Thursday, November 19, 2020

خالص ‏ارواح

ٌدنیا میں سب سے اچھا جذبہ محبت کا ہے ، آسمان سے عطا تحفہِ محبت اوجِ بقا کی رفعتوں تک پہنچا دیتا ہے .عشق الہی عطا ہے اور اس  آگ میں کودنے کو حوصلہ ہر روح نہیں رکھتی ہے . رب باری تعالیٰ نے ارواح کا ''امر'' کرتے ان سے عہد لیا اور پوچھا ' کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟ تب سب نے یک سکت ہو کے کہا '' قالو بلی ''. خالق سے  بوقت عہد سبھی ارواح نے خالق کو رب مانا ہے . جب  روح کو مادی لباس دیا گیا تو اس نے اس لباس میں بےچینی محسوس کی . کسی نے بےچینی دور کرنے کے لیے دنیاوی تعیشات کا سہارا لیا تو کسی نے اس بے چینی کو حسن کی سنگت غم غلط کرنا چاہا تو کسی نے بنا کسی ملمع ، رنگ کے براہ راست خالق سے رجوع کرلیا .یہ وہ ارواح ہیں جو مادی لباس میں خدا کی تسبیح کرتے دنیا میں تشریف لائیں اور بنا کسی کھوٹ کا شکار ہوئے اسکی یاد میں زندگی گُزار دی .... جو روحیں خالق کے زیادہ قریب ہوتی ہیں ، وہی اس کو براہ راست محسوس کرتی ہیں اور اس پر یقین کرتی ہیں . ایسی ارواح اپنی اضطرابی کو دور نہیں کرپاتی ہیں اور زمانہ ان کے درد کو سنتا ہے اور سر دھنتا رہتا ہے .یہی ارواح اس کی حمد میں مصروف رہتی ہیں ...ہجر ت کا غم ، وصال سے دور کیا جاسکتا ہے اور ان کی زندگی وصال کی لذت حاصل کرنے میں الجھ ہوجاتی ہے

کائنات کی ہر شے ادھوری ہے ، یعنی ہر شے خام ہے . کوئی ذات خود میں کامل نہیں سوا اللہ کے . درخت ، سورج ، مٹی ، پانی ، ہوا کے دم سے زندہ ہیں جبکہ جانور ان درختوں کے بل ہوتے پر..... بادل ، پانی اور ہوا پر منحصر تو  تمام اجسام سورج پر انحصار کرتے ہیں ...... دنیا میں اپنی پہچان  اپنی ضد سے ہوتی ہے . زمین کی پہچان آسمان سے ہوتی ہے جبکہ  پانی کی پہچان ہوا ، مٹی سے ہے . روشنی کی ضد اندھیرا ، عورت کی مرد ، زندہ کی مردوں ہے . انسان اپنی پہچان خالق سے کرتا ہے

وہ لا محدود ہے ، انسان محدود

وہ بے نیاز ہے ، انسان نیاز مند ،

وہ نیند سے ماورا، انسان نیند کا محتاج

وہ کھانا کھلاتا ہے ، انسان کھاتا ہے

وہ تقدیر کا مالک ، تدبیر تقدیر کی محتاج

وہ خالق ہے ، انسان مخلوق

وہ روشنی ہے ، انسان روشنی کی حاجت رکھتا ہے

وہ عطا کرتا ہے ، انسان لیتا ہے

وہ کُل  ، انسان جزو

وہ مالک ، انسان غلام ........

انسان مظاہر سے درک لیتے خالق کی ذات کا درک پالیتا ہے ، اسی اضداد کے علم سے خالق کو جان لیتا ہے ....اس کی پہچان ، اس کو اکیلا ماننے میں ہیں ......انسان جزو ہے اور اس پر انحصار کرتا ہے . جزو  کی تکمیل کل سے ہوتی ہے ...کل کو کسی کی احتیاج نہیں ہے. کائنات کی ابتدا خیال سے ہوئی ہے اور دنیا میں سب کچھ ''خیال '' ہے . روح بھی ''خیال'' ہے ....خیال کو اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ''اصل'' کو کسی کی ضرورت نہیں ہے.سورہ الاخلاص میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

قل ھو اللہ احد

اللہ الصمد

لم یلد ولم یو لد

لم یکن اللہ کفو احد

اللہ اکیلا ہے ، بے نیاز ہے ،  وہ  نہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا ،کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے .........

اللہ اکیلا ہے ، بے نیاز ہے .....انسان اکیلا نہیں ہے ، اس کو اپنی پہچان ''اصل '' سے کرنی ہے . انسان بے نیاز نہیں ، وہ ہر وقت کائنات کے معمار کا محتاج ہے ... انسان اس کی ''کن '' پر امر ہوا ہے ... جب تک تکمیلِ ذات نہیں ہوپائے ، ہجرت کا غم کھاجاتا ہے ..جیسے ہی اس کا ربط ''اصل'' ذات یعنی خالق سے ہوجاتا ہے ، وصل کی لذت سے روح آشنا ہوجاتی ہے ..... وصل کے بعد روح اس کی وحدانیت کا اقرار کرتی ہے اور اس کو وحدہ مانتی ہے ........... تضاد ، تفریق ایک اثاثہ ہےجس سے محبت کی پیداوار خالق سے ربط اور نفرت کی پیداوار خالق سے دوری کی مظہر ہے ......جو روحین محبت بانٹتی نظر آئیں ، ان کو اے دل ! چوم لے ! ایسی ارواح بہت کم و قلیل ہوتی ہیں ......جہاں جہاں پائیں جائیں ، محبت کا درس دیں گی ، خالق کی طرح بے نیاز دکھیں گی ......