Tuesday, November 17, 2020

آیات ‏بی ‏بی ‏فاطمہ ‏رض ‏ــ ‏پارٹ ‏۳ ‏

آیاتِ بی بی فاطمہ سلام علیہ پارٹ ۳ 

آیاتِ سیدہ.فاطمہ 
تحریر نمبر ۳
اجمال کی تفصیل کیا ہے ہم کیا جانیں گے ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ مصحفِ حُسینی، روحِ ابراہیمی میں ظاہر ہوگیا ـ آگ گلنار ہوئی اور قربانی کا وقت مقرر ہوا. 

یہی.وہ نعمت ہے جس کے لیے اللہ نے فرمایا 

"الیوم اکملت ..."

وہ وجود(نور) مکمل ہوگیا وہ مصوری جس کے لیے المصور نے دنیا.بنائی  ...وجود، مصوری،  سب مکمل ہوا،  قلم حسن کے شاہکار پہ توڑ دیا گیا کہ اس سے بہتر نقاش گر نے کیا بنانا تھا

تمام انبیاء کا نور مکمل ہوکے  مقدس نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے   سیدہ فاطمہ رضی تعالی عنہا کی روح میں منتقل ہوا،  تو اللہ نے فرمایا 

انا اعطینک الکوثر،

سیدہ.طاہرہ عالیہ زاہدہ مرضیہ، راضیہ، مطہرہ،  عارفہ  بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ کو پہچاننے والے، خود کی پہچان کرگئے،   یوں امِ ابیھا بی بی فاطمہ(سلام و درود ان پر)  سے رکھنے والے کشتی پار کرگئے

قسم کھائی خالق نے  اس کعبے کی جس کو تخلیق کیا گیا،  قسم  کھائی  اس حُسن کی جو  ظہور آدم سے نمود ہوتے،  یوحنا علیہ سلام  سے جوزف علیہ سلام  سے،  محمد  صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں پہنچا،  ساری کائنات نے محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سینے(قلب /نور)  کا طواف کیا،  اس لیے پتھرمسجود ہوگئے،  کلمہ پڑھنے لگے، اس لیے چاند شق ہوگیا،  اس لیے مکڑی نے غار ثور میں جالا بُن دیا،  اس لیے جب بوقت ہجرت مٹی پھینکی گئی تو کفار اندھے ہوگئے ... اس لیے احساس کی رم جھم دلوں پہ پڑنے لگی،  اسی وجہ سے شجر جھک جھک کے باد کو سلام کرتے ہیں کہ باد بھی سیدہ بی بی  فاطمہ علیہ کو  سلام کرکے آتی ہے

  بی بی مریم علیہ سلام ہوں ،  آسیہ بی بی ہوں،  یا ام عائشہ رضی تعالی عنہ ہوں ... یہ  سب سلاسل نور کے مرکوز ہائے رنگ پیرہن سیدہ پاک بی بی  میں مجتمع ہوئے ...   جب امام  حسین  عالی مقام نے نوکِ سناں سجدہ کیا،تو خدا  چاہتا تو نار ابراہیمی جیسے گلنار ہوئی،  اس طرح یہ مقتل گاہ  نہ سجتی نہ نوک سناں پر سجدہ ،  یہ نہ ہوتا  تو جنون کی  سب پردہ دری کرتے رہتے... 

اسی نے "خضر" کا رستہ اختیار کرلیا،  گویا "موسی "خود میں خضر ہو گیا،  

اے خضر راہ،  بتا تو سہی کہ انجیل مقدس کے راستے کون سے ہیں 
اے خضر راہ بتا، نمود جلال سے ظہور جمال کی پہنچ 
اے خضر راہ بتا،  درد کی منتہی پہ کیا رکھا ہے 

وہی فضل ہے جو سیدہ بی بی مریم علیہ سلام کے دل میں اترا،  انجیل  مقدس دل میں اترتی ہے،  یوحنا کی تعظیم اترتی ہے،  کعبے میں جگہ مل جاتی ہے 

حیا کی مٹی سے جب تخلیق کیا گیا تو سب سے پہلے اس خاص مٹی سے  سیدہ پاک دامن بی بی فاطمہ رضی تعالی عنہ کو تخلیق کیا گیا، باقی کا باڑہ اسی نور سے بنٹا،  بنٹتا رہا 

اسم نور علی النور کی کہانی ہے 

یا ایھا النفس المطمئنہ کا بیان ہے،  اسی آیت کے لیے آیت خاص کو ملحم کیا گیا،  آیت خاص وجدان کی سطح پہ اترتی ہے،  نسلیں تب قبائے ہاشمی پہن لیتی ہیں،  جہاں جہاں نور بکھرتا ہے،  اجالا ہوتا جاتا ہے،  درد کی بھی تھیں قسمیں،  اک درد قربانی کا،  اک درد نفس کا،  اک درد تڑپ کا تھا،  اک درد احساس کا تھا،  اک درد پیار سے نکلا خاص تھا،  یہ درد تمام رنگ اسی نسل میں،  اہل بیت، پنجتن پاک میں اتار دئیے گئے ہیں،  آیت خاص  سورہ الکوثر کے علاوہ کیا ہے!  یہ وہ مثل آب ہے،  جس نے اسکو پالیاتو گو یا خضر راہ سے کلیمی پالی

حُسینی نور کو کمال کی بلندی حاصل ہے،  شرح صدر سے شرح نفس تک کی بات ہے، جب خدا نے کہا اک جسم میں دو دل نہیں ہوتے،  تو آزمائے گئے تھے مومن   یہاں تک کہ ان کے دل حلق تک خشک ہوگئے،  اس خوف میں اک استقلال رکھا.گیا تھا،  یہی استقلال ہے جو حسین  علیہ سلام کو دیا گیا،  حسین  رضی تعالی عنہ  اس نور استقلال سے معبد بدن میں تھے، مستحکم شجر! 

ابن علی کو  علم خاص عطا کیا تھا،  جب  "اقرا " کے حرف ابتدا سے سکھایا گیا تھا قران، نفس نے خود پڑھا آپ اپنا، شناخت کی تھی 
..جب احساس نے قلم سے رشتہ نہیں پکڑا تھا،  جب کُن کا خیال وجود میں آیا تھا،  اس خیال میں تپش ِحسن سے خیال عین ظہور ہوا ...حسین علیہ سلام نام تھا اس خیال کا،  یہی نام حسین علیہ سلام  فلک سے فرش تک اترا تھا

کمال تھا کہ شان بے نیازی کا دوشالا ہم نے عطا کیا تھا،   جب  امام حسین نے کربل کے میدان میں قدم رکھا ........ تو قسم خدائ کی،  قسم الہیات کی،  قسم ہے قلم کی،  قسم نور وجود کی جو سینوں میں اتارا گیا، امام حسین رض  نے پیٹھ نہ پھیری،   درد کو سینے پہ سہا،  درد روحی تھا ... درد جسمی تھا .... درد کی تمام قسمیں امام  حسین  رض کو دیں گئیں  ..قسم اس ذات کی، امام  حسین رض  نے تخلیقِ  ناز ہونے کا حق نبھایا ہے ....،

امام حسین رض کو کمال خاص عطا ہوا تھا،  اس کائنات میں امام علی  حیدر  رض کو جو شجاعت عطا ہوئ ہے،  اس شجاعت کا کمال امام حسین رض نے پالیا تھا،  کمال رفعت کو پہنچا تھا سلسلہ ہائے مولائے علی کے تار حریم سے  سیدہ پاک بی بی  فاطمہ سے حسین رض کو،  تو شجاعت نے کمال کی پگڑی پہنی تھی کربل میں...

امام حسین کو  چرند پرند، تلوار دستار،  پہاڑ سب سے بات کرنے کی دسترس دی،  جو نطق گویائی حضرت  داؤد و سلیمان علیہ سلام  کو ملی،  اس گویائی، ناطق ہونے  کی انتہا  امام حسین  رض کو ملی،  یہ نطق  جس کا سلسلہ سیدہ پاک بی بی فاطمہ کی نسبت سے چلا ...بلاشک یہ علم لدنی یے،  یہ اللہ کی عطا ہے 

جب درد قسم قسم کے ملنے لگے تو جان لو کہ درد تحفہ ء ایزدی ہے، جان لو تحفہ حسینی ودیعت کردیا گیا،  جان لو شام حنا کے وقت تعین میں نسل.قربانی تک تمام احیاء العلوم  میں حسین رض ہے

یہ جو جمال ہے جس کو تم دیکھو، جو غور کرو جب فلک کی نیلاہٹ پاؤ، جب چاند کو ہمہ وقت رات کے حسن میں تلاشو، جب پتوں کی سراسراہٹیں اک پیغام دو جو جان لو یہ نور حسن رض  ہے ..نور حسن  رض کو نور حیات سے مخلق کیا گیا،  نور حیات آئیتہ الکرسی ہے، یہ کرسی حسنین کریمین میں قرار پکڑے ہوئے ہے،  آیت سردار،  سرداروں میں ترتیل ہوتی ہے،  تب ہی علم عمل میں ڈھلتا ہے تو جان لو حسن رض  کو علم میں کمال حاصل تھا

یہی کوثر ہے،  یہی حوض کوثر کا آب ہے ..چشمہ ء آب  اس کے  عرش کا پانی ہے،  عرش کا پانی باب حلم سے باب عفو تک جانے والوں کو یہی ملتا ہے،  قدسیوں سے پوچھو حیرتِ  حُسن  نے کیا کام کیا ہے،

امام حسن  رضی کی.شہ رگ میں نسبی کلمہ شجر زیتون کی مانند تھی،  نور ایسا تھا اس شجر سے چار سو پھیلا ہوا رہاہے ..والتین والزیتون  ...احسن التقویم کی مثال ہیں امامِ  حسن رض ہیں،   امامِ حسن رض  میں حَسن با کمال ہیں ...چمنِ  حسن رض  سے خوشہ ہائے گلابی عطر پھیلے، نبی کی سیرت جو چار سو پھیلی ہے،  یہ جو بارش رحمت کی برسے،  یہ ہوا جو چلے،  یہ کمال حیرت میں پہاڑ حیرت میں گم رینے لگتے ہیں