Wednesday, February 24, 2021

توفیق ‏

تم ایک گناہ کی جانب راغب ہونے لگو اور عجب نہیں کہ اس کا ارادہ کرلو مگر تمھیں روکنے والا کون ہے؟  خالق!  
تمھیں نیکی کی طرف مائل کرنے والا کون؟  مالک 
تمھارے گناہوں کی عیب پوشی کرنے والا کون؟  ستار 
تمھارا گناہوں کا بھرم ر کھ کے تمھیں معاف کرنے والا کون؟  غفار 
تمھیں روحانی قالب میں ڈھالنے والا کون؟   کریم 
تمھیں حسین و جمیل کرنے و بنانے والا کون؟  مصور 
تم پر بارشیں کرم کی کرنے والا کون؟  رحمان 
تمھارے بدن کو رزق پہنچانے والا کون؟  رزاق 
تم اس کو یاد کرتے ہو تمھیں یاد کرنے والا کون؟  سبحان 
اس سے زیادہ بندے کے لیے کرم کی بات کیا ہے کہ بندے کو خدا یاد کرے اور وہ اس ادا پر مر نہ جائے؟  کیا وہ اس پر راضی نہ ہو جائے؟  کیا وہ مومن نہ ہو جائے؟  ایمان کے سانچے میں ڈھل جانے والے فولادی انسان ..جن کے یقین پر آگ ٹھنڈی ہوجاتی اور چاند ٹکرے ٹکرے ہوجاتا ہے ... جن کو انسان معبود بناتا ہے وہی انسان کے حکم کی تعمیل کرنے لگیں تو سمجھ لو کہ اللہ نے ایک بندے کو تم میں بھیج دیا ہے جو تم میں ایسے یقین پیدا کرتا رہے گا جس کی خالق کو آرزو ہے.  یہ سب جانتے ہیں وہ بے نیاز ہے مگر وہ  جو اس کو محبوب رکھتے پیں وہ ان کی طرف بھاگتا اور لپکتا ہے کپ میرے بندو!  میرے پیارو! میں نے جس کو تمھارے پاس بھیجا تم اس کی طرح ہو جاؤ!  کبھی میں انبیاء کو بھیجتا رہا مگر جب دین مکمل ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتیوں میں سے منتخب روحیں تم میں بھیجتا رہتا ہوں.  وہ پاک روحیں میری جانب سے اپنے بندوں کے لیے تحفہ ہوتی ہیں.

محبوب

محبوب ایک آئنہ کی مانند نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ تمثال گر ہوتا ہے. جوں جوں عکس واضح  ہونا شروع ہو جاتا ہے ویسے ویسے انسان میں تفریق کا خاتمہ ہوجاتا ہے . جب جب اُس کا ذکر ہوتا ہے تو  گُلاب کی خوشو  کوچہ و دیوار میں بسیرا کرلیتی ہے.  انسان کا سفر  مالک کل کی طرف آسان ہوجاتا ہے.  اسی واسطے انسان کو پیدا کیا ہے.  اس میں عقل کا بیج رکھا تاکہ وہ سمجھ سکے اور دل میں الوہی چراغ پھونک ڈالا.  اب عقل کا.کام سمت متعین کرنا ہے کہ یہ اک راستہ واحد،  احد،  صمد کی طرف جانے کا.  اور انسان اس سے برائی کی طرف راغب ہوجائے تو اس کا قبلہ شیطان بن جاتا ہے یہی بات جو مرکز سے ہٹا دیتی ہے. 
نور

نوائے ‏نو ‏

یارِ من سن تو سہی 
یارِ من دیکھ.تو سہی 
حقیقت نے بخشا آہنگ تجھے 
تو دھیمے سروں پر کھو جا


نَوائے نُو 

ہمسَفر نے سُنی نَہیں فریاد 
پیچھے مڑ کے نَہیں دیکھا 
میں نے لمحہ میں صدیوں کا فاصلہ طے کیا 
انتظار طویل ہے،  یہی پڑھا!  ہاں،  یہی سُنا!  
میں نے پکارا بارِ دگر 
جلوے ٹکروں میں بنٹا نَہیں کرتے، اُس نے کَہا 
طور سینا سے لوٹنے میں مدہوشی اک مقام تھا 
پھر سحر سے نَیا پیغام طلوع ہوا 
وہ پیغام نشان تھا ...
یار من!  سن 
تجھ کو پانے کی تڑپ ہے 
جاں بَلب ہستی ہے 
یارِ من!  نشان دو مجھے 
یارِ من!  کان دو مجھے 
یارِ من!  انتظام عام کرو

نقالی ‏

کُچھ لوگ ساری زندگی نقالی میں گُزار دیتے ہیں.  سوچتے ہیں کہ انہوں نے شخصیت پرستی نہیں کی جبکہ نقال شخصیت پرست ہوتا ہے اور وہ لوگ جو من کی صدائیں سنتے ہوئے ان پر عمل کرتے ہیں ان کی زندگی میں مشاہدات ،  تجربات اندرونی عوامل  کو متحرک  کرتے ہیں.  انسان اس لیے ہیدا نہیں کیا گیا کہ بیرونی دنیا کو کھوجے جبکہ اندر کی دنیا کھوج بنا مر جائے.  ایسے لوگ ماسوا حسرت کے کیا اس جہاں سے لے جاسکتے ہیں. جن کی اپنی.تلاش کے سوت اک بڑے مرکزی دھارے سے مل جاتے ہیں ان پر عیاں ہوجاتا ہے کہ دنیا میں انسان مسافر ہے.  اس کی مثال مٹی کے بت جیسے ہے جس کو روح نے جان دی ہے.  روح کے لباس کئ ہوسکتے ہیں مگر سعید روحیں "نور " ازلی و ابدی کی حقیقت کو پالیتیں ہیں اور جان لیتی ہیں  کہ موت کی ساعت  وصل کی منتہی کا نام ہے.  

وصال کیا ہے؟  موت کیا ہے؟  روح کیا ہے؟  انسان کیا ہے؟  انسان مٹی کا پتلا ہت جس نے  پتھروں کی دنیا میں دل پتھر کردیا.انسانی دل جب ٹوت جاتا ہے تو کبھی چشمہ پھوٹ جاتا ہے تو کبھی پانی مل جاتا ہے تو کبھی پانی کو راستہ مل جاتا ہے. .انسانی دل کی زمین کو پانی تخریب سے مل جاتا ہے. جب چشم پھوٹ جاتا ہے تو خون میں "ھو "  "ھو " کی صدا ٹکراتی رہتی ہے. جب انسان مکمل "ھو " کے سانچے میں ڈھل  جاتا ہے تو وہ ""مطیع الرسول  و اللہ " " ہوتا ہے.  وہ نقال کے بجائے راہ کی سمت دیتا ہے اور اس کو ابدی ہاتھ خود اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں تب  وہ وصل و موت کی حقیقت کا راز شناس ہو جاتا ہے 
نور

ہم ‏کلامی ‏

ہم کلامی 

وہ کہتا ہے کہ مجھ میں چھپ جا، وہ کہے اور دکھائی کچھ نہ دے تو بندہ کیسے چھپے اور کیسے وہ ظاہر ہو؟ ؟ ؟ 

وہ ظاہر میں  ہے ــــــ  تو اللہ ظاہر ہو تو دیکھے اپنے آئنے کو ـــــــ اسکا آئنہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں ..جب تک اپنی نفی نہیں  کی ہوتی ــــــــ خدا  ظاہر میں نہیں ملتاــــــــــ خدا نہ ملے تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کلمے میں پڑھنے سے کیا حاصل ہے؟؟؟  جب وارد نہ.ہوا تو.ماننے سے آگے کا.سفر چہ.معنی؟ ـــــــ  گویا یقین بھی کامل.نہ.ہوا.ــــــــ  پہلے خدا  کو  دیکھو جا بجا پھر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو جا بجا ... 

یہ روح پڑھتی نہیں کلمہ بلکہ یہ چادر بن کے تن جاتی کلمے کی جب کہ زبان کو سمجھ نہیں آتی" لا الہ الا اللہ" کا مطلب کیا ...اللہ کو ہم  نفس کی.حجابات کی.وجہ.سے دیکھ نہیں پاتے ـــــــ کجا وہ ہستی،  اسکا محبوب جن.پر.درود.بھیجا.جاتا ہے، ان  کو تو ہم کہتے اللہ تو نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا. 

اب بھلا بتاؤ اللہ اچھا کیوں نہ کرتا کیونکہ وہ بھی چاہتا اسکے محبوب کو دیکھیں جب اللہ محبوب کو دیکھتا ہے تو ہم بھی دیکھ لیتے ہیں .. یوں دید ہو جاتی ہے 

.یہ دیکھو محبوب کو دیکھو نظر کتنی پاک کرنی پڑتی ہے ... یہ نظر پاک اللہ کے نام سے ہوتی اللہ کہتا اللہ کا ذکر کر مگر میں اسکو کہتی ہوں کہ  درود پڑھوں گی پھر وہ مجھے دل کے کالے گند سیاہ غلاظت دکھا کے کہتا دل صاف نہ ہو درود کا فائدہ سو میں یہ سوچتے کہتی کہ اللہ کا ذکر سے  گھر صاف کر تاکہ وہ آئیں گھر تو دل مجلی ہو مگر کون جانے کون کس حد تک ہے، میں کہاں جاتی ہوں، میری حد کیا ہے، مجھے مری حد مل جائے تو کام بن جائے

مجھے اللہ سے لگاؤ ہے مگر اسکے محبوب سے لگاؤ  بیحد ہے ـــــصلی اللہ علیہ والہ وسلم ـــــــ  شاید اللہ سے لگاؤ کب کا یے مگر محبوب سے آشنائی کا احساس کلمے سے ہوا کہ پہلے لا --* الا اللہ --- پھر محبت پاک دل نہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نہیں دکھتے کہنے کو کلمہ پڑھ لو مگر دکھیں گے تو گھر صاف ہوگا پھر چایے دل میںِ کتنا گند ہو وہ جلوے سے صاف ہوگا ان کے جلوے کا دیا اک دفعہ جل جائے تا عمر جل دل جاتا یے 

چراغ مصطفی بنا یے دل جلا ہے مثل طور جو 
ہوا بجھا نہ پائے گی یہ روشنی کمال یے

تب جذب ہوجاتے ہیں ہم بولتے نہیں ہم بولتے ہیں اور ہم بول بھی نہیں رہے ہوتے کوئی اور ہستی کلام کرتی ہےـــــ  ہم کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ کہتے جو کہا جاتاـــــ درحقیقت یہ وہ نظام چلا رہے مرے آقا نظام چلاتے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو جب وہ ہر جگہ ہیں تو میں اندھی ہوں مجھے آنکھ چاہیے ہر ہر جگہ ان کو دیکھنے کو

درود ‏

کتنا بھیجیں اور نہ ہو مکمل درود 
کتنی کریں تکریم نہ ہو مکمل سجود 
کتنا تڑپیں مگر ٹوٹیں نہ قیود 
رقص بسمل ہوگا ٹوٹیں گی حدود 

فرشتے ــ ملائک ـــ روح ـــ کروبیان ــــ بھیج رہے درود ... 
رب بھی ہے محوِ ثناء اور بندے ہیں مانند شہود ـــ اے دِل!  لیے.چل موجہء صبا کی مانند اور چھونے دے رنگِ چمن و نقش!  ہم.جبین جہاں قدم رکھیں گے،  وہاں وہاں بھیجیں گے درود ـــ بندہ جان لے راز تو ہے لامحدود ــ قرب تمنا کی اور تمنا میں قرب ...لذت مرگ کو دیتے ہیں وجود ... لباس فراق کو جامہ.ء موم دے کے شمع کی برق سے جلتے ہیں اور دیتے ہیں زمانے کو اسمِ محمد صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم.کا.دود ..پیشِ حضور ہوں.گے ہمارے نعتیہ ترانے اور.قبول.ہوگا سلام!  غلامی کو.چاہیے ماسوا کہ.لکھوں.ثنائے اسمِ موجود ..قاری.سے پوچھ! .قران.پورا ہے ثنائے محمد صلی اللہ علیہ.والہ وسلم! .کہیں.دلنشین،  کہیں.دلربا،  کہیں مصحف کے حامل کے پاکیزہ ترین انسان 
.. اللہ.سے پوچھو ورنہ.اللہ.پوچھے گا.کہ اللہ نے کیا. نہ.بھیجا.درود

سادات ـــ سیدہ فاطمہ ـــ نوری ہالہ ـــ اسم حال میں کہاں ہے مجال کہ کرے قال قال ـــ رنگ سنہری ہو رنگ جامنی.ہو کہ نیلا..سب کا اک.رنگ ہے ـــ سپیدی کا رنگ ــــ سفید رنگ بیداغ ـــ داغِ دل.سے ہوا یہ دل.پارہ.پارہ!  پارے میں نکلے مے و خم کے..نشان ..نشان.اور بے حجاب!


کتنا بھیجیں اور نہ ہو مکمل درود 
کتنی کریں تکریم نہ ہو مکمل سجود 
کتنا تڑپیں مگر ٹوٹیں نہ قیود 
رقص بسمل ہوگا ٹوٹیں گی حدود 

فرشتے ــ ملائک ـــ روح ـــ کروبیان ــــ بھیج رہے درود ... 
رب بھی ہے محوِ ثناء اور بندے ہیں مانند شہود ـــ اے دِل!  لیے.چل موجہء صبا کی مانند اور چھونے دے رنگِ چمن و نقش!  ہم.جبین جہاں قدم رکھیں گے،  وہاں وہاں بھیجیں گے درود ـــ بندہ جان لے راز تو ہے لامحدود ــ قرب تمنا کی اور تمنا میں قرب ...لذت مرگ کو دیتے ہیں وجود ... لباس فراق کو جامہ.ء موم دے کے شمع کی برق سے جلتے ہیں اور دیتے ہیں زمانے کو اسمِ محمد صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم.کا.دود ..پیشِ حضور ہوں.گے ہمارے نعتیہ ترانے اور.قبول.ہوگا سلام!  غلامی کو.چاہیے ماسوا کہ.لکھوں.ثنائے اسمِ موجود ..قاری.سے پوچھ! .قران.پورا ہے ثنائے محمد صلی اللہ علیہ.والہ وسلم! .کہیں.دلنشین،  کہیں.دلربا،  کہیں مصحف کے حامل کے پاکیزہ ترین انسان 
.. اللہ.سے پوچھو ورنہ.اللہ.پوچھے گا.کہ اللہ نے کیا. نہ.بھیجا.درود

سادات ـــ سیدہ فاطمہ ـــ نوری ہالہ ـــ اسم حال میں کہاں ہے مجال کہ کرے قال قال ـــ رنگ سنہری ہو رنگ جامنی.ہو کہ نیلا..سب کا اک.رنگ ہے ـــ سپیدی کا رنگ ــــ سفید رنگ بیداغ ـــ داغِ دل.سے ہوا یہ دل.پارہ.پارہ!  پارے میں نکلے مے و خم کے..نشان ..نشان.اور بے حجاب!

جمعہ ‏مبارک

السلام علیکم 
جمعہ مبارک 
درود ان کے لیے جو رات جاگ کرتا تھے، رویا کرتے تھے ہمارے لیے ـــ ایسے ہچکیاں لگ جاتی تھیں بدن مبارک کو، دیکھنے والا کا دل لرزشِ پیہم میں چلا جائے!  ہماری سراپا عفو ہستی!  ہماری محبوب ہستی!  ہمارے لیے گنجینہ الاسرار!  کنر مخفی بھی!  سرِ الہی!  جبین دل پر کنندہ نام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  اے ایمان والو!  درود پڑھنے سے صدقہ جاریہ شروع ہو جاتا ہے 
درود ـــ اس ہستی پر جس کا سفید لباس مبارک  ہمارے لیے تر ہو جاتا تھا!  درود ـــ جن کی داڑھی مبارک ایسی تر بتر ہوتی جیسے شبنم کے قطرے بہتے ہوں!  درود ان پر بوقت مرگ ـــ فکر ہماری لیے وصلِ شیریں میں رہے!  درود ان پر ـــ بنات کو بالخصوص سیدہ واجدہ عالیہ رافعہ صدیقہ مطہرہ فاطمہ الزہرا جیسی وفا کی دیوی،  حسن کامل،  خوش خصائل کا مرجع،  سیرت میں آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  جلال میں خدیجہ الکبری رضی تعالی عنہ ـــ ہمیں ملیں ـــ ہماری سردار پر درود ..درود سلام کا ہدیہ امِ ابیھا پر!  صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  جب وہ تلاوت کرتی تو سورج کی قسم!  ایسی شہد آگیں تلاوت تو لحنِ داؤدی میں تھی مگر کم!  ایسی ترتیل ہوتی ان کی آیت ان کے دل مبارک پر کہ صبر سے ایثار کا پیکر خدا کے آگے جھک جاتا یے ـــ جن کی تطہیر کی مثل نہ مثال!  ان کی تطہیر کی مثال کیا لاؤں! نہیں!  وہ پاکیزہ ترین خاتون ہیں کہ نام لوں بھی تو دل کو اشک سے تر کرلوں ـــ بے ادبی نہ ہو ...پیاری زہرا ـــ سلام سلام سلام!  
جمعہ مبارک

یہ سندیسہ مل جاتاہے گفتگو کو ہنر مبارک!  واجد کو تحریر مبارک!  جمعہ کی ساعت شروع ہوتی ہے اندھیرے میں اجالے سے!  اس دن کو نسبت ہم مسلمین دیتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم!  تو ہم کو نسبت ِ دن مبارک 
درود!  
ان گنت درود!  
کیوں بھیجیں حساب سے درود 
دیا جب جاتا ہے بے حساب 
کیوں شمار کریں ہم گھڑیاں 
گھڑیوں میں ہوجاؤں مشہود 
گہرائیوں میں جھانکے جائیں 
گہرائی میں متحرک اسم غنود 
تجلیات سے بحر کا آیا وجود 
ستم کو جلا دل بنا بے حدود 
رگ دل کٹ کے ہوئی لا محدود 
منزل غنا سے فنا کی تیاری ہے 
یہ زندگی ہماری ہے! ہماری ہے


اللہ اکبر 
جمعہ مبارک 
سیاہی دوات مبارک!  
زندگی کی رات مبارک!  
انسان کو انسانیت مبارک!  
راج میں تاج مبارک 
اشجار کو ھو مبارک 
طائر کہیں "تو "مبارک 
سپاہی کو تلوار ھو مبارک 
چشم نم کو الہیات مبارک 

جمعہ مبارک! جمعہ مبارک!  جمعہ.مبارک!

All chains unchained

All chains unchained
The Cage is uncaged
Fluttering is unuttered
Silence is made gossip
Burns are exhumed
Waves turned into sea
Flowers are in glea
Universe is in rhythm
Heart is toto broken
Desert warmth in full swing
Making one self to cry
Ah! thy love is unfathomable
Thy blessings irrevocable
Thy kindness uncountable
I am divine lamp
I am infinite in limits
I am mankind in cage
Who am I? I do not know!
Whisper of beloved is sweet
His voice is melodious
His attire is adorning world
I am He or He is I am
Who I am? Who is He?

منم ‏فدائم ‏در ‏علی ‏گدایم ‏

منم فدایم درِ علی گدایم --- بَہ نگاہِ عَلی طواف اُو کردم --- 

یا علی یا علی یا علی 

نـــعرہ ء علی لگاکے دیکھو --- دل بہ لبِ زبان ہلا کے دیکھو ..

دل کے دالان میں نقش علی سے بات کر - دل سے دل نے کہا ڈوب جا- دل ڈوب گیا اور ظاہر ذات علی ہُوئی .. خود کلامی میں دو کو پایا تو رازِ خفی-- سرِ نہاں  پایا 

خامشی کا صیغہ ساتھ رکھ --- محو ہو -- تماشائی ہو، زبانِ دل میں نغمہ سن سنا -- طیور کو بخشا جاتا ہے میخانہ 

ووھبت!  ھنالکم ابتلی کے بعد! نواز کے خزانے میں جلِ جلالہ علی کی ذات میں گم - من نفی شد - تو ظاہر شد - خیال کیست؟  خیال نیست!  جب گمشدہ ہو، فنا ہو جاؤ تو کہہ دو 

علی علی علی علی علی علی علی علی علی 

دل چیر دے گا نعرہ- شگاف میں درز درز کی نکلی روشنی کی صدا یاحیدر یاحسین!  امامِ حسین یا علی اکبر سلام شوق کو منظور کرلیجیے 

کما کان اھبت؟  ووحیت لک 

سجا لیے گھنگھرو پیروں میں -- لعل سجا کے دل میں پائے دل کو لعل لال کرکے کہا یاحسین ابن علی سلام -- یا حسین ابن علی سلام 

یا شامِ صبح یا مولودِ حرم  --- دلم فگارم این درد کرارِ ثانی 

جلال.الدین شاہ سرخ بخاری حیدر ثانی کو سلام 
باد صبا کیے جائے ان سے کلام 
مرا ان سے بس یہی ہے اک کام 
کروں اظہار صبح شام بے نیام 
مل جائے گی وصلت ماہِ صیام 

باد کرتی ہے ان سے کلام- سگ کوئے یاراں بہ ہوشِ کلام -- منم محو شیدایم ایں در فدایم --- نظرکرم دلِ شکستہ کردہ است -- مست ولائے حیدرم دم ہما ہم یا علی 

توری پریتم میں نگاہ گم ہوئی - مورا سنگیتم توئی - تو جس جانب فکر لیے چل - اسی جانب دل بہ قدم پا بن کے چلے -- اندر جنگل میں مئے ناب میں صدائے فگارم سنو گے؟  اک کیساتھ اک کا راز سنو گے؟ جذبات کا اظہار سنو گے؟ کمالِ اطراف میں اترا جمال دیکھو گے؟ روشنی کے ہالے میں جمال مصطفائی صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھو گے؟  سوچو کہ کہاں ہو؟  سوچو کہ کس مکان میں ہو؟  سوچو کہ تم لامکان میں ہو سوچو کہ زمان سے پرے ہو * سوچو کہ دم دم میں وہی صدا ہے - علی علی - مری زمین کا آسمان علی ہیں --* نگاہ کی بات ہے نگاہ میں نہیں ہے--- جہاں میں ہوں وہ جہاں نہیں ہے - رگ الفت چھڑ گئ - حرکت دل میں اتر گئی ہے -- شام سلونی سج گئی ہے - رات کفن باندھے کھڑے کہ صبح نہ ہونے دے گی --


Ali -Ali Ali 

Thy name is the mountain of virtue sustained the beauty of the world. He is the moon of Noor- e- Nabawat. My heart aches for that name echoing the corridors of my heart. He is the honey giving sweetness to my meloncholic  pain of separation. The divine vessel is demanding the immense drink to be poured. O 'the lion of Allah - O 'the sword of Allah give me power to uncage the cage.. Restraints, boundaries must be broken. O my mirth - lets dance in me - say Ali Ali

دوست ‏نے ‏چھیڑا ‏راگ ***

دوست نے چھیڑا ہے راگ،  کردی ہم سے ساز باز، نم آنکھ سے کُھلا راز، ہم نہیں تھے، وہ تھا پاس پاس. رُلا ڈالا یار نے ہمیں جان لیا کہ راز میں راز رہا تھا. --------------

 شمع سے نروان لینے چلو، چلو نروان مہنگا ہوجانا!  اٹھو!  اٹھو!  اٹھو کہ مندر سونا نہیں ہے!  اٹھو --------  وہ ہماری رگ رگ میں پکار رہا ہے کہ شام الوہی الوہی ہے

رات کا سونا پن کس نے دیکھا تھا رات چلی محبوب کے پاس، ---------محبوب نے جان لے لی کہ جان تو باقی تھی. جب قطرہ قطرہ نیچے گرا تو کہا تھا

اشھد ان لا الہ الا اللہ

حق کی شہادت تھی، وہی لگا ادھر ادھر ...حق نے آواز لگائی------------ ..سن!  من نے کہا کہ  کس نے کہا،------- سن!  یہ زمین ہلتے ہلتے بولی کہ سن!  یہ جو مٹی ہے بکھر کہ کہہ رہی سن!  یہ جو کاسنی بیلیں ہیں، لہر لہر کہ لہکتے کہہ رہی ہیں سن!  سن!  سن !

ارے ہم کیا سنیں ریں!  بتا تو سہی!  کیا سنائی دیا نہٰیں کہ حق جلال میں ہے!  حق نے کہا تھا ساز الوہی یے! حق نے کہا تھا چشمہ الوہی ہے حق نے کہا تھا عشق کی لا ضروری ہے
تب سے ہم نے  کب تھا مڑ کے پیچھے دیکھا!  

جا کے بیٹھ گئے اس کے در پر!  درد درِ اقدس پہ بَہائیے....... کیونکہ حق تو ہی تھا درد،  درد نے ہم کو حق کی گواہی سے ملا دیا. خون کا قطرہ قطرہ شہادت سے شاہد ہوا ..حق میں صامت ہوا

یہ کیا کیا ہے!  یہ ہم کس نگر چل دیے ہیں!  یہ سازش کس ستار کی ہے!  یہ آگ آگ سی ہے جو ہم نے ہاتھ میں اٹھا رکھی یے!  یہ کشتی کیا ہے جو چل رہی اور اسکا سفینہ فلک تک چلا گیا گویا فلک خود زمین پہ آگیا ہے

عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت کا حال ہے 
عشق سرمہ ء وصال ہے 
عشق کے بازی کھیلو یم.سے

ہم.تو عشق کی لاگت میں مورے نین سے نیناں ملائے کھڑی رے!  عشق کی لاگی نے بجھائی نہ آگ،  جلا ڈالا جنگل سارا ..ہائے!  یہ ہوا حال کا حال! کمال چھاگیا ہے!  حال آگیا

ہم تو مجنون تو تھے نا رے!  ہم تو لیلی کی مانند حسن میں شامل تھے!  اب ہم کہ فنائے حال میں کمال کو ہے! جوگی کو دیکھے کون؟ جوگن دیکھو سارے!  لوگ لوگ گئے شہر شہر بھاگن!  دیکھن کہ سبز سبز مور سے کیا ہے لاگن!  ہائے لگن کی چنز نے مار ڈالا ...مار ڈالا

ہم تو مرگئے!  ہم تو فنا ہوئے رہے!  چاہے لگن میں سایہ افگن وہ بالِ میم سے آشنائی کس فلک کی جانب گامزن کردے

. ہم کو چاہت کے الوہی راگوں میں مگن کرنے والے پیا!  آجا!  دل میں سما جا!  آجا ہم سے نین ملا نا!  نین کی بازی کھیل نا!  ہم تجھ کو تو ہم کو دیکھ  کے جی لیں نا!  آ ہم سے کھیل!  یہ ہماری شوخ نگاہ ہے کہیں کھیل میں آگ پھیل نہ جائے!  جل جائے رے تو!  ہمارا من ہے تو!  ہماری آس میں جانے کس کس نے دیے توڑ دیے اور ہم نے تجھ کو اپنا دیا بنا دجا
 
خوشبو جلنے لگی ہے!  اووووو خوشبو پھیل رہی ہے

مدھم مدھم سی خوشبو نے سرمیٰ حال کردیا یے!  کاشانہ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیام سے کمال کی جانب اترنے والے الہام سے پوچھو کہ کس جانب جانا ہے اب تو طیبہ والے بھی منتظر ہے کہ سوار کو سواری مل چکی ہے!  یقین کی کونسی منزل ہے جس کے سب گمان حق میں بدل رہے 

جھکاؤ نظریں سب!  ادب!  ادب!  ادب!  درود!  درود!  درود!  حد ادب!  سرکار کا جلوہ ہے!  درود حال دل میں مقیم عالی پناہ ہستی پر  ...حق درود کی واج سنو ..نئی منزل کا آغاز سنو!  شام سے رات کی مثال سنو!  اختلاف لیل نہار سے وصل و ہجر کے بار سنو!  خاموش!  حد ادب!  ذی پناہ موجود دل میں!

کیسی گواہی چاہیے تھی!
الوہی ذات سے منسلک چشمے ہیں سارے ...
کوثر سے منسلک ہیں پیارے ..
یہ جو کعبہ دل میں ہے اب یہ منبر بنے گا 
یہ جو حرا کی شام ہے، رات میں ڈھلے گی 
یہ جو نوح کا قصہ، اک نئے آغاز میں ملے گا 
یہ جو ماتھے پہ نور کا نشان ہے، یہی حق کی گواہی ہے 
حق کی گواہی ہماری گواہی ہے
کاتب دل  کو اور کیا چاہیے؟
یہ فیض نور سے جاری چشمے ہیں ..
نور ہم سے منسلک اک ایسا چشمہ ہے، جو ہمارے نگاہ میں شامل رہتے کاملیت پہ گامزن ہے ..
اور کیا چاہیے ...

حد ادب!  بندگی میں سرجھکا رہا!  بندی غلام! شکرانے کے نفل ادا کرے گی!  حبیب نے کیسے یاد کیا ہمیں!  زہے نصیب!  زہے نصیب!  زہے نصیب!

نیلم کی کان ہی تمھاری ہے، کان کنی تم نے خود کرنی ہے!  ہم نے تم کو ایسے جبل کے لیے منتخب کیا ہے!  یہ تمھارا دل ہے جو نیلا ہے! اس کو سرخ ہم کریں گے!  حسینی لعلوں سے ...
رکوع!  رکوع!  رکوع ...
آقا جاتے ہیں .. آقا جاتے ہیں!  آقا جاتے ہیں ...
سر نہ اٹھے، مقام ادب ہے!  سر نہ اٹھے!  نہ نہ ...خاموش ...درود!  حد ادب!  خاموش!  درود!  دل کا جلا ہے،  یہ رات کا ڈھلا ہے، یہ شامی لباس ہے، یہ خونین پوشاک ہے!  یہ حسن کی یلغار ہے،  یہ روشنی کے لیل و نہاز ہے! یہ مصر کا نیل ہے،  یہ احرام دل میں آیت مقدس کی تلاوت ہے، دل صامت ہے، روح کو چاہیے لباس برہنگی، رکھ لے آس کی تلوار ننگی، شام سلونی ہے، رات نورانی ہے اور جھک کہ کہہ رہے 
.

رنگ لگا دے اور 
چنر پہنا دے اور
دل کا وضو کرایا 
جلوہ کرادے اور.
چنر کی لاگن ہے 
دل دیاں صداواں 
آجا ماہی، بے کول 
دل مرا وڈا انمول 
ساڈا دل رولیا گیا
آہاں وچ تولیا گیا 
فر تو ایڈ اچ آیا 
ھو دا ساز وجایا 
وجی تری ھو دی تار
الف دی گل کریندے آں
شام سلونی ویندے آں
ساڈا پیر مصطفی سائیں 
صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
وزیر جس دا علی سائیں 
مورا رنگ اچ تُواِں ویکھن

ماہی نے تماشا لایا اے،کنگنا پایا سی، لہو گرمایا سی ---ام سلونی سی، اکھ من موہنی.سی، اکھ ہن رکھ میڈےتے،ویکھدا رے میڈا رقص، ہر حرف اچ علی دا عکس،ہر صدا وچ ھو دی سج دھج
ہر رنگ میڈا محمد کریندا اے،جوگن کیتا مینوں تیڈے عشق نے

کنگنا پایا سی،
شہنائ وجی.سی
رات لگی سی 
شام کتھی گئ 
الف اللہ دی آئ 
ایہہ ساڈی کمائ
لائ وی گئی اے
نبھائ وی گئ اے

دل کا حال تجھ کو بتاتے ہیں ،راز سر تا دل تجھ کو بتاتے ہیں، سِر نہاں!  تہہِ جامہِ دل پنہاں!  تو .... تو ... تو ...گُم ہوتی ذات میں موج کی صدا میں تو،  دریا تو! بحر تو! نمی نمی!  بوند بوند دل پہ گرے! بوند کی صدا میں تم! شبنم نے ہرا گھاس تازہ کردیا!  تازہ تازہ شبنم میں تو! میرا عشق! 

میرا ستار!  اللہ ھو!
میرا قہار!  اللہ ھو 
میرا قدسی!  اللہ ھو!
میرا سامع!  اللہ ھو 
میرا قاری!  اللہ ھو!
میرا ہادی!  اللہ ھو!
میرا مسجود!  اللہ ھو!
میرا قبلہ!  اللہ ھو!
میرا نور!  اللہ ھو!

 
عشق ہوگیا کامل 
عشق میں وہ شامل 
عشق سے ملے نروان 
عشق ہے سرمئی کان 
عشق الوہی راگ ہے 
عشق تن من کی آگ ہے 
عشق جلتا کاغذ ہے 
عشق من کی اگنی ہے 
عشق صحیفہ اقدس ہے
عشق طریقہ وضو ہے 
عشق خون کی ندی ہے 
عشق الوہی چشمہ ہے 
عشق جلتا لباس ہے 
عشق ہجرت

اجنبی ‏سرزمین ‏

اک اجنبی سرزمین میں ہوں، میں کہاں ہوں یہ کس کو خبر ہے! بس سرِ نہاں میں لا الہ الا اللہ کی تار نے نغمہ ء آہو کو ھو میں بدل دیا ہے، مرے شجر سے بس حیا کی ردا عکس وفا بن کے ظاہر ہے، میں لب کشائی کیسے کروں!  وفا کی عین تصویر وہ قندیل منور ہوگئی طاق دل میں ستارہ ء سحری بن کے جیسے قسم کھائی ہو کسی نے روشن ستارے کی!  دل میں سے صد اٹھے کہ ماھو میں کہوں لا -- ھو کیسا عجب سوال جواب جو خاموشی میں سکوت نے دیا،  لاج نے ساز کو بجایا ہے کہ وہ صدا نکلی کہ عش عش کر اٹھی رگ رگ 
یہ رگ رگ کا پیغام ہے 
یہ ماہ صیام انعام یے 
یہ راز کا فقدان نہیں 
یہ لاج کا امکان  ہے 
یہ سرمہ ء خاک نجف 
مرا دل بَنا حرم ِ نجف 
صبا زلف اطہر کو چوئے 
میں نازم کہ.پایا شرف 
یہ ہجر میں رنگن  لائے 
یہ وصلت میں مگن کون 
یہ دیپ جو ستار کے ہیں 
یہی ساز دل کو بجا رہے 
میں سرراز الفت کا نشان 
میں نہاں آیت ہے عیاں 
شاہد سے شہید کا سفر 
میرے دل نے کیا ردِ کفر 
دل میں اخبار لگے ہیں 
کوچہ اشتہار ہے عشق 
عشق نے مورارنگ دیا 
یہ لفظوں سے دھواں 
مہک میں ہے رواں وراں

شاہ ‏جلال

شاہِ جَلال سُرخ پوش ثانی ء حیدر کَرار سے مل رہے ہیں اشک کے وظائف!  بڑے دل سے ملا ہے اک ذرے کو،  ذرہ ء خاکِ ناسوت کب معرفتِ شاہِ سرخ جلال الدین کی کَر پائے ہے، یہ نامِ حُسین جو چرخِ زمن پہ روشن ہے، اسی لعل کے لال ہے مخدوم جَہانیاں جَہاں گشت!  

شاہِ جَلال سرخ نگینہ ہیں ، شاہ جَلال لعلِ یمنی ہیں،  یہ ضوئے حُسین! یہ بوئے حیدری!  زمین پہ موتیا کی خوشبو سے ہوا اوج چمن کو نکھار، یہ بہاراں ہے! یہ نظارا ہے!  یہ.راز برگ گل و سمن ہے!  یہ راز نہاں یے کہ.عیاں ہے اک راز! بس راز خفتہ کو ظاہر پایا ہے کون جانے کون جانے کون جانے بس رب جانے بس رب جانے

تَڑپ سے آدم کو مِلا قَرار کیسے؟ منتہائے اوج جستجو پے وجہ تخلیق بشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے رشنائی پائی!  نہ ہوتے آدم تو میرا جُرم جَفا، کیسے ٹھکانا پاتا؟  
مجھ کو آسر جد سے ہُوا، خطاوار کو ملتی.رضا ہے
یہ ہاشمی قبا ہے، جو سر پر رِدا ہے، یہ حَیا سے وفا ہے 
کون جانے کس کی لگن میں آس کے سوت کتن جاوے مری روح!  جو جانڑے،  وہ حال دل سے باخبر ہیں مگر مخبر اپنے دل کو راز نہاں سے عیاں سے کہاں تلک کی رسائ سمجھ  لگے، کریم ان کی صدا ہے

لفظ ‏خالی ‏،جام ‏خالی ***

لفظ خالی، جام خالی،  سب ہے خالی، دل بھی خالی، مندر من میں سمائی اک صورت --- ھو 
جیہڑی صورت نال ملے تے تار وجدی دے -- ھو 
میں ناہی، اوہی کہندا رہندا اے --- تو ہے جا بَجا 
کنجر دے دل وچ دیون بلدے ویکھے 
ملاں نوں سیاہی پھڑے مکداویکھے 
کج مینوں پلے نہ پَیا اس دنیا دے چکراں اچ 
چکر پڑن تے بی بی جیواندی سانوں یاد آون 
شاہ جلال دے فقیر نوں ملیا فقیری رنگ 
شاہ جَلال نے دیا سانوں کاسہ ء نور 
جیہڑی خوشو نے کیتا من مخمور 
مکان وچ ---لامکانی دا نوا سویرا -- ھو 
مقامِ دل میں جناب سیدہ زہرا رض کا پہرا 
مہجوری ہے!مجبوری ہے!رمز کیا رکھی ہے!
پی رکھی ہے!، نَہیں پلا دی گئی یے!
راج جنہاں دے ہے راجدھانی خدا وچ 
کون میں؟  بس اوہی چار چفیرے بانگاں مارے --- ھو 

کَریم نے جام سے نوازا 
گدائی کا مل گیا ہے کاسا 
میں شناسا سے ملن چلی 
شناسا من دیپ اچ ہے 
ملن دے گھڑی اچ ملن دی مثال نہ لبھے 
جیوں اس دی خدائ اچ میں نہ لبھاں 
اوہدی رمز انوکھی اے 
دنیا دی مشقت چوکھی ہے 
چلہا پھونک دل نوں جلایا 
من دی بھٹی اچ فرقت نوں پکایا 
فراق نے کیتا سانوں لال و لال 
لعل دی لالی وچ ملیا نگینہ ء یاقوت 
یا حسین کہندے رکھیا دل نوں قنوت 
قبور پہ حاضری ہے اٹھیں گے طیور 
حاضری ہے!  یہ حاضر ہے طائر بہ سوار 
کمال نے رکھی اسکی خوب مثال 
یہ دل مرا ان کی طاق میں جلا ہے 
مجھے شہ کے سوا کون ملا ہے 
شہ عرب کی مہک سے بنا دل مخمور 
دل میں وَجد سے وجدانی لہر کا ظہور 
اللہ اللہ اللہ رے - آنکھیں ہیں پرنور 
یہ جلوہ ء طور ہے،  یہ شمع کافور 
یہ ہادی سے ولایت، یہ ہے  امانت 
یہ نماز وفور ہے،  درد ضرور ہے 
دل مرا مجبور ہے دل مخمور یے
دل کافی ہے جس درد میں شفا ہے 
دل بہ مانند ادعامنظورِ دعا ہے 
دل کو ملا ہے سندیسیہ اک 
چراغِ حُسینی ہے کوئ کہاں 
یہ دل بہ لب موہوم سی دعا 
ان کے در پہ کھڑا ہے کوئی 
دست مقبول دعا کا ساتھ ہے 
میں نے پیش کیا نذرانہ 

یاحسین کہنے سے دل کہاں رکے گا 
یا حسین کہنے سے رات کب گئی ہے 
یا حسین کہنے سے حسن بڑھا ہے 
یا حسین کہنے سے لگن مگن ہوئی 
یا حسین کہنے سے سجن ملن ---- ھو 
یا حسین کہنے سے جلال کا رنگ 
یا حسین کہنے سے حال ہے سنگ 
یا حسین کہنے سے مجال کو زنگ 
یا حسین کہنے سے خیال بہ رنگ 
یا حسین کہنے سے جوت کی اٹھن -- ھو 
یا حسین کہنے سے سوت مرا کتن ----ھو 
یا حسین کہنے سے موت بہ حق --- ھو 
یا حسین کہنے سے پروازِ  گگن ----- ھو 

موجہ  ء صبا نے سلام کیا، کہا یا حسین!  خدا کا عین جلال!  علی حیدر کرار رض کے شہسوار،   رنگ لایا گیا، نور سمایا گیا،  کبریاء جاناں دل میں، میں رنگ نشاط سے شاہی کا سوار ہوں، میں کعبہ ء دل میں حجازی لگن میں مگن اک سگ!

گویائی

شمس سے پوچھا جائے کہ گویائی کا مقصد کیا تھا تو جواب دے گا کہ خدا کی بات پہنچانی تھی وہ بھی سلیقے سے طریقے سے،  شمس کو علم نہیں تھا کہ خُدا کی بات پہنچ رہی ہے بنا گویائی کے، خدا لمحہ بہ لمحہ ہمکلام ہوتا ہے 
شمس سے سوال کیا غیر ضروری تھا یا جوابا اس کو نادانی کا احســـاس دلانا مقصود تھا .... شمس شاید روشنی پہنچاتا ہے تو بولتا ہے جبکہ جس کے پاس پہنچتی ہے اسکو اسکی خبر تک نَہیں ہوتی ہے ...... روشنی کا کلام خاموشی ہے اور شمس کو علم نہیں وہ خود روشنی ہے ... اب دیکھیے چاند کو وہ کتنا حسین ہے تو کہے گا زلفِ لیلی کا اسیر ہے اسیر  محبت کی قید میں حسین تر ہورہا ہے شایدـمحبت اک دائرہ ہے دائرہ سے باہر مکان اور اندر زمان ..جب زمان و مکان کی قید سے نکل جائیں گے تو مکان و زمانے کی وقعت کیا مگر اس سب کو سمجھنا کیا اتنی آسان ہے

ردائے ‏محبت

اسے ہے خواہش کہ پا لے ردائے محبت کو،
اسے ناز ہے کہ ملے گی مراد مدام شوق کو،

اک بات اہل چمن سنیں گے،  سنیں گے تو محبت پر یقین کرنے لگیں گے،  وہ حَیا کے مارے دل میں جھانکیں گے اور ہائیں گے کہ دل تو مجسمِ حَیا ہے.

ع: میں ہوں زَمین اور مطلَعِ انوار فاطــــــــمـــــہ  رضـــــــ

جب حَیا سے سامنا ہو تو نور کو کہنا چاہیے سلام!  سلام!  سلام!  جب سامنے ہو لفظِ فــــــاطــــــمہ رض، تو رقصِ قلم نو سے نکلیں گے ایسے بوٹے کہ فنا ہوجانا مقدر ٹھہرا 

طریقہ سوچیے کیا ہوگا؟ طریقہ ء وضو کیا ہوگا؟ طریقہ ء چشمِ نم کیا ہوگا؟ طریقہ بہ ہدایت کیا ہے؟ طریقہ تسلیم کیا ہوگا؟ طریقہ اطاعت کیا ہے؟

جوابا دل نے کہا محبت!  محبت!  محبت 

محبت کے داعی سے پوچھا میں نے کہ آسمانی جذبے کو زمین پے اتار دیا؟  
زمین تو بام فلک پہ ہوگی گویا!  
زمین کو اور کیا چاہیے ہوگا؟  

طریقہ وفا تو یہی ہے کہ جو وہ کہے وہ تو ہوجا 
وہ کہے پتھر ہوجا، تو کن سے کنم کا سفر ہوجا 
وہ کہے فلک پہ آجا تو بس فلک پر رسا نالہ ہوجا 
وہ کہے جانِ عندلیب ہو جا تو عندلیب کی جان ہو جا 
طریقہ کہتا ہے رقص کر تو بسمل کا رقص ہو جا 
طریقہ کہتا ہے کہ چراغ ہوجا، تو روشنی ہو جا 
اگر وہ کہے تو کیا ہے؟ کہہ دے نمی دانم کجا رفتم فنا گشتم 
اگر طریقہ کہے کہ فنائیت کیا ہے تو کہا تو ہے، نہیں ماسوا ترے 
طریقہ کہتا ہے شجر سے حجر میں چھپے اخفا راز کو دیکھ 
تو لفظ میم کی تسبیح ہوجا 
طریقہ کہتا ہے دیکھ بادل برستا ہے تو لفظ حـــــــ سے یــــا سے الــــف ہوجا 
طریقہ کہتا ہے حیا ہو جا تو عـین سے مـــــیم ہوجا 
طریقہ کہے کن  ---- کنم کنم در گدائی بہ فدا زہرا  

زہرا ----- زعشق فاطمہ دل فگارم است 
ایں نیستی بہ ہوش را -- دید کو می خواہد 
زہرا ------ جبین دل بہ نیاز مند، بہ چراغ کشتہ روشنی درکار 
زہرا -----  نے خرد سے بنے، کام عشق میں کارجہاں دراز است 

میں طریقہ ہوں میں سلیقہ ہوں 
مجھے جلایا گیا عشق میں 
مجھے رلایا گیا ہے پیار میں 
درد نے مجھے قوت اظہار دی 
حسن منم بہ عروج فلک است 
میں حاصلِ تمنا کا عین ہوں 
میں دید ہوں، رات کا چاند ہوں 
شکار ہوں،  اسکا شہکار ہو کے 

نذرانہ جب دیا جاتا ہے تو فتح مل جاتی ہے. پوچھیے فتح کیا ہے؟ بخدا قسم ذات کی جس کے قبضے میں مری جان ہے کہ کن کی طاقت مل جاتی جب فتح روح پر ہو.  "زیر "ہے انسان اور "زبر "ہوجاتا ہے.  "زیر سے "زبر "کا فرق جاننے والے کہہ دیتے ہیں نفس حجاب ہے بس وہ خود سے ہم کلام ہے وہ خود پکار رہا ہے،  وہ خود حسن کے شہہ کار پہ محو حیرت ہے. یہ میں اپنے پر خود حسن کی شیریں گفتگو نہیں کر رہی بلکہ وہ اپنی گفتگو خود کر رہا ہے. وہی ہے ہر جگہ. اے خدا ہماری روح کی "زیر "کو نفس پر "زبر " کردے آمین

لکھنا ‏موت ‏ہوا ***

محب کے لیے موت سے گزر کے لکھنا،  اصل لکھنا ہے وگرنہ سب بیکار لکھنا ہے ... جب محب کھتا ہے تو وہ محبوب کے روبرو ہوتا ہے 

 اُس نے کہا کہ کدھر سے آئی؟
جہاں پہ گُلاب ہے، وہیں سے ،  وہیں جانا ہے ... 
اس نے کہا کہ بیٹھ جا ابھی انتظار باقی ہے ..
کہا کہ دم نکلتا ہے
 اُس نے کہا کہ سبھی عاشق ایسے کہتے ہیں ..
 کہا کہ یہ معاملہ الگ ہے کہ کہاں عشق کا دعوی اور میں کہاں ..

اس نے کہا کہ ترا معاملہ مجھ سے الگ کہاں؟ 
 کہا کہ حقیقت کب بتائی تھی ..
اس نے کہا حقیقت کی تاب کس کو ہے؟ 
کہا جس کو.عشق کا بوٹا دیا، جن کو خوشبو دی ...ذکر علی کیا کرو ..

کہا کہ نام علی سے روشنی ہے .. رضی تعالی عنہ 
اس نے کہا کہ اس ذکر کو باعمل کرو 
 کہا  کہ ذکر کے سوا کیا رہا باقی ...
اس نے کہا کہ مرے محبوب کا نام ...صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

 کہا کہ محبوب کا جلوہ نہیں ہوتا ...
اس نے کہا گلی گلی ہیں محبوب کا نام لینے والے ..جا ان سے مل ...
 کہا ہجرت نے ہوش گم کردئیے ...
اس نے کہا مرا درد دیکھ پھر،  ....
میں نے کہا تو تو خالق ہے ...
اس نے کہا کہ خالق کے بندے پکڑ، جن کو قلم دیا.گیا ...
 کہا قلم تو تری روح ہے......
اس نے کہا نظام مصطفی صلی اللہ.علیہ والہ.وسلم کا کاروبار ایسا ہے ...
 کہا  کہ پرواز کب ملے گی ..؟
اس نے کہا جب رہائی ملے گی ..
 کہا  کہ قفس کی تیلیاں سرخ ہیں ..
اس نے کہا بسمل کا.حال پسند آیا ...
 کہا کہ نعت کا سلیقہ نہیں ..
اس نے کہا کہ سلیقہ، لکھنے سے نہیں دل سے آتا ..مقام ادب مقام، جلوہ، مقام حضور ...کیوں ہے تو  مہجور ...شراب طور سے پی،  پلا ..

پت، اپنی پت  کیسے کہوں؟  پتا پتا ہلتا ہے،  سورج ابھرتا ہے،  چاند مسکرائے،  سرخی سے گھبرائے تو خیال جاناں مدہوش کیے دے ..کدھر ہے مرا خیال؟ میں ہی خیال ہوئی ..اے نیستی، اے ہستی!  جام جم کدھر ہے؟

موج سکوت نے لہر سے پوچھا، سمندر کدھر؟  ساحل ہنس پڑا اور اشارہ کیا کہ وہ مرکز جس پہ آیت الہی چمک رہی تھی. .. 

پوچھا کہ کہاں ہے رنگ، پرنور پیراہن؟

کہا کہ انجیل تمنا میں، حریم ناز کے حرم، مکین دل کے مکان کونین میں، سکون دل سے جاری دعا میں، شام حنا کی سرخی میں، رات کی رانی کی مہک میں .......

پوچھا تحفہ ء وصال کیا ہے 

کہا دل حزین کے لیے آنسو، رگ جان سے کھینچے جانے والے درد سے اینٹھتی ہڈیوں کے لیے وظیفہ ء محبت،  درود کی شکل،  صورت میں   اور والتین کی کہانی میں...

پوچھا التین کیا ہے ؟

کہا کہ قسم خدا کی، محبت پہ اور حد پر ..حد کہ حد نہ ہوئی، محبت یہ کہ محبت نہ ہوئی 

پوچھا کس سرزمین سے ہوں میں؟ 
کہا جس سرزمین سے سوال اٹھا 
پوچھا دیدار کے جواب میں کیا واجب؟ 
کہا شکر کا کلمہ،  درود کی ہانڈی، تسلیم کا گھڑا،  صبر کا پانی 

پوچھا کہ حقیقت کہاں سے ملے گی؟ 
کہا عشق میں چھپے زہر سے پردہ اٹھنے دے 
کہا کہ پردہ کیسے اٹھے؟
کہا پردہ، پردہ نشینوں کی مرضی ہے ...ان کی نیاز میں جا ... 
پوچھا  نیاز کیسے ملتی ہے؟
کہا نیاز جھکنے سے ملتی ہے ..جھک جا 
کہا کہ دل کی نیاز کیا؟
کہا شوق حضور ...یقین کا قرار 
کہا کہ شوق کامل کیسے ہو؟  
کہا کہ تڑپ کب قرار پائے ..ازل کا نوحہ اب تک چلتا ہے؟
کہا تمثیل تڑپ؟  
کہا کہ مقام حسینیت جان لے ..حسینی ہو جا ..جان جائے گی 
کہا حسینیت کیسے پائی جائے؟  
کہا حسینیت یقین کے پانی سے، روح کے سوتے کھلنے سے ...
کہا درد بہت  ہے..
کہا کہ درد سے مفر کس کو ...
.
کہا کہ درد کی انتہا کیا ہے؟  
کہا کہ جلوہ ... جب منتہی ہو تو دیدار لازم 

کہا کہ کچھ نہیں آتا ...کچھ نہیں ہوتا ..کچھ اپنا نہیں ہے ...

کچھ نہیں تو تمنائے حرف کو کیا کہیں ......؟؟؟ تمنائے انجیل و حرف لوح و قلم کے رشتے سے جڑے ہیں. ارض مقدس کے شجر میں پلتے ہیں روح کے اسرار ہیں ...شاہ کے غمخوار ہیں ..رہتے ہیں میخوار، چلتے پھرتے اسرار ہیں وحشت کے مارے اٹھتے جنازے ہیں ..مجلس ماتم میں کیا پڑا ہے.  ؟  ماتم شاہد و شہید کیا؟ ہائے یہ کیسا نوحہ ہے جدائی کا جو جدائی سے نکلا ہے ..

یہ نوحہ، ملال  ساز میں بج رہا ہے ...
 دوا ہو جائے...یہ دل کٹ رہا ہے ...
روح ہجر کے اندھیرے میں موت کے قریب، جاں بلب .....روشنی چاہیے......!  

غار حرا کی زمین سے اس زمین تلک فاصلے ...حائل سماوات حامل الہیات ..کامل ذات سے رشتہ پیوست ...کامل ذات محمد و احمد  صلی اللہ علیہ والہ وسلم ... انجیل تمنا،  حدیث داستان،  کلیم طور پہ موسی علیہ والہ وسلم  کی کہانی، ادریس علیہ سلام کی پرواز بھی،  یوسف علیہ سلام کی  کی گواہی بھی،  ایوب  علیہ السلام کا صبر بھی، گریہ یعقوب علیہ سلام کا ....

یہ نشان ہیں آیات ہیں کمال ہیں جو نکل رہے ہیں نوری دھاگے ...محبت کے وظائف بہت بھاری ..
او ویکھو روح سولی اتے .. جان دے نیل ... کیہڑے غم دا بالن اے،گھل گھل جاندی اے

آشنائی

تعلق میں آشنائی ہے،  آشنا تجھ میں ہے اس لیے تعلق خود سے بَنانا ہے. سچا مرشد سچل سائیں ہے.  شاہ کے لیے تحفہ درود ہے. اسم محمد خود اک قطب ہے جس میں کشش ساتھ ہے. کشش کے کناروں پے آجاؤ، کنارے لگ جاؤ گے،  قوت ہے اس میں ہے جس قوت سے ہمارے دلوں کو توحید سے پاک کیا ہے وہ مثال سے پاک ہے مگر اپنی مثال خود قران میں دی ہے. اک طرف کہا لیس کمثلہ شئی تو دوسری طرف کہا کہ مثال بمانند طاق جس میں ستارہ اور ستارے میں نور اور جو نور علی النور ہو جائے اسکی کیا بات ہے؟

اللہ فرماتا ہے فلاں چیز میرا نشان ہے اور یہ میرا نشان ہے تو ظاہر کہ وہ کبھی ظاہر ہوا ہوتا ہے وہاں جیسا کوہ طور کی مثال آسانی سے سمجھائی جاسکتی ہے انسان کا دل کا قالب ایسا ہے وہ شہید ہے ہم مگر شاہد بنتے نہیں. سورہ حشر میں اللہ پاک اپنے لیے ھو الشہید کا لفظ فرماتا ہے میں نے یہ لفظ خود سے نہیں سوچا بلکہ غور نے اس درجہ کو فکر دی کہ وہ آپ میں شہید ہے مگر انسان کو وقعت اتنی بڑی دے دی اور انسان نے شہادت نہ دی. امام حسین نے شہادت دی تو کیسے مکمل نفی ہوگئی اور کہہ دیا یا اللہ میں شہید تو شاہد ...بس یہ ھو الشہید سے ھو الشاہد کا سفر ہے جسکو  ہم کلمہ کہتے ہیں لا الہ الا اللہ 
باطن میں نور ہے اس نور کی مثال سمجھیں شجر کی سی ہے قران پاک میں شجر زیتون کا ذکر ہے اور یہ زیتون کا درخت ملحم شدہ شاخوں سے منسلک ہے یہ الہام کی رم جھم ان شاخوں سے بمانند شبنم نمودار ہوتی ہے یہی عرش کا پانی ہے اس سے شجر کا وضو ہوتا ہے مگر اسکے لیے پاکی لازم یے نیت کی پاکی نیت بھی انسان کی خود کیساتھ ہے غرض انسان کی اپنے ساتھ ہے انسان کو خود کیساتھ خالص ہونا ہے خود اچھی سوچ کا عامل ہونا یہ زبان کے رٹے دل کی صفائی نہیں بلکہ عمل کا وظیفہ اصل طریقہ ہے جس سے سارے حجابات ہٹ جاتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے کہ منصور کہہ دیتے ہیں انالحق. وہ مجذوب تھے اس لیے جذب ہوگئے اس مقام میں. اب وہ کہتے رہے لوگ پتھر ماریں یا پھانسی دیں فرق کیا پڑتا سرمد کاشانی نے لا الہ کا ورد کیا الا اللہ ہو نہ سکا کہ اپنی نفی کے مقام کے مجذوب تھے مگر جب مرے تو شان خدا دیکھیے اثبات ہوگیا سر کٹا کے کلمہ پڑھنے والے سرمد کاشانی کیساتھ اللہ ہوا. اللہ نے ہمیں شعور دیا ہے خواہشات دیں اور ساتھ اپنا آپ دیا. تقدیر کے پہیے چلتے ہیں اور وہ ہمیں ارادہ ء کن سے نوازتا جاتا ہے ہم کہتے ہیں گھر بنالیا کیونکہ ارادہ تھا اور جادہ اس نے نہیِ ہم نے ارادہ سے بنایا اور یہ ارادہ یہ نیت یہ طاقت کہاں سے استعمال ہوئ باطن سے. باطن کی قوت سے خارج کے کام ہو جاتے مگر باطن کی قوت سے باطن کے کام مشکل لگتے ہیں دعا ہے کہ اللہ ہم.سب کو جذب حق عطا کرے وہی ہے جو نواز دے گدھے کو تو اسکی شان وہی جو شاہ کو گدھا کردے وہ یے جو چوڑے کو اختیار دے وہ ہی جو سالار کو بھکاری کردے ہم بس یہ کہتے رہیں نمی دانم نمی دانم نمی دانم حق گویم حق گویم حق گویم

عرش ‏کا ‏رازدان

خُدا مجھ سے مرے لیے ہم کلام ہے،  تم نے سمجھا کہ یہ تمھارا کلام ہے! ہاں یہ گفتگو کچھ عام ہے،  ہم میں دھڑکتا ہے مگر عام نَہیں. تم اسکا استعارہ تو ہو مگر تم خدا نَہیں ہو. میں گنہ گار ہوں مگر قرین ذات ہوں. یہ الوہی کیفیت ہے نا اس میں سچ حقیقت بن کے سامنا آجاتا ہے. تم دیکھو اس نے کتنے اداکار بنائے مگر صنعت اک سچ کو ہے وہ خدا ہے. خدا دل میں اتر آئے سچی گواہی بن کر تو اے مرے دل مت جھٹلانا. وہیں بمانند سنگ سجدہ ریز ہوجانا


خسرو  پیا لامکاں میں نشان ہے، صابر پیا  خدا کا وجدان ہے، من آشکارکر، رگِ نہا میں بستے کردار ہیں یہ ... خزانہ ہے!  یہ بَہانہ ہے! یہ یارانہ ہے!  یہ نذرانہ ہے!  یہ ہستیوں کا کیف ہے!  یہ نشاط ہست کے سائے!  وہ دور سے بلائے! کون؟  وہی جو پاس ہے! کتنا پاس؟  اتنا کہ بس سانس کا ردھم آری چلاتا ہے. تو روک دو سانس!  لاشریک لہ

کبھی لا الہ الا اللہ کہا؟
کَہو 
نہیں کہہ سکتی 
کیوں 
جذب نفی نہیں الا اللہ کا اثبات کیسے ہو 
رگِ باطل کاٹ ڈالو 
فنا کتنا دشوار ہے گویا اشکوں کا ہار ہے، یہ گیت سنگھار ہے، یہ ذات سے پیار ہے 

تو نہ کر ذات کی پریتم، تو ہو جا اس ذات کی، کر نفی ہو اثبات کی ..چل درودں کی دستار پرو، چل اشکوں سے ردھم لا،  چل لامکانی چل ..حق لامکانی ھو ...
حق ترا وجدان جو ترا مہمان ، میری رگ رگ میں نسیان 
تو عرق نیساں کا شفاف موتی، تری ذات میں مدوجزر کا استعارا ہے ڈوبتا کنارا گویا چاند ستارا 
افلاک کی گردش تھم گئی ...تھم گئی ..رک گئے ماہ سال ...رک گئے طوفان ....


گرج رہے تھے بادل،  اتر رہی تھی کرسی، بکھر رہے تھے بادل، کڑک رہی تھی بجلی اور پگھل رہے تھے پہاڑ ..حشر ..وضو ..حشر ..وضو ..حشر ..وضو ..یہ کیا ہوا؟ چاند ہے رات ہے!  بڑی سوغات ہے. اسکی کیا بات ہے جس میں جذبات ہے. اللہ کا نعرہ الا اللہ کی تار میں ..حق سبحانی ھو ..حق کی زبان ہے یہ حق کی ترجمان ہے یہ آیت کاشان ہے دل میں مہمان ہے بندے بڑے انجان ہیں.شاید کوئی قربان ہے مگر رہتا انجان ہے ..کون مہربان ہے 
وہ کبریاء جاناں 
وہ شیریں شہد 
وہ میٹھا میوہ 
وہ گفتار حیرت 
وہ روشنی ہے 
ہاں روشنی ہے

پتوں سے پوچھو 
اشجار سے پوچھو 
انوار سے پوچھو 
کیا کیا پوچھو گے؟

کرسی ... لا الہ الا اللہ ھو الحیی القیوم 
یہ جلالِ وحدت ہے، یہی جمالِ شیریں ہے، یہ رسم سخاوت ہے، یہ دل کی عداوت ہے. یہ معاملے ہیں جب کہا گیا 
امروز میں کیا ہے 
کہا ترا جلوہ ہوگا 
فردا سے کیا لو گے 
کہا تو.ہی تو ہے 
من کنت ربی 
ہاں ہاں تو.ہی مرا سائیاں،  دل دیتا ہے دہائیاں 
صورت دیکھی مری؟
من آیتِ وجہ اللہ 
من رویت وجہ اللہ 
ھو رویتی؟  
حق اللہ 
اللہ واحد ہے!  اللہ عالی ہے اللہ عارفوں کی زمین کا آسمان ہے اور ہر عارف کی زمین کے آسمان عارف ہی ہیں. یہ ساری کہانی ہے ...لن ترانی سے من رانی کا.سفر ہے ..جسے دیکھا اسے دیکھا کہ مازاغ چشم سرمگیں محبوب کبریاء صلی اللہ.علیہ.والہ.وسلم کی ہے حق سے پایا وہ نشان ہے جس کے نشان ہیں ارض و سماں.


رازدان ہے وہ ... عرش کا رازدان ہے کہانی کا عنوان ہے، کہانی میں الہام ہے. طائر کو بوقت پرواز کہا گیا تھا کہ ید بیضا تھام لے. اس نے راستے طے کیے وہ جہاں جلوہ فرما تھا. وہ جگہ پانی میں تھی. پانی سے وضو کا طریقہ پوچھا تو جگہ نے کَہا،  راز ہے!  راز ہے!  راز ہے!  بات بات میں راز ہے اور راز میں بات پتے کی ہے، پتا بھی ہلتا ہے گواہی ہے اعمال کی اور شجر نیتوں کے وضو سے پروان چڑھا ہے. اندر بڑا پانی ہے،  یہ خیال میں اک سچ ہے اور سچ حق ہے اور حق رب ہے. رب ہم سب میں ہے مگر ہم سب رب میں نہیں ہاں اس سے ہیں. ہمارا ڈھانچہ خاکی،  ہماری روح نوری، ہماری فکر وجدانی،  کرو ذکر قرانی،  واقعہ ہے ہر اک سبحانی،  جذب آیت آیت ہے اور یہی روایت ہے. جذب اور جاذب بن،  جذب ہو پھر جاذب بن،  جذب ہو پھر جاذب بن 
یہ پتوں اشجار کی بولی ہے 
یہ چلمن سے اسرار کی بات 
یہ واللہ ہے اعتبار کی بات 

ترجمہ تفسیر قران اک ذات ہے،  ذات نقطہ ہے، نقطہ بحر ہے اور بحر سبحانی ہے،  سبحان کی نشانیاں ہیں رحمان کی وساطت جیسی کوئی مل جائے ریاست،  جب آنکھ چلی جائے تو منانا کیسا؟ جب ذکر پھیل جائے تو مرنا کیسا؟  جب جاودانی کا سفر ہو تو رکنا کیسا؟  جب انجیل تمنا پریشان کرے تو مایوس ہونا کیسا 

التباس میں حقیقت ہے اور طریق رہ حق التباس ہے جیسے جیسے ہم.شعور کی گہرائ میں اترتے ہیں ہم جان لیتے ہیں اس کی مملکت میں انسان کا ذکر نہ تھا اب ذکر ہے. انسان آپے آپ اپنا ذکر کر ریا او رب نے ذکر کرن نہ دیوے. کج تے کریا جانا چاہی دا

حمد

خوب اللہ کا  مجھ پہ یہ احسان ہے
شعر کہنے کو جو  پایا وجدان ہے

چوم  کے دل سے یہ نامِ ذیشان لوں 
جاں محمد پہ میری تو قربان ہے

بارگاہِ محمد میں ہے سر جھکا 
یہ ادب جو نبوت کا فیضان ہے

خادمِ پنجتن مثلِ ریحان ہوں 
واہ!  میری بھی کیا خوب پہچان ہے

مصرعے  نعت کے یوں اُترتے رہے 
یُوں لَگا دل  مرا شہ  کا مہمان ہے

 میرا نامہ بَنی خامہ فرسائی  ہے 
ذات کا نعت  گوئی وہ عرفان ہے

اسکی رحمت نے دامن نہ چھوڑا ہے
میں تو غافل مگر وہ تو رحمان ہے

منقبت

اللھم صلے علی محـــمـــــد وعــــلی آلہ واصحـــــابــــہ وســـــلم 

ہم کیا لکھیں سیاہی ہے درکار فاطمہ   رض 
سائے میں آپ کے ہو یہ اظہار فاطمہ رض 

تڑپائے یاد ان کی، کسی پل نہ چین ہے 
درکار بس مجھے تو ہے دیدارِ فاطمہ  رض 

پردے تمام ہٹنے لگے، خامہ چل پَڑا
بیٹھے ادب سے ہیں کہ ہے دربارِ فاطمہ

 اٹھتی نَہیں نگاہ اٹھاؤں بھی میں اگر 
میں ہوں زمین، مطلعِ انوار فاطمہ   رض 

انکی نگاہ میں جو بھی کوئی رہا کبھی 
دم دم نے تب صدا دی، ہیں سردار فاطمہ  رض 

عفّت رسول کی ہیں، علی کی وہ زوجہ ہیں 
حسنین نے بھی پایا ہے کردارِ فاطمہ   رض

قربان کربَلا میں ہوئی  آلِ فاطمہ
دیکھا زمانے نے یہ ہے کردارِ فاطمہ   رض

منقبت

الھم صلی علی محمد ---- 

کیا کہے نور، کیا ہےشان زھرا ؟ رض
جو زمان و مکاں کی آن زھرا   رض

دخترِ   مصطفی ، شہید ِ زمن   
جملہ کلمات کی ہیں شان زھرا  رض 

ناز قسمت کو ، نوکری یہ ملی 
میں کَہاں اور  کہاں بیان زھرا   رض 

بخت خفتہ بھی جاگے، تن من جب
 میں کَروں کربلا میں دان زھرا     رض 

نسبتِ فاطمہ مکمل  ہو 
دم دما دم میں ہو گمانِ زھرا  رض 

 میں صبا بن کے چوم لوں مرقد 
مجھ کو مل جائے گا نشانِ زھرا   رض 

آئنہ کائنات ان کا ہے 
جا بَجا نقش ہےنشانِ زھرا    رض 

 کاخ و کو میں مہک بَسی رہتی 
میرا دل ہے بَنا مکانِ زھرا     رض 

اب کوئی  بھی نگاہ میں ہے نَہیں 
رہتا ہر پل مرا دھیان زھرا      رض

دو ‏آنکھیں ‏

دو آنکھیں ---- وہ سرمئی مائل پرکشش آنکھیں،  جب بھی کوئی کام کرتا وہ آنکھیں اسکا تعاقب کرتیں. بچپن سے لے کے جوانی تک وہ ہرکام انہی آنکھوں کے اشارے سے کرتا آیا  .... کبھی کبھی اسکا دل چاہتا ان آنکھوں کو اپنی مرضی کے رنگ دے اور کینوس پے اتار دے یہ سب .... ایسا کرنے کو سوچتا مگر کاموں کے چکر میں بھول جاتا 

اک دن برش اُٹھایا اور بناتا چلا گیا ہر نقش و اشارہ، یہ استعارات جن کی وجہ سے وہ رستہ بھٹک نہیں پاتا تھا. وہ چاہتا تھا درون سے خارج میں اس سب کو نقش کرلے .....درون سے نکلنا آسان نہ تھا مگر دلجمعی سے یہ کام کرتا گیا .... 

جب اس نے آنکھیں کینوس پے منتقل کیں ..وہ کینوس پے دھڑک رہی تھیں مگر وہ آنکھیں دکھنا بند ہوگئیں ... دنیا اندھیر ہوگئی اسکی ... وہ پریشان رہنے لگا اور پھر ان آنکھوں سے جس دلجمعی سے بنایا تھا، اسی شدت سے  کینوس سے اکھاڑ پھینکا 

خدا پتا دے گا، پتا ہے جس کا لا پتا 
فنا سے قبل، فنا کا کہنا جرم ہے کڑا 

اندھا ہوگیا وہ ---- اسکی آنکھیں چھن گئیں، مثلِ یعقوب وہ اپنے یوسف کو رویا بُہت .... سجدے ٹکر بنتے گئے، رکوع میں نیاز مندی مگر رہی .. ---- تہجد کو اٹھنے لگا،  گڑگڑانے لگا،  مگر اشک تو جیسے بہنے کا صلہ نہ دیں اور آنکھیں بھی اندھی نہ ہوں 

نہ وہ دکھے، جو دکھتا پہلے چار سو تھا 
وہ رنگ و بو کا نظارا پہلے کو بہ کو تھا 
نگر نگر بکھر گئے یہ خاک دل کا ذرہ ذرہ 
خودی کے جام پی کے نظارہ طور ہوا تھا 

دعا سے سراپا دعا بن گیا، التجا والا دل مجسم تھا، اسکا وجود اشک ریز ..توانائی جاتی رہی جیسی رمق زندگی کا نہ رہے مگر کام عشق کار مستقل ہے ....! وہ سجدے والا سر،  بسجدہ رہنے لگا ... میکدہ مگر خالی ... اک دن روشنی ہوئی مگر عجب طرز لیے،  عجب بو لیے. دیواریں شفاف ہوگئیں راستے سمٹ گئے ..دیوار کے پار آنکھ والا دکھنے لگ گیا ... وہ وہیں پے مرگیا ---- مرنے سے پہلے مرگیا تھا وہ

نوری ‏محفل ‏سجی ‏ہے ‏غار ‏حرا ‏میں "***

نوری محفل سجی ہے غارِ حرا میں 
مۓ شہادت  جو پی ہے غارِ حرا میں
جلوہ  تیرا  دکھے  ہر سو   کہ سعادت
دید کی ضو پائی تھی غارِ حرا میں 
کوچہ کوچہ یہ صدا  دے  یا  "محمد "
ہر طلب  مٹ چکی ہے غارِ حرا میں

مٹ گئی تیرگی ، سرمایہِ زیست بس یہی ہے دیوانگی کو پی لیجیے ! زندگی کو جینے کا ڈھنگ سیکھ لیجیے ! ڈھنگ ہے کہ رنگ ہے ، رنگ ہے کہ  سنگ ہے ، سنگ ہے تو درِ جاناں کا ، خاک بن کے اڑوں جاناں کے قدموں سے ، نازاں ہوجاؤں اپنی قسمت پر ، جاناں کا جلوہ کب دکھے گا ، جاناں کب دکھے گا؟ اپنی قسمت پر ناز ہوگا جب ناز دائمی ہوگا ، جلوہ جب دائمی ہوگا ، کہ جمالِ نبی ﷺ کے جمال کی حد کہاں ، کہیں  ایسا نہ ہو کہ تجلیات آئنہ توڑ نہ دیں ، یہ جو جمال ہے کب ٹوٹنے دے گا ، لطافت لحجا دے گی ، جمال لٹ جائے گا باقی کیا بچے گا؟ عکس سے مینارہِ دل ، مینارہِ دل سے طور تک ، طور سے نور تک عکس مصطفی ﷺ ۔۔۔۔ جینے کا مقصد بس ایک ہے ، جو ملا ہے وہ دیے جا ! جو ملا ہے وہ دیے جا ! ملے گا اور۔۔۔۔ یہ نگینے سُرخ سُرخ ، یہ وصل کی  مۓ درکار ہے

نجف کا سرمہ لیے بنا کیسے آنا ہوا؟  الا اللہ  کا اثبات ہوا ؟ دید کیسے ہو؟ دل پر خواہشات کا جال مٹا کیا؟ فنا کو بقا ملی کیا؟ زندگی کو موت ملی کیا؟ رات کیا صبح میں ڈھلی کیا؟ نہیں ؟ تو جلنا مقدر ٹھہرا ! مقدر میں جل کے بکھرنا برا ہے کیا؟  ذرہ بکھرتا ہے تو گلنار ہوتا ہے

ہم تو جمالِ نبی ﷺ پر مٹے ، ہم تو کمالِ نبی ﷺ کو پا نہ سکے ! جمال میں ڈوبیں یا کمال کو پائیں؟ کمال ، جمال سے پرے جلال دکھے ۔۔۔ جلال ایسا کہ دکھے بھی نا ! یہ بھول بھلیاں جن میں راہی کھو جائے مگر کھوئے بھی نہ ! مل گیا ہمیں جاناں کا راز ، جاناں کا جلوہ کائنات کے دل میں ہے ، جاناں کا جلوہ شہ رگ میں ہے ، جاناں کی تجلی بوقت کن ملی ، جاناں کی تجلی ایسے جیسے الم ۔۔۔ اللہ نے لوح میں  محمد ﷺ کی تجلی رکھ دی ۔۔۔ 

درود  یا سیدی ﷺ سلام یا سیدی ﷺ

سر جھکا ! آنکھ پھر اٹھی نہ مقامِ ادب 

انظرنا کی خواہش ۔۔۔ مقامِ ادب 

جاناں کی مسکراہٹ پر لاکھوں سلام 

اے کاش کہ آنکھ نہ اٹھے ، اٹھے تو سر کٹے ، سر کٹے تو ذرہ ذرہ جلوہِ جاناں لیے ہوئے ہو ۔۔۔ کٹنا کیا ہو ؟ کٹنا کہ مرنا ۔۔۔ مرنا بہتر یوں کہ جینا ہو ، ذات میں رہ کے ذات کی نفی ۔۔ لا الہ الااللہ ۔۔۔ محمد ﷺ کی دید کے بنا کیسے مل پائے ۔۔۔ اے طہٰ آپ پر ان گنت درود

من ‏کی ‏پریت

من کی پَریت میں دیپ ہیں. ان دیپوں میں دُھواں مثالی ہے. میں جو سچ میں اُن  پر فدا ...میرے ہاتھ میں رہن رکھا سوال ... کپکپاہٹ طاری ہے گویا کہ رگ رگ میں ساز وحی جاری ہے. سورج رعنائیاں لیے جا بجا مجلی اور مجنوں کا لیلی ہوجانا کمال کا قصہ ہے. جب میں نے پوچھا تھا کہ شاہ کون؟ تو پتا کیا جواب دیا؟

شاہ فقیر ہے ...
شاہ عشق ہے ... 
شاہ رہبر ہے .. 
شاہ تمثیل ہے .... 

میں نے شاہ عشق سے پوچھا کہ شمس کیوں اتنا جلتا ہے،  تابناکی کی کرن کرن میں مجنوں کا جلوہ ہے، انعکاس عجیب ہے... منعکس لہروں میں ارتعاش ہے ...مجھ میں باقی نہیں کوئی کہ سر طور ہادی نہیں کون. یہ اکھیوں کے جھروکوں سے ملنے کی بات نہیں ہے. یہ تو سرحدوں کے فسانے ہیں. شان دیکھیے کہ قران جس رات کو اترا وہ لیل بھی فضیلت والی تھی، میں شاید وہی رات ہوں جس میں ترتیل ہورہی ہین آیات...دل کہ دل میں اتری تمجید ... تمجید نے کہا کہ رک شمس حقایت... ٹھہر جا رک جا ..ورنہ بازی گر کا تماشا رہ جائے گا اور تو چلا جائے گا ...میں نے کہا کہ تماشا تو چل رہا ہے، اب تو شہتیر نکلنا باقی ہے،  زخم کے نشان کیا ختم.ہوں گے باقی؟  اس نے کہا اسکو نہیں جانے دیتے جو جان لے راز ...کچھ مزید تیروں سے نوازا جاتا ہے اور یہی حصہ کہ یاداشت کھو جاتی ہے جب جدائی میں تو رہ جاتا بس عشق ہے ...میں ہی تو ازل کا.عشق ہوں ..میں ہی تو دائمی نغمہ ہوں ..سندھ کے  مضافات جا ..وہاں اک اللہ والی ہے، جا اسکو سلام کر ...وہ سلام پیش حضور کر تاکہ تجھ کو خرد کی گھتیوں سے فرصت مل جائے 
.جنون میں لذت مل سکے،  ہجر میں کمال مل سکے،  وصال کے جلال میں راستے مل سکیں ...

"رہ جائے گا تو، تو چل ...میں کتھے جانا؟  تو ہی تو،  تے چل نال نال 
.چھیتی آ... جان سولی وانگڑ لٹکی ... میرے لوں لوں دی دہائی اے ...

میں تو نس نس دا کلمہ ہے 
ایہی تے روگ میرا 
ایہی تے جوگ میرا 
رنگ تے غنا دی چادر 
رنگ تے جفا دی چادر 
ریشمی رومال لے تے لنگ جا 
ریشم دے لچھ کچھ درود وانگر 
تو ہتھ لا،  تو لنگ جا .. 
ریشم چنگا پے تینوں ریشم نہ کردیوے 
فر تو نہ جانڑے کہ ریشمی رومال کیہڑا ہے 
اے میڈا راز ہے،  تو جان لیا،  تو مان لیا

شہید

قران کریم کلام اِلہی ہے، الہیات کا مجموعہ ہے. یہ الہیات زندہ شخصیات،  زندہ اشیاء، کونین کے نظام کی تنظیم کرنے والی شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے ...

سورة البقرة, آیات: ۱۱۹

إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْـَٔلُ عَنْ أَصْحَٰبِ ٱلْجَحِيمِ

(اے محمدﷺ) ہم نے تم کو سچائی کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اہل دوزخ کے بارے میں تم سے کچھ پرسش نہیں ہوگی

یہ نشانیاں ہیں نوید کی اور ڈر و خوف کی .. ایمان حُبِ رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بنا مکمل نہیں ہے. جب ہمیں محبت کی بشارت ملتی ہے تو دل سرشار ہوجاتے ہیں، جب ہمیں ناراضگی سے خوف آتا ہے تو ڈر کے مارے دبک جاتے ہیں ...ہمارے رسولِ محتشم پاک مجمل منور محسن صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غصہ تو کیا نہیں تھا مگر جس دل کو نوید ملی اس نے ان کو دیکھ لیا اور جس کو نہ ملی وہ بو جہل ہوگیا. نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دیدار بنا ممکن نہیں کچھ. جس دل نے نعت کہی، جس دل نے درود پڑھا، جس دل نے نمی محسوس کی ان کے نام مبارک سے صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو اس نے گویا ان کو پالیا کہ وہ ہمیں دیتے ہیں،  ان کا دینا دیدار ہے جبکہ ہمارا کچھ نہیں گیا نقصان!  اس نقصان کی قسم کھاتے اللہ نے فرمایا والعصر ... اللہ نے تو جگہ جگہ محبوب کی قسم کھائی ہے .
.درود کا ذکر ہو صبح و شام،  
رہو ان کی فکر میں صبح و شام 

سورة البقرة, آیات: ۱۵۴

وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَن يُقْتَلُ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمْوَٰتٌۢ بَلْ أَحْيَآءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے

 شہید زندہ ہوتا.ہے اور رہے گا تاابد تو انبیاء رتبے میں کئی گنہ زیادہ. انبیاء کی مثال "احسن التقویم " کی سی ہے کہ زمانے کی اکمل و کامل مثال وہ خدا کی شہادت دیتے ہیں کہ ان کے وجود عشق الہی میں شہید ہوچکے ہوتے ہیں .. اس لیے یہ دنیا و سماوات ان زندہ قائم مثالوں سے چل رہا ہے 

تو نورِ سماوی تو نور زمانی 
نبی سارے ترے نوری نشانی 
محمد میں تیری.ہے صورت مکمل 
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل

جب سب کچھ یہیں اس دنیا میں ہے تو الہیات کا سلسلہ جاری و ساری ہے. ...

حی ‏علی ‏الفلاح ***

احساس کے قلمدان سے نکلے لفظ جب نکلتے ہیں تب تلاطم برپا ہوجاتے ہیں ۔ روشنی کا سفر شُروع ہوجاتا ہے اور احساس کچھ یوں قرطاس پر تحریر ہوتا ہے

''وہ جو عشق کی لو بڑھا دی گئی ہے،دل میں تمجید بڑھا دی گئی ہے، خشیت وضو کرا گئی ہے ،طائر کو پرواز دی گئی ہے ،روشنی قندیل (دل) کا حسن بڑھائے اور شُکر کا کلمہ ادا نہ ہو ، بھلا کیوں ؟''

احساس سے نکلے لفظ جب تحریر ہوتے ہیں ، سوال سامنے ہوتا ہے اور جواب کی تلاش کی جاتی ہے، شکر کا اگر کہا جائے تو شکر لازم اور بندہ خود کلامی کرتا ہے

شاکر پڑھ کلمہِ لا : سبحان اللہ

شاکر پڑھ کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

شاکر پڑھ کلمہِ عشق:

أَشْهَدُ أنْ لا إلَٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

یہ عشق مثلِ توحید اخلاصِ عمل ،یہ عشق مثلِ بحرِ موج  طغیان مشتاق ،یہ عشق علائق سے جان چھڑانے کو،یہ عشق تیز ہوا میں لے جائے،تندِ باد سے کون گھبرائے اب،وہی گرائے جو اٹھائے بار بار،بالآخر عشق کہے :

عشق تو ہی اندر ،میں کون؟عشق رونما ،جلوہ نما ، دنیا کہاں؟۔عشق جنم در جنم کھیل کی پوٹلی سے نکلا دھاگہ،عشق داستان ہے کٹھ پتلیوں کی ،عشق بے کلی میں گامزن اوج کا سفر ہے ،عشق شہادتوں کا سلسلہ ہے ، یہ امامت کا رتبہ ہے ،سعادت کا کلمہ ہے ، شجاعت کا پیکر ہے تیغ زن ہادی ہے۔سیدنا اما حسینؑ عشق کی ان تمام باتوں پر پورا اترتے ہیں ،عشق کی آذان دی اور بُلایا

شاکر پڑھ کلمہِ عشق:

أَشْهَدُ أنْ لا إلَٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأشْهَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو فلاح کی طرف : فلاح محبت سے ہے ، محبت عبادت ہے

سیدنا امام حسین کی پیروی ہر مسلمان و مومن پر جائز ہے ، ان کی دی گئی قربانی فلاح کی ترویج کے لیے تھی ، عشق کے موذن نے کیا خوب آذان دی ۔ اس آذان میں عشق جب چاہا وار کیا  ...  یہ  نماز ایسی ہے کہ نمازِ عشق میں عاشق لہو لہان ہوجائے اور جب چاہے علاج کرے  یا طبیب جی مرضی کے بے بس چھوڑ دے ! اسکے مریض   عُشاق ہیں !    عشق ستم نوک سناں دیتا ہے،  پیدا ہوتے ہجر کا جہاں دیتا ہے!   بعدء امر  عاشق کا رواِں رواں فغاں کرتا ہے!  ضرب العشق سے موت کو ہجر کا آسمان دیتا ہے. نشاط ہست کا مثردہ ہے  عشق! عشق کو جو بیان کریں، نہ کر پائیں!  جواسکو کر سکیں،ان سے ہو نہ پائے، جو ان سے ادا ہو عشق  ،تو بیان ہو جائے ... سیدنا امام حسینؑ عالی مقام نے کیا خوب عشق ادا کیا ہے، عشق  فریضہ حج کی نمازِ قربانی ہے. تسلیم جس کا وضو ..رضا اس  کی نیت ہے ...

٭٭٭٭

شاکر پڑھ کلمہِ لا : سبحان اللہ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

اے زندگی!  بدل جا مٹ جا!  اے زندگی!  حقایت ہو جا!  داستان ہو جا!  اے موجِ نفسِ ذات ہماری ہوجا!!  تیرے لیے بنایا جہاں!  ہمارے لیے جہاں کی ہو جا!

تو ساز عشق ہے ... تو صلیبِ وفا ہے!  تو مریضِ دعا ہے، تو نم مٹی کی التجا ہے!  تو میری حیا ہے!

اے مٹی!  مٹی ہو،  مٹی بن،  مٹی رہ،  مٹی سے رل،  مٹی کھا،  مٹی اوڑھ ...

''اوڑھ لی تیری چادر ساقی!  اوڑھ لی ... تیری نظر میں ہم ہیں!  گھائل نہ کیجیو!  ہم تو اب مانگے رے حجاب! ''

نہ کر بندیے تیری میری!!  ہو جا تو اب فقط میری ...

''شرمندہِ خواب کی مانند رسوا نہیں ہم!

ہم وہ جو چاہیں تجھے عمر بھر!''

احساس عاشق کو توانا کرتا ہے!  لباس مجاز میں حقیقت کی اوڑھنی پہناتا ہے ،  چاہت کا نغمہ سنانا عاشق کا کام!  عاشق تیرا اور کیا کام؟  چل لے میرا نام،  ہے مردود بس شیطان،  لے میرا نام،  ملے تجھے انعام ہوگا تجھ پرہوھا اکرام،  بارش یہ نہیں عام،  مٹ جانا تیرا کام، باقی رہے گا میرا نام!  آجا !  آجا میرے کول!   عاشق ہو جا میرا!  کیوں ہے یہ دوری!

عاشق :میں تیراں آں مولا!    میرا مرشد سائیں توں،  ہادی سچا توں،  میرا عشق وی توں،  پیامبر وی توں،  میری ذات نوں شمع مثل کیتا توں،  میرا کی کام مولا،  لواں گا بس تیرا نام!

صبوح!  قدوس!

الرحمان!  الرحیم!  الروف!   الماجد!  الرافع!  المقیم!  المغنی!  المقسط!  الحئی القیوم!

یہ ترا رنگ ہے جلال کا  یا کہ کمال میں چھپے بے شمار خزانے!  یہ خرانے علم کے ...یہ جواہرات اسماء القدیم!  یہ منقش کرسیوں پر آیتیں!  یہ دل کی سنگتوں میں حق  ھو کی واجیں!  یہ تری ،مری کہانی!  حق تیرا عاشق  جہاں جہاں گیا،  نہ ملا تو ،تو ملا کیا؟  ملا تو، رہا کیا؟  رہا کچھ نہیں ،تو تماشا کیا؟  تماشا بزمِ توحید کا سجاتے ہو!  ہر آیت وحدت کی بتاتے ہو!  جلاتے ہو!  بجھاتے ہو!  ہائے!  اتنا جلا دو کہ ہوش نہ رہے!  جلا کے کیجیو بے ہوش!  کہیو نا ہمیں!  کہاں کہاں نہیں ہم!  یہ کرسی!  یہ فلک!  یہ عرش!  یہ نکہتِ زیبائش سے گل رنگ مصفطوی نور جس سے چمکے لوح مبین!  دمک اٹھی زمین!  نوریوں نے کہا!

٭٭٭٭٭

پڑھو: کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

  نور مجلی آیا!  چھپ جاؤ!  حجاب لے لو،  بے نقاب آیا!  جھکتے کیا !!!  گر گئے سارے!  تسبیح رک گئی!  تھم گئی کہانی!  سکتہِ حیرت کو سو سال سنائے گئے کہ سکتہِ وصل کی بوندوں سے ترسائے گئے!  سکتہِ جذب میں مٹی کیا گیا!  سکتہ جمال نے ہوش دے دیے! مجذوب کردیا!  کمال ہوگیا!  نوریوں کو ہوش آگیا، دم میں دم آگیا. جبین اٹھ گئی ،سر نیاز میں گیا،  رات کٹ گئی وصل میں،  صبح کا اعجاز گیا،  شام ہجران کو بدلا الفتِ کی بدلیوں نے رات کی ماہتابی میں، چاندنی میں!  مسکرا کے قمر نے آنکھ موند لی!  چمک اٹھا سورج!  لوح مبارک چمک اٹھی!  اشک زار زار! پوچھو میرا حال!  کمال!  کمال!  کمال!  حال!  حال!  حال!  بے حال جاناں ہیں ،کیا سنائیں۔۔۔؟ ...قصہِ مختصر رگوں کا سکون چھن گیا،  طنابیں کھینچ لی گئیں اور سورج کو سجدہِ شکر ہوا!  سجدہ شکر!                

شاکر پڑھ کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

دل اچ واجاں درود دیاں آندی نیں!  دل وچ ہادیؐ، مرسلؐ سچا عشق سائیں!  دل وچ طٰہؐ سچا مسیحا ؐتوئی!  دل وچ طبیبؐ تے حبیب ؐاے! یہ نصیب کی بات ہے ، کرم کے فیصلے ، جسے چاہا اپنا بنالیا ، جسے چاہا اپنا بنا لیا ! جسے چاہا محفل میں بلا لیا ،

یا نبی سلام علیک ، یا رسول سلام علیک ، یا حبیب سلام علیک

سارے پڑھو درود ، صلی علی حبیبِ ناز ، صلی علی محمد ؐ

٭٭٭٭٭

شاکر پڑھ کلمہِ لا : سبحان اللہ

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

تیری بزم میں سر جھکائے کھڑے ہیں ، ادب سے جھکی گردن ہے ، دل کہ ستم سے بیحال ! مت پوچھو کیا ہے دل کا حال ! بعد وصال فراق کا موسم نہ ہو ، بہار ہے ، سدا بہار رہے !

یہ رنگ جو کائنات میں بکھرے ہیں ، یہ سارے میرے رنگ ہیں ! میں ہی دکھ دیتا ہوں ،میں ہی طبیب ہوں

صدا سنتے ہی عشق جو مودب کھڑا  ، سدھ بدھ کھو دیتا ہے

توں اندر،  باہر توں!

توں متوف،  مطاف وی توں

تو حاجی تیں،  کعبہ وی توں

توں معبود تے ،عبد اچ توں

تو'' لا ''دی مٹی اچ وسیا نور

''الا اللہ'' کہیے تو مارے'' اللہ ھو'' دی تار!

ھو !  سبحان ھو!   صبوح قدوس!  صبوح قدوس!

حق رحمانی ھو!  اللہ والی تار وجی!

  مرشد ترا کون؟  عشق!

    ہادی کون؟  عشق؟

    خالق کون؟  عشق

  مخلوق اچ کون؟  عشق

عشق کتھے کتھے،  چارے جاواں، چار چفیرے،  مٹ گئے سارے ہنیرے!

حی الفلاح!  حی الفلاح!

  آذان سنا دی گئی!   فلاح کی بات کر دی گئی! آذان عشق کی، نماز عشق کی، تسبیح عشق کی، قربانی عشق دی .... نعمتیں مکمل! جب سب مکمل ہو جائے تو ربِ تعالیٰ فرماتا ہے

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

رب کی رضا ہوجاتی ہے ، جب زندگی اسکے دیے گئے طریقے کے مطابق بسر ہوجاتی ہے ، جب طاعت مکمل ہوتی ہے تب اسکی نعمتیں بھی مکمل ہوجاتی ہیں ، وہی والی ہوجاتا ہے عبد الولی کا !  یہ نعمتیں کس پر مکمل ہوئیں ؟ سیدنا امامِ عالی  نبی محتسمؐ پر ، جن کے بارے رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ

لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾

                 

شاکر پڑھ کلمہِ توصیف:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے

حی الفلاح : آو ، فلاح کی طرف ، آؤ محبت کی تقسیم کریں ، محبت ایک عبادت ہے

اے عشق، دیار عشق چل!

اے دیار عشق!  نبیؐ کے در چل!

اے دل تھم جا!  رک جا!  یہ نبیؐ کا در ہے!  اے دل مٹ ہی جا! نصیب بن جائے گا!  رک جا!  مر جا!

ہم مرنے نہیں دیتے!  ہوش والوں کے ذمے بہت سے کام ہیں!  یہاں دیوانگی سر عام نہیں!  عشق منبر کا کلام نہیں!  یہ تلوار نیام میں نہیں! ...

سیدی!  مرشدی!  یا نبی!  یا نبی!

سارے پڑھو درود سرکار آگئے!  سارے پڑھو سلام سرکار آگئے!

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ٭اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ

كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔

محفل مقدس میں حاضری کا مقدر ہے ،  آپ کی غلام ہوں ،  آپ کی سگ ہوں !  آقا!  لے لو سلام!  مرا آقا!  سلام لے لو !  اے ہادی!  اے یسینؐ!  اے طٰؐہ!  اے شوق کے آئنے میں براجمان تجلی ..... آپ کی عنایات نے  دل بھر دیا ہے !  شکر کیسے ہوا ادا!!!

آقا!   قدموں میں جگہ دے دیجیے!  آقا!  آقا یہ دل اپنی پناہ میں لے لیں... !  اے میرے یحیی! اے میرے عیسی! اے مرے موسی!  اے مرے ہادی ...! ن... اس دل  کو پاس رکھ لو اپنے آقا. یہ دل  آپ کا دیکھتا رہے گا تبھی سکون میں رہے گا!  مجھے در پر پڑا رہنے دو!   آپؐ کو کتنے عزیز تھے سیدنا بلال رضی تعالیٰ عنہ،  سیدنا زید رضی تعالیٰ عنہ  ... ان کے پیار کے صدقے مجھ پہ کرم کر دو نا آقا !  آقا لے لو سلام!

ایسا نہ ہو کہ دم گھٹ کے مر جاؤں، ایسا نہ ہو کہ آقا ہچکیاں  لیتے لیتے مرجاؤں ...اس دنیا سے ہر رشتہ جھوٹا ، سب سچے رشتے عشق کے  دل میں آپؐ کا خیال ہے آقاؐ ... دل نم ہے آقاؐ!  اشکوِں کے ردھم کی مالا نے سانسوں کو ضوفشانی بخشی ہے. طغیانی  میں  خاموش!  خاموش!  با ادب!

حسن کو نوازش کی انتہا سے ہماری محفل میں جگہ مل چکی ہے ...

وہ مبارک چہرہ مسکرائی جائے!  مسکراہٹ دلنشین ... اک اک ادا پہ قربان آقا!   .. شاہا!  آپ کے دندان مبارک سے جو روشنی نکلتی ہے مجھ میں  اس کی تاب نہیں!  مگر پھر بھی جلوے کو بے تاب  کہ  آرزو مکمل ہوجائے، تصویر مکمل ہو ،زندگی رہے بے شک ادھوری ... شاہا آپؐ کے  دندان مبارک سے غار حرا کے دیواریں تک روشن ہیں، جب سرکار دکھیں گے دل مدینہ ہو گا  کہ مکہ!  دل سر زمین حجاز ہے. عشق کا یہ اعجاز ہے

مکالمہ

اُس نے کہا رک جا 
میں نے کہا بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں 
اس نے کہا دیکھنے کو تاب ہے 
میں نے کہا احساس پاس نہیں ہے 
اس نے کہا خیال میں کون ہے 
میں نے کہا کہ خیال ہے ہی نہیں 
اس نے کہا کہ یہ تو ویرانہ ہے 
میں نے کہا نہیں ترا کاشانہ ہے 
اس نے کہا کہ شام محفل ہے 
میں نے کہا کہ  شمع کا رخ کدھر یے 
اس نے کہا فثم وجہ اللہ 
میں نے کہا مغرب میں مشرق کو اور مشرق میں مغرب کا امتیاز کیسے؟
اس نے کہا اضداد پہچان کا سفر ہے 
میں نے کہا سکھا دے جو کہ نہیں جانتا یہ دل 
اس نے کہا کہ راہی خود جاننے لگ جاتا ہے 
میں نے کہا کہ جذب آہنگ سے نواز دے

رگ ‏دل

رگ دل سے رگ باطل تک اک سماں بنتا ہے 

لا الہ سے الا اللہ 
اللہ سے ھو کا 
ھو سے واؤ کے چشمے کا 
واؤ سے ح تلک بھی سفر ہے 

منظر سارے حسین کے ہیں 
منظر میں حسین ہیں(رضی تعالی عنہ)
نوید آگہی میں وجدان کی تڑپ ہے 
وہ وہ کہتے کہتے میں میں ہوجاتی ہے 
میں تو مرجاتی ہے، یہ میں کونسی ہے؟
بس اللہ اللہ ہوتا ہے

نعت

وَرَ فعنا لَکَ ذکرک 

تری بات سے ذکر سب پس دیوار ہوئے 
چلے سب قافلہ ء عشق میں سالار ہوئے 
ترا نوری ہالہ گنبدِ جسم میں معجزن 
طٰہ کی باتوں میں رنگ بو برگ و سمن 
شام کی لطافتوں کا حال، گھنیری زلف 
حسن ازلی کے نشان لاپتا کو مت پوچھ 
ردائے نور میں ادب سے سر بسجود ہوئے 
میخانہ کہاں،  ساقی کدھر؟  میخوار کون؟
یہ درز درز وا ہوئے، اندھیرے دور ہوئے 
کالی کملی والے کی شان میں لب وا ہوئے
یہ بدلی رحمت کی، یہ برکھا اور بہاراں 
مرگ نسیاں زیست کو کافی، نہ اور پوچھ

نعت

اک نعت میں نے لکھی ہوتی، وہ پھر کہی ہوتی،
میں نہ سوتی،  جو سوتی تو، دید ہو جاتی 
روئے ہم ہزار بار کہ یاد میں ہوئے ٹکرے ہزار 
جو چپ ہوئے تو جگر پر خنجر چلے بار بار 
اک دید تو کمی ہے،میرے پیار میں ہی کمی ہے 
آپکی رحمت کے بادلوں میں چادر نور کی تنی ہے 
میری بنی تو آپ سے ہے  لو لگی تو آپ سے ہے 
میں پاس کیا نہیں بس رات میں چاند کی کمی ہے 
آپ کے قدم،  میرا رہے سر،  یہ اٹھے نہ کبھی 
میری زندگی آپ کے آستان سے تو بنی ہے

افق

یہ افق کے ماتھے پہ جو رنگ ہیں ، وہ کس کے ماتھے کا وہ ٹیکا ہے ؟جس سے سات رنگ نکل رہے ہیں اور جگ سمجھے کہ قزح پھیلے!

مار ڈالا،
سرگوشی نے،
اسکے رنگ نے، 
اسکی صدا نے،
میٹھے سرگم بے،
دھیمے سُر نے، .

رنگ

آج رنگ کی محفل میں راگھا نے دیپک کے گیت چرا لیے،  دیپک نے جگنو پکڑ لیے اور شام گزار دی،  رات میں فراق نے پکڑا تھا کہ راگھا کے رقص نے زندگی دے دی  .... زندگی کے پل ❤ مگر تیر پیوست ہوگیا دل میں 💘 راگھا کون تھی؟  دیپک؟  بگھوان؟  کیا؟

رات

رات کی ہتھیلی پہ چاند!
دن کے آنگن میں سورج. 
اے مرے من نگر میں رہنے والے دیپ 
تم دونوں سے منسوب ہوئے 
گویا کہ تم خوب ہوئے

نعت

تری یاد میں دلِ حزین کا قرار لُٹا 
دید میں ہو کے گُم، باڑہ نور کا بنٹا 
ماہ لقا!  مہرِ رسالت،  تمثیل یزداں 
دل میں نہیں کوئ بس تو پنہاں 
یہ جو ہم ہار گئے، تیر دل کے پار گئے 
جو جان سے گزر گئے ترے در بیٹھ گئے 
سچ پایا سب نے روئے شہِ ابرار کے پاس 
گنوا دیے دل جو گئے شافعی امم کے پاس 
رات سلونی،  شام خنجر، انتظار لذت 
منتظر ہیں وار پہ وار کہ ہیں یار ساتھ 
اے ختم الرسل،  ہادی برحق، سالار امم 
دیکھیے مجھےآنکھ میں نم،  دل میں غم

حسین ‏ابن ‏علی

حسین ابن علی کو سلام پیش کر رہی ہے صبا. باوضو دل کی صدا کہ ڈالی ہے حیا کی ردا. یہ باوضو دل سے نکلا ہے کہ.
نفس نفس میں ہے نورِ زہرا 
جمال یار کی لڑی نور زہرا 
فسانہ دل کہوں کیسے میں 
کہ روبرو ہے یہی نور زہرا 

حسین زندگی کی نشانی ہے 
حیات نو کی اجلی کہانی ہے 
حسین کی سرخی ہے شاہی 
شاہ کا غلام ہے ایک سپاہی 

مکتب!  دل مکتب!  حرف جامع!  لفظ شیریں!  بیان ہند!  یہ اجمیر کا پرند! رکھ دل کے پاس نذرانہ ء حجاز. مجاز؟ مجاز نہیں ہے یہ اک کھائی ہے چلی جس میں لڑائی ہے. کیوں آنکھ بھر آئی ہے؟  شہر دل سے ہو کے آئی.

ختم!  راز ختم!  اب کہ اختتام لفظ ہے!  اب کہ اختتام حرف ہے!  یہی ابتدا ہے جو منتہی ہے!  یہ ازل کا رستہ ابد کے چراغ سے ہے. یہ منزل سحر نوگاہی شمشیرحسینی سے ہے. یہ نور حسینی کمال کے خرانے لیے ہے. نورحسینی سے خلافت درجہ بہ درجہ، کمال بہ کمال،  حال بہ حال،  جلال بہ جلال،  انفعال بہ فعل چلی آرہی ہے.. حسین زندہ باد!  
.یقین کا مرگ یزیدیت! سرمدی استقلات حسینیت!  رہے قدم قدم پہ برا حال کہ شاہ اجمیر خود حسینی ہیں ...رنگ سے چلی حنا!  حنا بن صبا کے نہیں!  شن عروس کو لباس سرخ سے ملال ہجر کے دن کٹن آون!


کچا ‏دھاگہ

کچا دھاگہ نہیں ہے ہوتا جس پہ بسمل چلتا ہے. نیچے آگ ہوتی ہے اور تار لہو چاٹتی ہے. رنگ اڑ جاتا ہے،  ذات بکھر جاتی ہے مگر ذات بکھر جائے تو غم کیا کہ ذات کا اصلی شعور باقی ہے یہی حاصل شعور ہے مگر بات بین السطور ہے کہ عشق محجور ہے. سرزمین دل طواف میں کہ قبلہ دل پہ لکھا گیا ہے اللہ ھو یا محمد چار یار زندہ باد. سلامت پیر باشد یا حسین خلافت زندہ باد.  یہیں سے تو چل رہا ہے سرمہ ء ہستی کا وصال دل سے قرار. یہیں سے تو ہے رنگ چمن میں نکھار. یہیں سے تو ہے شام حنا میں غزل کا اقرار، یہیں سے تو ہے آہ کا خاموشی سے گزر بسر، یہیں سے تو ہے نالہ دل فگار کو قرار، یہیں سے تو ہے زخم جگر کو دل سے ملال کہ نہ پاس ہے قریب نہیں. وہ کیسا حبیب ہے جس میں ذات بنی رقیب کہ یہ عشق نصیب ہے. یہ جان جلاتا ہے تو کہتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر نہ کرے یہ کیسا پیار ہے

کتاب

شاہ ‏بغداد

دل،  اک سرزمین ہے،  یہ زمین بلندی پر ہے. زمن نے گواہ بَنایا ہے اور ساتھ ہوں کہکشاؤں کے. سربسر صبا کے جھونکے لطافت ابدی کا چولا ہو جیسا. ازل کا چراغ قید ہے. یہ قدامت کا نور وہبی وسعت کے لحاط سے جامع منظر پیش کرتا ہے. کرسی حی قیوم نے قیدی کو اپنی جانب کشش کر رکھا ہے  وحدت کے سرخ رنگ نے جذب کیے ہوئے جہانوں کو چھو دیا ہے. شام و فلسطین میں راوی بہت ہیں اور جلال بھی وہیں پنہاں ہے.  دل بغداد کی زمین بنا ہے سفر حجاز میں پرواز پر مائل ہوا چاہے گا تو راقم لکھے گا کہ سفر بغداد کا یہ باب سنہرا ہے جس میں شاہ جیلان نے عمامہ باندھا ہوگا اور لفظِ حیات پکڑا تھمایا ہوگا. وہ لفظ حیات کا عقدہ کوئی جان نہیں پائے گا . بس یہ موسویت چراغ کو عیسویت کی قندیل سے روشنی نور محمدہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل رہی. وہ بابرکت مجلی زیتون کا درخت جس کے ہر پتے کا رنگ جدا ہے مگر درخت نے سب پتوں کو نمو دیے جانے کس نگر کا سفر کرادیا ہے. داستان گو نے کہا ہے کہ انمول خزینے ہوتے ہیں جہاں نورانی مصحف شاہ جیلاں اتارتے ہیں اور کہنے والے کہتے پیرا سچا بغداد ساڈا.  اودھی دستار دے رنگ وی وکھو وکھ. اوہی سچے دا سچا سچ

شاہ بغداد قطبِ اولیاء 
شاہ جیلاں امامِ زمن 
شاہ سے بنٹا نوری باڑا 
اسمِ محمد کا ہے اجالا 
ذات کے گرد نوری ہالا.
دل کہے جائے شہ والا 
دل پہ ہے مکڑی کا جالا 
کاتب نے اسے ہٹا ڈالا 
رنگ بڑا سبز سبز ہے 
سرمئی روشنی پھیلی 
 
تار عنکبوت اتار دو. وقت ہے دعا کا اور نزع کے وقت مقبول دعا حج ہے.  حج شروع.  حج ختم. حج مطاف دل میں،  حج غلاف کعبہ کے اندر،  سوچ کعبے کو طواف کر اور پیش کرے سلام


Monday, February 22, 2021

شبنم

۔ لکھتے ہوئے شبنم نے گھاس پر گرنا شُروع کیا ہے ۔ کاش سبزہ بھی اس شبنم کے گرنے کو نہیں بچا سکتا ہے کہ شبنم کے لیے بہترین جگہ تو گُلاب کو پھول ہے ۔ واصف علی واصف کا کلام ہے ، میں نعرہء مستانہ ۔۔۔۔ بہت سے ایسے کلام ہیں جو انسانی سوچ کی پیداوار نہیں ہے ۔ سوچ تو مظاہر کی تابع ہوتی ہے ، سوچ کو ترقی تب ہی ملتی ہے جب وہ کسی اور جہاں کی سیر کرچکی ہوتی ہے اور یہ وجدانی صلاحیتیں تب ہی بیدار ہوتی ہیں اور انسان یک دم ، یک سکت لکھتا چلا جاتا ہے جیسا کہ اقبال کا قلم لکھا کرتا تھا ۔ ہم سے سب اپنے دائروں میں مقید ایسی ہی جنت کے متلاشی ہیں جس کو آپ حسرت کا نام دیتے ہیں اور میں اس چراغ کا نام دیتی ہوں کہ لاکھ آندھیاں اور طوفان بھی نہیں بجھاسکتے ہیں جو شمع اندر ہوتی ہے وہ باہر نہیں ہوتی ہے ۔ وہی بات کہ جب میں باہر تمھیں دیکھوں تو سب مظاہر میں تم نظر آتے ہو اور جب میں اندر دیکھوں تو مجھے اندر بھی گہرائیوں میں تمھاری دید ہوجاتی ہے میں اس گہرائی میں کھو کر سب کچھ بھلادوں ۔ یہ کچھ بابا بلھے شاہ کے کلام میں بات پائی جاتی ہے ۔ 

کچھ اپنا لکھا ہوا شریک کررہی ہوں ۔۔

میرے خواب کی حقیقت کیا تم جان پاؤ گے . میں کبھی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتی ہوں اور کبھی بند آنکھیں نیند کی وادیوں میں گھسیٹ کر مجھے وہ صورت مجسم کردیتی ہے جس کی جستجو ہوتی ہے . میری زندگی کی حقیقت میں سراب بھی حقیقت ہے اور حقیقت بھی سراب ہے . تم ان کہے گئے لفظوں سے دھوکا مت کھانا . مجھے اپنے مجاز کے سراب میں حقیقت دکھتی ہے اپنی حقیقت جان کر مجھے دنیا سراب لگتی ہے . مجھے یہاں رہنا ہے مگر میرا ٹھکانہ تو کہیں اور ہے . میری روح کسی اور جہاں کی اسیر ہے . اسے سر سبز وادیاں ، آبشاریں اور جھرنے اس لیے عزیز ہیں کہ یہ حقیقت میں جنت کی تمثیل ہے . تم پھر دھوکے میں کھو جاؤ گے کہ مجھ میں جنت کی خواہش حرص بن رہی ہے . میں اس دنیا میں ان نظاروں کو اس کی حقیقت کا آئنہ سمجھتی ہوں . میرے سارے دکھ ان نظاروں میں کھو کر بے مایا ہوجاتے ہیں . مجھے سرسبز کوہساروں میں درخت پر بہتی شبنم صبح نو کی نوید دیتی ہے تو وہیں مجھے صبح کی نوخیزی جگنو بنادیتی ہے میں گلاب کا طواف کرنا چاہتی ہوں جس میں پسینہِ اطہر کی خُوشبو ہے . یہ پاک خوشبو مجھے معطر معجل مطاہر کردیتی ہے . اندر کی دنیا کے باسی کو محبوب کا پسینہ بہت ہے . جب وہ خوش ہوتا ہے تو روح کی سرشاری مجھے مست و بے خود کردیتی ہوں . لوگو ! میں ہی حقیقت ہو کہ میرا وجود مجھ سے بڑی حقیقت لیے ہوئے ہے . اس کو سلام کرنا میرا فرض ہے . اس سوچ میں رہتے ہوئے مجھے بندگلیاں اور رنگ راستے بھی کشادہ راہیں نکال دیتے ہیں . مشکلوں میں آسانیاں مجھے مل جاتی ہیں .

ہر قدم میرا قید ہے مگر میں اس قید میں بہت خوش ہوجاتی پر کبھی کبھی لطافت مجھے لحجاتی ہے . میں کبھی باہر کی دنیا کی سیر کرتی ہوں اور جہاں جہاں جاتی ہوں کھو سی جاتی ہوں اور اندر کی دنیا کیسی ہوگی . یہ دنیا شریانوں میں محسوس ہوتی شہ رگ میں مقید ہوجاتی ہے . اس مقید شے مجھے اپنا عکس نظر آتا ہے . اس عکس میں مجھے کون محسوس ہوتا ہے . وہ جو میری جاں سے قریں ہے ، وہ جو میری جبل الورید سے قریب ہے . اس کا ذکر میرے خون میں چلنے والی سانسیں کرتی ہیں . مگر میں اپنے خرابات میں کھوجاتی ہوں . مجھے سمجھ نہیں آتی کیا درود بھی پھولوں کا دستہ ہے جس کا ہر پھول ایک گل دستہ ہے . میں نے جب اس دردو سے اپنے تن میں خوشبو لگائی تو میرے اندر کی جمالیت نے مجھے حسن عطا کردیا ہے . مجھے خود کو حسین ترین کرنے کی طمع ہونے لگی ہے .

مجھے ‏خدا ‏نہیں ‏ملتا

مجھے خدا نہیں ملتا! اس کو مجسم جلوے کو پانا دور کی بات، مجھے اُسکا عکس نہیں ملتا!  اس کی جانب لُو کی تو وجود دُھواں ہوگیا مگر اسکا احساس تک نہیں ملتا. مجھ میں ملوہیت کو مٹی میں گوندھا گیا ہے.  یہ ملمع کاری کے رشتے مجھ سے نبھیں گے کیسے جب اصل سے تعلق نہیں جڑتا.  قران پاک کے ورق ورق میں آیت آیت نشانی.  اس نشانی کا مجھ پر عکس نہیں پڑھتا کیونکہ اندھا دل سنے گا کیا!  دیکھے گا کیا؟  جہالت میں مجھ سے آگے نکلتا نہیں کوئی مجھے علم دیتا نہیں کہ مرا نفس شیطان سے ساز باز کرلیتا ہے. 

خُدا کیسے ملے گا.  ہم سُنتے ہیں خدا جستجو سے ملتا ہے اور عکس محِبوب بندوں میں ملتا ہے. محبوبیت کے اعلی درجہ پر فائز ہستی سے کون مجھے ملائے گا؟  میرا نفس؟  یہ بُہت کمینہ ہے، بُہت جاہل ہے، اس کو کیا آداب محافل کے ...

مگر وہ تو کہتا ہے وہ جو کرم کرے تو دِل میں سَما جاتا ہے. دل سے دنیا تک اسی کی صدا لگتی ہے. وہی انسان کا بُوجھ اٹھالیتا ہے اس کو صدا دیتے کہ میں ہوں اس بندے کے پاس جو صدائیں لگائے

بندہ یہ صدا سنتا نہیں کیونکہ سماعت سے دور اپنی دُنیا کی اندھیر نگری میں گُم رب سے بے نیاز ہوجاتا ہے. رب سے بڑا بے نیاز کون ہے؟  بندہ کیسے کیسے الزام پر دھر جاتا ہے مگر وہ لازوال مامتا کا حامل بار بار اپنی جناب
لیتا ہے "آجا، تُجھے سنبھال لوں، تو میری امید کے جُگنو سے پروان چڑھا، تجھے شمع کی ضوفشانی دکھادوں، تجھے اصل شمع سے ملا دوں ...

بندہ ڈرتا رہتا ہے کہ وہ تو دل کو منور کردے گا مگر اپنی ملوہیت کو الوہیت سے منسوب کردے گا اور منصور کیطرح نعرہ انالحق کا سزوار ٹھہرے گا. وہ تو ہر ہر شے میں مُجلی ہے. اشجار میں،  پہاڑ میں، پانی میں، ہوا میں، ریت میں، مٹی میں، زمین کی کھیتی میں،  آسمان میں، ستاروں میں، ابحار میں، طیور میں.... اسکی تجلی کی صفت ہر اک شے میں معکوس ہے مگر معکوس کا اصل کہاں ہے؟  وہ کہاں ہے؟  تجلی صفاتی کہاں ذات سے ملتی ہے؟  تلاش کے تمام پارے جب اک قران کی صورت بنیں گے تب وحدہ لاشریک ظاہر ہوگا

ماں

ماں ایسی ہستی ہے جس نے تخلیق کا فرض نبھایا ہوتا ہے ، جس نے تخلیق کی خدمت کی ہوتی ہے مگر بدلے میں سرکشی ، خودسری خلقت کی سرشت ہوتی ہے ، ایسی بے مثال ہستی جس کی اپنی خلقت  بھی اسے برا، بھلا کہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے کہ خلافِ رحمت کام کرنا ماں کے شانِ شایان نہیں ہوتا

ماں! کیا ہوتی ہے ماں؟ آخر درد کو حاصل کرکے کتنا سکون پاتی ہے ماں؟ اس  ملال کو جو رکھے دوریوں پر، کتنا ترساتی ہے ماں، وہ جب جب قریب ہوتی ہے، فلک پر دنیا نصیب ہوتی ہے! ماں کی مامتا بڑی بے لوث ہے! بڑا دکھ سہا مامتا نے! تخلیق کے وقت موت سے گزر جانے والی ماں کی قدر اسکی اولاد نہیں جانتی مگر اسی نافرمان اولاد کے پیچھے بھاگ بھاگ کے جاتی ہے ۔ بچہ پیدا ہوتے ماں کا لفظ پکارتا ہے اور ماں خوشی سے پھولے نہیں سماتی ! بچہ اپنی پہچان کو ''ماں '' بلاتا ہے اور جب بڑا ہوتا ہے تو اسی ماں کو بھول جاتا ہے ، بچہ ماں ماں نہ کہے ، کتنا دکھ کرے ماں ۔پہچان اصل چیز ہے جو بڑے ہونے پر سب بھول جاتے ہیں

ماں کی دوری نے ہلکان کردیا جیسے ذرہ ذرہ پریشان کردیا، کتنا دکھ کرے تخلیق ؟ دکھڑا درد کا کیسے کہے تخلیق؟ جب سنے نہ کوئی تو کون سنے؟ جب دکھےنہ کوئی تو کون دکھے؟ جب چھپے نہ کوئی تو کون چھپے؟ جب اٹھے نہ کوئی تو کون اٹھے، ماں نے پورا وعدہ نبھایا پر سبق ملن کا نہ آیا

سبق ملن، جدائی اور ہجر نے جلادیا دل، جلا دیا دل، اس کی جانب نگاہ ہے، سجدے میں سر بھی جھکا ہے، اس کو پہچانوں ناں، کتنا دکھ کرے ماں؟ وہ جو قریب ہے؟ وہ جو حبیب ہے؟ وہ جو حسیب ہے، وہی نصیب ہے! 

ماں تو دوری بڑا ستاندی اے، 
اکھ ہن نیر وگاندی اے

ماں تجھے پہچان نہ سکوں تو کس کو پہچانوں؟ ماں  تجھے نہ مانوں تو کس کو مانوں، زمانے کے سرد و گرم سے بچایا، مجھے نور میں چھپایا، لہو لہو دل ہے، قلب میں جس کا جلوہ ہے جس کی قندیل ہے، وہی میرا وطن ہے، وہی میرا اصل ہے، وہی مرا مقصدِ حیات ہے جس کو پایا بعدِ ممات ہے! ماں توں دوری نے آزمایا، لوکی کہون مینوں پرایا، میں اس دنیا اچ کی کمایا جے ماں تینوں نہ پایا؟

یہ جذبات، یہ احساسات، یہ رگ رگ سے نکلے لہو کے ان دیکھے قطرے جو گر رہے قلب کے وجود پر، جن کا نشان نہیں ہے مگر ظاہر نے نمی سے منعکس کردیا جس کا جلوہ  عالی ذیشان ﷺ کی آنکھوں میں ہے، وہ مسیحا، وہ جس کو میں کہوں: میرے  عیسی ، قم باذن اللہ سے میرا دل جلایا،  دی زندگی، قلب کو منور کرایا ....  وہ مجسمِ نور ، وہ سراپاِ رحمت ، وہ عین رحمانی ، وہ نور یزدانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ طہٰﷺ ، جن کی تجلیات نے بطحا کی وادیوں کو روشن کردیا ہے ، جن کا احساس دائمی ہے ، دل جن کے آنے مجلی ، مطہر ، مطیب ، منور ، منقی  ہوجاتا ہے ، انہوں نے درد کو سہا ہے ، وہ محبت جو خالق نے اپنے محبوب ِ خاص ﷺ کو دی ، وہی محبت عام کردی آپ نے یعنی کہ بانٹ دی ، خالق کی عنایت تو خاص کر دیتی ہے ، نبی ﷺ کی نظر سب پر یکساں پڑتی ہے ، ذروں کو آفتاب کردیتی ہے ۔

نوید ‏سحر ‏کی ‏ہے

نوید سحر کی ہے، سعید گھڑی ہے 
بسمل کے دم دم میں ذکر جلی ہے

تڑپ دیکھو مری پرواز کرنے والو 
اشک لَہو، فگار دل اور بے کلی ہے

درود پڑھتے پڑھتے نیند آئی تھی 
دل کے کاخ و کو صبا پھر چلی ہے

ہچکی بدن، لرزش پیہم،آمد شہا کو
شہر دل میں سجی ہر اک گلی ہے

کوئی دیکھے نگاہ لطف کے اسرار 
دعا ہے کس کی، جبین جھک چلی ہے

پنجتن ‏سے ‏در ‏دل ‏فیض ‏عام ‏ہوا

پنجتن سے درِ دل فیض عام ہوا
دُروں میں ذکر زہرا سے کام ہُوا

غیر آگے جھکا نَہیں، ابن  زہرا
کا تذکرہ ہر زمن میں عام ہوا

شہرِ دل میں مصطفوی چراغ سے
رگ رگ میں نور کا انتظام ہوا

حیدر کے ہوتے دشمن کہاں جاتا 
قلعہ خیبر یوں حلقہ ء اسلام ہوا

چل رَہی نسبت کوثر سے کائنات 
مداوا غم دل کا یہی جام.ہوا ہے

روشن ‏جمال ‏یار ‏سے ‏گلیاں ‏ہیں

روشن جمال یار سے گلیاں ہیں 
یہ درود کی نئی حد بندیاں ہیں 

 گوشے کھلے مہک خرام خرام ہے 
دودِ ہستی میں گُلاب دَرو بام ہے 

فَلک پہ تھی نِگہ، جَبیں نیاز میں 
تجلی سے جَل اٹھی  ہر شام ہے 

عشق کیے گئے بن آگہی کے ، ملا  
ہمی کو زخم بعد سرر کا جام ہے

کہو ‏نا ‏نعت ‏کوئی ‏،دل ‏اداس ‏ہے

کَہو نا نعت کوئی دل اداس ہے 
پتا چلے گا کون دل کے پاس ہے 


نَہیں خالی دل میرا، مسکن بَنا ایسی ہستی کا،
کہ پہنے وہ پوشاکِ نوری،
وہ خاتونِ جنت!
وہ گفتار میں عالی، ملکہ مرے دل کی 
وہ ہیں سیدہ فاطمہ زہرا،
جو اپنے ہیں بابا کی لاڈلی 
محبت کو حرفوں میں کیسے تراشوں
کہ میں ضبطِ تحریر لاؤں 
مقدر میں وہ حرف بکھرے پڑے ہیں 
درودوں کے گجرے دھرے کے دھرے ہیں 
یہ احساس پھر مجھ کو ہونے لگا ہے.
خموشی اصل گفتگو ہے 
یہی راز ہے جستجو کا
صدا دل سے آئی 
لکھا ہے نا، دل ـ دل کا راقم ہے بنتا 
لکھا ہے نا، سجدہ فنا بعد ملتا
لکھا ہے نا، یہ بھی!  جبیں پر کشش کے بنے دائرے یہ جہاں زیر کردیں 

کہ جیسے الکڑانز رواں دائروں میں 
کہ جیسے ہوں سورج بھی افلاک کے گرد،اے دل! 
قسم ہے، دلوں کی حرکت جو ہے آپ کے دم سے وہ ہے 
 یہ عالم اجالے بکھیرے ہے جائے 
یہی آپ کے دم سے ہے،
وہ فانوسِ عالی، وہ قندیل روشن 
وہ جاویداں ہستی، 
ہے نسبت مجھے ان سے، جن سے زمانہ منور ہے 
تو اے شہزادی، یہ فانوس رنگو بو کا سیلاب ہو گویا
سلامِ شوق بہ عزت محترم عالی وجود کو 
سلام شوق بہ تہہِ دل کہ دل میں ماسوا کیا ہے؟
سلام شوق بہ مو مو کہ ذکر میں رہا ہے،  مگر حق ادا نہ ہوا 
سلام  شوق مادرِ عالی حسنین کو کہ جن کہ بیٹوں نے قربانی دی ایسی 
کہ سر کٹا کے حق کا اثبات کردیا 
اللہ اللہ اللہ

صبح ‏کا ‏ستارا

صبح کا ستارا 

یہ دولت ہے علمُ البَیاں کی*
قَلم نعمتِ رب ہے،  آیت بہ آیت چلا سلسلہ ہے 
حِرا میں ہُوئی ابتَدا، اور سدرہ پہ معراجِ بشری 
شُروعات "اقرا " کی سوغات سے کی گئی ہے 

خدا کے محبوب، عالم کی رحمت
حرا میں مراقب ہوئے جب 
فَریضہ نبوت کا سونپا گیا تھا
فَرشتہ وَحی لے کے آیا، 
" نَہیں جانَتا میں " کی تکرار کرتے رہے تھے 
 وہ دو قلب یوں پھر ملائے گئے تھے 
کہ نورانی مصحف اُتارے گَئے تھے
خَشیت سے جسمِ مبارک تھا کانپا 
خدیجہ نے کملی سے اپنی تھا ڈھانپا
یہ پہلی وَحی کا اَثر تھا کہ اتنا
نَزولِ وَحی بعد میں رک گیا تھا
سکوں پھر دِلو جاں کا رخصت ہُوا تھا
یَکایک اَبر رحمَتوں کے تھے چھائے
کہ روحُ الاَمیں پھر وحی کو آئے *

کہا رب نے پھر " قُمْ فَأَنذِرْ"
طَریقِ عِبادت بَتایا گیا تھا 
تو قرأت کے اِسرار کھولے گئے تھے 
یہ بارِ نبوت بَڑی شان سے پھر اُٹھایا 
نبوت سے ظلمت جَہاں کی مٹائی 
ہدایت کا رستہ سبھی کو بَتایا
اُُجالے دلوں میں جو ہونے لگے تھے 
صَحابہ محمد پہ مرنے لگے تھے 
کسی کی تھی نسبت اویسی،
تو روحِ بلالی کسی نے تھی پائی 
کہیں جستجو کو جو سلمان فارس سے نکلے 
جو آوازہ  "حیّ علی خیر " کا پھر اُٹھا تھا 
تو "اللہ اکبر" کی گونجیں صَدائیں،
تَیقُّن سے سینے منور ہوئے تھے*
گرفتار اندیشوں میں ان کے دشمن 
مظالم تبھی مسلمانوں پہ ہونے لگے بے تحاشا
تو مکّہ سے ہجرت بھی کرنی پڑی تھی 
خطرناک کفّار کے جب ارادے ہوئے تھے 
گَھروں سے تَہّییہ یہ کرکے وہ نکلے 
  کہ اس شمعِ ایمان کو وہ بجھا دیں
یَقیں کی جو طاقت سے انجان تھے وُہ
رَمّی وہ محمد کی تھی، وہ رَمّی تھی خدا کی 
تو قدرت خدا کی کہ اندھے ہُوئے سب، 
مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تھے 

*چراغِ اَلوہی بجھایا نہ جائے گا، یہ فیصلہ تو ازل سے رقم تھا 
کہ قندیلِ طاہر سے سارے جہانوں،  زمانوں نے روشن ہے ہونا 

یَہودو نَصارٰی مقابل ہوئے جب 
تو کُفّار کو چین پھر کیسے آتا
مُقابل لَشاکر یہ سارے ہوئے تھے
.بَدر میں،  احد میں شجاعت، دلیری دکھائی
فَتوحات کے جھنڈے گاڑے گئے تھے 
   وہ فتحِ مبیں اور کعبے سے بت سب اکھاڑے گئے تھے  
رسالت، نبوت، نیابت کی تکمیل ہوئی تھی
 مقامات درجہ بہ درجہ یہ طے جو ہوئے تھے
تو طٰہ، وہ یٰسین، حم کہہ کے پُکارے گئے تھے *
مقاماتِ بشری کے یہ استَعارے،
یہی راز ہیں معرفت کےتو سارے

وہ شب قدر میں اوجِ بشری 
سرِ لا مکاں سے طَلب جب ہُوئی تھی 
سوئے منتَہی کو چلے سرورِ انبیاء تھے 
ستارے حَیا سے حجاباتِ شب میں 
 منور، مطہر محمد کی سیرت 
تصور میں کیسے سمائے وہ صورت 
فَرشتے تبِ و تاب اس حسن کی لا نہ پائے 
جو جس حال میں تھا، اُسی حال میں مر مٹا تھا
تحیر کی ساعت سے کیسے نکلتا کوئی پھر
حبیبِ خُدا پھر اَکیلے روانہ ہوئے تھے
وہ دن تھا بھی کتنا سُہانا
یہ" ثُمَّّ دَنَا" سے کہیں آگے سفر تھا*
خطِ حد سے کم فاصَلہ تھا
ہیں "ما زاغ" چشمِ کرم ،یہ شَہادت خُدا کی
نِگاہیں مطہر تھیں، دل بھی نَمازی 
وہ معراج،  "صلّ عَلی "کی صدائیں *
وہ اسرٰی کی شب اور اقصٰی کی مسجد 
رَموزِ حَقیقت عَیاں سب ہوئے تھے
محبت میں سب انبیاء ہی کَھڑے تھے 
امامت کو شاہِ رُسل جو کھَڑے تھے
صَبیحو منور یہی وہ ستارہ 
رُخِ زیبا جسطرف اسکا ہو جائے
وُہ پاکیزہ،  طاہر ہو  جائے
مرا دل اسی تارے سے جگمگا دے
سبھی تارے اسمِ محمد سے چمکے


ہے ‏تار ‏دل ‏کی ‏صدا ‏

ہے تارِ دل کی صدا لا الہ الا اللہ 
یہی ہے غم کی دَوا لا الہ الا اللہ

فَنا ہے زیرِ قَدم، حرفِ اوّلیں کی صدا 
جنوں کہے یہ سدا لا الہ الا اللہ

حُسینی لعل نے دریا سخا کے سارے جب
بہادئے، تو کہا لا الہ الا اللہ

یہ کائنات پہ پھیلی حیا کی جو ہے ردا 
کہ فاطمہ نے کہا لا الہ الا اللہ

فقط طلب یہ خدا سے کہ آئے گی  جو قضا 
تو نکلے دل سے صدا لا الہ الا اللہ

چلو ‏آؤ ‏!

چلو آؤ!  
پیامِ سحردیں 
چلو آؤ کہ نویدِ بہاراں سنائیں 
محمد کا دامن پکڑ لو 
وگرنہ خسارہ کہیں کا نہ چھوڑے 
کرو مدح دم دم میں درودِ سرکار سے 
مرادوں سے بھرلو یہ جھولی

سوچ سوچ کے قدم رکھنے والے کہاں تلک چل سکتے ہیں؟ یہ فہم درک کس کام کا جب حساب میں کمال نہ ہو، جب تیر کمان میں نہ ہو، جب زندگی وصال میں نہ ہو، جب شام ملال کو مجال حرف آرزو نہ رہے کہ کسے کہے گی شام، نوید صبح کی بانگیں تو گونج رہیں مگر اندھیر نگری میں بھلا کب بس چلا ہے کرم روشنی ہے..فسانہ کیا کَہیے، درد کا کہیے کیا.  بس اسے دیکھنے کی رو کو بہ رو کہیے. جبین افسردہ کہیے، دل پژمردہ کہیے. پارہ ء دل میں رگِ دل کا قصہ کہیے...

خوشبوؤں کے مسافر سے رستہ پوچھا تو کہا اس نے کہا مہک ساتھ چلی ہے. عشق میں نمی ہے کہ مٹی تو زرخیزہے اور بوئے گل کو لیے چلی ہے باد. یہ جھونکے ہیں جو گواہ ہے شہادت کہ محبوب شہر دل میں رخ کیے موجود. ہم سربسجود گویا کہ نم دل سے مٹی کی اوقات نہ پوچھا کر بس طواف کیے جا. شمع سے کاخ و کو روشن ہیں.


دل ‏اک ‏صحیفہ ‏ہے

رکیے، ٹھہر جائیے 
بھلا کیوں؟
جلوہ دکھے گا جب نظر اٹھے گی 
نظر اٹھے گی؟
اٹھے نہ اٹھے، روشنی ملے گی 
پھر رکنا محال ٹھہرا 
لا یدرکہ الابصار کا استعارا کھل گیا 
ہم ہے نہیں، سب نگاہوں میں وہ ہے 
لطافتیں عنایت کردے تو اچھا ہے
 ورنہ صم بکم کے تالے ہیں 
یہ آنکھ سرمہِ نجف پائے تو دیکھے 
یہ جہاں اور ہے، وہ جہاں اور ہے 
خامہ متحرک، لب صامت ہیں 
خیالِ درود میں اک شبیہ طاری ہے 
انہیں سے ملو، جن کی سواری ہے 
ہستیاں سب مبارک لوح پر موجود ہیں 
بس قران پڑھ، تنزیل کی باری ہے

صحیفہ ہوتا ہے اور پاک ہوتا ہے. جب صحیفہ پڑھا جاتا ہے تو روح پہ نشان لگ جاتا ہے. جس پہ حق کی مہر لگ جائے تو وذھق الباطل والی بات بن جاتی ہے. نگاہیں پھر سرمگیں اور جذب رسائی تلک چلا جاتا ہے . یہ آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات ہے جس سے ہماری بگڑیاں بن رہی ہیں. وگرنہ رنگ دل کو لگتا نہیں . رنگ لگاؤ! بھلا کیوں؟  خدا فرماتا ہے صبغتہ اللہ ہی بہتر ہے. بس رنگ لوں خود کو ورنہ دیر نہ ہو جائے؟  
یہ بھی مشکل ہے کہ اظہار میں بیقراری نہ ہو اور رنگے جانے میں تاخیر!  وگرنہ سارے مارے جاتے ہیں 

سارے پڑھو درود 
سرکار آگئے صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
شہید زندہ ہوتے ہیں، انبیاء کا مقام بہت بلند ہے.

جب حرف متکلم ہوں تو دل نماز ہو جاتا ہے. جب کچھ جاننے لگ جاؤ تو خامشی کو در وا نہ ہونے دو. جب نگاہ کے انداز ملیں تو شیریں سخنی سے کام لو، حیرت میں کھونے لگو تو دیکھو 
والیل سے والشمس تک رستہ ہے 
والعصر سے والضححی تک کی بات ہے 
ما رای سے فقد راءنی کی تصدیق بھی 
جب فلک ٹوٹ جاتا ہے تو دل کی کائناتیں میں حشر بپا ہو جاتا ہے. تب دھوپ کا سوال؟  ستارے لپیٹ دیے گئے. اب تو امید ہے تب حشر ہوگا. اب دید نہ کی تو حشر یہیں بپا ہوگا. مرے خواب سے ادراک تک اک سفر ہے جیسا معراج بشری کو روانہ ستارہ ہو. والسماء والطارق!  واللہ اللہ ستارے بناتا ہے کہتا ہے. انما امرہ اذا ارادہ .... کن فیکون. ارادہ اسکا ارادہ تو ہے مگر وہ ارادہ کے ساتھ ہم میں موجود یے. یعنی کہ ہم بے بس و لاچار نہیں، مگر ہیں بھی بے بس و لاچار. یہی عبد و معبود کا فرق ہے


یہ دِل ایک صحیفہ ہے اور دل کو پڑھنا دشوار لگتا ہے. ہمارے لیے اس سے بَڑی خوشخبری کی بات کیا ہوگی کہ وہ سینہ جس کے لیے اللہ فرماتا ہے "الــم نشـــرح لــک صـــدرک " وہ سینہ علوم سے پُر الفاظ کی صورت موجود ہے. قران پاک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم.کا دل ہے اور ہمارے سامنے ان کا دل موجود ہے. یہ دل اک ظاہری لباس یعنی لفظیات کی صورت ہے. اس تک رسائی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے "قـــــم الیل " یہ ایسا حکم ہے جسکو "کــــن " جیسا کہہ سکتے کہ روح ہر حال میں چاہے ڈر سے چاہے محبت سے قیام لیل پہ مجبور ہو جائے. قیام لیل کا کہا "الا قلیلا " کہ کم از کم تہجد کے وقت ضرور اٹھنا چاہیے اور "او ذد علیہ ... " جس کا جی چاہے تو اضافہ کرلو ... اس قیام میں دو باتوں کا حکم ہے " واذکرسم ... " اللہ کو اسم ذات یعنی اس لفظ اللہ سے پکارا جائے اور ورتل القران کہ قران پاک کو ترتیل سے پڑھو ..  کہا گیا ہے سات طرز کی قراءت ہیں اور سات طریق سے علم کے نقاط دل میں اتر جاتے ییں. بس قران پاک کا باطن یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک رسائی تلاوت سے ہے.میری تلاوت مجھے علم سے آشنا کرے گی. فقط میری

چراغ ‏مصطفی ‏ہے ‏دل

چراغِ مصطفی ہے دل، جَلا ہے مثلِ طُور جو  
ہَوا بُجھا نَہ پائے گی،یہ روشنی  کمال ہے 
                  ******
ہے طائرِ حَرم کَھڑا سُنہری جالیوں کے پاس 
نَہ دید گر ہُوئی تو اسکی زندگی  محال ہے 
                *****-**

صَبا ہماری خاک کو حَرم کی گردِ راہ کر
طوافِ روضہ ہو سَدا کہ اب یہی خیال ہے 
                 **********

حضورِ یار حرفِ دل  کہوں تو مسکرا  کے وہ 
یہ کاش کہہ ہی دیں کہ واہ! نعت بے مثال ہے

                     ********
خُدایا ذوق شعر گوئی بے مثال دے مجھے 
لکھوں وہ داستانِ دل بَڑی جو پُر ملال ہے 

                      *******
دعا نہ التجا جو کی ہے ہم نے غیر سے کبھی
حضور جانتے ہیں مارے ہجر کے جو حال ہے
               *********  
بنا مرا یہ دل حرم، چلا انہی کا ہے کرم
ہے گردِِ ش خیال میں نبی کا جو  جمال ہےNòór Iman