یارِ من سن تو سہی
یارِ من دیکھ.تو سہی
حقیقت نے بخشا آہنگ تجھے
تو دھیمے سروں پر کھو جا
نَوائے نُو
ہمسَفر نے سُنی نَہیں فریاد
پیچھے مڑ کے نَہیں دیکھا
میں نے لمحہ میں صدیوں کا فاصلہ طے کیا
انتظار طویل ہے، یہی پڑھا! ہاں، یہی سُنا!
میں نے پکارا بارِ دگر
جلوے ٹکروں میں بنٹا نَہیں کرتے، اُس نے کَہا
طور سینا سے لوٹنے میں مدہوشی اک مقام تھا
پھر سحر سے نَیا پیغام طلوع ہوا
وہ پیغام نشان تھا ...
یار من! سن
تجھ کو پانے کی تڑپ ہے
جاں بَلب ہستی ہے
یارِ من! نشان دو مجھے
یارِ من! کان دو مجھے
یارِ من! انتظام عام کرو