ہیں،  آیت خاص  سورہ الکوثر کے علاوہ کیا ہے!  یہ وہ مثل آب ہے،  جس نے اسکو پالیاتو گو یا خضر راہ سے کلیمی پالی

حُسینی نور کو کمال کی بلندی حاصل ہے،  شرح صدر سے شرح نفس تک کی بات ہے، جب خدا نے کہا اک جسم میں دو دل نہیں ہوتے،  تو آزمائے گئے تھے مومن   یہاں تک کہ ان کے دل حلق تک خشک ہوگئے،  اس خوف میں اک استقلال رکھا.گیا تھا،  یہی استقلال ہے جو حسین  علیہ سلام کو دیا گیا،  حسین  رضی تعالی عنہ  اس نور استقلال سے معبد بدن میں تھے، مستحکم شجر! 

ابن علی کو  علم خاص عطا کیا تھا،  جب  "اقرا " کے حرف ابتدا سے سکھایا گیا تھا قران، نفس نے خود پڑھا آپ اپنا، شناخت کی تھی 
..جب احساس نے قلم سے رشتہ نہیں پکڑا تھا،  جب کُن کا خیال وجود میں آیا تھا،  اس خیال میں تپش ِحسن سے خیال عین ظہور ہوا ...حسین علیہ سلام نام تھا اس خیال کا،  یہی نام حسین علیہ سلام  فلک سے فرش تک اترا تھا

کمال تھا کہ شان بے نیازی کا دوشالا ہم نے عطا کیا تھا،   جب  امام حسین نے کربل کے میدان میں قدم رکھا ........ تو قسم خدائ کی،  قسم الہیات کی،  قسم ہے قلم کی،  قسم نور وجود کی جو سینوں میں اتارا گیا، امام حسین رض  نے پیٹھ نہ پھیری،   درد کو سینے پہ سہا،  درد روحی تھا ... درد جسمی تھا .... درد کی تمام قسمیں امام  حسین  رض کو دیں گئیں  ..قسم اس ذات کی، امام  حسین رض  نے تخلیقِ  ناز ہونے کا حق نبھایا ہے ....،

امام حسین رض کو کمال خاص عطا ہوا تھا،  اس کائنات میں امام علی  حیدر  رض کو جو شجاعت عطا ہوئ ہے،  اس شجاعت کا کمال امام حسین رض نے پالیا تھا،  کمال رفعت کو پہنچا تھا سلسلہ ہائے مولائے علی کے تار حریم سے  سیدہ پاک بی بی  فاطمہ سے حسین رض کو،  تو شجاعت نے کمال کی پگڑی پہنی تھی کربل میں...

امام حسین کو  چرند پرند، تلوار دستار،  پہاڑ سب سے بات کرنے کی دسترس دی،  جو نطق گویائی حضرت  داؤد و سلیمان علیہ سلام  کو ملی،  اس گویائی، ناطق ہونے  کی انتہا  امام حسین  رض کو ملی،  یہ نطق  جس کا سلسلہ سیدہ پاک بی بی فاطمہ کی نسبت سے چلا ...بلاشک یہ علم لدنی یے،  یہ اللہ کی عطا ہے 

جب درد قسم قسم کے ملنے لگے تو جان لو کہ درد تحفہ ء ایزدی ہے، جان لو تحفہ حسینی ودیعت کردیا گیا،  جان لو شام حنا کے وقت تعین میں نسل.قربانی تک تمام احیاء العلوم  میں حسین رض ہے

یہ جو جمال ہے جس کو تم دیکھو، جو غور کرو جب فلک کی نیلاہٹ پاؤ، جب چاند کو ہمہ وقت رات کے حسن میں تلاشو، جب پتوں کی سراسراہٹیں اک پیغام دو جو جان لو یہ نور حسن رض  ہے ..نور حسن  رض کو نور حیات سے مخلق کیا گیا،  نور حیات آئیتہ الکرسی ہے، یہ کرسی حسنین کریمین میں قرار پکڑے ہوئے ہے،  آیت سردار،  سرداروں میں ترتیل ہوتی ہے،  تب ہی علم عمل میں ڈھلتا ہے تو جان لو حسن رض  کو علم میں کمال حاصل تھا

یہی کوثر ہے،  یہی حوض کوثر کا آب ہے ..چشمہ ء آب  اس کے  عرش کا پانی ہے،  عرش کا پانی باب حلم سے باب عفو تک جانے والوں کو یہی ملتا ہے،  قدسیوں سے پوچھو حیرتِ  حُسن  نے کیا کام کیا ہے،

امام حسن  رضی کی.شہ رگ میں نسبی کلمہ شجر زیتون کی مانند تھی،  نور ایسا تھا اس شجر سے چار سو پھیلا ہوا رہاہے ..والتین والزیتون  ...احسن التقویم کی مثال ہیں امامِ  حسن رض ہیں،   امامِ حسن رض  میں حَسن با کمال ہیں ...چمنِ  حسن رض  سے خوشہ ہائے گلابی عطر پھیلے، نبی کی سیرت جو چار سو پھیلی ہے،  یہ جو بارش رحمت کی برسے،  یہ ہوا جو چلے،  یہ کمال حیرت میں پہاڑ حیرت میں گم رینے لگتے ہیں

آیات ‏بی ‏بی ‏فاطمہ ‏علیہ ‏سلام ‏پارٹ ‏ٹو ‏

انجیل مقدس میں لکھا ہے ہاروت ماروت جادو گر تھے،  یہی بات قران پاک میں موجود ہے،  مگر ان دونوں باتوں کے پہنچانے کے حوالے بہت مختلف ہیں .. صدیوں کے بعد اگر دیکھا جائے تو بس دائرے مختلف ہوگئے ہیں مگر بات وہی چلی.آ رہی ہے .... پیغام پہنچانے والے پیامبر مختلف ہوگئے جبکہ پیغام وہی اک ہے ....

جب سیدہ بی بی  زہرا(سلام ان پر، درود ان پر)  نے اس دنیا میں تشریف قدم کیا تو ان کا نور   بہت مقدس تھا، بہت مقدس ہے اور تا ابد مقدس رہے گا ...   آسمان سے انجیل مقدس کی سے قران پاک تک جتنی پاک روحیں سیدہ بی بی مریم کی پرتو،  عکس تھیں ...

ان سب نیک ارواح نے  سیدہ بی بی فاطمہ امِ ابیھا(سلام ان پر، درود ان پر) کے سینہ مبارک سے  اتصال کردیا تھا، یہ خالق کی حکمت کہ آیت کوثر بحوالہ سیدہ فاطمہ ازل سے ابد تک جاری و ساری ہیں.   چاہے وہ مصحف داؤدی تھا،  چاہے وہ مصحف ابراہیم کی آیات ہوِ  چاہے وہ یوحنا کی مقدس بابرکت روشنی ہو  یا وہ جوزف کی خوبصورتی تھی ...ان سب کو حُسن، نور، روشنی،  علم،  معرفت اس پاک مقدس نور سے ملی 

قران پاک میں اس کا ذکر خیر کیا گیا ہے،  نفس مطمئنہ پر قرار پانے والی روح سیدہ پاک بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ ...  اس وقت  تمام رواح اس نوری ہالے میں جو  داخل ہوئیں تو  سب کو  سیدہ فاطمہ  الزہرا علیہ سلام کا سایہ مل.گیا

وہ جو عفو کی مثال ہیں، وہ فاطمہ کمال ہیں 
انہی سے ملا اوج نور کو مقام ھو تلک 

  حضرت موسی  علیہ سلام کا جلال اور  حضرت عیسی  علیہ سلام کا جمال ہو ...اسکی نمود ہوئیی حسنین کریمین مین  ان روشنیوں نے ان ہستیوں میں کمال پالیا

حسن و حسین علی کے چمن کے لالہ زار 
انہی سے نکلے موسی و عیسی جیسے بار بار 

جلال حضرت  حسین علیہ سلام کے لیے تھا جبکہ جمال  حضرت حسن علیہ سلام کے لیے لکھ دیا.گیا


آیاتِ ‏بی ‏بی ‏فاطمہ ‏علیہ ‏سلام ‏

آیات فاطمہ( سلام. ان پر)   مجھ میں ظہور ہیں، مخمور ہوں، خوشی سے  چور ہوں.....  زہے نصیب کہ مری خوش قسمتی کہ  میں نے مکرم ہستی کو پہچانا ہے!  مکرم ہستیوں کا مسکن مرا دل ہے!  عجب روشنی ہے جس کے پیچھے مقام کربل کیجانب قدم بہ قدم ہون!  حیرت نے غرق کردیا سیدہ فاطمہ کے قدم مجھ کو مل رہے ...سجدہ ...سجدہ ...سجدہ ... اے خدا، مری اعلی بختی پہ مری ذات خود نازاں ہے  ....

کربل کی مٹی میں نے سونگھی نہیں بلکہ اس خاک کو خود پہ ملنا چاہا ..  وہ بی بی پاک جن کے نفس دم بہ دم نے یہاں پہنچایا ...وہ روشنی اس اصل روشنی کا چشمہ،  پردہ ء غیبت میں جاتے مرے دل پہ ہاتھ رکھ گیا ..

طٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وارث  ہیں، یٰسین کی مانند دید میں گم رہیں ! میرے آقا شاہد ہوئے رب کے پاس، رب نے شہادت دے دی ..شاہد و شہادت کی نفی نے اک ذات کا پتا دیا ... اے یسین سے نکلنے والا نور،  ..  حُسین عالیمقام رضی تعالی عنہ  سے نکلنے والے چشمے میں ڈوب جا .. طٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی  مجلی آیت طور نے جلوہ گاہ حسن میں قربانیاں دیں

رونے کا مقام نہیں دوستو،  یہ مقام فخر ہے کہ اس فخر نے آدمیت کی تلاش میں دیر نہ کی. اس پاک نورِ حُسین  نے" والعصر" کے گھاٹے کو پہچانا تھا  یہ حُسینی نور جس کو ملے، اسکو آیت معراج سے آیت دل میں پیوست ہر روشنی مل جاتی ہے ...طٰہ کی روشنی، نور علی النور ہے، یہی نور  حسین عالیمقام کی روشنی  ہے

مثل طٰہ، مانند برق موسم ہیں

جب حسین (سلام ان پہ، درود ان پر)  کے خون میں  نور  شامل ہو رہا تھا،  جب اس نور میں خدا ظاہر ہوا تھا  تو دنیا نے دیکھا کہ یزیدی لشکر پیچھے ہٹنے لگا تھا،  وہ بَہتّر تھے مگر ہزاروں  پہ بھاری تھے،  حسینی لشکر میں کچھ مردان حُر(اللہ کی رحمت ہو ان پر)  تھے،  کچھ مردان علّی(سلام ان پر، درود ان پر)  تھے،  کچھ مردان مثلِ جعفر(سلام ان پر، درود ان پر)  پھیلے تھے حق یہ مری روشنیاں تھیں

جو بھول گئے رستے،  مگر پھر بھٹکے ہوئے لوٹ آئے جب رب نے کہا" ارجعو"  اس صدا کو جس جس نے سنا وہ لوٹ آیا ...مردان حُر کو سلام مرا .. جو پابہ زنجیر بھی رقص کرتے رہے،  کچھ ایسے تھے جو مانند علی اکبر(سلام ان پر، درود ان ہر)  نور سیدہ فاطمہ بی بی جانم (سلام ان پر، درود ان پر)  کے جمال میں گویا ہوئے!  یوں  جسم کٹائے،بریدہ جسموں نے خُدا کا نام غالب کردیا 

قائم رہنے والی روشنی ہماری یے،  وہ  حضرت جعفر رضی تعالی عنہ  کی روشنی جس نے خمیر بو طالبی سے روشنی پائی...نجاشی کے سامنے تلاوت قران الہی کی تھی، وہ جن کی سیرت و صورت دونوں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مشابہہ تھی 
. وہ  علی رضی تعالی عنہ. کی روشنی جس نے کعبہ سے اللہ کا  رستہ پایا،  وہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم جن کی تخلیق خالق کے مصوری کی انتہا تھی 

مثل حضور کوئی نہیں 
اوج ذات پر کوئی نہیں

نور


بی ‏بی ‏مریم ‏علیہ ‏سلام ‏کے ‏نام ‏خط ‏

خط،  نمبر ۷ 
بسلسلہ ء قلندری،
بہ تارِ حریر مادرِ قلندر 
کیف آور لہر ہے، سکون بخش چاشنی ہے  ... ہیولا نورانی ...مادر،  آپ کی رُوشنی سے دل میں تجرید کی ابتدا ہوتی ہے  .یوں لگتا ہے، روح آپ کی روح کے ہیولے سے ایسے وجود ہوئ جیسے اک وجود کے دو ٹکرے ہوں    ...
مادر،  آپ کے نور سے شاخ حرم پہ بیٹھی بلبل کو ساز نگر سُر ملا ہے    ... پیاری مادر، آپ کی صورت، مری صورت ہے! آپ بہت خوبصورت ہے ...ارض حرم کی مٹی کتنی زرخیز ہے، عیسوی نور ارض مقدس میں تخلیق کیا گیا.    مادر آپ کا سایہ مسلسل چاہیے، آپ کا حوصلہ دائم چاہیے!  اے مومنین بنات کی مادر، اب مجھے وہ قوت پرواز دیں، جس سے اک جلوہ جانفزاں کو راحت دل کا سبب بنے ،  آپ حوصلہ ہوجائیے،  مجھے جو نوید جانفزاں سنائی گئی بار بار، اسکو مقبول ٹھہرنے کا وقت آچکا ہے، آپ رب کعبہ سے کہیے کہ نور کو ہمت دینے کو،  نور کے ساتھ کیجیے .... اب ہجرت کا اذن ہے .. بی بی مکرم،  اپنی روشنی کی چادر اوڑھا کے نیند سی نیند کردیجیے ...جواب ضرور دیجیے گا 
آپ کی نور 
آپ کے جواب کی منتظر

سرکار ‏کے ‏نام ‏خط ‏

سرکار کے نام اک خط 

میں نور ہوں بابا!  آپ کی نُور، جس پہ آپ کی نِگاہ شفقت رہتی ہے!  ہر دم اکیلی رہتی ہے! مجاز سے نکالا ہے تو پھر مجاز میں پھنسنے سے بچائیے بابا، میں نے شب ء برات کو بہت رو رو کے دعا مانگی تھی مجھ پر عنایات کا سلسلہ شروع کیجیے!  آج کل حالت بے کل سی ہے اور مجھے لگتا ہے میں جلد مرجاؤں گی!  میری بے چینی جس کو میں نے سنبھال رکھا ہے،  میرے جسم پہ بھی اثر انداز ہوتی ہے ...سرکار آپ کو اپنی رحیمی کی قسم، مجھے اس در پے بلا لیجیے ...میں بہت بے چین ہوں .....اس روح کو جو سیرت میں مریم علیہ سلام جیسی اور بی بی جانم فاطمہ علیہ سلام جیسی ہیں ...بابا جانو!  مجھے وہ نیلم دے دیں جس کو مجھے باور کرایا گیا جو مجھے ملنا ہے!  بابا جانو مجھے یقین ہے آپ میری سنتے ہیں بابا جانو سن لیجیے ورنہ میرا کیا ہوگا ...اب تڑپن بہت بڑھ گئی ...ضبط نفس کو وجدان تک نہیں گئ کہ اپنی خودی کو دوسری کے خودہ پہ کیوں جانچوں میں تو آزاد پرندہ ہوں مثل نور ہستم ہوں بابا جان ...خدارا رحم کیجیے میں جس درد میں آپ جانتے ہیں سعدیہ پہ کرم کرتے نور بنا دیجیے
بابا جانو،  
دل کی کیفیت آپ کو بتاؤں؟  دل تو پہلے بہت دکھا ہوا ہے،  آپ جانتے ہیں نا ، میں آپ کو آپ کے جلوے کو ترسی ہوئ ہوں ..بابا جان،  آپ سے بات کو ترس گئی ہوں ..بابا جان فاصلہ ختم کردیں ...بابا جان میرا مدثر سے ملوا دیجیے ،  ، مجھے اب اپنی بارگاہ کا ادب سکھا دیں بابا جانو!

سیدہ ‏فاطمہ ‏الزہرا ‏رضی ‏تعالی ‏عنہ ‏کے ‏نام ‏خط

خط نمبر ۳ 
سیدہ طاہرہ عالیہ بی بی پاک زہرہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم زوجہ حیدر علی علیہ سلام مادر حسنین علیہ سلام ..

السلام علیکم!  
آپ کی خادمہ آپ کو کہنے کی جسارت کررہی ہے،  ادب و احترام شوق سے ....میری جسارت کو گستاخی نہ سمجھا جائے،  طفل مکتب ہوں،  معاف کردیا جائے .... 
نظر کرم کیجیے بی بی جانم!  بابا جان سے کہیے نا، مجھے حضوری دے دیں!  میرا برا حال ہوتا جارہا ہے!  میں خادم مجال نہیں ہونی چاہیے مگر کشش نے برا حال کردیا ہے. حال یہ ہوا کہ سب لے لیں، بس اپنا سایہ دے دیں ...لے لیں سب اور دے دیں اپنی ذات ...اس دولت سے بڑی،  اس نعمت سے بڑی کیا ہوگی؟  اہل بیت میں شامل کردیجیے ...جراءت کردی مگر کیا کروِں خواہش شدت سے ہے،  بی بی جانو مجھے یقین ہے آپ میرے خط کا جواب دیں گے!  مجھے تشنہ نہ کیا جائے .... آپ کی خادمہ آپ کے قدموں میں بیٹھے،  اس سعادت سے بڑی سعادت کیا ہوگی؟  
آپ کی نور ....
منتظر.
واعلیکم السلام

میں ‏عشق ‏عشق ‏کریندی ‏آں ‏

میں عشق عشق کریندی آں
غمِ ہجر کی بات کیا بیان کروں ! دل نے پہلی دفعہ اپنوں سے ملنے بعد جُدائی کا درد سہا ہے ! یہ جو آنکھ نم ہے یہ ان کی یاد میں گُم ہے ! دل مجھ سے خفا خفا ہے کہ میں نے اسے جسم کی قید میں رکھا ہے ! مکان سے لامکان کو جانے پرندہ بڑا بے چین ہے ! عرش کے مکین جو اوپر بیٹھا ہے آج اس کھیل تماشے کی سمجھ آنے لگی ہے ! میں نے جب سے خوشبوئے محمد صلی علیہ والہ وسلم سے ٖ پائی ہے ۔میرے دل کی زمین عشق نے ہلچل سی مچادی ہے ! نم مٹی پر برسات کی جارہی ہے ! یہ برسات بڑی رحمت والی ہے ! مجھ پر رحمت کالی کملی والی نے کی ہے ! اس کملی میں چھپنے کو جی چاہتا ہے ! بڑے گھنے سائے والی کملی ہے ! میں اس میں گم ہوکے سید الانبیاء سے اپنے سارے غم کہ دوں ! ان کو کہ دوں کہ مجھے مدینے میں بلالیں یا میرے دل کو مدینہ بنادیں ! جب اداسی کا ڈیرا جمائے تو رخِ یار سے دل کے رخسار سرخ ہوجائیں ا۔ خون کو نئی روانی ملے !

میڈیاں سولیاں اندر چلیاں
عشق دی ہن برچھیاں پئیاں
شراب دی عادت پے گئی
میخانے یارو! ہن لے چلو
یار میرا ڈاڈھا سوہنا ہے 
اودھی گل مشری تو مٹھی اے
او میرے دل وچ رہندا اے 
آہاں دا بالن کڑہیندا پیا اے
اشکاں نے لائیاں ہن جھڑیاں 
میڈیاں سولیاں اندر چلیاں
عشق دی ہن برچھیاں پیئاں
عشق وی بڑا زوری پیئا اے
راکھ میڈی اڈاندی جاندا اے
میں ٹردی ایڈھے پچھے جانی آں
اے کول میرے توں پجھدا اے
عشق نے دل وچ لائیاں اگاں
کدی نہ پجھن گیاں اے اگاں
میں آپوں آپے نکلندی جاندی آں

دل دی کون پچھانے گا ! 
دل دی کون منے گا !
دل وچ وس گیا اے سوہنا !
دل نے ہن اکھیاں میٹیاں نیں ! 
میں اودھے نال لگی آں
میریاں ٹھاریاں مدینے والے نال !
میڈیاں روشنیاں حسین دے نال !
میڈی تربیت فاطمہ نے کیتی اے !
میں ٹردی ٹردی پھراں آں ! 
میں ٹردی ٹردی پھراں آں !
کون مینوں پچھانے گا ؟
میں ٹردی ٹردی پھراں آں !
کون جانے گا دل دا حال ! 
سولی چڑھندی جاندی آں !
عشق نے کیتیاں زوریاں ! 
میں سولی چڑھندی جاندی آں ! 
عشق دا جام پیندی جاندی آں !
عشق کڑوا مٹھا جام ہے !
ایہہ جام جم دا جام ہے !
مست مست کریندا اے !
اندروں دیندا اے بانگاں !
ہن نماز دا ویلا اے
اودھی ثنا دا ویلا اے
جیڑا سب تواکیلا اے 
اودھی حمد ثنا دا ویلااے

اللہ اکبر ! حق اللہ اکبر ! اللہ اکبر !

اللہ سب سے بڑا ہے 
اللہ ی شان بیاں کروں کیسے
مالک سرجھکائے کھڑی ہوں
دل آپ سے لگائے کھڑی ہوں
آنکھوں میں عشق کی خماری ہے
میری زبان پر عشق کی قوالی ہے 
دل میں عشق نے کی سنگباری ہے
میرے ہونٹوں پر عشق کی حلاوت ہے
میرے نگاہوں میں عشق کی مٹھاس ہے
میرے کان عشق کا نغمہ سن رہے ہیں
اللہ اکبر ! اللہ اکبر ! اللہ اکبر !
اللہ سب سے بڑا ہے !اللہ سب سے بڑا ہے!
جدھی خدائی نے جگ سبھالیا اے
اونہوں نیندر نئیں آندی اے 
میں سوواں تے اوے جاگے
فر وی عشق عشق کرنی آں​

سردراِ ‏قلندر ‏امام ‏حسین ‏کے ‏نام ‏خط ‏نمبر ‏۸

خط نمبر ۸
بسلسلہ ء قلندری 
سید الامام،  سردارِ قلندر،  جانِ عشاق، مسجودِ کربل، قائم مقام علی علیہ سلام، بردار حسن، جان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  شاہِ سخا،  والی الفقراء 
السلام علیکم.    ... 

دل جل رہا ہے، بلکہ روح جل رہی ہے   ... یہ آپ کا فیض ہے روح جل رہی ہے اور رنگ در رنگ کا نقش "یا حسین، سید الشہدا "  آپ کو نور بہت یاد کرتی ہے شاید وہ گھڑیاں نہ بابرکت ہوں جب آپ کو روح نے یاد کیا ہے.   کاش روضے کے سامنے ہوتی اور قصیدہ شان قلندر لکھتی اور آپ ساتھ ساتھ جواب دیتے اور ساتھ اصلاح کرتے ہیں ... !  نور کو اتنی تڑپ ہے کہ کوشش کی فون کروں مگر دوسروں پل سوچا کیسے فون؟  پھر جب یہ سمجھ آیا فون تو آپ کو نہیں ہوسکتا....  تو کیسے پاک ہستیوں کو کروں ..پھر یہ خطوط کا سلسلہ ہوا .... میں آپ سے استقامت چاہتی،  چاہے مرجاؤں غم سے مگر استقلال،  ارادہ،  جراءت اتنی آہنی ہو کہ گر نہ پاؤِں .. آپ کا حیدری لہو علیہ سلام،  مصطفوی نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم، خمیر بی بی پاک علیہ سلام  کا ہے ..آپ تو گنجینہ الابرکات ہو ..متبرک ہستی ہو...مجھے سینے سے لگا کہ حوصلہ دو،  آپ کی نور ہوں ....میری روح حسینی ہے، دل میں چراغ کو فزوں کردیجیے .... مرے حبیب ، میرے دوست ہو نا سردار روح؟  مجھے وصال حق کرادو تاکہ قرار پاسکے بے چینی ...اے سید روح!  مجھ پہ روشنی کرو

اللہ ‏جی ‏کے ‏نام ‏خط ‏

خط نمبر ۶ 
اللہ.رب العزت کے نام خط 
اللہ جی، مولا جی،  آپ میٹھے میٹھے ہو لاڈ اٹھاتے ہو مگر آپ نے یہ کیا کیا کہ  وحید کردیا؟  تنہا تو اللہ ہوتا ہے اور رنگِ پیرہن مجھ پہ اپنا دے دیا ..کالا تھا مزمل کا رنگ،  سفید تھا مدثر کا رنگ، مجھ پر مدثر والی کملی کا سایہ کرکے عظمت پہ فائز کردیا ...دل میں آپ کی،  بلند ہستیوں کے احساس نے مجھے خود پہ احترام پہ مجبور کردیا .کچھ لیا تو اسکا بدلہ بھی خوب دیا ....،  ..میرے حال پہ مزید رحم کر ..یا لطیف، لطافت کی چادر مزید باریک کردے، لطف و کرم سے بڑھ کے وہ حال کر، تجھ میں مجھ میں حجاب نہ رہے، جسارت کرتی ہوں، گستاخ نہ سمجھیے گا، شوخی ء حسن پہ خوش ہوں اور مانگنے والے نے دینے والے کو غنی پہچان لیا ہے ...الغنی ....اور جب دل کا رشتہ تجھ سے جڑا تو الوالی کا سایہ،  اسکے مقام کو جان لیا، میری تصویر جس طرح مکمل ہو رہی تو المصور سے آشنائی ہو رہی ہے، مرا دل جتنا پاک ہوجاتا ہے تو مرا تجھ سے الجلیل کی آیت پہ سکوت سمجھ آتا ہے .... المقیط نے مجھے ٹھہراؤ کا درس دیا ہے،  الکریم سے الرحیم سے،  کرم و تخلیق کا کیا تحفہ ملا اور احساس نے مگر کہا کہ دل کو حاجت اور کی ہے،  شہ والا کی سواری آنے کو ہے اور نور نے جانا جبل النور پر،  دل ہوتا جارہا مخمور کہ اپنی قسمت پر نازاں ہوِں .... الباری کی تجلی سے دل کی زمین نے تخریب و تعمیر کا ہنر جانا ہے اور اچھے سے برا کو اور برے سے اچھا نکلتا پایا ہے ...الخالق کی صفت نے ذات کا وصف واضح کیا کہ عالم ذات میں مری ذات کے بھی متعدد آئنے ہیں بالکل خالق تری طرح ..اک ترا اپنا آئنہ ہے وہ ہے آئنہ ء محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ...جب تو اسمے دیکھے اور وہ ہمیں تو.گویا ہمارا سلسلہ مل چکا ہے ...

غلامی کی سند تیار کی جارہی ہے،  شمیشر سے نوازا جانا ہے،  دلاآویز پتھر ہیں اور چند خطوط کا جواب ملے گا ... 

مولا جواب تو آپ نے ابھی دے دیا ..واہ کیا بات ہے!

امامِ ‏حسین ‏رضی ‏تعالی ‏عنہ ‏کو ‏خط ‏

السلام علیکم،
محترم بابا جان
حُسینیت پر فائز امام سید الشہدا،  سجاد، قائم مقام سید جانِ علی، جانِ پسرِ بُتول زہرا، پدر امام علی اکبر، شبیریت پر فائز،اللہ کے دُلارے، پیارے!

نور کی حیثیت نَہیں آپ کے روضے سامنے بیٹھے،  آپ کی اِجازت سے یہ بیٹھتی ہے، جانتی ہے بابا جان کبھی تنہا نَہیں چھوڑتے، بابا آپ کادُکھ، غم دل میں جگہ پکڑ چُکا ہے، دل مسجود کربل کو بارہا دیکھتا ہے! بابا بتاؤ بیٹی کیا کرے گی؟بُریدہ نوک سناں دیکھے؟ دل پر کیا بیتے گی بابا؟ بابا سینے سے لگا لو، دل میدان کربل بن چُکا ہے. اے خون سے کلمہ کے شاہد و شہید ....اپنے وجود سے حق کو ثابت کرنے والے، آپ کو سوچتی ہوں تو خدا یاد آتا ہے اور خدا کا نام آپ کے بغیر کیسے لوں؟ قربانی کے خالص نشان! بابا امام اکبر علی بُہت یاد آتے ہیں،  اے برادر حسن جان، اے پسر بتول زہرا، اے ابن علی، اے پدر علی اکبر ..... کوثر کی نہر جاری کرنے والے، فیض کو عام کرنے والے، آپ کی بیٹی آپ کو دیکھے، بات کیے بنا نَہیں جائے گی ..تا عمر یہیں بیٹھی رہی گے!  نواز کے تمام خَزانے لٹا دیں مجھ پر، لا الہ الا اللہ خون سےلکھنے کی جو شدت ہے، وہ اَزل کی خواہش مقبول کردیجیے! بابا آپ کی بیٹی آپ کے روضے سامنے بیٹھے، جالیوں کو تکا کرے گی، جب تک آپ نگہ الطافانہ نہ کریں گے! دل غم میں ہے مگر ماتم میں نَہیں! آپ نے تکبیر کا جواب تحریرعمل میں لاتے لا الہ الا اللہ سے دیا، کیا فَلک پہ قادر المطلق کو جَلال نہ آیا ہوگا؟ بابا اپنی تلوار عطا کیجیے! خون سے شاہد ہونا ہے! بابا مجھ کو شَہید ہونا ہے، میرے خون نےلا الہ الا اللہ لکھنا ہے! بابا اگر نہ دیکھو، نہ جلوہ کراؤ گے تو ازل کا لکھا سچ کیسے ہوگا؟ خدا نے مجھ کو شہید لکھا ہے، گواہی دو لوح و قلم پر لکھے ہوئے کی! دل میں نقش ہے یا حُسین! اے میرے حسین جان! آپ نہ سنو گے میری تو کوئ سننے والا ہے؟ کوئ نہیں جانتا ہم آپ کے در پر صدا بیٹھ کے نعرہ ء حسینی لگاتے رہیں گے! خدا حشر میں کہے گا! عرش کے سائے میں رہتے ہیں حُسینی! بابا آپ کا نور مجھ میں ہے! بابا رابطہ کرلو!  جواب دیدو خط کا! میری روح تو آپ کی بیعت میں ہے، پھر دیر کیسی؟ جلدی کردو اب، کب سے پکار رہی المدد یا حُسین!  المدد یا حسین!  المدد یا حسین!
آپ کی نور
جواب کی منتظر
سردار کربل، مسجود ملائک،  حسینیت پر فائز، سید العشاق!
واعلیکم السلام
۴ جولائی ۲۰۱۹
وقت ۱۱:۴۴

الحی ‏القیوم

الحی القیوم 
وہ بقا کے دروازے پر کھڑا 
وہ فنا سے گزر کے ہے کھڑا 
شاہ کے در پر کون ہے پڑا 
نگینہ میری روح میں جڑا 
امتحان لیا گیا ہے بڑا کڑا 
ملا یار، یار تو اپنا ہے بڑا 
لامکان کے دائرے سے چلا 
ساجد ترے در پر ہے کھڑا 
نیناں دی لگی رے!  
نیناں دی لگی رے!
موج کر، مست رہ!
مست رہ!  ہست سے پرے 
ترے رنگ تمام ہوں گے ہرے 
تری دوا میری بات سے ہے 
تو میرا راگ، میں ترا ساز 
تو محجوب، تو مستور ہے 
تو سجدہ کر، ثمہ دنا مقام 
الف سے چل، لام تک تو آ 
سفر تمام ہوگا، منتہی ہوگی 
معراج کا سفر ہے، بشارت ہے 
اوج معرفت، اوج حقایت 
رفیقوں نے حزن نہ رکھا 
درد میرا دیا دم دم ہے چکھا 
تو رکھ لے دل میں شہد 
بات ہے یہ مہد سے لحد تک 
قاف سے قبلہ، شین سے شوق 
شوق میں عین ہوجا، عین ہو 
عین ہو، نین ہو، عین ہو، نین ہو 

کبیر نے کہا کہ مقبرہ اعظم کہاں ہے؟  صغیر نے کہا جہاں نطقِ اعظم ہے ـ وہیں پر مشروط ہے راگ سے نجانے کیا کیا ـ مجرب ہے دعا،  سلیقہ حیا سے آتا ہے بندگی میں جب دوا مل جاتی ہے ـیہ ہم ہیں جو سناتے ہیں اور سننے والے کہتے ہیں غم آگیا ـ ہم نے کان میں سرگوشی کی، بندے نے کہا غم آگیا ـ کیسے لوگ ہو؟  قربت کو غم کہتے ہو ـ جب قریب ہوئے، تبھی تو دور ہوئے!  دوری موت ہے!  موت کے بعد پھر وصلت ہے!  مرن توں پہلاں مریے، گل ساری ایہو اے.جانیے دل دی گل تے چلائیے ذکر دا ہل ـمالی دا کم کہ دیوے نہ دیوے پھل ـ تو نہ کر کل کل،  کل کل بڑی جدائی وانگ ہے،  ملدا نئیں ؤہ جس نوں اساں ملن جائیے ـ وفا نے سکھایا کہ سیکھو بس سیکھو.، بچے کیطرح سوالی ہو جا.

حسن ‏کیا ‏ہے ***

مجبور گاؤں جاتے ہیں، وہاں مستور رہتے ہیں ـ وہیں پر لوگ مست وار کے نینوں پر قربان ہوجاتے ہیں ـ مستوار کون ہے؟ مست کس نے کیا؟  یا احد،  جبل احد سے نکلی صدا ـ دہقان نے یہ سنی تو مستانہ ہوگیا اور کہنے لگا "ھو " وہ رحمٰن جارہا ہے،  وہ رحیم جارہا ہے، وہ حاشر، تم نے دیکھا کیا؟ وہ تصویر میں چھپا مصور جانا؟ مستانہ تھا پاگل، پاگل کی سمجھ کسے لگے؟  مستانے نے شدت غم سے گریہ کیا، گریبان نالہِ آہو سے تارتار ہوا.  وہ رنجور چلتا رہا یہاں تک کہ مقامِ حرا پہنچ گیا ـ وہ سوچنے لگا کہ وادی ء حرا میں اسمِ لا سے الہ تلک تو ٹھیک ہے، محمد رسول اللہ کی تعریف کرنے والے بندے!  بندے خدا بہروپ ہوئے اور روپ بہروپ میں اپنا نعرہ آپے مار لگایا 
ورفعنا لک ذکرک 
مستانہ وادی میں کھڑا منظر دیکھتے منظر ہوتا رہا کہ دھول ہوتا رہا کہ غیاب سے عین صدا تھی نغمہ شیریں نے ایسا محو کیا کہ مجنون کو لیلی کا خیال بھول گیا ـ بتاؤ بھئی، وہ خیال کیا ہوگا جس میں محو ہو کے اسکا خیال غائب ہوگیا ـ جس کے حضور وہ تھا،  وہ بھی وہی رنگ میں لیے تھا ـ وہ عکس تھا آئنہ نہ تھا. آئنہ اک ہے اور جلوہ گاہیں ہزار. موسی کو جلوہ گاہ سے ملا سرر،  وہ چالیس سرر کی راتیں جو وحدت کی گھڑیاں تھیں ـطور دل میں وہ مقام ہے جس سے قلب مستحکم ہوتا ہے جلوے کو مگر پاؤں ننگے اس وادی میں جلنا شرط ہوتا جبکہ حرا ایسا مقام ہے جہاں نعلین بھی ساتھ ہوتی ہے کہ نعلین بھی مبارک ـ ہم جب ان کے سائے میں پلتے ہیں، شاہ کے غمخوار ہوتے،  وہیں گریہ زار ہوتے ہیں تو شہہ کا ہاتھ ہمارے سر پر رہتا ہے ـ ہماری کائنات ویسی استوار ہوجاتی ہے جیسے کہ پہلے اشتہار کی صورت یہ دل میں نقش ہوتے ہیں. سنو جو جو ان کے سائے میں رہتا ہے وہ خود نہیں ہوتا، وہ وہ ہوتا ہے جہاں سے نعت کی اجابت و مقبولیت کی بات چلتی ہے 
رنگ رنگ میں مصطفوی نور 
رنگ رنگ میں یہ چراغِ طور 
رنگ رنگ سے یہ دل ہوا مخمور 
رنگ رنگ نے دیا ایسا سرور 
نعرہ لگا کہ چلو چلو سب طور 
سب نے دیکھا اسمِ میم کا ظہور 
ہر پتا بوٹا میرا ہوا ہے مہجور 
طائر،  تو ہے کیا؟ نہ کر غرور 
ملیں گے غنیم سے تحفے ضرور 
شہ رگ سے ملیں گے اپنے ضرور 
یہ جو تو نے کہا، ترا کیا قصور 
وہ کرتا ہے جو چاہے کرے مشہور 
جسے کرے، اپنا بات سے مخمور 
لے جائے گا  مصطفی کے حضور 
ادب سے جھکے گا دل مرا ضرور 
وہ دیکھیں گے، جلوہ ہوگا ضرور 
ملے گا دائم، قائم رہے گا  سرور 
یہ عنایت ہے ورنہ سب مجبور 
حسنِ مصطفی کی رویت رویت 
حسن سے ملی،  بصیرت بصیرت 
حسن نے دی ہے صورت، مورت 
حسن نے دی ہے شہرت، دولت 
حسن کیا ہے؟  جذبی کیف ہے 
حسن کیا ہے؟  ربی سیف ہے 
حسن کیا ہے؟  شامِ لطیف ہے 
حسن کیا ہے؟  رگ مجید ہے 
حسن کیا ہے؟  اجتنابِ ہائے ہو 
حسن کیا ہے؟  سخن وری ہے 
حسن کیا ہے؟  نغمہِ جاوداں 
حسن کیا ہے؟  میم کی نگاہ 
حسن کیا ہے؟  میم کا ساتھ 
حسن کیا ہے؟  لا سے الا اللہ 
حسن کیا ہے؟  جذب سے جازب 
حسن کیا ہے؟ رگ سے عارف 
حسن کیا ہے؟ درد میں صامت 
حسن کیا ہے؟  جلوہ، جلوہ، جلوہ 

 
حسن کی سج دھج دیکھ رہے تھے سب اور مل رہے تھے سب!  جیسے ملے ہوں رب سے،  کن کے وقت کوئی نہ تھا مگر اس کا خیال جو ارادہ نہ ہوا تھا ـ ہم تب بھی محبوب تھے، اب بھی محبوب ہیں. اس نے ہم میں رکھی آیات اور محبت کی ان سے. حسن چاہنے والے کی آنکھ میں ہے ـ حسن دل بینا ہے جس نے دیکھا اس نے کہا سرر ہے . وہ محور ہے اور محور ہوگیا.

ما ‏بعد ‏حجاب ***

ما بعدِ حجاب طواف ضروری تھا اور تو نے نَہ کیا،  ہائے!  یہ کِیا کیا؟  طواف کیسے کروں؟ کیسے فرق جانوِں؟ فرصت ملے گی تو دیکھیں گے کہ مطاف کو چومنا کیسے ہے ـ ابھی تو محو ہیں دوست اور رقابت کا سوال نَہیں ـ اجتناب نہ کرو، حساب کرو مگر سراب نہ کہو ـ جواد وہ ہے جس نے سخاوت کی حد کردی ہو ـ رقیب نہیں کہ ہر جا،  دوست ہے ـ میرے دِل میں تری یاد کے ہزار پُل اور ان سے گھٹتا فاصلہ محض سوچ کا تھا ـ سوچ نے ہٹایا فاصلہ تو حائل صدیوں نے بتایا کہ نورِ قدیم سے فاصلے نہ تھے ـ وہ قدامت میں، کسی نے خود کو عرش کے پانی میں دیکھا،  عرش کے زیرسایہ رہنے والے نے پھر بھی قربت کی انتہا مانگی ـ انتہا کیا ہوتی؟  لذت نے بھلادی انتہا بھی اور سوالِ منتہی بھی ـ فلک پر حطیم ہے، مطاف بھی ـ وہیں اک جاذب، نظر خاتون کو بیٹھے دیکھا ـ وہ حسین تھی اتنی کہ اس کے حسن میں میں کھوگئی ـ میں نے اس سے سوال کیا 
تم اتنی حسین کیسے بنی؟
اس نے کہا:  یہی سوال تم سے بنتا ہے 
پھر اس سے آگے سوال نہ رہا،  اس سے آگے کا جواب لفظ کا محتاج نہ تھا کہ حروف نے اس حسین پری وش کے گرد چکر لگائے اور اتنے چکر لگائے کہ پری چہرہ غائب ہوگئی جبکہ وہ حرف سامنے تھے ـ پری چہرہ کہاں گئی مگر حروف نے یکتائی کی قسم کھائی اور یکتا ہوتے سب منظر ہوتے گئے دل میں ـ یہ کس کا دل تھا جس میں صورتِ مریم نے قدم رنجہ کیا ـ یہ عیسوی قندیل میں لگے شجر میں کیسا نور ہے؟ یہ موسویت کی چادر کا رنگ گہرا کیوں ہوتا جارہا ہے؟  شجر زیتون نے برق سے کلیمی کی صورت دی اور صورت صورت میں صورت اس کی جھلکنے لگی. اس کی غزل کے جا بجا قافیے ہیں اور میں اس کے شعر کا ایسا قافیہ ہوں جس کو بڑی محبت سے، بڑی چاہ سے، بڑی الفت سے لگایا شعر پر کہ یہ شعر رحمت بن گیا ـ رحمت میں رحیمی کا نگینہ لگا پڑا ہے،  کسی پیارے نے پیار سے کہا:  سو جا،  رات ہے ـ ہم نے پیار سے جواب دیا کہ پیار میں نیند نہیں آتی،  پیار میں پیار قائم ہوجاتا ہے ـخواب میں پیار ہے،  جاگ لگن کی دیر ہے جاگ جاتی ہے روح، راگ نے آگ لگائی ہے اور بابا جان نے بلایا ہے ـ بابا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان گنت درود  یہ ہم تو قابل نہیں نا کہ خیال سجائیں مگر خیال سجے تو کہنا لازم:  سلام قول من رب رحیم ٌ رب کا سلام پہلے کہ بندگی کا طریقہ یہی ہے کہ عجز میں رہا جائے. راستہ بہت کھٹن ہے جی جناب کٹھن ہے مگر ساتھ سجن ہے اور رات اس میں مگن ہے ـ لعل گگن ہے،  دل میں شراب کہن ہے، یہ صحنِ ارم ہے کہ جانبِ حسن ہے ـ امام حسن رضی تعالی عنہ نے کیسی نرمی پائی شباہت بھی کیسی پیاری ہے اور نورانی ایسی کہ یزدان نے جمالیات کے سبھی نقوش قلب معطر کے حوالے کیے ـ ہم کہاں دیکھیں رے ان کو، وہ ہمیں دیکھتے ہیں اور لگتا ہے ہم ان کو دیکھ رہے. وہ اک قبر جس کی لعلی نے میرے دل کی زمین کو گاہِ کربل بنادیا،  سجدہ شبیری یہی ہے کہ  گم رہ مگر غائب نہ رہ

Monday, November 16, 2020

عاصی ‏بابا

عاصی بابا،  عاصی کے پاس کنگن ہیں فقیری کے ـ کون لے پائے گا؟  وہ تو کہے لو انزلنا ـــ جبل ایسے کانپے "واذ الجبال نسفت " جب ظہور ہوگا تو  " واذ النجوم انکدرت " یعنی تاروں کا آسمان بکھر جائے گا ـ آسمان اور زمین اک ہوں گے تو دوئی کے نَقوش  سب اتریں گے من سے ـ تب صبح سانس لے گی ـ یہ  سینہ  نگینہ ہے جس میں الم نشرح صدرک کی مثال ملحم آیات ہیں ـ ایسے مصحف جو شاہِ نوران نے بھیجے ہیں ـ شاہِ نوران نے اک بات سمجھائی ہے کہ شہہ کی سواری میں باری باری سب کا حساب ہوتا ہے ـ جس کے دل سے شہد گرتی ہے،  اسکو دے دیا جاتا ہے ـ بتائیے کہ شہد پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے ـشہد خیال ہے ـ شہد حضوری ہے. جب خدا مسند دل پر بیٹھا ذاکر ہوتا تو شہد سے بندہ شفاف ہوجاتا ہے پھر سرکار کا جلوہ ہوتا. ان گنت درود سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر

رنگ ‏کے ‏سوانگ ‏بھرنے ‏آیا

رنگ کے سوانگ بھرنے آیا 
وہ پھر مجھ سے ملنے آیا 
رنگ ساز نے رنگ دے دیا 
رنگ کی لاگی کا سوال ہے 
رنگ میں ترا رنگ پہلا ہے 
رنگ میں تو اول، تو آخر 
رنگ سے ملی ہے رشنائی 
رنگ ہے قلم،  رنگ دوات 
رنگ ہے ذات،  رنگ بات 
رنگ ہے سوت،  رنگ چرخا 
رنگ شہنائی، رنگ شادی 
رنگ جلوہ،  رنگ مجلی 
رنگ میں سنگ ہے وہ 
رنگ میں جگ ہے وہ 
رنگ میں ساز کون ہے 
رنگ میں راگ کس کا؟  
رنگ مورا ترا ہے رے؟  
مورا کیا ہے،  سب ترا 

صبر کی چنر میں رقص کیا گیا ہے دیوانہ،  دوات مانگی کلیر کے صابر سے!  اجمیر کا صابر زندہ ہے!  وہ تو شاہ کا پرندہ ہے!  قرار سے گیا کوئی!  جھوم جھوم کہے جائے! مورے صابر پیا، تورا رنگ لاگے رے، توری چنر ملی رے،  ترا جذب ملا رے،  تو سنگ رے،  تجھ میں جذب رہے،  رنگ سے لاگی نبھائیں گے جب کہیں گے کہ ھو الحی القیوم. وہ اللہ کے ساتھ اللہ والے ہیں اور بس سب مسند نشین ہیں ـ سب نے اللہ کو منالیا ہے ـ سب نے ہجرت و وصلت کا سنگ ہٹا کے موسم اک کردیا ہے ـ یہ جذبات و احساسات تو اس کی ملک سے نکلے اورتیر دل پر آشکار کر گئے یہی کہ روشنی ہے تو ان کی روشنی یے ـ ان سے ملا ہے رنگِ حنائی. ان کی چنر ڈالی گئی ہے ـ ان سے بات بنی ہے ان سے بات چلی ہے ـ ان کی نظر سے منظر ہوگئی ہوں میں اور وحدت کے پیالے سے کون جانے میخانے و پیمانے کا فرق ـ پیمانہ تو زمانوں پر محیط ہے تو زمانے سماگئے ہیں اور ًکلیر کے شاہ کہتے ہیں کہ شاہوں کے ساتھ رہنے والے شاہ ہوتے ہیں،  وہ مجذوب ہوتے ہیں،  وہ قلندر ہوتے ہیں،  وہ سمندر ہوتے ہیں،  وہ ذات کے ملنگ ہوتے ہیں،  وہ دھاگوں سے منسلک ہوتے ہیں یہ دھاگے جو ذات سے نکلے ہیں. ان کا رنگ طائر کو کشش کیے جارہے ـ صابر کے کلیر سے بات بنی ہے ان سے ملا ہے ایسا کشش کا نظام کہ کشش زات اپنی ہوگئی اور بچا کیا؟  بچے تو وہ اور ہار گئی طائر کی پرواز. وہ رک گیا ان کے مکان،  اپنا مکان بھول گیا ـ پرواز ملی تو ایسی ملی کہ سنہری رنگت والوں نے میرے ہاتھوں پر سجی حنا کو دیکھ کے سلام کیا ـ سلام قول من رب رحیم ـ خدا تو خود رحیم یے!

نظر***

وہ درد سے بھیجا گیا درود،  وہ درد کی دوا بن گیا ـ درد تو دِیا گیا ہی اِس لیے جاتا ہے کہ رقص کرنے لگے زمانہ ـ زمانہ رقص نہیں کرتا بلکہ کائنات میں سب اشیاء کی تسبیح دکھنے لگتی ہے ـ  یہ اشیاء جن میں اس کے نشان ہیں،  زائر سیر کے دوران کہنے لگتا ہے کہ دیدار ہوگیا ہے ـ  یہ مدارج الی اللہ ہیں کہ اس کو جانے کو ذات ہی منبع ہے ـ ذات کا ستارہ، قطب ہے ـ قطب منور ہو تو ہر شفاف شے منعطف ہونے لگتی ہے ـ یہ شفاف ہونا لازم کیوں ہے؟ شفافیت "من و تو " کا جھگڑا ختم کرکے انالحق کی منزل سے گزار کے واجب الوجود بنا دیتی ہے ـ زمانہ لاکھ کہے انسان ہے مگر روپ بہروپ کو جانڑے کون ـ فرزانہ جانے گا انسان،  دیوانہ جانے گا ذات ہے 

اک فرزانہ ملا،  دیوانے سے ـ ملن کا قصور تھا فرزانگی جاتی رہی اور جذب حسن میں فرزانے کی کائنات ہوئی ـ چلو اشک بندی ختم کرو!  چلو رقص فزوں کرو کہ لٹو کا وجود نہ رہے ـ 

میری جان!  روح سے روح مل جائے گی!  میرے دِل محبت میں محبوب ہوگا ـ اے میری روح،  عشق،  عاشق اصل ہوگا معشوق کہ وجودِ عشق نے خدا کو وہ دوام بخشا کہ نہ فرق رہا،  نہ حذر رہا، نہ خطر رہا 

پری چہرہ ـ وہ بے مثال چہرہ ـ وہ پری چہرہ جس کا درون شامل کیے ہوئے تم سب کی صورتیں ـ ان صورتوں میں کہیں جلال ہے، کہیں جمال ہے، کہیں حال ہے، کہیں کمال ہے ـ یہ تسبیحاتِ درجات پکڑائی جاتی ہیں سیر الی اللہ میں اور جبل پر تجلیات اتنی پڑتی ہیں کہ جبل النور کا گمان ہونے لگتا ہے 

نظر نہ ملائی جائے گی 
نظر نہ اٹھائی جائے گی 
نظر سے ملاقات ہو گی 
نظر سے بات ہو جانی ہے 
نظر مظہر، نظر اظہار 
نظر زائر،  نظر دائرہ 
نظر حصار، نظر محصور 
نظار جبر،  نظر جبار 
نظر  مکان،  نظر لامکان 
نظر زمن،  نظر لازمان 
نظر محب، نظر محبوب 
نظر چنر،  نظر منظر 
نظر حاشیہ، نظر قافیہ 
نظر غزل،  نظر غزال 
نظر مجاز، نظر حقیقت 
نظر مجذوب، نظر جذاب 
نظر حسن، نظر حسین 
نظر قطرہ،  نظرہ قلزم 
نظر حرف، نظر کتاب 
نظر شاہد،  نظر مشہود 
نظر والی،  نظر ولایت 
نظر جمال، نظر جلال 
نظر حال،  نظر کمال 
نظر انتساب، نظر اختتام 
نظر محور،  نظر شمس 

نظر ملے،  حیا سے جھکا سر ـ جھکا سر نہ اٹھا اور محبوب کو دیکھا کیسے جائے؟  احباب بس دو سے اک ہوگئے اور مل گئی نظر ـ وحدت کا پیالہ ٹوٹے نہ ٹوٹے کہ جام الوہی ہے ـ شام سلونی ہے کسی دیوانے نے فرزانے پر نظر کی، جسم نہ رہا، لباس نہ رہا، بس خیال رہا ـ خیال خیال سے مل گیا   ـ 

یار مل گیا،  یار جانم، یار ہجر میں نمناک، یار جلن سے منتشر، یار خوشی سے مرکب، یار تحفہ، یار سائل، نفی کچھ نہیں اثبات کچھ نہیں ـ جہاں سارا اثبات ہے، کس کی نفی کریں؟  عالم ھو میں ثباتیت دیکھو،  دل پر ہاتھ رکھ کے پوچھو کہ اللہ کہاں ہے؟  اللہ واجب الشہود ہے   اللہ واجب الوجود ہے، اللہ ظاہر ہے،  اللہ شاہد ہے،  اللہ مشہود ہے،  وہ خود شہید ہے

تقسیم

آخرش!  تنہائی سے یاری نبھانی ہے وگرنہ قلت مولا کہا اور اثر نہ ہوا. میری جان!  
میرے دِل!  
تجھ پر میری حقایت کا اثر ہونا چاہیے 
تو میرا قلم ہے اور کتاب قلم سے وجود میں آتی ہے. آسمانی مصحف تک رسائی پاک دل کرتے ہیں لایمسہ  الا مطھرون کی مثال جب آنکھ وضو کرے تو سمجھ لے، میری جان!  تری رسائی ہے!  تو جان لے کہ شوقِ رقیب میں رقابت کچھ نہیں کہ شوق میں رقیب ہی حبیب ہے  حبیب قریب ہے. نصیب والے نے برسایا مگر کھایا سب نے. دینے والے ہاتھ اچھے،  سو دینے والا ہاتھ ہو جا!  نہ جھڑکی مثال دے، نہ وضو کے نین دکھا،  محرم راز بن. طریقہ یہی ہے ساتھ رہنے کا وگرنہ لازمان و لامکان کے دائرے تحریک نہ پکڑ سکیں گے. واعتصمو بحبل اللہ ...یہ محبت کی رسی ہے، محبت وہ بانٹتا ہے جس کو رحمت ملتی ہے. رحمت بانٹنے والا در تو اک ہے. تو میری جان!  جب اس کا نام لے تو درود پڑھ ... درود ایسا کہ روبرو ہو. وہ گھنگھریالے سے بال جس کی مثال رات نے لی سورج کا چھپنا رات ہے اور روشنی تو نکلتی ہے درز درز دندانِ مبارک سے گویا بقعہ نور ہو. وہ نور ایسا کہ دل میں چشمہ ابل پڑے اور چشمے سے چشمات کے لامتناہی سلاسل. یہ وہ ہیں جن کے لبِ یاقوت سے گلاب کی پتی مثال لی،  جن کی مسکراہٹ سے ہوا کھلکھلائی تو باد بن گئی. وہ دل کے کاخ و کو کے شہنشاہ ہیں اور ہم شاہ کے غلام ہیں. شاہ حکم کیجیے!  شاہ کے سامنے مجال کیا کہ گویائی کا سکتہ ٹوٹے،  یہ رعبِ حسن کہ حاش للہ تو نکلے مگر ہاتھ کے بجائے روح ٹکرے ٹکرے!  روح کی تقسیم ایسے ہوتی ہے. ہاں یہ تقسیم ہے

تنہائی ‏اور ‏شاہ ‏جلال ‏

کبھی وہ تنہائی جس میں محفل لگے،  وہ لگے تو لگ جائے یعنی کہ ٹھہر جائے ـ وقت ٹھہر جائے تو رقت لگ جاتی ہے ـ یہ اجمالی تفصیل ہے ھو کی ـ وہ اور میں اک ہیں ـ تنہائی ہے ـ وہ اور میں اک ہیں اور تنہائی ہے ـ سچ نے شہ رگ سے خون میں شہد بکھیر دیا تھا ـ لگ گئی بازی اور من کے دریچوں میں  اک جھلک ہے ـ جھلک بھی کیسی ہے جیسے وہ پکار رہا ہے.  کہے جائے " قم فانذر " یہ تبدیلی کیسی ہے.  مبدل کچھ بہیں ہے کیونکہ سچ لازوال ہے سچ باکمال ہے ـ جانے کیوں اس کی نگاہ کی بانہیں تھام کے عشاق کو لوری دیتی ہیں جیسے ماں نے کہانی سنا کے بچے کو سلانا ہو 

اہل نظر شکریہ 
اہل شہید شکریہ 
اہل غفار شکریہ 
آلِ سید کا بے مثال شکریہ 
وہ مطہرہ،  طاہرہ،  طیبہ،  شاہدہ،  رافعہ،  ساجدہ،  مصفی کرنے والی روشنی 
دل میں ظاہر ہو تو سلام واجب 
ہم نہیں رہتے ہم میں یار رہتا ہے 
یہ سلام عشق بمانند سجدہ حسن بے مثال کو ... وہ عالیہ جن کے ملیح چہرے سے صبح نے تنفس لیا،  رات کو سکتہ ہوگیا،  سورج کو لالی آگئی حیا سے،  فلک کی نیلاہٹ کم ہوگئی 
مومنین.
درود خیال سے بھیجو 
پیار و محبت کی تصویر سے 
سجا لو تنہائی 
واحد کی تنہائی کے میلے دیکھو 
اجے سجی ہے سرخ لعلاں دی محفل 
اجے تے چلو ویکھو سجن دی سرخی 
شاہ جلال سے ملا سرخ نگینہ 
شاہ جلال،  شاہ بخارا،  ثانی ء حیدر کی بات ہے کہ خدا ساتھ ہے ـ لعل نے لعلی بانٹی ہے. چلو سلام کریں شاہ جلال الدین سرخ پوش کہ ان کی سرخ ردا ہم پر ہے. ہم نے کہا وہی ہوا ہے. ہم جو کہیں گے وہ ہو جائے گا. یہ لوح سے ملی روشنی. قندیل پاک میں شاہ جلال الدین کی سرخی اصل ہے. ہمارے اصل. اے سید روح سلام!  اے سید روح سلام!  اے سید روح دھاگہ لگادیا،  لاگی من کی کیسے بجھے گی کہ بجھے نہ بجھے کہ شہر حزین میں ہم ان کی محفل میں ہے. وہ ہمارے سید ہیں

حرفِ ‏گریہ

حرف گریہ!  حرفِ گریہ!  حرفِ گریہ 
محذوف دائرے!  لامکان کے پنچھی چلے پرواز کو، جانب عدم جانے کس کا پہرا ہے!  اکہر ہے!  اکہر ہے!  جی شام سے سویرا ہے! نوید ہوئی ہے کسی نے کہا کہ نوید ملی ہے!  کسی نے جبین جھکی ہے!  کسی نے کہا سجدہ ہوا ہے!  گگن پر لالی ہے،  افق کے ماتھے پر چاند ہے ـ سجاد وہ ہے جس نے سجدہ کِیا ہے ـ یہ سُحاب جو چھائے ہیں،  یہ ساون برسنے کی نشانی ہے ـ  یہ جو برس رہا ہے یہ کیا ہے؟ یہ فرض کیا کہ یار ملا ہے مگر ملا نَہیں ـ یہ قاف جو عشق کا ہے، جو سین ہے وہ "ن " سے نکلا ہے،  قلم لوح جب اصل کاتب سے ملنے لگے تو وصل ہوتا ہے ـ یہ مگر درد ہے ـ عارف کی زمین پر درد بہت ہے،  کرشمہ ہے!  کرشمہ ہے!  کرشن بھی وہی،  رام بھی وہی،  خدا بھی وہی. حرف مگر اک ہے،  حرفِ دل نے کتنے نام دیے ہیں اسکو،  وہ نام سے مبراء ذات ہے!  وہ حال سے مجلی عین بات ہے.  تم اس سے بات کرنا چاہتے ہو تو اس انسان سے بات کرو جو اس سے اتصال میں ہے. حقیقت میں وہ وسیلہ ہے اور مخلوق بنا وسیلے کے نہیں ہے. اسکی کرسی جس کے دل میں مقرر ہو جائے،  وہ اس کا کان، ہے وہ خود سناتا ہے اور خود سنتا ہے  خدا نے درد میں سرگوشی کی ہے کہ مخلوق درد میں ہے،  جذب نہیں تو انجذاب نہیں!  تقسیم ہے انتقال کی!  یہ ہم ہیں جو منقسم ہو رہے ہیں،  یہ ہم ہیں جو قرطاس ہیں،  یہ ہم ہیں جو قلم ہیں،  قرطاس کی چاندی نور ہے،  اس کے ورق ورق میں وہ ظہور ہے!  شبیر و شبر کی بات کرو تو جلال میں جو ہو،  اسکا وظیفہ بھاری ہوتا ہے  اس کی قربانی عظیم ہوتی ہے. قبلہ عشق کا ملتا ہے اسے، جس کی رگ دل سے چھری سے جاری خون کسی مینڈھے کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ دید ہوتی ہے ـ یہی حج ہے!  خلقت چاہے سوا لاکھ کالے کپڑے کے گرد پھیرے مارے، گر دید والے سے نہ ملے تو شریعت قائم رہ جاتی، ظاہر کا بھرم رہ جاتی. اندر خالی رہ جاتا ـ اندر نور نہ ہو تو فائدہ نہیں نماز کا ـ افسوس ایسے نمازیوں پر جن کی نمازیں ان کے منہ پر مار دی جائیں گی ـ افسوس ایسے نامی حاجیوں پر جن کا کالا رنگ نہ اترا،  افسوس اس وقت پر، جس کو رنگینی میں ضائع کردیا گیا ـ ہائے!  وہ ملنے آیا تم سے، تم نے برتن میں نجاست بھرلی. وہ تو مرج البحرین یلتیقان کی مثال قائم رہتا ہے جب تک کہ نور بجھ نہ جائے. اللہ تو نور کی تکمیل چاہتا مگر جو نور کو خود بجھا دے. ان پر افسوس کیا جاتا ہے. آج خدا نے افسوس کیا ایسے دلوں پر جنہوں نے اس کو زبان کے پھیرے سے مطلب کے لیے رکھا، جنہوں نے خیال میں سجائی کائنات ـ وہی اصل ذاکرین ہیں. انہی ذاکرین نے الکرسی کی مثالیں بنانی ہوتی ہیں جلال والے نینوں میں. کرسی والا چلا جاتا ہے ذاکر کے دل میں اور الحی القیوم کی صدا آتی ہے ـ ھو الباری ـ اس نے میرے عناصر کو ترتیب دے دیا ہے،  میرے اجزاء میں خاص لعل ہیں، کہیں عقیق ہیں تو کہیں نیلم. یہ نشان روح پر پڑتے ہیں جبکہ روح امر ربی ہے جو صدائے کن کی واجب ہے. وجود اس کی ہیبت سے لرز جاتا ہے اور رگ میں جان نکالی گئی باقی جان نے ھو ھو کہا گویا اک رگ سے جو پانی نکلا باقی وسیلے بنے ھو، ھو کہتے رہے

پریم ‏کتھا ‏

پریم کتھا لکھنے بیٹھو تو رام نیا بہنے لگے ـ رام نیا کو بہنے کے لیے پانی چاہیے اور عرش دل ہے دل میں پانی ہے ـ یہی ساری کہانی ہے ـ کہانی بہت پرانی ہے ـ یہ سمجھ میں آنی ہے جس نے کہنا اس کو پرانی ہے ـ بات پرانی یہی ہے کہ وہ فلک نشین ہے ـ فلک نشین کون کون ہے؟  اک تو ہے اور اک کے ساتھ جو فلک نشین ہیں وہ بے حجاب مظاہرہ کرتے ہیں الوہی الوہی روشنی کا ـ جب کائنات نے نور سے سمیٹا کچھ،  تو خاص روشنی تھی وہ مرقع زہرا رضی تعالی عنہ جن کے سبب کوثر جاری ہے. وراثت جاری ہے،  ولایت جاری ہے ـ یہ جو رنگ رنگ دکھتا ہے،  یہ رنگ اک ہے مگر منقسم پانچ میں ہے،  یہ پانچ منقسم ساتھ میں ہیں ـگویا پہلا فلک اک رنگ سے پانچ میں اور ان پانچ سے باقی پانچ افلاک تصویر میں آئے ـ وہ مصور جو میم سے تراش رہا تھا کنیوس پر،  تو میم کے رنگ دیکھ کے مسکراتا رہا ـ یہ جو شاہا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تبسم ہے یہ حقیقت میں وہ عکس ہے جس کو خدا نے قلم سے محصور کیا اور مسکرایا ـ یہی وسیلہ خدا تک پہنچنے کا ـ یہ جو گویائی ہے یا حق موج ہے جس نے سینہ تیر فگن کر رکھا ہے،  یہ تیر ایسا کہ بسمل وانگ لگن لگی اور ہارن لگی بازی میں.  سئیاں نوں میں کہیا کہ یہ جو شربتی حلاوت ہے روح میں،  یہ کیا ہے تو کہا " یہی تو مصوری ہے وہ جس پر وہ مسکرایا " آج تک وہ مسکراہٹ غیب سے حاضر میں وجود رکھتی ہے گویا جس جس کو اس مسکراہٹ کی پہچان ہو جائے وہ جان جائے کہ پہچان ہے یہ!  یہ پہچان جس نے محبت کو قرار دیا ہے اور وہ مقرر ہوگیا ہے، جس کے لیے کہا گہا ہے " عارفوں کی زمین آسمان ہے،  عارف ایسا ستارہ ہے جس کو کام چمکنا ہے،  جس کا کام سمت دینا ہے، جس کا کام گویائی سکھانا ہے،  جس نے فہم دینا ہے. العارفین عن الناس،  ھو العارف این ما کنتم! یہ جو کہا گیا ہے وہی ہوگیا ہے. نظر کی بات ہے، دلِ بینا سے دیکھو تو تم کو عارف ملے گا،  جب تم کو شناخت ہوگی تو علم ہوگا پانچ رنگ ہفت افلاک سے ہوتے عارفوں کا چہرہ بنے ہوئے ہیں. یہ درون کا چہرہ ہے،  یہ صورت گر جب صورتیں بناتا ہے تو کیمیا گری کرتا ہے ـ یہ فیض ہوتا ہے جو بانٹا جاتا ہے ـ دیا جو جاتا ہے تو دینے کے لیے دیا جاتا ہے،  تقسیم کرنا ہوتا ہے ورنہ فیض رک جاتا ہے اور سلسلہ رک جاتا ہے. خدا شاہد ہوتا ہے جو تقسیم کرتے ہیں،  اور پھر شہادت ہو جاتی ہے مومن کی،  ظاہر وہ ہو جاتا ہے جو باطن میں ہوتا ہے ـ شہادت کا کام شیروں کا ہوتا ہے ـ جان کی بازی لگانا آسان نہیں ہوتا بلکہ جان لگ جاتی ہے اور باز،  شہبازی کرتے فلک کے لامتناہی گوشوں میں جاتا کہتا ہے " منم محو جمال او " رقص یار میں گم پروانہ،  پروانہ نہ تھا بلکہ وہ تو یار تھا جو خیال کی صورت رقص میں تھا. وہ عین شہود تھا. یہ قران پاک کی تلاوت ہے ـ ذات ہماری قران ہے اور نسیان سے ملتا عرفان یے. یہ جو رات چھائی ہے جس کی مدھم مدھم روشنی مہک دے رہے ہیں ـیہ روشنی عین شاہد یے کہ وہ ہستی جس کے لیے کائنات بنائی گئی وہی سامنے ہے. وہ درود ـ جب کہ زبان گنگ ـ زبان گنگ میں کلام ـ کلام بھی کیا عرفان ـ عرفان بھی کیا یہ ایقان جس سے ملی ہے پہچان ـ پہچان بس نعت ہے. یہ وہ نعت ہے جو دیکھ دیکھ کے لکھی جاتی ہے،  جس میں نقش نقش کی ضو سے رنگ رنگ اترتا قلب کو چمکاتا ہے. یہ آشنائی بھی نصیب ہے گویا حبیب قریب ہے.

من ‏تکڑی ‏اور ‏تول ‏دی ‏گئی ‏نیت

من تکڑی اور تول دی گئی نیت! 
ویل  للمطففین 
نیت کا تول بھاری اور من کی لاگی ایسی کہ خدا سے ہم کہتے رہتے اس کو اس کے کیے جزا کم دے اور میرے کیے کی نیت کا بھرم رکھ ـ جب بھرم کی بات آتی ہے تو مطاف سے صدا لگاتی ہے کہ یہ تو دیدار کا وقت ہے ـ نہیں انتظار کا وقت ہے.  یہ التفات کا وقت ہے ـ وقت کاذب ہے اور اس نے کہا 

والمرسلت عرفا 

یہ صبا جس کو وقت کاذب میں چلاتا ہے تاکہ جان کنی کا حال کم ہے. تخلیق کے مراحل جان لیوا ہوتے ہیں اور لفظ مولود کی گھڑیوں میں جنم لیتے ہیں،  درد اتنا ہوتا، نسیان اتنا ہوتا ہے کہ خبر نہیں رہتی کہ وصال تھا. جب وصال ہو تو دن و رات سے پرے اک مقام پر وہ ملتا ہے جس کو شب قدر سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ الرحمن کے بندے ہیں وہ جو والکاظمین الغیظ کی مثال درد کو جذب کرنے والے ہیں. یہ کرسی والے کا مقام ہے وہ اک میں جذب ہو جائے اور واویلا چھوڑ دے. کرسی والے کو ملتا ہے وہ مقام جس کے لیے فرمایا جاتا ہے والشمس. یہ قسمین وہ کھاتا ہے اور بڑے پیار سے نوازتا ہے مگر اس سے پہلے شرح صدر ضروری ہوتا ہے، بوجھ سہنا ضروری ہوتا ہے. یہی تو حق موج یے جس نے میرے لیے اسم لامثال سے بے مثال موتی کشید کیے. چشم نمی کی کہانی اتنی پرانی ہے جتنا یعقوب کا گریہ ـ وہ عشق معشوق کے لیے رویا. بات بہت آسان سی ہے کہ خدا،  خود اپنے لیے رویا ـ خدا نے کتنے آئنے بنائے،  کتنا حسن بانٹا اور پھر جس جس کو حسن دیا گیا اس بے دیکھنے کی نوبت نہ کی بلکہ صم بکم عم کی مثال ہوگیا. دل شر البریہ ہو جائے تو شرالدواب ہوجاتا ہے اور ایسے پر کنکری جب پھینکی جاتی تو کہا جاتا ہے "وما کن اللہ رمی. بس یہ پھینکی کس نے،  یہ کون جانے

اک بازی تھی صیاد کی اور ہوا تو زور کی جب جھکڑ چلا تو کہا گیا کون ہے دل کے قریب؟ کس نے خبر دی " والنشرت  نشرا " بس یہ کائنات کا اخبار خبر دے رہا سچے سمیع العلیم کی. وہی تعلیم یہی دیتا ہے کہ ھو اللہ الواحد!  واحد کو کوئ دیکھتا نہیں تو اس کے نشان روح پر کیسے پڑیں؟  وجہ اللہ پھر کیسے ہوں؟  اپنا چہرہ ہی وجہ اللہ ہے. اپنی رویت آسان نہیں اس کے لیے کان کنی کرنی پڑتی ہے. پھر ہر سمت اس کا جلوہ ہوتا ہے. فثمہ وجہ اللہ. تب قبلہ بنتا ہے،  تب نماز قائم ہوتی ہے. یہ نماز ایسی ہے جس میں دل صامت ہوتا ہے،  اشجار ساجد ہوتے ہیں

اک ‏امکان ‏کے ‏پاس ‏مکان ‏

اک امکان کے پاس، مکان ہے اور مکان میں یاد کا امکان ہے ـ رمز اس کی جدا ہے، خوشبو سے جس کا لکھا جاچکا ورق ہے. یہ سرخ مکان جس کی سنہری دیواروں پر نیلی چادر نے اطراف سے سب رنگ غائب کردیے اور اک دیوانہ،  مستانہ چلا جارہا ہےـ اس مستانے کو ہوش نہیں تھی زمانہ کیا جانے اس کے گیتوں کو ـ وہ سازِ الوہیت میں مست تھا،  غائب کیا جانے حاضر کیا ـ یہ تخت،  یہ مسند،  یہ آئنہ جو اس کے لیے بنایا گیا،  سجایا گیا ـــ یہ وہی تھا جس کا وہ ہمراز تھا ـ اک پکار، اک چیخ تھی جب وہ مسند نشین ہوا ـ شاہی ملنے پر واویلا کرنا؟ کون جانے شاہ ہونے والے کو لازم،  شمع کو گُل کردے اور شمع پھر بھی روشن رہے ـ یہ گِل جس میں گُل کھلیں تو خوشبو تن من میں پھیل جاتی ہے  خوشبو بھی خالی نہیِ بلکہ ھو کی صدا ہے ـ یہ قاری جو اندر ہے وہ کہتا ہے لاتحرک بہ لسانک  اور جب اس قاری سے قرات کے اسرار کھلتے ہیں تو عقل دنگ ہو جاتی ہے ـ بلند بانگ دعوے؟  انسان کی مجال نہیں وہ دعوی کرے!  یہ تو کروایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر درود بھیجتا ہے،  درود ان پر بھیجا جاتا ہے جن کی نماز قائم ہو 

اے قائم ہونے والی نماز 
اے قیام کرنے والے شجر 
اے تسبیح کرنے والی رات 
اے گردش کرنے والی صبح 
اے تضاد والے چاند 
اے محورِ روشنی رات کے 

بتا کہ کائنات مجذوب ہے، کائنات تری یکتائ کی تسبیح پڑھ رہی ہے اور بندہ دوئی میں گم، تضاد میں گرفتار. اللہ کا نور، وہ چراغ جس کی لو نہ شرقی ہے نہ غربی کہ وہ تضادات سے پاک ہے اور ہم اس کے حضور پیش ہوتے ہیں تضاد لیے ـ ہماری دوئی کے نقش کب جھوٹے ہوں گے؟  ہمارے پالنہار نے ہمیں محبتوں میں سمو رکھا ہے اور فرماتا ہے" انما امرہ اذا ارادہ شئیا ان یقول لہ کن فیکون " انسان صاحب امر ہوجاتا ہے جب وہ صاحب کا ہوجاتا ہے ـ جو ازل سے اس کی مانگ ہو،  وہ اسکا ہو کے رہتا ہے ـ وہ لاتا ہے واپس اسکو اپنی رہ پر، چاہے پیار سے، چاہے ٹھوکر سے اور جب پیش حضور عالم غیاب سے کلام کرتا ہے تو کہا جاتا ہے بتا ترا کوئ نقش ہے؟  جس کے دل میں علم ہوتا ہے،  عرش کا پانی ہوتا ہے وہ کیا جواب دے؟  وہ ایسا صاحب حال ہو جاتا ہے جس کو خاموش کرا دیا جاتا ہے ـ درد میں آواز نکالنا نعرہ منصور جیسا ہوجاتا ہے اور سزا تو وہ اپنے محبین کو دیا کرتا ہے ـ قلم چلتا ہے قرطاس پر نور بکھر جاتا ہے ـ قلم کیا ہے؟  قرطاس کیا ہے؟  قلم اور قرطاس ایک ہیں؟  من و تو کا جھگڑا تو ہے نہیں ـ وہ رگ جان سے اتنا قریب ہے کہ سانس اس جاناں کے بنا لینا دشوار ہے مگر سانس کے کارن ہی ہم اس کو محسوس نہیں کر سکتے. وہ قلب سے مقلب القلوب کو حی قیوم کی کرسی دیتا ہے اور کہتا ہے یہ کرسی تری ہے ـکرسی پر بیٹھنے والا اگر گھبرا جائے تو فائدہ؟  اس نے تو کہا جا تجھے ستاری دی، جا تجھے شاہی دی،  جا تجھے محبت کے بیش بہا جواہر دیے ـ اب کرسی والے کو چاہیے وہ تقسیم کرے کہ کرسی والے،  کرسی کی مثال لیے ہوتے ہیں ـ یہی ہوتے ہیں جن پر حیات دوامی کا اصول نافذ ہو جاتا ہے ـ تکبیر پڑھنی ہوتی ہے " اللہ اکبر " جب تحفہ ملے تو سمجھ لو کہ تحفہ اک کو اک سے ملاتا ہے. وحدت کی شراب جاری ہو جائے تو میخانہ ہی پیمانہ اور پیمانہ ہی میخانہ بن جاتا ہے 
شہنائی والی اک صدا بہت دور سے سنی جارہی ہے اور دل رنگ والا ہے ـ رنگ نے رنگ والے کو غنی جانا ہے اور رنگ ایسا دیا کہ رنگ ہی رہا،  مل گئی ہستی اور اتر گئی خاک کی ملمع!  یہی شمع ہے یہی حق کی جاری قندیل ہے جس کے لیے کہا گیا ہے وہ طاق میں چراغ ہے. چراغ الوہی ہے اور راگ الوہی ہے ـ جب روشنی اور راگ مل جاتے ہیں تو فرشتہ حاضر ہو جاتا ہے اور کہا جاتا ہے " بتاؤ،  کس نے کس کو جانا؟  " بس کہا جاتا ہے اندر نے اندر سے صدا لگائی. جس نے پہچان کرائی. جس کو پہچان ہوئ. وہ دونوں اک ہی ہیں 

ماہ و سال کی گردش میں تضاد سے بندہ گھبرا گیا ہے اور وقت کو کہتا ہے رک جا ـ وقت رک جائے تو حم کا مقام آجاتا ہے ـ معراج مل جاتی ہے ـ معراج کا مقام صدیقیت ہے،  ولایت ہے،  عین علی کا فضل ہے،  عین علی رضی تعالی عنہ سے حسینی نور کی تمثیل ہے ـ پوری کائنات کا آئنہ اک ہے مگر منقسم پنجتن پاک میں ہے. مجذوب بیٹھا علی علی کہتا ہے ــ اخلاص تو یہ ہے جو کہا،  جس نے کہا وہی وہ ہوگیا ـ بات تو ساری اخلاص کی ہے. یہ حق موج ہے جو سینے میں پیوست ہے ـ یہ مرجع العلائق سے خلائق تک سپرد کی جانی والی وہ تلوار ہے جس نے دلوں کو چاک کرکے بس نظارہ ھو دیکھا یے

Saturday, November 14, 2020

بشیر و نذیر

 

بشیر و نذیر

قران کریم کلام اِلہی ہے، الہیات کا مجموعہ ہے. یہ الہیات زندہ شخصیات،  زندہ اشیاء، کونین کے نظام کی تنظیم کرنے والی شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے ...

سورة البقرة, آیات: ۱۱۹

إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْـَٔلُ عَنْ أَصْحَٰبِ ٱلْجَحِيمِ

(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی

یہ نشانیاں ہیں نوید کی اور ڈر و خوف کی .. ایمان حُبِ رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بنا مکمل نہیں ہے. جب ہمیں محبت کی بشارت ملتی ہے تو دل سرشار ہوجاتے ہیں، جب ہمیں ناراضگی سے خوف آتا ہے تو ڈر کے مارے دبک جاتے ہیں ...ہمارے رسولِ محتشم پاک مجمل منور محسن صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غصہ تو کیا نہیں تھا مگر جس دل کو نوید ملی اس نے ان کو دیکھ لیا اور جس کو نہ ملی وہ بو جہل ہوگیا. نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دیدار بنا ممکن نہیں کچھ. جس دل نے نعت کہی، جس دل نے درود پڑھا، جس دل نے نمی محسوس کی ان کے نام مبارک سے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو اس نے گویا ان کو پالیا کہ وہ ہمیں دیتے ہیں،  ان کا دینا دیدار ہے جبکہ ہمارا کچھ نہیں گیا نقصان!  اس نقصان کی قسم کھاتے اللہ نے فرمایا والعصر ... اللہ نے تو جگہ جگہ محبوب کی قسم کھائی ہے .
.درود کا ذکر ہو صبح و شام،  
رہو ان کی فکر میں صبح و شام 

سورة البقرة, آیات: ۱۵۴

وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَن يُقْتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتٌۢ بَلْ أَحْيَآءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے

 شہید زندہ ہوتا.ہے اور رہے گا تاابد تو انبیاء رتبے میں کئی گنہ زیادہ. انبیاء کی مثال "احسن التقویم " کی سی ہے کہ زمانے کی اکمل و کامل مثال وہ خدا کی شہادت دیتے ہیں کہ ان کے وجود عشق الہی میں شہید ہوچکے ہوتے ہیں .. اس لیے یہ دنیا و سماوات ان زندہ قائم مثالوں سے چل رہا ہے 

تو نورِ سماوی تو نور زمانی 
نبی سارے ترے نوری نشانی 
محمد میں تیری.ہے صورت مکمل 

جب سب کچھ یہیں اس دنیا میں ہے تو الہیات کا سلسلہ جاری و ساری ہے. ... 
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل