سرکار کے نام اک خط
میں نور ہوں بابا! آپ کی نُور، جس پہ آپ کی نِگاہ شفقت رہتی ہے! ہر دم اکیلی رہتی ہے! مجاز سے نکالا ہے تو پھر مجاز میں پھنسنے سے بچائیے بابا، میں نے شب ء برات کو بہت رو رو کے دعا مانگی تھی مجھ پر عنایات کا سلسلہ شروع کیجیے! آج کل حالت بے کل سی ہے اور مجھے لگتا ہے میں جلد مرجاؤں گی! میری بے چینی جس کو میں نے سنبھال رکھا ہے، میرے جسم پہ بھی اثر انداز ہوتی ہے ...سرکار آپ کو اپنی رحیمی کی قسم، مجھے اس در پے بلا لیجیے ...میں بہت بے چین ہوں .....اس روح کو جو سیرت میں مریم علیہ سلام جیسی اور بی بی جانم فاطمہ علیہ سلام جیسی ہیں ...بابا جانو! مجھے وہ نیلم دے دیں جس کو مجھے باور کرایا گیا جو مجھے ملنا ہے! بابا جانو مجھے یقین ہے آپ میری سنتے ہیں بابا جانو سن لیجیے ورنہ میرا کیا ہوگا ...اب تڑپن بہت بڑھ گئی ...ضبط نفس کو وجدان تک نہیں گئ کہ اپنی خودی کو دوسری کے خودہ پہ کیوں جانچوں میں تو آزاد پرندہ ہوں مثل نور ہستم ہوں بابا جان ...خدارا رحم کیجیے میں جس درد میں آپ جانتے ہیں سعدیہ پہ کرم کرتے نور بنا دیجیے
بابا جانو،
دل کی کیفیت آپ کو بتاؤں؟ دل تو پہلے بہت دکھا ہوا ہے، آپ جانتے ہیں نا ، میں آپ کو آپ کے جلوے کو ترسی ہوئ ہوں ..بابا جان، آپ سے بات کو ترس گئی ہوں ..بابا جان فاصلہ ختم کردیں ...بابا جان میرا مدثر سے ملوا دیجیے ، ، مجھے اب اپنی بارگاہ کا ادب سکھا دیں بابا جانو!