Monday, November 16, 2020

پریم ‏کتھا ‏

پریم کتھا لکھنے بیٹھو تو رام نیا بہنے لگے ـ رام نیا کو بہنے کے لیے پانی چاہیے اور عرش دل ہے دل میں پانی ہے ـ یہی ساری کہانی ہے ـ کہانی بہت پرانی ہے ـ یہ سمجھ میں آنی ہے جس نے کہنا اس کو پرانی ہے ـ بات پرانی یہی ہے کہ وہ فلک نشین ہے ـ فلک نشین کون کون ہے؟  اک تو ہے اور اک کے ساتھ جو فلک نشین ہیں وہ بے حجاب مظاہرہ کرتے ہیں الوہی الوہی روشنی کا ـ جب کائنات نے نور سے سمیٹا کچھ،  تو خاص روشنی تھی وہ مرقع زہرا رضی تعالی عنہ جن کے سبب کوثر جاری ہے. وراثت جاری ہے،  ولایت جاری ہے ـ یہ جو رنگ رنگ دکھتا ہے،  یہ رنگ اک ہے مگر منقسم پانچ میں ہے،  یہ پانچ منقسم ساتھ میں ہیں ـگویا پہلا فلک اک رنگ سے پانچ میں اور ان پانچ سے باقی پانچ افلاک تصویر میں آئے ـ وہ مصور جو میم سے تراش رہا تھا کنیوس پر،  تو میم کے رنگ دیکھ کے مسکراتا رہا ـ یہ جو شاہا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تبسم ہے یہ حقیقت میں وہ عکس ہے جس کو خدا نے قلم سے محصور کیا اور مسکرایا ـ یہی وسیلہ خدا تک پہنچنے کا ـ یہ جو گویائی ہے یا حق موج ہے جس نے سینہ تیر فگن کر رکھا ہے،  یہ تیر ایسا کہ بسمل وانگ لگن لگی اور ہارن لگی بازی میں.  سئیاں نوں میں کہیا کہ یہ جو شربتی حلاوت ہے روح میں،  یہ کیا ہے تو کہا " یہی تو مصوری ہے وہ جس پر وہ مسکرایا " آج تک وہ مسکراہٹ غیب سے حاضر میں وجود رکھتی ہے گویا جس جس کو اس مسکراہٹ کی پہچان ہو جائے وہ جان جائے کہ پہچان ہے یہ!  یہ پہچان جس نے محبت کو قرار دیا ہے اور وہ مقرر ہوگیا ہے، جس کے لیے کہا گہا ہے " عارفوں کی زمین آسمان ہے،  عارف ایسا ستارہ ہے جس کو کام چمکنا ہے،  جس کا کام سمت دینا ہے، جس کا کام گویائی سکھانا ہے،  جس نے فہم دینا ہے. العارفین عن الناس،  ھو العارف این ما کنتم! یہ جو کہا گیا ہے وہی ہوگیا ہے. نظر کی بات ہے، دلِ بینا سے دیکھو تو تم کو عارف ملے گا،  جب تم کو شناخت ہوگی تو علم ہوگا پانچ رنگ ہفت افلاک سے ہوتے عارفوں کا چہرہ بنے ہوئے ہیں. یہ درون کا چہرہ ہے،  یہ صورت گر جب صورتیں بناتا ہے تو کیمیا گری کرتا ہے ـ یہ فیض ہوتا ہے جو بانٹا جاتا ہے ـ دیا جو جاتا ہے تو دینے کے لیے دیا جاتا ہے،  تقسیم کرنا ہوتا ہے ورنہ فیض رک جاتا ہے اور سلسلہ رک جاتا ہے. خدا شاہد ہوتا ہے جو تقسیم کرتے ہیں،  اور پھر شہادت ہو جاتی ہے مومن کی،  ظاہر وہ ہو جاتا ہے جو باطن میں ہوتا ہے ـ شہادت کا کام شیروں کا ہوتا ہے ـ جان کی بازی لگانا آسان نہیں ہوتا بلکہ جان لگ جاتی ہے اور باز،  شہبازی کرتے فلک کے لامتناہی گوشوں میں جاتا کہتا ہے " منم محو جمال او " رقص یار میں گم پروانہ،  پروانہ نہ تھا بلکہ وہ تو یار تھا جو خیال کی صورت رقص میں تھا. وہ عین شہود تھا. یہ قران پاک کی تلاوت ہے ـ ذات ہماری قران ہے اور نسیان سے ملتا عرفان یے. یہ جو رات چھائی ہے جس کی مدھم مدھم روشنی مہک دے رہے ہیں ـیہ روشنی عین شاہد یے کہ وہ ہستی جس کے لیے کائنات بنائی گئی وہی سامنے ہے. وہ درود ـ جب کہ زبان گنگ ـ زبان گنگ میں کلام ـ کلام بھی کیا عرفان ـ عرفان بھی کیا یہ ایقان جس سے ملی ہے پہچان ـ پہچان بس نعت ہے. یہ وہ نعت ہے جو دیکھ دیکھ کے لکھی جاتی ہے،  جس میں نقش نقش کی ضو سے رنگ رنگ اترتا قلب کو چمکاتا ہے. یہ آشنائی بھی نصیب ہے گویا حبیب قریب ہے.