Sunday, November 22, 2020

درد سے ہلالِ نو کی تخلیق

 درد سے ہلالِ نو کی تخلیق

حسن سے گل رو کی تخلیق

صاحبو! دل تھام کے رکھو. تھام کے دل دھک دھک کی صدا میں یارِ من کی پُکار سُنو! حسرت ہے یارِ من کی سنی نَہیں. خلوت جلوت میں یار من نے سنایا اک قصہ. اک درویش روٹی کھا کے اللہ اللہ کی ضرب لگاتا ۔۔۔ اللہ اللہ جاری ہوا کھانے سے ۔۔۔ درویش نے پوچھا ۔۔۔ مرے پیٹ میں پُکار کیسی
اس نے کہا
لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین
درویش نے کہا: تجھے خدا نے محفوظ رکھا تو آہ و بکا کیسی؟

جوابا وہ گویا ہوئی ۔۔۔ وادی ء من کے سیپ جب خیال میں ڈھلیں تو آنکھ حیرت زدہ، دل پگھل جائے. اگر میں محفوظ رہی تو تری معرفت مجھے جلا دے گی ... تب و تاب کو سہنے کا حوصلہ تو پہاڑ میں نہیں ... اسکے بعد درویش نے روٹی کو خود سے الگ کرلیا اور یکسو ہو کے متوجہ ہوگیا ...توجہ کے بعد نہ خرد رہی نہ جنون رہا ۔۔۔ نہ فراق کا نوحہ ۔۔۔۔۔ نہ وصال کا قصیدہ ..اک موسم چھا گیا
الحی القیوم
لا تاخذہ سنتہ ولا نوم
بس مرگیا ۔۔۔ وہ مرا نہیں تھا

دردِ زہ کے بعد تخلیق ۔۔۔ یہ میرے حرفِ نو ۔۔۔ جن کے خمیر میں تری چاہت کے رنگ
مرے کوزہ گر!
تو کَہاں ہے؟
میں نے ویسے زمین کو درد دیا، جیسا پاؤں سے بہتا لَہو عیاں ہے
دردِ زہ!
تخلیق!
اک منجمد پانی سے نئی روشنی
اک برق سے نئے اشجار
اشجار سے برقِ نو
درد زہ!
پتھر صم عم بکم
درد زہ!
وجلت قلوبھم کی مثالیں کھالیں نرم
دردِ زہ!
شر البریہ سے شیطان ۔۔
خیر البریہ سے انسان ۔۔۔
درد کے چہرے میں رحمان
تخلیق کا رنگ صبغتہ اللہ
سنو چارہ گر
اک بار ملو
حرف سے بات کرو
لفظوں کی سازش پکڑو
سانس کی مالا میں روشنی ہے
حریص ہو جاؤ ایسی مثال
رحمت کے لیے حریص
کرم کے لیے، فضل کے لیے

درد زہ!
زمین ہلا دی گئی
نکل رہا زمین سے شر و خیر کا تناسب ...نکل رہا ہے،نکل رہا ہے ...

ستارے سے ملو!
روشنی ہو گی
آبشار کے طریق بہے گا وہ لافانی چشمہ ..جس میں پربت والجبال اوتاد سے والجبال نسفت کی مثال ہوں گے
تری کیا مثال ہوگی!
ماں صنف سے بے نیاز رہی ۔۔۔۔
ماں بے نیاز یے ۔۔۔
ماں لا محیط یے
تخلیق سے نیلگوں مادہ وجود!
اے عینِ ظہور بتا!
درد کتنا سہا؟
بتا ترے آنگن کے سیپ کس کو ملیں
ملن واجب ...ملن واجب ...ملن واجب

.لاشریک لہ ۔۔ خود کی نفی ... جہل کی نفی ...علم میں اضافہ ہوگا ۔۔ تسلیم کا اثبات

فقیر مرد حرم

 جب انسانی ہستی قرب کی متمنی ہو اور خواہش کی لگام بے زور ہوگئی تو وجہِ شوق کچھ بھی باقی نہیں رہتا ہے.



کھو جائیں گے کیا؟ بحر ہو جائیں کیا؟ہستی کھوئی ہے ، زندگی سوئی ہے! آدمیت سے ناطہ کچا دھاگا ہے اور ٹوٹ جاتا ہے. ایک یاد ہےجو سنبھال لیتی ہے ورنہ کیا بے سکونی کی لہروں کا تموج! یہی جینے کا کمال ہے . ہمنشین، دیکھ رنگ میرا، ڈھنگ میرا، چال میری، حال میرا


نور سے ملنا، کیا سعادت ہے! نور سے ملنا ہے بس اسلیے زندہ ہیں، زندہ ہیں کب کے مرگئے ہیں آرزو میں، آرزوئے ہستی سے بکھر رہے ہیں سندیسے، جہاں چلے وہیں پر رکے اور وا لبوں سے ادا ہوا ...

تم سے لذت وصال، میں حیرت وصال
تم دودِ ہستی ہو، میں ہوں شوقِ کمال
یہ آرزو کی کتاب، دل کفن مانند گلاب
یہ سحاب آرزو ہے، باردگر برسنا چاہے گا
یہ دل کی زمین ہے، ترے ابر کی منتظر
میری ہستی میں خوشبوئے لعل و زر ہے
میں مانند کافور جلتی شمع کا دھواں
میں رزم گاہ کا ترانہ، جذبات سے نڈھال

اسی شوق میں اجنبی سرزمین سے تعلق رکھنے والے مل جاتے ہیں ..اور پکار ابھر آتی ہے، لفظوں کے بھیس میں نمودار ہوتی ہے اور حقیقت آشکار ہوجاتی ہے

فقیر مرد حرم سے مری ملاقات ہوئی، یوں ہوئی کہ بیشتر سر ِ مناجات میں کھوئی ہوئی تھی روح ضربوں میں ...، مضراب ہستی اول، عشق کی لو پیش پیش ، میں خواہش شوق نور، تو خواہش شوق حضور، ترا دل حجابات سے ماورا، مرا دل حجابات کی زمین، تو شوق قدیم ہے، میں رستگان رفعت مشعل، میں طفل مکتب، تو مشعلِ نور .. تری حقیقت کامل کیا ہے؟ یہ جاننا ہے کہ جانتے ہیں!


اے نورِ ازل، تو روحِ رواں، تو سالارِ قافلہ ، میں ترے حلقہ عشق کا وہ روشن دیا، نہیں جس کے ساتھ سے مفر شب نور کو، دائم تیرا سفر، قائم ترا وصال، تری باکمال ہستی، مری نیم شبی..... تو پیش حق ہے میں شوق منظر، ترا عشق ازل ہے تو حق ابد ہے ، تو جلتا دیا ہے چراغ الوہی ہے،تو معبود حق کی آیتوں کی خاص آیت،تو حق کا تراشیدہ قلم، سخن ور تو، پیامبر تو.....!
میں خاک! تو خاک میں سجی افلاک کی شمع

سنو!
یہ مشعلِ میم! یہ سرمہ ء وجدانی، طوفان روپ بدل بدل کے آتے نہیں ... طوفان ہجرت کے، تیر جدائی کے ... سہارا ہے مشعلِ میم ...

سن شعر گو!
حکایات بہت ہیں! اضطراب کم ہے
داستان سن! دھمال کے ساتھ!
اب مرا عشق ضربوں سے آگے ہے
مجھے کہنے کو اک ھو کافی ہے
میرا عشق مگر سرمدی ہے

حریمِ اول سے حریمِ دوامت لے لیں، کچھ اور قدامت کا نور لے لیں. کچھ حکایات سے منور سینہ کرلیں. کچھ تو روشنی لے لیں. خواہش یہ رہی کہ شعور شعور نہ رہے، لاشعور لاشعور نہ رہے. روحی ہو، صبوحی ہو، شبنم ہو! رفعت ہو. پیش حق لکھوں ایسے کہ وہ مسکرائے! بس اجازت خامہِ سخن درکار ہے. دل تو کب سے فگار ہے آنکھ بھی اشکبار ہے.

گگن کب سے لال ہے، سایہ افگن محبوب کے بال ہیں، وہ محبوب جن کے میم سے تراشا گیا زمن در زمن وقت کو، وہ محبوب جن کی میم سے زمانہ شناسا ہے.......

نعت

 ہِ دو جَہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہی ہے ۔ ان کے ملیح چہرے کو ہوا نے جب تکا تو صبا کہلائی جانے لگی ۔ صبا نے جب چھُوا تو خوشبوئے گُلاب بن گئی ۔ گُلاب تو خالی کاغذ تھا اور جب کاغذ کو خوشبو نے چھوا، وہ لطافت کا حامل ہوتا گیا اور جب چھونے والے نے چھُوا، اس کا لگا گلاب ہی اصل شے ہے اور وہ مرکز تک پہنچ نہ پایا ۔ دکھ کی بات ہے سامنے والا دکھ جاتا ہے اور اندر دفینہ ء دل کیا، یہ دیکھا نَہیں جاتا ۔ ان کی مہک کی جاودانی ہے کہ دل میں ان کی کہانی ہے، یہ دل بڑا داستانی ہے اور کہنے والے نے کہاں سنانی ہے کہ بات بھی پُرانی ہے ۔ یہ پرانی بات نئی ہوکے چل کے کسی کسی بشر کے پاس آجاتی، کسی نے کہا ان کو دیکھا اور پھر ان کو دیکھنے والے نے جہاں کو دیکھا ۔ جدھر جدھر دیکھا وہی نظارہ مکمل ہوا ۔ کسی نے کہا اللہ مگر جس نے سنا تو اس نے کہا یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پائے مبارک کو مٹی نے ادب سے چھوا تو وہ صحرا سے گلستان بن گئی ۔ شاہ کے جلوے سے مٹی کو زینت دے دی گئی اور مٹی نے فخر سے نقش نقش دل میں اتار کے کہا "یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔ آپ سا کہاں؟ کہاں آپ سا؟ کہاں آپ سا؟

Saturday, November 21, 2020

لم یاتی نظیر .... کون ثانی ہےتمھارا؟

 

لم یاتی نظیر .... کون ثانی  ہےتمھارا؟

اس بات کو ماننے میں حرج کہاں مگر اے نور لطیف!
جو کثافتیں دھو ڈالے
دلوں میں الوہیت کے چراغ روشن کرے.
اے لاثانی!
وہ آسمان پر ....!
اور نور لطیف زمیں پر ...
تم سے کتنے آئینے نکلے
تمھارے آئینے سے نکلا "نور " اور آسمانی "نور " ایک جیسا ہے. اس سلسلے میں مرکز "تم " اور مرشد بھی تم اور قبلہ نما بھی تم، میرا قطب نما بھی تم.میرے دل کی دھڑکن سے پیدا ہونے والی آواز بھی تم ہو اور موت کی آخری ساعت کا انتظار بھی تم ہو ۔اس کےباوجود ۔۔۔اے دو جہانوں کے سردار !
اے ذی وقار !
اے آئینہ دو جہاں
اے شیش نگر ۔۔۔ محل بنانے والے میرے زباں پر اک سوال آیا ہے ۔ ہمت کرکے محفل مقدس میں پوچھنا چاہتی ہوں ۔ مجھے امید ہے لاچار کی آواز پر اعتراض نہ ہوگا۔ ایک گناہ گار ہوں ۔ کہے دنیا سیاہ کار ہوں

ایک سوال کرنا ہے؟

''کرو، شوق سے کرو، اجازت ہے.۔۔۔۔۔!!!
میں کسی آئینے میں "یہ " عکس پاتی. میرا شوق بڑھتا ہے کہ میں تمھارا آئینہ ہوتی اور ہر سو مجھ میں "یہ " دیکھتی. مگر میں ہوتی تو۔......؟ مجھے آئینہ ہونے کی خواہش ہے.میرے پاس وضو کے لیے پانی نہیں، بنجر زمین ہے، ہرہالی کا نام و نشان نہیں ہے۔

""یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تم میں چھپا ہے۔.ہر روح آئینہ ہے جس کا وعدہ "قالو بلیٰ " کی صورت میں ملا. اس عہد کی ہر ذی نفس کو ضرورت کو تجدید کی ضرورت ہے کیا ہر بچہ دین فطرت پر پیدا نہیں کیا گیا ۔ ؟ جب تم من میں جھانکتے نہیں تو سوال تو اٹھیں گے. خود کے سمندر میں ڈوب کر دیکھو.من میں غوطہ زن ہو کر غوطہ خور بن جاؤ اور اس گیان کے ساتھ جہاں کی دید کرو ۔ سارے سوالات ختم ہوجائیں گے۔

مرشدی!
سیدی!
''میری روح نے یہ وعدہ خاکی بستر میں آنے سے پہلے کیا اور جیسے ہی لطافت کے اوپر گرد چڑھی . کچھ نظر نہیں آیا. مجھ میں بصیرت ہے نہ بصارت!!! کیا کروں ... ؟ تجدید کی ہی طلب گار ہوں ۔۔۔ !
میری حالت تو ایسی ہے کہ مجھے خود پر یہ گمان ہوتا کہ :
صم بکم عمی فہم لا یر جعون.۔۔

اندھے، بہرے ،گونگے جن کے دل طلاق کھا چکے. تالے کھلتے نہیں ہیں . ہائے! کون کھولے گا یہ تالے؟ ۔دکھ دکھ دکھ، ان کو کھول دیں ..آزادی میں حیاتی ہے. مجھے میری اسفلیت سے نکال دیں. اسفل سافلین سے بچا لیں.

"سنو "
''سفل .... لفظ۔۔۔۔۔ ''
خاک کو زیب نہیں کہ وہ سفل کا مقام خود دے. یہ وہ مقام جو "عین " سے دور ہوجانے والے کو ملا یہ اس کے حواریوں کو۔ یہ مقام ابلیس کا ہے ۔ یہ مقام فرعون کا ہے اور اسی مقام پر نمرود و شداد نے اپنی زندگیاں گزاریں اور قارون ہو یا ابو لہب ۔ ۔۔ یہ مقام انہوں نے اپنے لیے خود چنا ہے ۔

خاکی۔۔۔
تجدید کی کنجی توحید ہے ۔ ''احد '' کو اپنے دل میں بسا لے اور صنم خانہ مٹادے ۔ تیرے صنم خانے میں جب ایک ہی قسم کی شراب کی نہر جاری ہوگی تب تجدید کے سوال و جواب کی ضرورت نہیں رہے گی
تم اپنا مقام خود چننا چاہو گے تو رسوا ہوجاؤ گے انہی کی طرح ۔۔۔ !!


تم نے اپنا مقام عقل و شعور کے دائرے سے اخذ کرنا ہے نہ کہ اس طرح کے گمان پال کر ۔خود کو سفل کہ کر اپنا مقام مت گرا. تیرے اندر بسا نور ہے. اس نور کا تقاضہ اس بات کے مانع ہے ........۔جب اس گمان سے نکل کر شہادتوِں کو دیکھ کر شاہد بنو تو واحد کو پہچانو گی اور اس معرفت میں جو شہادت تمھارے من سے ابھرے گی وہ تیری پہچان بن جائے گی. جتنا شاہد انسان بنتا جاتا ہے آئینہ پر عکس منعکس ہو جاتا ہے جتنی شہادتیں شدت سے نکل کر تیرے وجود سے منقسم ہوں گی اور تیرا قطرہ قطرہ شہود کا عکس ہوگا، تب تیرا دل آئینہ ہوگا. تم کو تب مانگنے کے بجائے دینا ہوگا.

الیکڑانز

جتنے الیکڑانز کائنات کے مدار میں ہیں، 
جتنے سورج کہکشاؤں میں ہے، 
جتنے دل زمین پر ہے 
اے دل!  قسم اس دل کہ سب کے سب انہی کے محور میں یے 
جتنی روشنی ہے، وہ جہان میں انہی کے  دم سے ہے 
لکھا ہے نا، دل، دل کو رقم کرتا ہے 
لکھا ہے نا، جَبین سے کَشش کے تیر پھینکے جاتے ہیں
لکھا ہے نا،  سجدہ فنا کے بعد ملتا ہے 
اے سفید ملبوس میں شامل کُن کے نفخ سے نکلی وہ سرخ روشنی
جس کی لالی نے مری کائنات میں جانے کتنی  اُجالوں کو نَوید دی ہے 
تو سُنیے! 

جن سے نسبتیں ایسی روشن ہیں، جیسے زَمانہ روشن ہے 
جنکی قندیل میں رنگ و نور کے وہ سیلاب ہیں کہ سورج کا گہن بھی چھپ سکتا ہے اور چاند اس حسن پر شرما سکتا ہے

مجھے اس روشن صورت نے درد کے بندھن میں باندھ دیا ہے اور خیالِ یار کے سائے محو رکھتے اور کبھی کبھی فنا میں دھکیل دیتے ہیں

تو سُنیے
تو سُنیے، خاک مدینہ  سے چلتے اسرار کے  عنصر، جس میں مقید افلاک کے بحر،  
 شاہِ غازی کے در سے بنٹتے لنگر سے جاری دُعا کا سلسلہ اک ہی ہے
 بُخارا کے قدماء میں امام زین العابدین سے منجمد  جمتی سرخ لکیر،  یہ خون فلک سے اتر رہا ہے اور زمین پہ جم رہا ہے .... یہ سلسلہ اک ہے 

وہ جو شاہ مٹھن نے رنگ رنگ کے رنگ لگائے، اسکی مہندی میں  نمود کی قسم،  
گویا یہ زندگی چند دن کی مہمان ہے 

جب میں نے جھک کے قدم بوسی کی تھی، فَلک نے بھی جھک کے سَلام کیا تھا    
محبت میں کوئی نہیں تھا، وہی تھا ..
یہ خاک کچھ نہیں،  وہ عین شَہود ہے 
ہم نے مٹنے کی کوشش نہیں کی کہ  یاد کرنے کو وہ پانی زمین میں شگاف نہیں کرسکا ہے وگرنہ کیا تھا فنائیت میں "تو بود، تو شدی منم" کا نعرہ لگاتے رہتے ....

اے زاہدہ، عالیہ، واجدہ، مطاہرہ، سیدہ، خاتون جنت! 
کتنی عقدیتوِں کے افلاک وار کے کہتی ہوں .... سلام 
اے آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتنے دل یکجا ہوتے ہیں، کڑی در کڑی در سلسلے سے مل کے سلام بھیجتے کہتے ہیں کہ جلوہ جاناں پر لاکھوں سلام

مصطفوی چراغوں کی تجلیات دِیے، شبیر و شبر کی کنجی
 
کتنے مومنین کی بنات آپ کے   پاس آنے کو بیقرار ہیں،  روح صدقہ ء کوثر پانے لگے گی اور کہے گی کہ فرق نَہیں ہے، ہاں یہ لب و لہجہ و جلال کسی روپ میں بی بی زینب کا جلال لیے ہوئے ہے تو کہیں امام حسن سی مسکراہٹ لیے ہوئے، سلام سلام سلام

جب میں اس چہرہ ماہناز کو دیکھتی ہوں تو جذب مجھے کتنی کائناتوں کے در وا کرتا ہے ... وہ کائناتیں لیے ہیں 
وہ حجاب میں کبریائی نمود ہے 
بے حجابی میں دیکھیں سب فلک پر ..........
لن ترانی سے رب ارنی کے درمیان ہستیاں بدل دی گئیں تھیں مگر اے نور حزین! فرق نہ دیکھا گیا، جب زمین میں شگاف پڑتا ہے تب کچھ نیا ہوتا ہے ...میرے ہر شگاف میں کبریائی نمود ہے،

یہ  کمال کے سلاسل میں تمثیل جاودانی ہے کہ رخ زیبا نے دل مضطر کے تار ہلا دیے ہیں، مضراب دل ہو تو کتنے گیت ہونٹوں  پر سُر دھرنے لگتے ہیں، کتنے دل جلتے گلنار ہوتے یقین کی منزل پالیتے ہیں اور دوستی پہ فائز ہوجاتے ہیں ..

صورت شیث میں موجود ہیں  یعنی کہ حق کا جمال کتنا لازوال ہے،  وہ شیث  ہیں، جو تحفہ ء نَذر بعد حاصل اک دوا ہے ... 

میں نے ساری کائناتوں سے پوچھا کون مالک 
کہا اللہ 
میں نے پوچھا کون میرا دل؟
کَہا بس وہ، بس وہ، بس وہ

بس میں نے فرق سیکھ لیا ہے مگر فرق تو وہی ہے جسکو میں نے کہا ہے، درحقیقت اک رخ سے تصویر دیکھی کہاں جاتی ہے.

یہ دل جھک جاتا ہے تو اٹھتا نہیں ہے 
پاس دل کے اک نذر کے کچھ نہیں کہ یہ لفظ ادعا ہیں ..یہ دل سے نکلتے ہیں تو دعا بن کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ...

میری آنکھ سے دل کے نیل دیکھے؟
دل کے نیل پہ افلاک گواہ ہیں 
جی ان سے خون رس رس کے ختم ہوا کہ جدائی کی تیغ نے جان نکال دی ہے اور سارے وہ پل،  جن سے کھڑا رہنا تھا، بیٹھ گئے ہیں 
وہ کشتی جس کے بادبان طوفان لے جائے وہ کیسے چلے 
بس کشتگان رہ وفا نے لکھی ہے تحریر کہ بتادے بنام دل حیدری آواز یے کہ وہ ہیں،  ہاں وہ نقش رو ہیں، ہر پری چہرہ ہو بہو ہے ...

یا ‏فاطمہ.مہر ‏رسالت ‏پہ ‏عائل ‏

یا فاطمہ، مہرِ رسالت پہ عائل،  یومِ القضاء پہ واجب الوجود بننے والی خاتون،  اے نیک صفت سیدہ 

آپ کی تطہیر دل پر نازل ہوتی ہے تو افلاک سے سماوی فوج ہمرقاب ہوتے سلام کو آجاتی ہے، میں نہیں جھکتی بلکہ وہ بھی جھک جاتی ہے ... میں ادب میں خاموش ہوجاتی ہُوں 

اے چشتیہ خانہ ء افلاک کی مروجہ وسائل میں طمطراق سے چلتے جریدی نشان، اے برق صمیم!  اے نشانِ حیدر، اے بخت دلاور،  

جانے کون کون سے القابات آتے، قرطاس اور لفظ کم، کم شانِ سیدہ کو لکھتے ... میرا رشتہ ازل سے سادات کا مکرم جانے غلامی کا رہا، آج خدا سے بہت سوال کیا کہ اتنی عزت ڈالی تو خود سادات میں سے نہ کیا ..یہ جو قدم پائے معظم کو پڑتے ہیں دراصل یہ تونقش محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم .. 

مری عقیدتیں ...سب اک نقطے میں، نقطہ محور ذات کے اندر ہے ...

سوچتی ہوں کہ ہاتھ جو لکھتے ہیں پاک بھی ہیں،  ہونٹ جو چھوئیں لفظ پاک بھی ہیں، دل میں بٹھاؤں دل پاک بھی ہے؟ کشمکش میں رہتی ہوں کہ کہاں سے لاؤں وہ پاکی کہ جہاں سے یہ دل قابل ہو 

خیر دامن دل میں آیت تطہیر ہے 
اشک گرتے ہیں، لہو لہو زنجیر ہے 
کاٹ دیا جدائ نے کیسی شمشیر ہے 
حرفِ حیا ہو،  کعبے کی تحریر ہے 

الفاظ نکلتے نہیں، جدائ سے زخمی روح کا بیان بھی نہیں،  مگر پھر اشک بندیاں شاید کوئ نہر وجود آئے .... لفظوں میں یہ حُسن ڈھالا نہ جائے گا، نقش نقش دل میں اتارا نہ جائے گی،  دیکھیں گے تو آنکھ نہ ہٹے گی،  سنیں گے تو بہرے ہوجائیں گی، ہم مجذوب وفا ہیں مگر اے دل! ترا دردسنبھالا نہ جائے گا!  

نہ دل پار لگے، نہ اشک تھمتے ہیں.. حقایتِ دل کے سو افسانے کسے سنائیں ہم،.. 

اک موم کا دھاگہ ہے دل میں،  اور تم ہو،  آگ جلتی ہے لگن کی،  یہ کون ہے؟  

آزردگان دل کو حاجت رفوگری کی ہے،  بھاگ جائیں اور بس آپ کے در کو تھام لیں، نہ جائیں کَہیں، بس رَہیں اِسی آستانے پَر،  

بس اللہ کی چاہت اہم ٹھہری.... آج کلی طور پر اپنی خواہش کو مانند اسماعیل، قربان کرتے ہیں اللہ کے خلیل کی طرح دست حق پہ بیعت کرتے کہتے ہیں ... 

سب حق آپ کے، اک حق میرا .. یہ غلام اس در سے دور نہ رہ سکے گی، .... حوصلہ نَڈھال ہے کہ ڈھال تو آپ ہیں، تلوار تو آپ ہیں .. عشق کی دھمال سے روح وجد میں آتی ہے، میرے دل میں صورتِ دلاور جب آتی ہے ..

اے صورتِ دلاور 
میرا سلام قبول کرلیں، ......، 

میرے سب سے اچھے دوست ہیں ..میرے حبیب صلی اللہ علیہ.والہ وسلم ..وہ آج بہت مسکرا رہے ہیں نا ..آج سے لگتا ہے وہ دل میں موجود ہیں ..نانا جان کے پاس شیر دلاور ہوتے ہیں ..امیر حیدر کے پاس سلطان الہند بیٹھے ہیں اور یہ امیر حیدر کے دائیں جانب  سلطان شہید شہنشاہِ کربل بیٹھے ...اک دستاویز یہ سفید رنگ کی ہے اور لباس مکمل.سفید ہے ... آئنہء فاطمہ،  رویت ءخدیجہ ...  ر عمرعزیزم پادشاہ غازی کے جلال نمود سے برق روزن دل پہ اٹھے تو سوال آتا ہے ..بس اس جگہ تو چار سو وادی نہریں سب سنگم پرندے اور بولیاں ..کتنی پیاری ابتدا ہے.... اللہ  ہماری رگ رگ کی تسبیح ہیں اور ہم یہی کہتے اللہ اللہ اللہ کی تسبیح ہے اور ہماری سانس میں اللہ ہے
۲۰۱۹

تاج ‏ہما ‏

ہم شاہ ہیں، ہم شاہوں کے شاہ ہیں.  شاہ اسے کہتے ہیں جس نے ہستی کھو دی ہو. گو کہ ہست میں رہنے میں مزہ ہے،  ہستی اس کی ہونی چاہیے شرط یہی ہے.  یہ شرط اقبال بلند کے لیے ہے ورنہ تاجِ ہما کون پہنے گا ـ یہ پرواز بھی نصیبہ ہے،  شاہی جسے ملے اس کا چمن تو اور ہے. اسکا سرمہ کوئی اور ہے.  ... شانِ بے نیازی دیکھیے کہ نیاز میں نیاز سے گئے،  حال میں حال سے گئے، مسافر قیل و قال سے گئے. مست تھے سارے، وقار سے گئے!  یہ تاجِ ہما کس نے پہنا ہے؟  یہ شاہی کس کے لیے ہے؟  یہ کس نے وزارت کی بات کی ہے؟  یہ کس نے صدارت کی بات ہے؟  یہ کون مہمان خصوصی ہے؟  یہ سب سامنے ہے تو کون مسافر ہے جس نے شبِ دراز کے پردے سے جھانک کے محفل پائی ہے؟  یہ کیسی دستارِ رونمائی یے اس محفل میں ہے؟  

تاجِ ہما کیا ہے؟  یہ شہزادگی کا نشان ہے جو سالار کو دیا جاتا ہے. یہ سالار کون ہوتا ہے؟  وہی ہوتی ہے جس کو خلیفہ مقرر کیا جاتا ہے!  میرے بعد یہ ہیں،  یعنی کہ نشست بھی خصوصی ہے اور مخصوص بھی ہے. فیصلہ بھی کوچکا ہے،  فیصلے کی تسبیح بھی مکمل ہو رہی ہے فقط گنتی کے چند حروف باقی ہیں پھر کن کی لازوال تسبیح سے سب حاصل ہوگا،  تب شاہ کو سلطنت دی جائی گئی. یہ شاہی والے جانیں گے کہ شاہ کون ہے اور مسافر کون ہے؟  مسافر دیکھتا رہ جائے گا اور شاہ کے پاس تاج ہما ہوگی 

فرض کیا ہوگا؟  فرض کی ادائیگی؟  ادائیگی کیا ہے؟  واجب کو جاننا،  محجوب کو حجاب میں رکھنا. ردا مت اٹھائی جائی ورنہ نعرہ مستانے لگانے والے جانتے کہ ان کے ساتھ حال کیا کیا جاتا ہے. 

اے کن کی لازوال تسبیح 
اے فیکون کے امر 
اے روز کن کے زمانے 
اے الست کی مستی 
اے تجدید کی کنجی 
اے نفی و اثبات کی مستی 
اے راز الستی!  اے راز الستی 
اے فقیرِ چشتی! فقیرِ چشتی 
اے نور قدامت!  نور دوامت 
اے نور امروز!  اے نور فردا 

سوار کے لیے شب ہے!  شب میں سواری ہے!  سوار کے لیے شب ہے!  شب میں سواری ہے!  یہ ہادی کی تلوار ہے!  یہ امام کی تلوار ہے!  یہ حسینی تلوار ہے!  یہ لعل یمنی،  عقیقِ زمنی یے!  یہ مہ چمنی ہے!  یہ گلاب سیرت ہے!  یہ حال مست راہ میں حائل رہنمائی کی پوشاک ہے!  مبارک ہو راہ نو!  مبارک ہو راہ نو!  قریب کے مقرب ہو!  قریب کے شادی ہو!  قریب کے حج ہو!  قریب کے رگ رگ میں تو ہو!  جب جلوہ ہو تو سجدہ لازم!  اے راکب سجدہ بنتا ہے!

Friday, November 20, 2020

جاذب ‏ ‏نظر ‏

مطاف میں جاذب نظر بیٹھی ہے، جس کے ہالہِ نُور سے اردگرد کے حرکت سکتے میں ہے.  جب بندے خدا کے محبوب ہوجاتے ہیں تو طواف یونہی ہوتا ہے. مکان میں نوران شاہ رہتے ہیں. شاہِ نوران، شاہ ولایت کے ساتھ رہتے ہیں. کعبے کے اندر جو نور ہے،  کالا رنگ اتر جانے سے وہی باہر ہے.  جاذب نظر اسی نور سے بانٹ رہی ہے. کعبے کی چادر اک حجاب ہے اور وہ حجاب تو نہیں رہا ہے. مطاف میں نماز ادا کی جارہی ہے. یہ کیسی نماز ہے جس میں گم صم رہ کے بات کی جائے. جس میں جو تماشائی ہو،  وہی آواز ہے.

میزان میں آواز اتری ہے،  آواز ایسی کہ شاہ نوران نے بلایا ہے ـ شاہ نوران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رونقِ دو عالم ہیں. ایسا محسوس تو کیجیے گلی گلی میں سب انسان ہیں،  کسی میں یا علی یا علی کی صدا لگ رہی ہے،  کسی میں یا محمد کی، کوئی غوث پاک کا دیوانہ ہے. انسان نہیں ہیں اس جہاں میں عالم ذات میں ہم سارے آئنے ہیں. وہ جب جھلک دکھلاتے ہیں ہم میں صدا ابھرنے لگتی ہے. وہی صدائے غنود ہی صدائے شہود ہے کہ شاہد ہی مشہود ہے.  اب کون پوچھے گا تم کون ہو؟ ہم کہیں گے ہم شاہ نوران کے سوالی ہے. ہم ان کے در پر رہتے ہیں یہ راز کسی کو معلوم نہیں ہے شاہ نوران نے ہم سے محبت کی ہے. یہ لعلی اسی نورانیت کی میراث ہے.

آدم ہو کہ حوا،  سب نے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوتا. کسی نے کہنا ہوتا ہے تو کسی نے کچھ کرنا ہوتا ہے. کسی کو آگ لگنی ہوتی تو کسی کو آگ لگانی ہوتی ہے،  کس کو آگ چاہیے؟  یہ پاک وادی ہے،  جوتے اتار دو،  تاکہ آگ مل جائے ورنہ انسان تو بیچارہ ہاتھ ملتا رہ جائے گا

تو ‏اک ‏مست ‏قلندر ‏پارٹ ‏۲

حصہ دوم
تو ایک مست قلندر ہوں
خود میں ایک سمندر ہوں

دنیا کو  اپنی سلطنت بناتے ہو
'کن' سے سب کو تخلیق فرماتے ہو
سب میں خود  سما کے،
خود کو چھپا لیتے ہو
دنیا تجھے تلاشے ،
میں تجھے خود میں پالوں
فلک کو دیکھوں
یا زمین پر رہوں
بارش میں بھیگوں
یا دھوپ میں جلوں
پھول کی خوشبو بنوں ،
کانٹوں سے لہو بہاؤں،
تم معرفت کی روشنی ہو،
تم میرے اندر کی روشنی ہو،
عارف کو لا الہ کا رقص کراتے،
من میں الا اللہ کی صدا دیتے ہو!
تم کون ہو ؟ تم کیا ہو؟

خلق کو خود  حجاز بلوا کے ،
محروم رکھتے ہو  حاجیوں کو،
عاشق کےدِل کو حاجی بناتے ہو
نمازِ عشق پڑھوا کے ،
مناجات کی دنیا سجاتے ہو،
جمالِ یار میں جلوہ نما ہوکے ،
نگاہ تیری جانب لگی ہوئی ہے
''الا اللہ ''کی تسبیح  ملی ہوئی ہے
اوجِ بقا کی منتظر ہوں،
فنا میں غرق ہوں،
راستے دشوار ہیں ،
طوفان ہم کنار ہیں،
قدم ، قدم موت کا تماشا ہے
مر مر کے جینا عاشق کا شیوہ ہے
میں درد کی انتہا میں ہوں،
میں اضطرابی میں ہوں،
میں بے تابی میں ہوں،
نشاطِ درد کی مئے پلا تےہو ،
گمشدگی کی  پھرسند عطا کرتے ہو،
میں شہرت میں گُم ہوں،
میں خود میں ایک سمندر ہوں،
میں مست قلندر ہوں،

عشق کی تسبیح سے عشاق کو پُروتے  ہو،
دِلوں میں 'ھو ھو ' کی صدائیں پھر لگاتے ہو،
احد ، احد کرتے توحید کی مئے پلاتے ہو،
دل کو اپنا مسکن ، کعبہ وقبلہ بناتے ہو،
مدہوش کرتے ہو اپنے عاشق کو خود،
پاؤں میں تلاش کی  زنجیر پہناتے ہو،
اِس میں بیٹھ کر  تم سوچوں میں الجھاتے ہو،
پھر خود  اس عاقل  کا چرچا کرواتے ہو،
کیسا کیسا کھیل تم رچا تے ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

کیاخُوب رنگ سجایا دُنیا کا،
کیا خوب  تماشا ہے دنیا،
آدم کو خلیفہ بنا تے ہی ،
ابلیس کو ذلیل کراتے ہو،
معبود اور عبد کا فرق بتاتے ہو،
نذر، قربانی کے چکر میں ،
ہابیل کو قابیل سے مروا دیتے ہو،
حکم دے کے واعتصمو بحبل اللہ '' کا
اپنی رَسی سے باندھ لیتے ہو
بعد اس کے زمین و آسمان میں معلق کراتے ہو
گھُماتے ہو اپنے یاد میں اِدھر ،اُدھر
نام سے اپنے جلا دیتے ہو ،
مظالم کے سیلاب میں،
سر مستی کی کیفیت جگا دیتے ہو،
تمھیں جانوں کیسے ؟ خود کو پہچانوں کیسے
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

میں عاشق ہوں کہ معشوق !
میں پستی ہوں کہ بلندی !
میں شمس کی درخشانی ہوں!
میں قمر کی ضوفشانی ہو!
میں مست قلندر ہوں!
میں خود میں سمندر ہوں!
میں کون ہوں ؟ میں کیا ہوں؟

جو نہیں جانتا عشق کیا ہے ،
وہی جانتا ہے عشق کیا ہے
لباس ِ  مجازمیں وہی چار سو ہے
کشش کا نظام بکھرا ہر سو ہے
میں نہیں جانتی میں کون ہوں
جب سے تجھے دیکھا ،
بھولی میں کون ہوں،
خاک کو تسلی جذبہ عشق دیتا ہے
سانحوں میں جینے کا حوصلہ دیتا ہے
تم جانتی نہیں تم عشق میں ہو
مسکراتی پھراتے ہو جو ہر بات میں
کیا اسی سے مل کے آئی ہو ،جو ہے دل میں؟
ادب بن عشق کہاں ؟
مستی ملے تو ہست کہاں؟
میں اپنے ہوش میں  کہاں ہوں؟
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

میں اس کے پاس ہوں؟
یا وہ میرے پاس ہے ؟
فلک زمین پر ہے ؟
یا زمین فلک پر ہے؟
میں فضا ہوں کہ بادل ؟
میں بارش ہوں کہ نغمہ ؟
میں ایک مست قلندر ہوں!
خود میں ایک سمندر ہوں!
میں کیا جانوں میں کون ہوں؟
اب میں ہوش میں کہاں ہوں؟

ہر کسی کے بس میں عشق کی بات نہیں
مدہوشی میں ہوں کہ میری کوئی اوقات نہیں،
کبھی گُل تو کبھی بلبل کے ترنم میں  ملے
شجر ، حجر کی باتوں میں اس کے قصے سنے 
پتا ،پتا بوٹا ، بوٹا اُس کے ذکر میں مسجود ہوا
کائنات بھی  ابھی سجدے میں ہے ،
میں رکوع سے اٹھوں تو سجدہ کروں،
کیسے سجدہ میں کروں ؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں؟
نماز کا سلیقہ مجھ میں نہیں ،
رکوع کو ہی  سجدہ مانوں؟
سجدہ کیسے کروں میں  ؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں؟
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
!تو ایک مست قلندر ہے
!خود میں ایک سمندر ہے

حسن سمجھنے والے نایاب نہیں!
جذبات سمجھنے والے کمیاب ہوئے!
جو نہیں جانتا عشق کو ،
وہی عشق کو جانتا ہے
جو نہیں مانتا احد کو ،
وہی اس سے مل جاتا ہے
عشق سے دور ہوئے ،
عشق میں پھنس گئے
ہم کو اپنی خبر نہیں
کہ کیسے ، کہاں لٹ گئے
میں کچھ کہوں مگر سوچوں
کہ ہوش میں کہاں ہوں
پھربن سوچ  کہتی جاؤں
کہ ہوش میں کہاں ہوں
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندرہے

رنج و  آلام  نے مستی ِنشاط میں مبتلا کر دیا ہے
اس نے مجھے مجذوبیت کا خرقہ عطا کر رکھا ہے
میں اب کچھ کہوں تو سوچوں میں کہاں ہوں؟
مگر بن سوچ کہے جاؤں کہ ہوش میں کہاں ہوں
منکرینِ محبت کے دل کو شیش محل محبتوں کا بناتا ہے
پھر اس کے دل میں ہر اک نقش اِن کا مٹا دیتا ہے
پھر  اپنے عشق کی خلافت میں جگہ دیتا ہے
میں کیسے کہوں کہ میں عشق میں ہوں،
کہ میں ابھی ہوش میں نہیں ہوں!
میں اور کیا کیا کہوں کہ وہی مجھ میں ہوں!
میں کچھ نہیں کہتی ہوں ،
وہی مجھ میں کہتا ہے
میں کہیں نہیں ہوں مگر وہ مجھ میں رہتا ہے
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
!تو  ایک مست قلندر ہے
!خود میں ایک سمندر ہے

میں لامکانی میں ہوں !
میں ہوش میں کہاں ہوں!
میں اسکا کیف اور  مستی ہوں!
کہ جذب میری ہستی ہے،
میں اس کی پاس ہوں،
یا وہ میرے پاس ہوں،
میں اس کے حضور سرجھکائے ہوں،
کائنات ابھی  سجدے میں ہے ،
میں ساجد کیسے بنوں،
میں  زمین چوموں کیسے؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں!
میں نے اسے اپنے اندر جانا ہے،
مگر فلک پر اس کا ٹھکانہ ہے!
نماز کا سلیقہ نہیں مجھ میں ،
عشق نے مجھے کیا  دیوانہ ہے،
میں بن سوچ کے کہتی رہوں،
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں،
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

میں ایک صدا ہوں ،
میں مہک و بُو ہوں ،
میں  رنگ و روشنی ہوں
میں سرمستی ِ سرمد ہوں ،
میں نعرہ انا الحق ہوں
میں رازِ کن فکان ہوں ،
میں ازل کا نورِ قدیم ہوں
میں اب کیا کیا کہوں؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں؟
میں اس کی نشانی ہوں !
میں نور ہست ہوں ،
میں شاہد ہوں ،
میں ہی  مشہود ہوں ،
میں ہوش میں کہاں ہوں؟
میں اس میں گم ہوں !
میں کون ہوں ؟میں کہاں ہو؟
تو مست قلندر ہوں!
خود میں ایک سمندر ہوں ! تو

میں اس میں گم ، جذب میں ہوں ،
میں مستی ہوں !
میں عشق ہوں !
میں معشوق ہوں !
میں مستی ہوں!
محبت کی گمشدہ بستی ہوں !
میں شبنمی قطرہ ہوں!
میں سحر ہوں !
میں ستارہ ہوں !
میں سورج ہوں!
میں فلک ہوں !
میں فرش ہوں !
میں اسم لافانی ہوں!
میں سبحانی ہوں !
میں نوارنی ہوں ،!
میں عشق میں ہوں،
میں اور کیا کیا کہوں ،
کہ  ہوش میں کہاں ہوں،
میں ازل کی صدا ہوں !
میں ابد کا نغمہ ہوں!
میں راز کن فکاں ہوں !
میں محبت کی بستی ہوں!
میں عشق ِقدیم مستی ہوں!
میں  سرمدی نغمہ ہوں!
میں کون ہوں ،میں کہاں ہوں!

میں محبوب  ہوں!
میں محبوب کے پاس ہوں!
میں رقص میں ہوں!
مگر سکتہ حیرت میں ہوں،
میں اس کے جلوے میں ہوں،
میں اس کی ہستی ہوں!
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
میری چیخ و پکار میں مٹھاس ہے !
میری پکار میں اسکی آواز ہے!
میں حقیقت ہوں !
میں ہی مجاز ہوں!
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
میں اس کی مستی ہوں !
میں اس کی بستی ہوں!
میں کون ہوں؟ میں کہاں ہوں؟
!تو ایک مست قلندر ہے
!خود میں ایک سمندر ہے

میں  عشق کی الوہی صدا ہوں!
چمکتی روشنی ہوں کہ چہکتی بلبل ہوں!
حجاب ہوں ،  نقاب  ہوں!
   میں بے حجابی ہوں !
میں  بے نقاب شفافی ہوں
میں مکان میں ہوں ،
کہ لامکانی میں ہو،
میں اس کے پاس ہوں ،
یا وہ میرے پاس ہے،
میرے ہاتھوں کی روانی ،
موجوں کی طولانی کو مات دے،
وہ میرا ہاتھ ہے ،
وہ میرا کان ہے ،
میں وصل میں ہوں ،
میں عشق میں ہوں
میں  کیف میں ہوں ،
اس کی مستی ہوں،
اُس کی مستانی ہوں
  اس کی دیوانی ہوں
میں اس کا عشق ہوں کہ،
میں اس کے عشق میں ہوں،
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں حسن مجسم ہوں ،
میں نور مکمل ہوں
میں جذبِ ہستیِ کامل ہوں
خود ایک گورکھ دھندہ ہوں،
میں کون ہوں ؟میں کہاں ہوں،؟
تو ایک مست قلندر ہے!
خود میں ایک سمندر ہے!

میں رقص میں ہوں !
مگر سکتہ حیرت میں ہوں!
اس کے جلوے کی تابش ہوں،
یا میں خود تابش ہوں،
میں کیا کہوں کہ عشق میں ہوں!
بن سوچ  کہوں کہ  عشق میں ہوں!
میں کیا کیا کہوں ؟
میں راز کن فکاں ہوں!
مجذوب ، میں ولی ہوں کہ
  اُس کے وصل میں ہوں
میں  اُس کی ولایت میں ہوں ،
میں  ُاس کی نیابت  میں ہوں
میں اس کا نغمہ ہوں ،
میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے !
خود میں ایک سمندر ہے !

!میں اس کی بستی ہوں
میں اس کا جمال ہوں !
میں اس کا کمال ہوں!
مجھ پر جذب  طاری ہے
میں اس میں ہوں!
یا وہ مجھ میں ہوں!
میں کیا  کیا کہوں اب ،
کہ میں  ہوش کہاں ہوں؟
میں وحدت میں ہوں ،
حق ھو ! حق ھو!
میں اس کو پکارتی ہوں،
یا وہ مجھے پکارتا ہے،
،میں اس کے پاس ہوں،
یا وہ میرے پاس ہے،
؟میں کون ہوں؟ میں کہاں ہوں
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

میں اُس کی دید میں  فنا ہوں
میں فنا کیسے ہوپاؤں؟
کہ بقا مجھ میں ہے!
خود  میں حرم ہوں !
خود میں  مسجد ہوں!
میں میخانہ ہوں !
میں ساز ہوں !
میں ہی  نغمہ ہوں!
!اک سربستہ راز ہوں
میں مخفی ہوں!
مگر سب میں ظاہر ہوں!
میں ایک خیال ہوں  !
میں  ادراک کی بلندی ہوں!
میں عقلِ ُکل ہوں !
میں زمانی ہوں !
میں نوارنی ہوں
میں کون ہوں ،میں کہاں ہوں

،میں عشق کی منتہی
!محبت کا معجزہ ہوں
میں زندہ ہوں!
مگر اجل مجھے تھامے،
میں اجل ہوں !
مجھے موت کیسے تھامے!
میں اپنی ہستی  کھو رہی ہوں
وہ شہ رگ سے قرین ہے ،
شہ رگ کلمہ لا ہے
نفی اثبات  میں گُم  ہوں ،
میں لا الہ کا کلمہ ہے!
وہ مجھ میں صدا ،
الا اللہ کی لگاتاہے
میں الا اللہ سنوں؟
یا لا الہ کہوں؟
میں کیا کیا کہوں ، کیا سناؤں
میں کیا کیا سناؤں اور کیا کیا سنوں
میں مستی جذب کی منزل میں ہوں،
میں اپنی ہستی کھو رہی ہے،
میرے اندر اس کا جلوہ ہے،
میں طور کی تجلی ہے ،
خود میں ایک طور ہوں
ہستی طور کھوئے
پھر''وہ '' طور ' میں دکھے
میں کون ہوں کیا ، میں کیا کہوں؟
میں جذب کی منتہی میں ہوں!
میں کیا جانوں میں کون ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

اس نے مجھ سے کہا کہ اس کی محبوب ہوں!
!اس نے مجھ سے کہا کہ  اس کے لیے بنائی گئی ہوں
اس نے مجھ سے کہا کہ  اس کے تسبیح میں محو رہوں!
اس نے مجھ سے کہا کہ  حمد کی بات بس کروں!
اس نے مجھ سے کہا کہ قربانی عشق میں ہے !
عشق قربانی نہیں!

یوم الست کی مستی  چھائی ہے
قالو بلی کا عہد میں نے کیا ہے
میں تجدید کی کنجی میں ہوں،
میں نے اس کو دیکھا ہے
میں نے اس کا جلوہ کیا ہے ،
وہ۔۔ میں ، میں ۔۔وہ ہے!

تضاد ، تفریق کی بساط ک اس نے بچھائی
عاشق کو اس پر چلنا ہے پنجوں کے بل ،
چل کے جانا ہے اس کے پاس ،
کرنا ہے اس کا سجدہ
اس کے سجدے میں ہوں ،
میں اس کی فنا میں ہوں
بقا کی منزل میں ہوں ،
،  فنا کی منتہی  ہو
میں ہستی میں مستی میں ہوں ،
میں مستی میں ہستی ہوں
میں کون ہوں ؟
میں کیا ہوں ؟ میں کہاں ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

میں الہام نہیں ، میں کشف نہیں۔۔
  اُس کا ابدی نغمہ ہوں
نعرہِ مستانہ ہوں ،
اس کا شوخیِ حسن ہوں
میں کون ہوں ِ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں کس منزل پر ہوں؟
میں نے اپنی ہستی وصل میں کھوئی ہے
میں اب ہوش میں نہیں
میں جو کہتی ہوں ،
وہ کہتا ہے ،میں کچھ نہیں کہتی ،
میں کیا  کیا کہوں ،
کہ اب میں ہوش میں کہاں ہوں
وہ مجھ میں ہے ،
وہ مجھ میں ہے ، وہی مجھ میں ہے !
''اللہ نور السموت ولارض ''
وہ  نور سماوی ، وہ نورِ زمانی
۔۔۔میں نورِسماوی ،میں نورِ زمانی 
میں نوری نشانی ہوں ،
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

میں اس کی مستی میں ہوں  ،
میں اس کی ہستی ہوں،ہے
میں دریا ، سمندر  ہوں،
کہ جنگل ، پربت  ہوں،
میں فلک ، زمیں ہوں،
کہ شب  وسحر ہوں،
میں شجر ، حجر   کہ گُل ہوں  !
،میں شاخ ، شبنم ہوں
کہ شمس و قمر ہوں
میں اس کی خلیفہ ہوں ؟
میں اس کی نائب ہوں
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں نفس نورانی ہوں ،
میں نفس انسانی ہوں
،جن و انس کی محبت ہوں
مصحف ، پاک کلمہ ہوں ،
روح کیمیا کا نسخہ ہوں،
میں کون ؟ میں کیا ہوں؟
نہیں جانتی میں کہاں ہوں
میں نورِ یزدانی ہوں ،
میں اسم لافانی ہوں
۲۰۱۶  بہ سال

تو ‏اک ‏مست ‏قلندر ‏ہے ‏ـ ‏پارٹ ‏۱

تو ایک مست قلندر ہے ،
خود میں اک سمندر یے،
مجھے دعوی ہے کہ میں عشق میں ہوں
مجھے دعوی ہے کہ عقل ، ہوش میں ہوں
مجھے دعوی ہے وہ مجھ میں ہے
میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں ؟
دعوی تو خود ایک فہم ہے
عقل کی نشانی ہے
میں عقل بھی ہوں !
میں فہم بھی ہوں !
میں عشق ، عاشق کا نعرہ ہوں!
میں تجھ میں بھی ہوں ،
میں اس میں بھی ہوں،
میں کہاں کہاں نہیں ہوں؟
میں ہی تو نمانے عقل ہوں!!

یہ کیسا عشق ہے کہ میرے محبوب نے مجھ سے بتائے بغیر سب خالی کرالیا ۔۔وہ کہتا میرے ہوتے تجھے اب کسی اور کیا ضرورت ہے ۔۔۔ !!!مجھے ادب نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔!میں کہتی ہوں

مجھے نظر تو آو۔۔۔۔!
جلوہ تو کراؤ ۔۔۔!

وہ نظر تو نہیں آتا ہے  مگر وہ کہتا ہے میں دل میں سمایا ہوں ، دل کی سلطنت اس نے  لے لی ہے۔!اب میں خالی ہاتھ ہوں ۔۔!کیا کروں۔۔۔۔اور کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔۔!عشق آسان نہیں ہے ،مت کرو دعوی عشق کا!!!جس نے دعوی  وہ نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا رہا۔۔! اس کی زندگی موسیقیت بھر دی گئی مگر اس کی زندگی معلق ہوگئ۔! معلق ایسی ہوئی کہ کسی دنیا اچھی نہیں لگتی مگر دنیا اچھی بھی لگتی ہے کہ میرا محبوب اس دنیا میں ہے ۔۔۔!

میں بے تابی میں ہوں ،
اضطرابی میں ہوں ،
اس کی دید کی منتظر ہوں ،
اسے دیکھنا چاہتی ہوں
!میں اس کے عشق میں سدھ بدھ کھو بیٹھی ہوں ۔۔۔۔
وہ میرے اندر کی روشنی ہے ،
''میں 'بن کے صدائیں لگاتا ہے ۔۔۔۔۔۔!

تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟تم کہاں ہوں؟
کہاں ہو ؟ سامنے تو آو؟ اپنا جلوہ تو کراؤ!
چھپ کے من میں کیوں لگاتے ہو صدائیں ۔۔۔۔؟
میں، تو۔۔!تو، میں ۔۔! مجھ میں، تجھ میں فرق کیا ہے؟
''تو حسن مجسم ہے ،  جمال کی انتہا ہے،
اپنی دید کر ، اور مجھے دیکھے جا ،
مت کر بے تابی اتنی ، بڑی جلد باز ہے تو،
میں تیرا یار ہو، رقص کر میرے ساتھ تو،
تری ہست میں مستی میرے دم سے ہے،
غم ، درد ، تڑپ ، اضطراب تری دوا ہے،
تو  میراساز ہے ،  کیامیں تجھ میں صدا نہ دوں ؟

عشق کی بات نہ کر ، یہ بڑا ہرجائی ہے
اس میں پڑتے ہی ملتی رسوائی ہے
گرم کوئلوں پر عاشق کو لٹا دیتا ہے
احد احد کی نعرہ  تب عاشق لگادیتا ہے
!زمانے نے عشق کی حقیقت کب سمجھی
!زمانے اس کو نہ سمجھے، جس نے  سمجھی

میں عشق میں ہوں ،
میں اس جہاں میں کہاں ہوں
میں حسنِ بے حجابی ہوں ،
میں نور شفافی ہوں
میں ذات میں قلندر ہوں،
خود میں ایک سمندر ہوں
میں ازل کی تپش ہوں ،
میں الوہی چمک ہوں
میں نہ جانوں میں کون ہوں
میں جانوں میرا یار کون ہے

میں جذب میں ہوں ،
میں مستی میں ہو
میں تجھ میں محو ہوں ،
کہ ابھی ہوش میں کہاں ہےمیں تجھے کیسے پاؤں ،
میں تجھے سے دور کیسے جاؤں کہ ہوش میں کہاں ہو
میں تجھے  دیکھوں  کیسےکہ ہوش میں کہاں ہوں
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟ تم کہاں ہو ؟

''دیوانی ! تو میری دیوانی،
نا کر اتنی طوالانی''
مستیِ ہست کو جان میری مہربانی
سمندر میں ڈوبی رہ ،
تو خود  میں ایک سمندر ہے
تو ایک مست قلندر ہے ،
خود میں ایک سمندر ہے
میں مست قلندر ہوں ،
خود میں ایک سمندر ہوں

میں تندو تیز شوخ لہر ہوں ،
میں برقِ طوفان ہوں
کیسے نہ جذب میں آؤں
کیسے طوفان میں  نہ لاؤں
بحر کو لازم  موجوں کی طغیانی
گھروندے مٹاؤں ،
لہروں میں سماؤں
یا طوفان لاؤں ،
سیلاب بن کے مٹاؤں
بارش بن کے برسوں
یا بادل بن کےچھاؤں
میں  تیری ہوئی ،
میں نے سدھ بدھ کھوئی
میں کون ہوں ؟ میں کیا ہوں ؟
!تو ایک مست قلندر ہے
خود میں اک سمندر ہے

کس کس جگہ نہیں تو ،
کس کس جگہ ہے تو ،
خوشبو تیری پھیلی چار سو،
ہر سو دِکھے ''تو ہی تو''
طور پر موجود تھے پہلے  یا تجلی فرمائی
مست موسی ہوئے  تھے
یا طور نے ہستی کھوئی!
میں کون ہوں ؟
میں تو ہوں یا تو  ہی میں ہوں
میں تیری متلاشی ،
اِدھر بھٹکوں ، اُدھر بھٹکوں
کبھی مجاز میں دیکھوں ،
تو کبھی حقیقت کو کھوجوں
کہیں نہ ملے تم مگر دل کے اسرار خانوں میں!
کب ہوگا تیرا نظارا   کہ دعوی
بشر کی ناقص العقلی کا  تم کو ہے
زندگی سے پہلے ،
موت کے بعد ،
کیوں دیدار کرا دیتے ہو؟
لاکھوں حجابات میں چھپے ہے ،
مگر بے حجاب بھی تو ہو!
کیسی بے حجابی لامکانی میں ؟
کیسا ہے حجاب مکان میں ؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

!قربانی کے کیسے کیسے انداز اپناتے ہو
!سجدے میں سر نیزے پر چڑھواتے ہو
کہیں خلیل اللہ ع کو نار میں ڈلوا دیتے ہو!
اسماعیل ع کو دے کے ذبیح کا حُکم،
عرش سے مینڈھا بھجوا دیتے ہو!
چڑھوا کہ عیسی کو سولی پر خود ہی،
پھر آسمان پر  بلوا لیتے ہو !
سرمد کو نفی میں گُم رکھتے ہو!
سر کٹواتے ہی اثبات کرا دیتے ہو!
عشق کی مئے جسے پلاتے ہو!
نعرہِ انا لحق کا  لگوا دیتے ہو!
فتوی عشاق پر کفر کا لگوا تے ہو!
قربانی کی کیا خوب تم سزا دیتے ہو
عشق کی بات میں قربانی کا کیا سوچوں!
جذب دے کے، کیوں عقل میں اُلجھا دیتے ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

عشق ‏کی ‏لو

جولائی ۲۰۱۸ 

عشق کی لٗو
 
 
 
 عشق کیا ہے؟ یہ کیوں ہوتا ہے ، اکثر سوچتی ہوں
 
 عشق مورے نینا  لاگے ناں ، جس تن لاگے وہی جانے رے
 
 جلتا ہے کپڑا ہے تو راکھ  بچتی ہے
 
 دُھواں اڑتا ہے، آسمان کو اپنی کالک سے روشن کرتا ہے
 
 تم نے افق پر وہ نام دیکھا ہے
 
 کون سا نام؟
 
 ارررے ! وہی جسکو پل پل یاد کرتی ہو
 
 اچھا ، وہ جس نے تن من کی چادر میں اپنی خوشبو بسا دی ہے
 
 ہاں ، وہ ملا بھی نہیں مگر  لاگے کہ ہم کب سے ساتھ ہیں
 
 
 
 وہ ہوتا ہے تو میں رقص کرتی ہوں ، ایسا رقص میری روح کو سرشار کیے دیتا ہے
 
""" تو پھر فلک کی روشنی کیوں بن گیا ؟ """"
 
 یہی تو عشق کا المیہ ہے ، یہی تو حادثہِ عشق ہے ، جس کو سپردگی دی ، اسکو دُور سے دیکھنا  بھی بہت سانحوں بعد نصیب ہوا ہے
 
 کہاں ملا تھا؟
 
 وہ ازل کا ساتھ تھا ، جسم میں قید تھا ، اسے چھو نہیں سکتی ، حصار جان کے حلقے سے دور رہتا تھا
 
 ہہہہم ،یہ لگن کا ساتھ ہے ...
 
 ہاں ، وہ چاند جب من کے دریچوں سے جھانکتا ہے تو جوار بھاٹا لاتا ہے
 
 اسی تڑپ میں سسک رہی ہو
 
 ہاں ، اس سے ملنے کی لیے تڑپتی ہوں مگر وہ جھلک دکھا کے غائب ہوجاتا ہے
 
 وہ دیکھو .. وہ سامنے جا رہا ہے ، جاؤ اس کے ساتھ ہو لو..
 
 سُنو .. یوں نظریں چرا کے کیوں جاتے ہو ! تمھاری آنچ سے وجود جل گیا ہے اور تم یوں کتراتے ہو جیسے دیکھا ہی نہ ہو
 
 دیکھو ! ملن ہوگیا تو غضب ہوجائے گا ، رات کا وصال کئی صبحیں بنجر کردے گا ! زلزلے آجائیں گے ذات میں
 
 ہم تو عاشق آپ کے ،ہمیں کیا پروا
 
 زمانے کی پروا نہیں کرو گی ؟
 
 زمانہ ....، زمانے کی؟ انہووو ! زمانے نے ہماری کی
 
 ولی نے اسے دیکھا غور سے اور  مزید روشن ہوتا گیا ...
 
 دیکھو میری طرف... تمھاری محبت مجھے روشن کرتی ہے ،  اور تم روشنی میں سیاہی مانگتی ہو؟
 
 ہمیں تو آپ سے عشق ہے اتنا جانت ہیں، ہماری آنکھ میں  عکس تصور آپ کا ہے ، ہمارا انگ انگ آ پ کے نام سے روشن ہے
 
 جاؤ اس محبت کو امر کردو !  جاؤ ، محبوب کی بات مانو .... جاؤ اس کے پاک وجود کو ناپاکی سے الگ کردو ..
 
 ولی نے دیکھا ... اس کا وجود  آگ اگلنا شروع ہوگیا اور وہ رقص کیے یہی کہے جارہی تھی
 
 تمھارا رنگ رنگ لیا ، اب کاہے  کو جائے ریں
 
 چشم و زدن میں اسکا وجود جل کے راکھ ہوگیا اور روح اس راکھ سمیت  مرغولوں میں بلندی کی جانب جانے لگی
 
 نہ ولی اس میدان میں نہ اسکی غزل مگر فلک پر دھواں ہی دھواں تھا

Thursday, November 19, 2020

کچا ‏کاغذ ‏نہیں ‏تم

کچا کاغذ نہیں تم!  
تم خوشبو کی گلابی چادر ہو!  
تمھاری دودِ ہستی عنابی ہے!  
پرواز تمھاری سرخابی ہے!  
شمس سے تمھاری لالی ہے!  

لعل شہباز قلندر سہون شریف میں مدفن ہیں. حضرت انسان جانتا نہیں کہ وہ لعل کیوں ہے ـ لعل سے لالی مل جائے تو پہچان پر مہر ثبت ہوجاتی ہے ـ شناخت یہی ہے کہ لعلی نصیبہ ہے!  ذات کے نسب خانوں میں قران کی آیت کھلی ہے اور آیتِ رحمان میں یہی لکھا ہے کہ تم سے جو تمھارے حضور کہہ ڈالیں،  تم پر حق ہے ان کے آگے سرخم کردو ـ وہ یقین کی بنیاد ڈالیں تو تو غلامی کی لائن میں صیغہ ء راز دہرا دو ـ وہ یاد دلائیں تو نقش بن جاؤ ـ یہ محمد عربی رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قران ہے جو ہر سینے میں موجود ہے. قران کے ورقے باہر ہیں مگر سینہ بذات خود قران ہے ـ یہ قران سینہ بہ سینہ انتقال ہوتا ہے ـ اضحملال طاری ہوتا ہے کیونکہ ہر دور میں راقم کرنے والے لکھا ہے خدا شاہد ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شمع عالمین. جس دل سے وہ جھلک دکھلائیں جس کو دکھے یہ تو رب جانے رب کا محبوب جانے 

اے باد نسیم 
والمرسلت عرفا 
والملقیت  ذکرا 
بتا کونسا ذکر لائی ہے 
بتا کونسی فکر لائی ہے 
بتا کس خبر نے منشور سے نشر ہونا 
بتا کس کا سینہ گنجینہ الاسرار ہے 
بتا کس نے بھیجا کیسا یہ دشوار ہے 
بتا کس کے پاس ہادی کی تلوار ہے 
بتا کس نے ذوالفقار کو دیکھا، پایا ہے 
بتا کس شہسوار نے شہسواری کی ہے 
بتا کس عنابی رنگت والے کی تصویر؟
بتا کہ یہ یاحسین امام ما جلال ہیں؟
بتا کہ یہ ہم ساجد ہیں پہاڑ جھکے ہیں 
خشیت سے لرزش ہو طاری کب ہوگی باری


کچا کاغذ امام جلال کی جلالی سے جل کے راکھ ہوتا ہے اور گم صم ہوجاتا ہے ـ خوشبو کی چادر برقرار رہتی ہے مگر دھواں چھوڑتی ہے ـ یہ جو دھواں لفظِ منصور کی صورت نکل رہا ہے یہ تو بہت عاجزانہ سی بات ہے کہ انسان کے بس میں نہیں وہ حد امکان سے باہر جائے الا بسلطن!  تب مرج البحرین یلتیقین کی مصداق پارہ روح کا ربط جسم سے مربوط افلاک کی جانب پرواز ہوتی ہے ـ یہ افلاک دل میں سمائے ہوئے ہیں کہ افلاک ہوتے ہی دل میں ہیں دل تو عرش الہی ہے اور اس کے پانی سے روحِ قلندری کو تخلیق کیا جاتا ہے ـ جب اسے زمانے میں بھیجا جاتا ہے تو اس کو تجدید کی لگن لگتی ہے اور عہد نو یاد آتا ہے کہ بوقت نفخ سے پہلے وہ الگ نہیں تھا تو یاد آتا ہے گو وہ الگ نہیں تھا تو اب وہ الگ کیسے ہے ـ جب تم اور وہ الگ نہیں ہیں تو سب رب ہے ـ سب حق ہے ـ سب سچ ہے!  سب کی تسبیح اس کے گرد ہے اس لیے کائنات اس کی مجذوب یے 

چلو رقص کریں 
چلو وجد آیا یے 
چلو وجود غائب ہے 
چلو ہم حاضر ہیں 
چلو ہم موجود ہیں 
وجد تو آنا ہے 
دھمال تو لگے گی 
رنگ ہے!  
یہ میرا رنگ ہے 
میں ترے سنگ 
یہ رنگ ہے!  
رنگ سرمایہ 
رنگ حیات 
رنگ سے ممات 
رنگ کی لاگی 
صبغتہ اللہ

مجھ ‏پر ‏جمعہ ‏نازل ‏نہیں ‏ہوتا ‏

مجھ پر جمعہ نازل نَہیں ہوتا ـ احرارِ بریرہ و ریشم سے براءت نہیں ہوتی ـ ذکر میں جاودانی نہیں ہوتی ـ رات رحمانی نہیں ہوتی اور بات سبحانی نہیں ہوتی ـ کسی سے پوچھا جائے کہ جمعہ کیا ہے تو وہ کہے گا کہ دن ہے ـ یہی گڑ بڑ ہے کہ جمعہ دن نہیں ہے ـ تمام جہات کے منبعِ انوارات کی جمع ہے ـ جب جمع واحد میں ہو تو واحد واحد رہتا ہے پر کثرت ھو ھو بولنے لگتی ہے ـ سامنے الواحد بیٹھا جب ھو ھو یعنی " تو،  تو " سنتا ہے تو صبح صادق ہوتی ہے اور سحر سے پہلے جمعہ نازل نہیں ہوتا ہے ـ طلوعِ سحر میں رات کا سماع گویا شادمانی کا سماع ہوتا ہے ـ یہ وسیم کی طرف تحفہ ء ایزد ہے جب طائر پر لگا کے اڑان بھرتا ہے تو جانب یمن سے جانب لعل یمن کہ جانب حسین بروضہ امام رضی تعالی عنہ جاتا ہے تو سلام لب بہ دہن،  دل بہ سخن،  نظر بہ رہن،  قرض بہ لعلی ادا کرتا ہے تو شہِ دلاور،  دلاویز مسکراہٹ سے دلاوری عطا کرتے ہیں. ـ یہ جن کو روضہِ حسینی کے پاس بیٹھنے کی بشارت مل جاتی ہے تو گویا امامت کا تاج پہنا دیا جاتا ہے ان پر نگہ الطافانہ ہوتی ہے اور نظرِ محرمانہ سے محبوب کا جلوہ شروع ہوجاتا ہے ـ یہ کائنات کل وحدت کے دو ٹکروں میں دکھنے لگتی ہے ـ جمال بہ رسول اکرم معظم محتشم  سے بی بی پاکدامن سیدہ مطہرہ عاقلہ عالیہ راضیہ مرضیہ زہرا رضی تعالی کی سے جناب امامِ حسن رضی تعالی عنہ، وہیں جناب علی المرتضی رضی تعالی عنہ سے حسینی لعل یمن رض کی صورت بصورت جلال ـ قران پاک میں یہی دو آیات  ہمیں ازبر کرا دی جاتی ہے جیسا کہ اللہ حاشر ہے،  اللہ الباری ہے اللہ البصیر ہے اللہ العالی ہے اللہ جمال والا ہے اللہ ستار ہے اللہ قہار ہے اللہ جبار ہیں ـ اس کی ذات کی شہادتیں تقسیم ہوجاتی ہیں ان ہستیوں میں اور نورانی مصحف کھل جاتے ہیں. مطہرین لوح محفوظ پر قران پاک دیکھ سکتے اور پڑھ سکتے ہیں مگر لوح محفوظ تو دل میں رقم ہیں اور دل میں جھانکنا ہم نے چھوڑ دیا ہے 

جب دل میں جھانکنا چھوڑ دیا جائے تو جمعہ کیسے نازل ہو ـ کیسے ھو ہو تو کیسے اللہ روبرو ہو،  کیسے بات ہو تو کیسے ہم کلام ہو،  کیسے کلیمی ہو جب کلیمی نہیں تو معراج کی بات کیا ہو، یہ جو عشاق سدرہ المتہی پر رک جاتے ہیں ان کے آگے کا سفر رقم ہے ـ وہ دیکھ رہا ہے جو ہو رہا ہے کیونکہ وہ شاہد ہے اور بندہ مشہد  جلوہ گاہ بنا ہوا تو وہ فرماتا ہے لایدرکہ الابصار تو یہی دید ہے ـ ہم نے اس کا ہونا ہے اور دید ہونی ہے . ہم بھلا کہاں سے وہ خلا لائیں گے جہاں وہ نہیں ہوگا. جہاں وہ ہے جہاں میں ہوں نہیں میں نے وہی ہے تو کہیں اپنا آپ جلوہ گاہ دیکھتے ھو ھو کہے گا تو کہیں جلوہ گاہیں دل کو دیکھتے ھو ھو کہیں گی یعنی تو تو تو پیار ہوگا. یہ محبت ہے یہ عبادت ہے ـ یہ سیادت ہے ـ اس سیادت کے پیچھے نقشِ نعلین پانے کی سعادت ہے ـ جب سعادتیں سادات سے ملنے لگیں تو جمعہ نازل ہو جاتا ہے

شاہ ‏عشق

من کی پَریت میں دیپ ہیں. ان دیپوں میں دُھواں مثالی ہے. میں جو سچ میں اُن  پر فدا ...میرے ہاتھ میں رہن رکھا سوال ... کپکپاہٹ طاری ہے گویا کہ رگ رگ میں ساز وحی جاری ہے. سورج رعنائیاں لیے جا بجا مجلی اور مجنوں کا لیلی ہوجانا کمال کا قصہ ہے. جب میں نے پوچھا تھا کہ شاہ کون؟ تو پتا کیا جواب دیا؟

شاہ فقیر ہے ...
شاہ عشق ہے ... 
شاہ رہبر ہے .. 
شاہ تمثیل ہے .... 

میں نے شاہ عشق سے پوچھا کہ شمس کیوں اتنا جلتا ہے،  تابناکی کی کرن کرن میں مجنوں کا جلوہ ہے، انعکاس عجیب ہے... منعکس لہروں میں ارتعاش ہے ...مجھ میں باقی نہیں کوئی کہ سر طور ہادی نہیں کون. یہ اکھیوں کے جھروکوں سے ملنے کی بات نہیں ہے. یہ تو سرحدوں کے فسانے ہیں. شان دیکھیے کہ قران جس رات کو اترا وہ لیل بھی فضیلت والی تھی، میں شاید وہی رات ہوں جس میں ترتیل ہورہی ہین آیات...دل کہ دل میں اتری تمجید ... تمجید نے کہا کہ رک شمس حقایت... ٹھہر جا رک جا ..ورنہ بازی گر کا تماشا رہ جائے گا اور تو چلا جائے گا ...میں نے کہا کہ تماشا تو چل رہا ہے، اب تو شہتیر نکلنا باقی ہے،  زخم کے نشان کیا ختم.ہوں گے باقی؟  اس نے کہا اسکو نہیں جانے دیتے جو جان لے راز ...کچھ مزید تیروں سے نوازا جاتا ہے اور یہی حصہ کہ یاداشت کھو جاتی ہے جب جدائی میں تو رہ جاتا بس عشق ہے ...میں ہی تو ازل کا.عشق ہوں ..میں ہی تو دائمی نغمہ ہوں ..سندھ کے  مضافات جا ..وہاں اک اللہ والی ہے، جا اسکو سلام کر ...وہ سلام پیش حضور کر تاکہ تجھ کو خرد کی گھتیوں سے فرصت مل جائے 
.جنون میں لذت مل سکے،  ہجر میں کمال مل سکے،  وصال کے جلال میں راستے مل سکیں ...

"رہ جائے گا تو، تو چل ...میں کتھے جانا؟  تو ہی تو،  تے چل نال نال 
.چھیتی آ... جان سولی وانگڑ لٹکی ... میرے لوں لوں دی دہائی اے ...

میں تو نس نس دا کلمہ ہے 
ایہی تے روگ میرا 
ایہی تے جوگ میرا 
رنگ تے غنا دی چادر 
رنگ تے جفا دی چادر 
ریشمی رومال لے تے لنگ جا 
ریشم دے لچھ کچھ درود وانگر 
تو ہتھ لا،  تو لنگ جا .. 
ریشم چنگا پے تینوں ریشم نہ کردیوے 
فر تو نہ جانڑے کہ ریشمی رومال کیہڑا ہے 
اے میڈا راز ہے،  تو جان لیا،  تو مان لیا

قلم ‏ضیا ‏کو ‏ترستا ‏رہتا ‏ہے

قلم ضیا کو  تَرستا رہتا کہ نعت کویہ مچلتا رہتا 
عطا پہ مائل  سدا جو رہتے، حجاب سائل سے دور   کردیں
ہمیں تو کچھ آتا ہی نَہیں مصرعے ہیں دل میں اترتے رہتے 
ہو سرمہ ء ہاشمی عطا، در نجف  کی ہو روشنی،تو کربل چلیں گے ہم پھر

ملتا ‏سکون ‏واں ‏ہے

ملتا سکون واں ہے،  ملے خوشبو یہ جہاں 
یہ بو جہاں جہاں ہے، اجالا   بھی ہے وَہاں 

پرنور ہیں سِراپا،  حیا کی وہ دیوی ہیں 
چادر کا انکی کاش ملے مجھ کو بھی نشاں

Nòór Iman

لکھنا ‏موت ‏ہوا ‏

محب کے لیے موت سے گزر کے لکھنا،  اصل لکھنا ہے وگرنہ سب بیکار لکھنا ہے ... جب محب کھتا ہے تو وہ محبوب کے روبرو ہوتا ہے 

 اُس نے کہا کہ کدھر سے آئی؟
جہاں پہ گُلاب ہے، وہیں سے ،  وہیں جانا ہے ... 
اس نے کہا کہ بیٹھ جا ابھی انتظار باقی ہے ..
کہا کہ دم نکلتا ہے
 اُس نے کہا کہ سبھی عاشق ایسے کہتے ہیں ..
 کہا کہ یہ معاملہ الگ ہے کہ کہاں عشق کا دعوی اور میں کہاں ..

اس نے کہا کہ ترا معاملہ مجھ سے الگ کہاں؟ 
 کہا کہ حقیقت کب بتائی تھی ..
اس نے کہا حقیقت کی تاب کس کو ہے؟ 
کہا جس کو.عشق کا بوٹا دیا، جن کو خوشبو دی ...ذکر علی کیا کرو ..

کہا کہ نام علی سے روشنی ہے .. رضی تعالی عنہ 
اس نے کہا کہ اس ذکر کو باعمل کرو 
 کہا  کہ ذکر کے سوا کیا رہا باقی ...
اس نے کہا کہ مرے محبوب کا نام ...صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

 کہا کہ محبوب کا جلوہ نہیں ہوتا ...
اس نے کہا گلی گلی ہیں محبوب کا نام لینے والے ..جا ان سے مل ...
 کہا ہجرت نے ہوش گم کردئیے ...
اس نے کہا مرا درد دیکھ پھر،  ....
میں نے کہا تو تو خالق ہے ...
اس نے کہا کہ خالق کے بندے پکڑ، جن کو قلم دیا.گیا ...
 کہا قلم تو تری روح ہے......
اس نے کہا نظام مصطفی صلی اللہ.علیہ والہ.وسلم کا کاروبار ایسا ہے ...
 کہا  کہ پرواز کب ملے گی ..؟
اس نے کہا جب رہائی ملے گی ..
 کہا  کہ قفس کی تیلیاں سرخ ہیں ..
اس نے کہا بسمل کا.حال پسند آیا ...
 کہا کہ نعت کا سلیقہ نہیں ..
اس نے کہا کہ سلیقہ، لکھنے سے نہیں دل سے آتا ..مقام ادب مقام، جلوہ، مقام حضور ...کیوں ہے تو  مہجور ...شراب طور سے پی،  پلا ..

پت، اپنی پت  کیسے کہوں؟  پتا پتا ہلتا ہے،  سورج ابھرتا ہے،  چاند مسکرائے،  سرخی سے گھبرائے تو خیال جاناں مدہوش کیے دے ..کدھر ہے مرا خیال؟ میں ہی خیال ہوئی ..اے نیستی، اے ہستی!  جام جم کدھر ہے؟

موج سکوت نے لہر سے پوچھا، سمندر کدھر؟  ساحل ہنس پڑا اور اشارہ کیا کہ وہ مرکز جس پہ آیت الہی چمک رہی تھی. .. 

پوچھا کہ کہاں ہے رنگ، پرنور پیراہن؟

کہا کہ انجیل تمنا میں، حریم ناز کے حرم، مکین دل کے مکان کونین میں، سکون دل سے جاری دعا میں، شام حنا کی سرخی میں، رات کی رانی کی مہک میں .......

پوچھا تحفہ ء وصال کیا ہے 

کہا دل حزین کے لیے آنسو، رگ جان سے کھینچے جانے والے درد سے اینٹھتی ہڈیوں کے لیے وظیفہ ء محبت،  درود کی شکل،  صورت میں   اور والتین کی کہانی میں...

پوچھا التین کیا ہے ؟

کہا کہ قسم خدا کی، محبت پہ اور حد پر ..حد کہ حد نہ ہوئی، محبت یہ کہ محبت نہ ہوئی 

پوچھا کس سرزمین سے ہوں میں؟ 
کہا جس سرزمین سے سوال اٹھا 
پوچھا دیدار کے جواب میں کیا واجب؟ 
کہا شکر کا کلمہ،  درود کی ہانڈی، تسلیم کا گھڑا،  صبر کا پانی 

پوچھا کہ حقیقت کہاں سے ملے گی؟ 
کہا عشق میں چھپے زہر سے پردہ اٹھنے دے 
کہا کہ پردہ کیسے اٹھے؟
کہا پردہ، پردہ نشینوں کی مرضی ہے ...ان کی نیاز میں جا ... 
پوچھا  نیاز کیسے ملتی ہے؟
کہا نیاز جھکنے سے ملتی ہے ..جھک جا 
کہا کہ دل کی نیاز کیا؟
کہا شوق حضور ...یقین کا قرار 
کہا کہ شوق کامل کیسے ہو؟  
کہا کہ تڑپ کب قرار پائے ..ازل کا نوحہ اب تک چلتا ہے؟
کہا تمثیل تڑپ؟  
کہا کہ مقام حسینیت جان لے ..حسینی ہو جا ..جان جائے گی 
کہا حسینیت کیسے پائی جائے؟  
کہا حسینیت یقین کے پانی سے، روح کے سوتے کھلنے سے ...
کہا درد بہت  ہے..
کہا کہ درد سے مفر کس کو ...
.
کہا کہ درد کی انتہا کیا ہے؟  
کہا کہ جلوہ ... جب منتہی ہو تو دیدار لازم 

کہا کہ کچھ نہیں آتا ...کچھ نہیں ہوتا ..کچھ اپنا نہیں ہے ...

کچھ نہیں تو تمنائے حرف کو کیا کہیں ......؟؟؟ تمنائے انجیل و حرف لوح و قلم کے رشتے سے جڑے ہیں. ارض مقدس کے شجر میں پلتے ہیں روح کے اسرار ہیں ...شاہ کے غمخوار ہیں ..رہتے ہیں میخوار، چلتے پھرتے اسرار ہیں وحشت کے مارے اٹھتے جنازے ہیں ..مجلس ماتم میں کیا پڑا ہے.  ؟  ماتم شاہد و شہید کیا؟ ہائے یہ کیسا نوحہ ہے جدائی کا جو جدائی سے نکلا ہے ..

یہ نوحہ، ملال  ساز میں بج رہا ہے ...
 دوا ہو جائے...یہ دل کٹ رہا ہے ...
روح ہجر کے اندھیرے میں موت کے قریب، جاں بلب .....روشنی چاہیے......!  

غار حرا کی زمین سے اس زمین تلک فاصلے ...حائل سماوات حامل الہیات ..کامل ذات سے رشتہ پیوست ...کامل ذات محمد و احمد  صلی اللہ علیہ والہ وسلم ... انجیل تمنا،  حدیث داستان،  کلیم طور پہ موسی علیہ والہ وسلم  کی کہانی، ادریس علیہ سلام کی پرواز بھی،  یوسف علیہ سلام کی  کی گواہی بھی،  ایوب  علیہ السلام کا صبر بھی، گریہ یعقوب علیہ سلام کا ....

یہ نشان ہیں آیات ہیں کمال ہیں جو نکل رہے ہیں نوری دھاگے ...محبت کے وظائف بہت بھاری ..
او ویکھو روح سولی اتے .. جان دے نیل ... کیہڑے غم دا بالن اے،گھل گھل جاندی اے