Thursday, November 19, 2020

عشق ‏کی ‏الف ‏میں ‏کیا ‏کیا ‏ہے

جوگ پالنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے رانجھے کو ڈھونڈنا پڑتا ہے ، رانجھا مل جائے تو اُس کے لیے رانجھا ہونا پڑتا ہے ۔خاک چھانیے یا دربدر پھریے ! نگر نگر بھٹکیے ، اُس کو مظاہر میں ڈھونڈیے ۔۔۔۔ ہر مظہر کے باطن میں جھانکیے ، گویائی نا ہونے کے باوجود ہرشے  اس سے باتوں میں مصروف ہوں ۔ درخت کی لکڑی زمین کی نیچے بھی اتنی ہے ،جتنی زمین کے اوپر ہے ، سورج اور زمین کی کشش میں درخت برابر قوت سے نمو کرتا ہے ۔رانجھا ڈھونڈیے ! اندر کی مٹی ، باہر کی مٹی سے ربط کیجے ! کسی کو باہر کی مٹی سے مل جاتا تو کسی  کو اندر مٹی سے! کشش دونوں جانب متوازن ہو تو محبت کے دَرخت پر عشق کی بیلیں پھوٹتی ہیں ، سچائی کی تلاش میں ،سچ کا کڑوا گھوانٹ ، دھیمی آنچ پر پکنا چاہیے ! دھیمی لوُ پر چلتی ہانڈی کا ذائقہ بڑے سواد کا ہوتا ہے ، تن کی ہانڈی میں جذبات کی آگ کی دھیمی آگ سے ، عشق کے اظہاریے  کو اُبھاریں یا ابھریں تو ایک مصور کی ذات بذات خود تصویر ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔جب تصویر کی روشنی ملے تو جانیے کہ وصل ہوگیا !

وصل گوکہ لطف و کیف کی سرشاری عطا کرتا ہے مگر عُشاق کے لیے ہر قدم سلگنا ، ہر قدم امتحان بن جاتا ہے ۔ گومگو کی کیفیت عشق میں کبھی پیدا نہیں ہوتی ہے اس لیے عاشق کے قدم آہستہ آہستہ بُلندی کی جانب اٹھتے ہیں ! جب اٹھتے ہیں تو تھمتے نہیں !جب تار ہلایا جاتا ہے تو درد سے راگ چھڑ جاتا ہے ، عاشق کی ذات بھی ایک ساز کی مانند ہوتی ہے ، عشق سرمدی نغمہ ، سُر جس کو دینے والی ذات صاحبِ امر ٹھہری ! وہ چاہے تو قربان کردے ، وہ چاہے تو قربانی لے ! وہ چاہے تو وصل دے ! وہ چاہے تو ہجر سے کبھی نکالے ہی نا ! وہ چاہے تو بس ایک ''کُن '' کی محتاج ساعت اپنی منزل کی جانب روانہ ہوجاتی ہے ۔ عشق  اکی پہلی منزل عبادت ہے مگر  ایسی عبادت جس کا ظاہر نہیں ! ایسی جو دکھتی نہیں ہے ! ایسی جس سے خلق کو فائدہ ملتا ہے ! ایسی جس سے انسان پھر سے جی اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں عاشق عابد بہت کم ہیں ! دنیا میں معلم عالم بہت کم ہیں ، دنیا زاہد و عابد اور مبلغ عالم سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔ عشق کے سوت تو باطنی ہیں ، اس لیے عبادت عشق کا ظاہر وہی دیکھ سکتے ہیں جو عشق میں ہیں

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اس عبادت سے فائدہ کیا جس سے مخلوق کو فائدہ نہیں ملے۔ ہمیں سُنانے والے منبر پر بیٹھ کے اچھی باتیں سناتے ہیں ، وہ بھلائی میں مصروف ہے کیونکہ دل پھر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ نے اسی ایک رات کے سیکھے کو آگے پھیلایا تو آپ کامیاب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بندہ بھی جس نے اچھا سبق دیا مگر آپ پھیلا نہیں سکے اور اصرار پر رہے تو جان لیجئے کہ آپ کے استاد کی بات کی تاثیر کھوچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔بات میں تاثیر ہو تو لفظ ''الف'' ایسی ضرب لگاتا ہے کہ ''ب '' کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اور الف ۔ ب کا علم نہیں تو ''م ، د '' کا علم کیسے لو گے ، اگر تم نے علم نہیں حاصل کیا تو مجھے پہچانو گے کیسے ؟ اگر پہچانو گے نہیں تو میری طرف کیا خالی لوٹو گے ؟ اُس نے امت محمد صلی علیہ والہ وسلم کی امت میں عشق کو مرشد بنا دیا ہے ، عشق مرشد تو ہست نابود ، عشق مرشد تو مستی کا جمود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں لباس کی طرف توجہ دیتے ہو ، اس کو صاف کرتے ہو مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ لباس تو خود تمھارے جسم کا محتاج ہے ، اگر تمھیں جسم کی صفائی مقصود نہیں تو شریعت کا لباس فائدہ دینے کے بجائے ،دین کو خشک کردے گی ، جب لباس معطر نہیں ہو ، اس کی خوشبو بدبُو کھینچ لے تو باقی پہننے والی قُبا بھی بدبودار ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔آج کے دور میں منافع پرستوں نے دین کو کاروبار بناتے ، دین اسلامی کی قُبا کو میلا ، بد بو دار کردیا ہے ۔۔۔

خدشہ بیٹھا ہے دل میں .. جو مجھے خوفزدہ کر رہا ہے کہ اگر الف کا علم حاصل نہیں کیا تو اس کی طرف لوٹو گی کیسے؟ اگر لوٹ گئ تو دنیا میں جس مقصد کے لیے وہی فوت ہوگئ ..کیا انسان مقصد کے فوت ہونے کے بعد زندہ رہتا ہے؟ اررے جب حق دل میں سما جآئے تو کسی کی اور ضرورت نہیں رہتی ..یہی الف کا علم.ہے ....یہی عشق کی ابتدا ہے؟ اسی الف سے آدم کو ملی بقا ہے ...الف کو جانو گو تو جو عیاں وہ کتنا نہاں ہے ..وہ جو ظاہر ہے اس "الف " کا پردہ " ب " ہے .... تب رانجھا رانجھا کہتے بندی خود ہی رانجھا بن جاتی یے تب شیرین کا آئنہ فرہاد اور فرہاد کا آئنہ.شیریں ...کیا فرق باقی؟ نہیں نا جب دو پرتیں کھلتی ہے تو محمد صلی علیہ والہ وسلم کی حقیقت کھلتی ہے .... حقائق کب کہاں کسی پہ عیاں ہوتے ہیں؟ حقائق انسان کے دل میں ہیں ان کو دریافت کرنا پڑتا ہے .....روح کو ظاہر کیسے سبق دے گا؟ مٹی کے پوست کو مٹی سبق دے سکتی ہے مگر روح کا علم روح سے مشروط ہے ...کون جانے گا اس کو؟ حق تو دل میں ہے؟ حق کے کلمہ نے خون کو رواں کیا ہے! ہمارا عہد، قالو بلی کا، ہمارا لاشعور چلا رہا ہے ...ہم فطرتا نیک ہیں ..جب فطرت نہیں تلاش کریں گے تو جھگڑیں گے، قیل و قال میں پڑیں گے نا!!

''الف'' کا الٹ ''ب'' اور ''ب ''سے نکلی'' پ ،ت'' ۔۔۔۔۔۔۔۔ الف ہمارا قیام ہے ، حالت نماز میں قیام کی حالت ہمارا عشق ہے اور رکوع کی حالت میں '' حمد ' کی بات نکلتی ہے ، ہمارا سجدہ ہمارے ''مرکز '' سے ''محبت '' کی گواہی ہے ۔مرکز سے محبت کی گواہی کے بعد حالت تشہد اس کی فنا میں غرق ہوکے گواہی دینے کا نام  ہے ۔ نماز عشق کبھی کسی نے اد ا کی ہے ؟ چُنیدہ لوگ ایسی نماز پڑھتے ہیں ، چُنیدہ لوگ حج کی '' فنا'' میں لوٹنے کے بعد ''بقا'' کو پاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ رحمتِ خاص ہے جس کے بار ے میں پروردگار عالم نے فرمایا ہے

هل جزاء الإحسان إلا الإحسان..

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے ؟ اس نے تم پر کرم کیا تم اس کے بندوں کے لیے رحمت ہوجاؤ ۔۔۔۔۔۔۔رحمن و رحیم کا یہ مفہوم ہمیں قران پاک کی ہر سورہ میں ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔ذات اُحد نے اپنے بندوں کے لیے رحمت عام کردی اور کچھ پر اس کی عنایت خاص ہوئی ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی  خاص رحمت  سیدنا  حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم  پر کی اور ان کو تمام زمانے کے لیے رحمت العالمین بنا دیا  ۔ احسان کے بدلہ دیتے فرماتا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔۔۔اس کی رحیمی و رحمانی بذاتِ خود  نعمتیں ہیں