Monday, February 26, 2024
حرف خط نقطہ
Tuesday, February 13, 2024
اقراء : اکتیسویں نشست
Tuesday, February 6, 2024
من گنجل
من گنجل کھول سائیں
گھٹری انج نہ رول سائیں
من گنجل کھلدا نئیں
تو وی مینوں لبھدا نئیں
اندر بڑے جھول سائیں
کتھے روحی کروبیاں
کتھے جن و انس تے حورین
کتھے غلمانِ جنت، کتھے شیطین
سارے کھڑے ایتھے سائیں
تسبیح کردے ایتھے ملائک
حورین دیون تحائف
غلمان تعارف دی کنجی
نوری علی النور کر سائیں
من گنجل کھول سائیں
میتھوں میرے توں نہ رول
میں تے ہاری،سکدی سکدی
ہن بوہا،باری کھول سائیں
چَن وی تو،شمس وی تو
شجر وی تو، گلِ طٰہ تو
تری قسم، رات وچ تو
صبح دا ستارہ بنیا اےتوں
چار چفیرے رشنائی کر
جندڑی دی دُہائیاں سن
صورت صورت وچ توں
لبھدی پھراں تینوں باروں بار
اندروں جندری تری صورت وکھائے
لبھیا اندر، باہر ترا سایا سائیں
Wednesday, January 24, 2024
حمد
Sunday, January 7, 2024
Wednesday, November 22, 2023
قرأت کیوں ضروری ہے
نبی مثل نور ہوتا ہے
Tuesday, October 10, 2023
ذات ِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مناجات
نعت
Tuesday, March 14, 2023
ترا خیال....
Thursday, May 19, 2022
نوری ریکھائیں
Saturday, April 16, 2022
دل اک چراغ
Saturday, March 12, 2022
عبد اللہ شاہ غازی
Monday, February 28, 2022
عشق نصیب ہو جسے ، مر کے بھی چین پائے کیا
عشق نصیب ہو جسے ، مر کے بھی چین پائے کیا
درد جسے سکون دے، نازِ دوا اٹھائے کیا
مرگ ہو جسکی زندگی، چوٹ اجل کی کھائے کیا
میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مُجھے بُجھائے کیا
ٹوٹا ہے دل کا آئنہ، عکسِ خیال لائے کیا
شعر کوئی بنائے کیا؟ مایہ ء فن لُٹائے کیا
غم سے مفر کِسے یَہاں، دیکھے جِگر کے زخم کون
کس کو سنائیں حال ہم، اپنے ہی کیا؟ پرائے کیا؟
ساعتِ وصل حشر تھی صدمہ ء زندگی بنی
بیٹھے ہیں روتے رہتے ہم، کوئی ہمیں رلائے کیا
تاب نہیں سنانے کی، دل کی تمہیں بتانے کی
حالِ ستم زدہ کوئی غیر کو پھر سنائے کیا
سخت ہے منزلِ سفر، رستہ نہ کوئی نقشِ پا
تُو جو ہے میرا رہنما، رستہ مجھے تھکائے کیا
Tuesday, February 8, 2022
احساس کہاں ہے ، لباس کہاں ہے ؟
احساس کہاں ہے ، لباس کہاں ہے ؟
خیال کی اہمیت
کاش پوچھے کوئی لطف محبت،
لمحوں میں ہوتی ہے شَناسائی
انسان انسان سے مخاطب ہوتا ہے اور پتا نہیں چلتا ہمیں کہ درمیان میں حجاب ہے اور خدا کلام کرتا ہے ـ جب نفس کا حجاب اٹھتا ہے یا اٹھتا چلا جاتا ہے یا وہ خود چلمنوں سے جھانکے تو لطفِ آشنائی سے واسطہ پڑجاتا ہے. خدا سے ہمکلامی گرچہ عام نہیں مگر یہ یہ محیط مکان سے لامحیط لامکان تک چلتی ہے. انسان چاہے جتنا گنہگار ہو، جس پر لطافت کی باریکیاں عیاں ہوجاتی ہیں وہ جان لیتا ہے ـــ ایسے اوقات جب وہ عیاں ہو تب تب کیفیات استعارہ بن جاتی ہیں ـــ ذات خود صاحبِ استعارہ ہوجاتی ہے ـــ کتنے اداکار ہیں جو کھیل میں شامل ہیں ... دیکھو مگر جب تک اداکاروں میں سچ چھپا نہ ہو تو فریب ہو جاتا سب کام اور اللہ فرماتا ہے
واللہ خیر الماکرین
خیال ملنے لگ جاتے ہیں، حق کے خیالات صورت صورت مل جاتے ہیں ــ کسی کو جذب صابر پیا کلیری سے مل جاتا ہے تو کسی کے قلم میں ہجر کی آتش رومی سے کہیں خسرو سے مل جاتی ہے ... خیال فیض ہوتے ہیں. جب برتن صاف کردیا جاتا ہے تب منسلک کا اتصال ہوجاتا ہے یعنی کہ نسبتوں کا فیض، نسبتوں کو مکمل کردیتا ہے ـــــ فیض کیسے مکمل ہوتا ہے؟ جب نفس پر روح کا خیال غالب آجائے ـــ نفس کہتا ہے لا الہ ـــ روح کہتی ہے الا اللہ ــــ فنا مکمل ہوجاتا ہے جب یہ خیال کو شاہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کچھ مل جاتا ہے ـــــ
ذات کی پریتم اچھی ہے اور خود کی نفی ذات کیجانب لیجاتی ہے ـــــ تب وجدان رہنما ہوجاتا ہے ... تحت الشعور کی روشنی پھیلنے لگ جاتی ہے ــــ وجدان مانند عرق نیساں کا موتی ـــ جس پر نور کے چھینٹے اسکو ایسی روشنی دیتے کہ سب حجابات ہٹا دیے جاتے ہیں ــــ یہ مقام ایسا ہے کہ افلاک کے گرد زمین کی گردش تھم جاتی ہے اور سکتہ حیرت میں وہ وہ دکھا دیا جاتا ہے جسے کبھی شعور دیکھ نہیں سکتا
وسعی کرسیہ السماوات والارض
اسکی کُرسی کیا ہے؟ جب کہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ
اللہ نور السماوات والارض
کرسی ـــ استعارہ ہے اسکے اختیار کا کہ جَہاں چاہے جیسے چاہے وہ چلائے کہ ہرشے میں نور اسکا ہے ـــ ہر شے میں خیال اسکا ہے ـــ ہر شے میں اختیار اسکا ہے ـــ کرسی کا درک و فہم ان پر کھلتا ہے جن کو وہ صاحب امر و دلِ بینا عطا کردیتا ہے ــ دل بینا کا شعور ایسی فراست عطا کرتا ہے جس کے لیے فرمایا گیا
مومن کی فراست سے ڈرو ـــ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے
تب بادل کا گرجنا الگ اور برسنا یعنی رحمان و رحیم سے قہاری وجباری کی فہم مل جاتی ہے تو کہیں بجلیاں نشیمن گرادیتی ہیں ..کتنے دل ٹوٹ کے تسلیم کا وضو کرلیتے ہیں ..چاہے وہ شہد جیسا میٹھا گھونٹ بن کے ملے.یا نیزے پر سرکٹانا پڑے ـــ بندہ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا ہے.
انسانوں کی کہیں مثال پہاڑ سے دی جاتی ہے تو کہیں شجر سے دی جاتی ہے ــــ شجر زیتون ایسا درخت ہے جسکو الہام سے شبیہ دی جاتی ہے ـــ جب انسان کا قطبی ستارہ تاریکی سے سحر میں طلوع ہوجاتا ہے یعنی کہ رابطہ مکمل پختہ ہو جاتا ہے تب الہام ذرائع سے ملتا جاتا ہے ــــ جب ذریعہ ذریعہ رہنما ہونے لگتا ہے تب یہ سمجھ لگتا ہے کہ آیت اللہ ـــ اصل میں وجہ اللہ ہے ـــــ جس کو صورت صورت میں یار کی جلوہ گری مل جائے تو اس سے بڑی کامیابی کیا ہو!اس لیے عارفوں کی زمین کا آسمان خدا بذات خود ہوتا ہے
اللہ نور السماوات والارض
لن ترانی سے من رانی کا سفر طے ہوجاتا ہے اور آنکھ کو بینائی مل جاتی ہے جب دیکھنے والے ہمیں دیکھیں ... آنکھیں اسکو پہنچ نہیں سکتیں مگر وہ آنکھوں کو پالیتا ہے اور نور.عطا کرتا ہے ــــ جس سے دل دید کے قابل ہو جاتا ہے
انسان کا دل عرش جیسا ہے اور جب جلوے کا احساس ہو تو علم ہوتا ہے وہی محرمِ راز ہے ـــ جہاں جہاں الہام ہے ـــ جب وہ پرواز دیتا ہے تو بیضائی ہالے دل پر کیے رکھتا ہے...جہاں جہاں اسکا جلوہ ہو ـــ وہ مانند پانی.شفاف ہوتی ہے ـــ دراصل یہ راستے وہ خود طے کرتا ہے تاکہ وہ اپنی دید کرے ـــ اسلیے اسکا دل پر مجلی ہونا.راز ہے! یہ راز کی بات ہے نا وہ محرم راز ہے! وہ دکھ سکھ کا ساجھی ہے ــ وہی ماہی ہے ــــ ذریعہ ذریعہ اس سے نور چھلکتا ہے چاہے یہ صورت ہو، چاہے کوئی تحریر ہو، چاہے پتھر ہو چاہے تصویر ــ جب نور ملتا ہے تب دل وضو کرتا ہے، پانی مل جاتا ہے اور بندہ کہتا ہے کہ پانی ہے! پاکیزگی ہے! طہارت ہے!
قران کا لفظ لفظ آیت ہے اور روح خود اک آیت ہے ـ آیت آیت سے مل جائے تو نور علی النور کی مثال سب در وا ہونے لگتے ہیں ..
دید
ایلف اور سیپ
حصہ اول
پسِ تحریر
ماؤنٹ حینا میں اک غار میں نو سو سال کی بڑھیا رہتی تھی، اسکا اک مشغلہ تھا! اس کی ماں جو تین سو پینسٹھ سال کی تھی روز اس کا مشغلہ دیکھا کرتی تھی ... غار سے باہر جاکے آسمان کو دیکھنا اور کہنا
"ابھی صبح نہیں ہُوئی "
یہ کہتے وہ بُڑھیا واپس دم سادھ کے بیٹھ جایا کرتی تھی .... اک دن وہ اسی سکتے میں تھی، اس کی ماں نے اسکو جھنجھوڑ کے اُٹھایا ... اس نے آنکھ کھولی تو حیرانی سی حیرانی تھی ... وہاں اسکی ماں نہیں کھڑی تھی، وہ کھڑی تھی .... اس نے ماں کی شکل میں خود کو دیکھا تھا .. وہ اک بڑھیا کی شکل میں خود کو دیکھ رہی تھی ..اس نے خود پر نظر ڈالی، بڑھیا کا نام سیپ تھا اور اسکی ماں کا نام ایلف تھا .
.. ایلف اور سیپ میں کوئی فرق نہ رہا تھا، نو سو سال گزر چکے تھے ....
"آج میں تمہیں برسوں کا راز بتاؤں گی " ایلف بولی
"کیا؟ " سیپ نے کہا
ایلف اٹھی اور گول بیضوی کرسی سے چھری اٹھا کے دیوار پر دے ماری، وہاں پر سوراخ ہوگیا ....! نیلا پانی نکل شُروع ہوا اور غار کی ساری دیواریں سبز ہوگئیں ... ایلف اور سیپ اک انجانے جہاں میں داخل ہوگئیں ... وہ جہاں دُنیا تھی .... گویا وہ دنیا میں نہیں رہتی تھیں.
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
اسکی اور ماں کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے، ماں کہتی تھی کہ روٹی گول ہے اور وہ کہتی تھی " نہیں، یہ چوکور ہے! ماں کہتی کہ انڈا نیلا ہوتا ہے مگر وہ کہتی سبز ہوتا ہے! ماں کہتی درخت سیاہ ہوتے اور وہ کہتی درخت نیلے ہوتے ہیں .....
جب اس نے جنم نہیں لیا تھا، تب بھی وہ اپنی ماں کے ساتھ رہا کرتی تھی. اک دن ماں نیلے آکاش تلے بیٹھی تھی اور کچھ کاغذ پکڑ کے بنا رہی تھی
اس نے پوچھا "کیا بنا رہی ہو؟ "
ماں بولی " سیپ "
اس نے کہا سیپ کیا ہوتا؟
وہ بولی "سیب اک پنجرہ ہے، جس کے اندر درد قید ہوتا ہے "
اسے تب سے لگنے لگا کہ وہ اپنی ماں کے اندر قید ہے،وہ اسکی وہ روح ہے، جو اس سے پہلے پیدا ہوگئی تھی تاکہ اس کے اندر وجود رہتے اپنی شناخت کے دھن کو کالے سے سفید کرسکے ....
اس نے اپنی ماں کو بولا "ماں، تم کو مصوری سے کیا ملتا ہے؟ "
ماں بولی " وہ کاشی ہے نا، وہ مسکراتا ہے جب میں رنگ کینوس پہ اتارتی ہوں "
اس نے پھر کینوس پر اک سیپ ابھرتا پایا جو کہ زرد رنگ کا تھا، جس کے ارد گرد سفید ہالہ تھا، جس کے اک حصہ کھلا ہوا تھا اس میں سے سرمئی سی روشنی نکل رہی تھی....!
ماں نے قربانی دے دی! اس نے وہ سیپ اسے دے دیا اور کہا اس کی حفاظت کرنا ورنہ کاشی ناراض ہوگا! سیپ اور ایلف دونوں میں تب سے دوستی ہوگئی! وہ کہتی کہ انڈا گول ہے توسیپ کہتی ، "ہاں، ماں تو ٹھیک کہتی ہے! وہ کہتی کہ درخت سبز ہے تو جوابا وہ بھی کہتی کہ ہاں ماں سب اچھا ہے!
جب وہ اپنی ماں کی وجود میں ہلکورے لے رہی تھی، وہ تب بھی اس سے بات کیا کرتی تھی!
اک دن ماں نے اس سے کہا "ظلم کا زمانہ ہے، ستم کی آندھیاں ہیں، تم اس دنیا میں آکے کیا کرو گی؟ "
اس نے اسکے وجود کو جھٹکا دے دیا، ماں نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا اور کہا کہ ماں برداشت کرلیتی ہے، دنیا بُہت ظالم ہے!
مائیں سچ کہتی ہیں کہ دنیا بُہت ظالم ہے!
لوگ اس کے گرد بیٹھے تھے جیسے وہ کوئی دیوی ہو ...مگر لوگ اسکو سراہ نہیں رہے تھے بلکہ پتھر مار رہے تھے! سیپ تب اک سال کی تھی! اس نے آنکھوں سے اس کو اشارہ کیا مگر وہ تو پتھر بنی ہوئی تھی! اک پتھر اسکی پیشانی پہ لگا اور خون نیچے بہنے لگا ..جب وہ نیچے بہا، جو اس نے دیکھا وہ لوگوں نے نہ دیکھا ...خون میں اللہ کا نقش تھا! اسے یقین ہوگیا کہ اسکی ماں اللہ والی ہے! ظلم ہو رہا تھا .. شیطان کا حج تھا وہ، لوگ پتھر اک مقدس دیوی پر پھینک رہے تھے! جب وہ مدہوش سی ہونی لگی تو یہ حج مکمل سا ہوگیا .... ہجوم ختم ہوا تو اس نے ماں سے پوچھا
"تم نے کیا کیا؟ "
وہ بولی "چوری پکڑی تھی "
اس نے کہا کہ کیسی چوری؟
جوابا اس نے کہا " دو کھلاڑی جوا بازی میں جیتنے لگے، میں نے ان کی بازی پلٹ دی "
وہ بولی "پھر کیا ہوا؟
ماں نے کہا کہ شیطان نے مرے ہاتھ باندھ دیے اور کہا ہمارے رسوم کے خلاف چلنے والے پر "کرو " کی رسم واجب ہوجاتی "
میں نے پوچھا "کرو کیا ہوتی؟
وہ بولی "شیطان کہتا ہے کہ چوری اک مقدس کام ہے اور جو ولی اسکو روکے گا، اس پہ پتھر پڑیں گے ... "
تب مجھے احساس ہوا "کرو " کی رسم کیا ہوتی ہے! یہ شاید ابن آدم سے چلی رسم ہے جو روحوں کے ساتھ جنم لیتی ہے
....!
سر زمینِ حشر سے خاک کے پتلے کو ہّوا دے. ...
سر زمینِ حشر سے خاک کے پتلے کو ہّوا دے. ...
موتی سمجھے کوئی، آبِ نیساں سے جِلا دے. ..
شراب جاودانی ملے، درد ہجر کو ایسا مزّا دے ..
اَحد کی زَمین سے جبل النور تک منظر دکھا دے ......
حِرا ہی آخری مقام ٹھہرے، مسجد حرم میں جگہ دے ....
جو ہو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے معتبر
اس کو اعتبار کی آخری حدّ تک پُہنچا دے ....
شام ہجر کی سحر میں پل پل وصل کا مزّا دے ....
آہ! وہ لطفِ چاشنی .... مرگِ وصل میں، دکھ کا نشہ دے ......
مئے عشق ہے! آسانی سے نَہیں ملتی .....
مسافت کے اندھیروں کو صبح نُو سے مِلا دے
یہ آئینِ نو کی شمع! یہ دلِ حزین ملال سے پُر ....
فضا میں خوشبو ہو، آنکھ میں نَمی ہو،کسی بات کا گلہ باقی رہے، کچھ گلہ باقی ہے؟
اوج دے، بندگی کے جوہر خاک میں بَسا دے .....
مقدر لکھا جاتا ہے خیالات سے، منور ہوتا ہے جہاں دل کی کائنات سے، جہاں زَخموں سے نَڈھال، ہر آنکھ شَرر بار،ہر دل مشکبار ....کیا جلوہ کی تاب نَہیں؟
گناہ گار ہستی کے درد بھی بیشمار، ہجرت بھی نہیں، لذت وصلت بھی نہیں، جبلِ رحمت کسی نعمت سے کم نہیں
ایک صدا پردہ ء تخیل چاک کرتی ہے، حجابات بے ردا کرتی ہے اور تابانی سے عالم منور کرتی ہے اور رخِ لیلِ کو بے نقاب کرتی صبح کا عندیہ دیتی ہے.
ضوئے شمس سے زمانہ روشن ہے .... نئی شام کا ماہتاب مدام شوق سے منور ہے ... نئی صبحیں تارِ حریر ریشم کی ، نئے جلوے یقین کے ....بگڑی بنتی ہے، آنکھ دیکھتی ہے، مستی ء الست کا نشہ، دائم جسکا جلوہ، احساس کا تلاطم برپا...
جام جم پلائیے، بادہ خوار بنائیے ،سادہ قصہ ہے اور درد والی بات، ساتھ بس ساتھ کی نوید سے آہنگ نو سے ملا دیجیے
ُحسن کی نُمو ہورہی ہے اور ضو سے مو مو میں روشنی کو بَہ کو ......، وادی ء حِرا میں ایسے مثال کو لایا گیا کہ حُسنِ بے مثال کے سامنے مثال ہیچ! وہ عالم لامثال سے باکمال حُسن کے مالک اور ملکوتی حُسن نے اندھیرے میں جگہ جگہ ایسے مطالع روشن کیے کہ جہاں جہاں کرن وہاں وہاں سورج تھا. یہ سورج جس کے دھارے سے تمام ستارے کرنوں کی صورت بکھیر رہے تھے .. وہ کائنات ہے اتنی بڑی ہے کہ تمام کائناتوں کو سموئے ہُوئے ہے.اس حسن میں تاب کتنی ہے کہ کہیں دل شق ہوکے پڑا رہے اور انگشت کے اشارے سے جڑ جائے پھر، کہیں مسکراہٹ سے دل میں کھائیاں اور کھائیوں میں روشنی کے انبار ...
رنگ نے رنگ سے مانگا اور دیا گیا رنگ
.رنگ تو اللہ کا بہترین ہے. یہ اپنے جذبات کا رنگ ہے.. مصور نے بَرش کینوس پہ ڈالے تو رنگ سات تھے مگر بکھرا انبار گویا قوس قزح ہو .... اس نے کینوس پر خصائل کے رنگ ایسے بھرے کہ خصائل مجموعہ ہائے خوش خصال مثال باکمال ہے . اسی سے نکلے باقی تمام رنگ، جذبات کے، احساسات کے رنگ.
رنگ کی مانگت
رنگ کی پہچان
وہ ملے جو اپنا
اپنا تو ہے سچا
.
فقیر مرد حرم سے مری ملاقات ہوئی
جب انسانی ہستی قرب کی متمنی ہو اور خواہش کی لگام بے زور ہوگئی تو وجہِ شوق کچھ بھی باقی نہیں رہتا ہے.
کھو جائیں گے کیا؟ بحر ہو جائیں کیا؟ہستی کھوئی ہے ، زندگی سوئی ہے! آدمیت سے ناطہ کچا دھاگا ہے اور ٹوٹ جاتا ہے. ایک یاد ہےجو سنبھال لیتی ہے ورنہ کیا بے سکونی کی لہروں کا تموج! یہی جینے کا کمال ہے . ہمنشین، دیکھ رنگ میرا، ڈھنگ میرا، چال میری، حال میرا
نور سے ملنا، کیا سعادت ہے! نور سے ملنا ہے بس اسلیے زندہ ہیں، زندہ ہیں کب کے مرگئے ہیں آرزو میں، آرزوئے ہستی سے بکھر رہے ہیں سندیسے، جہاں چلے وہیں پر رکے اور وا لبوں سے ادا ہوا ...
تم سے لذت وصال، میں حیرت وصال
تم دودِ ہستی ہو، میں ہوں شوقِ کمال
یہ آرزو کی کتاب، دل کفن مانند گلاب
یہ سحاب آرزو ہے، باردگر برسنا چاہے گا
یہ دل کی زمین ہے، ترے ابر کی منتظر
میری ہستی میں خوشبوئے لعل و زر ہے
میں مانند کافور جلتی شمع کا دھواں
میں رزم گاہ کا ترانہ، جذبات سے نڈھال
اسی شوق میں اجنبی سرزمین سے تعلق رکھنے والے مل جاتے ہیں ..اور پکار ابھر آتی ہے، لفظوں کے بھیس میں نمودار ہوتی ہے اور حقیقت آشکار ہوجاتی ہے
فقیر مرد حرم سے مری ملاقات ہوئی، یوں ہوئی کہ بیشتر سر ِ مناجات میں کھوئی ہوئی تھی روح ضربوں میں ...، مضراب ہستی اول، عشق کی لو پیش پیش ، میں خواہش شوق نور، تو خواہش شوق حضور، ترا دل حجابات سے ماورا، مرا دل حجابات کی زمین، تو شوق قدیم ہے، میں رستگان رفعت مشعل، میں طفل مکتب، تو مشعلِ نور .. تری حقیقت کامل کیا ہے؟ یہ جاننا ہے کہ جانتے ہیں!
اے نورِ ازل، تو روحِ رواں، تو سالارِ قافلہ ، میں ترے حلقہ عشق کا وہ روشن دیا، نہیں جس کے ساتھ سے مفر شب نور کو، دائم تیرا سفر، قائم ترا وصال، تری باکمال ہستی، مری نیم شبی..... تو پیش حق ہے میں شوق منظر، ترا عشق ازل ہے تو حق ابد ہے ، تو جلتا دیا ہے چراغ الوہی ہے،تو معبود حق کی آیتوں کی خاص آیت،تو حق کا تراشیدہ قلم، سخن ور تو، پیامبر تو.....!
میں خاک! تو خاک میں سجی افلاک کی شمع
سنو!
یہ مشعلِ میم! یہ سرمہ ء وجدانی، طوفان روپ بدل بدل کے آتے نہیں ... طوفان ہجرت کے، تیر جدائی کے ... سہارا ہے مشعلِ میم ...
سن شعر گو!
حکایات بہت ہیں! اضطراب کم ہے
داستان سن! دھمال کے ساتھ!
اب مرا عشق ضربوں سے آگے ہے
مجھے کہنے کو اک ھو کافی ہے
میرا عشق مگر سرمدی ہے
حریمِ اول سے حریمِ دوامت لے لیں، کچھ اور قدامت کا نور لے لیں. کچھ حکایات سے منور سینہ کرلیں. کچھ تو روشنی لے لیں. خواہش یہ رہی کہ شعور شعور نہ رہے، لاشعور لاشعور نہ رہے. روحی ہو، صبوحی ہو، شبنم ہو! رفعت ہو. پیش حق لکھوں ایسے کہ وہ مسکرائے! بس اجازت خامہِ سخن درکار ہے. دل تو کب سے فگار ہے آنکھ بھی اشکبار ہے.
گگن کب سے لال ہے، سایہ افگن محبوب کے بال ہیں، وہ محبوب جن کے میم سے تراشا گیا زمن در زمن وقت کو، وہ محبوب جن کی میم سے زمانہ شناسا ہے.......
Monday, February 7, 2022
پری چہرہ
جتنے الیکڑانز کائنات کے مدار میں ہیں،
جتنے سورج کہکشاؤں میں ہے،
جتنے دل زمین پر ہے
اے دل! قسم اس دل کہ سب کے سب انہی کے محور میں یے
جتنی روشنی ہے، وہ جہان میں انہی کے دم سے ہے
لکھا ہے نا، دل، دل کو رقم کرتا ہے
لکھا ہے نا، جَبین سے کَشش کے تیر پھینکے جاتے ہیں
لکھا ہے نا، سجدہ فنا کے بعد ملتا ہے
اے سفید ملبوس میں شامل کُن کے نفخ سے نکلی وہ روشنی
جس روشنی سے لامتناہی کائناتوں کے دَر وا ہوتے ہیں
تو سُن لیجیے!
ان سے نسبتیں ایسی روشن ہیں، جیسے زَمانہ روشن ہے
جنکی قندیل میں رنگ و نور کے وہ سیلاب ہیں کہ سورج کا گہن بھی چھپ سکتا ہے اور چاند اس حسن پر شرما سکتا ہے
وہ ا روشن صورت درد کے بندھن میں باندھے اور خیالِ یار کے سائے محو رکھتے اور کبھی کبھی فنا میں دھکیل دیتے ہیں
تو سُن لیجیے!
تو سُنیے، خاک مدینہ کی چمک کا اسرار
مہک و رنگ و نور سے نگہ سرشار
روئے دل میں آئے صورتِ یار بار بار
کرے کوئی کیسے پھر اظہار
وہ مصور کا شہکار
جب کوئی خیال میں جھک کے قدم بوسی کرے تو فَلک کو جھک کے سَلام کرتا پائے!
محبت میں کوئی نہیں تھا، وہی تھا ..
یہ خاک کچھ نہیں، وہ عین شَہود ہے
ہم نے مٹنے کی کوشش نہیں کی کہ یاد کرنے کو وہ پانی زمین میں شگاف نہیں کرسکا ہے وگرنہ کیا تھا فنائیت میں "تو باقییست "کا نعرہ لگاتے رہتے ....
اے زاہدہ، عالیہ، واجدہ، مطاہرہ، سیدہ، خاتون جنت!
کتنی عقدیتوِں کے افلاک وار کے کہتی ہوں .... سلام
اے آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتنے دل یکجا ہوتے ہیں، کڑی در کڑی در سلسلے سے مل کے سلام بھیجتے کہتے ہیں کہ جلوہ جاناں پر لاکھوں سلام
مصطفوی چراغوں کی تجلیات دِیے، شبیر و شبر کی کنجی
کتنے مومنین کی بنات آپ کے پاس آنے کو بیقرار ہیں، روح صدقہ ء جاری پانے لگے گی اور کہے گی کہ نواز دیجیے،
جب کوئی چہرہ ماہناز کو دیکھے تو جذب کتنی کائناتوں کے در وا کرتا ہے ... وہ کائناتیں لیے ہیں
وہ حجاب میں عین نمود ہیں........
لن ترانی سے رب ارنی کے درمیان ہستیاں بدل دی گئیں تھیں مگر اے نور حزین! فرق نہ دیکھا گیا، جب زمین میں شگاف پڑتا ہے تب کچھ نیا ہوتا ہے ...میرے ہر شگاف میں نمود ہے،
یہ کمال کے سلاسل میں تمثیل جاودانی ہے کہ رخ زیبا نے دل مضطر کے تار ہلا دیے ہیں، مضراب دل ہو تو کتنے گیت ہونٹوں پر سُر دھرنے لگتے ہیں، کتنے دل جلتے گلنار ہوتے یقین کی منزل پالیتے ہیں اور دوستی پہ فائز ہوجاتے ہیں ..
صورت شیث میں موجود یعنی کہ حق کا جمال کتنا لازوال ہے، تحفہ ء نَذر بعد حاصل اک دوا ہے ...
میں نے ساری کائناتوں سے پوچھا کون مالک
کہا اللہ
میں نے پوچھا کون میرا دل؟
کَہا بس وہ، بس وہ، بس وہ
بس میں نے فرق سیکھ لیا ہے مگر فرق تو وہی ہے جسکو میں نے کہا ہے، درحقیقت اک رخ سے تصویر دیکھی کہاں جاتی ہے.
یہ دل جھک جاتا ہے تو اٹھتا نہیں ہے
پاس دل کے اک نذر کے کچھ نہیں کہ یہ لفظ ادعا ہیں ..یہ دل سے نکلتے ہیں تو دعا بن کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ...
میری آنکھ سے دل کے نیل دیکھے؟
دل کے نیل پہ افلاک گواہ ہیں
جی ان سے خون رس رس کے ختم ہوا کہ جدائی کی تیغ نے جان نکال دی ہے اور سارے وہ پل، جن سے کھڑا رہنا تھا، بیٹھ گئے ہیں
وہ کشتی جس کے بادبان طوفان لے جائے وہ کیسے چلے
بس کشتگان رہ وفا نے لکھی ہے تحریر کہ بتادے بنام دل حیدری آواز یے کہ وہ ہیں، ہاں وہ نقش رو ہیں، پری چہرہ روبرو ہے ...