Thursday, December 3, 2020

نوازش ‏و ‏اکرام

اکرام ​

''اے میرے ہم شناس ! تجھے اپنی مٹی کی قسم ! تجھے اپنی ہجرت کی قسم ! تجھے اپنی بینائی کی قسم ! تجھے اپنی بصیرت کی قسم !''

''میں تجھے تجھ سے بڑھ کے چاہتا ہوں ۔تیری تکلیف تجھے بصارت دے رہی ہے ۔ انسان اضطرابِ مسلسل سے سیکھتا ہے ۔ مجھے اپنی غفاری کی قسم ! میں انسان کو اس کی حد سے زیادہ نہیں آزماتا ۔''

''میرے دلنشیں ! سن ! میری عطاؤں کی حد کی انتہا نہیں ہے ۔ میں نوازنے پر آؤں تو دوں زمانہ ! میری قدرت سے کچھ نہیں بعید نہیں ! کبھی سورہ القلم کو غور سے پڑھا ہے ؟ اگر پڑھا ہوتا تو میرے در پر سوال لانے کے بجائے حکمت کو سمجھتے سجدہ شکر ادا کرتی ۔۔''

''میں اس جہاں کو خالق ہوں ۔میں نے یہ جہاں سیر و تفریح کے لیے پیدا کیا کیا ؟قسم اس نور کی جس کو روح کی صورت امر کیا ہے اور قسم مجھے اپنے قلم جس کی سبب میں نے تقدیر کو رقم کیا اور قسم اس قلم کی جس کی سبب انسان کو لکھنا سکھایا ۔۔انسان نہیں جانتا ہے مگر اس کے اندر میرا نور چھُپا ہے ۔ وہ جو مشاہدات کرتا ہے اور اس کی زندگی جن تجربات سے سے گزرتی ہے اگر اس میں مجھے پاتا ہے تو میں بھی اس کو پاتا ہے ۔ آئنے کا آنئے سے کیا حجاب ؟ سوچنے والے سوچتے ہیں ! میں چھپا ہوا خزانہ ہوں کسی صورت مل جاتا ہے مگر میرے جلوے کے بغیر عبدیت کا حق ادا نہیں ہوسکتا ہے ۔۔۔''

''اے نور ازل !
آپ سے کتنے آئنے نکلے !
ایک آئنہ نور علی نور کی مثال
ترا جلوہ لیے ہوئے ۔۔۔
میرے نصیب کی محفلیں ؟
اے مولا کریم !
وہ محفلیں ! بڑی یاد آتی ہیں
میری قدامت مجھے رلاتی ہے''

سُن خاکی !
سن ذرا غور سے !
کیا میں نے نہیں کہا ہے کہ میں نے قلم سے علم سکھایا!
سب کچھ تیرے اندر ہے
کبھی غور تو کر !
سوال نہ کر اور حجاب نہ کر !
تو میرا اور میں تیرا ہوں


''مولا کریم ! آنکھوں کی اشک بیانی ! یہ سمندر کی طولانی ! یہ مقام تحیر ! یہ عبرت کدہ ہائے دنیا ! یہ رنجشوں کی بیانی ! ہائے مولا !
وقت ضائع کردیا ! میں اپنے جلوے میں مگن ہوں اور مجھے اس سے دوری تڑپاتی ہے ! اپنے حسن میں مست ہوں ! اپنی بصیرت کی کمی رلاتی ہے ! میں تیری آواز سنتی ہوں مگر آواز کی دوستی نہیں ہوتی مجھ سے ! ہائے یہ دوریاں ! ہائے یہ مجبوریاں ! کب یہ بیٹریاں دور ہوں گی !

سن خاکی !

لوح و قلم پر جو لکھا ہے وہ پورا ہوکے رہتا ہے ! اس میں ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگنی ! تیرے باغ میں مسرت کے پھول کھلیں ! کتنی دیر لگے گی ؟ وقت کی گردش دائرے میں مقید ہے اور سب پرانا تجھے بمع سود مل رہا ہے ! کیا یہ اکرام کم ہے ؟ تجھ پر انعام کم ہے کیا ؟ صبر و حوصلے ! ان کے ساتھ میرے راستے پر چل ! میں تجھے وہ سب دوں گا جو تیری چاہت ہے کہ تو نے پورا کرنا ہے جو میری چاہت ہے ۔۔۔۔ جتنا فرق مٹتا جائے گا ! خاکی تو میرے قریب ہوتا جائے گا ! پھر عالمِ حیرت میں داخل ہوتے تجھ پر وہ راز منکشف ہوں گے کہ تو بھی انگشت بہ دنداں ہو جائے گا ! سنبھل سنبھل کے چل اے زائر !

انسان جب اس دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اس کی معصومیت مجھ سے قریب کیے ہوئے ہوتی ہے ۔جنت و دوذخ کا قریب سے مشاہدہ کرتا ہے ۔ وہ مجھے سوچتا ہے کہ اس کا خالق کون ہے ؟ یہ سوال اس کے دل میں ''ہم '' ڈالتے ہیں ۔ اس طرح کسی کو کچھ دینا ہو تو اس کی ''خواہش '' بھی ہم ہی پیدا کرتے ہونا ہے ۔ میری مملکت کے دائرے میرے قاعدے و اصول کے مطابق چلتے ہیں مگر اگر سب انسانوں کو ایک ہی اصول پر چلا دوں تو میری عطا ! میری جزا ! میری غفاری ! میری ستاری ! میری کریمی ! کون جان پائے گا ؟
کسی کو میں عفو سے ملتا ہوں کسی کی عیب پوشی سے تو کسی کو عطا سے ۔۔۔! میرا قانون کسی اٹل دائرے میں نہیں چلتا ہے بلکہ اس میں ''کمی و بیشی '' سے فرق پیدا کرنا کائنات کا اصول ازل ہے ! میں مالک ہوں تو عبد ! سب سے بڑا فرق تو یہی ہے ! پر دیکھ میں تجھے ستر ماؤں سے بڑھ کے چاہتا ہوں ! تو مجھے اسی طرح چاہے تو کیا حجاب رہے گا ؟ کیا نقاب رہے گا ؟ فراقِ یار بھی وصال ہے اگر تو مجھ سے محبت میں ہے اور وصال یار بھی فراق ہے اگر تو مجھےسے دور ہے ۔

کائنات ‏کی ‏پہچان

 حقیقت

ازل کی جستجو ابد تک قائم ہے ۔ انسان بھی ازل کی حقیقت کا شکار ہے مگر اس کا احساس وہ کر نہیں پاتا ۔ دنیا میں آنے کا ایک دروازہ ہے اور جانے کا بھی دروازہ ہے ۔ زائر جس طرح دنیا کی سیر کرتا ہے ۔ انسان بھی اس دنیا کی سیر کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے کہ اللہ دیکھ کہاں کہاں ہے ؟ کیا موجوادت ِ عالم اس کی تشبیہ پیش کرتی ہیں ۔ ایک پتھر کو انسان سے تشبیہ دی جاتی ہے کیا انسان پتھر ہوتا ہے اور کسی کے دل کو کانچ کی کرچیوں سے دی جاتی ہے ۔ ہر حساس روح نشانیاں ڈھونڈتی ہے اور کچھ اس سے حقیقت پالیتے ہیں جبکہ کچھ مجاز تک رہتے ہیں ۔ سب سے برے تو وہ ہوتے ہیں جن کو نظر آتا ہے مگر آنکھیں بند کرلیتے ہیں جس طرح کبوتر خوف سے آنکھیں بند کرلیتا ہے ۔ اسی بات کا ذکر ہے جب انسان پڑھتا ہے : عمہ یتساءلوں '' کس چیز کا سوال کرتے ہیں ، وہ بے یقین ہیں ، ان کے دلوں میں خوف ہیں کہ حقیقت ان تک آپہنچی ہیں اس مخمصے میں ہیں کہ اس کو مانیں یا نہ مانیں ۔۔عذاب تو وہ چکھ کر رہیں گے ۔۔۔اللہ کا استدالال بھی تضاد سے شروع ہوتا ہے ۔ دوستو ! بے یقین لوگوں کے سامنے یقین سے اپنے دلائل رکھتا ہے ۔

کائنات کی بناوٹ دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین ہمارا بچھونا ہے جس پر سیدھا لیٹ کے ہم آرام کرتے ہیں ، اسی زمین سے پھل اور سزیاں اگتی ہیں اور یہی زمین ہمیں جڑی بوٹیاں دیتی ہے اور عورت کی مثال بھی زمین کی سی جبکہ آسمان کی مثال فلک سی ہے جو زمین کو گھیرے ہوئے ہوئے ۔ جب ہوائیں تیز چلتی ہیں تو بادل بنتے بارش برستی ہے اور زمیں ہریالی ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ ہمیں بتایا ہے کہ یہ میرا نظام ہے اس کو غور سے دیکھو اور اس میں مجھے تلاشو! اور جب تلاش چکو تو میرے قریب ہوچکے ہوگے ۔ اگر زندگی دی تو موت رکھی ہے ۔

میں نے کبھی موت کی اصل محسوس نہیں کی تھی مگر ایک دن نانا ابو کی لاش کے سامنے کھڑی ان کے بے جان گرم وجود کو ہاتھ لگاتی تھی کہ یہ زندہ ہیں یا جاچکے ہیں ۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی کہ گئے بھی بڑی تکلیف سی تھے ۔ میری روح کانپ اٹھی کہ پہلی دفعہ زندگی میں موت دیکھی اور میں نے مشاہدہ کیا ۔ ناجانے کیوں مجھے سب اردگرد ماموں اور خالائیں تماشائی لگے ۔ میں نے سوچا اگر یہ رو رہے تو کردار نبھاررہے تھے ۔ ان کی لاش باہر رکھی گئ اور اللہ کی رحمت برستی رہی اور نعش کو ڈھانپ دیا گیا جس بے جان وجود میں سوائے ہڈیوں کے کچھ نہیں ملتا تھا ۔ مجھے بار بار محسوس ہوتا تھا وہ زندہ ہیں ۔۔۔میں نے قران پاک پڑھنا شروع کیا مجھے نہیں معلوم میں کب سوئی مگر اتنا یاد کہ میری رات قران پاک پڑھتے گزری ۔ اگلی صبح مجھے یقین آیا ان کی موت ہوچکی ہے اور سب دھاڑیں مار کے رو رہے ہیں جبکہ میں خاموش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے کبھی رونا نہیں آیا تھا مگر روح کانپ اٹھی تب میں نے بنا کسی طرز و طریق کے نعت پڑھی اور بلند و بالا درود پڑھا کہ میری اندر کا طوفان تھم سکے ۔۔۔۔ موت نے مجھے پکارا تھا اور جب موت مجھے آلے گی تو کیا ہوگا --------وہ تو خوش قسمت تھے کہ ان کی مٹی بارش کی وجہ سے گیلی ہوچکی تھی ۔ گورکن نے بلایا کہ قبر خراب ہوچکی ہے ۔ قبر درست کروائی تو دس دن بعد بھی ان کی نعش سے مشک و کافور کی خوشبو اٹھ رہی تھی اور ان کے جسم میں کہیں کوئی رد و بدل اور تبدیلی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔مسلسل تین سال تک اتنی اذیت تو سہی تھی کہ جاتے جاتے اپنے گناہ بخشواتے گئے ۔۔دنیا سے جاتے اذیتوں کا پہاڑ سہتے ان کے جسم استخوانی ہوگیا!

میں کبھی اپنے نانا ابو کے قریب نہیں رہی ہوں مگر وہ جنازے کا منظر ---اللہ اکبر کی تکبیریں ---نعت خوانی اور قران خوانی پھر اس کے بعد ''اللہ ھو'' کا ذکر جو کے سب مرد حضرات نے کیا ---اس ذکر کی ہیبت مجھے آج تک یاد ہے کہ پورے گھر میں ''اللہ ھو'' کی صدا اتنے زور سے گونج رہی تھی کہ جسم کا رواں رواں کانپ رہا تھا جیسے یہ ذکر کرنے والے بھی انسان نہیں ہیں یا ان کے غم اس موت سے اس قدر افسردہ ہیں کہ اپنا غم اس میں غلط کرنے کی دل کے ہر تار کو اس ذکر سے جوڑ رہے تھے ۔۔ کیسے بھول جاؤں موت کا وہ منظر جس نے میرے ذہن میں نانا ابو کی تصویر نقش کردی ۔۔۔۔۔۔۔۔ موت سے پہلے ایک دن ان کے پاس گئی ۔میں اور میری بہن ان کے پاس بیٹھے -------انہوں نے غالب کے شعر دکھ بھرے انداز میں پڑھنا شروع کردیے ۔میں نے نانا ابو سے پوچھا : نانا ابو ! آپ تو پڑھے لکھے نہیں پھر آپ کس شعر کیسے آتے ؟ کہتے میں تجھ سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں ۔۔۔وہ واقعی بڑے جگر والے تھے کہ بیماری سے پہلے وہ تہجد کے وقت اٹھا کرتے تھے اور ذکر یار میں اپنا وقت صرف کیا کرتے تھے ۔

جب قران کی سورہ نبا پڑھو یا القارعہ ۔۔۔۔اندر سے کوئی جھنجوڑتا ہے اور یہ وہی جھنجھوڑنا ہے جس سے ہمیں قیامت یاد آتی ہے ہمیں بیدار کیا جاتا ہے اللہ کے بندو ! دنیا کو تعمیر میں نے کیا ہے اس کا معمار میں ہوں تو میں ہی اس بات پر قادر ہوں کہ اس کو اکھاڑ سکوں ۔ میں نے پہاڑ بنائے جو کہ اتنے مضبوط ہیں کہ کسی انسان میں ہمت نہیں کہ ان کا اپنی جگہ سے ہٹاسکے مگر روز محشر یہی پہاڑ سیر کرتے چلتے پھر رہے ہوں گے یعنی جو ساکت ہیں وہ حرکت میں ہوں گے۔۔ زمین جس کو بچھونا بنایا وہی زمین زلزلے سے بھرپور تباہی لائے گی ۔۔ جو سورج سمت دیتا ہے وہ کہیں ڈوب جائے گا اس کا نشان نہیں رہے گا ۔ آسمان جو فلک سے بالا تر مخلوقات کا حجاب ہے وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا ۔یہ ہے مالک کا استدالال جو سورہ نباء میں کیا گیا ہے کہ تم بے یقین ہو تو میں تمھیں یقین والے عذاب کی وعید سناتا ہے ۔میں نے اس دنیا کو تعمیر کیا ہے تو اس دنیا کو تمھارے لیے عذاب کی جاء بنادوں گا ۔

انسانیت ‏کی ‏معراج

انسانیت کی معراج

انسان کی زندگی میں لا تعداد واقعات ایسے آتے ہیں جو اس کو موت سے قبل موت کی حقیقت سے درکنار کرتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح زندگی ایسے مراحل کی آمد گاہ ہے جو ہمیں مرگ کی کیفیت میں زندگی بخش دیتے ہیں ۔ ہماری زندگی کبھی خواب بن جاتی ہے اور کبھی خواب سے نکل جاتی ہے ۔ کبھی جاگتے ہوئے ہم کسی اور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جس کا زمان و مکان سے تعلق نہیں ہوتا اور کبھی زمانے ہماری سوچ میں قید ہوجاتے ہیں ۔ انسان کے پیٹ میں مچھلی جاتی ہے مگر کبھی مچھلی کے پیٹ میں انسان بھی ہوتا ہے ۔ درختوں کو انسان چیرتا ہے اور کبھی درخت انسان کو اپنے اندر سمولیتا ہے ۔ انسان کو موت آتی ہے تو کبھی عدم سے زندگی وجود لانے والا بھی انسان ہوتا ہے ۔ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے انسان کو موت آلیتی ہے تو کبھی نور کی ایک تجلی پہاڑ کو سرمہ کردیتی ہے ۔ سب انسان خالق کا آئینہ ہوتے ہیں مگر آئینہ کے آئینے کی پرواہ کون کرتے ہیں ۔ کثرت سے وحدت کی طرف جانا مشکل ہے اس لیے لوگ وحدت کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ آئینہ سب میں خدا ہے کا مگر ہم سب کے دل میں اپنے بُت تراش دیتے ہیں ۔ جوں جوں انسان بت تراشی ختم کرجاتا ہے اس پر نور کی حقیقت کھلتی جاتی ہے ۔علم کی حقیقت لفظوں سے کھلتی ہے یعنی لفظ علم کی کنجی ہیں مگر ان کا ابلاغ ہر کسی پر مکمل نہیں ہوتا ۔ سورج کو کسی کی طلب نہیں ہوتی مگر سورج کی سب طلب کرتے ہیں ۔ اس لیے سورج کی محبتیں پھیکیں ہوتی ہے جبکہ چاند سورج کی روشنی کا محتاج ہے اور اس کی محبت کی قسمیں کھائی جاتی ہیں ۔ مستعار لیا ہوا حسن کس نے دیا ہے کبھی کسی نے پروا نہیں کی مگر حسن کس جگہ مکمل نظر آرہا ہے سب کو اسی کی پرواہ ہوتی ۔

یہی کائنات کی اصل حقیقت ہے کہ موت کے روبرو ہے ۔ جنازہ پڑا ہوا اور لوگوں کا ہجوم رو رہا ہے ۔ اللہ اکبر کی تکبیریں پڑھی جارہی ہیں ۔ ایسے چیخیں ماری جارہی ہیں جیسے جانے والا بہت عزیز ہے اور تھوڑی دیر بعد ہم انسان کی صفات بتانے میں محو ہوجاتے ہیں ۔ مرنے والے چلے جاتے ہیں ۔ ان کے نشان دل میں بس جاتے ہیں ۔ ان کے نشانات سے مشک و کافور کی سی خوشبو ہوتی ہے جن کی قبروں کی گیلی مٹی بھی وجود کو فنا نہیں کرتی اور نا ہی ان سے سرانڈ کی بُو اٹھتی ہے ۔ موت کی حقیقت محسوس کرو تو روح کانپ اٹھتی ہے اور خوشی کی انتہا پر جاؤ تو وہ بھی موت ہے ۔ انسان خیال میں گم ہوتا ہے تو کئی جہانوں کی سیر کرتا ہے اور بعض اوقات ایک جگہ رہتے ہوئے اس کے بارے میں لا علم ہوتا ہے ۔ لاعلمی ہی علم کی اساس ہے جس نے سمجھا اس نے علم حاصل کرلیا ہے اس نے گویا علم پر مہر لگادی ۔

لوگ حج کو ترستے ہیں تو کوئی مدینے کو ترستا ہے ۔ کوئی اپنے خیال کی وایوں میں ان جگہوں سے ہوتا جانے کہاں کہاں پرواز کرتا ہے ۔۔ کبھی حال اس پر آشکارا ہوتا ہے تو کبھی ماضی قدیم اس کے سامنے آجاتا ہے جس طرح لفظ قدیم ہے اسی طرح ابوالبشر بھی قدیم ہیں۔ ہر انسان جب اس دنیا میں آیا تھا یا آیا ہے وہ قدیم ہے ۔ بچہ اس دنیا میں بن ماں باپ کے بھی دنیا کی پہچان کرلیتا ہے کیونکہ وہ قدیم ہے ۔ اسی طرح کبھی قدیم کی طرف جاتے مسجد الاقصی پر نظر پڑ جاتی ہیں جہاں پر نمازیوں کی امام جناب رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم ہوتے تو کبھی بیت اللہ کا ہجوم نظروں میں گھومتا ہے تو کبھی نور کی شعاعیں آسمان کی جانب جاتیں محسوس ہوتی ہیں ۔۔ کبھی ملائک کا نور پر گمان ہوتا ہے تو کبھی نور ملائک کی صورت جھلکتا ہے ۔ کبھی حقیقت خواب کے ذریعے کھلتی ہے تو کبھی حقیقت ایک خواب بن جاتی ہیں ۔ مستقبل کے لیے بنائے ارادے مٹی کی طرح ڈھیر ہوجاتے ہیں تو کبھی تقدیر انسان سے اس کی مرضی پوچھتی ہے ۔ کبھی آنحضرت صلی علیہ والہ وسلم سے روح قبض کرنے کی اجازت چاہی جاتی ہے تو کبھی شداد کو لمحہ بھر بھی نہیں دیا جاتا ہے ۔

انسان انسان سے محبت کا دعوی کرتا ہے اور کبھی محبت کی حقیقت نفرت میں بدل جاتی ہے ۔ کبھی اولاد ماں باپ کی نافرنبردار ہوجاتی ہے تو کبھی ماں باپ اولاد سے لا پرواہی برتتے ہیں ۔ کائنات کا ازل سے اصول اختلاف ۔۔۔ میں حسن کا منبع ہے ۔ ایک انسان کو معراج کا تحفہ ملتا ہے تو ایک انسان کو اسفل سافلین کا مقام ملتا ہے ۔ ہر انسان اپنے عمل لیے دنیا میں آتا ہے اور اپنے عمل کے ساتھ اپنی آخرت کو دائمی کردیتا ہے ۔ اسی تضاد میں اللہ کی چھپی نشانیاں ہیں ۔ اس کو ڈھونڈنا اللہ کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کہتے کہ بے شک اس کے ذکر سے قلوب میں سکون آجاتا ہے ۔ جب قلب سکون پاتا ہے تو اللہ کی نشانیاں ڈھونڈنے کی طلب کرتے قربت کا درجہ پاتا ہے ۔ انسانیت کی بقاء انہی پہیلیوں میں رکھ دی گئی ہے جس نے ان پہلیوں کا امتحان پاس کرلیا تو گویا اس نے اللہ کا قرب حاصل کرلیا ہے ۔ راضی بہ رضا ایک درجہ ہے جو ہر شاکر وصابر کرتا ہے مگر محبوب ہونا اس سے بھی بڑا درجہ ہے ۔ نبی صلی علیہ والہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں اللہ کی رضا میں رضا ، اس کی ناراضی سے پناہ اور دوستی بھی اسی کے لیے رکھنی چاہیے ۔۔ جب ہم اس کو راضی رکھتے ہیں تو وہ بھی راضی ہوجاتا ہے ۔ نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کا امتی ہونا اس لیے فضیلیت کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ میرے نبی کریم ﷺ تمام انبیاء اور رُسل سے اللہ کی رضا حاصل کرنے میں سبقت لے گئے اور جب انسان بازی لے جاتا ہے اس کی روح کی پرواز بُلند ہوجاتی ہے ۔ وہ کہیں اقبال کا شاہین بن جاتا ہے تو کہیں وارث کی ہیر ۔۔۔ کہیں اناالحق کا نعرہ بُلند ہوجاتا ہے تو کہیں انسان خود کو کعبہ کہنے کا درجہ دے دیتا ہے ۔


رضا کا درجہ حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا ہے ۔ یہ خاص الخاص قلب کو میسر ہوتا ہے جب دل خالص ہوجاتا ہے تب انسان کہتا ہے
''ھو احدا''
'' ھو الصمد''
انسانی قلب جب یہ کلمہ پڑھتا ہے تو اس کا اخلاص کامل ہوچکا ہوتا ہے جو اللہ کی قربت کی نشانی ہے ۔ اس کا دل 'احد ' احد ' کی صدائیں لگاتا ہے اور جب وہ اپنے رب کو واحد و یکتا مانتا ہے تو تب رب ء کائنات بھی اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اس کا ارشاد ہے میری طرف ایک قدم بڑھاؤ تو میں عنایات کی بارش کردوں گا۔ انسان کا رب کا محب ہوجانا ہی انسانیت کی معراج ہے​

معرفت ‏کا ‏زینہ ‏

''معرفت کا زینہ ''
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلا لفظ ''ماں '' کا ادا ہوتا ہے ۔ روزِ ازل سے یہ بات عیاں ہے کہ ماں کا لفظ بچہ کسی لغت سے نہیں لیتا ، دنیا کی کسی کتاب سے نہیں پاتا بلکہ محسوس کرکے پاتا ہے۔۔۔۔۔۔ مٹی کے خمیر کی خاصیت محبت ہے یہ محبت کا احساس جب پاتی ہے تو محبت کرنا شُروع کردیتی ہے ۔ ماں کی شخصیت کو خود سے مختلف پاتی ہے تو سوچتی یہی ''مٹی '' ہے کہ کیا ایسا ہو کہ جس کی تبدیلی سے اس میں اپنی ماں کا نقشہ آجائے ۔ تضاد ۔۔۔۔ کائنات کا حسن تضاد ہے کہ جب انسان فرق محسوس کرتا ہے تو ترقی کرتا ہے ۔ وہ فرق جو اسے تمیز سکھاتے تعمیر کی جانب رواں رکھتا ہے ۔


حضور پرنور صلی علیہ والہ وسلم جب غارِ حرا میں گئے تو کائنات کا سبق پڑھ کے گئے اور جب غار میں فکر کرتے رہے تو ایک نشان پاتے رہے کہ کوئی تو ہے جو یہ نظام ہستی چلا رہا ہے ۔ انتہائے غور فکر پر ابتدائے وحی شُروع ہوئی اور آپ صلی وعلیہ والہ وسلم سے کہاگیا '' پڑھو '' ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پڑھنے کی بات سے مولانا جلال دین رومی کی بات یاد آتی ہے جو علم دوست تھے اور نازاں رہا کرتے کہ ان جیسا صاحب علم کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ایک فقیر آیا ان کے پاس ------ان کو ایک لفظ کہا اور مولانا رومی کے دل کی دنیا بدل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ کتابیں جلتی رہیں اور مولانا رومی'' پڑھتے'' رہے ۔ کتاب کے پڑھے سے کیا علم حاصل ہوگا جو علم صاحب نگاہ کے پاس ہوتا ہے جس سے روح منور ہوجاتی ہے وہ علم کتاب نہیں دیتی ۔ابراہیم بن ادھم کی پڑھنا یاد آگیا جب اس بندہ ء خدا نے دنیا کی بادشاہی پر لات مار دی اور درویشی اختیار کرلی ۔۔۔۔۔کیا ایسا ہے جو کتاب سے دور دل میں ملا ؟ اس کا جواب اللہ نے قران ء پاک میں رکھا ہے

جب آنحضرت صلی علیہ والہ وسلم غار ء حرا میں تھے تو پڑھے لکھے نہیں تھے ۔ ان کو پڑھنے کا کہا گیا تو انکار کردیا ۔۔۔۔۔۔ حضرت جبرائیل علیہ سلام نے ان کو ہلایا تو گویا ان پر زمانے کھُل گئے ۔۔۔ماضی ۔۔۔۔ حال ۔۔۔۔۔۔۔مستقبل ۔۔۔۔۔۔ یہ تو وہ تعلیم جو رب باری تعالیٰ نے بندے کو دی اور سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ کب اور کس وقت ملی ؟ جب سرور دو جہاں ، شاہء کونین نے دنیا پر غور کرلیا ۔۔۔۔۔۔اللہ کی بنائی دنیا سے اللہ ملتا ہے مگر جب انسان مالک سے انجان ہو تو کیا کرے جیسے حضرت ابراہیم علیہ سلام نے غور کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی کہا سورج میرا خُدا ہے تو کبھی چاند کو مانا۔۔۔۔۔۔۔بالاخر کائنات کے جزو سے کُل تک کا سفر شروع ہوا اور یہی بات آنحضرت صلی علیہ والہ وسلم نے کی اور اپنے خالق کی تلاش میں محو گوشہ نشینی اختیار کرتے اپنے اندر کی کائنات سے مالک دو جہاں کو پہچاننے کی تگ و دو میں رہے ۔ جب خالق کو پہچان لیا تو ان پر وحی اتری کہ اس کائنات میں موجود ہر چیز میرا جلوہ لیے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو آیت ان پر نازل ہوئی اور جو زمانے ان پر کھُلے ---مکاں سے لا مکاں کا سفر۔۔۔۔۔۔۔ یہ سفر روح الامین کے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی ہوگیا ہے ۔۔۔۔


قران پاک کی نشانیوں کا ذکر کسی تفسیر ، کسی کتاب کا محتاج نہیں ہے ۔بندہ ء خدا کا اور مالک دو جہاں کا ربط انہی آیات سے تو کھُلتا ہے ۔ جب وہ اقراء پڑھتا ہے تو بس پڑھا مگر کیسے پڑھا ؟ اپنے رب کے نام سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور و فکر کر اپنے رب کے نام سے۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھنا ہے کتابوں کو بھی پڑھیے ، مشاہدات بھی کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔سب اچھا ہے مگر ہر چیز میں مالک کی حکمت کی آیات کو تلاشیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ نوازش نہیں ہے کہ اللہ ہر بندے سے کلام کرتا ہے اور اس با عظمت کتاب سے جس کو ہم نے طاقوں میں سجا رکھا ہے اور جس کی تلاوت ہمارے لیے جنت کا زینہ ہے باوجود اس کے ہمارے دل سکون سے خالی ہوتے ہیں ؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے قران کی روح کو اپنی روح میں اتارا نہیں جب کلام اترا ہی نہیں تو کیا پڑھا ؟ ایسا قران پڑھنا بھی نماز جیسی ٹکر ہوگئی ۔


اس سورہ کو مزید پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان جو نماز پڑھتا ہے یعنی اللہ سے ملاقات کرتا ہے تب اس کے لوگ خوش نہیں ہوتے کیونکہ وہ ان لوگوں سے علیحدہ ہوتے اپنی راہ بالاخر منوا ہی لیتا ہے ---حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم سے لے کر راہ حق کے تمام مسافروں نے ایسے ہی سفر کیا ۔۔۔۔۔ حضرت بلال رض ہوں یا عمار بن یاسر رض ۔۔۔۔۔۔۔۔تکالیف برداشت کیں اور مظالم سہے اور تلاش ءحق کی کیا عمدہ مثال ہے کہ مجوسیوں سے ایک بندہ خدا تلاش حق میں نبی آخرالزماں کے پاس پہنچا ۔جن کا نام حضرت سلمان تھا تو کوئی ابوذر رض عنہ تھے ۔جن کے قبیلے کے تمام لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اسلام کی ایسی تڑپ پیدا ہوئی کہ خانہ کعبہ میں با بلند آواز میں کلمہ حق کہا ------کیا خوب کہنے! جناب حضرت علی رض جنہوں نے ایسے اپنے رب کو پہچانا !جیسے حضرت محمد صلی علیہ وسلم نے ---یا یار غار سیدنا ابوبکر رض کی مثال ۔۔۔۔۔۔۔-مثالیں تو ہماری تاریخ میں بھری ہوئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔-یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگی پُل صراط بنادی گئی اس پر کامیابی سے چلتے رہے اور عشق نے ان کی روح کو وہ جلا بخشی کہ جنت و دوذخ کا فرق بھُلاتے اپنے رب کے عشق میں جلتے رہے ۔ ان کے دلوں کے سوز سے باقی عالم نے جلا پائی ۔۔۔۔۔۔۔سبحان اللہ !

قران پاک کی پہلی سورہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔معرفت حق کی سیڑھی ہے-------تجدید کی کنجی ہے۔۔۔۔۔۔وہ وعدہ جو روح نے خاکی بستر میں آنے سے پہلے کیا تھا اس کو کثیف لباس کے لبادے نے دھندلادیا اور جب دل میں تڑپ پیدا ہو جائے تو سمجھ لیجئے روح جاگ رہی ہے۔ اس سوز کی انتہا عشق کی ابتدا ہے جبکہ عشق کی کوئی انتہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔قران پاک کی پہلی سورہ ہمیں خالق سے عشق اور معرفت کا سبق دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔اپنی ذات کی نفی انسان کرتا ہے تو اللہ کو پالیتا ہے اور جب اللہ کو پالیتا ہے تب وہ مخلوق سے تفریق نہیں کرتا ۔

نور ‏کی ‏تجلی

وفا


نور کی تجلی کمال کی تجلی ہوتی ہے. جس تن لاگے اس تن جانے کے مصداق "نور " پھیل رہا ہے.عضو کا ریشہ تیشہ ایک
صدا دے رہا ہے

میرا عشق وفا
مرا عشق جنوں
میرا عشق وی توں
میرے اندر توں
میرے باہر وی توں
تو ہی تو ہے چار سو
دل، روح تو بھی سن
قصہ جنوں سنایا جائے
اس سے پردہ اٹھایا جائے
من کو مہکایا جائے
من جب مہکے گا
تو تن بہکے گا
تن کا من سے رشتہ،
درد سے سہکے گا!
باوضو رکھ دل اے نورٓ
ترا تن سجایا جائے گا
تو اب آزمایا جائے گا.
تجھ پہ سنگ اٹھایا جائے گا.
سنگ سے سنگ ملا کر
تجھ کو اپنایا جائے گا

پاک دل کے اندر رب سچے کا حجرا ہے، اس کا روم روم مہکایا جانا ہے، حتنا و ضو ہوگا، جگہ پاک ہوتی رہے گی، اتنا تجھ پر نور چھاتا جائے گا.ترا کچھ نہ ریے گا باقی ماسوا نور کے. بھلا اس سے اچھا ربط کس سے ہوتا ہے. خوش نصیب ہوتے ہیں جن پر کرم ہوتا ہے. یہ نعمت عام نہیں ہے. رب کی عطا جس کو وہ چاہے جیسے نوازے اور بندے کو چاہیے ہر حال میں رب کا شکر ادا کرے، حجاب بس حجاب رہتا یے یہ نقاب میں ریتا ہے. نقاب اس کی رضا، اس کی حفاظت بڑی ذمہ داری کا کام ہے. جو کام سونپا گیا اس میں میرے محبوب کی سفارش تھی اور رب کا محبوب رحمت اللعالمین ہے. اس گمان میں مت رینا کہ یہ جھوٹ یے، جھوٹا شیطان ہے، بے شک شیطان کو رسوا ہونا ہے. شیطان کے ساتھی واصل جہنم ہوں گے اور جس کو جو اس راہ سے روکے گا اچھائی کی طرف لائے گا اس کے لیے انعام ہے بشرطیکہ کہ جو لوح قلم پر لکھا کلام اس پر عبور حاصل ہو​

میں ‏سے ‏میں ‏تک ‏کا ‏سفر ‏پارٹ ‏۲

میں '' تک کا سفر-- 2

انسان کی پہچان اس کی نفس سے شروع ہوتی ہے اور جب وہ خود کو پہچان لیتا ہے تب رب تعالیٰ کی پہچان کا سفر شُروع ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہوتا ہے پہچان کیسے کی جائے ؟ اس پہچان کا سفر '' لا الہ سے اثبات حق --- یعنی الا اللہ --- کی طرف لے جاتا ہے تب سمجھ آتی ہے کہ انسان نے تو اتنے صنم خانے بنارکھے ہیں اور اللہ کو پُکارتا ہے ۔۔۔اللہ سائیں اپنی پُکار کی لاج رکھتے نواز تو دیتا ہے مگر امید رکھتا ہے اس کی خلق اس کو ضرور پہچانے گی ۔ مجھ سیہ کار کے ساتھ کچھ ایسا معاملہ درپیش ہوا ہے کہ میں نے خُدا سے سوال کیے اور سوال بھی مشرکانہ ---- بھلا یہ بھی کوئی سوال تھا کہ ''اے خدا کہاں ہے تو ؟ '' میں نے اللہ سے پوچھا تو دل کے صنم خانے سے آواز نکلی ۔۔۔

''نور ۔۔۔۔۔۔۔ زبانی کلمہ لا الہ الا اللہ کا ہر کوئی پڑھتا ہے --- کبھی اس کا ذکر کیا ہے ؟ کبھی اس پر فکر کی ہے ؟ اگر فکر کرتی تو سوچتی ہی نا کہ اللہ کدھر ہے۔۔۔ اللہ جدھر تو دیکھے وہ تو وہاں ہے ۔۔۔''

اللہ سے سوال کرنے کی عادت بڑی رہی ہے حالانکہ سوال نہ کی حکمت ''شکوہ اور سوال '' کی صورت سمجھائی ہے مگر میں نے پھر بھی اس سے سوال کیا اور پھر پوچھا کہ '' اے خدا کہاں ہے تو '' اب سوچوں تو سمجھ آتی ہے کہ جستجو کرنا بھی انسان کے خمیر میں لکھا ہے اور وہ سوال نہ کرے تو رب کو پہچانے کیسے اور جب پہچان لے تو سوال نہ کرے بلکہ ہر چیز کو اس کی حکمتوں سے تعبیر کیا کرے ۔

جب میں نے اللہ کی صدا سنی تو بڑی شرم آئی تو سوچا اس کلمہ کی روح کیا ہوگی ۔۔۔۔۔ '' لا '' ہے کیا ۔۔۔ بس ایک ڈرامہ یا د آگیا جس میں عشق کی مسافر ذات و نسب کی تفریق کا کلمہ پڑھتی ہے ۔۔۔

لا حسب ۔۔۔لا نسب
لا تکبر ۔۔۔ لا غرور
لا---------------لا

میں نے اس ڈرامے پر کبھی غور نہیں کیا تھا مگر یہ کلمہ دل میں جڑ گیا ہے اب سوچا میں نے کتنے بت بنائے ہیں – کچھ بُت معاشرے سے مستعار لیے ہیں تو کچھ بُت میں نے اپنی انا کے ہاتھوں بنائے ہیں اور میں پھر بھی سوچتی ہوں کہ میں نے لا الہ الا اللہ پڑھا --- اللہ نے کہا ہے کہ کلمہ عفو کی سفارت بنے گا مگر کیسے بنے گا کسی نے سوچا ہی نہیں نا!

سید----علوی ---- گیلانی --- شیخ ---آرائیں ---- جٹ –
چشتی ---قادری ---صابری ---- نقش بندی ---- سہروردی
کافر ---مسلمان ---عیسائی --- یہودی ---ہندو
امیری ---دولت --- طاقت --- اولاد--- عورت
میں ---میری ذات ---انا---خود پسندی ۔۔۔ برتری ---علمیت—ذہانت ۔۔۔ لیاقیت

اب میرے پاس خداؤں کی لسٹ ہے جن کو میں شمار کرتی جاؤں تو لسٹ لا محدود ہوجائے گی اور پھر اتنے صنم خانوں کے ہوتے ہوئے بھی میں سوچوں میں نے لا الہ الا اللہ کا کلمہ پڑھ لیا ----دوستو ! کیا میں نے واقعی ہی اللہ کو الہ مانا ہے ؟ کیا میں نے واقعی ہی اس کی پرستش کی ہے ؟

میرے ایک سر ہوتے تھے فزکس کے ان کا نام خادم حسین سیال تھا ----ان کی باتیں بڑی مدبرانہ ہوتی تھیں --- نماز کی بات چلی تو میں نے تنگ نظری سے کہ دیا کہ وہ مسلمان نہیں جس نے نماز نہیں پڑھی تو کہا کہ ہم جو نماز پڑھتے ہیں وہ تو ''ٹکر '' ہوتی ہے اور وہ مالک دیکھو ہماری ''ٹکریں'' بھی قبول فرماتا ہے۔ تب مجھے سمجھ نہیں آئی تھی کہ میرے استاد نے نماز کو ٹکر کیوں کہا---میری نظر میں حجاب مجھے تنگ نظر اور عدم برداشت بناتا گیا ہے اور آج جب حجاب نہیں ہے تو میں پوچھتی ہوں میں کون ہوں ؟

میں عشق ہوں جس کا کام انسان سے محبت کرنا ہے
میں شعلہ ہوں جس کا کام روشنی دینا ہے
میں صبا کا نرم جھونکا ہے جس کا کام لطافت دینا ہے
میں سورج کی مانند چمکتی ہوں تاکہ اجالا پھیلے
میں سمندر کی مانند گہری ہوں تاکہ عیاں کو نہاں کردوں
میں زمین ہوں جس نے اشجار کی آبیاری کرنی ہے
میں چاند ہوں جس نے چاندنی کی ملاہت سے فرحت دینی ہے

مگر ------------------

اس سب میں ''میں '' تو نہیں ہوں میں نے تو کہا لا الہ ----------------جب میں نے اپنی نفی کردی تو میں مجھ میں سچی ذات کا بسیرا ہوگیا ----------یہی سچ کا سفر ہے اور یہی حقیقت ہے کہ اس سے بڑی حقیقت کائنات میں کوئی نہیں ۔

نعرہ حق کا لگاتی رہوں گی
نفیِ ذات سے تن سجاتی رہوں گی

آخری تدوین: ‏مارچ 28, 2016

میں ‏سے ‏میں ‏تک ‏کا ‏سفر

میں سے میں '' تک کا سفر

اللہ سائیں کی قدرت ہے کہ وہ شہد کی مکھی کو شاہد بنادیتا ہے تو کبھی چیونٹی جناب سلیمان علیہ سلام پر ناقد ہوجاتی ہے ۔ باپ بیٹے کی جدائی میں بینائی کھو دیتا ہے اور کوئی جزام کا شکار ہوتے ہوئے حالت سکون میں رہتا ہے ۔ اللہ سائیں کی مرضی ہے کہ زرخیز زمیں کو بنجر اور بنجر کو زرخیز کردے ۔ ایک انسان جس کے لفظ ٹوٹے پھوٹے ہوں اس کو لکھنے میں مگن کردیں اور اس کے دل کی دنیا خیالات سے بھرپور کرتے کائنات بنادے ۔ اللہ سائیں کی حکمت اللہ جانے ! میں بھی نا جانوں اور نا آپ جانوں ۔۔۔۔۔۔۔ رازء کائنات جاننے والا حکیم ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ہے۔


میری بڑی خواہش تھی کہ میں خود کو پہچانو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ عبد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے کبھی اپنے اندر جھانکنا گنوار نہیں کیا کہ اللہ نے اسے کیسے بنا کے بھیجا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے مجھے حسین بنایا مگر میں بے نیاز رہی یہ بُھول گئی کہ بے نیازی تو اللہ کو جچتی ہے ۔ پھر اس کی سزا ملی جب ایک دن میں خُود کے رو برو ہوئی ۔ میں نے اپنا آئینہ خود میں پایا۔۔۔یہ چٹخ گیا تھا ۔ارے ! چوٹ ایسی لگی کہ وہ مضبوط و توانا آئینہ چٹخا ۔ میں پھر بے نیاز ہوئی اور درد کو چھپانے کے لیے مصنوعی سہارا لینا شُروع کردیا ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں نے اپنے باطن کے اندر باوجود چٹخنے کے بھی نہیں جھانکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ عرصے بعد آئینہِ دل پر پے در پے ایسی ضرب لگی کہ میرے دو وجود بن گئے اور ان دو وجودادت سے مزید وجود نکلنا شروع ہوگئے ۔ اس دن میں نے اپنے اندر جھانکا اور دیکھا میرے تو کافی حصے ہوگئے ۔ میں کس کرچی کو اٹھاؤں اور کس کو نہ اُٹھاؤں ۔۔۔۔۔۔۔ میرے اندر سے آواز اُبھری

اے آدم !
کیا تو نے کبھی اس جہاں پر غور کیا ؟
اس زمین کو دیکھا جو فلک سے دور ہے ؟
اس سورج کو دیکھا جو قمر کی جستجو رکھتا ہے
رات کو دیکھا جو دن کی جستجو رکھتی ہے
پہاڑ کو دیکھا کتنے بُلند ہیں مگر سمندر سے دور ہیں ۔۔۔
جب تو نے ان کو غور سے دیکھا تو کیا غور نہ کیا ؟
کائنات کے کتنے ٹکرے ہیں ؟


جب یہ آواز ابھری تو میری ''میں '' ختم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے اندر جھانکنا شُروع کردیا میرے اندر کس کا جلوہ ہے ۔۔۔۔ ایک سورج بصورت نور اوپر فلک پر ہے تو ایک نور میری روح میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔مٹی ہوں ۔۔۔۔۔۔مادہ تو روح بھی ہوں یعنی غیر مادہ ۔۔۔۔۔۔۔ جذبات رکھتی ہوں ، خواہشات رکھتی ہوں مگر پوری نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔ جو پوری نہ ہو اس میں اللہ نہیں ہے اور جو پوری ہو اس میں اللہ ہے ۔ میرا دل جب دھڑکتا ہے تو اس کی صدا 'رب ' رب'' ہے اور اس رب کی قسم یہ دل بھی میرا نہیں اس کا مالک تو اوپر فلک پر بیٹھا مجھے دیکھ رہا ہے ۔۔۔میرا دماغ -------جو میرے پورے وجود کو چلاتا ہے اس کو عقل کس نے عطا کی ------ وہ جو اوپر فلک پر مقیم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل کی صدا سے عقل کھلتی ہے میرے دل میں رب کا بسیرا ہے تو عقل تو اللہ کی جستجو کرے گی ۔اندر کی کائنات تب بنتی ہے جب وجود کی نفی ہوتی ہے جب وجود کی نفی ہو تو انسان کا سفر شُروع ہوجاتا ہے۔

محبت !
سفر اختتام ہوا۔
تجھ پر اکرام ہوا
ملے گا تجھے انعام
ہوگا تجھ پر فیض عام
عشق کی ابتدا ہے
جستجو کا انتہا ہے



اس صدا کے بعد اندر کی ''میں '' مرگئی اور جب اندر موت ہوجائے تو انسان کا لاشعور بیدار ہوجاتا ہے جس کا خالق سے رابطہ گہرا ہوتا ہے تب انسان شاکر ہوجاتا ہے جو کہ صبر کے آگے کا مرحلہ ہے ۔۔۔۔۔۔ عشق والے ۔۔۔۔۔۔۔ یقین والے ہوتے ہیں اور ان کا سفر دلیلوں اور قیل و قال کی بحث میں نہیں پڑھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کافر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسلمان
سنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شیعہ
قادیانی ۔۔۔۔۔۔۔۔احمدی
عیسائی ۔۔۔۔۔ یہودی
امیر ۔۔۔۔۔۔۔ غریب
وزیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ نوکر

ان کے دل اس تضاد کے تفریق میں نہیں پڑتے اس سے نفرت نہیں پیدا کرتے بلکہ ان تضادات کو کائنات کا حسن جانتے محبت کی شمعیں روشن کر جاتے ہیں اگر کائنات کا سب سے بڑا دکھ آگہی ہے تو سب سے بڑا سُکھ محبت ہے اس دکھ اور سکھ کے تضاد میں بھی اللہ ہے اس کافر اور مسلمان میں بھی اللہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ادھر ادھر اللہ تو شور شرابہ کاہے کا؟ بس ہم سمجھیں تو سمجھتے ہی نہیں کہ دلوں میں محبت اور اخلاص کی جگہ اضداد کے علم سے محبت کے بجائے نفرت پھیلانے پر زور دیا ہے

کائنات ‏کی ‏پہچان



کبھی کبھی لکھتے ہوئے 
آنکھ نم ہوجاتی ہے اور آنسو دل میں گرتے ہیں ۔ یہ آنسو جو باطن میں گرتے ہیں ایک آگہی رکھتے ہیں ۔ اس آگہی کو کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ہے ۔  اپنے اندر انسان جب جھانکنا شروع کرتا ہے تو اس پر راز عیاں ہوتے ہیں ۔ ایسے راز جو اس کے باطن کو دھندلا کیے ہوتے ہیں ۔ اس کے گناہ ـــــــــ میرے گناہوں سے بھرپور باطن اور دنیا کا پرنور چہرہ  مجھے کائنات کی پہچان کرا گیا ہے ۔ ایک کائنات انسان کے باطن میں ہوتی ہے اور ایک کائنات انسان کے باطن سے پرے ہوتی ہے ۔ اندر کی دنیا بھی تب بنتی ہے جب باہر کی دنیا کی آیتوں سے آیتیں ملاتے نشانیاں حاصل کرتے ہیں ۔


بچپن کی بات ہے جب تین چار سال کی تھی تو سوچا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ تین گناہوں سے پہلے معاف کر دیتا ہے ۔ابھی میں نے گناہ نہیں کیا ہے اور کبھی گنتی کہ ایک گناہ کیا ہے اور اس گناہ کی معافی مانگ کے سوچا کرتی کہ میرا تو اب کوئی گناہ ہی نہیں ہے ۔۔۔ ایسی سوچ ـــایسی امید---ایسی توقع میں نے مالک سے اب کیوں نہ رکھی ! دوستو ! ہم اللہ کو اتنے قریب سے بچپن میں دیکھتے ہیں اور جوانی میں بھُول جاتے ہیں ۔ جب کچھ ماہ گزرے تو سوچا کرتی کہ دو بہن بھائی جو میرے اسکول میں پڑھا کرتے تھے یہ اللہ کے قریب ہیں کیونکہ ان کے چہرے میں معصومیت ہیں جیسے کہ انہوں نے کوئی گناہ کبھی نہیں کیا ۔ تین سال اور گزرے تو قرانِ پاک ختم کرنے کے مراحل میں تھا ۔ تب میں سوچا کرتی تھی کہ اللہ میرے قران مجید پڑھانی والی  ''بی بی'' میں ہیں ۔ ان کے چہرے کا نور سوچنے پر مجبور کردیتا تھا کہ اللہ ان کے چہرے  سے جھلکتا ہے اور پھر سوچتی کہ ان کی تو ساری زندگی قران پاک پڑھانے میں صرف ہوئی جو کہ ترجمہ ء تفسیر کے ساتھ قران پاک پڑھایا کرتی تھیں ۔ ان کا کھانا پینا ، ان کا چلنا اٹھنا ، بیٹھنا سب ــــــــــ قرانی آیات کے ورد اور سمجھانے میں گزر جاتا اور میں سوچا کرتی کہ اگر انہوں نے کوئی گناہ کیے بھی ہوں گے تو ان کے اچھے اعمال کی سبب دُھل گئے ہوں گے ۔۔۔ ہائے ! ایسے لوگ محبت والے ! جن کے چہروں پر نور جھلکتا ہے کیونکہ وہ خود میں نور کا خزینہ لیے ہوئے ہوتے ہیں ۔


اپنے گناہ کا خیال تب آیا جب مجھے سورہ العصر سمجھ آئی ہے ۔ ایسی دل پر لگی کے سب پڑھنا چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔جو اس کا مفہوم سمجھ جائے وہ کبھی گناہ نہ کرے اور مجھ جیسے خطا کار سیہ کارــــــــجن کے اعمال نامے گناہوں کے پلڑے سے بھاری ہیں تو احساسِ زیاں ہوتا ہے کہ ہائے! ہائے ! میں اگر بچپن میں قران پاک کو ٹھیک سے سمجھتی تو جوانی میں احساس زیاں یوں نہ رُلاتا اور نا ہی میں کوئی گناہ کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سورہ میں تو محبت کا ذکر ہے لوگ اس کو سزا سے تعبیر کریں گے ـــــــــافسوس ! صد افسوس ! میں ناکامی میں ہوں کہ میں نے لوگوں سے محبت نہیں کی اگر کی ہوتی تو ان کی فکر ہوتی ۔۔۔۔۔۔ میرا عمل ---صرف میری تقدیر نہیں بنائے گا بلکہ میرے اردگرد لوگوں کی آدھی تقدیر کو پلٹ دے گا ۔اگر میں اپنے اچھے عمل سے ، قربانی  ایثار سے اور صبر سے دوسروں کے بھلے کا سوچوں ! مگر میں سوچوں تو ـــــ-مجھے اپنی فکر رہی کہ میں نے اپنا اچھا کرنا ہے اس سبب میں نے دوسروں کے لیے گڑھا کھود دیا یا میری مثال ایسی ہے جس میں میرے اپنے میرے پاؤں کی زنجیر ہیں جیسے ایک ماں کے لیے اس کی اولاد پاؤں کی بیٹری بن جاتی ہے اور وہ اس کی خاطر قربانی در قربانی دیے چلی جاتی کہ اگر وہ نہیں ہوگی تو اس کے بچوں کا کیا ہوگا ــــــاس کے بچے تو رل جائیں گے ۔میں نے ایسا نہیں سوچا کہ میں اپنے بہن بھائی ، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی زنجیر رکھتی ہوں ۔۔


ایک تو میں نے کبھی اپنوں کے لیے قربانی کا سوچا نہیں اور سوچا تو احسان جتایا ۔۔۔چلیے اس کو چھوڑیے ! میں تو خود بھی سوئی رہی ہوں جیسے ایک بندہ  بیزار ہوتے بستر سے نہیں نکلتا کہ اجالا اس کے لیے آگہی ہے اور یہ اذیت ہے ۔۔۔مجھے آگہی ملتی رہی اور میں اس پر آنکھیں بند کیے سوئی  رہی ۔۔۔۔۔۔گھر میں کبھی حادثہ ہوا ۔۔۔۔۔میری عدم جذباتیت ----کوئی شادی ہو--------عدم جذباتیت ----یہ نہیں کہ جذبات نہیں تھے مگر اندر کی دنیا بھری پڑی تھی جذبوں سے اور باہر کے لوگوں کے لیے ایک پتھر تھی ۔۔سب کہتے تھے میں بہت بے حس ہوں اور اندر اندر کڑھتی رہتی تھی کہ  میرے اپنے مجھے بے حس کہتے جبکہ ان کے لیے رات کی تنہائی میں آنسو بہاتی ہوں یا آنسو دل پر گرتے ہیں ۔۔۔روح محسوس کرے اور عمل نہ کرے تو بندے کیا کرے ۔۔دل تو کرتا ہوں بہت ملامت کروں خود کو -----مگر کیا ہے کہ میں نے اگر خود کو ملعون کہا تو میرے خالق کو برا لگے گا کہ اس نے مجھے بنایا ہے ۔


اسی سوچ پر میرے اندر آنسو گر رہے ہیں کہ اگر میں سوئی نہ ہوتی تو میں بہت کچھ اچھا کرسکتی تھی یا اچھے کو اور اچھا کرسکتی تھی مگر میں تو سوئی رہی اور اس خواب کی حالت میں سمندر کی گہری لہریں مجھے خود میں سمونے لگیں ۔ ایسا  نہ ہو کہ یہ لہریں مجھے غرقابی کی طرف لے جائیں میرے خالق نے مجھے توفیق دی کہ میں  جاگ جاؤں ۔ جب میں جاگ گئی تو احساس ہوا میرے اپنے میرے عمل سے بندھے ہوئے اگر ان کے لیے اچھا کروں گی تو تقدیر میری اچھی ہونی ہے ۔ درحقیقت ایک بچہ باپ اور بچی ماں پیدا ہوتی ہے ۔۔۔اس حقیقت کا احساس مجھے اب ہوا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا ۔[/COLOR]

[COLOR=#000000]اس ملامت کے احساس کے ساتھ مجھے سورہ العصر یاد آرہی ہے کہ انسان خسارے میں ہے ۔۔۔۔۔۔کیسے ؟؟؟ کبھی کپڑے کو نچوڑو تو اس کا سارا پانی نکل جاتا ہے اور اس کے پاس خشکی رہ جاتی اور ساری ''تری '' نکل جاتی ہے ۔۔اس طرح جیسے ایک درخت کے سارے پتے اور پھول جھڑ جاتے ہیں اور اس کے لیے خزاں کا موسم ابدی ہوجاتا ہے اور اس وقت اگر میں بچپن کی طرح سوچنے لگوں ۔۔۔ خالق دو جہاں --- کردے نا کرم اور مجھے اپنی جناب میں لے لے ! تیری بندی ! تیری حکمت سے جاگتے  تیرے احکام بجالانا چاہتی ہے اور خدمت کا جو سبق سورہ العصر میں دیا اس کا مجھے موقع دے دے مالک ! مالک سن لے ! موقع دے دے ! تاکہ میں اپنے اندر کی کائنات جو گناہوں سے آلود ہے ، جو خسارے سے کی حامل ہے ۔۔۔مولا اس کو سدھار لوں ۔۔مجھے احساس ہوگیا ہے گناہوں نے میری روح کی لطافت نچوڑ لی ہے مگر پھر بھی مجھ بے کس و بے بس پر ترا رحم ابر رحمت کی طرح برسا ہے اور مجھے اپنا آپ بھیگتا محسوس ہوتا ہے ۔ مولا کریم ! مجھے بارش طوفان کی طرح لگتی تھی ۔ مجھے بارش سے ڈر لگتا تھا مگر آج ترے کرم کی بارش میں بھیگتے ہوئے میرے سارے اندیشے مٹی مٹی ہوگئے ۔۔۔۔۔۔ مجھے بخش دے اور مجھے عمل کی توفیق دے ۔۔۔۔۔۔میں تیری گناہ گار بندی ہوں ۔۔

[/COLOR]
[COLOR=rgb(0, 0, 0)]پھر احساس ہوا کہ اصل کائنات تو ماں جس نے ساری عمر میرے لیے قربانی دے اور اس طرح  جس طرح مالکِ کائنات دیتا ہے ۔مشاہدات ، سوچ اور گمان سے انسانوں میں خدا کو تلاشتے میری سوئی اب اپنی ماں پر اٹکی ہے اور میں نے ان کو بچپن سے بہت چاہا ہے مگر کبھی احساس نہیں کرپائی کہ وہ خالق کا روپ ہیں اور جب مجھے کانٹا چبھا تو مرہم بن گئی میں نافرمان ۔۔۔۔۔ان کی نافرمانی کرتی تو اس طرح خاموشی اختیار کرتی کہ جیسا خالق کرتا ہے اور وہ ہمارا مشاہدہ کرتا ہے کہ ہم کب بدلیں اور ماں بھی یہی مشاہدہ کرتے کرتے تھک جاتی ہے مگرامید نہیں ہارتی کہ اولاد کب بدلے ۔ جناب یعقوب علیہ سلام کو جو مامتا عطا ہوئی اس سبب ان کی بینائی چھن گئی ۔محبت کا وہ احساس اپنی ماں سے عشق میں بدل گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ماں ہی اصل کائنات ہے [/COLOR]ے آنکھ نم ہوجاتی ہے اور آنسو دل میں گرتے ہیں ۔ یہ آنسو جو باطن میں گرتے ہیں ایک آگہی رکھتے ہیں ۔ اس آگہی کو کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ہے ۔  اپنے اندر انسان جب جھانکنا شروع کرتا ہے تو اس پر راز عیاں ہوتے ہیں ۔ ایسے راز جو اس کے باطن کو دھندلا کیے ہوتے ہیں ۔ اس کے گناہ ـــــــــ میرے گناہوں سے بھرپور باطن اور دنیا کا پرنور چہرہ  مجھے کائنات کی پہچان کرا گیا ہے ۔ ایک کائنات انسان کے باطن میں ہوتی ہے اور ایک کائنات انسان کے باطن سے پرے ہوتی ہے ۔ اندر کی دنیا بھی تب بنتی ہے جب باہر کی دنیا کی آیتوں سے آیتیں ملاتے نشانیاں حاصل کرتے ہیں ۔


بچپن کی بات ہے جب تین چار سال کی تھی تو سوچا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ تین گناہوں سے پہلے معاف کر دیتا ہے ۔ابھی میں نے گناہ نہیں کیا ہے اور کبھی گنتی کہ ایک گناہ کیا ہے اور اس گناہ کی معافی مانگ کے سوچا کرتی کہ میرا تو اب کوئی گناہ ہی نہیں ہے ۔۔۔ ایسی سوچ ـــایسی امید---ایسی توقع میں نے مالک سے اب کیوں نہ رکھی ! دوستو ! ہم اللہ کو اتنے قریب سے بچپن میں دیکھتے ہیں اور جوانی میں بھُول جاتے ہیں ۔ جب کچھ ماہ گزرے تو سوچا کرتی کہ دو بہن بھائی جو میرے اسکول میں پڑھا کرتے تھے یہ اللہ کے قریب ہیں کیونکہ ان کے چہرے میں معصومیت ہیں جیسے کہ انہوں نے کوئی گناہ کبھی نہیں کیا ۔ تین سال اور گزرے تو قرانِ پاک ختم کرنے کے مراحل میں تھا ۔ تب میں سوچا کرتی تھی کہ اللہ میرے قران مجید پڑھانی والی  ''بی بی'' میں ہیں ۔ ان کے چہرے کا نور سوچنے پر مجبور کردیتا تھا کہ اللہ ان کے چہرے  سے جھلکتا ہے اور پھر سوچتی کہ ان کی تو ساری زندگی قران پاک پڑھانے میں صرف ہوئی جو کہ ترجمہ ء تفسیر کے ساتھ قران پاک پڑھایا کرتی تھیں ۔ ان کا کھانا پینا ، ان کا چلنا اٹھنا ، بیٹھنا سب ــــــــــ قرانی آیات کے ورد اور سمجھانے میں گزر جاتا اور میں سوچا کرتی کہ اگر انہوں نے کوئی گناہ کیے بھی ہوں گے تو ان کے اچھے اعمال کی سبب دُھل گئے ہوں گے ۔۔۔ ہائے ! ایسے لوگ محبت والے ! جن کے چہروں پر نور جھلکتا ہے کیونکہ وہ خود میں نور کا خزینہ لیے ہوئے ہوتے ہیں ۔


اپنے گناہ کا خیال تب آیا جب مجھے سورہ العصر سمجھ آئی ہے ۔ ایسی دل پر لگی کے سب پڑھنا چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔جو اس کا مفہوم سمجھ جائے وہ کبھی گناہ نہ کرے اور مجھ جیسے خطا کار سیہ کارــــــــجن کے اعمال نامے گناہوں کے پلڑے سے بھاری ہیں تو احساسِ زیاں ہوتا ہے کہ ہائے! ہائے ! میں اگر بچپن میں قران پاک کو ٹھیک سے سمجھتی تو جوانی میں احساس زیاں یوں نہ رُلاتا اور نا ہی میں کوئی گناہ کرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سورہ میں تو محبت کا ذکر ہے لوگ اس کو سزا سے تعبیر کریں گے ـــــــــافسوس ! صد افسوس ! میں ناکامی میں ہوں کہ میں نے لوگوں سے محبت نہیں کی اگر کی ہوتی تو ان کی فکر ہوتی ۔۔۔۔۔۔ میرا عمل ---صرف میری تقدیر نہیں بنائے گا بلکہ میرے اردگرد لوگوں کی آدھی تقدیر کو پلٹ دے گا ۔اگر میں اپنے اچھے عمل سے ، قربانی  ایثار سے اور صبر سے دوسروں کے بھلے کا سوچوں ! مگر میں سوچوں تو ـــــ-مجھے اپنی فکر رہی کہ میں نے اپنا اچھا کرنا ہے اس سبب میں نے دوسروں کے لیے گڑھا کھود دیا یا میری مثال ایسی ہے جس میں میرے اپنے میرے پاؤں کی زنجیر ہیں جیسے ایک ماں کے لیے اس کی اولاد پاؤں کی بیٹری بن جاتی ہے اور وہ اس کی خاطر قربانی در قربانی دیے چلی جاتی کہ اگر وہ نہیں ہوگی تو اس کے بچوں کا کیا ہوگا ــــــاس کے بچے تو رل جائیں گے ۔میں نے ایسا نہیں سوچا کہ میں اپنے بہن بھائی ، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی زنجیر رکھتی ہوں ۔۔


ایک تو میں نے کبھی اپنوں کے لیے قربانی کا سوچا نہیں اور سوچا تو احسان جتایا ۔۔۔چلیے اس کو چھوڑیے ! میں تو خود بھی سوئی رہی ہوں جیسے ایک بندہ  بیزار ہوتے بستر سے نہیں نکلتا کہ اجالا اس کے لیے آگہی ہے اور یہ اذیت ہے ۔۔۔مجھے آگہی ملتی رہی اور میں اس پر آنکھیں بند کیے سوئی  رہی ۔۔۔۔۔۔گھر میں کبھی حادثہ ہوا ۔۔۔۔۔میری عدم جذباتیت ----کوئی شادی ہو--------عدم جذباتیت ----یہ نہیں کہ جذبات نہیں تھے مگر اندر کی دنیا بھری پڑی تھی جذبوں سے اور باہر کے لوگوں کے لیے ایک پتھر تھی ۔۔سب کہتے تھے میں بہت بے حس ہوں اور اندر اندر کڑھتی رہتی تھی کہ  میرے اپنے مجھے بے حس کہتے جبکہ ان کے لیے رات کی تنہائی میں آنسو بہاتی ہوں یا آنسو دل پر گرتے ہیں ۔۔۔روح محسوس کرے اور عمل نہ کرے تو بندے کیا کرے ۔۔دل تو کرتا ہوں بہت ملامت کروں خود کو -----مگر کیا ہے کہ میں نے اگر خود کو ملعون کہا تو میرے خالق کو برا لگے گا کہ اس نے مجھے بنایا ہے ۔


اسی سوچ پر میرے اندر آنسو گر رہے ہیں کہ اگر میں سوئی نہ ہوتی تو میں بہت کچھ اچھا کرسکتی تھی یا اچھے کو اور اچھا کرسکتی تھی مگر میں تو سوئی رہی اور اس خواب کی حالت میں سمندر کی گہری لہریں مجھے خود میں سمونے لگیں ۔ ایسا  نہ ہو کہ یہ لہریں مجھے غرقابی کی طرف لے جائیں میرے خالق نے مجھے توفیق دی کہ میں  جاگ جاؤں ۔ جب میں جاگ گئی تو احساس ہوا میرے اپنے میرے عمل سے بندھے ہوئے اگر ان کے لیے اچھا کروں گی تو تقدیر میری اچھی ہونی ہے ۔ درحقیقت ایک بچہ باپ اور بچی ماں پیدا ہوتی ہے ۔۔۔اس حقیقت کا احساس مجھے اب ہوا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا ۔


اس ملامت کے احساس کے ساتھ مجھے سورہ العصر یاد آرہی ہے کہ انسان خسارے میں ہے ۔۔۔۔۔۔کیسے ؟؟؟ کبھی کپڑے کو نچوڑو تو اس کا سارا پانی نکل جاتا ہے اور اس کے پاس خشکی رہ جاتی اور ساری ''تری '' نکل جاتی ہے ۔۔اس طرح جیسے ایک درخت کے سارے پتے اور پھول جھڑ جاتے ہیں اور اس کے لیے خزاں کا موسم ابدی ہوجاتا ہے اور اس وقت اگر میں بچپن کی طرح سوچنے لگوں ۔۔۔ خالق دو جہاں --- کردے نا کرم اور مجھے اپنی جناب میں لے لے ! تیری بندی ! تیری حکمت سے جاگتے  تیرے احکام بجالانا چاہتی ہے اور خدمت کا جو سبق سورہ العصر میں دیا اس کا مجھے موقع دے دے مالک ! مالک سن لے ! موقع دے دے ! تاکہ میں اپنے اندر کی کائنات جو گناہوں سے آلود ہے ، جو خسارے سے کی حامل ہے ۔۔۔مولا اس کو سدھار لوں ۔۔مجھے احساس ہوگیا ہے گناہوں نے میری روح کی لطافت نچوڑ لی ہے مگر پھر بھی مجھ بے کس و بے بس پر ترا رحم ابر رحمت کی طرح برسا ہے اور مجھے اپنا آپ بھیگتا محسوس ہوتا ہے ۔ مولا کریم ! مجھے بارش طوفان کی طرح لگتی تھی ۔ مجھے بارش سے ڈر لگتا تھا مگر آج ترے کرم کی بارش میں بھیگتے ہوئے میرے سارے اندیشے مٹی مٹی ہوگئے ۔۔۔۔۔۔ مجھے بخش دے اور مجھے عمل کی توفیق دے ۔۔۔۔۔۔میں تیری گناہ گار بندی ہے
پھر احساس ہوا کہ اصل کائنات تو ماں جس نے ساری عمر میرے لیے قربانی دے اور اس طرح  جس طرح مالکِ کائنات دیتا ہے ۔مشاہدات ، سوچ اور گمان سے انسانوں میں خدا کو تلاشتے میری سوئی اب اپنی ماں پر اٹکی ہے اور میں نے ان کو بچپن سے بہت چاہا ہے مگر کبھی احساس نہیں کرپائی کہ وہ خالق کا روپ ہیں اور جب مجھے کانٹا چبھا تو مرہم بن گئی میں نافرمان ۔۔۔۔۔ان کی نافرمانی کرتی تو اس طرح خاموشی اختیار کرتی کہ جیسا خالق کرتا ہے اور وہ ہمارا مشاہدہ کرتا ہے کہ ہم کب بدلیں اور ماں بھی یہی مشاہدہ کرتے کرتے تھک جاتی ہے مگرامید نہیں ہارتی کہ اولاد کب بدلے ۔ جناب یعقوب علیہ سلام کو جو مامتا عطا ہوئی اس سبب ان کی بینائی چھن گئی ۔محبت کا وہ احساس اپنی ماں سے عشق میں بدل گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ماں ہی اصل کائنات ہے 

خودی ‏کا ‏مشاہدہ

خودی کا مشاہدہ
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور اس پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے ۔ اس سوچ میں گُم میری ذات اکثر اوقات باطن کا مشاہدہ کرتی ہے ۔میرا وجدان مجھے بسیطِ روحانی کے پاس لا کھڑا کرتا ہے ۔ میں یہاں پر کھڑی سوچتی رہتی ہوں کہ اس سے آگے کیا ہوگا ؟ جیسے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا شخص اگلی بڑی چوٹی کا متلاشی ہوتا ہے ۔عشق کی مثال بھی ایسی ہے ، یہ تن من سلگاتی ہے ۔ تن کے سُلگنا مٹی کو روشن کر دیتا ہے ۔ تن ----مٹی ----مٹی کا کام کیا ہے ؟ مٹی کا کام مٹی ہونا ہے ۔جس نے سورج بننا ہے اس نے روشنی دینی ہے اور جس نے چاند بننا ہے اُس نے روشنی لینی ہے ۔ سورج قطب نما ہے ہے جو سمت بتاتا ہے ۔ چاند کا کام کیا ہے ؟ سمت لینا ہے ۔ روح اللہ کا نور ہے اور اس کا جزو ضمیر ہے ۔ ضمیر سورج ہے جو سمت دیتا ہے جبکہ نفس چاند کی سی مشابہت رکھتا ہے جس کا کام سمت لینا ہے ۔

ایک عالم مجھ میں بسا ہے
میں خود میں ایک عالم ہوں

آگہی کے در مجھ میں وا ہوتے جا رہے ہیں ۔ کائنات کا سب سے بڑا دُکھ آگہی ہے جس جس کو ملتی ہے وہ روشنی پاتا ہے مگر اس کی روح بے قرار ہوجاتی ہے ۔ روح جو ہجرت میں ہوتی ہے وصال کے لیے تڑپنے لگتی ہے ۔ اس کی آرزو ہوتی ہے کسی طرح وصال ہو جائے ۔ یار کے روبرو ہوتے دیدار ہوجائے ۔ ہر نفس آئینہ ہے یعنی کہ ہر نفس خود میں آفتاب ہے مگر کون جانے اس حقیقت کو اور جو جان لے محبت کا احساس کیا ہے وہ کبھی ہجرت پر آمادہ نہیں ہوتا مگر اس کی اساس ہجرت ٹھیری ۔۔۔! درد کی ٹیس کیا ہوتی ہے ۔۔! دل نکلے تو مزہ آتا ہے مگر کچھ بھی تو اختیار میں نہیں ہوتا اور اگر اختیار میں ہوتا بھی تو کیا ہوتا ۔۔ انسان کا نام جھک جانے کا اور مٹ جانے کا۔۔۔!مٹنا چاہیں تو کیسے ۔۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر مٹ ہی جائیں تو اچھا ہے ۔۔

وصلِ سوزِ موج نے دیوانہ کیا
آشیانہ شہرِ دل کا ویرانہ کیا
قطرہ قطرہ زہر کا قلزم بن گیا
درد نے اب حال سے بیگانہ کیا
نور ؔ نے شیشہ محل کرچی کر دیا
اُلجھنوں نے بے طرح دیوانہ کیا
رتبہ محشر میں شہادت کا پاؤں گی
اب اجل نے دار پر مستانہ کیا
مے کدے میں جلوہِ حق کو دیکھ کر
سات پھیروں نے مجھے پروانہ کیا
شرم ساری ختم کیسے ہو عصیاں کی
رب! گلہ تجھ سے جو گستاخانہ کیا
صبح نو کی اک جھلک دکھلا دیجئے
ان غموں نے ذات سے بیگانہ کیا​

میرے گمان کی سرحدیں عہد الست کے عشق کے ڈوبی سازِ ہستی کی تجدید کا نغمہ چھیڑنے کی خواہش میں بھٹک رہی ہیں ۔ وہ سرمدی نغمہ جو تن کو میٹھے سُروں سے سراب کرتا الوہی شراب میں مست کرتا ہے ۔

لمحہ لمحہ ملا ہے درد صدیوں کا
ایک پل میں سہا ہے درد صدیوں کا
ساز کی لے پہ سر دھنتی رہی دنیا
تار نے جو سہا ہے درد صدیوں کا
چھیڑ ! اب پھر سے ،اے مطرب! وہی دھن تُو۔۔۔!
اب کہ نغمہ بنا ہے درد صدیوں کا
گیت میرے سنیں گے لوگ صدیوں تک
شاعری نے جیا ہے درد صدیوں کا
ہوش کر ساز کا قوال تو اپنے۔۔!
ہر کسی کو دیا ہے درد صدیوں کا۔۔۔!
میرا نغمہ ، مرا سُر ، ساز بھی اپنا
آئنہ سا بنا ہے درد صدیوں کا
میری ہی دُھن پہ محوِ رقص ہے کوئی ۔۔؟
ساز کس کا بنا ہے درد صدیوں کا ؟​

عہد تجدید کو یاد کرنے سے میری آنکھیں نم ہیں اور دل میں ہجرت کے غم میں گرفتار ہیں ۔ جی چاہتا ہے کہ اپنے دل میں موجود سبھی صنم خانوں کو پاش پاش کردوں ۔ میں نے جب ان کو ختم کیا ہے تب مجھے عشق الہی کی طرف جانے کا زینہ میسر ہوا ۔ میرے سارے درد نشاطِ کیف میں بدل گئے ۔ حق کی سمجھ آگئی کہ نور تو دل میں بسا ہے ۔ میرے دل کیا خود کو طواف شروع کردوں کہ کعبہ تو میرے دل میں ہے ۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ سجدہ ِ حق کیسے ادا کروں ۔ میری خواہش ہوئی کہ روح جسم سے نکلے اور باطن میں موجود کعبے کا سجدہ کرے کہ اصل سجدہ تو وہ ہے ۔ اس طرح کی خالی نمازیں پڑھنے سے کیا ملتا ہے ۔۔۔


روح کی حقیقت ہے لا الہ الا اللہ
نفس کی قناعت ہے لا الہ الا اللہ
شمس کی دَرخشانی پر ،قمر کی تابش پر
یہ رقم شہادت ہے لا الہ الا اللہ
آسمان کی عظمت پر زمیں کی پستی پر
نقش یہ علامت ہے لا الہ الا اللہ
قلب کی وجودِ فانی پہ گر ہو تسخیری
کرتی یہ دلالت ہے لا الہ الا اللہ
خالقِ جہاں کا بس نور ہے گیا مجھ میں
زیست کی صداقت ہے لا الہ الا اللہ
تار تار سازِ جسم کا ثنا میں ہے مصروف
تن کی بھی عبارت ہے لا الہ الا اللہ
اسمِ ''لا'' سے اثباتِ حق کی ضرب پر میرے
دل نے دی شہادت ہے لا الہ الا اللہ
روزِ حشر نفسا نفسی کے شور و غوغے میں
عفو کی سفارت ہے لا الہ الا اللہ
خون کی روانی میں نقش ''لا ''عبارت ہے
عبد کی عبادت ہے لا الہ الا اللہ



جب میں نے سورۃ الشمس کا مطالعہ کیا ہے تو ادراک کی راہیں مجھ پر کھلیں کہ قران پاک کی آیات ہر انسان کے لیے کھلی نشانیاں ہیں اور وہ ان میں اللہ کو خود سے کلام پاتا ہے یہیں پر انسان کا اپنی ذات سے مشاہدہ ہوتے ہے اور وہ خود میں اپنے اللہ کا جلوہ پا لیتا ہے ۔ واقعی سمجھنے والوں کے لیے اس میں کھول کھول کے نشانیاں بتائیں گئیں ۔

سورہ الشمس کی آیات میرے سامنے کھلی ہوئی ہوں اور میں سوچ رہی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قسمیں کھائیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔سورہ—- الشمس—- کا موضوع قانون جزا و سزا کے حوالے سے قریش کے سرداروں کو طغیان اور سرکشی کے اُس رویے پر تنبیہ ہے جو دعوت حق کے مقابلے میں وہ اختیار کیے ہوئے تھے۔

سورج کی قسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ پوری تابانی سے روشن ہو
چاند کی قسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ سورج کے گرد مداروی حرکت میں ہو
اور پھر۔۔۔۔قسم نفس کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کو الہام کی قوت دی تاکہ اچھائی اور برائی میں فرق کرسکے

سورج ، چاند ، دن اور رات میں ہر چیز کی ہیئت اور ان کی بناوٹ ، مزاج اور اس کائنات پر ان کے اثرات میں بڑا فرق ہے ۔ جس کے سبب دنیا میں اضداد ایک رزم گاہ معلوم ہوتی ہے لیکن مدبر کائنات نے اسی تضاد کو اس طرح سے عالمِ دو جہاں میں فٹ کیا ہے کہ مجال نہیں کہ کوئی شے دائرے سے نکل ہائے ۔ نہ سورج چاند کی حدود میں نہ چاند سورج کی حدود میں مداخلت کرتا ہے نہ دن کی مجال یہ کہ وہ وقت سے پہلے نکلے اور نا رات اپنے وقت معین سے پہلے ظاہر ہوسکتی ہے ۔ کائنات کے یہ سبھی مظاہر اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔
’لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ‘ (یٰسٓ ۳۶: ۴۰)
(نہ سورج کے لیے روا کہ وہ چاند کو جا لے اور نہ رات ہی دن سے سبقت کرنے والی بن سکتی)۔​


ان اضداد کی یہ باہمی سازگاری ہی ہے جس پر اس کائنات کے بقاء کا انحصار ہے۔ اگر اس سازگاری و فرماں برداری کے بجائے ان کے اندر طغیان و سرکشی پیدا ہو جائے تو یہ عالم چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے۔ اس وجہ سے خالق کائنات نے ان کو ان کے حدود کا پابند کر رکھا ہے اور یہ اپنے وجود سے زمین پر بسنے والوں کو یہ درس دیتے ہیں کہ وہ بھی خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کریں۔ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کریں گے تو زمین میں فساد برپا کریں گے اور زمین کا خداوند ان لوگوں کو گوارا نہیں کرے گا جو اس کے ملک میں فساد برپا کریں گے۔ ان سب کا ایک مدار میں حرکت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس زمین کا مالک و خدا ایک ہے کہ اگر اس کائنات کے دو خدا ہوتے تو کائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جب بھی قسمیں کھاتے ہیں ان قسموں میں دیے گئے احکامات کو حکمت و استدالال سے سمجھاتے ہیں ۔

ان سب کی قسمیں کھانے کے بعد آخری قسم جو کھائی ہے وہ انسانی نفس کی جس کو ضمیر کی طاقت دی یا نفس دینِ فطرت پر پیدا ہوا ۔ اگر وہ ان نشانیوں پر غور کرتے ، ضمیر کے بتائے گئے راستے پر چلتے خود کو اچھا رکھے تو اس کے لیے اجر مگر وہ اپنی نفسانی خواہشات میں پڑا رہے تو اس کا حال بھی وہی جو قومِ ثمود کے ساتھ اللہ نے معاملہ کیا جب اونٹنی کے بارے میں اللہ کے پیامبر کا پیغام جھٹلا دیا گیا ۔ ایسے لوگوں کو عبرت کے لیے قصے سنائے گئے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے ساری قسمیں اشرف مخلوق کو سمجھانے کے لیے کھائیں ۔ ان قسموں میں تضاد ایک پہلو ہے اور درحقیقت تضاد ہی کائنات کا حسن ہے ۔ اس سورہ کا نام شمس ہے جس میں روشنی کا منبع یا کائنات کو چلانے والی ہستی سورج ہے ۔ اس استدالال کو استعمال کرتے ہوئے انسانی روح کی مثال بھی بصورت سورج ہے اور انسان خود میں کائنات ہے ۔ انسانی جسم کی نمود زمیں سے جبکہ اس کی روح کا امر آسمانوں پر کیا گیا ہے ۔ روح امر ربی ہے اور اس نور کا کام چمکنا ہے ۔

﴿ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾​

روح کو جب جسم فانی میں داخل کیا تو اس کو ضمیر کی قوت بخشی تاکہ وہ اچھے اور برے میں فرق جان سکے ۔انسانی روح کی مثال سورج کی سی ہے اور ضمیر اس کا جزو ہے ۔ روح نور کی تجلی لیے ہوئے ہے اور جب جسد خاکی میں ڈالی گئی تو لطافت پر کثافت نے اس کو دھندالا دیا ۔۔اس کو روشن انسانی ضمیر کرسکتا ہے جو عقلی استدالا ل سے اچھے اور بُرے کی تمیز سکھاتا ہے ۔انسانی نفس شر و خیر کا آمیزہ ہے اور روح کی مثال سورج کی سی ہے اور ضمیر اس کا جزو ہے جو روح کو روشن کرتا ہے اس ضمیر کے گرد اگر انسانی نفس مداروی حرکت میں رہے تو اس کی ہستی سورج کی سی ہوجاتی ہے جو دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتی ہے ۔ نفس اور ضمیر کی آپس میں کشمکس رہتی ہے اور جو لوگ نفس کی تسخیری میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ خود میں سورج ہوتے ہیں ۔ میرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مثال سورج کی سی ہے جس سے پوری کائنات منور ہے ۔ ان کے بعد اصحاب و اولیاء جن کی ہستیاں سورج کی مانند باقی کائنات کو منور کرتی رہیں ۔ وہ رہنما ہوئے اور لوگ ان کی پیروی کرتے رہے جیسے تمام اجرام فلکی سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ ہر نفس انسانی خود میں سورج ہے اگر وہ خودی میں جھانکتے ہوئے اپنی نفی کرتے ہوئے اللہ کی رضا پر چلتے لوگوں کی رہنمائی کرے ۔ میں نے اللہ کی روشن آیت سے حکم کو پالیا ہے اور اگر اس پر عمل کروں تو گویا میں نے طاعتِ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یعنی کے اللہ کی اطاعت کی ۔ اپنی خودی میں مجھے اپنا رب ، اپنے رب کی ربانیت کا مشاہدہ ہوا ۔

کون ‏جانے ‏محبت ‏کا ‏درد

کون جانے محبت کا درد

پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ، ہم کو ہنساتے جائیں گے

حضور ﷺ پرنورﷺ اس دنیا کی رحمت ہیں . اس رحمت کو دو عالم لیے مقیم کر دیا گیا ہے . اس جہاں میں بھی ''وہ'' رحمت اور روزِ محشر بھی رحمت کے سبب عالم کو فیض ملا کرے گا. کیسا روحانی فیض ہوگا وہ جس کے لیے ''حق'' نے قرانِ پاک میں ہمیں خود آگاہ کر دیا. ہمیں نشانیاں کھول کھول کر بتائیں تاکہ ہم اپنی راہیں متعین کرلیں . ہم اس محبت کو حق کیسے ادا کریں گے ؟ بھلا کس محبت کا....َ؟

اس محبت کا ، جو ہمارے آنے سے پہلے ، ہماری پیدائش سے پہلے ، ہمارے مسلمان و کافر ہونے سے پہلے ، ہماری سنی اور شیعہ ہونے سے پہلے ہی ودیعت ہوگئی . اس محبت کو نعم البدل تو ''ہم'' انکار کرکے کر رہیں .. اور کوئی انتہا درجے کی توہمات میں مبتلا ہوکر... جب محبت کا انکار کر دیا جاتا ہے ، تو 'محب'' کو بڑی تکلیف ہوتی ہے ...!!

وہ پاک ذات ﷺ جو اللہ تعالیٰ کی محبوب ہے ، اس جہاں کو یکساں محبوب رکھتی ہے . کیسے ...! بابا بلھے شاہ رح کو ان کے استادِ گرامی نے مسجد میں بوقت جمعہ مٹھائی کی تقسیم کا کہا. آپ نے پوچھا..

اے محترم ! کس طرز پر تقسیم کروں : اللہ تعالیٰ کی طرز پر یا حضرت محمدﷺ کی طرز پر.... یہ سوال استادِ گرامی سمجھ نا پائے اور کہ دیا اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر .. .! اور آپ نے تقسیم میں ''تضاد'' رکھا..! استاد محترم نے ''تضاد'' کی وجہ ٌوچھی تو کہا اللہ کی تقسیم تضاد پر چلتی ہے اور نبی کی تقسیمﷺ مساوات پر.....! اللہ تعالیٰ کے دینے اور نہ دینے میں حکمت پوشیدہ ہے اور شکوہ مناسب لگتا ہی نہیں جبکہ نبیﷺ کی تقسیم میں میں مساوات ہے .. جو آئے گا ، جس طریق کا پیروکار ہوگا اس کو جناب نبی پاکﷺ سے مساوات کی بنیاد پر ملے گا اور اس مساوات سے دنیا میں محبت کا رنگ ایسا نکھرنا ہے ، ایسا نکھرنا ہے کہ سب کا طریق ہی ایک ہوجانا ہے .. سب کا قبلہ ہی ایک ہوجانا ہے ... سب نے راستہ سیدھا کر لینا .... یہ محبت کو تقاضہ ہے اور اس تقاضے کو ہم بھلا بیٹھے ہیں .. یہ تقاضا کیا محبت کی جہاں میں ترغیب نہیں دیتا ؟ دیتا ہے...! کوئی سمجھے تو سہی ...! کوئی مانے تو سہی ...! کوئی تو سمجھے ...! سمجھنا بالکل اسی طرح جس طرح '' جاننا اور نہ جاننا'' برابر نہیں ہوسکتا ہے َ؟

جو آپﷺ کی محبت کا دم بھرے گا اس کو ایک نعمت سے نواز گیا .. وہ جامِ لبالب یونہی نہیں ملے گا... اس کے لیے سمت کو درست کرنا لکھ دیا گیا.. جو حوضِ کوثر پی لے گا وہ انعام کا مستحق ہوگا....! کسی کے یہ '''انعام '' جنت ہوگا اور کوئی شافع کے درجے کو پہنچ جائے گا.. انعامات کیا کیا ہیں یہ تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر جو جان گیا اس کو واپس پھرنا یا لوٹنا اچھا نہیں ہوگا اور وہی دین کے مرتد ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ پاک نے قرانِ پاک میں سورت التوبہ ' میں''براءت کا اظہار کیا ہے .. براءٹ کا معانی ہے 'بیزاری '' ... اللہ بھی بندوں سے بیزار ہوا کبھی ... کیسے نہ ہو... دیکھئے ذرا... ! جب شب ِ براءت آتی ہے تو کون گناہوں سے بیزار ہوتا ہے اور کون اس کو '' شادی '' کا عندیہ سمجھتا ہے .. سوچیے ..! قرانِ پاک میں سوچنے والوں کے لیے جگہ جگہ نشانیاں ہیں اور جو سوچ نہیں سکتے ان کے دل ''طلاق'' کھا چکے ہیں .. طلاق کے بعد '' رجوع '' کیسا... اس لیے اللہ تعالیٰ بندوں سے بیزار ہوا.. اور ان کا داخلہ خانہ کعبہ میں ممنوع کردیا کہ یہ منافقت کرتے .. ایک طرف حاجیوں کو پانی دیتے ہیں اور دوسری طرف آنحضرت رسالت مآب کی شان میں باتیں کرتے ہوئے گستاخ بن جاتے ہیں ... سوچنا تو یہ ہے کہ گستاخ کے ساتھ سلوک کیسا ہوگا آپ کا...

ہمارے پیاری نبیﷺ گستاخ کو بھی حبیب رکھتے ہیں کہ ایک دن ، ایک دن اس نے رجوع کرنا ، اس نے لوٹنا ہے ، اس کے دل پر ابھی ''مہر' نہیں لگی اور جب وہ رجوع کریں گے تو ان سے اچھا کوئی نہ ہوگا.. اپنی امت سے یہ محبت ''تمثیلی '' ہے کہ اس محبت کا ثانی کوئی نہیں ہے .. محبت میں بڑا درد چھپا ہوتا ہے مگر کون اس درد کو سمجھتا ہے .. رسول پاکﷺ کو ایک حبیب جناب سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رض کی صورت میں ملا .. جو ''ثانی الثنین '' کا لقب پایا گیا.. کہ ''دو بندے'' ہی غارِ ثور میں تھے اور دوجا کوئی نہ تھا.. معراج کے وقت جب دوذخ و جنت کی سیر کرائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے جناب حضرت ابو بکر صدیق رض کی شکل کا فرشتہ بھیجا اور اس کی رفاقت میں رسول پاکﷺ نے دوذخ کی سختیوں کو دیکھا.... کون جانے گا محبت کا درد .. کوئی نہیں جان سکتا اور جو جان لیتا ہے وہ رجوع ہی کرتا ہے وہ کبھی واپس نہیں لوٹتا اور نہ ہی وہ مرتد ہوتا ہے !

زندگی ‏کی ‏جنگ

زندگی میں سلاخیں بدن میں گڑھ جاتی ہیں اور زندگی محدود ہوجاتی ہے. قیدی کا کام کیا؟ اس کو دو حکم ملتے: ایک مالک سے اور دوسرا نائب سے. وہ کس کا کہنے مانے؟ بدن کے اندر دھنسا مادہ التجا کرتا ہے اور کبھی خاموشی کی چادر اوڑھ کر سمندر کو شوریدہ کرتا ہے ۔

''مکانی قیدی''کی بات قوقیت رکھتی کیونکہ ظاہری طور پر زندگی اس کی غلام ہےمگر پسِ پردہ' یہ 'زمانی ''مالک کی تابع ہوتی ہے.انسان کی جنگ جو اس کے من کے اندر چلتی ہے وہ اسی زمانی و مکانی نسبت کا شاخسانہ ہے. تم ایک وقت ایسا پاؤ کہ جب مکان کی وقعت کھو دو تو ''تمہارا '' اور'' زمانی'' کا رابطہ ایک ہوجائے،تب صرف اور صرف راستے کی رکاوٹ میں شامل تمہارا نفس ہے. اس راستے میں عقل بطور پل صراط بن کر تمہارا راستے کا پل بن جاتی ہے اور یہ پل تمہاری آزمائش اور پہچان کی طرف کا راستہ بھی ہے۔

بدنی پانچ حسیات اور وجدان ایک دوسرے کی ضد ہیں. لاشعور زمانی اور حسیات مکانی ہیں.کبھی نفس تمھیں آنکھ سے بھٹکائے گا تو کبھی خوشبو راستہ روکے گی تو یہ کبھی نغمہ ساز بن کر بھٹکے گی تو کبھی نغمے کی کشش ۔۔۔۔۔ ۔۔! کبھی چھو جانے کا احساس گداز ڈال کر تیرا راستہ روکے گا. ان سے جنگ تیرا جہاد اکبر ہے اور یہی راستہ جنگ عین 'زمانی '' کی طرف لے جائے گا۔

جنگ کے مرحلے تیرے نفس کے مراحل ہیں: جب تو امارہ سے لوامہ سے ملحمہ سے ملکوت سے جبروت سے لاہوت کا سفر طے کرتاہے. ایک درجے سے دوجے درجے جانے کا امتحان ہوتا ہے. ایک دروازہ ایک پل پار کرنے کے بعد کھلتا ہے ۔اس پل کو تم' پل صراط' کہ لو کہ جہاں ساری حسیات کو یکجا کرکے تم چل سکے تو چلے ۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک حس نے بھی تمھارا توازن خراب کر دیا تو سمجھو تم برباد ہوگئے ۔ اس بربادی سے بچنے کی دعا مانگنا اور بچ بچ کے چلنا صبر اور تقوٰی سے حاصل ہوتا ہے

زندگی میں جب تجھے آزمائشیں گھیر لیں اور تو گھبرا کر مایوس نہ ہو کہ خالق کا فرمان ہے
لا تقنطو.۔۔۔۔۔۔۔
مایوس مت ہو۔ (اللہ کی رحمت سے )

تیری مایوسی ،تیرا نفس ہے جو تجھ پر حاوی ہونا چاہتا ہے وہ تجھے دس ہزار طاویلیں دے کر راستہ روک دے گا۔. رکنے والے سفر روک دیتے ہیں اور جنگجو سفر جاری رکھتے ہیں. دنیا میں جنگجو کبھی سپاہی ہوتے ہیں تو کبھی جرنیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!

تیرے اندر کی جنگ تیرا مقدر ہے اور تیرا ان پر حاوی یا محکوم ہوجانا تیری تدبیر ہے. اور ایمان دو حدود کے بین بین ہیے. نفسانی خواہشات پر جبر کرنے والے یہ راستہ کھو سکتے ہیں مگر صابر کو میٹھا پھل ملتا ہے اور صابرین کے ساتھ وہ ہستی ہوتی ہے.

صبر و جبر تیرے نفس پر گرہیں ہیں جب تو ان سے خواہشات نفسانی کو مقفل کرتا جائے گا تو تجھ پر انوار منکشف ہوں گے مگر تو اگر نفس کو کھلائے گا تو تیرے دل پر مہر لگنے کا خطرہ ہے جو معطونوں کے لیے ہے.

دنیا میں تیرے صبر کو تقویت دینے والی چیز تقوٰی ہے. یہ تیری نفس کا دست راست ہے. زندگی کی خار راہوں سے موتی چن کر کانٹوں سے بچ بچ کے چلنا زندگی کا عین ہے.

وہ وعدہ جو روح وجود میں آنے سے پہلے کر چکی ہے وہ ہی جو ایک زندگی.گزار چکی ہے جب جب تو موتی چنے یا کانٹے۔۔۔۔!! یا تجھ میں احساس جاگے کہ تو اس بات سے واقف ہے ،تو سمجھ لےکہ تیری روح تجھ میں بیدار ہے اور تیری ذات کو کیل کانٹوں سے نکالنے میں معاون ہوگی .یونہی تیرے نفس کے مدارج طے ہوتے جائیں گے.

۲۰۱۵

ابھی ‏ٹھہر ‏کہ ‏جلوے ‏کے ‏انداز ‏باقی ‏ہیں ‏

ابھی ٹھہر کہ جلوے کے انداز باقی ہیں

میں خاموش ہوں ، طلب بڑھتی جائے ہے ، ہواؤں کی سنگت دھوپ میں ہستی جلتی جائے ، اتنی آہ و زاری کی ہے ، اتنی کہ زمین بھی حیرت سے گرنے والے قطروں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ  فلک سے گر رہے ہیں یا دل سے ، جی ! دل کیوں ہوں نالاں ، عاجز ، پاگل ، دیوانہ ، روتا ہے اتنا کہ صبر نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ جلوہ ِ ہست ------ نمود کب ہوگی ، جلوہ جمال سے  صورت کامل کب ہوگی ، جلوہ پرستی کی انتہا ہے ، جلوہ سے بڑھ کے کیا ہوگا ! دید سے بڑھ کے کیا ہوگا ! یہی ہوگا کہ قریب اتنا کرلے کہ نہ رہے کہ کوئی فاصلہ ، نہ رہے کوئی سلسلہ ، بس تو رہے  !

عشق میں بندگی نے خاموشی اختیار  کی مگر تیری اجازت نے لہروں کو شور دیا ہے ! مجھے پلا پلا کے مدہوش کیا!  اے بادشاہ اے ذو الجلال!  الجمیل  ، اے عالی حشمت  ، اے صاحب الرحیم ، اے میرے پیا ! میرے دل کے دربار پہ ایک دیے نے سو نئے دیے جلا لیے ، دل  چاند کی مانند روشن ہے اور رات ناچ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

''وہ جو تشریف لائے ہیں شہباز  کو پرواز  ملے
پارہ آئنے سے نکلے تو کام بنے ، بات بنے ''
روشنی ہماری ہے ، جلال ہمارا ہے ،کمال کیا ہے
عشق پروانہ ، موم کے اڑے رنگ ، اک میں ہی بچا
قربتیں ---فرقتیں --وقت کی قید سے عشق نکلا
''نور کو شہِ ابرار کے در سے نوری نگینہ ملا
یہ سرمئی ، نیلا ، شفاف سا نگینہ کیا تھا
یہ صاحب ِ جمال کے دل کے آئنہ کے آئنہ
جس پہ لکھا: کالا رنگ اترنے میں کتنی دیر باقی
دل کے ساتھ نگینہِ سرمئی، شفاف لگایا جب
نور کی شعاعوں میں خود کو گھرا پایا تب
سب پردے ازل کے اٹھنے لگے ہیں
کالے حجاب کا کلمہ لا ہے ، لا لا لا لا لا لا
دل پر مکین نے دیا ہے اسم اعظم الا اللہ
شاہِ حجاز، شاہِ نجف ، شاہِ ہند سب کھڑے ہیں
دل جھکا ،مقام ادب ہے ، روح میں نوری شعلے ہیں
ادب نے کہا دل سے: سرخی کہاں سے آئی ہے
فلک سے اتری یا زمین نے گلابوں کی چادر تانی
کمال کی شرافت سے حسن کی بات مانی
دِل نے قلب کے گردش کی  پھر ٹھانی
سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو ! سبحانی ھو!
نم ڈالتے ہیں ہم ، وصل کرتے ہیں ہم
نور دیتے ہیں ہم ، جلوہ کرتے ہیں ہم
''آئنے کو آئنے میں سجانے والے النور
آئنے کو قلب سے نکالنے والے النور
آئنے کو چمکانے ، ضو دینے والے النور
دل طور تھا ، کعبہ بنانے والے النور
قلندر کو دنیا میں بٹھانے والے النور
مطلب دنیا سے نَے خاکی جسد سے
یہ مٹی کیا ہے ، اسکو ہٹانے والے النور
لا الہ الا اللہ ھو الرحمن الرحیم
زمانے کو خاکی لباس دینے والے النور
کب ہوگا جلوہ تیرا ، سرمہِ ہستی ہے
سوال کرنے والی نبی ﷺ کی امتی ہے
فانوس جس پہ الباری کا نام لکھا ہے
وہ روشنی جس پر النور کا چشمہ ہے
قلب معطر ہے اس پر محمدﷺ لکھا ہے
قلب کے قلب پہ علی ؑ کا نام ہے
نامِ علی سے پرے بی بی فاطمہ کا نام
جن کے در سے ملنے ہیں بڑے کام
سیارہِ حسینی اس ہالے کے گرد گردش میں
یا حسین ! یا حسین ! یا حسین ! یاحسین!
حسینی چراغ ہوں ! ان کے در کی ادنی غلام
جامِ لبالب ہیں ، پیمانہ منتظر ہے
دِل نے قلب کے گرد کی گردش
شعرِ رجزیہ ان کی خدمت میں کہے
ابھی کہ ٹھہر کہ وقت اس محفل کا نہیں
ابھی کہ ٹھہر وقت ابھی حمد کا بھی نہیں
ابھی کہ ٹھہر ، خلعت سے نوازا جانا ہے
ابھی کہ ٹھہر  بیعت کا حلف اٹھانا ہے
ابھی کہ ٹھہر تیرا ذکر اٹھایا جانا ہے
ابھی کہ ٹھہر تیری فکر سے پردہ اٹھے
ابھی کہ ٹھہر حجاب ازل کے سب اٹھیں
ابھی کہ ٹھہر کچھ نقاب ڈالنا سیکھ لے
ابھی کہ ٹھہر زبان پر تالے ڈالنا سیکھ
ابھی کہ ٹھہر طوفِ والہانہ سیکھ
ابھی کہ ٹھہر سرخ چولا پہننا سیکھ
ابھی کہ ٹھہر جوش ، ہوش کا یارانہ سیکھ
ابھی کہ ٹھہر ، تیرے ذمے بڑے ہیں کام
ابھی کہ ٹھہر ، ذکر میں گزرے صبح و شام
ابھی کہ ٹھہر ، حسینی نگینہ پہننا سیکھ

سر جھکا اٹھا تھا اک پل کو مگر پھر جھک گیا ، ان کے در سے یاقوت کو اپنی دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت میں پہنا ہوا پایا ، احساس نے سارا خاکی لباس سرخ کردیا ، دِل نے جلال کی کملی میں پناہ لی جس پہ لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
لا الہ الا اللہ ------- یہ ہے حسینی تلوار
دل نے کی گردش ذرا زور سے ، ارض و سماء سہم گئے ،
اے غارِ حرا کے مالک سلام
اے مالک میرے اے آقا میرے
اے میرے محمدؐ ، آپ ہر ہزاوروں سلام

خواب نوری کی جانب سے بشارت ہیں ، جب خوشخبریاں ملیں تب شکر واجب ہوجاتا ہے ۔ شکر کو ذکر سے درود سے بھرپور رکھنا ہوتا ہے ، ذکر کی محافل سجانی ہوتی تب جاکے بات بنتی ہے ، اگر جلوہِ محمدی ﷺ کی تڑپ دِل میں ہو تو سیرت بھی محمدؐ  کی سی ہونی چاہیے، جسکو بشارت اک دفعہ مل جائے ، اسکا کام بن جاتا ہے ، جسکو بار بار ہوجائے اسکا نام بن جاتا ہے ، جسکی طلب نہ مٹے ، اسکو دوام مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مئی ۲۹، ۲۰۱۷

سنتے ‏ہیں ‏کہ ‏رات ‏میں ‏سورج ‏موجود ‏ہے ‏

سنتے ہیں کہ رات میں سورج موجود ہے ورنہ خُدا "والیل " نہ کہتا 
سنتے ہیں کہ صبح میں سورج موجود ہے ورنہ خُدا "والشمس " کہتے سورج کی قسم نہ کھاتا

شنید ہے کہ رات صبح میں فرق نہیں ہے کہ وہ تو موجود گردش میں ہے،  گردش ماہ و سال کی، گردش دن و رات کی!  

شنید ہے کہ قوم لوط کو بدفعلی کھاگئی اور خلیل اللہ دو فرشتوں سے ڈر گئے اور نوح والے فرشتوں کو کھینچنا چاہتے تھے 

شنید ہے کہ فرعون نے سونے کے انبار اکٹھے کیے تھے،  اہرام بنائے مگر زمین میں جگہ نہ پاسکا،  ماں نے بچہ لینے سے انکار کردیا کہ وہ پہچان کا رولا ہے 

شنید ہے کہ خدا موجود ہے اور خدا،  خود سے بات کرتا ہے،  خدا ظاہر ہوتا ہے،  خدا اوجھل ہوجاتا ہے اور جو پناہ مانگتے ہیں ان کو تو درخت میں چیر دیا جاتا ہے 

شنید ہے کہ قرار تو وصل پر ملتا ہے مگر دیکھ کے خشیت لازم، محبت کا پہلا قرینہ وگرنہ  خدا کبھی  "المزمل " نہ کہتا حبیب کو 

شنید ہے کہ اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور ہونے والی ہے،  ادھر دیکھو، .ادھر دیکھو ..بس جلوہ ہے اور کچھ نہیں بس نفی لازم 

تن کی لا 
من کی لا 
لا نے کی لا 
یہ کلمے کی بقا 
لا بقا کے بعد یا رسول اللہ 
یہ پاکی تو اوج ہے 
یہ پاکی بعد ریاضت نصیب کسے؟
خلافت ایسے مل جائے تو یوسف زندان میں ڈالے جائیں؟  
جو لحم مادر میں بول پڑیں وہ عیسی جا بجا ہیں، جلوہ حق نما ہیں،  کہانی نہیں اے یار،  حقیقت ہے 
جس نے مہد میں حقیقت بتادی،  وہ کل اسرار سے واقف 
جو جان کے بھی خاموش رہے،  وہ محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
اقرا ء کے ساتھ جبرئیل تھے
ورنہ کس کو سمجھ آئے قران ترتیل ہو رہا ہے 
قران سما رہا ہے 
قران سما رہا ہے 
قران سما رہا ہے 
ہیبتِ جبروتی ہے 
ہیبت لاھوتی ہے 
حق ھو!  وہ ناسوتی میں ہے 
حق ھو!  وہ جبل النور میں 
حق ھو وہ باغ ِ مسجد جناں میں 
حق ھو وہ کوئے لالہ و عنبر کے باغ میں 

تو جب  درود بھیج کہ اللہ کی سنت پوری کرے،  اس پر حج کے در وا ہوجاتے ہیں،  نماز کی خشیت کے راز کھل جاتے اور ہر جانب غیبت و حاضر بیک وقت ہوتی ہے ... 
خودی ہی لا سے الا اللہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی تین منازل طے کراتا ہے 

جناب بی بی پاک سیدہ  زہرا  بتول جب جب دیکھتیں دل میں تمجید اترتی ہے،  دل وہی ہے یا وہ دل بدل گیا ہے مگر وہ بی بی زہرا رضی تعالی عنہ  جن کے دم سے شہنائی بجنے والی ہے،  رات آنے والی ہے!  حق اللہ!  
نور

نثری ‏نعت ‏

شہِ دو جَہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہی ہے ـ ان کے ملیح چہرے کو  ہوا نے جب تکا تو صبا کہلائی جانے لگی ـ صبا نے جب چھُوا تو  خوشبوئے گُلاب بن گئی ـ گُلاب تو خالی کاغذ تھا اور جب کاغذ کو خوشبو نے چھوا، وہ لطافت کا حامل ہوتا گیا اور جب چھونے والے نے چھُوا،  اس کا لگا گلاب ہی اصل شے ہے اور وہ مرکز تک پہنچ نہ پایا ـ دکھ کی بات ہے سامنے والا دکھ جاتا ہے اور اندر دفینہ ء دل کیا، یہ دیکھا نَہیں جاتا ـ ان کی مہک کی جاودانی ہے کہ دل میں ان کی کہانی ہے، یہ دل بڑا داستانی ہے اور کہنے والے نے کہاں سنانی ہے کہ بات بھی پُرانی ہے ـ یہ پرانی بات نئی ہوکے چل کے کسی کسی بشر کے پاس آجاتی، کسی نے کہا ان کو دیکھا اور پھر ان کو دیکھنے والے نے جہاں کو دیکھا ـ جدھر جدھر دیکھا وہی نظارہ مکمل ہوا ـ کسی نے کہا اللہ مگر جس نے سنا تو اس  نے کہا یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ــــ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پائے مبارک کو مٹی نے ادب سے چھوا تو وہ صحرا سے گلستان بن گئی ـ شاہ کے جلوے سے مٹی کو زینت دے دی گئی اور مٹی نے فخر سے نقش نقش دل میں اتار کے کہا "یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ـ آپ سا کہاں؟ کہاں آپ سا؟ کہاں آپ سا؟

لوگ ‏بھاگ ‏رہے ‏ہیں ‏

لوگ بھاگ رہے ہیں،  
بلکہ مانگ رہے ہیں،
کیا مانگ رہے ہیں،  
دید کی بھیک،  
ممکن نہ تھی دید آسان،
جب  حاجرہ کے چکروں کا لگنا
اسماعیل کے پا سے زم زم کا نکلنا،  
موسی کا خود شجر سے سراپا آگ بن جانا 
اللہ نور سماوات کی تمثیل تھے 
یقینا ہم نے سبھی سرداروں کو اسی برق سے نمو دی،  یہ شہ رگ سے قلبی رشتہ تھا ... .
جس پہ مقرر اک فرشتہ تھا.   
جس نے جان کنی کا عالم دو عالم میں سمو دیا،  
یہ عالم موت تھا،  یا عالم ھُو تھا 
دونوں عالمین کے رب کی کرسی نے الحی القیوم کے زینے دکھائے،  
باقی وہی ہے،  فانی تھا کیا؟
یقینا فانی کچھ نہیں،  
مٹی تو اک کھیل ہے،  
روح کے ٹکروں کا کٹھ پتلی بننا تھا 
قالو بلی کا آواز کن کے آوازے سے پہلے،  
تخلیق آدم اور اسماء کا القا ء 
ذات کی تجلی،  صفات کی تجلیات 
دونوں آدم کو مل گئیں اور  شیطین کو کہا،  
ساجد ہو جا،  سجدہ میرا تھا،  قضا کرکے،  منصف بنا؟  
نہیں،  خطا تو آدم نے کی تھی،  آدم کی توبہ اور شیطین کا تکبر،  در سے در ملنا،  بند ہونا،  قفل لگنا،  
یہی لوگ شرالدواب ہیں،  
صم بکم عمی کے تالے ہیں ان کے دل میں،  
ہم نے بدترین کو کیسے کھڑا کیا،  اپنے سامنے کہ للکارے ہمیں اور ہم نے کیسے اسکو اُس تماشے کے پیچھے رسوا کردیا، جس کا آخر زیاں تھا، جس کی ابتدا بھی زیاں ..... افسوس شیطین نے زیانی کا سودا کیا اور آدم کو ہم نے نور نبوت کے فیض سے نوازا،  
پہلے عارف کی معرفت محمد صلی اللہ  علیہ والہ وسلم پہ مکمل ہوئ،
یہی توبہ کی مقبولیت کا وقت تھا،  
حوا کی زمین سے کیسے کیسے عارف نکالے،  
آدم کی پشت میں،  کتنے پیامبر تھے،  جن کو حوا نے دیکھا،  .
آدم کو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جد ہونے پہ فخر ہوا،  یہی ہمارے حکمت ہے کہ کسی کو کم،  کسی کو زیادہ سے نوازتے ہیں!  
اے وہ ذات،  آگ لگی ہے!
اے وہ ذات، جس نے مجھے چراغوں سے تبسم دیا،  
اے وہ ذات،  جس نے روشنی سے تیرگی کا فرق دیا 
اے وہ ذات،  مقصد کیا تھا میرا؟  
سلسلہ ء ہدایت کے واسطے، میں تو خود ہدایت کی متمنی،  میں تو خود اوج معرفت کی خواہش مند ...
اے دل،  دل کے واسطے کائنات ہے،
دل، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  اس دل کے  کتنے حصے پھیلے؟  
جتنے حجاز مقدس کے گگن سے رشتے تھے،  
جتنے کربل کے  شاہ نجف سے رشتے تھے،  
جتنے لاھوتی کے ملکوتی سے سلسلے،  
جتنے عجائبات کا،  عالم سے سلسلے،  
رابطے ہوتے ہیں،  نور کے نور نبوت صلی اللہ.علیہ والہ وسلم ہے،  جس کو ملے ہدایت،  اسکو ملتی ہے اس نور تک رسائی

کیا ‏لکھوں ‏

کیا لکھوں؟  
کسے لکھوں؟
کہوں کیا؟
یہی ان گنت فسانے ہیں.
بے شمار باتیں جن کی 
کھو گئیں ہیں 
قلم نوکِ دل پر پھر بھی زور لگائے ہے  کہ لکھ فسانہ ء دل .....
حیات کی کشمکش میں کسے کہیں اپنا ؟
یہاں سبھی اپنے ہیں ،پھر بھی پرائے ہیں 

رقص قلم دیکھ کے جنبشِ مژگان نے دو موتی کیا ٹپکا دئیے!
قیامت آگئی! 
خشک سیاہی میں کیسی جان آگئی ؟
لہو خشک تھا، فشار میں روانی آگئی
میں نے پھر بھی کہ دیا " کیا لکھوں؟  
کسے لکھوں؟
کیا کہوں؟
کسے کہوں؟  
یہاں سبھی اپنے ہیں پھر بھی پرائے ہیں " 
موتی ٹپکتے رہے، ہاتھ بھرتا رہا
تنگی ء دامن پر گلہ کیا کرتے؟  
تپش!  یہ تپش حشر کی تپش کی مانند برفابی جھیلوں کے حُسن کا اضافہ کرتی دکھتی ہے 
تپش نے گویا خنجر کی جگہ لے لی،  زخم جگر مگر دیکھے کون ؟
ان کہی کہانی کے ان کہے لفظوں سے کچھ لکھنا چاہا ہے 

ایک لکھنے کی کشمکش ہے کہ لکھ دل سے مگر میں سوچتی ہوں کہ کیا لکھوں.  یہ ہم کلامی سی ہے یا خود پر جھیلا احساس ہے.  اصل میں کچھ ہوا یوں ہے کہ سرحد پار ایک اجنبی سے میری ملاقات ہوئی.  میں نے اس سے پوچھا تم سرزمین حشر میں کیا کر رہے ہو؟  اسنے کہا میں حجاز سے آیا ہوں اور ایک پیام لایا ہوں!  میں نے پوچھا حجاز مقدس سے کیا پیغام ہے؟  
کہا "نماز قائم کرو " 
کہا نماز تو پڑھی نہیں کبھی 
کہا پھر باوضو رہا کرو،  نماز آجائے گی 
کہا وضو تو ہمیشہ سے "تو، میں " کی تکرار سے ناقص ہے 
کہا نیت دل پر جا،  شوق حضور کی طلب رکھ 
کہا قال کے بنا حال بھی کچھ نہیں.  
کہا نیت سب کچھ ہے، عمل سچا، سچی شریعت ہے، مگر مت پڑ ان باریکیوں پر 
کہا نیت حضوری کیسے کروں 
کہا آیتِ سجدہ تلاوت کر
کہا کہاں کہاں سے لاؤ،  کس کس کو پڑھو!  .
کہا،  لکھا جو خط محبوب نے،  جہاں سے شروع کر، ترے لیے موجود ہے 
کہا خط پڑھنے کا سلیقہ نہیں،  امی ہوں 
کہا  کہ آیت معراج پڑھ 
کہا کہ پڑھ لوں گی مگر فہم نہ ہوگا 
کہا کہ فہم اللہ کی جانب سے ہے، نیت منجانب عبد ہے 
کہا کہ شہنائی کیوں سنائی دی 
کہا کہ اخلاص سے نکلی دعا تھی یہ تری 
کہا کہ اتنا کچھ کہ ڈالا،  عمل سے دور ہوں 
کہا کہ  دل کا سجدہ کر،  دل والوں کے لیے سجدہ لازم 
کہا کہ سویرا کب ہوگا 
کہا جب شمس رات کو طلوع ہوگا 
کہا شام حنا کب آئے گی 
کہا جب رات قبا بدلے گی دن کا 
کہا کہ.رات اتنی سجیلی کیوں ہے 
کہا کہ نور ہے!  نور ہر جگہ ہے اس لیے رات بھی دن ہے

حاظرین ایک کشمکش ہے کہ بہت کچھ لکھنا ہے گویا سیلاب پر بند باندھوں کیسے؟  کسے کہوں کہ شام غم کی سحر میں مرغ مؤذن نے اندھیرے مٹا دئیے ہیں ....کسے کہوں اذن حاضری ہو تو بس حی علی الفلاح کی صدا آتی ہے  ... فلاح کی جانب قدم پر لاکھ تاویلیں ہیں،  کیوں کروں؟اس لیے کیا لکھوں؟  کیا کہوں؟

درود ‏بھی ‏ہو ‏لبوں ‏پر ‏

درود بھی ہو لبوں پر 
سلام بھی ہو لبوں پر 
مدحت کے بولوں میں 
راحت کے جھولوں میں 
مست و کیف ہستی ہے
رات بہت  ہی اچھی ہے
اس کرم پر جان حاضر
اب تو ہی  میرا باقر 
اے جان ! کلمہ محبت 
نقش ہوئی تری الفت
پھولوں کا لیجیے نظرانہ 
دل میرا ہے فقیرانہ ۔
زندگی میں کیف و ہستی اور نشاط و مستی  کبھی ایسے موڑ پر پہنچا دیتے ہیں کہ جستجو جہاں سے آگے جانے کی ہوتی ہے ۔ انسان پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ خاموش رہ کر منزل ساکت کردے یا  جستجو میں بڑھتا چلا جائے ۔ ایک اچھے گھڑ سوار کی طرح شعور و لاشعور کی متعین کرکے منزل طے کرنا ہی کامیابی کی دلیل ہے ۔ اگر گھڑ سواری میں انسان ناکام ہوجائے تو سمجھے کہ ٹھوکروں نے اس کا راستہ پکڑ لیا ہے ۔ ہر نفس کو ہر قدم پر ایک مرحلہ آزمائش کا طے کرنا ہے ۔ آزمائش کی شرط صبر و خاموشی اور انکسارہے ۔ رب باری تعالی  کو یہ صفاتِ عبدیت پسند ہیں اور جب  غلامی شوق بن جائے تو  غلام بے زنجیر گھومتا ہے ۔ یہ رب کی عطا اس کے خاص بندوں پر ہوتی ہے ۔ اور اس عطا پر شکر و عاجزی ایک مرحلہ آنچ کی طرح پگھلنا ہوتا ہے ۔ اگر  پروانہ شمع کا طواف کرے تو جل جانے میں مزہ ہے ، اس طواف میں ہوش و جوش کو توازن میں رکھنا جلانے سے بچاتا ہے ۔ اگر آگ سے جلنا مقدر لکھا ہوتا تو آج اس دنیا میں کوئی انسان بچا ہی نہیں ہوتا۔ 

ایک اچھا مقلد نفس کے مراحل کی تسخیر میں جنگ کے لیے تیار رہتا ہے ، اپنے خیموں کو مستعد رکھتا ہے ، گھوڑا تیار رکھتا ہے ، تلوار کی دھار تیز رکھتا ہے ۔ گویا ہر نفسی کو کوئی پل بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے اس کی یاد میں تمام کام خود بخود ہوجاتے ہیں ۔ ایک مرحلہ ایسا ہوتا ہے کہ شعور و لا شعور کی  جنگ میں توازن قائم  ہوجاتا ہے اس مقام  کو مقام ِ عین کہتے ہیں ۔ پیاس کا صحرا، تو کبھی بارشیں ، کبھی حبث تو کبھی طوفان ۔۔۔ یہ سب  باتیں مقلد کے لیے بے معنوی ہوجاتی ہیں ۔ 
 
شک کے مراحل کو عبور کرنے کے بعد تسکین کے مرحل کی طرف چلنا ہوتا ہے ، ان دو سمندروں کے درمیان پیاس کا صحرا ہے اور یہ حالت ِ جلال ہے ۔ یہ تسخیر زندگی کی جمالیات کی طرف جانے کا عندیہ ہے ۔ شیطان کبھی شک تو کبھی وسوسے تو وہم کی صورت  میں ترا سامنا کرے گا۔  اپنے نفس کو شیطان سے بچانا ہی منزل کی جانب ایک اور قدم ہے ۔ زینہ بہ زینہ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے انسان حصول عشق میں کامیاب ہوتا ہے اور کچھ زینوں پر مشعل باندھے کھڑے رہتے ہیں اور کچھ لڑ کھڑا کر گر پڑتے ہیں ۔ استقامت  سے ، صبر سے اور تحمل سے سب کچھ مسخر ہوجاتا ہے ۔

ایک محبت اللہ کی اور ایک محبت اس کے محبوب کی ہے ۔ اس کا محبوب  رحمت اللعالمین ہے  ذات کی تسکین  اس رحمت سے ملتی رہتی ہے ، یہ ذات بڑا حوصلہ دیتی رہتی ہے کہ بے شک اس کا کام حوصلہ دینا ہے ۔ اس کی طرف رجوع گویا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتا ہے ۔ اس کی محبت سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔ وہ ذات بڑی نظیر ہے ، اس کا ثانی کوئی نہیں اس دنیا میں ۔۔۔۔ وہ رب بھی تو بڑا لا ثانی ہے ۔۔۔۔ ہاں اس کی لاثانیت کی قسم ۔۔۔۔!!

اللہ تعالیٰ اس دنیا کے اوپر اور دنیا کے نیچے ، دنیا میں   پھیلا نور ہے ۔ اس نور کو پکڑنا گویا خود کو جلانے کی مترادف ہے ، جبکہ اس کو پیارے کو پکڑنا ایک راحت ہے ، ایک تسکین ہے سبب کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تسکین قلب  ، یہ راحت ، یہ الفت ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے ! یہ مالک کا اعجاز ہے ۔ مالک چاہے تو رخ پھیر لے۔ کیا بندہ کچھ کر سکتا ہے ؟ نہیں نا۔۔۔!!!
جب بندے کی حیثیت دو کوڑی ہے تو اس دو کوڑی کو کبھی تکبر سے کام نہیں لینا چاہیے ۔ مٹی کا  کام مٹی  سے ہے اور مٹی سے ہی سارے محبت کے سلسلے ترے اعجاز کا سبب ہے ۔۔۔ 

او ۔۔! پیارے محبوب ! او میرے پیارے محمد ﷺ ۔۔۔ آپ اس جہاں میں ہم گنہ گاروں پر نظر کرم کردو ۔۔ ہم بڑے عاجز و حقیر ہیں ۔ اس دنیا کے لوگ آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں مانگے ہیں ، 

مانگے جائیں گے 
منہ مانگی پائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔!
مانگ  مانگ کر  اب ہم بھی 
اپنی مرادیں پوری کرائیں گے
اے نبی ﷺ آپ پر سلام 
اے نبی ﷺ آپ پر درود
اے نبی ﷺ کون تم سا
اے نبیﷺ  ہادی ہو تم 
اے نبی ﷺ محبوب تم 
اے نبی ﷺ سایہ جہاں کا
اے نبی ﷺبدل دے میری کایا
یا نبیﷺ  یا نبیﷺ یا نبیﷺ
یا نبیﷺ یا نبیﷺ یانبیﷺ
ایک ضرب ، دوجی ضرب اور ۔۔۔۔
مجھ کو اپنے دامن میں چھپا لیجئے 
مجھ کو اپنا بنا  لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے محبوب آنکھ سے اشک روان ہیں اور تن میرا دھواں دھواں ہے ۔ ہوش و حواس پر ' نا ہونے ' کا گمان ہے ۔ اپنا کرم۔۔۔ اپنا کرم ۔۔۔ کرم ۔۔۔ سب کچھ اچھا کر دیں ۔۔۔مجھ کو دامن میں چھپا لیں ۔۔۔ مجھے اپنا بنا لیں ۔ یہ کرم ایسا کرم ہے ، میری ذات  کا بھی یہ بھرم ہے ، مجھے بکھرنے سے بچا لیجیے ۔ یا نبی ﷺ ۔۔۔۔۔ حق ! حق! حق!
اللہ اللہ کریے تو تاں گل بندی اے
کامل مرشد پھڑئے تو تاں گل بندی اے ۔
اے مرشد کامل ۔۔۔!
اے  ذوالقرنین ۔۔۔!
اپنا کرم کردو۔۔۔۔ دنیا جہاں کے لوگوں پر اپنا کرم کردو۔ سب کو دامن میں لے کر ، سب کا دامن بھر دو۔ سب کے حصے کے غم کا مداوا ہوجائے گا۔ ذرے ذرے میں نام کا اجالا ہوجائے گا۔

شمع ‏کا ‏جل ‏کےراکھ ‏ہونا

کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک پل میں شمع جل کر راکھ ہوگئ ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ دل پر بوجھ سا پڑجاتا ہے  کہ اب کچھ کرنا ہے اور کچھ قرض ہے ۔ اس ادراک کی افہام سے دل میں زلزلے آجاتے ہیں ۔ سیلاب اور زلزے اور پھر بھی خاموشی ۔۔۔۔ 

یہ آگہی کا عذاب بڑا عجیب ہوتا ہے مگر جب بھی ملتا ہے وہ خوش نصییب ہوتا ہے ۔ 

آگہی ایک عرفان 
آگہی تو پہچان
اس سے ہو ایقان
یہ ذات کا وجدان 
دل کہتا کہ اب مان
محبوب کی نہ ٹال 

بس اس کے آگے زبان کو تالے لگ جاتے ہیں ، انسان جو مست خرامی ۔۔۔۔ خراماں خراماں باد صبا کی طرح مہک رہا ہوتا ہے اس کا دل جل اٹھتا ہے ، خوشبو بن کر جلنا کیسا ہوتا ہے َ 
خوشبو بھی ، روشنی بھی 
جستجو  میں مدہوشی بھی 
اس آڑ میں اک بے بسی بھی 
پھیل کر رہے گی روشنی بھی 

تن کو چھوڑ دو۔۔۔ من بڑا اداس ہوگیا ہے ، سارا سمندر آنکھ کے بند میں بندھ گیا ہے ۔ ہائے ! بند کیسے کھلے گا، ہچکیاں کب لگیں گی ، روئی بدن کا ذرہ کب اڑے گا۔  اور ذرہ کب ، کہاں کہاں اڑے گا۔ اس کی بساط ، مگر اڑے گا اور مہک کر روشنی دے گا۔ اس میں تن کا جلنا شرط ہے تو شرط سہی ، ہم کو تو یہ شرط بھی ماننی ہے کہ تن ، من کا جلا ایک دروازے سے کھڑا اس کو کھول چکا ہے اور دروازے کھلنے پر ایک لق و دق صحرا ہے ، مگر یہ صحرا  دروازے پر کھڑے رہنے سے اچھا ہے ، صحرا کے طویل مسافت کے بعد ایک اور دروازہ اور آگہی و عرفان کے در کھلتے جائیں گے ۔  درد کا راستہ و سفر شروع ہے ۔ ساری شوخی و مستی ہیچ ہوگئ ہے ۔ اب بے بسی میں مزہ ہے اور اس میں اک نشہ ہے ، شراب کا نشہ کون چھوڑے گاَ؟ اس کی لت جس کو لگ جائے تو بس چھوٹتی نہیں ۔ قطرہ قطرہ قلزہ لگتا ہے اور اس قطرے میں ڈوب جانے کو من بھی کرتا ہے جبکہ ذات رل جاتی ہے اور رل بھی جائے تو اس کو رل جانے دو۔۔۔۔ یہ سفر بھی ایک اعجاز ہے اور رب کا شکریہ اس نے کسی ذرے کو  روشنی دی ۔ ورنہ ذرہ کیا حیثت رکھے ۔

میرا ‏عشق ‏گستاخانہ

میرا عشق گستاخانہ ۔۔۔۔۔۔۔!!!

میرا عشق گستاخانہ 
میرا  جسم ضوخانہ 
میرا دل ہے میخانہ 
جل کر بھسم  ہوتا
آگ سے تن سلگانہ
میری آنکھ  میں وضو 
مل گیا ہدایت نامہ 
کروں شکوہ ملحدانہ
تری نظر ہے کریمانہ 
منظور جل کے مرجانا
اے میرے کبریاء جاناں 
اب تو بنادے دل میخانہ 
شروع ہوا  ہےمسیحانہ 
نظر ِ کرم ہو ہو تجلیانہ 
اے جان !میری جانِ جاناں

عشق سے گستاخی ہوگئ اور شرم سے سر جھک گیا۔ عشق  نے  ہجر سے وصل کی خاطر تن میں آگ جلا لی ۔ آگ ایسی جلی کہ پورے بدن کو جلا کر راکھ کر دیا۔ اور عشق سے توقع کیا ہو۔ جیسے لکڑی کی راکھ بچے ، کچھ عشق کی بربادی نے کچھ نہ چھوڑا۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔ عشق کو حجاب نہ آیا اور گستاخ  عشق نے  نین سے نین ملا کر رقص کی بازی شروع کردی ۔ عشق بھڑکا کہ شعلہ کوندھا ۔ سب کچھ بھسم کر کے لے گیا ۔ 

سوال یہ عشق گستاخ کیوں ہوتا ہے ؟ کچھ ایسا درجہ عشق کو محب کی نگاہ میں حاصل ہو جاتا ہے کہ  سب بے حجاب ہوجاتا ہے ، سارے نقاب اتر جانے کے بعد عشق کو خود پر قابو نہیں رہتا اور وہ رقص کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ ایک دن میں نے عشق سے پوچھا۔: 

اے عشق ! اتنا تو بے قابو کر دیا ہے ۔ 
اب ہوش میں کیوں رکھتے ہو۔۔؟
میخانہ کو پیمانہ میں کیوں بدلتے ہو۔
عشق ہوتا ہے نا گستاخ ۔۔۔
کر دی گستاخی ۔۔۔!

عشق بولا۔۔۔۔۔ میخانہ ہی پیمانہ اور پیمانہ میخانہ 
                   فرق نہ جان تو   دیوانے کا دیوانہ 
                    مان جا تو اب تیرا دل یے اب فقیرانہ 
                    پی ، پی کر  بھی ترا دل ہے کیا ویرانہ ۔۔!!

اس کی مستی کے آگے جواب کیا ۔۔۔؟  عشق تو وہ انتہا ہے ، جس کی انتہا ہی نہیں ۔ یہ وہ جگہ ہے جس کو کوئی پہنچ جائے تو مقام اس کا کبھی گرتا نہیں ہے ، اب مسئلہ یہ ہے محبت عشق کا درجہ حاصل کیسے کرے ، محبت کی قربانی اسے عشق کے درجے تک پہنچا دیتی ہے ۔  دل تو سوچ میں پڑ گیا کہ عشق کے درجہ تک کیسے پہنچا جائے ۔ 

دل نے ٹھان لی ہے کہ اب تو آگے جانا ہے کہ اب پیچھے رہنا نہیں ہے ، بہت وقت کھو چکا ہے ، 
 محبت ، اے محبت ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
وجود کی نفی کر دے
اے محبت سب کچھ ختم کردے 
مٹادے وجود کی خاک سے 
سب نقش مادیت کے 
مگر مادیت کو رہنے دے 
اس طرح کہ ،،،،،،،،
دل اور روح اس مادے کے اندر 
یکجا رہیں 
جیسے پارہ اندر پیمانہ کے ۔۔!

ہستی جل رہی ہے کاغذ کے کالک سیاہی بن کر اڑ جائے گی ، اس سیاہی میں چھپی "ضو" جگہ جگہ پہنچے گی ۔ دل کا مادہ جتنا پگھل پگھل کر پیمانے میں پارہ کی طرح ٹوٹ کر بکھرا گا ۔ اسکی گرمائش سے جہاں کے سرد خانوں کو  روشن و گرم ، تازہ کر دے گا۔ 
محبت جب یہ کام کر چکے گی تو عشق کا '' عین'' پالے گی ۔ ہر بڑا کام قربانی مانگتا ہے ۔

دل سے تاریکی کے سارے پردے اٹھتے جا رہے ہیں ، جب عشق کی داستان اور قربانی کی بات سن لی تو سوچا۔۔۔

دنیا میں سب سچا ہے 
دنیا میں یہ وجود مایا 
اس مایا نے کیا پانا
اگر جاں دے نہ نذرانہ 
اور چھلکے نہ میخانہ ۔ 

میخانہ چھلکنے کو بے تاب ہے مگر وہ مقام پہنچا کہاں کہ چھلکے جام اور بکھر کر بھی بکھرے نا۔!!!  حقایت عشق و محبت کو بیان کرنے کے لئے لفظ تھوڑے پڑ جاتے پیں۔ بس کچھ یاد رہتا ہے تو ۔۔۔۔۔

والیل ترے سایہ گیسو کا تراشا
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورج کی دن سے رخصتی بھی محبت  میں ہوتی ہے اور رات کو حجاب عشق کے سارے نقاب ، بے نقاب ہو کر بھی پوشیدگی میں رہتے ہیں ۔ محبت و عشق میں کی دنیا باندھی و لونڈی ہوتی ہے ۔ اس کو اشارہ کرو ، یہ کبھی پاس بھی نہ پھٹکے گی ۔۔۔۔ ! اشاروں اور کنایوں کی گفتگو سورج و چاند ، دن اور رات سمجھنے لگتے ہیں ۔۔ تب محبوب کے لیے تشبیہات و استعارے شروع ہوجاتے ہیں ، اس کی گھنیری زلفوں کی شان رات کا حسن تھوڑا پڑ جاتا ہے ، اس کی نیم وا مست نگاہی مدہوش کرنے کا اختیار رکھتی ہے ، جیسے دنیا میں روشنی کا احساس باقی ہو ، عشق کا نشاط باقی ہو ، درد کا خمار باقی ہو اور باقی اگر کچھ ہو نہ ہو تو وہ اپنی ذات نہ باقی ہو،۔۔۔!!

اس سفر کی جستجو ہے 
بلبل بھی تو خوش گلو ہے 
جس سفر میں وہ روبرو ہے 
اس کی دید کی طلب میں 
اکھیاں میری باوضو ہیں ۔
اب تو جنون کی حقایت میں 
پھلنی چار سو یہ خوشبو ہے
اس طرح سے مجھے پھونک دے
اے میرے عشق !
گل گل  کو ملے میری خوشبو
رنگ رنگ نکھرے اس ضو سے
پراوانے کو بس شمع کی آرزو

میخوار ‏کو ‏میخانہ ‏لایا ‏گیا ‏ہے

مئے خوار کو میخانہ لایا گیا ہے
شہِ ابرار کا سوالی بنایا گیا ہے
باب العلم نے اسے تھام رکھا ہے
سیدالعشاق کے کے ساتھ چلنا ہے
حیدار کرار کی زمین پر حسین پھول
جس کی چمن، چمن نگر، نگر دھول
ان کا خون عشق حقیقی کی نشانی
تاریخ نے لکھی شاہد کی کہانی
طیبہ کی زمین پر آنکھ کھولی
ان کا چرچہ کیے یاں واں  ہولی
تیغ وسناں میں ماہر ، خلقِ عظیم کا حامل
عاشقِ کن فکاں کی ہستی ہے کامل
نور نے ان کے ہاتھ بیعت کر رکھی ہے
ان سے عشق کی خلعت لے رکھی ہے
محسنِ ہستی پیار کرنے کے ہیں قائل
بھیجتے نہیں سوالی کو بنا کے سائل
ان کے ہمراہ کربل کے میدان چلی
گلاب کی خوشبو ان کے فیضان سے ملی
کھلا چمنِ بہاراں میں اک اک پھول
دہن پھول ، لب پھول ، دل پھول
حسینؑ میرے دل کی کائنات ہیں
لا الہ اللہ کی سلطنت پر تعینات ہیں
حسین علم و الم کی حکمت ہیں
حسینؑ لا الہ اللہ کی شہادت ہیں
ان کی باتوں میں چھپی روایت ہے
ان کا حلم ، علم ، قلم عبادت ہے
خاکِ حسینؑ خود میں طبیب ہے
خاکِ حسینؑ عشق کی تشبیب ہے
حسینؑ ، حسنؑ علی کے چمن کے لالہ زار
جن سے نکلے عیسیؑ، موسیؑ جیسے بار بار
حسنؑ نورِ حقیقی کی جمالی نشانی
حسینؑ نور حقیقی کی جلالی نشانی
علیؑ نورِ یزدانی کی مکمل کہانی
فاطمہ ؑ کا نورانی سارا گھرانہ
ان سے پایا عالم نے دانا دانا
محمد ان شہسواروں کے سردار
محمد غمخواروں کے ہوئے میخوار
محمد سے دین الہی ہوا مکمل
محمد خلق حسنہ کی نشانیِ اکمل
اللہ ھو اللہ ھو اللہ اللہ ھو
اللہ ھو اللہ اللہ ھو اللہ ھو اللہ
ھو کی سدا دل نے لگا دی
ھو نے دل میں دھوم مچادی
ھو مجھ میں آج بہت بول رہی ہے
ھو مجھ سے آج کچھ کہہ رہی ہے
ھو کی محبت سے میں لکھ رہی ہوں
ھو کی حکمت کہ میں یا ھو ! یاھو !
اللہ ! اللہ کیا کمال کردیا ہے
اللہ ! اللہ ! مجھے مست حال کردیا ہے
اللہ ! اللہ ! مجھے شوخ و چنگ کردیا ہے !
اللہ ! اللہ ! ساز سخت کردیا ہے
اللہ ! اللہ ! میں تیری تلاش میں نکلی
اللہ ! اللہ ! میری اندر تیری شبیہ نکلی
میں تیری گمشدہ بستی بنتی گئی
میرا پتا گمشدگی لکھتی گئی
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
میں تیرے دم سے ہوں ،میں تیرا ساز ہوں
ایک جام میں مکمل میخانہ تھما دیا
میخانے کو پھر نیا جام پلا دیا
ایک جام کی نشانی حسینؑ سے ملی
ایک جام کی نشانی حسنؑ سے ملی
ایک جام ؑعلی کے دم سے ملا ہے
اک جام جہاں محمد ص نے دینا ہے
ان کے در سے در نہ چھوٹے گا میرا
محمد کے در پر کاسہ تھامے کھڑی
ان کی سوالی سنا رہی قوالی
مجھے دیکھ کے وہ مسکرا دیے
!بولے ! کیا ہے تیری مست حالی
تنگیِ حال پر کیا کیا شوخیاں اپنالیں
ان کی مسکراہٹ سے دل کے غنچے کھلے
چمن در چمن خوشبو کی جھونکے ملے
ان کی خوشبو ابر بن کے برس رہی ہے
ان کی محبت سے نور مہک رہی ہے
وہ پیارے شہ ابرار ، میرے مرشد حق ہیں
وہ پیار مئے خوار ، میرے غم خوار ہیں
وہ پیارے شہسوار ، حسین کے نانا ہیں
وہ پیارے شہسوار فاطمہ کے بابا ہیں
صدیق رض کو ان کے دم سے ملے کاسہ
وہ کاسہ جہاں کے دے رہا آسرا
محمد کی حیا کا عکس عثمان رض کو ملا
محمد کے جلال کا آئنہ عمر  رض میں پایا
علی رض نے آپ سے علم کا کاسہ پایا
عشقِ اویس کی شہادت محمد نے دی
بلال رض کی محبت سے زمانہ ہوا گھائل
حمزہ رض نے دلوں میں گھر بنا لیے
عضو عضو سے سینکڑوں گواہ بنا لیے
آئنہ ساز ہستی اصحاب کو ملی
ہر آئنہ خود میں اپنا اصل نکلا
عباس رض نے علم کی دستار سنبھالی
عمار  رض نے فقر میں شہنشاہی کی
زید نے بیٹے کی نشت سنبھالی
غلامی سے کیسی فضیلیت پالی
محمد کے غلاموں کا شمار نہیں
ان کا یاروں سا کوئی یار نہیں
آزادی کا پروانہ غلامی کے سر کیا
جو آپ کی صحبت میں ہوکے رہ گیا​

آئنہ ‏۲

آئینہ ( 2)

کبھی تم نے ندی میں 'ندی ' کا عکس دیکھا ہے؟ کبھی اس عکس میں چُھپے بھید کو تلاشنے کی کوشش کی ہے ؟ آؤ ! ندی میں ڈوب جائیں!!!!

نہیں ! ڈوبنا نہیں ہے !ڈوبنے والے روشنی کو تاریکی نہیں دے سکتے مگر تاریکی میں جا کر روشنی دیتے عدم کی جانب رواں دواں رہتے ہیں ................مجھے ڈوبنا ہے! ڈوب جانے دو ! مٹ جانے دو ! لہریں تو نہیں ہیں ! اس میں مٹ کر مجھ عکس ہوجانے دو.

دھیرج ! دھیرج ! آرام سے ! پیار سے ! پیار کرنا بڑا افضل ہے مگر محبوب ہونا اس سے بھی زیادہ افضل ہے ....!!!

چھن ! چھن ! چھناکے ! آواز کا تاثر غائب ہوگیا ! کیا کوئی ڈوب گیا ہے ؟ کوئی جھلا سا ، بھلا مانس سا بندہ ہے! ڈوب کے بھی کیا کرنا ہے ! سوچتا ہی نہیں! سوچے تو ...!

ندی کا پانی شفافیت سے بھرپور ، ٹھنڈا ، میٹھا ، سرمدی احساس .........! جاوداں ! جاوداں ! جاوداں ! پانی نے ملمع کاری تو نہیں کی .....ملمع تو اتر جاتی ہے ! محبت پر کیسا کھوٹ ...! محبت تو اک احساس ہے ...! اس کو محسوس کرتے کرتے خاک کے ذرے ...! خاک کے ذرے خزاں کی طرح جھڑنے لگے .......! زرد پتے ! سوکھے پتے ! سرخ پتے ! گرتے رہے اور جھڑتے رہے..!

پتوں کا پانی میں کیا کام...! ہے نا ...! پتے تاریکی میں جائیں گے اور ان سے ڈھونڈنے والے راہ پالیں گے...!!!

اچھا ..!! تو یہ بات ہے !! میں خود جھاڑتی ہوں پتوں کو ...! مجھ کو گُلاب پسند ہے ...!مہکتا گلاب ! گلاب ہلکا ہلکا ...پنک سا ...!!! کہاں ملے گا...؟

پت جھڑ کا موسم ! جاناں ! چلا گیا ....! یہ پت جھڑ تو نہیں ! یہ بہار کا موسم ہے ! جمال کا موسم ہے ...!!! گلاب کو موسم ہے !! کہاں ملے گا ..! ڈھونڈ !!! ڈھونڈنے والے نئی دنیا پالیتے ہیں...!!!

میں ندی سے نکل کر گلاب کی خوشبو کے تعاقب میں جانا چاہ رہی تھی ۔۔۔وہ گُلاب جو شجر سے منسلک ہے ۔۔۔اس دنیا میں اس کا ٹھکانہ ہے۔۔۔وہ گُلاب جو سب سے مشرف ہے۔۔۔ !!

ابھی ندی سے پاؤں قدم نکالنا ہی چاہا...انتہائے حیرت ! حیرت نے جُھنجھلا کر مجھ سے پوچھا !
پاؤں کا نشان نہیں.......پاؤں نظر نہیں آرہا ہے .......! ایک پل ..یک ٹک ..! لمحے گُزر گئے..اور گزرتے گزرتے احساس ہوا کہ ہلکا سا عکس پاؤں کا موجوس ہے...میں ندی سے نکلی تو بڑی سرشار تھی...مجھے پاؤں نظر نہیں آرہے تھے مگر میں چل رہی تھی ... جانے کیسے !!

چلتے چلتے ! ہاں چلتے میں مدہوش ہورہی ہوں...مجھے گلاب کی پھول کی مہک آرہی تھی ...یوں لگا زمین نے نغمہ سُنا دیا ہے اور گھومنے لگی ہے اور ایک دم سے کالی گھٹا چھا گئی ہے یا کہ رات نے نیم واہی کی حد کردی ہے ... زمانے کا زمانے مہک رہا ہے ..مکاں سے لامکاں تک نور کی خوشبو ہے...واہ ! واہ! کیسی مسحور کن خوشبو ہے...!!!

میں نے چلتے چلتے ! ہاں چلتے چلتے شجر گلابوں کا دیکھا...... ایک حقیقت! گلاب کا شجر کہاں ہوتا مگر شجر تھا....مجھ میں پھول توڑنے کی ہمت نہ ہوئی مگر میں نے قریب جا کر اپنی حس کو لطافت ضرور دی ...اک عطر تھا...یا کوئی خوشبو کا دریا...میرا روم روم...رگ رگ...خوشبو سے بھر گیا...اور مجھے اپنا ہوش نہ رہا...!

جب مجھے ہوش آیا تب ایک عجب بات ہوئی ۔۔۔! وہ کہ درختوں کو دیکھنے پر درخت مجھ میں نظر آتے۔ پھولوں کو دیکھوں تو پھول میرا وجود۔۔۔خاک کی طرف نگاہ کروں تو خاک مجھے تاکے ہے۔۔ !! مجھے اپنا آپ نظر نہیں آتا مگر مجھ میں ارد گرد کا عکس آئنہ ہونے لگا۔۔۔۔۔! ایک سوچ ہے کہ میں کون ہوں؟ کیا میرا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں ہے میرا۔۔۔۔۔! کچھ کیسے ہو۔۔مجھے تو سر مستی آئینہ جات کی بہانے لگی ہے۔۔میں موجود ہو کر بھی موجود نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

آئنہ ‏۱

آئنہ ۱
آج موسم کتنا اچھا ہےاور تم میرے ساتھ ہو. کیا یہ تمہارے ہونے کا احساس ہے یہ موسم ِ بہار ہے جو پھول کی خوشبو چار سو پھیل چکی ہے. دیواریں شفاف ہوگئیں اور ان میں نمودار آٰئینے بہت روشن ہیں. ایک پل کو میں آگے بڑھی کہ شاید آئینہ نہ ہو ......!

جیسے ہی آئینے کو چھوا، ایک دروازے کی طرح یہ وا ہوتا گیا۔۔۔۔۔! اور اک نئی دنیا میں قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ فرش پر جوتے نہ لگاؤں کہ کہیں یہ ٹوٹ نہ جائے۔۔۔۔۔ اس لیے بہت آرام سے ان کو اتار کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔.آسمان بھی، زمین بھی، اور چار سو مجھے اپنا عکس نظر آنے لگا. میرا عکس.... ! میرا عکس کھو چکا تھا.... میِں کس کو پھر دیکھ رہی تھی .....؟

تھوڑا دور چل کر پاؤں میں نرمی کے احساس نے سبزے کی ٹھنڈک سے روح کو معطر کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔.ان راستوِں پر چلتے چلتے فضا میِں وائلن کی دھن نے مجھے مست کر دیا۔۔۔۔۔. کیا کسی نے میری دھن چرا لی ہے...؟ وہ کون ہے جو میری دھن چوری کرکے نئے ساز چھیڑ کر کائنات کی کیمسٹری کو بے ترتیب کر رہا ہے .....؟

میں آواز کا پیچھا کرتے کرتے دھن ساز کے پاس پہنچ گئ مگر ایک عجیب سا کیف تھا یا حال کہ دھن ساز جو میرے سامنے .... وہ ہو بہو میری شکل ..... میں نے وائلن بجانا شروع کیا، مگر رقص بھی میں خود کر رہی تھی ... چھن چھن .... یہ آواز کس کی تھی .....؟

سبز کارپٹ کے قالینوِں کے پاس ندی سے بہتا پانی رواِں بھی تھا مگر بہ ساکت بھی تھا....! جھرنے کی آواز اتنی اچھی لگ رہی کہ ندی کے ٹھنڈے ٹھنڈے لمس کا احساس محسوس نہیں ہوا .... کیا واقعی ہی محسوس نہیں ہوا....؟

سرشاری کی کیفیت میں بلبل میرے کاندھے پر بیٹھ کر اپنی نغمگی کا احساس دلانے لگی.۔۔۔۔۔ میرے کاندھوں پر اس کے لمس نے مجھے مست کردیا.۔۔۔۔۔!!! ایسا لگ رہا تھا کہ کائنات جھوم رہی تھی اور آئینے ۔۔۔ یہ کبھی تو میرے سامنے ابھرتے اور پھر کبھی اوجھل ہوتے ۔۔۔۔ اور بلبل کا عکس ان میں نظر نہیں آتا مگر دو عکس نظر آتے .... دوسرا عکس کس کا ہے ....؟

آہا! کیسا انوکھا سا احساس ہے، جس کو نام نہیں دے سکتی کہ جہاں بھی جاتی مجھے میرا عکس نظر آتا ۔۔۔۔۔.. اور کبھی اِس ،تو کبھی ُاس آئینے میں عکس دیکھ کر، کہیں میں ہوش و خرد سے بیگانہ نہ ہوجاؤں ..۔۔۔۔۔؟.. میں نے واپس جانے کے لیے قدم بڑھائے۔۔۔۔!. سبز مخملیں کارپٹ مجھے چھوتے چھوتے ختم ہوگیا اور پھر میں آئینہ ِ فرش پر کھڑی تھی ... دروازہ آئینہ کھول چکا تھا .... وہ آئینہ کون تھا ....؟

صاحب ‏امر ‏ہستیاں ‏

جَذب حق ملے، مجذوب رسول ہوجائے ....! مندوب محمد ہو جو تو درود کے تار سے نغمہ پرویا جائے ...سب کہیں ...ہائے، ہائے!  سادگی میرا قبلہ سچل سائیں ...

میرا ہادی سچل سائیں ...

منم مندوبِ ہادی .....

منم مندوبِ نور ہوں ....

*من کنت مولی فھذا علی مولا **....

میں کن سے فیکون کا سفر ہوں

یعنی کہ ازل سے اوج ابد کی متمنی

میرا قبلہ سچل سائیں

میرا ہادی نور  علی ہے ...

*من کنت مولی فھذا علی المولی **

آسمان... ہفت .... سمائے آدم میں ...

انسان جاہل نادان ...

*لوانزلنا القران الا جبل الریتہ خاشعا متصدعا فان خشیتہ اللہ*....

انسان پہ خشیت طاری ہو تو کملی والے کے پناہ میں آجاتا ہے

کملی والا خود پرواز دیے جائے اور سفر ہفت افلاک کا طے ...

نور بہ ایں نور ظہور بے تاب کن ...خدایا رحم کن بہ احوال نور کن ...

شمس میرا  نورِ علی...

رات میرا ہاتھ

دن مجھ میں سمایا ..طٰہ کا اُجالا ..حق علی مولا ... حق اللہ کا نور ...حق!  دل میں ظہور..... دل پر عکس و معکوس سے پرے حقیقت ہے   بس چاک پردہ کرنا ہے.   اپنا قبا چاک کرکے انائے اکبر کو بلانا ہے .. .   *حیی الفلاح**  فلاح کیجانب کون آئے گا    فلک پہ قدسی بحالت مراقبہ سکتہ ء ہوش سے وصلت تک بیخود و حیران.    دلنواز آگیا ..   دلپذیر آیا .. ذی وقار کے گرد قدسیوں کا ہالہ ہے گویا قدم بوسی کی سعادت پانا چاہتے اور تل دھرنے کی جگہ نہ ہو.     شجر بھی تسبیح خواں کہ آقا پاس سے گزر کے جائیں

قطار در قطار اولیاء

قطار در قطار اصحاب

قطار در قطار انبیاء

بس اک محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ....

اک قران حکیم ....تمام آسمانی آیات کا مرقع ...کاملین کا صحیفہ، کاملین کو ملا     ....روح پہ اتارا جاتا ہے قران پاک.   آیت در آیت معانی ...معانی کہ اسرار کھلتے ہیں اور دل پہ رقت طاری ہوجاتی ہے.   ہیبت سے دل ڈر جاتا ہے    قران پاک ترتیل سے پڑھنا، کٹ کے ذات سےے پڑھنا نفع بخش .. جوں جوں ملائکہ ملتے جانے، عمل نافع ہوتا جائے گا

 پر لطف ہے!  سادگی کمال ہے!
میں کہ حیدری، میں کہ طریقہ ء محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ...میں کہ خدا کی ذات سے نکلی نیلی شعاع جس سے دل میں تیقین کی نیلگوں عالم وجود آئے .....ان گنت درود ان بُلند ہستیوں پر  .   ... درود ذات کمال پر .. نماز عشق ادا  . دل مجذوب ..!  کدھر گیا دل میرا؟ کھو گیا ہے؟ عالم حیرت!  عالم امر چل ... صاحب امر ہستی سے ملنا ہے!  صاحب امر ہستی کے نائب سے ملنا ہے ......

 نائب کون ہے!  نائب قدیم تا نائب جدید.   عالم امر میں صاحب امر ہستیاں ...سردار ہستیاں ...اہل بیت ہستیاں جن کے بارے حق فرماتا ہے ....

انما یرید اللہ لیذھب  عنکم الرجس اھل بیت  ویطھرکم تطھیرا ....

اہل بیت لوگ جن کو شرعا دو گنا سزا اور اجر پر رکھا گیا ...ہائے! کیا محبت کرنے والی حبیب ہستیاں .... اہل امر کے اصحاب سارے....

فشار میں رواں تو جان سے قرین یار ہے
جو دوریاں ہیں درمیان، فقط وہ اک خیال ہے

 یہ جہاں، کائنات عکس لاھوتی!  نبی مکرم کی ذات اقدس جمال ھاھوتی!  گھیر رکھا ہے کائنات کو اپنی چادر سے ...ان گنت درود سرکار عالیجناب پر ... حال کی کرسی غالب ہے، کمال حال پر! نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جمال کا سایہ ..... اس جہان کی ہر شے جمال کے زیر اثر ...منم محو تماشائی ...منم تماشائی ایں بالذات ...حیرتِ ہائے ھُو ...حق ھو!  حق رحمانی ھو ...حق سبحانی ھو ...کٹھ پتلیاں محو رقص ...منم محو تماشا، تماشا ایں کنم بالذات ...

واہ واہ واہ!  عالم امر کا نور!  عالم امر کی صاحب امر ہستیوں کے سردار، .یا مصطفی یا سید!  یا مجتبی یا سید!  .... منم مصطفوی نور ...منم حیرت میں پر سرور .. منم عین ذات حق ...منم ذاتی ...منم حیاتی!  پر عصیم حال مضطرب ... رحم ایں حال یا سید البشر .... ان گنت درود سرکار عالیجناب پر ... حق ھو!

ان گنت درود ان ہستیوں پر!  جنہوں نے کائنات کی مقرر کرسی کو سنبھالا ہے، . سیدی  مولامیرے سرکارِ مجازی  ساتھ ہیں ...یا علی مولائے کائنات! ان گنت درود مولائے علی پر ...ان گنت درود صدیق عالیجناب پر ...ان گنت درود سیدہ خدیجہ پر ...ان گنت درود سیدہ بتول فاطمہ پر ...ان گنت درود سیدنا حسین پر ...ان گنت درود نیک ارواح پر ...اے اہل بیت سلام ...سلام ...سلام

صوفی ‏شاعر ‏- ‏سرمد

اکبر کے جاری کردہ دینِ الہی اور شاہ جہاں کی انگریز قوم کو تجارت کی اِجازت عمومی طور پر رعایا  بالخصوص ہندی درباری امرء کے لیے بے حد ناپسندیدہ ٹھہری۔ اس اِجازت کے بعد انگریز قوم ایک تجارتی منڈی قائم  کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ یونہی ایک دن یہ  تاجر  تجارت کی غرض سے ہندوستان تشریف لایا ۔  تاریخ  نے اُس شخص کو سرمد کے نام سے مشہور کیا۔

''سرمد'' جو کہ ایک  تاجر کا ''تخلص''  تھا ،وہ  ایشیا میں تِجارت کی غرض سے  شاہ جہاں کے دورِ حکومت میں تشریف لایا ۔ اپنے سفر کے دوران جب وہ ٹھٹھہ پُہنچا تو ایک لڑکی کے عشق میں گِرفتار ہوگیا ۔اس پر جذب کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ برہنگی  بھی اس جذب کا برہم نہ رکھ پائی ۔

اس کے قتل کے بارے بہت سے حقائق جو شاید ادب کی دُنیا میں ''تجسس '' کے حجاب میں چھپے ہوئے ہیں ۔ایک واقعہ کچھ اسطرح سے ہے ۔سرمد ایک مسجد میں نماز ادا کررہا تھا ۔ وہاں پر مسجد کا امام خشوع خضوع سے دعا مانگنے میں مصروف تھا ۔

سرمد نے کہا : امام کا خدا میرے پیروں تلے ہے

بادشاہِ وقت  کا مصاحب وہاں پر موجود تھا ،سرمد کو بادشاہ کے پاس جانا پڑا۔اس کے ساتھ امام سے پوچھا 'تم کیا دُعا مانگ رہے تھے'

اس نے جواب دیا: میری بیٹی کی شادی کی عمر ہوگئی ہے ،اس کے لیے جہیز کی انتظام ہوجانے کی دُعا مانگ رہا تھا۔

سرمدنے کہا: میں  جس جگہ کھڑاہوں، اس جگہ خزانہ ہے

بادشاہ وقت اورنگ زیب کے کھدائی کروانے پر وہاں سے بیش قیمت سونے کے جواہرات نمودار ہوئے 

سرمد نے کہا: میں نے کہا تھا کہ اس کا خدا میرے  پیروں تلے ہے 

مورخین کہتے ہیں کہ یہ حادثہ 1661 ،--1072 ہجری میں پیش آیا۔اس کے قتل /شہادت کی وجہ اس کی رباعی بتائی جاتی ہے جس میں اُس نے دعوی کیا تھا کہ افلاک محمدﷺ کے سینے میں سما گئے جبکہ آپ افلاک پر نہیں گئے تھے ۔(واقعہ معراج)۔

ہر کس کہ سر حقیقتش سر باورشد

او پھن ترا  از پھناور شد

ملا گوید کہ برفلک احمدﷺ شد

سرمد گوید بر فلک احمدﷺ شد 

تذکرہ شعراء --- میں سرمد کاشانی کی شہادت کا ذکر ہے ، اس وقت اسکی کی عُمر ستر برس کے قریب تھی اور 1660 سے 1666 کے درمیانی عرصے میں اس کو دار پر چڑھایا گیا ۔ روایت میں ہے کہ سرمد کے دار پر چڑھنے کے بعد شعراء نے تلوار اور دار کی تراکیب کو اشعار میں زیادہ استعمال کرنا شُروع کردیا تھا۔موت کے بعد سرمد کو حلاج ثانی کے نام   سے جانا جانے لگا۔سرمد کو مراۃ الخیال میں شیر خان لودھی نے،مجمع النفع میں سراج الدین علی خان نے ریاض العارفین میں ریاض علی قلی خان نے ذکر کیا ہے ۔لکھ پت خان ریاضِ مشاعرہ اور دبستان مذاہب کو مستند کتب میں شمار کرتا ہے۔اکثریت کے نزدیک سرمد ایک یہودی تھا جس نے اسلام قبول کرلیا۔سرمد کی 300 کے قریب رباعیاں فارسی میں محفوظ کرلی گئیں ۔ہیں ۔ان کے اعداد و شمار 299  سے  334 تک  کا فرق اکثر کتب میں پایا جاتا ہے ۔سرمد کے قطعات ، رباعیاں اور چند غزلیں یہاں پر پیش کی جارہی ہیں   

یورپ سے سفر کرتے فارس کی زمین پر قدم رکھا اور یہیں پر فارسی ، عربی کی تعلیم حاصل کی۔ اپنا کاروبار ٹھٹھہ کی سرزمین پر دریائے سندھ کے کنارے پر قائم کیا ،جہاں سے اس کے کاروبار کو عروج حاصل ہوا۔اپنے اس سفر کے دوران ایک ہندو لڑکے ابھے جیت کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ٹھٹھہ میں محفلِ موسیقی کے انعقاد  کے دوران ابھے جیت کی آواز سُن ۔ اس کی آواز کے سُروں نے اس کے دل کے ساز کے سُروں کو وہ جِلا دی کہ سرمد ایک طرف شعر کہتا ، دوسری طرف ابھے جیت اسی عرفانی شاعری کو گاتا ، اور سرمد اسکی آواز میں  دھمال ڈالتا ۔ اسی کیف و مستی میں اُس نے ابھے جیت کو "خدا" کہنا شروع کردیا ،سرمد کو اس میں اپنے خُدا کا جلوہ نظر آتا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ خدا دنیا کے ہر مظہر میں دکھتا ہے اور اس کو 

ابھے میں خدا دکھتا ہے۔اس کی یہ رُباعی اس کے جذبات کی ترجمان ہے

عاشق کون ہے؟ محبوب؟ بُت؟بُت تراش یا تم؟

کعبے کا محبوب کیا ہے؟ مسجد؟ مندر؟

اس باغ میں آؤ! رنگوں کا امتزاج دیکھو!

اس سب میں کون عاشق ،معشوق؟ کون پھول ،کانٹا؟

*****

سرمد بہ جھان بسی نکو نام شادی

از مذہب کفر اسلام شدی

آخر چہ خطا دیدی ز اللہ و رسول

برگشتہ مرید لچھمن و رام شدی

او سرمد! تم نے ایک عظیم جنگ لرلی ۔تم کفر سے اسلام کو قبول کرچکے ہو۔اللہ اور اس کے رسولؐ میں کیا غلط تھا جو تم 
لچھمن اور رام کے پیروکار تھے ؟

گڈری شاہ سلسلہ جو چشتیہ سلسلہ کی ایک شاخ ہے سرمد کو ولی میں شمار کرتی ہے۔اس سلسلے کی نسبت حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی سے بھی ملتی ہے۔ سرمد نے حقیقت کو مجاز کے پردے میں عیاں کیا کہ حقیقت میں شاعری زندگی کی ترجمان ، علامتی انداز میں زندگی کی حقیقت کو فاش کرتی ہے ۔ صوفی شاعری میں حقیقت اور مجاز کے تعلق کو بطریق احسن بیان کیا جاتا ہے ۔اس لیے ہر استعارا کسی نہ کسی حقیقت کو سامنے لاتا ہے سرمد کی شاعری زندگی اور موت کی حقیقت کے اسرار کو فاش کرتی ہے ۔سرمد کاشانی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایران میں پیدا ہوا جبکہ اس کےوالدین یہودی تھے اور جبکہ اس کے والدین آرمینا سے آئے تھے 1560 میں شاہ عباس کے دورِ حکومت میں پیدا ہوا۔جبکہ اس کے والدین کے آباؤاجداد کا تعلق یورپیوں سے جوڑا جاتا ہے ۔سرمد نے سب سے پہلے توریت پڑھی اور ربی کہلوایا گیا ۔اس نے مذہب کا مطالعہ ایرانی شاعر حافظ شیراز الدین کے ساتھ مل کے کیا۔اس مطالعے کے بعد اسلام قبول کرلیا۔سرمد کو جنگلوں کا ہرمٹ بھی کہاجاتا ہے ۔ٹھٹھہ کی زمین پر قدم رکھتے جگہ جگہ گھومتے حیدرآباد دکن کی زمین پر قیام کیا۔اسوقت دکن پر اورنگ زیب حاکم تھا۔ اس کے بعد دہلی پُہنچا۔

دہلی میں آتے وہ بہت مشہور ہوگیا کیونکہ وہ مستقبل کے واقعات کے متعلق پیشن گوئیاں کیا کرتا ،جو کے سچ ہوجاتی۔یوں عقیدت مندوں کا اس کے گرد تانتا بندھنے لگ گیا۔دارا کو کوئی مذہب نہیں تھا ،ہندوؤں میں ہندوؤں کی ، انگریزوں میں انگریزوں کی ، یہودیوں میں یہودیوں اور محمدیوں ﷺ کے مذہبی تعلیمات کی بیک وقت تعریف کرتا جسکی وجہ سے اورنگ زیب اسے کافر کہا تھا۔ دارا کو ہر ایک میں "خدا'' نظر آتا  ،ہمہ اوست کے عقیدے کو ماننے والا تھا ۔ایک دن سرمد مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اورنگ زیب کا وہاں سے گزر ہوا۔اس نے کہا خود کو کمبل سے ڈھانپو، سرمد نے بادشاہ سے کمبل مانگا۔ جب اورنگ زیب نے کمبل اسے دیا جس میں اسے خوفناک منظر نظر آیا۔اس کے تمام بھائیوں کا سر علیحدہ ہوا تھا ، جبکہ رشتے دار خون میں لت پت پڑے ہوئے تھے۔سرمد کی دارا شکوہ کے بارے میں پیشن گوئی درست ثابت نہ ہوئی اور تخت نشینی کی جنگ وہ نہ جیت سکا ، نہ ہی مستقبل کا بادشاہ بن سکا۔

بافکر و خیال کس نباشدکارم

در طریق غزل حافظ دارم

اما بہ رباعی ام مرید خیام

نی جرعہ کش، بادہ بسیارم 

 سرمد کی برہنگی جو اس کی عشق میں ناکامی کے باعث تھی ، اس کی تشنگی ابھے جیت کے مدھر سنگیت نے  پر کردی ۔اس کی برہنگی پر ابھے جیت کے والدین نے دونوں کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی مگر مرغِ بسمل کی مانند تڑپتے ابھے جیت کی حالت زار پر رحم کھاتے سرمد سے تعلق رکھنے کی اجازت دے دی۔قریب دس سال یہاں رہنے کے بعد سرمد ابھے جیت کے ساتھ لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس عقیدت مندوں کا اس کے گرد تانتا بندھ گیا۔

میں نہیں جانتا اس دنیا میں خدا کو

میرا خُدا ابھے چند ہے یا کوئی اور  

لاہور میں سرمد کی داراشکوہ سے شناسائی ہوگئی ۔دارشکوہ کے نظریات اکبر سے ملتے جلتے تھے ۔وہ آزاد ،صوفی منش بندہ تھا جو ہندوازم کے زیادہ قریب تھا ۔ دارا کی والہانہ عقیدت حضرت میاں میر سے چھپی نہیں تھی ۔گرچہ اپنی زندگی میں حضرت میاں میر سے بیعت نہیں کرسکا مگر ان کے بعد ان کے خلیفہ سے کافی والہانہ تعلقات رہے ۔بادشاہِ وقت کا بیٹا ہونے کے باوجود عرفان کی تعلیم حاصل کی ۔ جب اس کی سرمد سے مُلاقات ہوئی تو وہ سرمد کا متوالا ہوگیا ۔۔جیسا دارا کی بے قرار روح کو سرمد کے  اشعار سے قرار ملتا دکھتا ۔ بادشاہ کو سرمد کا عالمِ برہنگی میں شہزادے کے ساتھ رہنا کافی کھلتا تھا ۔ بادشاہ اس سے پہلے کچھ کرتا ،اورنگ زیب خونریز تخت نشینی کی جنگ بعد سلطنت پر جب فائز ہوا تب سرمد کے بارے میں امراء کے اعتراضات اس تک پُہنچے ۔ اورنگ زیب نے اس کو دربار بُلایا اور کہا 

دیکھو! خدا نے مجھے ابدی سلطنت عطا کی ہے میرا وعدہ جھوٹا نہیں تھا ۔

سرمد نے ایک رباعی کی شکل میں اورنگ زیب کو جواب دیا:

آں کس کہ ترا تاجِ جہانبانی داد

مار را ہمہ اسبابِ پریشانی داد

پوشاند لباس ہر کرا عیبے دید

بے عیباں را لباسِ عریانی داد

"جس نے تمھیں دنیا کی حکومت دی

اس نے سارے درد کے اسباب مجھے دیے

وہ ان کو حجاب /لباس میں رکھتا ہے جو عیب دار ہوں

بے عیب کو وہ برہنگی کا لباس عطا کرتا ہے

روایت ہے کہ اورنگ زیب کو اس کے اس جواب سے کافی طیش آیا مگر یہ جواب سرمد کو قتل کرنے کا جواز نہیں بن سکتا تھا اس لیے اُس پر سزدوائے موت کا حکم سناتا اور وہ لمحہ بھی جلد آگیا جب اُس نے حضور پاک ﷺ کے واقعہ معراج پر اپنے جذبات قلمبند کیے 

مُلا گوید کہ برفلک شداحمدﷺ

سرمدگویدبہ احمد در شد 

صوفیا کے نزدیک اس میں کچھ ایسا الحاد نہ تھا جبکہ بعض علماء کے نزدیک نبی اکرمﷺ کا سفرِ معراج بھی علامتی نوعیت کا  تھا۔ اونگ زیب ایک متعصب حکمران تھا ایسی گُستاخی کہاں برداشت کرسکتا  تھا جس کے نزدیک یہ عقیدہِ محمدی ﷺ میں ایک نئی اختراع ہے۔یوں اس نے اپنا انتقام اس برہنہ  صوفی منش شاعر پر اُتارا اور اس کی سزائے موت کا حکم دے دیا۔جب 

جلاد اورنگ زیب کے پاس آیا تو اس نے اُس سے کہا :

رسید یار عریان این تیغ دم

بہ رنگی کہ آیی تورا میشناسم

دوست ننگی تلوار لیےآگیا ہے

کسی بھی روپ میں یار آئے ،شناسا لگے

بیابیا کہ ہر صورت تورا میشناسم
بہ رنگی کہ خواہی جامہ میپوش،من از طرز خرامت  مینشاسم

اور پھر گویا ہوا

ایک گونج سُنائی دی اور ہم نے ابدی نیند سے آنکھیں کھولیں ۔مکاری و عیاری کی رات کو پنپتا پایا تو دوبارہ نیند طاری کرلی ۔

سر جدا کردہ تنم شوخی کہ باما یار بود
قصہ کوتہ گشت ورنہ درد سر بسیار بود

عاقل خان رضی جو اورنگ زیب کا درباری مورخ تھا وہ لکھتا ہے کہ جب جلاد اس کا سر اڑانے ہی والا تھا تو سرمد نے کہا

جسم کی برہنگی دوست کے لیے خاکی راہداری ہے۔اس کو بھی اب ہٹادیا جانا ہے ، سر جدا کردیا جانا ہے

سرمد کا ساتھی اسداللہ شاہ اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ ابھی بھی موقع ہے ۔تم کلمہ پڑھ لو ، اپنے عقائد درست کرلو

اور اس سزا سے بچ جاؤ۔اس پر اس نے جواب دیا:

عمریست کہ آوازہِ منصور کہن شد
من از سرنو جلوہ دھم  دار ورسن را

منصور کا قصہ پرانا ہوچکا ہے اب  میں پھر سے  دار پر چڑھوں  گا اور رسی کھینچی جائے گی 

سرمد کے پھانسی والے دن اورنگ زیب کو مشورہ دیا گیا کہ سرمد کو محض برہنگی کے باعث واجب القتل نہیں قرار دیا جاسکتا ہے ، اسلامی رسومات کے مطابق اس کو کلمہ پڑھنا ہوگا ۔ مشہور تھا سرمد 'لا الہ '' کہتے اور 'الہ اللہ '' نہ کہ پاتے اور رک جاتے ،جب ان سے پوچھا جاتا تو کہتے کہ ابھی نفی میں گُم ہوں --یعنی ابھی لا میں گم ہوں ، فنا میں گم ہوں  'الہ اللہ ' کیسے اپناؤ۔جب اورنگ زیب نے سرمد کو کلمہ پڑھنے کا کہا یہی جواب اُس نے اورنگزیب کو دیا جس کے باعث سرمد کا سر بدن سے جُدا کردیا گیا۔جب اس کے سر کو تن سے علیحدہ کیا گیا تو اک عجب معجزہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔ سرمد کا وجود حرکت میں آگیا اور الہ اللہ کا رقص شُروع کردیا ۔اس کے ساتھ سرمد کے سر نے لاالہ الا اللہ کا کلمہ کئی مرتبہ ادا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ماسرا خود را چوکوہ وزیر پا دانستہ ایم
شہر دہلی راہ بہ سانِ کربلا دانستہ ایم
رفت منصور از قصا رفت و سرمد نیزھم
دار ھا را از عطائی کبریا دانستہ ایم

    ٭٭٭٭

سرمد کے بقول اس کودوسروں کے تخیل سے کوئی سروکار نہیں مگر غزل کہنے کے فن میں اس کا انداز حافظ سا، رُباعی کہنے 
میں 'عمر خیام' سے ملتا ہے۔

شاہا شاہا نیم زاہد چونتو عریان نیستم 

شوق و ذوق شورشم لیکن پریشان نیستم

بت پرست کافرم از اھلِ ایمان نیستم 

سوی مسجد میروم اما مسلمان نیستم 

------

In the Kaaba ,the idol temple, He became the stone 

and He became the wood.

In one Place , he became the Hajrul-aswad,and 

in other place , a Hindu idol 

-----

Ghazal ...

He burnt me without cause and behold the spectacle 

He slew me without guilt and behold messaih 

A living who has no soul,thou has seen;

Ye, who care not to have sight of Joesph,

Behold the agony of Zuliekha and Jacob 

Ye, who wander at my hapless days

Behold for a moment this charming face

Thous hast seen , a shah , a darvaish , a qalandar,

Behold sarmdad , the drunken and dishonored.

-------------

Sarmad is body,his soul is in the hand of other,

An arrow but its bow in the hand of other ,

He wished to be a man in order to jump out of nest

He became a cow , whose tether is hand of another

Not only the temple and sanctuaries are his house 

The whole world is mad about his fictions 

He is turly mad who is mad about Him.

-------------

شاہ درویش و قلندر دیدہ
سرمد سرمست و رسوارا ببین

کبھی قلندر اور درویش ایک ہستی میں سماسکتے ہیں ؟آوارہ اور سرمست سرمد کی طرف دیکھو

برسرمد برھنہ کرامت تھمت است
کشفی کہ ظاہر است ازو کشف عورت است

ھر چند کہ  عصیاں مرا میداند
بر خوانم کرم ھر نفسی میخواند
در خوف ورجابسی بسی تامل کرم
بیش از ھمہ مائل بہ کرم ماند
٭٭٭٭٭
سرمد در دین عجب شکستی کردی
ایمان بہ فدائی چشم مستی کردی
با عجزو نیاز جملہ  نقد خود را
رفتی ونثار بت پرستی کردی

سرمد تم نے دین میں ایک عجیب الجھن پیدا کردی ، اپنا ایمان ان مست آنکھوں پر نثار کردیا۔اپنی شائستگی اور عجز کے ساتھ تم آئے اور اپنے تمام فائدے اس بت پرست کودے دیے ۔
٭٭٭٭٭
دل باز گرفتار نگاری شدہ است
در فکر و غم الہ عذداری شدہ است
من پیرو دلم  ذوقِ جوانی دارد
ھنکان خزان خوش بھاری شدہ است

میرا دل ایک بار پھر سے  اس پیارے پر فِدا ہوگیا ہے۔یہ اس پیارے کی خواہش اور  ماتم میں ہے کہ حبیب کے چہرے کو پھر سے دیکھ سکے۔میں بوڑھا ہوں مگر میرا دل جوان ہےاور خزان میں جوانی کا عالم ہے یا خزان میں ، خزان بہار کی مانند ہے
٭٭٭٭٭٭
صد شکر از یار ترحم دیدم
احسان وکرم بہ حال  خود فھمیدم
نخلی کہ نشاندہی ثمر میخشد
آخر گلی از باغ محبت  چیدم

صدہزار شکر کہ دوست کو مجھ پر رحم آگیا۔احسان و کرم مجھے خود پر چھاتا محسوس ہوتا ہے۔وہ بیج جو تم نے بویا ،اس کی کونپلوں پر ثمر لگا گیا ہےاور بالآخر میں نے محبت کے باغ سے پھول کو پالیا ہے ۔
٭٭٭٭٭
خاک نشینی است  سلیمانیم
نیک بود  ز افسر سلطانیم 
چھل سال کہ میرا پوشید مش
کہنہ نشد جامہ عریانم

میری سلیمانی مٹی میں چھپی  ہےجو  کسی سلطان کے تخت سے بہتر ہے،چالیس سال میں نے اسے پوشیدہ رکھا۔برہنگی کے لباس سے ابھی تک نہیں تھکا
٭٭٭٭٭نور ایمان